اتوار، 25 اگست، 2013

شبینہ کی دینی وشرعی حیثیت

شبینہ کی دینی وشرعی حیثیت
الحمدلله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده , وبعد:
برکتوں ،عظمتوں ،عبادتوں اورذکروتلاوت کامہینہ رمضان جب جب سایہ فگن ہوتاہےدنیاکےتمام مسلمان خصوصی طورسےعبادت اورذکروتلاوت میں لگ جاتےہیں اورحسب استطاعت زیادہ سے زیادہ حسنات وخیرات سے اپنےدامن کوبھرلیتےہیں،فرائض ونوافل اورسنن خصوصی طورسے اداکئےجاتےہیں ۔رمضان المبارک کی یہ خصوصیت واہمیت ابتداء سےلے کراب تک باقی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہایت ہی ذوق وشوق کےساتھ اس  ماہ مبارک میں تراویح ، تلاوت اوردیگرعبادات میں لگ جاتےتھے۔
لیکن مروروقت کےساتھ بدعت پرستوں نے اس ماہ مبارک میں کچھ ایسی بدعات کورواج دےدیاجن کاشریعت سے ادنی تعلق بھی نہیں ہے۔ تراویح ، تلاوت قرآن مجیداورشب قدرجیسی بابرکت رات میں عجیب وغریب عبادتیں گھڑی گئیں ، جنہوں نےصحیح عبادتوں کی رو ح  اورچاشنی کوتاراج کردیا۔ ان بدعات میں سےایک "شبینہ " کی بدعت ہے۔ذیل کی تحریرمیں ہم کتاب وسنت  اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کی روشنی میں شبینہ  کی حقیقت کوواضح کریں گے، تاکہ عوام میں رائج اس بدعت کی حقیقت سامنے آسکےاورلوگ رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں عبادات کوصحیح طریقہ سے اداکرکےاجروثواب کےمستحق ہوسکیں اورمبادا کسی بدعت میں پڑکرشریعت کے متعین کردہ ضابطوں سے نہ نکل جائیں ۔

شبینہ کیاہے :

 شبینہ ایک فارسی لفظ ہے جس کا مطلب ہوتاہے: حافظ قرآن کا رمضان کی کسی رات  میں ( خاص طورسے شب قدرمیں ) باجماعت تراویح میں پوراقرآن مجید ختم کرنا۔
شبینہ کی مذکورہ تعریف سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں ، مثلا:کیاشبینہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےعہدمیں ہوئی تھی ؟ کیا قرآن مجید ایک رات میں ختم کرناجائز ہے ؟  اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پرکیا تعامل تھا؟ قرآن مجید پڑھنے کےکیا آداب ہیں ؟ کیاشبینہ میں تجویدوترتیل کی رعایت ہوپاتی ہے ؟ اورکیا شبینہ کی نمازشریعت کے متعین کردہ ضابطوں کے اندرآتی ہے ؟ذیل کی  سطورمیں ہم ان تمام نکات پربالترتیب اختصارکےساتھ گفتگو کریں گے ۔

شبینہ دورنبوت میں :

 تراویح کےسلسلے میں ایک مشہورروایت ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوتین دنوں تک تراویح پڑھائی ، پھرچوتھےدن آپ گھرسےباہرنہیں نکلےاورصحابہ کرام مسجدمیں آپ کاانتظار کرتے رہ گئے، صبح آپ نے اس کی علت یہ بیان فرمائی  کہ :      " میں نے تراویح اس لئے نہیں پڑھائی کہ  کہیں یہ تمہارےاوپرواجب نہ ہوجائے "عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :" آپ تاحیات اسی پرکاربند رہے"(بخاری ، کتاب التراویح :2012)۔ عائشہ رضی اللہ عنہاکی ایک دوسری روایت ہےجس میں ہے  کہ :"آپ رمضان اورغیررمضان  میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ کبھی نہیں پڑھتےتھے"(بخاری ،کتاب التھجد:1147 ، وکتاب التراویح :2013 ،وکتاب المناقب : 3569 ، ومسلم ، کتاب صلاۃ المسافرین :738)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان المبارک کےآخری دس دنوں میں  اعتکاف میں بیٹھاکرتےاوردیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اعتکاف کیاکرتے،لیکن کبھی بھی آپ نے ان کی جماعت بناکررات بھرنماز نہیں پڑھائی ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےکبھی بھی پوری رات ایک جماعت بناکرتراویح میں پوراقرآن مجید ختم کرنا ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ بعدکی بدعت ہےاورہربدعت گمراہی ہے، جیساکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"كل بدعة ضلالة"(مسلم ، کتاب الجمعہ :867) "یعنی ہربدعت گمراہی ہے "نیز ارشادفرمایا:"من أحدث في أمرنا هذا ماليس منه فهو ردیعنی "کسی نے اگرہماری اس شریعت میں کوئی نئی چیزجو اس میں سے نہیں ہے، پیداکی تو وہ مردود ہے "(بخاری ،کتاب الصلح :2697 ، ومسلم ، کتاب الاقضیہ :1218)


کیا پورا قرآن مجید ایک رات میں ختم کرناجائزہے ؟ :

 اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے کم میں قرآن مجید ختم کرنے سے منع فرمایاہے ، اوراکثرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل بھی اسی پرتھا۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ فرماتےہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا :"إقرأ القرآن في كل شهر" قال :قلت:  يانبي الله إني أطيق أفضل من ذلك , قال :" فأقرأه في كل عشرين " قال قلت  يانبي الله إني أطيق أفضل من ذلك , قال :" فأقرأه في كل خمسة عشر" قال: قلت  :يانبي الله إني أطيق أفضل من ذلك , قال :" فأقرأه في كل عشر" قال :قلت:  يانبي الله إني أطيق أفضل من ذلك , قال:"فأقرأه في كل سبع  ولا تزد على ذلك (بخاری ، فضائل القرآن :5052-5054 ، ومسلم ، کتاب الصیام :1159) یعنی " ہرماہ میں قرآن مجید پڑھاکرو" میں نےکہا :اے اللہ کے نبی میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتاہوں ، توآپ نے فرمایا:"ہربیس دن میں پڑھاکرو" میں نےکہا : اے اللہ کے نبی میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتاہوں ، توآپ نے فرمایا:"ہرپندرہ دن میں پڑھاکرو" میں نےکہا : اے اللہ کے نبی میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتاہوں ، توآپ نے فرمایا:"ہردس دن میں پڑھاکرو" میں نےکہا : اے اللہ کے نبی میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتاہوں ، توآپ نے فرمایا:"ہرسات دن میں پڑھاکرو اوراس سے زیادہ مت کرنا"  
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکی ہی ایک دوسری روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لم يفقه من قرأالقرآن في  أقل من ثلاث "(ابودا‏ؤد، کتاب الصلاۃ :1394 ، ترمذی ، کتاب القراءۃ:2949 ، ابن ماجہ ،اقامۃ الصلاۃ :1347 ، علامہ البانی نے اس روایت کوصحیح قراردیاہے ، دیکھئے : صحیح سنن ابن ماجہ :1115) اورامام عبدالرزاق نے اسے بایں الفاظ نقل کیاہے :"من قرأ فيما دون ثلاث لم يفهمه ""یعنی جس نے تین دن سے کم میں قرآن ختم کیااس نے اسے کچھ سمجھا ہی نہیں "(مصنف عبدالرزاق :3/356)۔
ابوعبید نے طیب بن سلمان کے طریق سےعن عمرۃ عن عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین دن سے کم میں قرآن نہیں ختم کیاکرتےتھے"(دیکھئے : فتح الباری :9/97)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ : " قرآن مجید تین دن سے کم میں مت پڑھاکرو بلکہ اسے سات دنوں میں پڑھاکرو"(بیھقی :2/396 ، مصنف عبدالرزاق :3/353 ،ہیثمی فرماتےہیں کہ : "اسے طرانی نے روایت کیاہے اوراس کےرجال صحیح کے رجال ہیں "(مجمع الزوائد:2/269) حافظ ابن حجرنے بھی اسے صحیح کہاہے ، (فتح الباری :9/97) طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تین دن میں قرآن مجید ختم کیا کرتے تھے " (ہیثمی فرماتےہیں کہ : "اسے طرانی نے کبیر میں  دو سندوں سے روایت کیاہے اوراس  میں سے ایک کےرجال صحیح کے رجال ہیں "(مجمع الزوائد:2/269) اور بیھقی کی ایک روایت میں ہےکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رمضان میں تین دن میں غیررمضان میں جمعہ سے جمعہ تک میں ختم کیاکرتےتھے۔(السنن الکبری :2/396)ایک دوسری روایت میں عبداللہ بن مسعود فرماتےہیں :"من قرأالقرآن في أقل من ثلاث فهوراجز"یعنی " جس نے تین دن سے کم میں قرآن مجید کو ختم کیا وہ راجز (رجزیہ اشعارپڑھنے والا) ہے"(سنن سعیدبن منصور:447، مصنف عبدالرزاق :3/353 ، ہیثمی فرماتےہیں کہ : "اسے طرانی نے کبیرمیں  روایت کیاہے اوراس کےرجال صحیح کے رجال ہیں "(مجمع الزوائد:2/269)۔
معاذبن جبل رضی اللہ عنہ تین دن سے کم میں قرآن مجید پڑھنے کوناپسند کرتےتھے اورخودبھی تین دن سے کم میں نہیں پڑھتےتھے۔(مصنف عبدالرزاق :2/354 ، قیام اللیل لابن نصرالمروزی :ص 63)۔
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سلسلےمیں آتاہےکہ وہ سرعت وتیزی کے ساتھ قرآن مجیدپڑھنے کوناپسند کرتےتھے اورسات دنوں میں ختم قرآن کو بہترجانتےتھے ، کیوں کہ اس سے تدبر اورفہم میں مدد ملتی ہے ۔(مؤطا، تنویر الحوالک :1/206 ، مصنف عبدالرزاق :3/354)۔
تمیم داری رضی اللہ عنہ کے سلسلےمیں امام نووی نے لکھاہےکہ وہ ایک دن اورایک رات میں قرآن مجید ختم کیاکرتےتھے(التبیان فی آداب حملۃ القرآن : ص 47 مطبوع مکتبۃ دارالبیان ، نیزدیکھئے :فضائل القرآن لابن کثیر:ص 81 ،والمدخل لدراسۃ القرآن الکریم /محمد ابو شہبۃ : ص 405 ، طبع :داراللواء ،ومختصرتاریخ دمشق :5/19 ، وسیر اعلام النبلاء :2/445)
جب کہ ایک دوسری روایت میں بسند صحیح وارد ہےکہ وہ سات دنوں میں ختم کیاکرتے تھے۔(الطبقات الکبری لابن سعد:3/500 ، وسیراعلام النبلاء :2/445 ، والسنن الکبری للبیھقی :2/396 ، ومختصرتاریخ دمشق :5/319)۔
ابو حمزہ فرماتےہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہاکہ میں نہایت ہی سرعت کےساتھ قرآن مجید پڑھاکرتاہوں اوربسااوقات ایک ہی رات میں ایک مرتبہ یادومرتبہ ختم کردیاکرتاہوں ، توعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:" ایک رات میں صرف سورہ بقرہ تدبر وترتیل کے ساتھ پڑھنامیرے نزدیک تمہارے جیسے پڑھنے سے بہترہے ۔(السنن الکبری للبیھقی :2/396 ،وفتح الباری :9/89)۔
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ آٹھ   دنوں میں قرآن مجید ختم کیاکرتےتھے۔( السنن الکبری للبیھقی :2/396 ، مصنف عبدالرزاق :3/354 ،قیام اللیل لابن نصر:ص 63 ، طبقات ابن سعد:3/500 بسند صحیح )۔
تابعین میں سے عبدالرحمن بن یزید بن علقمہ اورابراہیم ایک ہفتہ میں ختم کیاکرتےتھے ۔(التبیان : ص 48)۔
حسین بن علی الکرابیسی فرماتےہیں کہ میں نے آٹھ راتیں امام شافعی کے ساتھ گذاریں ، آپ ایک تہائی رات کےقریب نمازپڑھاکرتے تھےاوران کومیں نے ایک رکعت میں پچاس  آیتوں سے زیادہ پڑھتے نہیں دیکھا۔(توالی التاسیس لابن حجر:ص68 ،مناقب الشافعی للبیھقی :2/158 ط: دارالتراث القاھرۃ)۔
معمرفرماتےہیں کہ : قتادہ سات دنوں میں قرآن ختم کیا کرتےتھے۔( مصنف عبدالرزاق :3/353)۔
ابوعبید، احمدبن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ تین دنوں سے کم میں نہ ختم کیاجائے۔(فتح الباری:9/97)۔

ایک رات میں قرآن مجیدختم کرنےکےآثاراوران کاجواب :

 بعض ائمئہ عظام اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے سعید بن جبیر اورعثمان بن عفان رضی اللہ عنہماسے کئی طرح سےثابت ہے کہ یہ لوگ ایک رات یاایک دن میں قرآن مجیدختم کیاکرتےتھے۔(السنن الکبری للبیھقی :2/96 ، مصنف عبدالرزاق :3/354 ،سنن الترمذی ،5/197 ، الزھد للامام احمد بن حنبل :671 ،2170 ، سنن الدارمی ::رقم 3485 ،کتاب التھجد لابن ابی الدنیا:166،167 ،ومختصرتاریخ دمشق :5/319 و 16/167 )۔
ان روایتوں کے طرق میں سے اکثرکی سندیں مخدوش ہیں ، لیکن بعض  صحت کے درجے کو پہنچتی ہیں ۔
لیکن ان  حضرات کے عمل سے استدلال تین وجوہ سے ناقابل اعتبارہیں :
اول : ان کے عمل کی اقتداء سے صریح مرفوع اور صحیح احادیث کی مخالفت ہوتی ہے ۔
دو م : نص صریح کی موجودگی کی بناپرکسی بھی شخص کاکوئی بھی ذاتی عمل دین میں حجت نہیں ۔
سوم : جمہورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قرآن مجیدکو تین دن سے کم میں پڑھنا ثابت نہیں ہے اس لئے مذکورہ دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہماکا انفرادی عمل شاذہے جو قابل اعتباروحجت نہیں ہے ۔
میں کہتاہوں کہ اگربفرض محال کوئی آدمی ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کودلیل بنا بھی لیتاہےپھربھی اجتماعی طورپرایک شب میں تراویح میں پورےقرآن کو ختم کرنامحل  نظرہے،جس کاثبوت نہ خود ان صحابہ کرام سے ہےاورنہ ہی سنت  نبوی سے ، اوربقول امام ‏غزالی :ایک رات میں قرآن مجید ختم کرنے والے لوگ یہ سمجھتےہیں  کہ اس کا نزول صرف اس لئے ہواہےکہ اسے صرف اچھی آوازمیں پڑھاجائےاس کے اوامر، نواہی اور موا‏عظ سے انہیں  کوئی واسطہ نہیں ہے۔(دیکھئے : اصلاح المساجد من البدع والعوائدللشیخ جمال الدین القاسمی : ص 127-128 باختصارشدید)۔

قرآن مجید پڑھنے اورسننے کے آداب :

