اتوار، 13 مئی، 2012

خوارج سے متعلق علماءکی رائیں


خوارج سے متعلق علماءکی رائیں
خوارج کی تکفیراورعدم تکفیرسے متعلق علماءکے تین اقوال ہیں :
اول : وہ کافرہیں اوران کے ساتھ وہی معاملہ کیاجائگاجوکافروں کے ساتھ کیاجاتاہے ، یہ قول  امام بخاری ، امام ابوبکربن العربی ،امام سبکی اورامام قرطبی  کاہے ، نیز امام شافعی ، امام مالک،امام احمد اور اہل حدیث کی ایک جماعت سےبھی مروی ہے ، معاصرین میں سے شیخ ابن بازبھی اسی کی جانب گئے ہیں ۔( دیکھئے : فتح الباری :12/313 ، الابانۃ الصغری :ص152 ، الشفا:2/1057 ،مجموع فتاروی ابن تیمیہ :28/518 والمغنی لابن قدامہ :12/239)
وجہ تکفیر : (1) احادیث میں وارد الفاظ کی بناپر جن میں ان کی ضلالت و گمراہی کی وضاحت موجودہے جویہ ہیں :
- "يمروقون من الإسلام مروق السهم من الرمية""دین سے ایسےنکل جائیں گےجیسےتیرشکارکےجسم سے نکل جاتاہے "  ۔
- "لايجاوزإيمانهم حناجرهم" "ان کاایمان ان کےحلق سے نیچےنہیں اترےگا"۔
- "فأينمالقيتموهم فاقتلوهم" "انہیں جہاں بھی پاؤقتل کرڈالو"۔
-" فإن قتلهم أجرلمن قتلهم يوم القيامة""ان کوقتل کرنےوالےکوقیامت کےدن اجرملےگا"۔
-" لأقتلنهم قتل عاد  "وفي لفظ "ثمود""(اگرمیں انہیں پالیتاتو)عادکی طرح قتل کردیتا" اورایک روایت میں لفظ "ثمود" ہے ۔
- "هم شرالخلق " "وہ بری مخلوق ہیں "۔
- "إنهم أبغض الخلق إلى الله تعالى " "وہ اللہ تعالی کے نزدیک مخلوق میں  سب سے برےہیں "۔
(2)   بزرگ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کوشامل ہے کیونکہ آپ نے ان کے جنتی ہونےکی شہادت دی ہے ۔
(3)   یہ اپنے مخالفین کے خون اورمال  کومباح سمجھتےہیں اوران کی تکفیرکے قا‏ئل ہیں۔
دوم : ان کی عدم تکفیر :یہ کافرنہیں بلکہ باغیوں میں سے ہیں  یہ قول اہل سنت میں سے زیادہ تراصولیوں کاہے ، امام شافعی ، امام مالک  اورامام احمد کا بھی ایک قول یہی ہے ، اوریہی قول امام ابوحنیفہ ، جمہورفقہاءاوربہت سارےاہل  حدیث علماءسے بھی منقول ہےشیخ الاسلام ابن تیمیہ کارجحان بھی اسی کی طرف ہے  ۔
(دیکھئے :شرح مسلم للامام النووی :2/50 ، الاعتصام للشاطبی :2/185 ،المغنی لابن قدامہ :8/106،منہاج السنۃ النبویۃ :5/247 وفتح الباری :12/314)

عدم تکفیرکی وجہ :
(1) شہادتین کا اقرار ، یہ مسلمانوں کی تکفیراوران کے خون اورما ل کومباح سمجھنےکی وجہ  سے فاسق ہیں ۔
(2)  انہوں نے بصراحت  کفرکاارتکاب نہیں کیاہے بلکہ بےجاتاویل سے کام لیاہے وہ بھی قرآن کریم کی اتباع کا مقصدلیکرجس میں وہ غلطی کے مرتکب ہوگئے ۔
(3)  ارکان اسلام پرمواظبت  ومحافظت ، یہ اطاعت وعبادت کے نہایت ہی حریص تھے ،عبداللہ بن عباس کے بقول :"میں نے عبادت میں ان سے زیادہ مجتہدنہیں دیکھا،  ان کے چہروں پرسجدوں کے نشانات تھے۔
(4) علماءاسلام کا اس بات پراجماع کہ یہ اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے اور عمومی طورپران سے خارج نہیں ہے البتہ خوارج کے بعض فرقے اپنے کفریہ عقائدکی بناپراسلام سے خارج ہے جیسے یزیدیہ اورمیمونیہ ،حافظ ابن حجرنے امام خطابی سے نقل کیاہےکہ : " أجمع علماء المسلمين  على أن الخوارج مع ضلالتهم فرقة من فرق المسلمين وأجازوا مناكحتهم وأكل ذبائحهم وأنهم لايكفرون ماداموا متمسكين بأصل الإسلام " "یعنی علماءاسلام کا اس بات پراجماع ہے کہ خوارج اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے ، جن سے نکاح اوران کا ذبیحہ کھاناجا‏ئزہے ، اوران کی تکفیر جب تک وہ اسلامی  اصولوں پہ قائم ہیں جا‏ئزنہیں ہے "۔
 (5) صحابۂ کرام کا ان کوکافرنہ سمجھنا : شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتےہیں :صحابہ کرام کا خوارج کے پیچھے نمازاداکرنا بتاتاہے کہ انہوں نے ان کوکافرنہیں سمجھاتھا، عبداللہ بن عمراوران کے علاوہ بہت سارے صحابہ کرام نجدہ حروری کے پیچھے نمازپڑھاکرتے تھےاوراس سےمسلمانوں کی طرح ہی مخاطب ہوتےتھے،اور جب نجدہ کوئی استفسارکرتاتو عبداللہ بن عباس اس کاجواب دیتے،نیزاس کی حدیث بخاری کے اندربھی مذکورہے ۔(منہاج السنہ النبویہ :5/247) امام نووی کے بقول : "المذهب الصحيح المختار الذي قاله الأكثرون والمحققون أن الخوارج لايكفرون كسائرأهل البدع"(شرح مسلم :2/50) "صحیح اور پسندیدہ مذہب جسے اکثرلوگوں نے اورمحققین نے کہاہے کہ دیگربدعتیوں کی طرح خوارج کی تکفیرنہیں کی جائےگی " تقریبایہی بات امام شاطبی نے الاعتصام کے اندراورابن قدامہ نے المغنی کے اندرکہی ہے ۔(الاعتصام :2/185 والمغنی :8/106)۔
سوم : توقف اختیارکرنا : امام احمد نے خوارج کی تکفیرکے سلسلے میں زیادہ تر موقعوں سے توقف اختیارکیاہے (فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ :12/486) ،خلال نے اپنی کتاب  "السنہ " کے اندراپنی سندسے ذکرکیاہے کہ امام احمدسے پوچھاگیاکہ : کیاخوارج کی تکفیرکی جاسکتی ہے ؟توانہوں نے فرمایا :"وہ مارقہ ہیں " یعنی" دین سے نکلےہوئے ہیں " پھرکہاگیا:"کیاوہ کافرہیں ؟" توآپ نے فرمایا:"وہ مارقہ ہیں جودین سے نکل گئے" (السنۃ  /خلال :ص  145  رقم /111 ) اوردوسری روایت میں ہے کہ جب ان سے خوارج کے کفرسے متعلق سوال کیاگیاتوانہوں نے فرمایا:"اس سے ہمیں معاف کرواوروہی کہوجوحدیث میں واردہے "۔
                                                (السنۃ /خلال :ص146 رقم :112)۔
خوارج کی تکفیرسے توقف اختیارکرنے والوں میں امام الحرمین ابوالمعالی ، باقلانی اور امام  غزالی بھی ہیں ۔(الشفا /قاضی عیاض :2/1058 ،فتح الباری :12/314)
