بدھ، 17 ستمبر، 2014

* قربانی کے احکام ومسائل قرآن وسنت کی روشنی میں *





عرض ناشر
         الحمد لله رب العالمين , والصلاة والسلام على رسوله الكريم , وصلى على آله وأصحابه أجمعين .
أما بعد : ارشادباری تعالی {لئن شكرتم لأزيدنكم} (ابراھیم :7) اورارشادنبوی "لم يشكرالله من لم يشكرالناس" کے تحت ہم سب سے پہلے باری تعالی کےازحد شکرگذارہیں جس کی توفیق اورعنایت سے " امام ابن بازتعلیمی ورفاہی سوسائیٹی " نے اپنے نہایت ہی مختصرمدت قیام کے اندر پانچ پانچ اہم دینی کتابیں شائع کرنےکا شرف حاصل کرلیاہے۔
     سوسائیٹی کی زیرنگرانی یوم اول سے قائم تعلیمی ادارہ بنام " معہد زیدبن ثابت لتحفیظ  القرآن الکریم " میں اب پچاس طلبہ زیرتعلیم ہیں جن کی مکمل کفالت سوسائیٹی  کرتی ہے ۔
      اوراللہ کے فضل سےاب سوسائیٹی کےزیراہتمام دینیات اور عربی کی تعلیم کا بھی انتظام ہوگیاہے۔ اس شعبے کو جھارکھنڈ کے معروف مدنی فاضل شیخ عبداللہ محمدسلیمان کی خدمات حاصل ہوگئیں ہیں ۔
سوسائیٹی کے شعبۂ نشرواشاعت نے اب تک صحیح اسلام کی نمائندہ چار کتابیں شائع کی ہیں جن میں "بدعات اوران کی ہلاکت خیزیاں " (مولفہ شیخ عبدالسلام صلاح الدین مدنی )بہت ہی اہم کتاب ہےجوساڑھےتین سوصفحات پرمشتمل ہےاوربدعات کے موضوع پرایک انسائیکلوپیڈیاکی حیثیت رکھتی ہے۔
   والحمدللہ آج "قربانی " کے موضوع پرشیخ عبدالعلیم عبدالحفیظ سلفی کی کتاب پریس کے حوالہ کی جارہی ہے، یہ کتاب ایک اہم دینی فریضہ قربانی کے فضائل واحکام ومسا‏ئل پرایک معتبردستاویزکی حیثیت رکھتی ہے ، جوصرف قرآ ن کریم اور صحیح احادیث اورصحیح اسلام کے نمائندہ ترجمان علماء سلفیت کے صحیح اقوال کی روشنی میں ترتیب دی گئی ہے ، مقصد یہ ہے کہ امت مسلمہ اس عبادت کو اللہ اوررسول کے بتائے ہو‏ئے طریقے پرانجام دے سکےتاکہ اس کی یہ عبادت اللہ کے نزدیک  قبولیت حاصل کرسکے، اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ ہم سب کو ہماری ساری عبادتوں میں  اخلاص اور کتاب وسنت کےمطابق اداکرنےکی توفیق دے،اورکتاب کےمؤلف ناشراورتمام معاونین کو سعادت دارین سے نوازے ، قارئین کرام سے دعاء کی درخواست کے ساتھ کتاب کے اندررہ جانے والی کسی غلطی کی اطلاع کی بھی درخواست ہے تاکہ آئندہ اشاعت میں اس کی اصلاح کی جاسکے – وآخردعوانا ان الحمدللہ رب العالمین  ۔
                                                                خیراندیش
                                                              محمد کلیم انورتیمی 


*******
بسم الله الرحمن الرحيم

تقدیم
   الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على أشرف المرسلين , وعلى آله وأصحابه أجمعين ,وعلى من تبعهم بإحسان إلى يوم الدين , وبعد :
فأعوذبالله من الشيطان الرجيم , بسم الله الرحمن الرحيم:{لكل أمة جعلنامنسكاً هم ناسكوه}(الحج :67) وقال:{ لن ينال الله لحومها ولا دمائها ولكن يناله التقوى منكم }(الحج :37) وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم :" من وجد سعة فلم يضح فلا يقربن مصلانا"( ابن ماجة  : أضاحي 2/حسن)
        قربانی (ذبیحہ بطورعبادت وتقرب الہی ) ہرقوم وملت کے اندرپائی جاتی ہے ، فرق یہ ہے کہ اسلام یا اسلام سے پہلےکی شریعتوں میں قربانی بطورعبادت اورتقرب الہی کے پائی جاتی ہے ، جب کہ مشرک قوموں میں اپنے بتوں کے اوپرچڑھاوےکے طورپرانجام دی جاتی تھی اورآج بھی دی جاتی ہے۔
اسلام دین توحیدوفطرت ہے ، اس لئے اس نے ایک طرف جہاں قربانی کوایک انسانی فطرت (سالانہ جشن وتہوار) کی تسکین کا سامان بنادیاہے وہیں توحیدکے تقاضوں کا ایک مظہربھی بنادیاہے، یعنی قربانی اسلام میں صرف اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہےجس کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقے ہی پرانجام دیاجاسکتاہے ، یہی وجہ ہے کہ دنیاکے ایک موحداعظم ابراہیم علیہ السلام کی یادگارکے طورپراس کومشروع فرمایاہےکہ ہم مسلمان جہاں پرب وتہواروجشن منائیں وہیں آنحضرت کی توحید کی خاطربے مثال قربانیوں اورفداکاریوں کواپنی زندگی میں ڈھالنے کی کوشش کریں ۔
جیساکہ اوپرمذکورہواقربانی کو عبادت  اللہ  نے بنایاہے اس لئے اس کا طریقہ بھی اللہ نے دیاہے اور اللہ کی طرف سے اس  کے آخری رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم  نے امت کواس کی تفصیل بتائی ہے ، اس لئے اگرہمیں اپنی اس عبادت کو بارگاہ الہی میں قبول کرواناہے تو اس بابت طریقۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانکاری حاصل کرنی ہوگی ، ورنہ ہماری یہ عبادت یاتوریاکاری (شرک اصغر) کی نذرہوجائےگی یا بدعات وخرافات کے سبب رائیگاں ہوجائےگی ۔
زیرنظررسالہ قربانی کے صحیح فضائل واحکام ومسائل کے بیان کے لئے ترتیب دیاگیاہے ، جومختصرہے اورنہایت ہی مرتب اورمرکزہے اور قرآن وسنت سے ثابت صحیح اورپختہ حوالوں اورقرآن وسنت کے حقیقی ترجمان علماءسلف وخلف کے اقوال سے مزین ہے ، یہ اس لائق ہے کہ نہ صرف اردو بلکہ دیگرزبانوں میں بھی شائع کیاجائے تاکہ علماء کےساتھ ساتھ عوام الناس بھی اس کی روشنی میں اپنی اس عبادت کوانجام دےکرعنداللہ اس کوقبولیت کے شرف سے مشرف ہونے کےلائق بناسکیں ، اللہ تعالی مؤلف عزیزکو جزاء خیردے،اسی کے ساتھ اس کی اشاعت کا بیڑا اٹھانے والے اخوان کو بھی صحیح دین کی اشاعت کے اجرسے نوازے ۔ آمین ثم آمین۔
                                       خیراندیش : احمدمجتبی سلفی مدنی
                                       رکن مجلس علمی دارالدعوۃ دہلی
                                                18 /10 1432ھ
                                                  17/9/2011ء           

******
تمہید
          الحمد لله رب العالمين، والعاقبة للمتقين، وصلى الله وسلم على عبده ورسوله نبينامحمد،وعلى   آله وأصحابه أجمعين  , أما بعد :
     قربانی دین کےشعائرمیں سےایک اہم شعار اوراس کی عبادتوں میں سےایک اہم عبادت ہےجس کاحکم اللہ رب العزت نےدیاہے، اوراس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےاسے"سُنّتِ ابراہیمی " سےتعبیر کیاہے آپ نےخود قربانی کیااورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کوبھی اس کی تاکید فرمائی  ۔  
 انس بن مالك رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کےمتعلق فرماتے ہیں : "كان يضحّي بكبشين أملحين أقرنين ويسمّي ويكبّر ويضع رجله على صحافهما"(بخاري : الأضاحي/14 (5565) ومسلم : الأضاحي /3 (1966) ) آپ دو" أملح" (جس کےجسم میں سفیدی سیاہی سےزیادہ ہو) بکروں کوذبح کرتے تھے،(ذبح کےوقت ) اللہ کانام لیتے ، تکبیرکہتے اوران کےکندھوں پر پاؤں رکھتے " اورمسلم کی روایت میں ہے:"اورآپ"باسم الله والله أكبر"کہتےاور مسلم ہی  کی ایک روایت میں  عائشہ  رضی الله عنها سےمروی ہے :
 " أمر بكبش أقرن يطأ في سواد ويبرك في سواد وينظر في سواد فأتى به ليضحي به فقال لها:" يا عائشة ! هَلُمِّي المُدْية ",ثم قال:"اشحذيهابحجر" ففعلت ثم أخذها وأخذ الكبش فأضجعه ثم ذبحه ثم قال:"بسم الله اللهم تقبّل من محمد وآل محمد و من أمة محمد ثم ضحى به"( مسلم : الأضاحي/ 3  (1967) "ایک سینگ داربکراآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمنگایا جس کے پاؤں , پیٹ اورآنکھوں کے گوشے سیاہ تھے، جب اسےآپ کےپاس لایاگیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :" اے عائشہ چھری لو اور اسے پتھرپرتیزکرکےلاؤ"میں نےجب اسےتیزکردیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لیااور بکرے کولیااوراسے ذبح  کیا اورفرمایا : "اے اللہ! محمد کی طرف سے اورمحمد کےآل کی طرف سے اورمحمد کی امت کی طرف سےقبول فرما  "
     ذوالحجہ جیسےمبارک مہینےمیں جن لوگوں کوحج کی استطاعت نہیں ہوتی یا وہ کسی وجہ سے حج نہ کرسکتےہوں ان کےلئےقربانی نیکیوں کی کمائی کا بہترین ذریعہ ہے۔
    اس ماہ میں قربانی اوردیگرعبادات وامورسےمتعلق کتاب وسنت اور آثارصحابہ میں بہت سارا تفصیلی مواد موجود ہے،میں نےاس مختصرکتابچہ کے اندر انہیں احکام کے بنیادی مسائل کو نہایت ہی اختصارکے ساتھ  پیش کرنے کی کوشش کی ہےتاکہ عام آدمی بلاکسی مشقت کےقربانی جیسی اہم عبادت کوسنت کے مطابق ادا کرسکے، نیز قربانی سے متعلق کچھ  ایسے امورجو عوام الناس میں رائج ہیں لیکن قرآن و سنت اور تعامل صحابہ سےان کاثبوت نہیں ہے، ان کوبھی ذکرکردیا ہےتاکہ لوگ ان کی حقیقت سے آشنا ہو جائیں اوراپنےاعمال پرنظرثانی کرکے ان کوکتاب وسنت کےموافق کرسکیں   ۔
ان مختصرکلمات کےاخیرمیں ہم   اس کتاب کی تیاری کی توفیق پراللہ رب العزت کےبےپناہ شکرگذاراوردین متین کی مزید خدمت کےطلبگارہیں اس موقع سےاپنےمربی ومشفق  استادمحترمفضیلۃ الشیخ العلّامہ احمدمجتبی السلفی المدنی/ حفظہ اللہ کاشکریہ اداکرتےہیں جنہوں نے کثرت شغل کےباوجود اپنے قیمتی اوقات میں سےتھوڑاوقت نکال کراس کتاب کامراجعہ کیا اورقیمتی مشوروں سےنوازہ ۔  فجزا ہ اللہ خیراً۔
اس موقع سےبرادرمکرّم شیخ کلیم انورالمدنی/سلمہ اللہ کاشکریہ نہ اداکیا جائےتو ناشکری ہوگی جنہوں نے اس کتاب کی طباعت واشاعت کابیڑااٹھایاہے اللہ تعالی ان کواوران کےمعاونین کوجزائےخیردے اوراس کابہترین بدلہ عطافرمائے اوراس کتاب کومسلمانوں کےلئےنفع بخش اورمؤلف ، ناشر، جملہ معاونین اوران کےوالدین اوراساتذہ کےلیے ذخیرۂ آخرت بنائے  ۔
وصلى الله على خيرخلقه وسلم وعلى آله وصحبه أجمعين .
عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی
                المكتب التعاوني للدعوة والإرشاد وتوعية الجاليات
                 محافظة يدمة منطقة نجران مملكت سعودي عرب
Email : abdulaleemsalafi1@gmail.com

*********
قربانی کی تعریف
     قربانی کےلئے عام طورسےنصوصِ احادیث میں لفظ أضحية " وارد ہوا ہے،اصمعی کےقول کےمطابق  اس  کوچار طرح سے پڑھا گیاہے ، جیساکہ جوہری نے نقل کیاہے   :
أضحية :   ہمزہ کے پیش کے ساتھ ۔
إضحية ہمزہ کے زیرکےساتھ ان دونوں کی جمع أضاحی " آتی ہے ۔
ضحِيّة : اس کی جمع " ضحایاآتی ہے ۔
أضحاة : جس کی جمع أضحی" آتی ہے ،اسی سے"يوم الأضحی " کانام پڑاہے (الصحاح للجوهري مادة " ضحا" ( 6 /2407 ) ، نیزدیکھۓ :  لسان العرب ( 8/29-30 ) مادة " ضحا "  اور تاج العروس (19/615-616) مادة  " ضحو ".
     امام نووی نےتحریرالتنبیہکے اندرقاضی عیاض  کےحوالہ سے قلمبند کیا ہے اوراہل لغت نے اسےذکرکیاہےکہ:قربانی کا نام"أضحيةاس لئے پڑاکہ اس کی ادائیگی بوقت ضحی کی جاتی ہے اور"ضحی"دن چڑھنےکوکہتے ہیں(دیکھئے : المصباح المنير( ص359  )) ۔
    واضح رہےکہ اس دن کوبہت سارے  لوگعیدالضحی" کہتے اور لکھتےہیں لیکن یہ قواعد اورمعنی کے اعتبارسےصحیح نہیں ہے ۔
قربانی شریعت  کی اصطلاح میں
فقہاء نے قربانی کی مختلف تعریفیں کی ہیں جن میں چندکاذکرذیل میں کیا جارہا ہے: 
1 -  هي ما يذبح من النعم تقرّباً إلى الله تعالى من يوم العيد إلى آخر أيّام التشريق "
( دیکھئے :  مغني المحتاج ( 6/122 ) الإقناع  (2/277 )) " نعم  (مخصوص جانوروں ) میں سےجسے اللہ تعالی کے تقرب کی خاطرعیدکےدن سےلیکرایّام تشریق کے آخرتک ذبح کیا جائے  وہ  أضحیۃ  ( قربانی ) ہے " ۔
2 – هي اسم لحيوان مخصوص بسنّ مخصوص يذبح بنية القربة في يوم مخصوص عند وجود شرائطها وسببها " (دیکھئے :   أنيس الفقهاء ( ص279 ))
أضحیۃ (قربانی) مخصوص عمرکےمخصوص جانورکانام ہے جسے اس کےشرائط واسباب کےپائےجانے پرمخصوص دن میں تقرب کی نیت سے ذبح کیاجاتاہے"۔
3 –هي  ذبح  حيوان  مخصوص  بنية القربة  في وقت مخصوص"(دیکھئے :الدر المختار شرح تنوير الأبصار( 6/312 )) "تقرب کی نیّت سےمتعین وقت میں کسی خاص جانور کوذبح کرنےکانام   أضحیۃ (قربانی) ہے " ۔
4 – اسمٌ لما يُذكى من النَّعم تقرباً إلى الله تعالى  في أيام النحر بشرائط مخصوصة "
( تفصیل کےلئے دیکھئے : الموسوعة الفقهية  (5/74)نعم ( متعین جانوروں ) میں سےجو جانور ایاّم نحر(قربانی کےدنوں ) میں اللہ سےتقرب کی خاطرمخصوص شرائط کےساتھ ذبح کیاجائےاس کانام  أضحیۃ  ( قربانی) ہے  "
 خلاصہ یہ کہ  اللہ رب العزت کی خوشنودی اورتقرّب کےلئے یوم النحر اور ایام تشریق (11 ، 12 ، 13 ذی الحجہ ) میں اونٹ ، گائےاوربکری جیسے جانوروں کوقربانی کےشرائط کوملحوظ خاطررکھتےہوئے ذبح کرنےکانام قربانی ہے ۔ لہذابیچنے، محض کھانےاورمہمان نوازی کی خاطرکی گئی قربانی کوقربانی نہیں کہاجائےگااگرچہ اسےقربانی کےدنوں میں ہی کیوں نہ ذبح کیاگیا ہو ، اسی طرح قربانی کےایّام اورمتعین اوقات کے سوا ذبح کیاگیا جانور قربانی نہیں ہےاگرچہ اسےتقرّباالی اللہ ہی کیوں نہ ذبح کیاگیا ہو۔
بعض  غلط فہمیوں  کاازالہ
عوام میں ایک غلط فہمی عام ہے کہ قربانی اورحج میں کئے جانےوالے ھدي کو ایک سمجھاجاتاہے حالاں کہ ھدي اورقربانی دونوں الگ الگ چیزیں ہیں ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں :" ماذبح بمنى و قد سيق من الحل إلى الحرم فإنه هدي, سواءً كان من الإبل أوالبقرأو الغنم,ويسمى أيضاًأضحية بخلاف مايذبح يوم النحربالحل فإنه أضحية وليس بهدي"( مجموع فتاوی ابن تیمیہ (26/137) نیزدیکھۓ : الاختبارات (ص120)ہروہ جانورجسےحل سےحرم میں لاکر منی میں ذبح کیاگیاہو، وہ اونٹ ہوگائےہو خواہ بکری ہووہ ھدي ہے،اسے أضحیۃ بھی کہاجاتاہے ، برخلاف اس جانور کےجوقربانی کےدن حل میں ذبح کیاجاتاہے وہ (صرف ) أضحیہ ( قربانی) ہے ھدي نہیں  "
علامہ ابن عثیمین فرماتےہیں : " الهدي أعم من الأضحية لأن الأضحية لاتكون إلامن بهيمةالأنعام وأماالهدي فيكون من بهيمة الأنعام ومن غيرها، فهو كل مايهـدى إلى الحرم " (الشرح الممتع على زادالمستقنع (7/453))
ھدي أضحیۃ سےعام ہے کیوں کہ أضحیة صرف بھیمۃالانعام ہی سےجائزہے جبکہ ھدي بھیمۃ الانعام اوراس کےعلاوہ سےبھی جائزہے، لہذاھدي ہر اس  شیئ کوکہتےہیں جسے حرم میں لایاجائے " 
    یہاں پرواضح رہےکہ قربانی ان خالص عبادتوں میں سےایک ہےجوصرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کے لئے کی جاتی ہیں اورجن کا غیراللہ کے لئے کرنا آدمی کومشرک بنادیتاہے ، اللہ تعالی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:{قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ  لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ} (الأنعام 162 - 163)
( آپ فرمادیجئے کہ میری نمازاورمیری قربانی اورمیرا جینا اورمیرامرنایہ سب خالص اللہ رب العالمین کےلئے ہے، اس کاکوئی شریک نہیں ہے، اورمجھے اسی کاحکم دیاگیاہے، اورمیں اللہ کاپہلافرمانبرداربندہ ہوں ) لہذا بتوں کےلئے اور مزاروں ، میلوں اورٹھیکوں کےاندرقربانی کرنایاان کے لئے نذرونیازغیراللہ کےلئے قربانی کرنےکے زمرہ میں آتاہے، جو گناہوں میں سب سےبڑاگناہ ہے، اورجس سےبچنا ہر مسلمان پرواجب ہے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا :لعن الله من ذبح لغير الله"( صحيح مسلم  : الأضاحي/ 8 (  1978 )جس نےغیراللہ کےلئے ذبح کیااس پراللہ کی لعنت ہو "
اوراللہ تبارک وتعالی ارشادفرماتاہے : {إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ }(البقرة 173) (اللہ تعالی نےتم پرمُردار، خون ، خنزیر کاگوشت  اوراس جانورکوحرام کردیاہےجسے غیراللہ کےنام سے ذبح کیاگیاہو"
اسی طرح بعض حضرات قربانی میں بعض جانوروں میں شرکت کےجواز پراستدلال کرتےہوئےعقیقہ میں بھی ان میں شرکت کوجائزقرار دیتے ہیں جس کاثبوت کتاب و سنت سےقطعی نہیں ہے کیونکہ ھدي کی طرح  عقیقہ بھی قربانی سے الگ عمل ہے جس کےالگ احکام وامورہیں ، ان تینو ں میں اگرکائی چیزمشترک  ہے تویہ کہ ان کےاندراللہ کےلئےجانورکوذبح کیاجاتاہے،اس لئےعقیقہ میں کسی بھی جانورمیں شرکت کرنےسےاحتراز کرناچاہئے کیونکہ اس کے اندرایک نفس کی طرف سےایک جانورکوذبح کرنامشروع ہے ۔ اللہ تعالی ہماری عبادتوں کوخالص کتاب وسنت کےمطابق بنائے ۔ آمین ۔
قربانی کی مشروعیت
     کوئی بھی دینی وشرعی عمل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےافعال واعمال کی موافقت کےساتھ مشروط ہے، ہروہ شرعی عمل جوسُنتِ رسول سےثابت ہے امّت کا ہرفرد حسب استطاعت وجوبًایا استحباباً اس کے کرنے پر مکلف ہے ،اور جس کاثبوت سنّت  نبوی سےنہیں وہ قابل ردّوتردید ہے ،  اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :من عمل عملاً ليس عليه أمرنافَهُوَرَدٌّ" (بخاری: البیوع /60 (4/448) والاعتصام /20 (13/387تعلیقا، ومسلم: الاقضیة / 8 (1718/18))  "  جس نےکوئی ایساعمل کیاجوہماری سنت سےثابت نہیں ہے تووہ قابل ردہے "اور فرمایا : "من أحدث في أمرناهذاماليس منه فَهُوَرَدٌّ "( بخاری : الصلح/ 5 (5/370) رقم (2697) ومسلم : الاقضیة8 (1718/17)جس نےہماری اس شریعت میں کوئی نئی چیزایجاد کی جواس میں سےنہیں ہے تو وہ لائق ردہے  "
    قربانی بھی انہیں شرعی امورمیں سے ہےجن کی پوری تفصیل و وضاحت سنت نبوی میں موجود ہے، اور یہ وہ  قربانی ہےجسے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت ابراہیمی سےتعبیرکیاہے،کیونکہ یہ وہ تاریخی قربانی ہےجسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے پیش کیا تھا، اوراللہ رب العزت نےان کی اس عظیم قربانی کو قیامت تک کے لئے  یادگار بنا دیا اور {وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ}(  الصافات107 ) (ہم نے ایک بڑاذبیحہ اس کےفدیہ میں دےدیا) فرماکراس سنت ابراہیمی کوقربِ الہی کاایک اہم ذریعہ اور عیدالأضحی کاسب سے پسندیدہ عمل قرار دیدیا  ۔