قرآن مجید اللہ رب العزت کانازل کردہ کلام ہےجس کی تلاوت عبادت ہے، اوراس عبادت کی صحیح طورسے ادائیگی کےلئے شریعت نے اس کی قراءت وتلاوت اوراستماع کےکچھ آداب اورشرائط متعین کررکھے ہیں ۔ ذیل میں ہم ان آداب میں سے چندکا مختصراذکرکرکے دیکھیں گے کہ کیا شبینہ کے اندران شرائط کا لحاظ رکھاجاتاہے یاایسی صورت میں ان کا لحاظ ممکن ہے ؟  :
1 – قرآن مجید کی تلاوت سے پہلے اپنی نیت خالص کرلینی چاہئے اورتلاوت سے اجروثواب کے حصول کا قصد ہونا چاہئے۔ لیکن شبینہ میں اخلاص کا یکثرفقدان ہوتاہے، اکثرحفاظ کرام  اپنی اجرت اور محنتانہ کی خاطرقرآن مجید پڑھتےہیں اوربعض سامعین کھانے پینےکی لالچ میں شریک ہوتےہیں اوراس رات کا اکثرحصہ کھانے پینے میں گذارتےہیں ، کیوں کہ شبینہ اداکی جانے والی تقریبا  تمام  مساجدمیں خوردونوش کا خصوصی انتظام  ہوتاہے ۔(ماہ مبارک کا منکرعظیم  رسم شبینہ ازمفتی عبدالرؤوف :ص11)
2 – تلاوت قرآن میں ترتیل کی رعایت واجب ہے ، اللہ رب العزت فرماتاہے :{ورتل القرآن  ترتيلاً(سورہ مزمل :4)یعنی قرآن مجیدسکون ، خشوع خضوع اورترتیل کے ساتھ پڑھاجائے کیوں کہ تلاوت کا شرعی مقصدحسن تلاوت اورتدبر و  فہم ہے۔ اوریہ چیز شبینہ جیسی سرعت سے کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتی  ہے ۔اسی وجہ سے اللہ تبارک وتعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوسرعت تیزی سے پڑھنے سے منع فرمایاہے (دیکھئے :بخاری ، کتاب ‌فضائل القرآن :5044 )  ارشاد فرماتاہے :{لاتحرك به لسانك لتعجل به}(سورہ القیامۃ :16)یعنی (اے نبی ! آپ قرآن مجید کوجلدی (یادکرنے)کے لئے اپنی زبان کوحرکت نہ دیں ) اوردوسری جگہ ارشادفرماتاہے {ولاتعجل بالقرآن من قبل أن يقضى إليك وحيه}(سورہ طہ :114) یعنی (قرآن مجید پڑھنے میں جلدی نہ کیجئے اس سے پہلے کہ آپ کی طرف جووحی کی جاتی ہے وہ پوری کرلی جائے)۔
3 – قاری وسامع دونوں کو اپنے ذہن وفکرکوقرآن کی آیات کوسمجھنے میں لگا دینا چاہئے ۔
4 -  جب رحمت کی آیت گذرےتو اس کا سوال کرے، اور ،عذاب کی آیت گذرے تو اس سے پناہ مانگے ، تسبیح کی آیت گذرے توتسبیح بیان کرےاورسجدہ کی آیت گذرے توسجدہ کرے۔ لیکن شبینہ میں سامع کوپتہ ہی نہیں چلتاکہ کب اس نوعیت کی آیتیں گزرتی ہیں  صرف یعلمون تعلمون سمجھ میں آتاہے ۔
5 –  ہرحرف کوکما حقہ اداکرنا چاہئے ، کیوں کہ قرآن مجید کے تمام الفاظ پردس دس نیکیاں ملتی ہیں ۔(ترمذی ، فضائل القرآن :2910 ، یہ  روایت صحیح ہے ، دیکھئے : صحیح سنن الترمذی :2910)
6 -  تلاوت قرآن مجید کے وقت تجوید وقواعد کا لحاظ نہایت ہی ضروری ہے ، اس لئے کہ اگرتجویداور مخارج کے قواعد کا لحاظ نہیں ہوگاتو الفاظ کےمعانی بدل سکتے ہیں ، اوریہ چیزسبب گناہ ہے ۔
7 -  حسب استطاعت قرآن مجید کو بہترین آوازکے ساتھ پڑھناچاہئے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"زينوا القرآن بأصواتكم" یعنی" قرآن مجید کواپنی بہترین آوازکے ساتھ مزین کرو"(ابو دا‏‏ؤد ،کتاب الصلاۃ :1468 ، ابن ماجہ ، کتاب اقامۃ الصلاۃ :1342 ،نسائی ، کتاب الافتتاح : 2/179-180 ، روایت صحیح ہے ، دیکھئے : سلسلہ صحیحہ :772 )  
8 -  جب قرآن مجید کی تلاوت ہورہی ہوتو سامعین کے لئے اسے غورسے خاموشی کے ساتھ سننا واجب ہے ، جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :{وإذا قرئ القرآن فاستمعواله  وانصتوا لعلكم ترحمون}(سورہ  اعراف :204)یعنی (جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو اسے غورسے خاموشی کے ساتھ سنو امید ہے کہ تم پررحمت ہو)
9 -  قرآ ن مجید میں ہرممکن لحن سے بچنا چاہئے ۔ قرآن مجید میں مکروہ لحن وہ ہے جس کی بنیادپرمد کوقصر ، قصرکومد، ساکن کو متحرک اورمتحرک کوساکن کردیاجاتاہےاوریہ سب طربیہ نغموں کی موافقت کے لئے کیاجاتاہے ۔(دیکھئے : فضائل القرآن :ص 15-16 بحوالہ حاشیہ مقدمۃ التفسیرللشیخ عبدالرحمن قاسم :ص107)

شبینہ میں مقتدی کی رعایت :

 باجماعت نمازمیں امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ مقتدیوں کی رعایت کرے، کیو ں کہ نماز میں بچے ، بوڑھے، عورتیں ، بیمار، ضرورت مند اوردور سے آنے والے سبھی ہوتے ہیں ۔ ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت ہی غصہ میں فرمایا:"تم میں سے بعض لوگ نفرت پیداکرنے والے ہیں ، جو بھی تم میں سے نماز پڑھائے تواسے تخفیف کرنی چاہئے "(بخاری ، کتاب العلم :90 ، مسلم ، کتاب الصلاۃ :466) معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ایک بار لمبی نماز پڑھادی تو آپ نے فرمایا:"اے معاذ ! تم لوگوں میں فتنہ پیداکرنے والے ہو، جب تم لوگوں کونماز پڑھایا کروتو"والشمس وضحاها" "سبح اسم ربك الأعلى" والليل إذايغشى"اور "إقرأباسم ربك"پڑھو"( مسلم ، کتاب الصلاۃ :465) عثمان ابو العاص فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:"جب تم کسی قوم کی امامت کروتو ان کو ہلکی نمازیں پڑھایاکرو"( مسلم ، کتاب الصلاۃ :468)
مذکورہ روایتیں صراحت کے ساتھ بتاتی ہیں کہ کسی بھی امام کے لئے یہ جائز اوردرست نہیں ہےکہ لوگوں کو مشقت وپریشانی میں ڈالے اور نمازیں لمبی کرکےفتنہ کا سبب بنے۔ تراویح کی نمازجس میں حصول ثواب کی خاطرلوگ جوق درجوق شریک ہوتے ہیں انہیں شبینہ جیسی نمازوں کے ذریعہ مشقت میں ڈال دیاجائے تو پھرتراویح جیسی عبادتوں کا اللہ ہی حافظ ہوگا، واضح رہے کہ نفس کو تھکا کراورمشقت وپریشانی میں ڈال کرکسی بھی نفلی عبادت کو اداکرنے سے روکا گیاہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:"صم وأفطروقم ونم فإن لجسدك عليك حقاً, وإن لعينك عليك حقاًوإن لزوجك عليك حقاً  ......"یعنی " تم روزہ بھی رکھو اوربلا روزہ بھی رہو، رات میں قیام بھی کرو اورسوؤبھی ، کیوں کہ تمہارےاوپرتمہارےجسم ، تمہاری آنکھ اورتمہاری بیوی کا حق ہے۔۔۔۔"( بخاری ، کتاب الصوم ؛1975،1977)
خلاصہ کلام یہ کہ شبینہ جیسی نمازیں دین میں بدعت اورشریعت کے اصول وضوابط کے خلاف ہیں جن کا ثبوت نہ تودورنبوت میں ملتاہے اورنہ ہی صحابہ کرام، تابعین ، محدثین اورائمہ عظام کے دورمیں ۔ اس لئے تمام مسلمانوں کو ہرممکن طورپراس قسم کی بدعت سے بچنا چاہئےاوررمضان المبارک جیسےبابرکت مہینےمیں سنت مطہرہ کے مطابق عمل کرکےزیادہ سے زیادہ حسنات سے اپنے دامن کوبھرناچاہئے ۔کیوں کہ عبادات کی صحت کے لئے دواساسی شرطیں ہیں جن کے بغیرکوئی بھی عبادت درست نہیں ہوسکتی ہے، اول : عبادت خالصتا اللہ کے لئے ہو۔ اورثانی : سنت نبوی کےمطابق ہورہی ہو۔ اس لئے ہمیں اپنی عبادتوں پرنظرثانی کرنی چاہئے ۔ اللہ رب العزت ہمیں اپنے دین کے صحیح طریقوں پرچلائے ، اوربدعات وسیئات سے دوررکھے ۔آمین یارب العالمین وصل علی خیر خلقک محمد علی آلہ وصحبہ وسلم۔
          (شائع شدہ : ماہنامہ مجلہ" طوبی" نومبرودسمبرسنہ 2002ء)
**********

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت

               
 ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق وارد روایات کا سرسری جائزہ    

الحمد لله  وحده  والصلاة والسلام  على من لا نبي بعده , وبعد :
عالم انسانی  پراللہ رب العزت کا سب سے بڑااحسان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی  اس دنیا میں  تشریف آوری ہے ، کیوں کہ آپ کی آمد اس صبح یقیں کا طلوع تھاجو مہذب دنیا کا سب سے تابناک اورروشن دن تھا،ہزاروں سال سے تہذیب وثقافت کی پیاسی دنیاکی علم وعرفان سے سیرابی کادن تھا، تشددوبربریت ،دہشت وانارکی اورظلم وتعدی کی چکی میں پستی ہوئی انسانیت کے نجات کادن تھا۔ وہ ساعت مسعودگوہرتوحیدکی متلاشی دنیاکے لئےحصول تمناکے وقت کی قربت سپیدۂ سحربن کرنمودارہوئی ۔
    آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات شریف عرب کے تپتےہوئے صحراء میں خاندان قریش سے جلوہ نماہوکر نصف سے زائددنیاپرآفتاب عالم تاب بن کرچمکی اوردیکھتےہی دیکھتےظلمت وضلالت اورجہالت وکوتاہ فکری کی دنیاکونوریقین سے منورکرگئی ،جس سے دنیانےامن وآشتی اوراخلاق ومحبت کے زریں اصول سیکھے۔
  ہجووم افکارباطلہ اورشرک وبت پرستی کی لعنت میں گرفتارعرب میں کسے خبرتھی کہ عبداللہ کی بیوہ آمنہ کے بطن سے پیداہونے والایتیم بچہ ایک دن دنیا کاسب سے افضل انسان ہوگااورساری دنیاکو"سراج منیر" بن کرروشن کرےگا، یہی وجہ ہےکہ  اس افضل ترین ذات گرامی کی پیدائش کی صحیح تاریخ لوگ محفوظ نہ رکھ سکےاورعلماء امت اورتاریخ نویسوں وسیرت نگاروں  کاایک بڑا طبقہ اس تاریخ کی تعیین میں مختلف ہوگیا۔
چونکہ اس باسعادت دن کی اس  اہمیت کے باوجوداللہ رب العزت اورخودہادی برحق نےاسے کوئی شرعی حیثیت نہیں دی تھی اورنہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس کا تذکرہ کیااورنہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین عظام رحمہم اللہ نےاس دن کااہتمام کیااس لئے محققین  امت کواس تاریخ کی تعیین میں مشکل درپیش ہونابدیہی امرہے۔
   زیرنظرمقالہ کےاندرہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت سے متعلق واردمتنوع روایات کو ذکرکرکےان کا مختصرا اورسرسری جائزہ لیں گےتاکہ ملت اسلامیہ کے ایک  طبقہ کےلئےجوایک دن متعین کرکےاس کی شرعی حیثیت دوچند کرتاہےمشعل راہ بنے، کیوں کہ ایک دن جوازروئےشرع غیرمتعین ہےاس دن غیرشرعی رسوم وعبادات انجام دئےجائیں بدعت اورسبب ضلالت وگمراہی کے سواکچھ نہیں ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں صحیح راستےپرچلنے کی توفیق ارزانی کرے۔آمین۔

تعیین تاریخ میں اختلاف کےاسباب :

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی تاریخ کے مختلف ہونےکی متنوع اسباب وعلل ہیں ، اصل موضوع کی وضاحب سے قبل ان میں سے چندکا مختصرا ذکرکردینامناسب ہے تاکہ اختلاف کی نوعیت  بآسانی سمجھ میں آسکے  :
1 -  تعیین میں اختلاف کا سب سے بڑاسبب ضعیف اورموضوع قسم کی روایات پراعتمادکرلیناہے۔
2 -   تاریخی روایات میں ہرقسم کے رطب ویابس کی آمیزش جوعام طورپرقرن اول اورماقبل کی تاریخ کےمختلف اورمتنوع ہونےکاسبب ہے۔
3 -  ابتداءمیں تقویم ماہ وسنین کے غیرمنظم ہونےکےسبب عام طورپرکسی بھی واقعہ کی تاریخ کااندازہ اس سےقبل یا مابعدکے کسی اہم واقعہ کی بناپرکیاجاتاتھا،جس کااندازہ کرنے میں صحیح وقت کی تعیین وقت گذرنےکے ساتھ ہی مشکل ہوجاتی تھی اورمزیدپریشانی اس وقت لاحق ہوتی ہے جب محولہ واقعہ کی تاریخ بھی تخمینی اورغیرمتعین ہو۔
4 -     مؤرخین کے ساتھ سب سےبڑاالمیہ یہ ہے کہ یہ  روایات میں بہت ہی کم جستجواوربحث وتمحیص سے کام لیتےہیں ،اورکسی بھی روایت پربلاتفحص وجستجوکےاعتمادکرلیتےہیں ۔
5 - صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اورنہ ہی خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم پیدائش کی تعیین کی ہے اورنہ ہی اس دن کوکوئی خاص اہمیت دی ہے، جس کےنتیجہ میں بعدکےلوگ اختلاف کا شکارہوگئے۔
6 – تعیین تاریخ میں الجھن کا سب سے بڑاسبب رواۃ کااعداد ایام میں مختلف ہوناہے، کیوں کہ  واقعۂ فیل سے ولادت نبوی تک کے ایام کے اعدادوشمارمیں کسی نے پچاس ، کسی نےپچپن ، کسی نے ایک ماہ اورکسی نے چالیس روزکا فرق بیان کیاہے۔
7 –  تقویم ما ہ وسنین میں قمری مہینوں کی کمی وبیشی کا بہت زیادہ اثرپڑتاہےکیونکہ بعض مہینےتیس کےہوتےہیں اوربعض انتیس کے۔ اس لئے تاریخ ولادت کی تعیین میں اختلاف بدیہی امرہے۔

ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق وارد روایات کا سرسری جائزہ :