دکتورغالب عواجی کے بقول :"خوارج کومطلقا کافرکہنا غلوہے اوردوسرے اسلامی فرقوں کے برابرقراردینا تساہل ہے ۔۔۔۔۔۔ میرے نزدیک مناسب بات یہ ہے کہ (خوارج کے ) ہرفرقےکے بارے میں جوجس کادین سےاس کی دوری اورنزدیکی کے اعتبارسے جواس کے اعتقاداوررائے کے حساب سے  مستحق ہے وہی کہاجائے گا، تمام کے اوپرمدح وذم کے اعتبارسے ایک ہی حکم لگانا غیرمناسب ہے " (الخوارج تاریخھم وآراءھم :ص :544)
                  *******

خوارج کے فرقے


خوارج کے فرقے
           خوارج شروع میں  متحدتھے اوران میں کوئی اختلاف نہیں تھا ، لیکن  گذرتے وقت کے ساتھ ان میں بھی گروہ بندی ہوتی گئی اوریہ مختلف فرقوں میں بنٹتےگئے،  ان فرقوں کی تعدادمیں علماءکا اختلاف ہے ، امام ابوالحسن اشعری کے مطابق ان کی تعدادچارہے ، لیکن دیگرلوگوں نے مختلف تعدادبیان کی ہے ، کسی نےپانچ کسی نے  سات کسی نے آٹھ کسی نے بیس کسی نےپچیس اورکسی نےتیس بیان کی ہے ، درحقیقت چند اسباب وعوامل کی بناپران کاحصر مشکل ہوگيا کیونکہ ایک جنگ بازفرقہ ہونےاورقلت اسباب کی بناپریہ استمرارکے ساتھ اختلاف وافتراق کے شکار ہوتے رہے، اسی طرح  ان لوگوں نے عام طورپراپنی تالیفات کو لوگوں سے چھپاکررکھا ہے۔
ذیل میں ہم خوارج کے چند معروف فرقوں کا مختصرتعارف پیش کررہے ہیں :
اباضیہ
 اباضیہ خوارج کا مشہورفرقہ ہے ،اورباعتبارفرقہ خوارج کا یہ پہلافرقہ ہے اوردنیامیں اسی کو زیادہ وسعت وترقی ملی جس کی وجہ سے آج بھی اٹلانٹک کےبعض خطوں میں ان کا وجودہے ،اس فرقےکا امام عبد اللہ بن اباض تھاجس کا پورانام عبداللہ بن یحیی بن اباض المری ہے ، اس کا ظہورپہلی صدی ہجری کے نصف اخیرمیں مروان بن محمد الحمار کے عہدمیں  ہوا، ان کے اندربھی تقریبا دس فرقوں نے جنم لیا جن میں چارزیادہ مشہورہوئے :
1- حفصیہ : یہ حفص بن ابو المقدام کے متبعین ہیں ، ان کے نزدیک ایما ن اورشرک کے درمیان حدفاصل اللہ وحدہ لاشریک کی معرفت ہے یعنی اللہ کی معرفت کے بعد کسی نے رسول ،جنت اورجہنم کاانکارکیا اورہرقسم کے برےاعمال انجام دیااوراللہ کے حرام کردہ تمام اشیاءکاارتکاب کیاپھربھی وہ کفروشرک سے بری ہے ، اگرکسی نے اللہ سےنابلداس کا انکارکیاہےتووہ مشرک ہے ۔
                                                   (الملل والنحل /شہرستانی : 1/182) ۔
2-  حارثیۃ : یہ حارث بن مزیداباضی کے متبعین ہیں ، تقدیرکے باب میں اباضیہ کی مخالفت کرتےہو‏‏ئےیہ معتزلہ کے ہمنواہیں جبکہ عام اباضیہ اس باب میں اہل سنت والجماعت کےساتھ ہیں کہ اللہ تعالی بندوں کےاعمال کاخالق ہےاوراسکی استطاعت  وقوت عمل کے ساتھ رکھی ہے جبکہ حارثیہ کاکہناہے کہ استطاعت عمل سے پہلےہے، اسی وجہ سے تمام اباضیہ نے حارثیہ کی تکفیرکی ہے ۔(الفرق بین الفرق :ص/104 -105 ،التعریفات :ص55 والملل والنحل :1/158)۔
3 -  یزیدیہ : یہ یزید بن ابی انیسہ خارجی کے متبعین ہیں جوبصرہ کارہنے والاتھاپھربعد میں فارس میں تون (جور) نے مقام پرسکونت پذیرہوگيا، یہ ابتداءمیں عقیدۂ اباضیہ پرتھابعدمیں اپنے برےعقیدےکی بنیادپرملت اسلامیہ سے بھی خارج ہوگیا، اس کا دعوی تھاکہ اللہ تعالی ایک رسول عجم میں بھیجےگا، جسے ایک آسمانی کتاب دی جائےگی اور وہ اس کے ذریعہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کردیگااس نبی کے منتظرین قرآن کریم میں مذکورصابئین کہلائیں گے ، اس گمراہ کن عقیدہ کے ساتھ ساتھ اس کا یہ بھی عقیدہ تھاکہ اہل کتاب میں سے جس نے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کااقرارکیاگرچہ وہ دین اسلام میں داخل نہیں ہواوہ مؤمن ہے،اس قول کی بنیاد پر یہودیوں کے فرقےعیسویہ اوررعیانیہ بھی مؤمن ہیں کیونکہ یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرارکرتےہیں گرچہ اسلام میں داخل نہیں ہوتے ۔
مذکورہ عقیدہ کی بنیادپریزیدیہ فرقےکوایک اسلامی فرقہ ماننا قطعا درست نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ اکثراباضیہ نے اس فرقےسے اپنی برءت کا اظہارکیاہے ، کیونکہ وہ فرقہ جواسلامی شریعت کے منسوخ ہونے کا دعویدارہواسلامی فرقوں میں سے ہو ہی نہیں سکتا۔(مقالات الاسلامیین:1/183-185 ، الفرق بین الفرق :ص263 والملل والنحل /شہرستانی :1/158- 159)
4 –  اصحاب طاعۃ لایراداللہ بھا(ان چاہےاللہ کی اطاعت کرنےوالے) : ان کا عقیدہ  ہے کہ اللہ کی خوشنودی کی چاہت وقصدکے بغیربھی اللہ کی اطاعت صحیح ہوگی ۔ (الفرق بین الفرق :ص105)
یہ چاراباضیہ کے مشہورفرقےہیں ، ان کےعلاوہ مزیدچھ فرقے المغرب کے اندر پائے جاتےہیں جومندرجہ ذیل ہیں :
1 –  فرقۃ النکار: ان کا سرگروہ ابوقدامہ بن یزیدبن فندین نامی شخص تھا، عبدالوہاب  بن  رستم کی امامت کے انکارکی وجہ سے اس جماعت کانام نکاریہ پڑا، واضح رہے کہ عبدالوہاب بن رستم کے متبعین کو وہابیہ  یا وہبیہ کہاجاتاتھا۔
2 – نفاثیہ : فرح النفوس عرف نفاث نامی ‎شخص کی طرف منسوب ہے اورنفوسہ لیبیا میں ایک گاؤں کا نا م ہے ۔
3 – خلفیہ : خلف بن سمح بن ابی الخطاب المعافری کی جانب منسوب ہے ۔
4 – حسینیہ : ان کا سرگروہ ابوزیاداحمدبن الحسین طرابلسی تھا۔
5 – سکاکیہ : عبداللہ بن سکاک نامی آدمی کی طرف  منسوب ہے ۔
6 – فرثیہ : یہ فرقہ  أبو سليمان بن يعقوب بن أفلح کی طرف منسوب ہے ۔
     ان چھ فرقوں کوگرچہ کچھ لوگوں نے اباضیہ کے فرقےہونےسے انکارکیاہے ، لیکن بہت سارے علماءنے ان کو مغرب میں موجوداباضیہ کے ضمن میں ذکرکیاہے ۔         ( فرق معاصرۃ :1/85-86)
عقیدہ کےباب میں اباضیہ کاموقف
1 – عبداللہ بن اباض کی امامت پرتمام اباضیہ کا اتفاق ہے ۔
2 –  عام خوارج کی طرح ان کے نزدیک مرتکب کبیرہ کافرہے ، البتہ   اس کفرکو کفر نعمت سے تعبیرکرتےہیں ، جس کے مرتکب کے ساتھ دنیامیں کافروں جیساسلوک نہیں کیاجائےگا لیکن آخرت میں کافروں کی طرح ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہےگا۔