قربانی کی مشروعیت کی حکمت
   
یوں توقربانی کی بے شمارحکمتیں ہیں لیکن ان میں سے چندبنیادی حکمتیں مندرجہ ذیل ہیں :
1 – اللہ رب العزت کاتقرّب : قربانی دیگرعبادتوں کی طرح ایک عبادت ہے جو صرف اللہ رب العزّ ت کےلئےخاص ہےاس کےعلاوہ کسی دوسرے کےلئے چھوٹی بڑی کسی بھی قسم کی قربانی شرک اکبر  کے درجہ میں آتی ہے ، یہ قربانی اللہ کی عبادت اوراس کی قربت کےحصول کابہترین ذریعہ ہے، اللہ تعالی اس کاحکم دیتے ہوئےفرماتاہے: {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ } (الكوثر2)  (اپنےرب کےلئےنمازپڑھ اورقربانی کر)
 نیز ارشاد فرماتاہے  :  {قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ  } (الأنعام 162)  (آپ فرمادیجئےکہ بالیقین میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینااورمیرا مرناسب خالص اللہ ہی کے لئے ہےجو سارےجہاں کا مالک ہے )
"نسك "کہتےہیں کسی جانورکےذبح کےذریعہ اللہ تعالی کاتقرّب حاصل کرنے کو۔
2 – امام المؤحّدین ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاة والسلام کی بے مثال قربانی کےجذبےسےپیش کردہ سنتِ عظیمہ کااحیاء جنہوں نےاطاعت وفرمانبر داری کابےمثال نمونہ پیش کرتےہوئے اپنےبیٹے اسماعیل علیہ الصلاة والسلام کوذبح کرنےکےلئے پہلوکےبل لٹادیاتھاجس کےبدلے میں اللہ ربّ العزّت نےان کےاس عظیم کارنامےکوقیامت تک کےلئےتابندہ کردیا ۔
3 – عید کےدن آل واولاد پرکشادگی ۔
4 – قربانی کےگوشت اورچمڑہ کےذریعہ فقراءاورمساکین کےدرمیان فرحت وشادمانی کوعام کرنا۔
5 – اللہ کاشکریہ اداکرناکہ اس نےان جانوروں کوہمارےلئےسہل الحصول اور پاک وطیّب بنایاہےجس سےزندگی کی ساری آسائشیں برآتی ہیں ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے  : {فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ   لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ}(الحج36-37)  (اس میں سےکھاؤاورمسکین سوال سےرکنے والوں اورسوال کرنےوالوں کوبھی کھلاؤ، اسی طرح ہم نےچوپایوں کو تمہارےماتحت کردیاہےکہ تم شکرگذاری کرو، اللہ تعالی کو قربانیوں کےگوشت پہنچتے ہیں نہ ان کےخون بلکہ اسے تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے، اسی طرح اللہ نےان جانوروں کو تمہارامطیع کردیاہےکہ تم اس کی رہنمائی کےشکریےمیں اس کی بڑائیاں بیان کرواورنیک لوگوں کو خوشخبری  سنا دیجئے )
قربانی کاحکم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہسےمروی ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا :"من كان له سعة ولم يضحّ فلايقربنّ مصلاّنا"( رواه أحمد(2/312) وابن ماجة :  الأضاحي /1 رقم (3123) والحاكم (4/258) امام ذہبی نے ان کی موافقت  کی ہے اور شیخ  البانی نے اسےحسن قرار دیاہے، دیکھئے  :صحيح  سنن  ابن ماجة رقم ( 2532 ))" جو وسعت کےباوجودقربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کےقریب نہ آئے "
      جمہوراہل علم کےنزدیک قربانی صاحب استطاعت کےلیے سنّت مؤکدہ ہےجس کاچھوڑناان کےلئےمکروہ ہے ، شافعیہ کاایک قول بھی یہی ہے، ان کاایک دوسراقول فرض کفایہ کابھی ہے، امام ابوحنیفہ سےمنقول ہےکہ مالدار مقیم پرقربانی واجب ہے ، امام مالک کی ایک روایت بھی یہی ہے البتہ وہ مقیم کی قید نہیں لگاتے،امام اوزاعی ، امام ربیعہ اورامام لیث سے بھی یہی منقول ہے حنفیہ میں سےامام ابویوسف اورمالکیہ میں سےامام اشہب نے جمہورکی موافقت  کی ہے، امام احمد فرماتے ہیں  کہ : " مستطیع کےلئے اس کا چھوڑنا مکروہ ہے " ان سےایک قول وجوب کےسلسلےمیں بھی واردہے، محمد بن الحسن سےمروی ہےکہ قربانی سنت ہےجس کوچھوڑنے کی رخصت واجازت نہیں ہے، امام طحاوی کہتےہیں کہ ہم اسی کواختیارکرتےہیں کیوں کہ اس کےوجوب سےمتعلق آثارنہیں ہیں (دیکھئے  :  فتح الباری  (10/3 ) نیز دیکھئے  : عون المعبود (7/344)) ۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سےمروی ہےکہ : " قربانی سنت معروفہ ہے" (دیکھئے  :  البخاری :  الأضاحی/ 1( 10 /3 ))
 امام ترمذی نےجبلہ بن سحیم سےروایت کیاہےکہ ایک آدمی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسےقربانی سے متعلق سوال کیاکہ : کیاقربانی واجب ہے؟ توانہوں نےفرمایا :ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمون" (الترمذی :  الاضاحی/ 11  (1506) (علامہ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے)" اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نےاورمسلمانوں نےکیاہے" امام ترمذی فرماتےہیں : " یہ حدیث حسن ہے اوراہل علم کےنزدیک اسی پرعمل ہے کہ قربانی واجب نہیں ہےبلکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں  میں سےایک سنّت ہےجس پرعمل مستحب ہے "                
قربانی کس کےحق میں مشروع ہے ؟
        حنفیہ کےنزدیک قربانی اس آدمی کےحق میں مشروع ہےجواپنی اصلی  ضروریات سے زیادہ اور نصاب زکاۃ کا مالک ہو  ، ان کی دلیل حدیث :"من كان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا" (رواه أحمد(2/ 312 ) وابن ماجة : رقم ( 3123 ) والحاكم ( 4/258)  ووافقه الذهبي و حسنه الألباني في صحيح سنن ابن ماجة ( رقم 2532)جو وسعت کےباوجودقربانی نہ کرےہووہ ہماری عیدگاہ کےقریب نہ آئے"  ہے(دیکھئے  تبيين الحقائق( 6/3 )  بدائع الصنائع (4/196 )  حاشية ابن عابدين (6/312 ) )
مالکیہ کےنزدیک ایسےآدمی کےحق میں مشروع نہیں ہے جس کےپاس اس سال کاپوراخرچہ نہ ہوکیونکہ ایساآدمی فقیرکےحکم میں ہے(دیکھئے بلغة السالك (1/286 )  الذخيرة (4/142 )) اورجس کے پاس قربانی کی قیمت نہ ہو وہ قربانی کرنےکےلئےقرض یاادھارنہیں لےگا (دیکھئے  شرح الخرشي ( 3/33 ))
اورشافعیہ کےنزدیک ایسا آدمی جس کےپاس ایک دن اورایک رات کا خرچہ اورعیدکےدن اورایاّم تشریق میں پہننےکےلئے کپڑےہوں  اس کے لئے قربانی مشروع ہے (دیکھئے مغني المحتاج (6/123 ) الإقناع (2/278 ))  
     اورحنابلہ کےنزدیک جوآدمی قربانی کاجانورخریدنےکی وسعت رکھتا ہو اس کےحق میں قربانی مشروع ہے، اگروہ قرض کی ادائیگی کی طاقت رکھتاہے تو قرض لیکربھی قربانی کرسکتاہے(دیکھئے  كشاف القناع ( 3/18)) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"إن كان له وفاءفاستدن مايضحي به فحسن,ولايجب عليه أن يفعل ذلك"( مجموع فتاوى شيخ الإسلام (26/305 )) " اگروہ قرض کی ادائیگی کی طاقت رکھتا ہےاورقربانی بھرکاقرض لیکرقربانی کرتاہےتویہ بہترہے، لیکن ایسا کرنااس کےلئے ضروری نہیں ہے"  سماحۃ  الشیخ ابن بازرحمہ اللہ کارجحان بھی اسی کی طرف ہے -             
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت میں قرآن و حدیث میں ڈھیر ساری دلیلیں موجود ہیں ، ذیل میں ہم چند نصوص کےذکرپر اکتفاء کرتے ہیں  :
1 - اللہ تعالی کاارشاد ہے: { وَالْفَجْر  وَلَيَالٍ عَشْرٍ} (الفجر1 – 2)
(فجرکی قسم اوردس راتوں کی قسم )  عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن زبیر اورمجاھد رضي اللہ عنهم سےمروی ہےکہ دس راتوں سےمراد ذی الحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں، اکثرمفسّرین نےبھی اسی تفسیر کو اختیار کیاہے ۔
2 - عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ما من أيام العمل الصالح فيهن أحب إلى الله من هذه الأيام العشرة " قالوا:ولاالجهادفي سبيل الله ؟ قال:" ولاالجهادفي سبيل الله,إلارجل خرج يخاطر بنفسه وماله فلم يرجع من ذلك  بشيئ" (البخاري : العيدين/ 11 رقم  ( 969  )) عشرہ ذی الحجہ میں کئے گئے  نیک عمل سےزیادہ اللہ کےنزدیک کسی دوسرے ایام کا نیک عمل پسندیدہ نہیں ہے، صحابہ کرام رضي الله عنهم نے سوال کیا :جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ تو آپ نےفرمایا:
" جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ، إلاّ یہ کہ آدمی دشمن پرٹوٹ پڑنے کی نیّت سےنفس ومال کےساتھ نکلتاہےاور ان میں سے کچھ بھی لیکر واپس نہیں آتا" ۔