  مضمون کے اس حصے میں ہم ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق وارد متنوع روایات کا سرسری جائزہ لیں گے اورکوشش کریں گے کہ وہ تمام روایات جن سے ہماری واقفیت ہوسکی   ہے پیش کرسکیں لیکن پھربھی بعض روایات یا بعض دلائل  کا پوشیدہ رہ جانابحث وتحقیق کا لازمی عنصرہے۔ چونکہ بحث وتحقیق کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتاہےاس لئے ہرقدم پرمسائل کے نئے نئے گوشے وا ہوتے رہتے ہیں اس لئے کسی بھی تحقیق کوحرف آخرتسلیم نہیں کیاجاسکتاہے ۔ - :
1 – پہلی ربیع الاول : اس قول کومحمدبن محمدمنہد(متوفی /855 ھ ) نے بلا کسی اصل کےنقل کیاہے۔(دیکھئے: اتحاف الوری :ص/47)  ۔
2 - دوربیع الاول : اس قول کوابن سعدنے الطبقات الکبری (1/101)کے اندرابومعشرنجیح مدنی کے واسطہ سے روایت کیاہےجوضعیف ہونے کی بناپرناقابل اعتمادہیں ، جیساکہ امام ابودا‏‎ؤد  اور امام دارقطنی وغیرہ نے اس کی صراحت کی ہے ۔ (دیکھئے : تہذیب التہذیب  :10/419  رقم /758) مذکورہ قول کوابن سیدالناس نے بصیغۂ تمریض نقل کیاہے۔(عیون الاثر:1/79)اورامام ابن کثیرنے امام ابن عبدالبرکے حوالہ سے(البدایہ والنہایہ :2/260) یعقوبی نے اپنی تاریخ (2/7) ابن الجوزی نے المنتظم (2/245) میں اورزرقانی نے شرح المواہب  (:1/131)میں مغلطائی کے حوالہ سے ذکرکیاہے۔
3 –آٹھ ربیع الاول : یہ قول خوارزمی کا ہے جسے ابن سید الناس نے عیون الاثر(1/81) اورابن عبدالبرنے الاستیعاب (1/31) کے اندرنقل کیاہےاورلکھاہےکہ اصحاب تاریخ اسی کوصحیح قراردیتےہیں ۔ معروف مؤرخ  مسعودی ( متوفی /346  ھ) نے بھی آٹھ ربیع الاول کی تحدید کی ہے(دیکھئے : مروج الذہب : 1/562) امام قسطلانی نے اسے اکثراہل الحدیث کاقول ہونے کادعوی کیاہے (دیکھئے : المواھب اللدنیۃ :1/140 – 141) ۔
   حافظ ابو الخطاب بن دحیہ نے اپنی کتاب"التنویر فی مولدالبشیرالنذیر"کے اندراسی کوراجح قراردیا ہے۔
 اورحافظ ابن حجرہیثمی نےاس پراہل تاریخ کااجماع نقل کیاہے۔(دیکھئے: شرح علی متن الھمزیۃ : ص 26) ۔  یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ (2/7)کےاندرآٹھ ربیع الاول کاذکرکیاہے ، لیکن ساتھ ہی منگل کے دن کی تعیین کی ہے جو بنص صریح باطل ہے ۔
4 - دس ربیع الاول : یہ  روایت واقدی کی ہے جسے ابن الوردی نے اپنی تاریخ (ص/128) کے اندراورامام ابن کثیرنےابن دحیہ اورابن عساکرکےحوالہ سےبروایت ابو جعفرالباقر نقل کیاہے، اورمجالدنے شعبی سے روایت کیاہے۔(دیکھئے : البدایۃ:2/260 والسیرۃ :1/199) اورابن سعدنے الطبقات الکبری (1/100) کے اندرمحمدبن عمربن واقداسلمی کے واسطہ سے ذکرکیاہےجس کےاندرخود محمدبن عمراوراسحاق بن ابی فروہ متروک ہیں اورابوبکربن عبداللہ متہم بالوضع ہیں ۔ (دیکھئے : تقریب  : رقم /7973)۔
5 - گیارہ ربیع الاول : اس قول کو ابن الجوزی نے بلا کسی حوالہ کے نقل کیاہے۔(دیکھئے : المنتظم :2/245)۔
6 -اٹھارہ ربیع الاول :حافظ ابن کثیرنے اس قول کوجمہورکامشہورقول بتایاہے۔(البدایۃ والنہایۃ :2 /260)  اورمحمدحسین ہیکل نے بھی " حیاۃ محمدصلی اللہ علیہ وسلم " (ص/209) کے اندراسے ابن اسحاق کے حوالہ سے نقل کرتےہوئے جمہورکااختیارکردہ بتایاہے۔
7 -  بارہ رمضان المبارک : یہ قول ابن کلبی  کاہے  اوراسی کوزبیربن بکارنےبھی پسندکیاہے، جسے حافظ ابن حجرنے شاذ کہاہے،(دیکھئے : فتح الباری: 7/164) ۔ اس ضمن میں ایک روایت بطریق مسیب بن شریک عن شعیب بن  شعیب عن ابیہ عن جدہ نقل کی جاتی ہے، جس کےالفاظ یہ ہیں  : "حمل برسول الله صلى الله عليه وسلم في عاشوراء المحرم وولد يوم الإثنين لثنتي عشرة ليلة خلت من رمضان سنة ثلاث وعشرين من غزوة أصحاب الفيل" "اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم عاشورہ محرم کوپیٹ میں بطورحمل قرارپائے اوربارہ رمضان کو بروزسوموارجنگ فیل کے تئیسویں سال میں آپ کی ولادت ہو‏‏ئی " (ابن عساکر، تاریخ دمشق :رقم /81 ، البدایۃ والنہایۃ : 2/261) ۔ امام ذہبی اس روایت کونقل کرنے کےبعد فرماتےہیں :" ھذاحدیث ساقط" (دیکھئے :السیرۃ النبویۃ :ص/25) اورحافظ ابن کثیرنے بھی اس روایت کوغریب کہاہے۔
8 -    واقعہ فیل سے پندرہ سال پہلے : یہ قول تاریخ خلیفہ  (ص/53)میں مذکورہے،اورامام ذہبی نے اس کی تضعیف کی ہے، (دیکھئے : السیرۃ النبویۃ :ص/25)اورحافظ ابن کثیراس روایت کونقل کرنے کے  بعد فرماتے ہیں :" ھذاحدیث غریب ومنکرجدا" ۔ (البدایۃ : 2/262)۔
9 – واقعہ فیل اورولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان دس سال کا وقفہ ہے : اس روایت کونقل کرنے کےبعدامام ذہبی نے اسے منقطع قراردیاہے۔(دیکھئے : السیرۃ النبویۃ : ص/25 ، نیزدیکھئے : دلائل النبوۃ للبیھقی :1/79 بسند ضعیف )۔
10 – محرم الحرام کے مہینہ میں  : محمدحسین ہیکل نے اس قو ل کوبلاکسی واسطہ کےنقل کیاہے، (دیکھئے : حیاۃ محمدصلی اللہ علیہ وسلم :ص/109)۔
11 – صفرکےمہینہ  میں : اسے قسطلانی نے المواھب (1/140) اورمحمد حسین ہیکل نے حیاۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (ص/109) کے اندربلاکسی حوالہ کے نقل کیاہے ۔
12 - ماہ رجب میں : اسے بھی   محمد حسین ہیکل نے بلا کسی واسطہ کے نقل کیاہے ۔ (حیاۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم : ص/109) ۔
13 – ماہ ربیع الآخرمیں :قسطلانی نے اس قول کوبصیغۂ تمریض بلا کسی  حوالہ وواسطہ کے نقل کیاہے ۔ (المواھب :1/140)۔
14 - واقعہ فیل کے روز :  اس ضمن میں حاکم نے مستدرک (2/603) اورذہبی نے السیرۃ النبویۃ (ص/22) کے اندرحجاج بن محمد کے واسطہ سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کی ہے ،جس کےالفاظ ہیں " ۔۔۔۔ولد النبي صلى الله عليه وسلم يوم الفيل "یعنی :" اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت (واقعۂ ) فیل کے روزہوئی " گرچہ امام ذہبی نے اس روایت کی تضعیف کی ہے(مختصرالمستدرک:2/1057) لیکن خود حاکم نے بھی اس روایت میں حمیدبن الربیع کا اس لفظ کے ساتھ منفردہونے اوران کی عدم متابعت کو ذکرکیاہے، اورابن سعدنے" یوم الفیل " کی تشریح : عام الفیل " سے کی ہے (الطبقات :1/101) ، جس کی تائیدمستدرک(2/603)کی ہی  ایک روایت  سے جوبطریق محمد بن اسحاق صنعانی مذکورہےاوردیگربہت ساری صحیح روایات سے ہوتی ہے ۔
15 –  سترہ  ربیع الاول : ابن دحیہ نے بعض شیعہ سے اس قول کونقل کیاہے ۔(دیکھئے : البدایۃ والنہایۃ :2/260)
16 -  ربیع الاول کے پہلے سوموارکو : اس قول کو ابن سید الناس نے عیون الاثر(1/79) کے اندربصیغۂ تمریض اورابن عبدالبرنے الاستیعاب (1/30) میں نقل کیاہے۔ اس قول کی بناپرتاریخ ولادت پہلی ربیع الاول سے لیکرساتویں ربیع الاول تک  میں کسی  بھی  دن ہونے کا امکان ہے ۔
17 –  نوربیع الاول : نوربیع الاول کی تعیین کے سلسلے میں اگرچہ کوئی قابل ذکرروایت نہیں ملتی لیکن پھربھی بعد کے محققین نے اسی کوراجح قراردیاہے ۔ اس سلسلے میں اکثرلوگ نامورمحقق محمودپاشافلکی مصری کی تحقیق پراعتمادکرتےہیں ، جیساکہ خضری بک نےتاریخ الامم الاسلامیہ (1/62) اورعلامہ شبلی نعمانی نے سیرۃ النبی (1/115) اورعلامہ قاضی سلیمان سلمان منصورپوری نے رحمۃ للعالمین (1/40) کے اندر" تاریخ دول العرب والاسلام " کے حوالہ سے لکھاہے(نیزدیکھئے: نورالیقین فی سیرۃ سیدالمرسلین:  ص/ 9 (۔
اورابوالقاسم السہیلی کے کہتےہیں  : وأهل الحساب يقولون : وافق مولده من الشهور الشمسية " نيسان " فكانت لعشرين مضت منه .
یعنی اہل حساب کے بقول :آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت  باعتبارشمسی   20 /اپریل کو ہوئی(جونوربیع الاول کے موافق ہے) ۔(الروض الانف :1/182)۔
محمود پاشافلکی کے استدلالات یوں تو کئی صفحات پرمحیط ہیں لیکن ان کا خلاصہ علامہ شبلی نعمانی نے ان الفاظ میں بیان  کیاہے:
(1)  صحیح بخاری میں ہے کہ ابراہیم ( اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صغیرالسن صاحبزادے) کے انتقال کے وقت آفتاب میں گرہن لگا تھااورسنہ 10 ھ تھا ( اوراس وقت آپ کی عمرکاترسٹھواں سال تھا)۔
(2)   ریاضی کےقاعدےسے حساب لگانےسے معلوم ہوتاہےکہ سنہ 10 ھ کا گرہن  7 /جنوری سنہ 632 ء کوآٹھ بج کر30 منٹ پرلگاتھا۔
(3) اس حساب سے یہ ثابت ہوتاہےکا اگرقمری تاریخ 13 برس پیچھے ہٹےتوآپ کی پیدائش کاسال سنہ 571 ء جس میں ازروئے قواعدہیئت ربیع الاول کی پہلی تاریخ  12/اپریل سنہ 571 کے مطابق تھی ۔
(4)  تاریخ ولادت میں اختلاف ہے لیکن اس قدرمتفق علیہ ہےکہ وہ ربیع الاول کا مہینہ اوردوشنبہ کادن تھااورتاریخ آٹھ سے لیکربارہ تک میں منحصرہے ۔
(5)  ربیع الاول مذکورکی ان تاریخوں میں دوشنبہ کا دن نویں تاریخ کوپڑتاہے ۔(دیکھئے : حاشیہ سیرۃ النبی :  1/115) ۔
18 –  بارہ ربیع الاول  : مؤرخین کی ایک معتدبہ تعداد اس بات کی قائل ہےکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت بارہ ربیع الاول  ہے، جن میں ابن اسحاق (سیرۃ ابن ہشام :1/158) ابن خلدون (تاریخ ابن خلدون :2/394) ابن سیدالناس متوفی /734 ھ (عیون الاثر:1/79) اورابوحاتم محمد بن حبان ( الثقات :1/14-15) قابل ذکرہیں ۔
واضح رہے کہ اس سلسلےمیں جتنی بھی روایتیں واردہیں سب متکلم فیہ ہیں ، اس کےباوجودمؤرخین علماء کا ایک بڑاطبقہ ابن اسحاق کی روایت کو دیگرتمام روایتوں کے مقابلہ میں اوثق ہونےکی بنیادپرراجح قراردیتاہے ،( دیکھئے : موسوعۃ نظرۃ النعیم : 1/195) جیساکہ شیخ محمد ابوزھرۃ نے لکھاہے:"الجمهرة العظمى من علماء الرواية أن مولده عليه الصلاة والسلام في ربيع الأول من عام الفيل في ليلة الثاني عشرمنه وذاك لأن الفيل وجيشه ساروا مكة في المحرم وولد النبي صلى الله عليه وسلم بعد مقدم الفيل بخمسين يوماً وبذلك جمع الأكثرون على أنه ولد بعد مساورة جيش أبرهة بخمسين يوماَ"یعنی " علماءتاریخ کا ایک بڑاطبقہ اس بات کا قائل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت واقعۂ فیل کے سال ربیع الاول کی بارہ تاریخ کوہو‏ئی کیوں کہ ہاتھی اوراس کی فوج محرم کے مہینہ میں مکہ آئی اورآپ ان کے آنے کے پچاس روزکے بعد پیداہوئے، اوراس بات  پرزیادہ ترلوگوں کااتفاق بھی ہےکہ ابرہہ کی فوج کے آنے کےپچاس دنوں کے بعدآپ کی ولادت ہوئی " (خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم : ص/115-116)۔
اورامام غزالی لکھتےہیں : "أغلب الروايات تتجه إلى أن ذلك كان عام هجوم الأحباش على مكة سنة 570 م في الثاني عشر من ربيع الأول " یعنی :" زیادہ ترروایتیں یہ بتاتی ہیں کہ آپ کی ولادت مکہ پرحبشیوں کےحملہ کرنے کےسال 570 ء بارہ ربیع الاول کوہوئی "۔(فقہ السیرۃ :ص/58) ۔
بارہ ربیع الاول سے متعلق سلمۃ بن الفضل کے واسطہ سے محمد بن اسحاق کی ایک روایت نقل کی جاتی ہے ، جس میں ہےکہ :"ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الإثنين عام الفيل لاثنتي عشرة ليلة مضت من شهر ربيع الأول "یعنی " اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم بروزپیربارہ ربیع الاول عام الفیل کو پیداہوئے" (دلائل النبوۃ للبیھقی :1/74  ، مستدرک حاکم :2/603   وتاریخ الامم والملوک للطبری :2/125) ۔
اس روایت کے اندر سلمۃ بن الفضل بن ابرش کے بارے میں حافظ ابن حجرلکھتےہیں :" صدوق کثیرالخطأ " (التقریب :رقم /2505)  ۔
نیزامام ذہبی نے معروف بن خربوذ کی ایک روایت نقل کی ہے (دیکھئے: السیرۃ النبویۃ :ص/25) لیکن خو دمعروف بن خربوذکے متکلم فیہ ہونےکی وجہ سے یہ روایت قابل اعتبارنہیں ہے ۔(دیکھئے : :معجم أسامي الرواۃ :4/159) ۔
امام ذہبی نے ابومعشرنجیح کا قول بھی بارہ ربیع الاول کے سلسلے میں نقل کیاہے ، (السیرۃ النبویۃ :ص27) لیکن جیساکہ معلوم ہے کہ ابومعشربالاتفاق ضعیف  ہیں اس لئے ان کی روایت بھی ناقابل اعتبار ہے ۔ (دیکھئے : :معجم اسامي الرواۃ :4/258) ۔
ایک روایت بطریق  عفان  عن سعیدبن میناءعن جابروابن عباس  ابن ابی شیبہ کے حوالہ سے نقل کی جاتی ہے ، جیساکہ امام ابن کثیرنے السیرۃ النبویۃ (1/199) کے اندربایں الفاظ نقل کیاہے :" وقيل: لثنتي عشرة خلت منه نص عليه ابن إسحاق ورواه ابن أبي شيبة في مصنفه عن عفان عن سعيد بن ميناءعن جابر وابن عباس أنهما قالا: ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفيل يوم الاثنين الثاني عشر من شهر ربيع الأول وفيه بعث وفيه عرج به إلى السماء وفيه هاجر وفيه مات وهذا هو المشهور عند الجمهور والله أعلم۔یعنی "کہا جاتاہے کہ : آپ کی ولادت بارہ ربیع الاول کوہوئی جوابن اسحاق کے نزدیک منصوص ہے اورابن ابی شیبہ نے عفان عن سعید بن میناء عن جابروابن عباس روایت کیاہے کہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول کے مہینے میں بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے ، اسی دن مبعوث ہوئے ، اسی دن آپ کو معراج ہوئی ، اسی دن آپ نے ہجرت کیا اوراسی دن آپ کی وفات ہوئی ۔جمہورکے نزدیک یہی مشہور ہے ۔واللہ اعلم ۔بعض نسخوں میں "بارہ ربیع الاول " کی جگہ " اٹھارہ ربیع الاول " ہے ۔
اورواضح رہے کہ یہ روایت امام ابن کثیرکا وہم ہے کیوں کہ تلاش بسیارکے بعد بھی یہ روایت "مصنف ابن ابی شیبہ" کے اندر نہیں ملی ، اوربدایہ کے محقق نے بھی اس کی" مصنف ابن ابی شیبہ " کے اندرعدم موجودگی کی طرف اشارہ کیاہے۔ اوراگریہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ یہ اثر"مصنف "کے اندرہے پھربھی اس کی سند کے اندرسقوط ہے ، کیو ں کہ عام طورپرعفان  سلیم بن حیان سے روایت کرتے ہیں جوسعید بن میناء سے روایت کرتےہیں ، کیوں کہ سعیدبن میناء سے عفان کا لقاء ثابت نہیں ہے، اس لئے ان کی  زیادہ تر روایتیں عن عفان عن سلیم بن حیان عن سعید بن میناء ہوتی ہیں ۔  ایسی صورت میں اس سندکےساتھ یہ روایت صحیح اوربخاری کے شرط کے مطابق ہوتی ۔
یہاں پر اہل سیروتاریخ اوراصحاب روایات کا اس روایت کی اس سند سے چوک موجب تعجب ہے ۔ اورظاہرسی بات ہے کہ اہل سیروتاریخ کے جم غفیر کا اس روایت کی اس سند اورمذکورہ متن سے عدم شغف اس کی حیثیت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے، کیو ں کہ اس روایت کی مذکورہ سند ہوتی امام ذہبی ، ابن سعد،خلیفہ بن خیاط ، ابن حبان اور بعدکےسیرت نگاروں کی کتابیں اس کے بیان سے خالی نہ ہوتیں، اوراگریہ روایت مصنف کے اندرہوتی تو بعدکے مصنفین اس سےضرورواقف ہوتے، اوراگراس روایت کا مذکورہ متن اس سند کے ساتھ صحیح ہوتاتو اغلب امکان تھاکہ اس کاذکرصحاح اورمسانید میں ہوتا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
نیزاس روایت میں معراج کے دن کی تعیین کولےکرایک اشکال پایاجاتاہے، اوروہ یہ کہ یہاں پرمعراج کےواقعہ کوسوموارکےدن کا واقعہ بتایاگیاہےجب کہ بعض محققین کی صراحت کے مطابق یہ واقعہ بدھ کی رات کا ہے جیساکہ علامہ سلمان منصورپوری نے وضاحت کی ہے ۔(دیکھئے :الرحمۃ المھداۃ:ص/333) یہاں یہ وضاحت  بھی ضروری  ہے کہ اسراء ومعراج کی تاریخ اوردن کے سلسلے میں کوئی ایسی روایت نہیں ملتی جوقابل اعتبارہو، اس نبیادپربہت سارے  علماء قدیم وجدید نے اس واقعہ کی تاریخ کونامعلوم قراردیاہے۔