3  -  صفات باری تعالی کے تعلق سے اباضیہ کے اندردوگروہ ہے ، ایک گروہ صفات الہی سے بالکلیہ منکرہے ان کے بزعم اثبات صفات سے تشبیہ لازم آئےگی ، اوردوسرا گروہ  صفات کو ذات پرلوٹاتاہے یعنی اللہ عالم بذاتہ ، سمیع بذاتہ اورقادربذاتہ ہے ،گویا صفات ان کے نزدیک عین ذات ہے ۔
4 –  استواءعلی العرش کے باب میں حلولیہ ( صوفیہ ) اورغالی قسم کے جہمیہ کے ہمنوا ہیں ، ان کا گمان ہے کہ اللہ کے لئے کسی ایک جہت میں مختص ہونامحال ہے لہذاوہ ہرمکان میں اورہرجگہ ہے ، یہاں پرانہوں نے استواءعلی العرش کی تاویل" استواء أمرہ  وقدرتہ ولطفه فوق خلقه "یا "استواء ملک وقدرۃ وغلبة " سے کیاہے ۔
5 –  قیامت کے روزرؤیت باری کے باب میں معتزلہ کے ہمنواہیں ، یعنی انسان کےلئے محال ہےکہ وہ اللہ تعالی کودیکھ سکے ، یہ لوگ "لاتدرکہ الابصار"اورلن ترانی"  جیسی آیات کریمہ کی تاویل کرتےہیں ۔
6 – بعض اباضیہ قرآن کریم کے مخلوق ہونے کے قائل ہیں ، بعض علمائے اباضیہ مثلا : ابن جمیع اورورجلانی وغیرہ کہتےہیں کہ جوخلق قرآن کا قائل نہیں وہ ہم میں سے نہیں۔
7 –   اباضیہ کا ایک گروہ عذاب قبرکا منکراوردوسرااس کے اثبات کا قائل ہے۔
8 –   اسی طرح اباضیہ میزان اورپل صراط کے بھی منکرہیں ۔
9 –   اباضیہ اکثرخوارج کے برخلاف تقیہ کے جوازکے بھی قائل ہیں ۔
10 -  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ابوبکروعمررضی اللہ عنہماکا احترام کرتےہیں جبکہ عثمان غنی اورعلی رضی اللہ عنہماپہ سب شتم کرتےہیں ، بعض نے توعثمان رضی اللہ عنہ کی تکفیرکرڈالی ہے (دیکھئے : کشف الغمہ :ص268) اسی طرح ان کی کتاب الدلیل لاہل العقول (ص :27-28)اورکتاب الادیان (ص: 26-27)کے اندران کو مختلف گالیوں سے نوازہ گیاہے ، اوران کو شہیدکرنےوالوں کو "فرقۃ اہل الاستقامۃ" کہاگیاہے ، اسی طرح کشف الغمہ کے اندرحسن وحسین رضی اللہ عنہماسے برءت کے اظہارکوواجب قراردیکران کو گالیاں دی گئیں ہیں ، نیزطلحہ بن عبیداللہ اورزبیربن العوام رضی اللہ عنہماکوجہنمی قراردیاگیاہے ۔(کشف الغمہ :ص 304 ،فرق معاصرہ : 1/88-105 ،الفرق بین الفرق : ص 103، مقالات الاسلامیین :1/189 والخوارج / سعوی :ص 87)



محکمہ اولی
 جیساکہ پچھلےصفحات میں  گذراکہ خوارج کو محکمہ بھی کہا جاتاہے جوکہ خوارج میں سب سے پہلا گروہ ہے ، انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیااورحکمین کے فیصلہ کوماننے سے انکارکردیااورپھرحروراء نامی مقام پر جمع ہوگئے  ، ان کے سردارعبداللہ بن کواء،عتاب بن اعور، عبداللہ بن وہب راسبی ، عروہ بن عمروبن حدیر(یا عروہ بن ادیہ ) یزیدبن ابوعاصم محاربی ، حرقوص بن زہیربجلی ( المعروف بذی الثدیہ ) وغیرہ تھے ، جب وہ لوگ علی اورمعاویہ رضی اللہ عنہماکی جماعت سے نکل کرحروراءمیں اکٹھاہوئے اس وقت ان تعدادبارہ ہزارتھی ، مناظرہ کے بعد ابن الکواء دس شہ سواروں کے ساتھ مسلمان ہوگیا اورباقی عبد اللہ بن وہب راسبی اورذوالثدیہ کوامیر بناکرنہروان کی طرف کوچ کرگئے ، راستےمیں ان لوگوں نے عبداللہ بن خباب ابن الارت کوقتل کردیا اوران کے گھرمیں گھس کران کے بیٹے اورام ولدکو بھی قتل کردیا، اورنہروان پرقابض ہوگئے ،جن سے علی رضی اللہ  عنہ کے مناظرہ اورجنگ کا مفصل بیا ن گذرچکاہے ۔
              ( الفرق بین الفرق : ص 79 – 86 ،الملل والنحل : 1/133 – 137)
ازارقہ
 یہ ابوراشد نافع بن ازرق حنفی کے متبعین ہیں جس نے یزید بن  معاویہ کےآخری عہدمیں خروج کیا، خوارج کی اتنی بڑی تعداداورقوت جواس کے عہدمیں تھی کبھی نہیں رہی ، یہ اپنی جماعت لےکربصرہ سے اہوازکی طرف نکلا اورعبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کے عمال کو قتل کرکے فارس وکرمان کےشہروں پرقابض ہوگیا، اس کا قتل سنہ 65 ہجری میں ہوا۔
ازارقہ کے باطل عقائد
1 – علی ، عثمان ، طلحہ ، زبیر، عائشہ  اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابۂ کرام کی تکفیر۔
2 – تکفیرقاعد: یعنی جوجنگ سے روگردانی کرکےبیٹھارہے وہ کافرہے گرچہ وہ ان کے مذہب وطریقہ پرہی کیوں نہ ہو۔
3 – مخالفین کے بچوں اورعورتوں کو قتل کرناجائزہے ۔
4 – زناکارسے رجم کا اسقاط۔
5 – مشرکین کے بچے اپنے آباءواجدادکے ساتھ جہنم میں جائیں گے۔
6 – قول وعمل میں تقیہ ناجائزہے ۔
7 –  مرتکب کبیرہ کافرخالدمخلدفی النارہے ۔
(الملل والنحل  للشہرستانی :1/140 -141 الفرق بین الفرق : ص 87 -91 والخوارج للسعوی :ص74 -77)
نجدات
نجدہ بن عامرالحنفی کی طرف نسبت کرکے اس جماعت کونجدات کہاجاتاہے،نافع بن ازرق نے جب ان لوگوں کوجو  قعدہ (یعنی مخالفین کے خلاف جنگ سے بازرہنے) سے اپنی برءت  کا اظہارکرکے اس کی طرف ہجرت نہ کریں گرچہ  وہ ان کے ہم ‎مشرب ہوں مشرکین کا نام دیدیا اورمخالفین  کے بچوں  اورعورتوں  کےقتل کو جا‏ئز قرار دیدیا توابو فدیک ، عطیہ حنفی ، راشدالطویل ، مقلاص اورابوب ازرق  اس سے جداہوکرایک جماعت کے ساتھ یمامہ کی جانب چلے گئےجہاں نجدہ بن عامرنے جونافع کی طرف عازم تھاان کا استقبال کیا، وہ لوگ نجدہ کو نافع کی بدعتوں سے آگاہ کرکے اسے یمامہ واپس لےگئے اوراس کی امامت پربیعت کرلیااورقعدہ کی تکفیرکرنےوالوں اور نافع کی  امامت کے قائلین کی تکفیرکردی  ،پھریہ خودہی آپس میں  اختلاف کا شکارہوکرتین گروہ میں بٹ گئے ، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اس نے دوفوجیں بری اوربحری تیارکرکے جنگ پرروانہ کیا اورسازوسامان کی فراہمی میں بری کو بحری پرفوقیت دی ۔ اسی طرح ایک فوج مدینہ طیبہ پرحملہ کے لئے بھیجاجہاں ان لوگوں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خاندان کی ایک لڑکی کو قیدکرلیا جس کی رہائی کے سلسلےمیں  عبدالملک بن مروان نے نجدہ کوخط لکھا، نجدہ نے اس لڑکی  کو جس کے حصےمیں آئی تھی اس سے خریدکرمروان کے پاس بھیج دیا ، جس پراس کے ساتھیوں نے اعتراض کیا کہ اس نے ہماری ایک لونڈی کو دشمن کو واپس کردیا ۔