 3 -  عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہسےمروی ہےکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:"ما من أيام أعظم  عند الله سبحانه ولاأحب إليه العمل فيهن من هذه الأيام العشرفأكثروا فيهن من التهليل والتكبير والتحميد"(  أحمد ( 2/75شیخ احمدشاکرنےاس کی سندکوصحیح قراردیاہے، دیکھئے : شرحہ علی المسند رقم (5446)) " عشرہ ذی الحجہ کےدنوں میں کئےجانے والےعمل سے زیادہ اللہ کےنزدیک کوئی دوسراعمل پسندیدہ نہیں ، اس لئے ان دِنوں میں زیادہ سے زیادہ ذکر و اذکار اورتکبیروتحمید کیاکرو "
4 –  حافظ ابن حجررحمہ اللہ فتح الباری کےاندرفرماتےہیں :" عشرہ ذی الحجہ کی امتیازی حیثیت کاسبب غالبایہ ہےکہ دیگرایّام کےمقابلےمیں بڑی بڑی عبادتیں مثلا : نماز ، روزہ ، زکاۃ اورحج ان ایام میں اکٹھی ہوجاتی ہیں" (فتح الباری  ( 3/136 ))         
عشرہ ذی الحجہ کےمشروع اعمال
1 – ( نماز ) ذو الحجہ اوردیگرایام میں بھی فرائض کی محافظت اورزیادہ سےزیادہ نوافل کااہتمام مستحب ہے، ثوبان tسےمروی ہےکہ : میں نےنبی أكرم صلی اللہ علیہ وسلم سےایسےعمل کےبارےمیں پوچھاجواللہ تعالی کے نزدیک سب سےزیادہ پسندیدہ اوردخول جنّت کاسبب ہو، توآپ نےفرمایا "عليك بكثرة السجود لله ! فإنك لاتسجد لله سجدة إلارفعك الله درجةوحط عنك خطيئة "( مسلم : الصلاۃ/ 43  رقم (488)  )
" اللہ کےلئے زیادہ سے زیادہ سجدہ کیاکرو کیوں کہ جب تم اللہ کےلئے ایک سجدہ کرتےہوتواس کےذریعہ اللہ تمہارا درجہ بلندفرماتاہےاوراس کےبدلےتمہارا کوئی  گناہ معاف فرمادیتاہے "  ۔
اورابوہریرہ رضی اللہ عنہسےمروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:"أقرب مايكون العبدمن ربه وهوساجدفأكثرواالدعاء" (مسلم : الصلاۃ / 43 رقم (482) )"بندہ سجدےمیں اپنے رب سےسب سے زیادہ قریب ہوتاہے ، اس لئے سجدہ میں خوب دعائیں کیاکرو "
2 – ( روزہ ) ہنیدہ بن خالد اپنی بیوی سےاوروہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویوں سے روایت کرتی ہیں کہ :" رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے نودن ، عاشورہ  کےدن اورہرمہینےسے تین دن روزہ رکھاکرتے تھے" (  أبوداؤد :  الصوم/ 61 (2437) نسائی: الصیام/70 رقم(2374)  شیخ البانی نے اسےصحیح قراردیاہے، دیکھئے  : صحیح سنن النسائی (2273) وصحیح سنن ابی داؤد (2106)  )  
3 – ( تکبیر وتہلیل ) جیساکہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی روایت میں گزراکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےان ایام میں زیادہ سےزیادہ تکبیر وتہلیل کاحکم دیاہے ۔
امام بخاری  رحمہ الله  فرماتے ہیں کہ :  " عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ رضی الله عنهم عشرہ ذی الحجہ میں بازارکی طرف نکلتےاورتکبیرکہاکرتے جن کی اقتداء کرتےہوئےدوسرےلوگ بھی تکبیرپکارتے"(بخاری– تعلیقا –  (3/136))اسی طرح عمررضی اللہ عنہ منی میں اپنےخیمےمیں تکبیرپکارتےجسےسن کر مسجداوربازار والے لوگ بھی تکبیر پکارتے جس سےمنی تکبیرکی آواز سے گونج اٹھتی "( بخاری  –  تعلیقا –  (3/140)  )
تکبیرکےالفاظ
1 -  الله أكبر , الله أكبر , الله أكبر كبيرا .
2 - الله أكبر , الله أكبر , لاإله إلا الله , والله أكبر , الله أكبر , ولله الحمد .
3 - الله أكبر , الله أكبر , الله أكبر , لاإله إلا الله , والله أكبر , الله أكبر , ولله الحمد .
4 – ( یوم عرفہ کا روزہ ) غیرحاجیوں کےلئے یوم عرفہ کے روزے کی بہت زیادہ فضیلت آئی ہے ، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  :
"صيام يوم عرفة أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله و السنة التي بعده "( مسلم ، الصیام/ 36 (1162)" میں اللہ تعالی سے امیدرکھتا ہوں کہ عرفہ کے دن کا روزہ ایک سال پہلےاورایک سال بعد کےگناہوں کے لئے کفارہ ہے "
(یہاں یہ واضح رہے کہ یوم عرفہ سے مرادمکہ کے کیلنڈرکے حساب سے نو ذی الحجہ کی تاریخ ہے،کسی دیگرملک میں اگرچاندمکہ سےایک دن بعد دیکھاگیاہوتو وہاں کے لوگ بھی مکہ کے کیلنڈرہی سے نوذی الحجہ کا روزہ رکھیں ، زمانہ قدیم میں اگرمکےکی تاریخ کا علم نہیں ہوپاتاتھاتو جائزتھا کہ اپنے ملک کی ر‏‏ؤیت کےحساب سے نوذی الحجہ کا روزہ رکھیں ، مگراب یہ عذرباقی نہیں رہ گیاہے۔ اس روزہ سے مقصددراصل میدان عرفات میں حاجیوں کے وقوف کے بدلے غیرحاجیوں کا روزہ رکھناہے/احمدمجتبی سلفی)۔
قربانی کرنےوالا کن امورسےپرہیزکرے
      جب کسی کی نیّت قربانی کرنےکی ہواورذی الحجہ شروع ہوجائے تو اسےبال ، ناخن یا چمڑاکاٹنےسےپرہیزکرناچاہئے ، أم  سلمہ رضی الله عنها سے مروی ہےکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا  :" إذارأيتم هلال ذي الحجة وأرادأحدكم أن يضحي فليمسك عن شعره وأظفاره "( مسلم :  الأضاحي / 7 رقم ( 1977/39  )
" جب ذی الحجہ کاچانددیکھ لواور تم میں سےکوئی قربانی کاارادہ رکھتاہو تواسےاپنےبال اورناخن کاٹنےسےاحترازکرناچاہئے   "
ایک دوسری روایت میں ہے :" فلايأخذنّ شعراولايقلمنّ ظفرا "( مسلم :  الأضاحي / 7 رقم ( 1977 /40 )) یعنی " بال اورناخن ہرگزنہ کاٹے "                                                                                  
     بال اورناخن نہ کاٹنےکی حکمت کےسلسلےمیں علمائے کرام نےلکھاہےکہ چوں کہ قربانی کرنےوالابعض امورمیں حاجیوں کےعمل کی مطابقت کرتا ہےاس لئےاگربال اورناخن وغیرہ نہیں کاٹتاہےتواحرام کی بعض خصلتوں میں شامل ہوجائےگاجوتقرّب الی اللہ کے ذرائع میں سے ہیں ۔
ایک  غلط فہمی کاازالہ
    یہاں پربعض لوگوں کی اس غلط فہمی کاازالہ ضروری ہےجویہ سمجھتےہیں کہ اگرکسی نےان ایاّم میں بال یاناخن کاٹ لیاتواس کی قربانی نہیں ہوگی !
واضح رہےکہ قربانی کرناایک الگ عمل ہےاوربال اورناخن کانہ کاٹنادوسرا عمل ہے،اگرکوئی شخص بال یاناخن بھول کریاجان بوجھ کرکاٹ لیتاہے تواس سے اس کی قربانی پرکوئی اثرنہیں پڑے گا ، ہاں اگرجان بوجھ کر کاٹتا ہےتووہ عاصی ہوااس پرکوئی کفاّرہ  نہیں ، البتہ اسے توبہ کرلینی چاہئے، امام ابن قدامہ رحمہ الله لکھتے ہیں :فإن فعل استغفرالله تعالى ولافدية فيه إجماعًاسواءفعل عمدًاأو نسيانًا" (المغني  ( 13/ 363 )  )
اگرکسی نےجان بوجھ کریا بھول کر بال یاناخن کاٹ لیاتوعلماء کا اجماعی مسئلہ ہےکہ وہ استغفارکرے گااوراس پرکوئی فدیہ نہیں ہے" 
علامہ ابن عثیمین رحمہ الله ایک سوال کےجواب میں فرماتے ہیں   :
" لوفعل الإنسان هذاأى أخذمن شعره أوظفره أوبشرته شيئًا على وجه العمد فإنه لايمنع من الأضحية , لكنه يكون عاصيًا لرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم إذاأخذهذامتعمّدًا " اگرکسی نےجان بوجھ کراپنےبال یاناخن یاچمڑاکاٹاہےتووہ قربانی کرنے سےنہیں رکےگاالبتہ اگرجان بوجھ کرکیاہےتووہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کےفرمان سےروگردان ہوگا  "
***********
قربانی  کاجانور
      قربانی کےجانورکوموٹاتازہ کرنامستحب ہے ، اندھے، لنگڑے،سینگ ٹوٹے ہوئے،  نہایت ہی بیمار،اوراتنالاغرکہ اس کی ہڈی میں کوئی لذّت ہی نہیں جیسےجانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے ، اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:"أربع لاتجوزفي الضحايا:العوراءالبين عورها, والمريضة البين مرضها, والعرجاءالبين ضلعها, والكبيرة التي لاتنقي"( أحمد (4/300) أبوداؤد  : الأضاحي/6 (2802) ترمذي : الأضاحي /5 (1497) نسائي : (4369) ابن ماجه  : الأضاحي/8 (3144شیخ البانی نےاس روایت کوصحیح قرار دیاہے، دیکھۓ  :  ارواءالغلیل (1148))
 " چارقسم کےجانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے : ایساکاناجس کاکاناپن ظاہر ہو،ایسابیمارجس کامرض عیاں ہو، ایسا لنگڑا جس کالنگڑاپن ظاہرہو، اوراتنا لاغر کہ  اس کی ہڈی نمایاں ہوجائے "