بعض سیرت نگاروں کا مغالطہ : 

بعض سیرت نگاروں نے عبداللہ بن عباس اورجابر رضی اللہ عنہماکی مسند احمد اور المعجم الکبیرللطبرانی کے اندرمذکورروایت کوذکرکرتےوقت احتیاط اوربحث تمحیص سےکام نہیں لیاہے،جس سےقاری مغالطہ کا شکار ہو جاتاہے کہ بارہ ربیع الاول ہی صحیح روایت کےعین مطابق ہے ۔(دیکھئے : الصادق الامین ، تالیف : ڈاکٹرمحمد لقمان السلفی :ص /117 ،ڈاکٹر موصوف نے اس روایت کو ذکرکرنے کے بعدحاشیہ میں مسند احمد:1/277 اور المعجم الکبیرللطبرانی : رقم/12984  کا حوالہ دیکر اسے "حسن "قراردیاہے۔)۔
مذکورہ روایت مسند احمد کے اندرابن عباس رضی اللہ عنہ سے بایں الفاظ منقول ہے " قال ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الاثنين واستنبىء يوم الاثنين وخرج مهاجرا من مكة إلى المدينة يوم الاثنين وقدم المدينة يوم الاثنين وتوفي يوم الاثنين ورفع الحجر الأسود يوم الاثنين"یعنی "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سوموارکو پیداہوئے ، آپ کو نبوت بھی سوموارکوملی ، مکہ سے مدینہ کے لئے ہجرت کے غرض سے آپ سوموارکو ہی نکلے ، مدینہ سوموارکو ہی پہنچے، آپ کی وفات سوموارکو ہو‏ئی اورحجراسودکواس کی جگہ سوموارکو ہی رکھا" اورطبرانی کی روایت میں غزوۂ بدرمیں فتح یاب ہونے اور سورہ مائدہ کی مشہورآیت {الیوم اکملت لکم دینکم } کے سوموارکے دن نزول کا اضافی ذکرہے اورنبوت ملنے کے دن کا ذکرنہیں ہے۔
اس روایت میں کئی باتیں قابل ملاحظہ ہیں :
1 –  اس روایت کے اندر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے دن کا ذکرہے جوکہ صحیح روایتوں کے عین موافق ہے ،صحیح مسلم (رقم /1162) کے اندرابو قتادہ  انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموارکے دن روز رکھنے سے متعلق پوچھاگیاتو آپ نے فرمایا:" ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ - وَيَوْمٌ بُعِثْتُ - أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيه ِ - "  یعنی " میں اسی دن پیداہوا، اسی دن مجھے نبوت ملی" – یا – "  اسی دن میرے اوپروحی نازل ہوئی "۔
2 – اس روایت کے اندردن کا ذکرتو ہے مگر تاریخ اورمہینہ کا ذکرنہیں ہے، البتہ دیگرصحیح روایتوں سے ربیع الاول کے مہینہ کی تعیین ہے اوراس ماہ کی بارہ تاریخ کی تعیین والی تمام روایتیں معلل ہیں ۔
3 - طبرانی کی روایت میں آیت کریمہ:{الیوم اکملت لکم دینکم  ۔۔}کےنزول کا سوموارکو قراردیاگياہےجوکہ صحیح روایتوں کےخلاف ہے،بخاری اورمسلم کی روایتوں میں صراحت ہے کہ مذکورہ آیت کریمہ کا نزول حجۃ الوداع کے موقع سے عرفہ کےدن جوکہ جمعہ کادن تھا نازل ہوئی (دیکھئے : صحیح بخاری: کتاب التفسیر،باب نفسیرسورۃ المائدہ:رقم/4649 ، نیزدیکھئے : اسباب النزول للواحدی /ص99 رقم 381،382 ط:دارالکتب العلمیۃ 1421 ھ اورالصادق الامین :ص/ 769 اوردیگرکتب تفسیروسیرت)۔
4 – اسی روایت میں ہےکہ غزوۂ بدرکا وقوع سوموارکے روزہواجو کہ صحیح روایتوں کے خلاف ہے جن میں ہے کہ بدرکا معرکہ 17/رم/مضان المبارک سنہ 2 ہجری کوجمعہ کے دن ہوا۔(دیکھئے : الصادق الامین :ص/380  ، روضۃ الانوارفی سیرۃ سیدالمختارللشیخ صفی الرحمن المبارکفوری : ص/174 )۔
5 -  اس روایت کی سند کو علامہ احمد شاکرنے صحیح قراردیاہے (رقم/2506)  اورامام ہیثمی اسے مجمع الزوا‏ئد کے اندرذکرکرنے کے بعدلکھتے ہیں :"وفيه ابن لهيعة وهو ضعيف و وبقية رجاله ثقات من أهل الصحيح "(مجمع الزوا‏ئد :1/196) ۔ اورامام ابن کثیرنے اپنی تاریخ (2/159 – 260) میں ذکرکرنے کے بعداسے امام احمد کاتفرد قراردیاہے ۔

قابل ذکراقوال  :

   مذکورہ تمام اقوال میں صرف چارکو قابل اعتناء سمجھا جاسکتاہے ، اوروہ ہیں :
1 –   اکثر اہلحدیث کا قول : آٹھ ربیع الاول  ۔
2 –   جمہورکاقول : اٹھارہ ربیع الاول  ۔
3 -   سب سے مشہورقول : بارہ ربیع الاول  ۔
4 –  اورفلکی محققین کا قول : نو ربیع الاول  ۔
جمہورکےقول اٹھارہ ربیع الاول کے سلسلے میں روایات یاکوئی بھی دلیل مفقودہے اس لئے یہ قول مرجوح ہے۔  اورآٹھ ربیع الاول کواعدادوشمارمیں ادنی فرق کوبنیادبناکرنوربیع الاول میں   ضم کیاجاسکتاہے۔
عصرحاضرمیں صرف نواوربارہ ربیع الاول ہی میں زیادہ اختلاف  رہاہےاوربارہ ربیع الاول کے سلسلے میں متعددروایات ہمارے سامنے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی روایت صحت کے درجہ کو پہنچتی نظرنہیں آتی اورنو ربیع الاول سے متعلق کوئی بھی  قابل ذکرروایت  نہ ہوتے ہو‏ئے  بھی یہ سوال ابھرتاہے کہ کیاان فلکی محققین کی تحقیق پراعتماد کیاجاسکتاہے ؟ جب کے اندازہ کی بنیاد پراعداد وشمارمیں غلطی کا احتمال بہرحال ایک فطری امرہے، جس سے انکارحقیقت سے بےاعتنائی ہے ۔ خاص طورسے قمری ماہ وسنین کی تقویم خاصہ مشکل امرہے ، کیوں کہ ایک سال کے اندر ہی کئی مہینے بلا تعیین کے ہی انتیس اورتیس کے ہوتے ہیں، اس لئے بالقطع  کہہ دیناکہ  تاریخ  نوربیع الاول ہی ہے محل نظرہوجاتاہے، ہاں اتنی بات ضرورہے کہ جب کسی معاملہ میں صحیح روایت کی واقفیت نہ ہوتومحققین کی تحقیق کوأقرب إلی الصواب ضرورکہاسکتاہے۔

خلاصۃ القول :

صحیح  روایتوں کی بنیادپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت   واقعۂ  فیل کے پہلے سال میں  سوموارکے روز ہوئی  اورجہاں تک تاریخ کی بات ہے تووہ غیرمتعین ہے اورقوی امیدہےکہ  دوربیع الاول سے لے کراٹھارہ ربیع الاول تک میں کسی دن میں منحصرہو۔ والله أعلم بالصواب وصلى الله على نبيه  وحبيبه  محمد وعلى آله وصحبه وسلم .

*****

شب براءت کی حقیقت

شب براءت کی حقیقت

تمہید

الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لانبي بعده, وبعد :
       اسلامی شریعت کی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے اندرکسی بھی نقص واضافہ کی گنجائش قطعی طور پرنہیں ہے ،اللہ تعالی نے اپنے فرمان :{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً}(المائدۃ :3) (آج کے دن میں نے تمہارےلئے تمہارےدین کومکمل کردیا ہےاورتمہارےاوپراپنی نعمت کاا تمام کردیاہے،اوراسلام کوبطوردین پسندکرلیا ہے) میں اس کی مکمل وضاحت  فرمادی ہے ، اوراس کے عقائدواعمال کے اندرکسی بھی کمی وزیادتی کو سرےسے ناکاردیاہے ، لیکن بدعت پرستوں اورشکم پرورعلماءنے مذکورہ آیت کریمہ کی دھجیاں اڑاتےہوئے دین میں بدعات وخرافات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کردیا اوراسلامی عقائدوعبادات کواپنی بدعتی چیرہ دستیوں سے داغدار کرکےامت مسلمہ کے عام افرادکوگناہوں کے شکنجہ میں جکڑکرصحییح عقائدوافکار اوراعمال وافعال سے کوسوں دورکردیا ،جس کا نمونہ آپ ان بدعتی محافل ومجالس   اوررسوم واعمال کے موقع سے ملاحظہ کرسکتےہیں ، جس میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے والے ان  کے قیام اوردفاع میں جان کی بازی تک لگانے کو تیار ملیں گے، لیکن یہی جان فروش نمازپنجگانہ اورعقا‏ئدواعمال کی تصحیح کے لئےمنعقداجتماعات سے کوسوں دورنظرآئیں گے-الامان والحفیظ-
بدعت پرستوں کی ایجادکردہ بدعتوں میں سے شعبان کی پندرہویں تاریخ کی رات میں کی جانے والی بدعتیں بھی ہیں  جواسلام میں کئی صدیوں بعدایجاد کی گئیں،  جن کاثبوت نہ اللہ کے کلام میں ہے ،نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال میں اورنہ اتباع سنت کے خوگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے عہدمیں ۔
       زیرنظرکتابچہ کے اندرہم نے اسی موضوع  پر"النصیحۃ لعامۃ المسلمین " کے جذبہ کے تحت  خامہ فرسا‏‏‏ئی کی کوشش کی ہے تاکہ عام آدمی اسلامی معاشرےمیں پھیلے اس"مذہبی ناسور"کی  حقیقت سےآشناہوکراپنے عقائدواعمال پرنظرثانی کرسکے اور انہیں کتاب وسنت کے موافق کرکے دنیا اورآخرت  کی سرخروئی سے ہمکنارہوسکے – اللہ تعالی ہی  صحیح راستے کی رہنمائی کرنےوالاہے –
 اس کتابچہ کے اندرہم نے عصرحاضرکے مجدداورامام  علامہ عبدالعزیزبن بازرحمہ اللہ (سابق مفتی اعظم سعودی عرب)کے اس موضوع سےمتعلق نہایت ہی  مشہوراور قیمتی مضمون کا ترجمہ شامل کردیاہے اورشعبان وشب براءت سے متعلق چندضعیف اورموضو ع  روایتوں کاتحقیقی جائزہ  پیش کر دیاہے، جنہیں  دلیل بناکرعوام کو گمراہ کیاجاتاہے، اوراخیرمیں بطورتکملہ اس رات   کی جانےوالی بدعتوں کا مختصرخاکہ بیان کردیاہے۔
    اس کتابچہ کی تیاری وطباعت کی توفیق پرہم اللہ کے  درسربسجودہیں اوراس کی تیاری وطباعت میں تعاون کرنے والے جملہ اخوان کے شکرگذارہیں ۔ فجزاهم الله خيراًفي الدارين   وأحسن مثوبهم في الدنيا والآخرة .
 اوراللہ تعالی سے دعاءکرتےہیں کہ اس کتاب کو مسلمانوں کے لئے نفع بخش اورمؤلف ،ناشر اورتمام متعاونین کے لئے باعث اجروثواب اوردنیا وآخترت کی کامیابی وکامرانی کا ذریعہ وسبب بنائے ۔ وصلى على خير خلقه وسلم 
                                                          طالب دعاء
                                              عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی
                                              اسلامی دعوہ سنٹریدمہ نجران سعودی عرب
           Gmail :abdulaleemsalafi1@gmail.com
Blog : www. abdulaleemsalafi.blogspot.com                                                
                      