تیسرا سبب یہ  ہواکہ اس نے اجتہادمیں غلطی کرنے والوں کومعذورقراردیدیا(اسی وجہ سے اس جماعت کونجدات العاذریہ بھی کہاجاتاہے ) اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اس نے اپنےبیٹےمضرج کو ایک فوج دیکربحرین کے شہرقطیف روانہ کیاجہاں اس کی فوج نے حملہ کرکے عورتوں اوربچوں کوقیدکرلیااورتقسیم غنائم سے قبل ہی  عورتوں کو آپس میں تقسیم کرکے ان سے استفادہ کرلیااورکہنے لگے کہ جوعورت ہمارےحصے میں آگئی وہ ہماری پوری ملکیت ہے ، اوراگروہ تقسیم غنائم میں زائدقرارپائیں توہم ان کا تاوان اپنے مال سے اداکریں گے، پھریہ لوگ نجدہ کے پاس آئے اوراس سے اس سلسلےمیں استفسارکیا تو اس نے عدم حلت کا فتوی دیا پھرجب ان لوگوں حرمت کی عدم معرفت کا عذرپیش کیا تواس نے ان کا عذرجہالت کی بنیادپرقبول کرلیا ۔ نیزاس نے اپنے موافقین  میں سے جوصاحب حدتھےان کوکو‏‏ئی سزانہیں دیااورکہاکہ شایداللہ تعالی ان کو ان کے گناہوں کے بدلےجہنم کے علاوہ کی سزادےاورپھرانہیں جنت میں داخل کردے، اس کاعقیدہ تھاکہ جہنم میں وہی لوگ جائیں گےجوان کے مخالف ہیں۔
اسی طرح اس نے حدخمرکوساقط قراردیااورکہاکہ جس نے چھوٹی نگاہ ڈالی اورہلکا جھوٹ بولااوراس پرمصرہے تووہ مشرک ہے،اورجس نے زناکیا،چوری کی اور شراب پی لیالیکن اس پرمصرنہیں ہے تووہ اگراس کے مذہب کے موافقین میں سے ہے تووہ مؤمن ہے ۔
جب اس نےاپنی  ان بدعات کا اظہارکیا تواس کے اکثرمتبعین نے اس سے مسجدمیں جاکران بدعات سے توبہ کے لئے کہاچنانچہ اس نے ایساہی کیاجس پرکچھ لوگوں کو ندامت ہوئی  اوراس سے کہاکہ آپ امام ہیں اورآپ کو اختیاراجتہادحاصل ہے ہمیں آپ سے توبہ کرانے کا کوئی اختیارنہیں تھا، اس لئے آپ اپنی توبہ سے توبہ کیجئے ، اور جن لوگوں نے آپ سے توبہ کرایاہے ان سے توبہ کرائیے ، ورنہ ہم آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے  ، چنانچہ اس نے ایساہی کیا جس پراس کے متبعین تین گروہوں میں بٹ گئے :
اول  : نجدات  : نجدہ بن عامرکے متبعین ۔
دوم  : عطویہ : عطیہ بن اسودکے متبعین ۔
سوم  : فدیکیہ : ابوفدیک (جوعبدالملک بن مروان کی فوج کے ہاتھوں ماراگیا) کے متبعین ، انہیں لوگوں نے نجدہ کے خلاف جنگ کرکے اسے قتل کردیا۔
 (مقالات الاسلامیین :1/174-176 ، الفرق بین الفرق : ص 91-93 والملل والنحل / شہرستانی :1/141-144)


صفریہ
صفریہ خوارج کے بڑے فرقوں میں سے ایک ہے ، زیادبن اصفرکی جانب منسوب الصفریۃ الزیادیۃ کے نام سے معروف ہے ،  اس گروہ نے چند امورمیں  ازارقہ نجدات اوراباضیہ کی مخالفت کی ہے ، مثلا:
قعدہ عندالقتال کو کفرنہیں گردانتے، رجم کو ساقط نہیں مانتے ، مشرکین کے بچوں کو قتل کرنےکے قائل نہیں ، اورنہ ان کے خلودفی النارکے قائل ہیں ، ان کے یہاں عمل کے برعکس قول میں تقیہ جائزہے ، یہ فرقہ اپنےعقیدہ میں تین گروہوں میں منقسم ہے :
اول : ہرگنہ گارمشرک ہے ۔دوم : ہرگناہ جس پرحدواجب ہے اس کے مرتکب کو اسی سےموسوم کیاجائےگاوہ کافرومشرک نہیں ہوگا ، جیسے : زناکارکو زانی ، چورکو سارق ، بہتان تراش کو قاذف اورقاتل عمدکوقاتل عمد، اورہرگناہ جس کے اندرحد نہیں جیسے : ترک نمازاورترک صیام (روزہ) تواس کا مرتکب کافرہے ، اسے مؤمن نہیں کہاجائےگا۔ سوم : گنہ گارپرکفرکا حکم نہیں لگاجائےگا تاآنکہ  حاکم تک مقدمہ پہنچ جائے اوروہ اس پر حدقائم کردے۔( الفرق بین الفرق :ص 94-95 ،  الملل والنحل /شہرستانی :1/159، التبصیر: ص 31، مقالات الاسلامیین : 1/182 والخوارج /سعوی : ص 81-83)
بیھسیہ
ابوبیہس ہیثم بن جابرکی طرف منسوب ہے ، جوسعدبن ضبیعہ میں سے تھا، اورابتداءمیں خوارج محکمہ میں سے تھا، پھران سے اختلاف کی وجہ سے ان سے الگ ہوگیا، اسے ولیدبن عبدالملک کے حکم سے مدینہ کے والی عثمان بن حیان مری نے سنہ 94ھ میں قتل کردیا ۔ ان کے بہت سارےشاذاقوال ہیں جن کی کو‏ئی حیثیت نہیں ہے ، ان میں گروہ درگروہ مختلف فرقوں نے جنم لیا جوایک دوسرےسے براءت کااظہاراوران کی تکفیرکرتےرہے، ان کے یہاں ایمان اس وقت تک قابل قبول نہیں ہے جب تک کہ اللہ کی معرفت اوراس کے رسولوں کی معرفت کااقرارنہ کرلے۔
ان کے چندمشہورفرقےمندرجہ ذیل ہیں :
1-  عونیۃ (عوفیہ) : ان کا عقیدہ ہےکہ اگرامام کفرکاارتکاب کرتاہے توساری رعیت کافرہوجاتی ہے ۔
2- اصحاب التفسیر:حکم بن روان نامی شخص کی طرف منسوب ہے ، ان کا عقیدہ ہے کہ اگرکسی نے کسی مسلمان پرمعصیت کی گواہی دی تو اس کی تفسیراس پرلازم ہے ، مثلا: کسی کے خلاف چارآدمیوں نے زناکاری کی گواہی دی تواس وقت تک ان کی گواہی قابل قبول نہیں جب تک وہ اس کی وضاحت نہ کردیں کہ اس کا وقوع کیسے ہوا۔
3 – اصحاب السؤال : شبیب نجرانی نامی شخص کے متبعین ہیں ، ان کا عقیدہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کے لئےکوئی بھی عمل اس کا حکم جانے بغیرکہ وہ حلال ہے اس کا کرنا ناجائزہے ، لہذاجب کو‏ئی عمل اس کا حکم جانے بغیرکرتاہے تو وہ معصیت کاارتکاب کرتاہے،اورکافرہوجاتاہے،اسی طرح ان کایہ بھی اعتقادہے کہ مؤمنین کے بچے مؤمن ہی ہوتےہیں  جب تک حق کا انکارنہ کردیں ، اسی طرح کفارکے بچے کافرہوتےہیں جب تک اسلام میں داخل نہ ہوجائیں ، اورتقدیرکے باب میں ان کا عقیدہ قدریہ جیساہے یعنی اللہ تعالی بندوں کے اعمال کو بندوں کو ہی سونپ رکھاہے۔
  (مقالات الاسلامیین :1/191 ،الملل والنحل : 1/144،147 والکامل / مبرد:ص211)
عجاردہ