        بکری ، خصی یادیگرجانوروں میں مسنّہ ( یعنی جس کےدودھ کےاگلے دو دانت ٹوٹ کرنکل آ‎ئے ہوں ) کی قربانی ہوگی اگرایساجانورنہ ملےتوبھیڑ کےایک سال کےبچےکی قربانی کرسکتے ہیں ، اللہ کے رسول ‎ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " لاتذبحواإلامسنة,إلاأن تعسرعليكم فتذبحوا جذعة من الضأن"(مسلم : الأضاحي/ 2(1963)) "صرف مسنّہ  (دانتے ہوئےجانور) کی قربانی کرو ! لیکن اگر(اس کاملنا) تمہارےلئےمشکل ہو جائے توایک سال کےبھیڑکےبچے کی قربانی کرسکتےہو "
 ( ملاحظہ : مسنّہ اورجذعہ کی تعیین میں فقہاءاوراہل لغت کےدرمیان کافی اختلاف پایاجاتاہے ، ذیل میں ہم ان کے اقوال کاخلاصہ پیش کررہے ہیں ؛ )  :
مسنہّ : ( فقہاء کےنزدیک ) :
بکری اوربھیڑ : حنفیہ کےنزدیک : جس نےایک سال پوراکرلیا ہو۔
مالکیہ کےنزدیک : جس نےدو سال پوراکرلیاہو ۔
شافعیہ کےنزدیک : جس نےدو سال پوراکرلیاہو ۔اورایک قول کےمطابق : جودوسال پوراکرکےتیسرےمیں داخل ہو چکا ہو ۔
حنابلہ کےنزدیک : جوایک سال پوراکرکےدوسرےمیں داخل ہوچکا ہو۔
گائے : حنفیہ کےنزدیک : جس نے دو سال پوراکرلیاہو ۔
مالکیہ کےنزدیک : جس نےتین سال پوراکرلیاہو اورچوتھےمیں داخل ہوگئی ہو ۔
شافعیہ کےنزدیک : جس نےدو سال پوراکرلیاہواورتیسرےمیں داخل ہوگئی ہو ۔
حنابلہ کےنزدیک : جس نےدو سال پوراکرلیاہواورتیسرےمیں داخل ہوگئی ہو ۔
اونٹ : حنفیہ کےنزدیک : جس نے پانچ سال پوراکرلیاہو ۔
مالکیہ کےنزدیک : جس نےپانچ سال پوراکرلیاہو اورچھٹےمیں داخل ہوگیاہو ۔
شافعیہ کےنزدیک  : جس نےپانچ سال پوراکرلیاہو اورچھٹےمیں داخل ہوگیاہو ۔
حنابلہ کےنزدیک  : جس نےپانچ سال پوراکرلیاہو اورچھٹےمیں داخل ہوگیاہو (تفصیل کےلئے دیکھئے : تبيين الحقائق ( 6/7 ) بدائع الصنائع (4/206 ) الذخيرة (4/154 )  شرح الخرشي ( 3/33 - 34 ) القوانين الفقهيۃ (ص126) الحاوي ( 15/77)  كفايۃ الأخيار( ص529 ) طرح التثريب (5/194 ) المغني ( 9/440 ) كشاف القناع ( 2/531-532 ) اور منار السبيل ( 1/272 )) ۔
( اہلِ لغت کےنزدیک ) :
بکری اوربھیڑ : جوہری کےنزدیک : جس کےثنایاٹوٹ کرگرگئے ہوں ، اور یہ اس کےتیسرےسال میں داخل ہونے پرہوتاہے ۔
ابن منظورکےنزدیک : جس کےثنایاٹوٹ کرگرگئےہوں ، اور یہ اس کےتیسرے سال میں داخل ہونے پرہوتاہے ۔
التہذیب کےاندرہے : بکری میں ثنی ( مسنہّ ) وہ ہےجس نےدوسال مکمّل کرلیاہے، اورتیسرےمیں اس کےثنایاگرےہوں ۔
گائے : جوہری کےنزدیک : جس کےثنایاٹوٹ کرگرگئےہوں ، اور یہ اس کے تیسرےسال میں داخل ہونے پرہوتاہے ۔
اونٹ : جوہری کےنزدیک :  جس کےثنایاٹوٹ کرگرگئےہوں ، اور یہ اس کےچھٹے سال میں داخل ہونےپرہوتاہے ۔
ابن منظورکےنزدیک : جس کےثنایاٹوٹ کرگرگئےہوں ، اور یہ اس کے چھٹے  سال میں داخل ہونے پرہوتاہے ۔
التہذیب کےاندرہے :اونٹ جوپانچ سال مکمل کرکےچھٹےمیں داخل ہو چکاہووہ ثنی ہے (تفصیل کے لیے دیکھئے:الصحاح (6/2295 ) مادة " ثنى" لسان العرب
 ( 2/141-142 ) مادة " ثنيّ " تاج العروس ( 19/257 - 258 ) مادة "ثنى"
جذعۃ  من الضان : (بھیڑکاجذعہ ) :
( فقہاء کےنزدیک )  :
حنفیہ کےنزدیک : جس کے چھ ماہ پورےہوچکے ہوں  اورزعفرانی نےذکرکیاہےکہ جس کے سات ماہ پورےہوچکےہوں ، اورایک قول کےمطابق ‎جس کے آٹھ ماہ پورےہوچکےہوں، اورایک قول کےمطابق ‎جس کے نوماہ پورے ہوچکے ہوں ۔
مالکیہ کےنزدیک : حس کاایک سال پوراہوکردوسراسال شروع ہو چکا ہو ۔
شافعیہ کےنزدیک :ان کےنزدیک صحیح قول کےمطابق جس کاایک  سال  پوراہوکردوسراسال شروع ہوچکاہو ۔
حنابلہ کےنزدیک :جس کاچھ ماہ مکمل ہوکر ساتواں شروع ہوچکاہو(تفصیل کےلئے دیکھئے  : تبيين الحقائق(6/7) بدائع الصنائع (4/206 ) الذخيرة (4/154) شرح الخرشي( 3/33-34 ) القوانين الفقهيۃ (ص126) الحاوي( 15/77) كفايۃ الأخيار( ص529) طرح التثريب (5/194 )  المغني (9/440)كشاف القناع (2/531-532)  اورمنار السبيل( 1/272 ))
( اہلِ لغت کےنزدیک ) :
ازہری کےنزدیک : جس کےآٹھ ماہ یانوماہ مکمل ہوچکےہوں ۔
جوہری کےنزدیک جذع ثنی سےپہلےکی حالت ہے، جس کی جمع جذعان اورجذاع آتی ہے اوراس کی تانیث  جذعۃ آتی ہے جس کی جمع جذعات ہے ۔ جذع اس جانورکانام ہےجوایسی عمرمیں ہوجس کےدانت نکلےہوں اورنہ ہی گرے ہوں (لسان العرب ( 2/219- 220) مادة " جذع "  تاج العروس  (11/58 ) مادة  " جذع " الصحاح ( 3/1194 ) مادة " جذع ") ۔ (یہاں یہ واضح رہے کہ جن فقہاء یا اہل سنت نے " مسنّہ " کی عمریں لکھی ہیں انہوں نے دانت گرنےکی تقریبی عمرلکھی ہے ،یہ ہرگزمراد نہیں کہ اسی عمرکا جانور"مسنّہ " ہوتاہے ، "مسنّہ " صرف وہی جانورہےجس کے اگلےدونوں دانت گرچلے ہوں ،یا گررہے ہوں ، شریعت اسلامیہ چونکہ عالمی اورآفاقی شریعت ہے اس لئے اس قربانی کے جانورکی عمرکے بارے میں ایسامعیاربتایاہے جوہرملک اورآب وہوامیں یکساں ہوں ، اگرشریعت نے صرف عمرکی قید لگادی ہوتی تو ایک سال کاجانورکہیں بہت تیارہوتاہے تو کہیں بالکل دبلا پتلا، یہ ایسامعیارہےجیساکہ شریعت نے انسان کے بالغ ہونے میں رکھاہے جوہرملک اورہرآب وہوامیں آسانی سے پہچان میں آجاتاہے/ احمدمجتبی سلفی )۔

بھینس کی  قربانی
قرآن کریم میں ہےکہ ایسےجانوروں کی قربانی کی جائےجو  بھیمۃ الأنعام میں سے ہیں یعنی مویشی قسم کے چوپائے ہوں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے  : { وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكاً لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ }(الحج 34) ( ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کے طریقے مقرّر کردئے  ہیں تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں  ) قرآنی اصطلاح میں لفظ ” الأنعام “ میں چار قسم کےنراورمادہ جانور شامل ہیں : اونٹ نر و مادہ ، گائےنر و مادہ ، بھیڑ نر و مادہ ، بکری نر و مادہ  ۔ اس کی تفصیل بھی سورۃ الأنعام( آیت نمبر143 – 144)  میں موجود ہے اس بناءپر ہمارا رجحان یہ ہے کہ قربانی کیلئے انہی جانوروں میں سے انتخاب کرنا چاہئےاور بھینس کی قربانی سے گریز کرنا چاہئے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بھینس کی قربانی کرنا ثابت نہیں ہے ۔ جو لوگ اس کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں اور بھینس کی قربانی کے قائل و فاعل ہیں ان کا موقف ہے کہ لغوی اعتبار سے بھینس لفظ بقر میں شامل ہے ، اس لئے اس کی قربانی دی جا سکتی ہے ۔ جب کہ لغوی اعتبارسےبقر کےمسمی میں داخل ہونےکےباوجودبھینس طبیعت ،رنگ ،حجم اوروجودمیں گائےسے نہایت ہی مختلف ہے ، نیزقربانی ایک توقیفی عبادت ہےجس میں کوئی بھی عمل بغیرثبوت کےکرنامحلّ نظرہے ، جس طرح ہرن، گھوڑے، نیل گائے اور پرندے کی قربانی نہیں کی جاتی کیونکہ ان کی قربانی کاثبوت قرآن وسنّت سےنہیں ہے ٹھیک اسی طرح  بھینس کوبھی اسی زمرےمیں رکھناچاہئے یہی احتیاط کاتقاضہ اورعمل کےلئےاحوط وانسب ہے ۔ واللہ اعلم باالصواب ۔ بعض حضرات نے تو اس حد تک غلو کیا ہے کہ بھینس کی قربانی گائے کی قربانی سے افضل ہے ۔ لیکن ہم اسے صحیح نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل اور تقریر سے گائے کی قربانی ثابت ہے لہٰذا قربانی کے طور پر بھینس کو اس میں شامل نہ کیا جائے  اور  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے پیش نظر صرف اونٹ‘ گائے‘ بھیڑ اور بکری کی قربانی دی جائےاور بھینس کی قربانی سے اجتناب کیا جائے کیونکہ ایسا کرنا بہتر نہیں ہے۔

گابھن کی قربانی
     جس جانورکےپیٹ میں بچہ ہو اس کی قربانی جائزہے ، اگربچہ مردہ نکلتا ہے توامام شافعی ، علماء کی ایک جماعت اورصحابہ کرام کے نزدیک اس کی ماں کاذبح اس کےلئےکافی ہے اوراس کاگوشت حلال ہے برخلاف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ان کےنزدیک یہ بچہ مردارکےحکم میں ہے اس کاگوشت نہیں کھایاجائےگا، امام ابن حزم نےبھی اسی قول کواختیارکیاہے۔ پہلاقول راجح ہے کیونکہ اس سلسلےمیں حدیث صریح ہے ، اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"ذكاةالجنين ذكاة أمه "( احمد (3/31) أبوداؤد : الضحایا/20(2827) ترمذی :  الصيد/ 10(1476) ابن ماجة  : الذبائح/15 (3199) ابن حبان (265 / مواردالظمآن ) شیخ البانی نےاس روایت کوصحیح قراردیاہے ،دیکھئے : ارواءالغلیل (2539)) " جنین کےلئے(جب وہ ماں کے پیٹ سے ذبح کےبعد مردہ نکلے )  اس کی ماں کاذبح کرنا کافی  ہے  "
اوراگربچہ زندہ نکلتاہےتواسے بالاتفاق ذبح کیاجائے گا (تفصیل کےلئے دیکھئے  : مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ (26/307) فتح العلام شرح بلوغ المرام للامام صدیق حسن خان القنوجی (ص 1344))
قربانی کےشرائط
 قربانی کی صحت کےلئے مندرجہ ذیل شرطوں کاپایاجانا  ضروری ہے  :
(1) – قربانی خالص نیت سےاللہ تبارک وتعالی کےلئےہو، اللہ تعالی ارشادفرماتاہے :{ لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ }( الحج 37(اللہ تعالی کوقربانیوں کےگوشت پہنچتےہیں نہ ان کے خون بلکہ اسےتمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے )
 (2) – قربانی کاجانور "بھیمةالأنعام(مثلا : اونٹ، گائے،بھیڑ اوربکری) میں سے ہونی چاہئے ۔
 مفسرین لکھتےہیں کہ : " عرب کےنزدیک "بهيمةالأنعامکا استعمال اونٹ، گائے اوربکری کے لئے ہوتاہے"( دیکھئے  : تفسير القرطبي  ( 11/44  , 15/109 ))
(3) – جانور"مسنہّ"ہو(یعنی جس کےاگلےدودانت ٹوٹ کرنکل آئے ہوں) ، اگرمسنہّ نہ ملےتوبھیڑکےایک سال کےبچے کی قربانی کی جاسکتی ہے۔
(4) –  جانورحدیث میں مذکورعیوب سے پاک ہو، اوروہ عیوب مندرجہ ذیل ہیں  :
      1 –  ایساکاناجس کاکاناپن ظاہرہو۔
      2 –  ایسالنگڑاجس کالنگڑاپن ظاہرہو ۔
      3 –  اتنابیمارجس کی بیماری واضح ہو –
      4 –  ایسادبلاجس کی ہڈی نمایاں ہوجائے –
  انہیں عیب دارجانوروں پرقیاس کرتے ہوئے مندرجہ ذیل عیب دار جانوروں کی قربانی  بھی جائزنہیں ہے  :
       1– سینگ ٹوٹا  (اگرپیدائشی سینگ نہیں ہےتواس کی قربانی جائزہے )
       2 - اندھا ۔
       3– قریب الولادۃ جس کی ولادت میں پریشانی آرہی ہو، یہاں تک  
کہ خطرہ ٹل جائے  -
       4 – اونچائی سےگرنےیاگردن وغیرہ گھٹنےکی وجہ سےموت سے دو چارجانور یہاں تک کہ خطرہ ٹل جائے  -
        5 – کمزوری کی  بناپرچلنے پھرنےسےمعذور ۔
        6  – اگلےیاپچھلے پاؤں میں سےکوئی کٹاہواہو ۔
        7 – جس کاپیٹ بدہضمی کی وجہ سے پھولاہواہو یہاں تک کےاسے 
              افاقہ ہوجائے اوروہ اچھاہوجائے اوراس سےخطرہ ٹل جائے  ۔ 
        8 –جواونچائی وغیرہ سےگرکربےہوش ہوجائے یہاں تک کہ اسکی                      بیہوشی رفع  ہوجائے۔
        9 – جس کاکان کٹاہواہو یاپھٹاہوا ہو ایسےجانورکی قربانی مکروہ  ہے ۔
        10 – دُم کٹا ( اگر دم پیدائشی طور پر نہ ہو تو اس کی قربانی جائز  ہے )۔
(5) – جانوراپنی ملکیت ہویا اس کےمالک کی طرف سےشرعی اجازت حاصل ہو۔
(6) – گروی رکھاہوا نہ ہو ۔
(7) – شریعت کی جانب سے متعین اوقات کے درمیان ہو ، یعنی یوم النحر
10 ذی الحجہ کونماز عیدکے بعد سے 13ذی الحجہ غروب شمس سے پہلے تک (أحكام الأضحية والذكاة باختصارواضافہ للشیخ ابن العـثـیـمین  ۔)

*********
قربانی کے لیے مخصوص ومتعین جانورکاحکم

  جب قربانی کےلئےکسی جانورکی تخصیص وتعیین کردی جائےتو اس پرکچھ احکام لاگوہوتےہیں ، جن میں کچھ کامختصرذکرذیل میں کیاجارہاہے  :
1 – اس کے اندرکوئی ایساتصرف جو اسےقربانی کرنے سے مانع ہوجائز نہیں
ہے ، مثلا :  اسےبیچنا ، ہبہ کرنااورگروی رکھناوغیرہ ۔
2 – اگرکوئی آدمی قربانی کےجانورکی تعیین کرکےمرگیاتواس کےورثاء پراس کی تنفیذ ضروری ہے ، اوراگرتعیین سے پہلےمرگیا تو ان کو اس میں تصرّف کا اختیارہے ۔
3-  قربانی کے لئے جانورکی تعیین کے بعد اس کااستعمال جائزنہیں ہے، یعنی نہ اس جانورسےکھیتی کرائی جائےگی اورنہ ہی اسے سواری وغیرہ میں استعمال کیاجائےگا، ہاں اگرسواری کی شدیدحاجت ہواورسواری کرنے سےجانورکوکسی ضررونقصان کا خطرہ نہ ہوتواس پرسواری کرسکتےہیں ۔
4 – اگرقربانی کےجانورکوکوئی ایساعیب جوقربانی کےموانع میں سےہے لاحق ہوجائےجیسےلنگڑایااندھاوغیرہ ہوجائے،تو اس کی دوحالتیں  ہونگی :
اول : اگریہ عیب اس کی تساہلی اورعدم توجّہ کےسبب لاحق ہواہے تواس کاضمان اس پرواجب ہے ،اوراس کےبدلے اسی طرح کایااس سےاچھے جانورکی قربانی اسےکرنی ہوگی ۔ اورصحیح قول کےمطابق جانوراس کی ملکیت ہوجائےگا ، اوراسے اس میں تصرّف کااختیارہوگا ۔
دوم : اگراس کی خرابی میں اس کاکوئی دخل نہ ہو اوراس کی حفاظت اوردیکھ ریکھ میں اس نےکوئی کوتاہی نہ کیاہوتووہ اسی جانورکی قربانی کرے گااور (ان شاء اللہ ) اس کی قربانی ہوجائےگی کیونکہ یہ جانوراس کےپاس بطورامانت تھاجوبلاکسی کوتاہی اورتساہلی کے عیب دارہوگیا ۔ لیکن اگر جانور کی تعیین سےپہلےاس کےذمّہ قربانی واجب تھی،جیسےکہ اس نےقربانی کرنےکی نذرمانی ہوکہ میں اللہ تعالی کےلئےاس سال قربانی کروں گااور اس نے جانورکی تعیین کردی دی تھی تووہ ان عیوب سےپاک جانورکی قربانی کرےگا۔ 
5 – اگرقربانی کامتعین جانورگم ہوجائے یاچوری ہوجائے تو اس کی بھی دوحالتیں  ہیں   :
اول : اگرجانور اس کی تساہلی اورعدم توجہ کےسبب غائب  ہواہے تواس کاضمان اس پرواجب ہے ،اوراس کےبدلے اسی طرح کایااس سےاچھے جانورکی قربانی اسےکرنی ہوگی ۔ اورملنےکےبعد جانوراس کی ملکیت ہو جائےگا اور اسے اس میں تصرف کااختیارہوگا ۔
دوم : اگراس کےغائب ہونےمیں اس کی کوتاہی اورعدم اعتناء کادخل نہ ہوتو اس کےاوپرکوئی ضمان نہیں ہے اوراگرچوری یاگم شدہ جانورمل جائے تو اس پراس کی قربانی واجب ہوگی ، اگرچہ قربانی کاوقت نکل گیاہو ۔
  لیکن اگر جانور کی تعیین سےپہلےاس کے ذمہ قربانی واجب تھی،جیسےکہ اس نےقربانی کرنےکی نذرمانی ہوکہ میں اللہ تعالی کےلئےاس سال قربانی کروں گاتووہ دوسرےمناسب جانورکی  قربانی کرےگا، اورجانور ملنے کے بعد اسےاس میں تصرّف کااختیارحاصل ہوگا،لیکن اگروہ جانور جسےاس کےبدلے میں ذبح کیاہےاس سےقیمت میں کمترہوتوزائد قیمت کوصدقہ کردےگا ۔
6 – اگرجانورمرجائےتواس کی تین حالتیں ہیں  :
اول :  جانوراگرکسی قدرتی حادثےکاشکارہواہوتوآدمی کےاوپرکوئی ذمّہ داری اوراس کاضمان نہیں ہے ۔ لیکن اگر جانور کی تعیین سے پہلے اس کے ذمّہ قربانی واجب تھی، جیسے کہ اس نےقربانی کرنےکی نذرمانی ہوکہ میں اللہ تعالی کےلئے اس سال قربانی کروں گاتووہ دوسرےمناسب جانورکی  قربانی کرےگا۔
دوم : جانوراگراپنےمالک کی وجہ سے مراہے تواس کےبدلےویساہی یااس سے بہترجانورکی قربانی کرےگا ۔
سوم : اگرجانورکوکوئی دوسرےآدمی نے مارا ہے اوراس کاتاوان ملناممکن نہیں ہے جیسےڈاکولےجائیں تواس کاحکم پہلےوالاہوگا، یعنی اس کےاوپر قربانی  نہیں ہے ،اوراگرتاوان ملناممکن ہےتوجس نےاس کوضائع کیاہے وہ ویساہی جانور اس کےمالک کودےگا اوروہ قربانی کرےگا ۔
7 – اگرجانورکوقربانی کےوقت سے پہلےذبح کردیاگیاہوتواس کی یہ قربانی نہیں ہوگی ، اوراسےدوسرےجانورکی قربانی کرنی ہوگی ۔
     اوراگرقربانی کاوقت ہونےکےبعدذبح کیاہواورذبح کرنےوالاصاحبِ جانور یااس کےوکیل کےسواکوئی اورہوتواس کی تین حالتیں ہیں :
اول : ذبح کرنےوالے کی نیت صاحب جانورکی طرف سےقربانی کرنے کی  ہوتوصحیح قول کےمطابق اگرصاحب جانورراضی ہوگیاتوقربانی ہوجائےگی اوراگرراضی نہ ہواتوذبج  کرنےوالےکےاوپرتاوان ہوگاجو اسی طرح کاجانور اسےدےگاتاکہ وہ قربانی کرسکے، الاّیہ کہ وہ اسےمعاف کرکے اسی طرح کےکسی دوسرےجانورکی قربانی کرلے  ۔
      امام احمد ،امام شافعی اورامام ابوحنیفہ رحمھم اللہ کےمشہورقول کےمطابق صاحب جانور کی عدم رضامندی کےباوجود قربانی ہوجائےگی ۔
دوم : اگرذبح کرنےوالایہ جانتےہوئے کہ یہ دوسرےکی ملکیت ہےاسے اپنی طرف سےذبح کردیتاہےتودونوں کی طرف سےقربانی نہیں ہوگی اورذبج  کرنے والےکےاوپرتاوان ہوگاجواسی طرح کاجانوراسےدے گاتاکہ وہ قربانی کر سکے،  الاّیہ کہ وہ اسےمعاف کرکےاسی طرح کےکسی دوسرےجانورکی قربانی کرلے۔
اورایک قول کےمطابق صاحب جانورکی جانب سےقربانی ہوجائےگی ، اورذبح کرنےوالےنے اگرگوشت کوتقسیم کردیاہےتو اسکے اوپر اس گوشت  کاتاوان واجب ہوگا ۔
    اوراگرذبح کرنےوالےکویہ پتانہ ہوکہ یہ دوسرےکاجانورہےتوصاحبِ جانورکی طرف سےقربانی ہوجائےگی اورذبح کرنےوالےنےاگرگوشت کوتقسیم کردیاہےتو اس کےاوپراس گوشت کاتاوان واجب ہوگا، الاّیہ کہ صاحب جانوراس کی تقسیم سے راضی ہوجائے ۔