*****
پندرہویں شعبان  کی رات میں مجلس سازی کاحکم     
( تحریر : علامہ عبدالعزیزبن باز رحمہ اللہ )
  الحمدلله الذي أكمل لناالدين وأتم عليناالنعمة,والصلاةوالسلام على نبيه ورسوله محمدنبي التوبة والرحمة, أمابعد:
          اللہ تعالی کاارشادہے :{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً}(المائدۃ:3) (آج کےدن میں نےتمہارےلئے تمہارےدین کومکمل کردیا ہےاورتمہارےاوپراپنی نعمت کاا تمام کردیاہے، اور اسلام کوبطوردین پسندکرلیاہے) نیز ارشادفرماتاہے :{ أَمْ لَهُمْ شُرَكَاء شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ }(الشوری:21) (کیاان لوگوں نے(اللہ کے لئے)ایسے شریک مقررکررکھےہیں جنہوں نےدین کےایسےاحکام مقررکر دئے ہیں جو اللہ کےفرمائےہوئےنہیں ہیں ) ۔
  صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہاسےمروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا:"من أحدث في أمرناهذاماليس منه فَهُوَرَدٌّ "" جس نےہماری اس شریعت میں کوئی نئی چیزایجاد کی جواس میں سےنہیں ہے تو وہ لائق رد ہے "اورصحیح مسلم کے الفاظ ہیں :"من عمل عملا ليس عليه أمرنافهو رد""جوکو‏ئی ایساعمل کرےجودین سےبیگانہ عمل ہوتووہ مردود(ردکیاہوا) ہوگا" اورصحیح مسلم کےاندرجابررضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کےخطبہ میں فرمایاکرتےتھے :"أمابعد:فإن خيرالحديث كتاب الله وخيرالهدي هدي محمدصلی اللہ علیہ وسلموشرالأمورمحدثاتها وكل بدعة ضلالة " "امابعد :سب سےبہترین کتاب اللہ کی کتاب ہے اور سب سےبہترین راستہ محمد ‎ صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ ہےاورسب سےبرے امور دین میں ایجادکردہ نئی باتیں ہیں ( جنہیں بدعت کہتےہیں ) اورہربدعت ضلالت وگمراہی ہے "اس معنی کی آیتیں اورحدیثیں ڈھیرساری ہیں ، جواس بات پرواضح دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالی نےاس امت کےلئےاس کےدین کومکمل کردیاہے، اوراس کےاوپراپنی نعمت کااتمام کردیاہےاوراپنےنبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کووفات اس وقت دی جب آپ نےواضح طورپردین کولوگوں تک پہونچادیااوراللہ کی متعین کردہ شریعت کواپنےاقوال واعمال کےذریعہ  امت کے لئےواضح کردیا، اور اس بات کی وضاحت کردی کہ ہروہ قول و عمل جسےلوگ آپ کےبعدایجادکرکےاس کودین کی طرف منسوب کردیں گےبدعت ہے، اوراس کاوبال ایجادکرنے والے پر ہوگا، گرچہ اس سلسلےمیں اس کی نیت درست ہی کیوں نہ ہو۔
  اوراس معاملہ کی حقیقت کوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوران کےبعدعلماء سلام نے بخوبی جان لیاتھا،لہذاان لوگوں نےبدعات کاانکارکیااوران سےلوگوں کوڈرایا ، جیسا کہ سنت کی اہمیت اوربدعت کی ردمیں لکھنےوالےعلماء مثلا : ابن وضاح ، طرطوشی ، اورابوشامہ وغیرہ نےان تمام کاذکرکیاہے ۔  
 ان بدعتوں میں سےجنہیں بعض لوگوں نےدین میں ایجادکررکھاہےپندرہویں شعبان کی رات میں محفل کاانعقاداوردن کوروزہ کےلئےخاص کرلیناہے، جب کہ اس سلسلےمیں کوئی قابل اعتماددلیل موجودنہیں ہے، البتہ اس کی فضیلت میں چندضعیف روایتیں موجودہیں جوکہ ناقابل اعتمادواعتبارہیں ، اوراس رات کی نمازکی فضیلت میں جوروایتیں واردہیں وہ تمام کی تمام موضوع ہیں، جیساکہ بہت سارے اہل علم نےاس کوبیان کردیاہے، جن میں سےبعض کاذکر ان شاءاللہ اگلی سطورمیں آئےگا ۔
اس سلسلےمیں اہل شام میں سے بعض سلف سےچندآثارمنقول ہیں  اوراس پر جمہور اہل علم کااتفاق بھی ہے کہ پندرہویں شعبان کی رات انعقادمحفل بدعت ہے، اوراس  کی فضیلت میں واردتمام روایات ضعیف ہیں اوربعض موضوع بھی ہیں ، جن پہ آگاہ کرنےوالوں میں سے امام ابن رجب حنبلی بھی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب "لطائف المعارف" میں اس کو بیان کیاہے ،(واضح رہےکہ) عبادات میں  ضعیف روایتیں اس وقت قابل عمل ہوتی ہیں جب اس کی اصل صحیح دلائل سےثابت ہو،اورپندرہویں شعبان کی رات محفل جمانے سے متعلق کو‏ئی صحیح اصل موجودنہیں ہے ،تاکہ ضعیف روایتوں سے بھی کچھ انسیت حاصل کی جاسکے، اسی قاعدےکا ذکر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےکیاہے،اوریہاں ناظرین کے لئے ہم اس مسئلہ میں بعض اہل علم کے موقف کاذکرکریں گےتاکہ آپ دلیل  پر‍ قائم رہیں ۔
      اہل علم کا اس بات پراتفاق واجماع ہے کہ جس مسئلہ کےاندرلوگوں کا اختلاف ہو اسے کتاب وسنت پرپرکھا جائےگا،اورقرآن سنت جس کافیصلہ کرےوہ واجب الاتباع قانون شریعت ہوگا،اورجس کی مخالفت کرےاس کاترک لازم ہوگااور جو عبادتیں قرآن وسنت سے ثابت نہ ہوں وہ بدعت اوران کاکرناہی ناجائزہوگاچہ جائیکہ لوگوں کوان کی طرف بلایاجائے اوران کوراغب کیاجائے، جیساکہ اللہ تعالی کاارشادہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً}(النساء: 59)(اےایمان والو ! اللہ تعالی کی اطاعت کرواوررسول (صلی اللہ علیہ وسلم )کی اطاعت کرو، اورتم میں سے جوبااختیارہیں ان کی اطاعت کرو، پھراگرکسی معاملےمیں اختلاف ہوجائےتواسےاللہ اوررسول کی طرف لوٹاؤاگرتمہیں اللہ پر اورقیامت کے دن پرایمان ہے ۔ یہ بہت بہترہے اورانجام کے اعتبارسے بہت اچھاہے ۔)
نیزارشادفرمایا:{وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ}(الشورى: 10) (اورجس چیزمیں تمہارااختلاف ہواس کا فیصلہ اللہ ہی کی طرف ہے۔ ) نیزارشادفرمایا: {قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ}(آل عمران:31)(کہہ دیجئے کہ: اگرتم اللہ سے محبت رکھتےہوتومیری اتباع کرواللہ تجھ سےمحبت کریگااورتمہارےگناہوں کومعاف فرمادیگا ۔) نیزارشاد فرمایا:{فَلاَ وَ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيماً}(النساء :65)
(آپ کےرب کی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتے تا آنکہ وہ اپنے اختلافات میں آپ کوفیصل مان لیں پھر آپکے فیصلےپراپنےدل میں حرج نہ محسوس کریں اوراسے پورے طورپرتسلیم کرلیں ۔)
اس معنی کی ڈھیرساری  آیتیں ہیں جواختلافی مسائل کوکتاب وسنت کی طرف لوٹانے اور ان کے فیصلہ پررضامندی کے  وجوب پرنص ہیں ، اوریہی تقاضائےایمان اور بندے کےلئےدنیا اور آخرت میں کامرانی کاسبب ہے۔
حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ  اپنی کتاب " لطا‏ئف المعارف" کے اندرپندرہویں شعبان سے متعلق فرماتےہیں:" اہل شام میں سے تابعین مثلا : خالد بن معدان ، مکحول اورلقمان بن عامر وغیرہ پندرہویں شعبان کی رات کی تعظیم کیاکرتےتھے، اوراس میں خوب عبادتیں کیاکرتے تھے، انہیں سے لوگوں نے اس رات کی فضیلت وتعظیم کولیاہے ، یہ بیان کیاجاتاہےکہ ان کواس سلسلےمیں چندایک اسرائیلی روایات ملی تھیں ، چنانچہ جب مختلف شہروں میں ان کےاس عمل کی شہرت ہوئی تولوگ اختلاف کے شکارہوگئے،کچھ لوگوں نے ان کی موافقت کی جن میں بصرہ کےعبادت گذارلوگ تھے، اوراکثرعلمائےحجازنےان کی مخالفت  اوران کاردکیا ،جن میں عطاء اورابن ابی ملیکہ ہیں ، اوراسی کوعبدالرحمن بن زیدبن اسلم نے فقہاء اہل مدینہ سےنقل کیاہے ، اورمالکیہ کابھی یہی قول ہے ، یہ حضرات فرماتے ہیں کہ یہ تمام کی تمام(پندرہویں شعبان کی رات کےاعمال)بدعت ہیں ۔
        پندرہویں شعبان کی رات  میں عبادتوں کے طریقہ کےسےمتعلق شام کے علماء کے  دو اقوال ہیں   :
اول : اس رات  جماعت کے ساتھ مسجدوں میں عبادت کرنامستحب ہے ،خالدبن معدان اور لقمان بن عامروغیرہ اس روزبہترین کپڑےپہنتے،دھونی لیتے،سرمہ لگاتے اورمسجدمیں قیام کرتے، حرب کرمانی نے اپنےمسائل کےاندراسحاق بن راہویہ سے نقل کیاہے کہ انہوں نے اس پران کی موافقت کی ہے،اوروہ اس رات جماعت کے ساتھ مسجدوں میں قیام کوبدعت نہیں مانتے۔
دوم :اس رات نماز، قصہ گوئی اوردعاءکےلئےمسجدوں میں اکٹھاہونامکروہ وناجائز ہے، لیکن خاص اپنی خاطر نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے ، یہ قول شام کے جلیل القدر عالم دین ، فقیہ اورامام اوزاعی رحمہ اللہ کاہے ،جوکہ ان شاءاللہ زیادہ مناسب قول ہے" آگےفرماتےہیں :" امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے پندرہویں شعبان کی رات سے متعلق کوئی  بات معروف نہیں ہے ، اوراس رات قیام کے استحباب سے متعلق ان کی عیدین کی راتوں میں قیام کےسلسلےمیں وارد دوروایتوں سے دوروایتیں نکل سکتی ہیں ، کیونکہ (ایک روایت کے اعتبارسے) وہ اس رات باجماعت قیام کو مستحب نہیں سمجھتے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب  رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ہے ،اورعبدالرحمن بن یزیدبن اسودجوکہ تابعین میں سے ہیں کے عمل کی بنیاد پرمستحب سمجھتےہیں ، ٹھیک اسی طرح پندرہویں شعبان کی رات کاقیام ہے،جس سےمتعلق  اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی بھی روایت ثابت نہیں ہے ، جب کہ شام کے فقہاءمیں سے تابعین کی ایک جماعت سے ثابت ہے "۔
  حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کےمذکورہ کلام میں اس بات کی صراحت ہے کہ پندرہویں شعبان کی رات سےمتعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے  کچھ بھی ثابت نہیں ہے ، اورامام اوزاعی رحمہ اللہ کااس  رات انفرادی قیام کرنے کومستحب قراردینااورحافظ ابن رجب کااس قول کواختیارکرناشاذاورضعیف ہے، کیوں کہ ہروہ عمل جس کی مشروعیت شرعی دلائل سے ثابت نہ ہوکسی مسلمان کے لئے جائزنہیں کہ اسےدین میں ایجادکرے، تنہا کرے، جماعت کےساتھ کرے، چھپاکر کرےخواہ ظاہراکرے،کیونکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی قول ہے : "من عمل عملاليس عليه أمرنافهورد" "جوکو‏ئی ایساعمل کرے جودین سے بیگانہ عمل ہوتووہ مردود(ردکیاہوا) ہوگا" ۔
اس کے علاوہ بھی بہت ساری دلیلیں ہیں جوبدعت کےردوانکارپردلالت کرتی ہیں ۔
امام  ابوبکرطرطوشی رحمہ اللہ اپنی کتاب " الحوادث والبدع " کے اندرفرماتے ہیں : ابن وضاح  زیدبن اسلم سےروایت کرتےہیں کہ انہوں نے فرمایا:" ہم نے اپنے مشائخ اورفقہاء میں سے کسی کوبھی  پندرہویں شعبان اورمکحول کی روایت کی طرف توجہ دیتے ہوئے نہیں پایااورنہ ہی اسے دیگرایام پرفضیلت دیتےہوئے پایا"۔
ابن ابی ملیکہ کوبتایاگیاکہ:زیادنمیری کہتےہیں کہ :"پندرہویں شعبان کی رات کا ثواب  قدرکی رات کےثواب کے برابر ہے " توانہوں نے فرمایا:" اگرمیں اسے یہ کہتےہوئے سن لیتااور میرےہاتھ میں چھڑی ہوتی تومیں اسے ضرورمارتا" واضح رہے کہ زیادنمیری قصہ گوتھے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ " الفوا‏ئدالمجموعہ " کے اندرفرماتے ہیں :حديث :" ياعلي من صلى مأية ركعة ليلة النصف من شعبان يقرأفي كل ركعة بفاتحة الكتاب  وقل هو الله أحد عشرمرات قضى الله له كل حاجة ........" "اے علی ! جوشخص پندرہویں شعبان کی رات میں دس مرتبہ سورہ فاتحہ اور" قل ھواللہ أحد" کےساتھ سورکعتیں پڑھےگاتواللہ تعالی اس کی ہرضرورت پوری کردیگا۔۔۔۔" یہ حدیث موضوع ہے ، اس کے الفاظ میں جس ثواب کی بات کہی گئی ہے کوئی بھی صاحب عقل وخرد اس کے موضوع ہونے میں شک نہیں کرسکتا، اوراس کے رجال مجہول ہیں ، یہی روایت دوسری اورایک تیسری سندسےبھی مروی ہے لیکن  کل کی کل موضوع اوران کے رجال مجہول ہیں "۔
مختصرکے اندرفرماتےہیں :" پندرہویں شعبان کی نمازسے متعلق روایت باطل ہے ، اورابن حبان کی علی (رضی اللہ عنہ) والی روایت :" إذاكان ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلهاوصوموا نهارها" "جب پندرہویں شعبان کی رات  آئے تو اس رات قیام کرواوردن میں روزہ  رکھو" ضعیف  ہے۔
اور"اللآلی المصنوعۃ "کے اندرفرماتے ہیں :"سورہ اخلاص کے ساتھ سورکعتوں والی نماز جودیلمی وغیرہ  کی روایت ہے اپنی نہایت فضیلت کے باوجود موضوع ہے ، اوراس کی تینوں سندوں کے زیادہ ترراوی مجہول ضعیف ہیں " ۔
مزیدفرماتےہیں :"بارہ رکعتیں  تیس بارسورہ اخلاص کے ساتھ والی  روایت موضوع ہے  ،   اور چودہ رکعتوں والی روایت بھی موضوع ہے"۔
اس روایت سےفقہاء جیسے صاحب احیاء وغیرہ  نیزمفسرین کی ایک جماعت دھوکا کھاگئی ،  اس رات کی نماز- یعنی پندرہویں شعبان کی رات کی نماز- مختلف سندوں سے مروی ہے جوکہ تمام کی تمام موضوع ہیں ، اوریہ ترمذی کے اندر مذکورعائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت کہ "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمبقیع غرقدجایاکرتےتھے، نیز پندرہویں شعبان کی رات میں اللہ کا آسمان دنیاپرنزول فرمانا، اورقبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرمانا" کے منافی نہیں ہے ، کیونکہ بات اس رات کی اس موضوع ومن گھڑت نماز کی ہورہی ہے ، اس لئے کہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی اس روایت میں ضعف  وانقطاع ہے ۔
اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کی اس رات قیام سے متعلق مذکورہ روایت اس کے اندر ضعف ہونےکی وجہ سے اس نمازکے من گھڑت ہونےکے منافی نہیں ہے ، ،جیسا کہ ہم نے بیان کیا ۔
حافظ عراقی فرماتےہیں :" پندرہویں شعبان کی رات والی نمازاللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  پر گھڑی ہو‏ئی اور جھوٹ ہے " امام نووی " المجموع "کے اندرفرماتےہیں :
"صلاۃ الرغائب کے نام سے معروف نمازجوکہ رجب کے پہلے جمعہ کی رات  بارہ رکعتیں ہیں ، اورپندرہ شعبان کی رات سورکعتیں  دونوں نمازیں بدعت  اورمنکرہیں ، ان کے"قوت القلوب" اوراحیاء علوم الدین " میں مذکورہونےاوران سے متعلق وارد روایتوں سے دھوکا نہیں کھاناچاہئے، کیوں کہ تمام کی تمام باطل ہیں اورنہ ان چندعلماء جن پران کا حکم مشتبہ ہوگیااورانہوں نے ان کے استحباب سے متعلق کئی صفحات سیاہ کرڈالےسے دھوکاکھاناچاہئے، کیونکہ ان کو اس معاملےمیں مغالطہ ہوگیا ہے"۔
امام ابو محمدعبدالرحمن بن اسماعیل مقدسی نے ان کے ردمیں نہایت اچھےاسلوب واندازمیں بہترین کتاب تصنیف کی ہے اوراس ضمن میں اہل علم کی ڈھیرساری تحریریں ہیں ، اگرہم اپنی تمام معلومات کوقلمبندکرناچاہیں توبات بہت لمبی ہو جائےگی، یہ چندسطورجوہم نے تحریرکی ہے متلاشیان حق کے لئے کافی وشافی ہیں ۔
مذکورہ آیات واحادیث اوراہل علم کے کلام سے طالب حق کے لئے واضح ہوجاتاہے کہ پندرہویں شعبان کی رات میں محفل کاانعقادیا نمازوغیرہ اوردن میں خصوصی روزہ اکثراہل علم کے نزدیک بدترین بدعت ہے، جس کی شریعت مطہرہ کے اندرکوئی اصل وحقیقت نہیں ہے ،بلکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بعدکے زمانہ کی ایجادشدہ بدعت ہے ، اس باب میں حق کے متلاشی کے لئے اللہ تعالی کافرمان : {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ } ( المائدۃ : 3 )اوراس معنی کی آیتیں ، اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان :"من أحدث في أمرناهذاماليس منه فَهُوَ رَدٌّ""جس نے ہماری  اس شریعت میں کوئی نئی چیزایجاد کی جواس میں سےنہیں ہے تو وہ لائق ردہے  " اوراس معنی کی روایتیں ہی کافی ہیں ۔
صحیح مسلم کےاندرابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:"لاتخصواليلة الجمعة بقيام من بين الليالي , ولاتخصوا يومها بالصيام من بين الأيام ,إلأأن يكون في صوم يصومه أحدكم ""دیگر راتوں سےقطع نظر جمعہ کی رات کوقیام کےلئے اوردیگر ایام کو چھوڑکرجمعہ کےدن کوروزہ کےلئے خاص مت کرو، البتہ اگرکوئی نفلی روزہ رکھتاہے اوروہ دن پڑجائےتوکوئی بات نہیں ہے "۔
اگرکسی بھی رات کوکسی بھی عبادت کے لئے خاص کرناجائزہوتاتوجمعہ کی رات اس کے لئےزیادہ بہتراورمناسب تھی ، کیونکہ جملہ ایام میں جمعہ کادن  صحیح احادیث کی روشنی میں سب سے افضل اوربہترہے ،لہذا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کوخصوصی قیام سے منع فرمادیاتودیگرایام تو اس ممانعت میں بدرجۂ اولی شامل ہیں ،ہاں اگرعبادت کےلئے کسی رات کی تخصیص صحیح احادیث سے ثابت ہوتو کو‏ئی حرج نہیں ہےجیساکہ لیلۃ القدراوررمضان کی دیگرراتوں سےمتعلق خصوصی روایتیں موجود ہیں ، جن میں اللہ کےرسول نے لوگوں کو قیام وعبادت کی ترغیب دی ہے ،اورخودبھی عبادت کیاہے ،جیساکہ صحیحین کے اندرہےکہ آپ نے ارشادفرمایا:" من صام رمضان إيماناواحتساباغفرله ماتقدم من ذنبه , ومن قام ليلة القدر إيماناواحتساباغفرله ماتقدم من ذنبه"" جس  شخص نے ایمان کی حالت میں اورثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھاتواس کے پچھلےگناہ معاف کردئے جائیں گے،اورجس شخص نے قدرکی رات میں ایمان کی حالت میں اورثواب کی نیت سے قیام کیاتو اس کے پچھلےگناہ معاف کردئےجائیں گے"۔
لہذااگرپندرہویں شعبان کی رات ، رجب کے پہلےجمعہ کی رات،اوراسراء ومعراج کی رات میں محفل سازی یا کسی بھی قسم کی عبادت کی تخصیص ہوتی تو اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کی جانب ضروررہنمائی فرماتےیاخودکرتے، اوراگراس سلسلےمیں کسی بھی قسم کی روایت ہوتی توصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جوخیرالناس اورانبیاءکے بعدلوگوں کو سب سےزیادہ نصیحت کرنےوالے تھےاس کوضرورنقل کرتےاور انہیں  لوگوں سے نہیں چھپاتے۔ رضی اللہ عنهم وأرضاهم ۔
ابھی آپ نے علماء کےکلام میں ملاحظہ کیاہے کہ رجب کے پہلےجمعہ کی رات یا پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت سے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے ، معلوم ہواکہ ان راتوں میں محفل سازی اورکسی بھی قسم کی خصوصی عبادتیں بدترین بدعت اور شریعت میں ایجادشدہ نئی چیزیں ہیں ۔
اسی طرح رجب کی ستائیسویں رات جس کے بارےمیں لوگوں کا اعتقادہے کہ وہ اسراء ومعراج کی رات ہے ،اگریہ بات پایۂثبوت کوپہنچ بھی جائے کہ وہی اسراء ومعراج کی رات ہے توبھی اس میں محفل کاانعقادیا کوئی بھی خصوصی عبادت ناجائزہے ، چہ جائیکہ علماءکے صحیح اقوال کی روشنی میں اسراء ومعراج کی رات نامعلوم ہے ، اورجس نے بھی یہ کہاہےکہ رجب کی ستائیسویں رات اسراء ومعراج کی رات ہے اس کی بات سراسرباطل ومردوداوربےبنیادہے، جس کی صحیح احادیث میں کوئی دلیل نہیں ہے ، کسی نے کیاخوب کہاہے:
                       وخيرالأمورالسالفات على الهدى  
                و شر  الأمور المحدثات  البدائع
(سب سے بہترین اموروہ ہیں جوہدایت وسنت کے مطابق انجام دئےگئےہوں  ، اور سب سے برےوہ ہیں جو(دین میں ) نئی ایجادشدہ ہیں )۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کوسنت پرتمسک اورثبات قدمی اورسنت کے مخالف امورسے اجتناب کی توفیق ارزانی کرے ۔ وصلى على خيرخلقه ونبيه ورسوله  محمد وعلى آله وصحبه أجمعين ۔