عبدالکریم بن عجردکی طرف منسوب ہے،جوعطیہ بن اسودحنفی کے متبعین میں سے تھا،اس فرقے کی نشوونماسجستان میں ہو‏ئی اور اپنےاختلافات کی وجہ سےیہ تقریباپندرہ فرقوں میں تقسیم ہوگئے،ان میں سے جب کوئی ایک رائے پیش کرتاتودوسرااسے ردکردیتااورپھراس کےمتبعین اس سے براءت کا اظہارکردیتے اورپھروہ اپنے متبعین کے ساتھ ایک فرقہ بنالیتا۔
ان کے یہاں بچوں سے براءت واجب ہے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائیں تو ان کواسلام کی تبلیغ واجب ہے ، مشرکین کے بچے اپنے آباءکے ساتھ جہنم میں جائیں گے، مال فئ اس وقت تک نہیں ہوسکتاجب تک صاحب مال قتل نہ کردیاجائے، نیزان کے نزدیک مرتکب کبرہ کافرہے ، اورایک روایت کے مطابق یہ سورہ یوسف کوقرآن کریم کا جزءنہیں مانتےاورکہتےہیں کہ یہ عام قصوں کی طرح ایک قصہ ہے۔عجاردہ کے چندمشہورفرقےہیں :  
1 -  صلتیۃ : عثمان بن ابی الصلت یاصلت بن ابی الصلت کی طرف منسوب ہے ، بغدادی نےالفرق بین الفرق (ص98) کے اندرصلت بن عثمان لکھاہے ۔اس کاکہنا ہے کہ جب کوئی مسلمان ہوتاہے توہم اس کے ولی  ہیں اوراس کی اولادسے بری ہیں یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائیں اوراسلام قبول کرلیں، ان میں سے ایک جماعت کاکہناہے کہ مسلمین یا مشرکین کی اولادسے نہ عداوت ہے اورنہ ہی ولایت تاآنکہ وہ بالغ ہوجائیں اوران پراسلام پیش کیاجائے پھروہ اسے قبول کریں یا انکار۔
2 – حمزیہ : حمزہ بن ادرک کی طرف منسوب ہے ، (بغدادی نے اکرک لکھاہے ) اس کا ظہورہارون رشیدکے عہدمیں ہوا، یہ عجاردہ خازمیہ میں سے تھاپھرتقدیرو استطاعت کے باب میں ان کی مخالفت کرکے قدریہ کی موافقت کرلی جس کی وجہ سے خازمیہ نے اس کی تکفیرکردی پھراس نے یہ اعتقاداختیارکرلیاکہ مشرکین کے بچےجہنم میں جائیں گے، جس کی وجہ سے قدریہ نے اس کی تکفیرکردی ، سجستان ، خراسان ، مکران اورکرمان وغیرہ میں اس کا زوررہا۔ (مقالات الاسلامیین : 1/165 ، الفرق بین الفرق :ص 99  ، التبصیر: ص 33  والملل والنحل : 1/150)
3 – شعیبیہ : شعیب بن محمدکے اصحاب جومیمون بن خالد کے ساتھیوں میں سے تھاپھرجب میمون سے تقدیر کے باب میں اختلاف ہواتو اس سے براءت کا اظہارکر دیا، اس کا عقیدہ تھاکہ اللہ تعالی بندوں کے اعمال کاخالق ہے ، بندےکواختیارحاصل ہے اوراس سےخیروشرکا سوال کیاجائے گااوراسی کےمطابق وہ جزاء وسزاکا مستحق ہوگا ، اورکوئی بھی چیز صرف اللہ کی مشیئت سےہی وجودمیں آتی ہے ۔
(مقالات الاسلامیین :1/165،الفرق بین الفرق:ص 97،التبصیر:ص 32 والملل والنحل: 1/151)
4 -  میمونیہ : میمون بن خالدکے متبعین شعیب بن محمد اوریہ دونوں عجاردہ میں سے تھے ، پھردونوں میں اختلاف ہوگیا اور دونوں الگ ہوگئے ، واقعہ یہ ہواکہ میمون کا شعیب کے اوپرقرض تھاجس کا اس نے شعیب سے مطالبہ کیاتواس نے کہا کہ اگراللہ نے چاہاتومیں تیرا قرض اداکردوں گا ، اس پرمیمون نے کہا: اللہ نے ابھی چاہاہے ، توشعیب نے کہا: اگراللہ نے چاہاہوتاتومیں نہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتا، میمون نے کہا: اللہ نے تجھے حکم دیاہے اورہروہ چیزجس کا حکم اللہ نے دیاہے اس کی چاہت ہے ، اوروہ جس کو نہیں چاہتا اس کاحکم نہیں دیتاہے ،پھراس مسئلہ میں ان دونوں نے قیدمیں پڑے عبدالکریم بن عجردکے پاس خط لکھا ، جس کے جواب میں اس نے لکھا : "ماشاء الله كان مالم يشأ لم يكن ولانلحق بالله سوءاً ""جواللہ چاہتاہے وہی ہوتاہے ، جونہیں چاہتانہیں ہوتا، اورہم اللہ کے ساتھ برائی کو نہیں ملا سکتے "عبدالکریم کا یہ جواب ان لوگوں کے پاس اس کی موت کے بعدپہنچاجس سے ان دونوں نے اپنے اپنے حق میں استدلال کیا میمون کا کہناتھاکہ عبدالکریم کے جواب سے اس کے موقف کی تائیدہوتی ہے کیونکہ اس نے " لانلحق بالله سوءاً " کہاہے ، اورشعیب کا کہناتھاکہ اس سے اس کےموقف کی تا‏ئیدہوتی ہے ، کیونکہ اس نے "ماشاء الله كان مالم يشأ لم يكن" کہاہے ، یہی پرخازمیہ اوراکثرعجاردہ شعیب کے ہمنواہوگئے اورحمزیہ قدریہ کے ساتھ میمون کے ہمنواہوگئے ۔
نیزمیمونیہ کے باطل عقائدمیں سے یہ بھی ہے کہ نواسیوں اورپوتیوں کے ساتھ نکاح جائزہے جوکہ مجوسیوں کے عقیدہ کی موافقت ہے ، اسی وجہ سے بعض لوگوں نے میمونیہ کو اسلامی فرقہ ماننے سے انکارکردیاہے ۔
نیزیہ لوگ سورہ یوسف کو قرآن کا حصہ نہیں مانتےاوران کے نزدیک بادشاہ سے لڑائی واجب ہے اورجوبادشاہ کے حکم پرراضی ہو اس پرحدقائم ہے ، لیکن جس نے بادشاہ کا انکارکیااس سے اس وقت تک قتال جائزنہیں ہے جب تک کہ وہ اس کی مددنہ کرےاورخارجی مذہب پرطعن نہ کرےاورسلطان کے لئے دلیل راہ نہ بنے ، ان کے نزدیک مشرکین کے بچےجنت میں جائیں گے ۔
                    ( الفرق بین الفرق :ص 97   والملل والنحل : 1/149)
5 – خلفیہ : خلف خارجی کی طرف منسوب ہے ، یہ کرمان اورمکران کے خوارج ہیں جنہوں نےتقدیرکے مسئلے میں حمزیہ کی مخالفت کی ہے ، ان کا اعتقادہے کہ ان کے مخالفین کے بچے جہنم میں جائیں گے ۔
( الفرق بین الفرق :ص 98  ، التبصیر: ص 32  والملل والنحل : 1/150)
6-  اطرافیہ : ان کا نام اطرافیہ ان کے اس عقیدہ کی بنیادپرپڑاکہ اطراف عالم میں جوشخص احکام شریعت نہیں جانتاوہ معذورہے ۔ ان کا سرگروہ سجستان کا غالب بن شاذک تھا۔( الفرق بین الفرق : ص 150)
7 – حازمیہ : بغدادی نے خازمیہ لکھاہے ، یعنی حازم بن علی کے اصحاب جبکہ التعریفات کے اندرجازمیہ ہے یعنی جازم بنی عاصم کے اصحاب جنہوں نے شعیبیہ کی موافقت کی ۔