سوم : اگرکسی کی طرف سے نیّت نہیں کی ہےتوعدمِ نیّت کی وجہ سےکسی کی طرف سےقربانی نہیں ہوگی ۔ اورایک قول کےمطابق صاحب جانورکی جانب سےقربانی ہوجائےگی اورذبح کرنےوالےنےاگرگوشت کوتقسیم کردیاہےتو اس کےاوپراس گوشت کاتاوان واجب ہوگا، الاّیہ کہ صاحب جانوراس کی تقسیم سے راضی ہوجا‏ئے  ۔
 8 – اگرقربانی کےلیے متعین جانورنےکوئی بچہ دیدیاتوتمام امورمیں بچہ اپنی ماں کےحکم میں ہوگا ۔
     اوراگرتعیین سےقبل پیداہواہےتواس کامستقل حکم ہوگااوروہ اپنی ماں کےتابع نہیں ہوگا  (ملخصا من : احکام الاضحیۃ والذکاۃ، للعلامہ الشیخ محمدبن صالخ بن العثیـمـین رحمہ اللہ) ۔
قربانی کےجانورمیں شرکت
    کسی بھی جانورکی قربانی ایک گھرکی طرف سےکافی ہےجیساکہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت ہےکہ آپ قربانی کرتے اورفرماتے  :أللهم تقبّل من محمدوآل محمدوأمة محمد""اے اللہ محمد کی طرف سےاورمحمد کی آل واولاد کی طرف سےاورمحمد کی امّت کی طرف سے ( میری یہ قربانی ) قبول فرما  "
     امام مالك نے موطأ میں اورامام ترمذی نے سنن  میں صحيح سند کےساتھ أبوأيوب انصاری رضی اللہ عنہ سےروایت کیاہے:كان الرجل على عهد النبي صلى الله عليه وسلم يضحي بالشاة عنه وعن أهل بيته فيأكلون ويطعمون "( موطأ: الضحایا/5(310) الترمذي : الأضاحی/10( 1505) وابن ماجة : الأضاحی/ 10 (3147) شیخ البانی نےصحیح سنن الترمذی(رقم 1216) کےاندراس کی تصحیح کی ہے ۔"آدمی اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانےمیں اپنےاوراپنےگھروالوں کی طرف سےایک بکری قربانی کرتاتھا ، پھر (گھروالے) خودکھاتے اور(دوسروں کو) کھلاتے  "
اوریہی زیادہ صحیح اورمناسب ہےکہ ریاکاری اور اسراف سےبچتے ہوئے تھوڑےہی جانورمیں گھرکےتمام افرادکوشامل کرلیاجائے ، لیکن اگراللہ تعالی نےکسی کوبےبہادولت سےنوازرکھاہے ، تووہ خلوص وللہیت کے ساتھ اپنی وسعت کےمطابق قربانی کرسکتاہے کیونکہ خیرکی نیت کےساتھ کوئی بھی نیک عمل چاہےوہ تھوڑاہی کیوں نہ ہو اللہ کےیہاں مقبول ہے ، اور ریاکاری ودنیاوی فائدے کے حصول کےلئےکیاگیاعمل اللہ کے نزدیک غیرمقبول اورعامل کےلئے وبال جان ہے ، اگرچہ اس کے ساتھ اعمال وعبادات کابھنڈارہی کیوں نہ ہو ۔
     افسوس کامقام ہےکہ برّصغیرہندوپاک میں قربانی عبادت کی غرض سےکم اورریاکاری ونمائش اورتعلّی کی غرض سے زیادہ کی جاتی ہے، جس کامظاہرہ   
قربانی کےموقعوں سےمارکٹ میں جانوروں کی خریداری کےوقت دیکھا جاسکتاہے  نعوذ باللہ من الریاء والسمعة و من العمل مایسخطه )
جانوروں میں اونٹ میں دس حصّےاورگائےمیں سات حصّےہیں ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتےہیں :"كنامع رسول الله في سفرفحضرالنحر فاشتركنافي البعيرعن عشرة والبقرة عن سبعة " (النسائي : الضحايا/15 رقم(4393) ترمذي : حج/66 رقم(905) وأضاحي/8 (1501) ابن ماجة :  أضاحي/5 رقم( 3131)  وأحمد (1 /275 ) شیخ البانی نے  اس کی تصحیح کی ہے ،  دیکھئے    : صحیح سنن الترمذی رقم (720))" ہم لوگ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ سفرمیں تھےکہ قربانی کادن آپہنچا تو ہم لوگوں نےاونٹ میں دس اورگائےمیں سات آدمیوں کی طرف سے قربانی میں شرکت کی "
 مذکورہ روایت سےسفرمیں قربانی کےجواز کاپتہ بھی چلتاہے ۔
قربانی کاوقت
      قربانی کی صحت کےلیےسب سےاہم شرط یہ ہےکہ اسےعید کی نماز کے بعدکیاجائے، اگرکسی نےنمازسےپہلےقربانی کردی تواس کی قربانی صحیح نہیں ہوگی بلکہ اسےنمازکےبعددوبارہ قربانی کرنی ہوگی ، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا :من ضحى قبل الصلاة فإنماذبح لنفسه ومن ذبح بعدالصلاة فقدتمَّ نُسكه وأصاب سنة المسلمين "( مسلم :  الأضاحي/1 رقم (4/  1961 )"جس نے نماز سے پہلے قربانی کی اس نے اپنے لئے ذبح کیا اورجس نےنماز کے بعدذبح کیااس کی قربانی پوری ہوگئی  اوراس نےمسلمانوں کےطریقہ کےمطابق کیا" اورایک روایت میں ہے:"من ذبح قبل الصلاة فليذبح شاةً مكانها"( بخاری : الأضاحی/ 12 (5562) مسلم ، الأضاحی/1 رقم (2/1961))" جس نےنماز سےپہلےجانورذبح کردیااسےاس کی جگہ دوسری بکری قربانی کرنی چاہئے "                                    
      براء بن عازب رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا اور فرمایا:"ولايذبحن أحد حتى يصلي " (مسلم :  الأضاحي/1  ( 5/  1961 )" کوئی شخص قربانی نہ کرےیہاں تک کہ نمازپڑھ لے "  ۔
رات میں قربانی کرنےکاحکم
       ایام تشریق کی راتوں مییں قربانی کرنےکےسلسلے میں فقہاء کےدرمیان اختلاف پایاجاتاہے : جمہورعلماءکےنزدیک رات میں قربانی مکروہ ہے ، مالکیہ کےنزدیک رات میں قربانی کرناکافی نہیں ہے اوربعض حنابلہ کے نزدیک جا‌ئزہے (تفصیل کے لئے دیکھئے    :  بدائع الصنائع  (5/57)  الشرح الصغیر (1/308)  روضة  الطالبین (3/200) الفروع (3/546) اورالشرح الممتع علی زادالمستقنع لابن عثیـمیـن (7/502 – 503)
      راجح قول کےمطابق ان راتوں میں قربانی کرناجائز ہے ،دائمی کمیٹی برائے فتوی سعودی عرب نے ایک سوال کےجواب میں لکھاہےکہ  :
عیدالأضحی اورتشریق کےدنوں میں عصرکےبعد قربانی کرنابلاکسی اختلاف کےجائزہے، اسی  طرح راجح قول کے مطابق ایاّم تشریق کی  راتوں میں بھی قربانی کرناجائزہے " (فتوی نمبر  ( 9525 )  السوال الثالث ۔)
قربانی کےایاّم
قربانی کےایام یوم النحر( 10 ذی الحجہ ) کےعلاوہ ایام تشریق پرمحیط ہیں یعنی کل چاردن  ( 10  سے13 ذی الحجہ ) تک قربانی کرسکتے ہیں ۔
ذبح کےشرائط
1 – ذبح کرنےوالا عاقل ممیّزہو، لہذاپاگل ، نشےکی حالت میں اورایسابچہ جوحالت تمییزکونہ پہونچا ہوکا ذبح کیاہوا جائز نہیں ہے ۔
2 – ذبج کرنےوالامسلمان (مرد ، عورت ، عادل ، فاسق ،طاہر، غیرطاہر سب کو شامل ہے ) یا کتابی (یہودونصاری میں سے ) ہو۔
3 – ذبح کی نیّت ہو ۔
4 – ذبح غیراللہ کےلیےنہ ہو، کیونکہ غیراللہ کےنام پرذبح کیاگیاجانور قطعًاحرام ہے۔
5 – ذبح کےوقت غیراللہ کانام نہ لیاگیاہو، جیسے : باسم النبی یا باسم جبریل وغیرہ۔
6 – ذبح اللہ کےنام سےکیاگیاہو یعنی بسم اللہ کہ کرکیاگیاہو۔
7 – کسی دھاردارآلہ سےذبح کیاگیاہو( ہڈی ، ناخن اوردانت سےذبح کرناجائزنہیں ہے،اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا: "ماأنهرالدم وذكراسم الله فكل ليس الظفروالسن‎،أماالظفر فمدى الحبشة وأماالسن فعظم"(بخاری : ذبائح/18(5503) مسلم :  أضاحی/4(1968 )جودھاردارآلہ خون بہادےاوراسے بسم اللہ کرکےذبح کیا گیاہوتواسےکھاؤ، ہاں اگرناخن اوردانت سےذبح کیاگیا ہےتومت کھاؤ کیونکہ ناخن حبشیوں کی چھری ہے اوردانت  ہڈی ہے "
8 – ذبح کرنے پراس کاخون بہاہو۔
9 – ذبح کرنے والےکوذبح کرنےکاشرعی اختیارحاصل ہو ، جن جانورں میں انسان کوشرعی اختیارحاصل نہیں وہ دوطرح کےہیں  :
پہلا : جوجانوراللہ کاحق ہو،جیسے : حرم کاشکاریا حالت احرام میں شکارکیا گیا
دوسرا : جومخلوق کاحق ہو ، جیسے : غصب کیاہوایا چوری کیاہواوغیرہ ۔
ذبح کےآداب
1 – ذبح سےپہلےچھری کواچھی طرح سےتیزکرلیناچاہئےتاکہ جانورکوذبح کرنے میں کسی پریشانی کاسامنانہ کرناپڑےاورجانورکوبھی آرام ملے ، شداد ابن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  : "إن الله كتب الإحسان على كل شئي،فإذاقتلتم فأحسنوا القتلة, وإذاذبحتم فأحسنوا الذبحة,وليحدأحدكم شفرته وليرح ذبيحته"( مسلم :  الصيد والذبائح /11  (5/ 1955 ))
" اللہ تعالی نےہرچیزپراحسان کوواجب کررکھاہے، لہذاجب تم کسی کو قتل کروتواچھی طرح سے قتل کرواورذبح کروتواچھی طرح سےذبح کرو تم کو اپنی  چاقو تیز کر لینی چاہئے اور ذبیحہ کوآرام پہونچاناچاہئے "
2– جس چاقو سے جانور کو ذبح کرنا ہو اسے اس کے سامنے تیز نہ کیاجائے، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی ایک بکری کو پچھاڑنے کے بعد اپنی چھری تیزکرنےلگا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا  :" أتريد أن تميتها موتات ؟ هلا أحددت شفرتك قبل أن تضجعها ؟ "( المصنف  (4/393 )  المستدرك (  4/257 )  سنن البيهقي (  9/280 )  شیخ البانی نے  اسے صحيح قراردیاہے ، دیکھئے  السلسلة الصحيحة( 1 /32 ))"تم اس کو کئی موتیں دیناچاہتے ہو، اپنی چھری کواسےلٹانےسےپہلےکیوں نہیں تیزکرلیا   ؟ "
