منگل، 28 دسمبر، 2010

کیا تمباکو نوشی مکروہ ہے ؟

  مکروہ مندوب کی ضدہے، جس کی مختلف الفاظ میں تعریف کی گئی ہے :
ا – جس کے چھوڑنے والے کی تعریف کی گئی ہو اور کرنے والے کی مذمت نہ کی گئی ہو ۔
2 – بغیر وعید کے جس کا چھوڑنا کرنے سے راجح ہو ۔
3 – جس کا چھوڑنا اس کے کرنے سے بہتر ہو ۔
تینوں تعریفیں ہم معنی ہیں اورمکروہ کااطلاق کبھی حرام پر بھی ہوتاہےاس طرح مکروہ کی دو قسمیں ہوئیں :
مکروہ تنزیہی  (2) مکروہ تحریمی (  دیکھۓ : البلبل فى اصول الفقه مختصر روضة الناظر لابن قدامة  اور اصول الفقہ کی دیگرکتابیں ۔)
        موجودہ مسلم معاشرے ميں خاص طور سے برّصغير میں ايسے فقہ کے دعويدارکـثرت سے پائےجاتےہيں جوبيڑی ، سگريٹ، زردہ اور تمباکو وغيرہ کويہ کـہـ  کر کہ يہ حرام نہيں بلکہ مکروہ ہيں اپنے لئےجائز و مباح کرنے کی کوشش کرتے ہيں، ان لوگوں نے اس کی کراہت و اباحت کےجودلائل دئے ہیں وہ محلِّ نظرہیں ، ذیل میں ہم ان کے دلائل میں سے چند کا ذکر کرکے  ان کاجائزہ لیتے ہیں ، اس وضاحت کےساتھـ کہ یہ دلائل ماضی میں بھی دۓجاتے رہے ہیں، جن پرعلماءنےبہت کچھـ لکھاہے، اوریہ دلائل اس وقت کےہیں جب علمِ طب نے تمباکو کےموجودہ نقصانات کو واضح نہیں کیا تھا :
1 – کہتےہیں کہ ادلّـــۂ اصلــیہ ( یعنی قرآن ، سنت ، اجماع اور قیاس ) میں سے کسی میں بھی تمباکو کی حرمت پرکوئی دلیل  ثابت  نہیں ہے ۔
مذکورہ دلیل کابطلان پیش کئے گئےحرمت کےدلائل سےثابت ہوچکاہےکیونکہ تمباکو کے دینی، نسلی ، بدنی اورمالی نقصانات  کا کوئی بھی فردمنکر نہیں ہو سکتا،نیزعلتِ سُکرونشہ اس کی حرمت کی سب سے بڑی دلیل ہے یہی وجہ ہےکہ محدّثین اورعصرِحاضر کےجیّد اورمعتبر علماۓ کرام نے اسےمطلقاًحرام قراردیاہے ۔
2 - کہتے ہیں کہ شریعت کا قاعدہ ہے کہ : " أصل الأشياء إباحتها "  یعنی( شریعت میں ) اشیاء کی اصل اس کا مباح وحلال ہوناہے " لہذا تمباکو وغیرہ بھی اپنی اصل یعنی حلت واباحت پرباقی ہے  ۔
     بلاشبہ مذکورہ قاعدہ اپنی جگہ پردرست ہے ، لیکن یہ قاعدہ اسی وقت لاگو ہوتاہے جب کسی چیزکی حرمت ادلّۂ شرعیہ سےثابت نہ ہو جبکہ تمباکو وغیرہ کے اندر وہ تمام  علتیں موجود ہیں جو انہیں حرام قرار دیتی ہیں جن کا بیان گزر چکاہے اور جن کو ان شاء اللہ علمائے کرام کےفتاوی کے  اندر ذکر کیا جائیگا ۔
3 - کچھـ حضرات کہتے ہیں کہ نفع آورچیزوں کا استعمال شرعاجائز اور ضرر رساں چیزوں کاحرام ہے ، اورسگریٹ  نوشی نفع بخش ہے ، نقصان دہ نہیں اس لئے یہ اپنی اصل یعنی اباحت  پر باقی ہے اوراسے حرام قرار دینے کے لۓ معتبر شرعی دلیل کی ضرورت ہوگي  ۔
ہم کہتےہیں کہ مذکورہ استدلال ان کےخلاف ہےنہ کہ ان کےحق میں، کیونکہ تمباکووغیرہ کےنقصانات بلاکسی شک وشبہ کے ثابت  شدہ ہیں جن کابیان ہم نےپہلے ہی کردیا ہے ، اگر تھوڑی دیر کے لۓ  یہ مان بھی لیاجائےکہ تمباکو کے استعمال سے چند لمحوں کاذہنی وجسمانی سکون  ملتاہے پھر بھی  اسے مباح وحلال قرار نہیں دیا جاسکتا ، کیونکہ چندلمحوں کاذہنی وجسمانی سکون  ملنا کسی حرام چیزکوحلال کرنےکےلۓدلیل نہیں ہے، اگر یہ بات ہوتی توشراب، جوا ، سود اوراس طرح کی بہت ساری چیزوں کوحلال کرناپڑیگا ، کیونکہ ان کےاندرنقصانات کےساتھـ ساتھـ بہت سارےفوائد اورسکون کاسامان بھی ہیں ، شراب اور جوا کے سلسلے میں خود اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا} (البقرة 219) ( یہ لوگ آپ سے شراب اور جوۓ کےبارے میں سوال کرتے ہیں، کـہـ دیجۓ کہ ان کے اندربہت بڑا گناہ ہےاوران کے اندر لوگوں کے لۓ نفع بھی ہے ، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ ہے )  امام ابن کثیر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :"أمّاإثمهمافهو فى الدين, وأماالمنافع فدنيوية,من حيث إن  فيها نفعاً لبدن , وتهضيم الطعام , و إخراج  الفضلات , و تشحيذ بعض الأذهان , و لذة الشدة المطربة التى فيها , وكذا بيعها والانتفاع بثمنها. وما كان يقمشه بعضهم من الميسر فينفقه على نفسه أو عياله.ولكن هذه المصالح لاتوازى مضرته ومفسدته الراجحة ,لتعلقها بالعقل والدين " (  دیکھۓ : المصباح المنير فى تهذيب تفسير ابن كثير (ص 159))
یعنی"  شراب اورجوےکاگناہ دین میں ہےاور منافع  دنیاوی  ہیں اس اعتبار سےکہ اس کےاندر جسم ، غذا کو ہضم کرنے ، فضلات کو خارج  کرنے،بعض ذھنوں کوتیزکرنےاور اس کے اندر پاۓجانے والے طرب و سرور کی لذت کو محسوس کرنے میں نفع ہے ، اسی طرح اسے  بیچ کر اس کی قیـمت سےفائدہ اٹھایا جا تاہے ۔ اور جُوے  سے مال حاصل کرکے بعض لوگ اسے اپنے یابال بچوں پر خرچ کرتے ہیں ، لیکن یہ مصلحت اور فائدے ان  کے  بڑے  بڑے واضح  نقصانات اور مفاسدکے برابر نہیں ہو سکتے، کیونکہ ان کا تعلق دین اور عقل سے ہے "
    معلوم ہواکہ حلت وحرمت کا انحصارصرف چندظاہری  نفع و نقصان پر  نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق اللہ تبارک و تعالی کے امرونہی سےہے ، بسا اوقات کسی چیز کی حلت وحرمت میں نفع و نقصان سے قطع  نظر اللہ تبارک وتعالی کی کچھـ اورہی حکمت ہوتی ہے مثلاً  :
٭ وہ محرمات کے ذریعہ بندوں کی آزمائش کرتاہے اوردیکھنا چاہتاہےکہ کون ان سےبچتاہے اورکون ان کا ارتکاب کرتاہے  ـ
٭   امتحان ہی جنّتی اور جہنّمی میں فرق کرتا ہے کہ ، جہنّمی لوگ دنیاوی زندگی کی لذت میں غرق ہوکررہ گۓ تھےجبکہ جنّتی لوگوں نےدنیاوی زندگی میں نفسانی خواہشات کا مقابلہ کرتےہوۓمصیبتوں اورسختیوں پرصبرکیا، اور اگر اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے یہ آزمائش نہ ہوتی تو پھر فرمانبردار اور نافرمان بندوں میں فرق کـیسے ظاہرہوتا؟
٭ صاحب ایمان اللہ تبارک و تعالی کی طرف سےعائد کردہ پابندیوں کی طرف  ہمیشہ اجروثواب کی نیّت سےدیکھتا ہے ، اور منافق ہمیشہ دُکھـ درد ، تکلیف  اور محرومی کی نگاہ سے ، اوریہیں پرصحیح مومن اور منافق کی پہچان ہوتی  ہے ۔)  دیکھۓ :  محرمات استھان بھا بعض الناس للشیخ المنجد (ص 10 –  11 ) مختصراً  ۔ )
اگربفرض محال تمباکو وغیرہ کو مکروہ مان بھی لیں تو یہ حرمت کے مختلف اور مضبوط دلائل کی بنا پر مکروہ تحریمی ہوگا نہ کہ تنزیہی ، یہاں پریہ نکتہ قابل ذکر ہےکہ شریعت کا  ایک متعیّن قاعدہ ہےکہ صغیرہ گناہوں  پر اصرار اور مداومت  انہیں کبائر سے قریب کردیتی ہے یہاں بھی اسی طرح یہ خوف ہے کہ مکروہ پراصرار ومداومت  اسے حرام سے قریب کردے ۔