حازمیہ سجستان کے عجاردہ میں اکثریت میں تھےتقدیر، استطاعت اورمشیئت کے باب میں یہ اہل سنت کے موافق ہیں ،انہوں نے میمونیہ کی تکفیرکی ہے جوقدریہ کے موافق ہیں ، ان سے ایک روایت آتی ہے کہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے متعلق توقف اختیارکیاہے یعنی  یہ ان سے صراحۃ براءت کااظہارنہیں کرتے، جبکہ ان کے علاوہ دیگرصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بالصراحت براءت کا اظہارکرتےہیں ، یہ اہل سنت کی موافقت کرتےہوئے کہتےہیں کہ اللہ تعالی بندےکے آخری عمل کو دیکھتاہے ، بندہ تمام عمرمؤمن رہالیکن اگرآخرمیں کافرہوگیاتو اسی کے مطابق اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمائے گا، اوراگرپوری عمرکافررہا اورآخرمیں مؤمن ہوکرمراتواسی کے مطابق اس کا فیصلہ فرمائےگا ، نیزکہتےہیں کہ اللہ تعالی ہمیشہ اپنے اولیاءسے محبت کرتاہے اوردشمنوں سے ناراض رہتاہے ۔
اہل سنت نے ان کے ان عقائدکے باوجودعلی ، طلحہ ، زبیراورعثمان رضی اللہ عنہم سے متعلق ان کی تکفیرپران کا مؤاخذہ کیاہے ، کیونکہ یہ حضرات ان صحابۂ کرام میں سے ہیں جنکے لئے اللہ تعالی نے پہلے ہی جنت کی خوشخبری سنادی ہے ، کیونکہ یہ بیعت رضواں میں شامل تھے جنکے متعلق اللہ تعالی کا ارشادہے :{لقدرضي الله عن المؤمنين إذيبايعونك تحت الشجرة}(الفتح :18) ۔
                              ( الفرق بین الفرق :ص 96  والملل والنحل : 1/151)
حازمیہ میں دوفرقوں نے اورجنم لیا ، ایک معلومیہ اوردوسرامجہولیہ ، معلومیہ نے اپنے اسلاف سے دوچیزوں میں اختلاف کیاہے ، اول : ان کا دعوی ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالی کی  معرفت اس کے اسماء وصفات کے ساتھ نہیں ہے وہ جاہل ہے اورجواللہ سے جاہل ہے وہ کافرہے ۔ دوم : یہ کہتے ہیں کہ : بندوں کے افعال کا خالق اللہ تعالی نہیں ہے ۔
مجہولیہ بھی تقریبا معلومیہ کے قول پرہی ہے سوائے اس کے کہ ان کے نزدیک جس نے اللہ تعالی کو اس کے بعض اسماء کے ساتھ پہچان لیا اس نے اللہ کوپہچان لیا ۔ (الفرق بین الفرق :ص 98)
شہرستانی نے ان دونوں فرقوں کو ثعالبیہ کے فرقوں کے ذیل میں ذکرکیاہے۔
 ( الملل والنحل :1/155)
ثعالبیہ
 ثعلبہ بن مشکان ( شہرستانی نے ثعلبہ بن عامرلکھاہے ) کے متبعین ہیں جوعبدالکریم بن عجردکے گہرے دوستوں میں سے تھا، پھربچوں کی ولایت سے متعلق اختلاف ہونےکی وجہ سے دونوں الگ ہوگئے ، ہوایوں کہ  عجاردہ میں سے ایک آدمی نے ثعلبہ کی بیٹی سے نکاح کا پیغام دیا ثعلبہ نے اس سےمہرکی تعیین کے لئے کہا، پھرپیغام دینے والے نے ایک عورت کو لڑکی کی ماں کے پاس یہ پتہ لگانے کے لئے بھیجا کہ لڑکی بالغ ہے یا نہیں ؟ اوراگربالغ ہے اورعجاردہ کے شرائط پرپوری اترتے ہوئے اسلام قبول کرلیتی ہے تو اسے مہرکی پرواہ نہیں کرنی چاہئے کہ کتنی ہے ، توماں نے کہاکہ یہ لڑکی ولایت میں ہے اورمسلمان ہے بالغ ہوئی ہو خواہ نہیں ، جب یہ خبرعبدالکریم اورثعلبہ کو پہنچی تو عبدالکریم نے بچوں کی بلوغت سے قبل ولایت سے براءت کااظہارکردیا اورثعلبہ نے کہاکہ ہم ان کے والی ہیں وہ بڑے ہوں خواہ چھوٹے تاآنکہ ان کی طرف سے حق کا صریح انکارظاہرنہ  ہوجائے ، اس مسئلہ میں جب دونو ں اختلاف کا شکارہوگئے تو دونوں نے ایک دوسرے سے براءت کا اظہارکردیا  ، اورپھردونوں اپنے اپنے گروہ کا امام بن بیٹھے ۔(الفرق بین الفرق :ص 101 والملل والنحل : 1/152)
ثعالبیہ کے اندرمندرجہ ذیل فرقوں نے جنم لیا :
1 –  اخنسیہ : اخنس بن قیس کے اصحاب ۔
2-   معبدیہ : معبدبن عبدالرحمن کے اصحاب ۔
 3-  رشیدیہ : رشید القوسی کے اصحاب ، ان کو عشریہ بھی کہاجاتاہے ۔
4-   شیبانیہ : شیبان بن سلمہ کے اصحاب ، جس نے ابومسلم خراسانی کے عہدمیں ظہور کیا اوراس کی فوج کےہاتھوں سنہ 130 ھ میں قتل کیاگیا۔
5 –  مکرمیہ : مکرم بن عبداللہ العجلی کے اصحاب  ۔
 6 –   بدعیہ : یحیی بن اصدم کے اصحاب ، انہوں نے ایک نئی بات ایجادکی کہ ہمیں قطعی یقین ہے کہ جو ہمارے ہم  اعتقادہوگا وہ جنت میں جائے گا، ہم ان شاء اللہ نہیں کہتے کیونکہ یہ اعتقادمیں شک کرنا ہوا۔
 7 –  معبدیہ : یہ ثعلبہ بن معبدنامی شخص کی امامت کے قائل ہیں ۔
                  ( الفرق بین الفرق :ص 101 -103   والملل والنحل : 1/152 - 156 )
 *******

احادیث نبویہ میں خوارج کی مذمت


احادیث نبویہ میں خوارج کی مذمت
          جیساکہ پہلےمذکورہواکہ  خوارج  کے وجودکی پیشن گوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلےہی کردی تھی ، ذیل میں ہم وہ روایتیں پیش کررہےہیں جن میں خوارج اوران کی علامتوں  کابیان اوران  کی مذمت  ہے :
(1)  ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتےہیں  : ایک بار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  مال غنیمت کو تقسیم کررہے تھے کہ بنوتمیم کا  ذوالخویصرہ  آیا اورکہا: اےاللہ کے رسول ! انصاف کیجئے ۔ توآپ نے فرمایا :" وَيْلَكَ! وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ، قَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ إِنْ لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ"."تیری بربادی ہو!اگرمیں انصاف  نہیں کرسکتاتو کون  کرسکتاہے ، اوراگرمیں انصاف نہ کر سکوں توتوخائب وخاسرہوجائے" ۔
عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نےکہا: اےاللہ کےرسول  !مجھےاجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن ماردوں ۔ توآپ نے فرمایا :" "دَعْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلاَتَهُ مَعَ صَلاَتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ، يُنْظَرُ إِلَى نَصْلِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى رِصَافِهِ فَمَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى نَضِيِّهِ -وَهُوَ قِدْحُهُ- فَلاَ يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى قُذَذِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ، آيَتُهُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ إِحْدَى عَضُدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِأَوْمِثْلُ الْبَضْعَةِ تَدَرْدَرُ،وَيَخْرُجُونَ عَلَى حِينِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ"جانےدے ،اس کے کچھ ایسےساتھی ہونگے جن کی نمازاورروزے کے سامنے تمہاری نمازاورروزہ ہیچ ہے ، یہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے گلےسے نہیں اترےگا ، یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم  سے نکل جاتا ہے،تیرکے پیکان کو دیکھا جاتاہے تواس میں کچھ نہیں ملتا، پھراس  پیکان کی جڑکودیکھاجاتاہےتواس میں  کچھ نہیں ملتاپھراس کی ڈنڈی کی طرف دیکھاجاتا ہے  تو اس میں کچھ نہیں ملتاہےپھراس کے پرکی طرف دیکھاجاتاہے تواس میں بھی کچھ نہیں ملتاہے ،اورتیراس شکار کے بیٹ اورخون سے نکل چکاہوتاہے ، ان کی نشانی ایک کالاآدمی ہوگاجس کاایک شانہ عورت  کی پستان کی طرح ہوگا جیسےتھلتھلاتا ہوا گوشت کاٹکڑا، ان کاخروج لوگوں کے اختلاف کے وقت ہوگا" ۔
بخاری کی روایت میں ہے : "إن من ضئضئ هذا قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية لئن أدركتهم لأقتلنهم قتل عاد""اس کی نسل سے ایسے لوگ ہونگےجو قرآن پڑھیں گے لیکن ان کےگلےسےنہیں اترےگا ،اہل اسلام کوقتل کریں گےاوربتوں کے پجاریوں کودعوت دیں گے یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم  سے نکل جاتاہے،اگرمیں ان کوپالوں توقوم عادکی طرح ان کوقتل کروں گا"۔
            ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ فرماتےہیں :میں گواہی دیتاہوں کہ میں نے یہ حدیث اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سےسناہے ، اورمیں گواہی دیتاہوں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑائی کی اورمیں ان کے ساتھ تھا، (لڑائی کے بعد) انہوں نے اس آدمی کو تلاش کرنےکاحکم دیااوراسے ڈھونڈھ کرلایاگیا اورمیں نے اسے بعینہ ویساہی پایاجیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایاتھا۔
              ( صحيح البخاري : 3341 ،3344،4351 ومسلم : 1064،1065،1066 ).
 (2)  علی رضی اللہ عنہ فرماتےہیں : جب میں اللہ کےرسول سے کوئی حدیث بیان کروں تو مجھےآپ پرجھوٹ بولنے سے بہترآسمان سے گرنازیادہ پسندہے ،اورجب  تیرےاورمیرےدرمیان کوئی بات ہوتوجان لوکہ جنگ چالوں سے لڑی جاتی ہے ، میں نے اللہ کےرسول کو فرماتےہوئے سنا: يأتي في آخر الزمان قوم حدثاء الأسنان سفهاء الاحلام يقولون من خير قول البرية يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية لا يجاوز إيمانهم حناجرهم فأينما لقيتموهم فاقتلوهم,فان قتلهم أجرلمن قتلهم يوم القيامة ""اگلےوقت میں کم عمر، کم عقل لوگوں پرمشتمل ایک قوم آ‏ئےگی یہ لوگ مخلوق کی سب سے اچھی باتیں کہیں گے یہ اسلام  سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم  سے نکل جاتاہے،ان کاایمان ان کے گلےسے نہیں اترےگا،انہیں جہاں پاؤمارڈالو، کیونکہ جوانہیں قتل کرےگاقیامت کے دن اسےاجردیاجائےگا" (بخاری : 3611  ومسلم :1066)۔
 (3)  یسیربن عمرو کہتےہیں کہ میں نے سہل بن حنیف سے پوچھاکہ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خوارج کا ذکر سناہے ؟ توانہوں نے کہا": ہاں سناہے ، اوراپنے ہاتھ سے مشرق کی جانب اشارہ کیا ( اورفرمایا) : "قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ بِأَلْسِنَتِهِمْ لاَ يَعْدُو تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ""ایک قوم ہوگی جوزبان سے قرآن مجیدکی تلاوت کرےگی ، جبکہ ان کے گلےسے نہیں اترےگا،یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم  سے نکل  جاتاہے" (مسلم : 1068).
(4) ابوسعیدخدری اورانس بن مالک سے مروی ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" "سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي اخْتِلاَفٌ وَفُرْقَةٌ، قَوْمٌ يُحْسِنُونَ الْقِيلَ وَيُسِيئُونَ الْفِعْلَ،يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لاَيُجَاوِزُتَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنْ الرَّمِيَّةِ، لاَ يَرْجِعُونَ حَتَّى يَرْتَدَّ عَلَى فُوقِهِ، هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ، طُوبَى لِمَنْ قَتَلَهُمْ وَقَتَلُوهُ، يَدْعُونَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيْءٍ، مَنْ قَاتَلَهُمْ كَانَ أَوْلَى بِاللَّهِ مِنْهُمْ". قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا سِيمَاهُمْ؟ قَالَ: "التَّحْلِيقُ""میری امت میں اختلاف وانتشارہوگا، ایک ایسی  جماعت ہوگی جواچھی باتیں کرےگی اوربراکام کرےگی،، یہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے گلےسے نہیں اترےگا، یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم  سے نکل جاتاہے،وہ اس وقت تک واپس نہیں آسکتےتاآنکہ وہ تیراپنےہدف پرواپس آجائے وہ بری  مخلوق اوربرےاطواروالےہیں ، خوشخبری ہے اس کے لئے جس نے انہیں قتل کیااورجسےانہوں نے قتل کیا، وہ اللہ کی کتاب کی طرف بلاتےہیں لیکن خوداس پرعمل نہیں کرتے، جوان سے جہادکرےوہ ان کے مقابلے اللہ سے زیادہ قریب ہے " لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نشانی کیاہے ؟ تو آپ نے فرمایا: " سرمنڈانا"
 اورانس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے  : "سِيمَاهُمْ التَّحْلِيقُ وَالتَّسْبِيدُ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمْ فَأَنِيمُوهُمْ" "ان کی علامت بال منڈاناہے ،جب تم ان کودیکھو تو انہیں قتل کرڈالو"(سنن أبی داؤد :4767, 4768).