*****

  شعبان  وشب براءت سے متعلق روایات کی حقیقت
اسلامی سال کاآٹھواں مہینہ "شعبان" کی پندرہویں شب  کی اہمیت وفضیلت کے تعلق سےمسلمانوں کا ایک بڑاطبقہ افراط کاشکارہے ، اس رات عبادت وریاضت ، شب بیداری اورخوردو نوش کے تعلق سےمختلف بدعات وخرافات انجام دئے جاتےہیں ۔ واضح رہےکہ اس مخصوص رات   کی عبادت اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی اورنہ ہی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں ،البتہ خالدبن معدان متوفی سنہ103 ھ اورمکحول شامی کے متعلق معروف ہے کہ یہ لوگ اس رات خوب عبادتیں کیاکرتےتھے، اورانہیں کے بعدلوگ اس رات کی اہمیت وفضیلت کے بارےمیں اختلاف کاشکارہوگئے۔(دیکھئے : الابداع فی مضارالابتداع /ص:286) لہذابعض لوگوں نے اس رات  کی فضیلت میں مختلف روایات وآثارپیش کئےجنہیں علماء محدثین و محققین نے محل نظربتایا ، ذیل کی سطورمیں ہم اس شب کی فضیلت میں پیش کئے گئے چندروایتوں کا سرسری جائزہ لیں گےاورشعبان سے متعلق صحیح روایات کی طرف اشارہ کریں گےتاکہ حقیقت  کے متلاشی افراد ان سے روشنی حاصل کرسکیں اوراللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی  مقررکردہ حدود سے آگے نہ بڑھیں ،کیونکہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقررکردہ حدوں سے تجاوزعین ضلالت و گمراہی ہے ۔ اللہ ہی ہمیں صحیح راستے کی رہنمائی کرنےوالا ہے :
(1) – " يطلع الله إلى جميع خلقه ليلة النصف من شعبان  فيغفرلجميع خلقه إلا المشرك أومشاحن " وفي رواية "قاتل نفس" بدون "مشاحنیعنی "اللہ تعالی شعبان کی پندرہویں شب کوتمام مخلوقات کی طرف دیکھتاہے اورمشرک اورکینہ پرور(اورایک روایت کے مطابق قاتل)کے علاوہ سب کی مغفرت  فرمادیتاہے " ۔
یہ روایت  انہیں الفاظ  کےساتھ سات صحابۂ کرام سے مروی ہے ، جس کی تفصیل کچھ یوں  ہے :
1 – عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی روایت :  اس روایت کو امام احمدنے مسند(2 :176) میں اورمنذری نے ترغیب وترہیب (رقم :1519) کے اندرروایت کیاہے ۔ اس روایت کی سند میں معروف ضعیف راوی ابن لہیعہ کاوجوداس حدیث کے ضعیف ہونے کے لئے کافی ہے ،جیساکہ ہیثمی نے لکھاہے : "ابن لهيعة لين الحديث وبقية رجاله وثقوا" (مجمع  الزوائد/8 :65) البتہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو رشدین بن سعدکی متابعت کی بناپرحسن قراردیاہے ۔
واضح رہےکہ رشدین بن سعدخودضعیف ہیں ،کیونکہ یہ مناکیر( منکرروایتوں ) کی روایت کیا کرتے تھے، حتی کہ امام ابوحاتم نے ابن لہیعہ کو ان پرمقدم قراردیاہے ۔
 (دیکھئے: الجرح والتعدیل /رقم : 2319،والتقریب /رقم :1953)
2 –   ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت: اس روایت کو ابن ماجہ نے سنن (اقامۃ الصلاۃ /رقم : 1390) میں روایت کیاہے ، اس روایت کی سندتین وجہوں سے معلول ہے ،اول : ابن لہیعہ کی وجہ سے اس کے اندرضعف ہے ، دوم : عبدالرحمن بن عزرب مجہول ہیں ، سوم : اس کی سندکے اندراضطراب ہے ۔
3 – ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت : اسے بزار(مسندبزار/ص:245) نے روایت کیاہے ، یہ روایت ہشام بن عبدالرحمن کی وجہ سے معلول ہے جوکہ مجہول ہیں ، جیساکہ ہیثمی نے لکھاہے : " لم أعرفه " "میں انہیں نہیں جانتا" ۔
4- ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی روایت : اس کو ابن خزیمہ نے "کتاب التوحید" بیہقی نے " الترغیب " اورابن ابی عاصم نےکتاب السنہ (رقم :509) کے اندرروایت کیاہے ، امام بیہقی فرماتےہیں :"لابأس بإسناده""اس کی سندمیں کوئی حرج نہیں ہے "(الصحيحة/3 :137) لیکن اس سندکے اندرعبدالملک بن عبدالملک ہیں جن کے سلسلےمیں امام بخاری فرماتےہیں :"في حدیثه نظر"(اس کی حدیث محل نظرہے " امام ابن حبان وغیرہ فرماتےہیں : " لایتابع علی حدیثه" " اس کی حدیث کی متابعت نہیں کی جاسکتی "اس حدیث کوذکرکرنےکےبعدابن عدی فرماتے ہیں : " هومعروف بهذا الإسناد و لا يرويه عنه غيرعمروبن الحارث وهوحديث منكربهذاالإسناد"(لسان المیزان/4: 67رقم :197) "یعنی (عبدالملک )اس اسنادکے سلسلےمیں معروف ہیں اوراس حدیث کوان سے عمروبن الحارث کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتاہے ،اوریہ حدیث اس سندسے منکرہے " ۔
5 – عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت : اسے بزارنے اپنی مسند(ص : 245) کےاندرذکرکرنےکےبعداس کی سندکوضعیف قراردیاہے،اس روایت کی سند کے اندردوعلتیں ہیں ، اول : ابن لہیعہ کی موجودگی ، دوم : عبدالرحمن بن انعم جنہیں جمہور ائمہ نے ضعیف قراردیاہے ، جیساکہ ہیثمی نے لکھاہے ۔
6 – ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کی روایت :اسے طبرانی نے معجم کبیر(رقم : 590 -593) ابن ابی عاصم نے کتاب السنہ  (رقم : 511) بیہقی نے شعب الایمان (3832) اورمنذری نےترغیب وترہیب (4082)کےاندرروایت کیاہے ،جس کی سندمیں احو‌ص بن حکیم ہیں جوضعیف الحفظ ہیں ۔(مجمع الزوائد /8 :65 ، التقریب /رقم :292
7 –  معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت :اسے طبرانی (معجم کبیر/رقم :215) ، ابونعیم (الحلیۃ/5 : 191) ،ابن حبان (1980) ،ابن ابی عاصم(السنۃ /رقم :512) اوربیہقی (فضائل الاوقات/رقم :22)وغیرہ  نے روایت کیاہے ، اس کی سند میں انقطاع پایاجاتاہے ، کیونکہ مکحول جوکثیرالارسال ہیں ان کا سماع مالک بن یخامر سے ثابت نہیں ہے ۔(دیکھئے: التقریب :6923
شیخ البانی کا حکم اورایک اہم نکتہ
مذکورہ روایت جوسات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ،شیخ البانی  رحمہ اللہ نے متابعات اورشواہدکی بنیادپران میں سے بعض کی سند کوحسن اوربعض کو صحیح قرار دیاہے ، لیکن قابل ذکربات یہ ہے کہ جیساکہ آپ نے ابھی ملاحظہ کیاان میں سے کسی بھی سندکی وہ حیثیت نہیں ہے جس کی بنیادپرتمام اسنادکوبیک زبان صحیح قرار دیا جا سکےاوراس کی بنیادپرکسی مخصوص رات کی   کوئی مخصوص عبادت مشروع قرارپائے ، خاص طورسے جس کوبنیادبناکردین میں بدعات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے ، اگرکھینچ تان کریہ روایت حسن کےدرجہ کوپہنچ بھی جاتی ہے تو آسمان دنیاپرہرروز بلا تخصیص نزول رب اوراعمال کی پیشی سے متعلق دیگرتمام صحیح روایتوں کے پیش نظر شاذقرارپائےگی ۔ 
اس سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت کا بلا کسی تخصیص کے ہر رات کے نصف کوسماءدنیاپرنزول فرمانےسےمتعلق متعددصحیح روایتوں کا موجود ہونا اورکسی مخصوص رات سے متعلق کسی ایک  بھی روایت کا علت سے خالی نہ ہونااپنے آپ میں کچھ معنی ضروررکھتاہے ! چنانچہ قاضی ابوبکرابن العربی فرماتے ہیں کہ :
" شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت وغیرہ میں کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جس پر اعتمادکیاجاسکے" ۔
(2) -  عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت  جس کے اندرہے : "فيهايكتب كل مولودمن بني آدم في هذه السنة وفيها يكتب كل هالك من بني آدم في هذه السنةوفيهاترفع أعمالهم وفيهاتنزل أرزاقهم".(رواه البيهقي في الدعوات الكبير,مشكوة  / رقم  : 1305)
"یعنی پندرہویں شعبان کی شب بنی آدم میں سے اس سال تمام پیداہونے والوں کے بارےمیں لکھا جاتاہے، اوربنی آدم میں سے  اس سال تمام مرنے والوں کےبارے میں لکھاجاتاہے  ، اس رات ان کے اعمال اٹھائےجاتےہیں اوران کی روزی نازل کی جاتی ہے " ۔شیخ البانی فرماتےہیں کہ : " اس روایت کی سندپرمیری واقفیت نہیں  ہوسکی ہے"۔  ( تعلیقہ علی المشکوۃ)                                                                                               
(3) – "إذاكانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلها وصوموا نهارها فإن الله ينزل لغروب الشمس إلى السماء الدنيا,فيقول: ألامن مستغفر فأغفرله ! ألامن مسترزق فأرزقه ! ألامبتلى فأعافيه!ألاكذا!حتى يطلع الفجر"(ابن ماجه/إقامة الصلاة : رقم :1388 عن علي رضي الله عنه)
" جب پندرہویں شعبان کی رات  ہوتورات میں قیام کرواوردن میں روزہ رکھو، کیونکہ اللہ تعالی سورج غروب ہونےپرآسمان دنیاپرتشریف لاتاہے ، اورکہتاہے : ہے کوئی معافی مانگنے والا جسے میں بخش دوں ! ہے کوئی روزی مانگنے والاجسے میں روزی دوں ! ہے کوئی بیمارجسے میں اچھاکردوں ! ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ویسا! یہاں تک کہ فجر کا وقت ہوجاتاہے "۔
اس روایت کی سندمیں ابوبکربن عبداللہ بن ابی سبرہ ہیں جن کے متعلق امام احمد اور یحیی بن معین فرماتےہیں کہ:"یہ حدیثیں گھڑاکرتےتھے"(میزان الاعتدال/4 :503، تقریب/رقم : 8030) شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے ۔ (سلسلہ ضعیفہ / رقم :2132) ۔
(4) -  علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے فرماتے ہیں : " شعبان کی پندرہویں شب کو میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاکہ آپ نے چودہ رکعتیں پڑھیں پھر فراغت کے بعدبیٹھےاور چودہ مرتبہ سورہ فاتحہ ،چودہ مرتبہ سورہ ناس ایک مرتبہ آیۃ الکرسی اورلقدجاءکم ۔۔۔۔الخ پڑھی ، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے آپ سے اس عمل کے بارےمیں پوچھا، توآپ نے فرمایاکہ :"من صنع مثل ذلك لكان له عشرون حجة مبرورة وصيام عشرين سنة مقبولة" "جس نے بھی ایساکیاتواسے بیس حج مبرور اوربیس سال کےمقبول روزےکاثواب ملےگا" ۔
امام بیہقی اس  روایت کی تخریج کرتےہوئے فرماتےہیں :"يشبه أن يكون هذا الحديث موضوعا وهو منكروفي روايته مجهولون" "یہ حدیث موضوع کے مشابہ ہے جبکہ یہ منکرہے اوراس کی سندمیں کئی ایک مجہول راوی ہیں ۔ (دیکھئے: الآثارالمرفوعۃ /ص:80) ۔
(5) – "ياعلي من صلى ليلة النصف من شعبان مائة ركعة بألف "قل هوالله أحد" قضى الله له كل حاجة طلبهاتلك الليلة .... وأعطى سبعين حوراء لكل حوراء سبعون ألف غلام وسبعون ولدان""اےعلی ! جس کسی نےبھی شعبان کی پندرہویں شب کو ایک ہزاربار"قل ھواللہ احد"کے ساتھ سورکعتیں پڑھی تو اس رات وہ جوکچھ مانگےگا اللہ رب العزت اس کی تمام حاجتیں پوری کریگا ،اوراسے سترحوریں عنایت فرمائےگا، جن میں سے ہرحورکے ساتھ ستر ہزارغلام اورستربچے ہوں گے"۔
اس روایت کے سلسلےمیں ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :" سنت نبوی کے علم کی ادنی بوبھی پانے والے پرتعجب ہے کہ وہ اس قسم کے ہذیان وبکواس سے دھوکاکھا جاتا ہے " ۔ (الاسرارالمرفوعہ /ص :440) ۔
شعبان کی پندرہویں شب کی نمازوں سے متعلق متعددروایتیں ہیں جوکہ تمام کی تمام موضوع ومن گھڑت یا منکرہیں ۔ واضح رہے کہ مذکورہ نمازچوتھی صدی ہجری  کے بعدبیت المقدس میں گھڑی گئی اوراس کی فضیلت میں مختلف جھوٹی حدیثیں بھی وضع کی گئیں ۔
(6) – "شعبان شهري ورمضان شهرالله وشعبان المطهر و رمضان المكفر" "شعبان میرامہینہ ہے اوررمضان اللہ کا مہینہ ہے ،شعبان پاک  کرنے والاہے اور رمضان (گناہوں کے لئے ) کفارہ کامہینہ ہے " ۔
یہ روایت دوطریقوں سے مروی ہے ، ایک دیلمی نے بطریق  : حسن بن یحیی الخشنی عن الاوزاعی عن یحیی بن  ابی کثیرعن عائشہ مرفوعاروایت کیاہے ۔(المقاصدالحسنۃ للسخاوي /رقم : 595) اوردوسرا ابن عساکرنے بطریق :جعفربن محمدبن خالدعن ہشام بن خالدبسندہ عن عائشہ روایت کیاہے ۔(مختصرتاریخ دمشق /6 :84) ۔ پہلی سندکا دارو مدارحسن بن یحیی الخشنی پرہے جن کو علماء حدیث نے غیرثقہ اورمتروک قراردیا ہے۔ (دیکھئے : الجرح والتعدیل /1 :2 :44،المجروحین /1 :235، المیزان /1 : 525 ، الضعفاء للدارقطنی /رقم :190) ۔ اوردوسری سندکو شیخ البانی رحمہ اللہ نے" ضعیف جدا" قرار دیاہے ۔ (سلسلہ ضعیفہ / رقم :  3746 ، وضعیف الجامع /رقم :3411
(7) – "رجب  شهرالله وشعبان شهري ورمضان شهرأمتي"رجب اللہ کا مہینہ ہے اورشعبان میرامہینہ ہے اوررمضان میری امت کا مہینہ ہے " اسے دیلمی (مسند/رقم : 3095) نے انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت کیاہے، حافظ عراقی شرح ترمذی میں فرماتے ہیں کہ : " یہ حدیث مرسلات حسن میں سے ہونےکی بناپرنہایت ہی ضعیف ہے " شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تضعیف کی ہے۔(ضعیف الجامع /رقم :3094)  امام شوکانی نے اس روایت کو موضوع  قرار دیاہے
 (الفوا‏ئد المجموعۃ / ص:100) ، نیزامام ابن الجوزی اورعلامہ سیوطی نے بھی اسے موضوع قراردیاہے (دیکھئے : الموضوعات /2 : 205 اوراللآلي المصنوعۃ /2 :114) واضح رہےکہ اس کی سندمیں ابو بکربن حسن النقاش متہم بالکذب ہیں ۔ (دیکھئے :لسان المیزان /رقم : 441) اورکسائی مجہول ہیں ۔
(8)–"فضل شهررجب على الشهوركفضل القرآن على سائر الكلام وفضل شهرشعبان على الشهوركفضلي على سائر الأنبياء""رجب کے مہینہ کی فضیلت ایسی ہی ہےجیسی قرآن کی فضیلت تمام کلا م پہ اورشعبان کے مہینہ کی وہی فضیلت ہے جیسی میری تمام انبیاء پر" (المقاصد الحسنۃ /رقم: 740) حافظ ابن حجررحمہ اللہ  تبیین العجب (ص:14) میں اس روایت کو موضوع قراردیتےہوئے رقمطرازہیں : " اس کے تمام رواۃ بجزسقطی کے ثقات ہیں کیونکہ وہ حدیثیں گھڑنے میں معروف تھا " ۔(نیزدیکھئے: کشف الخفاء للعجلوني/ 2: 85 اورتمییزالطیب من الخبیث /رقم : 919) ۔
(9) –  عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: "إن الله تبارك وتعالى ينزل ليلة النصف من شعبان إلى سماءالدنيافيغفرلأكثرمن عددشعرغنم كلب""اللہ  تبارک وتعالی شعبان کی پندرہویں شب کو آسمان دنیا پرنزول فرماتاہے ، اورقبیلہ کلب کی بکریوں کے بال سے بھی زیادہ کی تعدادمیں لوگوں کی مغفرت فرماتاہے "(ترمذی /کتاب الصوم ، رقم : 739 وابن ماجہ /کتاب اقامۃ الصلاۃ :رقم : 1389 واحمد /6: 238  واللالکائی /1 : 101 ،   وعبدبن حمید/1: 194) ۔
اس روایت کے سلسلےمیں امام ترمذی فرماتے ہیں کہ :" امام بخاری اس روایت کی تضعیف کیاکرتےتھے ، کیونکہ یحیی بن ابی کثیرکا سماع عروہ سے ثابت نہیں ہے ، اورحجاج بن ارطاۃ کا سماع یحیی بن ابی  کثیرسے ثابت نہیں ہے " ۔شیخ البانی نےبھی اس روایت کو ضعیف قراردیاہے۔( ضعیف سنن الترمذی /رقم : 739
 اورقابل ذکربات یہ ہے کہ حجاج مدلس ہیں اوراسے عنعنہ سے روایت کیاہے ۔
(10) - عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت ہے:" كَانَ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُوم ثَلاثَة أَيَّام مِنْ كُلّ شَهْر , فَرُبَّمَاأَخَّرَذَلِكَ حَتَّى يَجْتَمِعَ عَلَيْهِ صَوْم السَّنَة فَيَصُوم شَعْبَان "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ تین دنوں کا روزہ رکھاکرتےتھے، بسااوقات روزوں کو مؤخرکر دیتے  اورجب ایک سال کاروزہ اکٹھاہوجاتاتو شعبان میں رکھ لیتے" ۔
حافظ ابن حجرفرماتےہیں :"یہ حدیث ضعیف ہے ، اسے طبرانی نے اوسط کے اندرابن ابی لیلی کےطریق سے روایت کیاہے،اور ابن ابی لیلی ضعیف ہیں "(فتح الباری /4 :252) ۔
(11) – انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے فرماتےہیں :اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیاکہ :رمضان کے بعد کون ساروزہ  افضل ہے تو آپ نے فرمایا: "شَعْبَان لِتَعْظِيمِ  رَمَضَان"" رمضان کی تعظیم میں شعبان کاروزہ " ۔
اس حدیث کو امام ترمذی نے سنن (ابواب الزکاۃ /رقم :657) امام طحاوی نے شرح معانی الآثار(2 : 83)اورامام بغوی نےشرح السنۃ(6 :629)کےاندر روایت کیاہے ، اورامام ترمذی نے اس روایت کو "غریب " قراردیاہے ،کیونکہ اس کی سندمیں صدقہ بن موسی محدثین کے نزدیک غیرقوی ہیں ، نیزیہ روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مسلم کے اندرروایت کردہ مرفوع وصحیح حدیث کی معارض بھی ہے جس میں ہے :
أَفْضَلُ الصَّوْم بَعْدرَمَضَان صَوْم الْمُحَرَّمِ" "رمضان کے بعدافضل روزہ محرم کاروزہ ہے " (فتح الباری /4 :252) ۔امام منذری نے اس حدیث کی تضعیف کی طرف اشارہ کیاہے (الترغیب /1: 79) اورامام ابن الجوزی نے غیرصحیح قراردیاہے(دیکھئے : العلل المتناھیۃ /رقم : 914) ،اورشیخ البانی نے بھی اسے ضعیف قراردیاہے۔ ( ارواء الغلیل /3 : 397
(12) - عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پورے ماہ شعبان کا روزہ رکھا کرتے تھے ، میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا شعبان کا مہینہ آپ کے نزدیک سب سے پیاراہے کہ آپ اس میں روزہ رکھتےہیں ؟ توآپ نے فرمایا:"إِنَّ اللَّهَ يَكْتُبُ كُلَّ نَفْسٍ مَيِّتَةٍ تِلْكَ السَّنَةَ,فَأُحِبُّ أَنْ يَأْتِيَنِي أَجَلِي وَأَنَا صَائِم" "(اس مہینےمیں ) اللہ تعالی  پورےسال کے مرنے والوں کاحساب کتاب لکھتاہے ، لہذامیں چاہتاہوں کہ میری موت اس حالت میں آئے کہ میں روزہ  سے ہوں "۔
  اس روایت کو ابویعلی نے روایت کیاہے اورشیخ البانی نے ضعیف قراردیاہے ۔
ضعیف الترغیب /رقم : 619) یہی روایت  دوسرے الفاظ کے ساتھ واردہے جس میں ہے " إن الله يكتب على كل نفس منيته تلك السنة""اللہ تعالی    اس سال مرنے والے تمام نفس کی موت(اسی ماہ میں )  لکھتاہے " شیخ البانی نے اس روایت کو منکرقرار دیا ہے ۔( سلسلہ ضعیفہ/رقم : 5086)۔
(13) –  معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "من أحيا الليالي الخمس وجبت له الجنة ليلة التروية وليلة عرفة وليلة النحروليلة الفطر وليلة النصف من شعبان"جس پانچ راتوں میں شب بیداری کی اس کے لئے جنت واجب ہوگئی : ترویہ کی رات  ، عرفہ کی رات  ، قربانی کی رات ، عیدالفطرکی رات اورپندرہویں شعبان کی رات" ۔
اسےابن ابی عاصم نے کتاب السنۃ(1 :224) ابن حبان نے صحیح (الاحسان/7 : 470) طبرانی نے مجمع الزوائد(8 :65)اور امام اصفہانی نے ترغیب کے اندرذکرکیاہے ، اورامام منذری نے ترغیب کے اندرذکرکرنےکے بعداس کے ضعیف یاموضوع ہونےکی طرف اشارہ کیاہے ، اورشیخ البانی نے اسے موضوع قراردیاہے ۔(سلسلہ ضعیفہ/رقم :522
(14) – ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کی روایت کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"خمس ليال لاتردفيهن الدعوة : أول ليلة من رجب وليلة النصف من شعبان وليلة الجمعة وليلة الفطر وليلة النحر"" پانچ راتوں  میں کی گئی دعائیں ردنہیں ہوتیں : رجب کی پہلی رات ، شعبان کی  پندرہویں رات ، جمعہ کی رات، عید الفطرکی رات اورقربانی کی رات " ۔
اس روایت کو ابن عساکرنے تاریخ دمشق(10 :275)  کے اندرذکرکیاہے ،اورشیخ البانی نے اسے موضوع ومن گھڑت قراردیاہے ۔( سلسلہ ضعیفہ/رقم 1452
(15) –  عا‏ئشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"أتاني جبرائيل عليه السلام فقال:هذه ليلة النصف من شعبان ولله فيها عتقاء من النار بعدد شعور غنم بني كلب ولا ينظر الله فيها إلى مشرك ولا إلى مشاحن ولا إلى قاطع رحم ولا إلى مسبل ولا إلى عاق لوالديه ولا إلى مدمن خمر" میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آ‎ ئے اورفرمایاکہ : یہ پندرہویں شعبان کی رات ہے ، اس رات اللہ تعالی قبیلہ بنو کلب کی بکریو ں کےبالوں کی تعداد میں لوگوں کو جہنم سے آزادکرتاہے ، اورمشرک ، کینہ پرور،رشتوں کوتوڑنے والے، ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے والے ، والدین کی نافرمانی کرنے والے اورشرابی کی طرف نہیں دیکھتا" ۔
اسے امام بیہقی نے روایت کیاہے اورشیخ البانی نے اسے ضعیف قراردیاہے ۔
(ضعیف الترغیب /رقم : 620
 اسی معنی کی ایک طویل روایت دوسرےسیاق میں امام بیہقی نے شعب الایمان کے اندرذکرکیاہے جسے شیخ البانی نے دومتروک راویوں کی بناپرحددرجہ ضعیف قراردیاہے (ضعیف الترغیب /رقم :1651
(16) –  عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت ہے :".... هذه ليلة النصف من شعبان إن الله عزوجل يطلع على عباده في ليلة النصف من شعبان فيغفر للمستغفرين ويرحم المسترحمين ويؤخر أهل الحقدكماهم" "یہ پندرہویں شعبان کی  رات  ہے ، اللہ تعالی  پندرہویں شعبان کی رات اپنے بندوں کی طرف دیکھتاہے اورمغفرت طلب کرنے والوں کی مغفرت فرماتاہے اوررحم طلب کرنےوالوں پہ رحم فرماتاہے اورکینہ پرورکوویسےہی چھوڑ دیتاہے "اسے امام بیہقی نے روایت کیاہے اورشیخ البانی نے اسے ضعیف قراردیاہے ۔ (ضعیف الترغیب /رقم : 622
(17) – عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی روایت ہےکا : اللہ کے رسول صلی  اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :"إذاكان ليلة النصف من شعبان نادى مناد: هل من مستغفر فأغفر له ؟ هل من سائل فأعطيه ؟ فلا يسأل أحدشيئاإلاأعطي إلازانية بفرجهاأومشرك" "جب پندرہویں شعبان کی رات ہوتی ہے تو ایک پکارنے والا پکارتاہے :ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والاجسےمیں بخش دوں ؟ہےکوئی مانگنےوالا جسےعطا کروں؟ کوئی کچھ بھی مانگےاسے دیا جاتاہے سوائے زناکارعورت یا مشرک کے "۔ اسےامام بیہقی نے روایت کیاہے اورشیخ البانی نے اسے ضعیف قراردیا ہے۔ (ضعیف الجامع /رقم : 653) ۔
(18) – راشدبن سعد سے مرسلامروی ہے:"في ليلة النصف من شعبان يوحي الله إلى ملك الموت يقبض كل نفس يريدقبضها في تلك السنة"پندرہویں شعبان کی رات میں اللہ تعالی ملک الموت کو اس سال جن روحوں کوقبض کرنے کا ارادہ فرماتاہے ان کو قبض کرنے سے متعلق وحی فرماتاہے "۔
اس روایت کوامام دینوری نے "المجالسۃ " کے اندرروایت کیاہے ، اورامام البانی نے اسے ضعیف قراردیاہے ۔(دیکھئے:ضعیف الجامع /رقم :4019
(19) – انس رضی اللہ عنہ کی روایت ، فرماتےہیں کہ : جب رجب کا مہینہ آتاتواللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے:"اللهم بارك لنافي رجب وشعبان وبلغنا رمضان ۔۔۔۔۔"" اےاللہ رجب اورشعبان کے مہینوں میں ہمارے لئے برکت عطافرمااورہمیں رمضان تک پہونچا۔۔۔۔۔۔۔"۔
 اس روایت کو امام بیہقی اورابن عساکرنے روایت کیاہے اورشیخ البانی نے اسے ضعیف قراردیاہے ۔ (دیکھئے : ضعیف الجامع /رقم :4395
(20) – ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے :"من صلى ليلة النصف من شعبان اثنتي عشرة ركعة يقرأفي كل ركعة "قل هو الله أحد" ثلاثين مرة لم يخرج حتى يرى مقعده من الجنة ويشفع في عشرة من أهل بيته كلهم وجبت له النار""جس نے پندرہویں شعبان کی رات میں بارہ رکعتیں نمازپڑھی ، اورہر رکعت میں تیس مرتبہ " قل ھواللہ احد"پڑھی تونمازسےفارغ بھی نہیں ہوتاکہ اسےجنت میں اس کاٹھکانہ دکھادیا جاتا ہے ، اوراس کے گھروالوں میں سے ایسے دس لوگوں کے سلسلےمیں اس کی سفارش قبول کی جائے گی جن پرجہنم واجب ہوچکی ہوگی "۔
اس حدیث کوامام بزاراورامام ابن الجوزی نے روایت کیاہے ، (دیکھئے:کشف الاستار/3 :436 اورالعلل المتناھیۃ /1: 70) ،اس کی سندمیں عبدالرحمن مجہول اوراعمش مدلس راوی ہیں ، نیزاس میں ہشام کاکوئی متابع نہیں ہے جیساکہ امام ابن بزارنے اس کی وضاحت کی ہے اورامام ابن الجوزی نے اس روایت کی سندمیں متعددمجہول راویوں کی وجہ سےموضوع قراردیاہے ، اورامام ابن القیم اورعلامہ سیوطی نےبھی اسے موضوع قراردیاہے ۔(دیکھئے:المنارالمنیف /ص:99 واللآلی المصنوعۃ /2: 59
(21) –"من قرأليلةالنصف من شعبان ألف مرة"قل هوالله أحد" في مائةركعة لم يخرج من الدنيا حتى يبعث الله إليه في منامه مائة ملك ثلاثون يبشرونه بالجنة وثلاثون يؤمنونه من النار وثلاثون يعصمونه من أن يخطئ وعشر يكيدون من عاداه"۔ "جس نے پندرہویں شعبان کی رات میں سو رکعتوں میں ایک ہزاربار "قل هوالله أحد "پڑھی تووہ دنیاسے اس حالت میں روانہ ہوگاکہ اللہ تعالی اس کی خواب میں سوفرشتے بھیجےگا، تیس جنت کی بشارت دیں گے، تیس اسے جہنم سے بچائیں گے، اوردس اسے اس کے دشمنوں کی سازش سےبچائیں گے " ۔
اس روایت کو امام احمدنے روایت کیاہے (مسنداحمد/2: 176) ، اس روایت کو امام منذری نے ضعیف اورامام ابن الجوزی ، امام سیوطی اورابن عراق نے موضوع قراردیاہے ۔
 (دیکھئے:ترغیب /3: 460 ،الموضوعات الکبری /2: 125 ،تنزیہہ الشریعۃ /2: 93 اوراللآلي المصنوعۃ /2: 59)
صحیح طریقہ  :
      مذکورہ روایات جن کی حقیقت سے آپ واقف ہوچکے ہیں ، کی بنیادپرشعبان اوراس کی پندرہویں  رات سے متعلق مسلم معاشرےکے ایک بڑے طبقہ کے اندربدعات و خرافات کاایک  لامتناہی سلسلہ شروع ہوچکاہے ،قبروں پہ چراغاں کرنا، قوالیوں کی مجلسیں قائم کرنا، قبرستان میں اس رات خصوصی حاضری ، حلوہ مانڈوں پہ فاتحہ خوانی ، کھانے پینے کا خصوصی نظم ، مرووں کی ارواح کی حاضری کاعقیدہ رکھنا، مردوں سے دعاء وفریاد، مسجدوں میں خصوصی عبادات کا نظم  جن کا دین وشریعت سے کو ئی تعلق نہیں ہے جیسے بیشمارواہیات وخرافات اورشرکیہ رسوم انجام دئے جاتےہیں ، جن کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے عہدمیں نام ونشان تک نہیں تھا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اتناثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے علاوہ دیگرتمام مہینوں سے زیادہ ماہ شعبان میں روزہ رکھا کرتےتھے ، جیسا کہ عائشہ ، عبداللہ بن عباس،اورانس بن مالک  رضی اللہ عنہم اجمعین کی روایتوں میں ہے کہ :"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم حتى نقول لايفطر,ويفطرحتى نقول لايصوم"(بخاري / كتاب الصوم : 1969،1971،1973ومسلم / كتاب الصيام: 1156،1157،1158)" اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم (ماہ شعبان میں ) اتناروزہ رکھتےکہ ہم کہتےکہ آپ روزہ چھوڑیں گےہی نہیں اورروزہ نہیں رکھتےتوہم کہتے کہ اب آپ روزہ رکھیں گےہی نہیں " ۔اسی طرح عائشہ رضی اللہ عنہاکی دوسری روایت ہے:"....مارأيته في شهر أكثرصياما منه في شعبان كان يصوم شعبان إلا قليلا".
(بخاري /كتاب الصوم : 1969  ومسلم / كتاب الصيام: 1156 "میں نے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ روزہ رکھتےہوئے نہیں دیکھا، آپ تھوڑاکم شعبان کاپوراروزہ رکھاکرتےتھے۔
اللہ رب العزت تمام مسلمانوں کو اپنے صحیح دین پرچلنے کی توفیق عطافرمائے  ، وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم ۔ آمین  ۔