(5)   ابوکثیر سے مروی ہے وہ کہتےہیں کہ میں  اہل نہروان کے قتل کے وقت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھااہل نہروان کے قتل سے کچھ لوگ کبیدہ خاطرتھے اس وقت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :"يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَدْ حَدَّثَنَا بِأَقْوَامٍ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لاَ يَرْجِعُونَ فِيهِ أَبَدًا حَتَّى يَرْجِعَ السَّهْمُ عَلَى فُوقِهِ، وَإِنَّ آيَةَ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلاً أَسْوَدَ مُخْدَجَ الْيَدِ إِحْدَى يَدَيْهِ كَثَدْيِ الْمَرْأَةِ لَهَا حَلَمَةٌ كَحَلَمَةِ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ،حَوْلَهُ سَبْعُ هُلْبَاتٍ فَالْتَمِسُوهُ؛ فَإِنِّي أُرَاهُ فِيهِمْ. فَالْتَمَسُوهُ فَوَجَدُوهُ إِلَى شَفِيرِ النَّهَرِ تَحْتَ الْقَتْلَى فَأَخْرَجُوهُ، فَكَبَّرَ عَلِيٌّ فَقَالَ:اللَّهُ أَكْبَرُ!صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ...."(مسندأحمد :635). "لوگو ! اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےایک ایسی قوم کے بارےمیں بیان فرمایاجو دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کےجسم  سے نکل جاتاہے،وہ اس وقت تک واپس نہیں آسکتےتاآنکہ وہ تیراپنےہدف پرواپس آجائے،ان کی نشانی یہ ہوگی کہ ان میں ایک کالاآدمی ہوگاحس کاہاتھ ناقص ہوگا،اس کا ایک ہاتھ عورت کی پستان کی طرح ہوگا، اس  میں عورت کی پستان کی ابھارکی طرح ابھارہوگاجس کے گردسات بال ہونگے، اسے تلاش کرو؛میں نے ان لوگوں میں اسے دیکھاہے ،لوگوں سے اسےتلاش کیاتودریاکے کنارے لاشوں کےنیچےملا، اسے نکالاگیاتوعلی رضی اللہ نے اللہ اکبرکہا، اورفرمایا: اللہ اوراس کے رسول نے سچ فرمایا ۔۔۔۔۔۔"۔
(6)  ابن أبی أوفى  رضی اللہ عنہ سےمروی ہے ، وہ فرماتےہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا :"الخوارج كلاب النار"(صحیح سنن ابن ماجہ:143) خوارج جہنم کےکتےہیں".
(7) ابوذررضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتےہیں کہ اللہ کےرسول نےفرمایا : "إن بعدى من أمتى  أوسيكون بعدى من أمتى  قوم يقرأون القرآن,لايجاوزحلاقيمهم , يخرجون من الدين كما يخرج السهم  من الرّميّة, ثم لايعودون فيه , هم شرالخلق والخليقة". (مسلم: 1067)
"میرےبعدمیری امت میں  ایک ایسی قوم ہوگی جو قرآن پڑھےگی لیکن ان کے گلےسے نہیں اترےگا، یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم  سے نکل جاتاہے،پھریہ دین میں واپس نہیں آئیں  گے،  وہ بری  مخلوق اوربرے اطوار والےہیں"۔ 
(8) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ :اللہ کے رسول نے فرمایا :                   "يخرج في آخر الزمان قوم أحداث الأسنان،سفهاء الأحلام، يقرءون القرآن لايجاوزتراقيهم،يقولون من قول خير البرية، يمرقون من الدين؛كمايمرق السهم من الرمية"(صحيح الترمذي : كتاب الفتن باب صفة المارقة:2188)"اگلےوقت میں کم عمر، کم عقل لوگوں پرمشتمل ایک قوم آ‏ئےگی یہ لوگ مخلوق کی سب سے اچھی باتیں کہیں گے یہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم سے نکل جاتاہے " امام ترمذی فرماتے ہیں کہ :" یہاں پرخوارج اورحروریہ  وغیرہ مرادہیں "۔
(9) عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے مروی ہے (انہوں نے حروریہ کے ذکرکے موقع سے فرمایا کہ ):اللہ کے رسول نے فرمایا:"يمرقون من الإسلام مروق السهم من الرمية"(بخاری:6932)"یہ اسلام  سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم  سے نکل جاتاہے " اورایک روایت میں ہے :"ينشأ نشأ يقرؤون القرآن لا يجاوزتراقيهم,كلماخرج قرن قطع حتى يخرج في عراضهم الدجال"(صحيح سنن ابن ماجہ :144) "کچھ لوگ پیدا ہونگےجو قرآن مجیدکی تلاوت کریں گےلیکن ان کے گلےسے نہیں اترےگا ،جب جب کو‏‏ئی جماعت نکلےگی اسےختم کردیاجائےگا،یہاں تک کہ انہیں میں سے دجال کاظہورہوگا"۔
(10)  صحیح بخاری کے اندرہے:"  كتاب إستتابة المرتدين  : باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم وقول الله تعالى: {وما كان الله ليضل قوماًبعدإذهداهم حتى يبين لهم مايتقون}وكان ابن عمررضي الله عنهمايراهم شرارخلق الله وقال:إنهم انطلقوا إلى آيات نزلت في الكفار فجعلوها على المؤمنين" "عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما انہیں اللہ کی سب سے بری مخلوق میں سے سمجھتے تھے، اورکہتے تھےکہ : یہ لوگ قرآن کی ایسی آیتوں کوجو کافروں کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے مؤمنین پرمنطبق کرتےہیں "۔  
(11) ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :"شر قتلى تحت أديم السماء، وخير قتيل من قتلوا، كلاب أهل النار،قدكانواهؤلاء مسلمين فصاروا كفاراً، قلت : يا أبا أمامة ! هذا شئ تقوله ؟ قال بل سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم"(صحیح ابن ماجہ :146) "آسمان کے نیچے سب سے برے مقتول ہیں ، اورجن کو انہوں نے شہید کیاہے وہ سب سے اچھے مقتول ہیں ، یہ لوگ جہنم  والوں کے کتےہیں ، یہ لوگ مسلمان تھے پھرکافرہوگئے، (راوی کہتےہیں ) میں نے کہا:اے ابوامامہ !یہ آپ کہہ رہے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا : میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناہے "۔
(12)  عبید بن ابی رافع سے مروی ہے ، وہ فرماتےہیں :" حروریہ نے جب خروج کیاتومیں علی رضی اللہ عنہ کےساتھ ہی تھا ، ان لوگوں نے " لاحکم الا للہ" کانعرہ لگایا تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"بات حق ہے مگرغلط مقصد کی خاطر استعمال کی  گئی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کی صفتیں بتائی تھی  جومیں ان لوگوں میں دیکھ رہا ہوں ، یہ حق بات کہتے توہیں مگر خودان کے گلےسے نہیں اترتی ،یہ اللہ کے نزدیک سب سے مبغوض مخلوق میں سے ہیں "(مسلم :1066).