*****



شعبان میں کی جانے والی بدعتیں
          ذیل میں ہم پندرہویں شعبان میں کی جانے والی ان بدعتوں کا ذکرکررہے ہیں جن کا کتاب وسنت اورنہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعامل سے ثبوت  ہے، بلکہ یہ ساری بدعتیں  بعدکی ایجادہیں جنہیں دشمنان اسلام نے اسلام کے خالص اور صاف وشفاف عقائد واعمال  کو شرک و خرافات سے  داغدارکرنےکے لئے جھوٹی اور من گھڑت روایتوں کا سہارالےکرمسلم معاشروں میں رواج  دےدیا ہے،جنہیں سادہ لوح  اوردینی تعلیم سے نابلدمسلمانوں نے عبادت اور کار خیرسمجھ کر اپنالیاہے ،  اورشکم پرورمولیوں نے اپنی کمائی کا ذریعہ بنالیاہے :
(1) -  قبروں پہ چراغاں کرنا ۔
(2) - اس رات قبرستانوں کی خصوصی زیارتیں  ۔
(3) -  قبروں کی صفائی اورانہیں پینٹ کرنا ۔
(4) – قوالیوں کی مجلسیں قائم کرنا،جن میں شرکیہ اوربدعیہ نظمیں پیش کی جاتی ہیں۔
(5) –   انواع واقسام کے کھانے اورحلوہ  مانڈے  بنانا، اورایک دوسرےکو دعوتیں دینا ۔
(6) -  ان کھانوں پرفاتحہ خوانی  ۔
(7) -  یہ عقیدہ رکھناکہ حلوہ اس لئے کھاتےہیں کہ  احدکی لڑائی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید کردئےگئے تھے اورآپ نے حلوہ نوش فرمایاتھا۔ (اسے  بدترین بدعتوں کی کرشمہ سازی ہی کہیں گے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک   احدکی لڑائی میں شوال میں شہید ہوتےہیں  اورآپ کی امت شعبان کی پندرہویں رات میں حلوہ بازی کررہی ہے ؟؟؟ ) ۔
(8) -   مردوں کی روحوں کی حاضری کا عقیدہ رکھنا۔
(9) - مردوں سے دعاءوفریادکرناجوملت سے خارج کرنےوالااورکفرمیں داخل کرنےوالا شرک ہے ، اللہ تعالی کاارشادہے : {وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهاً آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ} (المؤمنون :117) (جوشخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبودکو پکارےجس کی کوئی دلیل  اس کے پاس نہیں ، اس کاحساب تواس کے رب کے پاس ہی ہے بےشک کافرلوگ نجات سے محروم ہیں ) اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے علاوہ کسی دوسرےکوپکارنے والے کوکافرکہاہے ،نیزفرماتاہے :{إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّهُ عَلَيهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ} (المائدہ : 72) (جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیااس کے اوپراللہ تعالی نے جنت کوحرام کررکھاہے اوراس کا ٹھکانہ جہنم ہے اورظالموں کاکوئی مددگارنہیں ہوگا)۔
(10) -  گھروں اورمسجدوں  میں قرآن خوانی کارواج  ۔
(11) - مسجدوں میں خصوصی عبادتوں کا نظم ۔
(12) -  گھروں اورمسجدوں کو چراغوں ، برقی قمقموں  سے سجاناجو مجوسیوں(آگ پرستوں ) کی مشابہت ہے ۔
(13) -  مسجدوں اورگھروں کو اس رات خصوصی طورپرصاف ستھراکرکے انہیں  اگربتی وغیرہ سے معطرکرنا  ۔
(14) - صلاة الألفية (ہزاری نماز) کا اہتمام ، اس روزلوگ مغرب سے کچھ پہلے مسجدوں میں  اکٹھاہوتےہیں اورسورکعتیں نفلی نمازہررکعت میں دس مرتبہ " قل ھو اللہ احد" کے ساتھ پڑھتےہیں ، اس نماز کی کیفیت امام غزالی نے احیاءعلوم الدین کے اندرذکرکیاہے ،جس سےلوگ دھوکاکھاگئےاوراسےصحیح سمجھ لیاجب کہ یہ نماز دین میں بدعت  ہے اوریہ   تقریباچوتھی صدی ہجری  میں بیت المقدس میں ایجادکی گئی۔
(15) -  پندرہ شعبان کو خصوصی روزہ رکھنا، البتہ اگرکوئی  ہرماہ ایام بیض (تیرہ ،چودہ اورپندرہ  تاریخ ) کاروزہ رکھنےکا عادی ہے تواس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ پندرہ شعبان  کی خصوصیت اس میں باقی نہیں رہتی ۔
(16) – اس رات خصوصی طورپرصدقہ وخیرات کرنا۔
(17) – اس رات مسجدوں میں اکٹھاہوکرتین بارسورہ یاسین اورمولدپڑھنا۔
(18) -  اس رات کو شب قدرسمجھنااورشب قدرکی جوفضیلت ہے اس رات کو دینا، واضح رہے کہ جولوگ  قرآن کریم کی  آیت:{إناأنزلناه في ليلة مباركة  إناكنا منذرين فيهايفرق كل أمرحكيم أمراًمن عندناإناكنامرسلين}(الدخان :3-5) (ہم نےقرآن کریم کوبابرکت رات میں اتاراہے،بےشک ہم ڈرانےوالےہیں، اسی رات میں ہرایک مضبوط کام کا فیصلہ کیاجاتاہےجوہمارا حکم ہوتاہے ، اورہم ہی رسول بھیجنےوالےہیں)سے شب براءت مرادلیتے ہیں وہ واضح غلطی پرہیں ، واضح رہے کہ مذکورہ آیت کریمہ میں اس رات قرآن کریم کے نزول کی بات کہی گئی ہے اور سورہ بقرہ کی آیت 185 کے اندراس بات کی صراحت موجودہےکہ قرآن کریم رمضان کےمہینے میں نازل ہواہے:{شهررمضان الذي أنزل فيه القرآن} (البقرة :185) (رمضان کامہینہ ہی ہےجس میں قرآن کانزول ہوا)اس آیت کریمہ سے واضح ہوجاتا ہےکہ قدرکی رات جس میں قرآن کانزول ہوا رمضان میں ہی ہےنہ کہ شعبان میں ۔
(19) - اس رات کو شب براءت کے نام سے موسوم کرنا کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے چندمن گھڑت اور ضعیف روایتوں کی بنیادپرلوگوں نے اس رات کا نام براءت کی رات رکھ لیاہے جس کا مطلب ہوتاہے جہنم سے رہائی کی رات جس کی دلیل نہ اللہ تعالی نےاتاری ہے اورنہ ہی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے۔
(20) - رمضان کاروزہ شروع ہونےسےایک دن پہلےسلامی،احتیاطی یا استقبالیہ روزہ رکھنا۔ اس روزےسے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے ، ارشادفرماتاہے : لايتقدمن أحدكم رمضان بصوم  يوم أو يومين إلا أن يكون رجل كان يصوم صومه فليصم ذلك اليوم" (بخاری :1815)"تم میں سے کوئی رمضان سے ایک یا دودن پہلےہرگز روزہ  نہ رکھے،ہاں اگرکوئی نفلی روزہ رکھنےکاعادی ہے اوروہ دن پڑ جائے تو کوئی بات نہیں ہے"۔
اللہ تعالی ہمیں صحیح راستےپرچلنےکی توفیق عطافرمائےاوردنیاوآخرت کی کامیابی  سے نوازے، وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم  ۔ آمین  ۔

*****