3 – جانورکوذبج کرنےکی جگہ پرآرام سےلےجایاجائے ۔
4 – جانورکو بائیں پہلو پر قبلہ رخ کرکے لٹاناچاہئے   ۔
5 –  اونٹ کے بائیں ٹخنے کوباندھ کراسےتیں پیروں پرکھڑاکرکےنحرکرنا سنت ہے۔
 6 -  اپنادایاں پاؤں جانورکےدائیں مونڈھےپررکھ کربائیں ہاتھ سےاس کامنہ پکڑلےاورپھردائیں ہاتھ سےذبح کرے  ۔
7 –  اپنےہاتھ سےذبح کرے ۔
 کیاعورت قربانی کاجانورذبح کرسکتی ہے ؟

        عورت قربانی کاجانورذبح کرسکتی ہے ، کیونکہ مسلمان یاکتابیہ عورت کاذبیحہ حلال ہے اس کی دلیل  کعب بن مالک t  کی روایت ہےکہ ان کی ایک لونڈی نے دھاردار پتھرسے ایک بکری ذبح کیا،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کےبارےمیں پوچھاگیاتوآپ نے اسےکھانےکاحکم دیا(دیکھئے  : بخاری : ذبائح/18(5502 ،5504 ، 5505) اورموطأ : ذبائح/2 رقم (4)) ۔
      مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"لابأس بذبيحةالصبي والمرأة من المسلمين وأهل الكتاب" (السنن الكبرى للبيهقي (9/475)"مسلمان اوراہل کتاب میں سےبچہ اورعورت کےذبیحہ میں کوئی حرج نہیں ہے "
    امام نووی فرماتےہیں: "کعب بن مالک کی حدیث کی بنیادپر بلا اختلاف عورت کا ذبیحہ جائزہے" (المجموع شرح المھذب (9/87)
نیز فرماتےہیں :" ابن المنذرنے عورت اورصاحب تمییز بچہ کےذبیحہ کی حلّت پراجماع نقل کیاہے " (المجموع شرح المھذب (9/89))
       شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں :" عورت اورمردکاذبیحہ جائز ہے،  عورت حالت حیض میں بھی ذبح کرسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
      علامہ ابن بازرحمہ اللہ ایک سوال کےجواب میں فرماتےہیں : " مردکی طرح عورت بھی قربانی کاجانورذبح کرسکتی ہے ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔ عورت اگرمسلمان یاکتابیہ ہےاوراس نے شرعی طریقہ پرجانورذبح کیاہےتواس کاگوشت کھاناجائزہے۔ مردکی موجودگی میں بھی عورت ذبح کرسکتی ہے، اس کےلئے مردکاہوناشرط نہیں ہے"
  علامہ عبد اللہ بن عبدالرحمن الجبرین ایک سوال کےجواب میں فرماتے ہیں : " اگرعورت عاقلہ ،مکلفہ ہواوراس نےبسم اللہ پڑھ کرناخن ،دانت اورہڈی کے علاوہ کسی تیزدھاردارآلہ سےذبح کیاہےتواس میں کوئی حرج نہیں ہے "
ذبح کی دعاء
(1)  إنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَالسَّمَاْوَاتِ وَاْلأَرْضِ حَنِيْفًا وَمَاْأَنَاْمِنَ الْمُشْرِكِيْنَ، إِنَّ صَلاْتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَاْيَ وَمَمَاتِيْ لِلّهِ رَبِّ اْلعَاْلَمِيْنَ، لَاْشَرِيْكَ لَه’وَبِذالِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ، بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرْ أَللهُمَّ هَذا مِنْكَ وَلَكَ  أَللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّيْ ( وَمِنْ أَهْلِ بَيْتِيْ ) "
اگرقربانی دوسرے کی طرف سےکررہاہےتو " منی " کی جگہ جس کی طرف سےقربانی کی جارہی ہےاس کانام لے۔
(2 " بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرْ أَللهُمَّ هذا مِنْكَ وَلَكَ اَللھُم َّھذَا عَنِّيْ وَ عَـْن أهْلِ بَيْتِيْ  "
قربانی کاگوشت
قربانی کےگوشت سےمتعلق اللہ تعالی کاارشاد ہے :{فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ} الحج 28)( اس میں سےکھاؤاوربھوکےفقیر کوبھی کھلاؤ ) دوسری جگہ ارشادفرمایا  :{فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ }(الحج 36) (اسےخودبھی کھاؤاورمسکین سوال سےرکنےوالوں اورسوال کرنے والوں کوبھی کھلاؤ )
    رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :" كلواوادخرواوتصدقوا "( مسلم :  الأضاحي/5 (رقم 33/1973 ))کھاؤ ، ذخیرہ  کرو اورصدقہ کرو "
اورایک روایت میں ہے  :" كلواوأطعمواوادخروا " (بخاري  : الأضاحي/16 (  5569  )کھاؤ ، کھلاؤ اورذخیرہ کرو "
علمائےکرام نے ان نصوص کی بنیاد پر قربانی کے گوست کےتین حصّے کرنے کےاستحباب پراستدلال کیاہےلکن ظاہرہےکہ ان نصوص میں یہ تعیین نہیں ہے کہ تین ہی حصوں میں برابربرابرتقسیم کرناضروری ہےبلکہ اس معاملےمیں وسعت ہے، خودکھاناہے، دوست واحباب کوکھلانا ہے، فقراء ومساکین کو کھلاناہےاوربچ جائےتواسےذخیرہ بھی کیاجاسکتاہے اس لئےاس اطلاق کو اپنی جگہ پربرقراررکھناچاہئےکسی تقسیم کاپابند نہیں بنانا چاہئے ۔
قربانی کاگوشت غیرمسلم کودینےکاحکم
      ابن قدامہ فرماتے ہیں : " قربانی کےگوشت میں کسی کافرکو کھلاناجائز ہے،حسن ابوثوراوراصحاب الرأي کایہی قول ہے ، امام مالک اورلیث نےاسے مکروہ جاناہے، لیکن ہمارےنزدیک چونکہ وہ ایک کھاناہےاس لئے ذمّی کوتمام کھانوں کی طرح کھلاناجائزہے، نیزاس لئےبھی کہ یہ نفلی صدقہ ہے  اس لئے تمام نفلی صدقوں کی طرح ہے، جبکہ صدقہ واجبہ ( یعنی زکاۃ) کوکافرکودیناجائزنہیں ہے " (الشرح الكبير (5/231)) ۔
    دائمی کمیٹی برائےفتوی سےپوچھاگیاکہ:قربانی کےگوشت میں سےغیر مسلم  کاکھاناجائزہے ؟ توکمیٹی کاجواب تھا : " کافر،معاہداورقیدی کومحتاجی، قرابت ، پڑوسی ہونےکی وجہ سےیا تالیف قلب (دل دہی ) کےلئے  قربانی کےگوشت میں سےکھلانااوردیناجائزہے،کیونکہ اللہ کےلئےقربانی کرکے اوراس کی عبادت بجالاکرنسک پوراہوچکاہے ، اوراس کےگوشت میں سےافضل یہ ہےکہ ایک تہائی کھائے ، ایک تہائی رشتہ داروں ، پڑوسیوں اوردوستوں کوہدیہ کرے اور ایک تہائی غریبوں کوصدقہ کرےاوراگران میں کمی یازیادتی کرتاہے یا بعض پراکتفاءکرتاہےتواس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس معاملےمیں وسعت ہے، لیکن اس میں سےحربی ( وہ کافرجس سےحالت جنگ میں ہو) کونہ دے، کیونکہ اسےذلیل وکمزور کرنا ضروری ہے ، اس سے مؤاسات ودوستی اورمال دے کر اس کو مضبوط وطاقتوربناناجائزنہیں ہے ----" (دیکھئے   فتاوي اللجنة الدائمة  ( 11/424425) ملخصا ۔)
قربانی کاچمڑا
    قربانی کے چمڑےکوبیچناجائزنہیں ہےبلکہ اسےاپنےاستعمال میں لاناچاہئے یا صدقہ کردیناچاہئے (مسنداحمد  ( 4/ 15 )) ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا  :" من باع جلد أضحيته فلا أضحية له"( رواه الحاكم (2/390) والبيهقي (9/496) والمنذري في الترغيب والترهيب (1629) شیخ البانی نے اس روایت کوحسن قراردیاہے ، دیکھئے  : صحيح الجامع )6118))
جس نےاپنی قربانی کاچمڑابیچ دیا اس کی قربانی نہیں ہوگی "   
 البتہ اگراسےخودبیچ کراس کی قیمت فقراء ومساکین پر تقسیم کردےتوعلماء نےاس کی رخصت دی ہے  ۔
قصائی کی اجرت
      قصائی کی اجرت قربانی کےگوشت یا اس کےکسی حصےّ سےدینا جائز نہیں ہے، جیساکہ علی رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہےکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نےانہیں ایک اونٹ کی قربانی کرکےاس کےگوشت وغیرہ کوصدقہ کرنےکاحکم دیااوریہ بھی حکم دیاکہ اس میں سےقصائی کوبطور اجرت کچھ نہ دیاجائے(بخاري : حج/120، 121 (1716- 1717) مسلم : حج /61 (1317)) علی فرماتےہیں کہ " ہم لوگ قصائی کو اپنی جیب سے دیاکرتے تھے" 
حافظ ابن حجر بعض اہل علم سےنقل کرتےہیں کہ :إعطاء الجزار على سبيل الأجرة ممنوع لكونه معاوضة "( فتح البارى ( 3/650)) "قصائی کومعاوضہ ہونے کے سبب قربانی کےگوشت میں سےبطوراجرت دینا ممنوع ہے " امام نووی نے بھی یہی بات کہی ہے (دیکھئے  شرح  مسلم للنووي ( 9/65)) ابن قدامہ فرماتےہیں  : " اگرقصائی کوقربانی کے گوشت میں سےبطورصدقہ یاہبہ دیتاہےتواس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ ایسی صورت میں وہ دوسروں کی طرح ایک عام آدمی ہے،اس لئےکہ اس جانورسےاس کاتعلق رہاہےاوراس کی طبیعت اس کی خواہش کرتی ہے"
( الشرح الكبير( 5/209)۔
میت کی طرف سےقربانی کاحکم
   میّت کی طرف سےقربانی کےجوازکےسلسلےمیں جودلیلیں پیش کی جاتی ہیں وہ تین طرح کی ہیں  :
اول : وہ حدیث جومیّت کی طرف سےقربانی کےجواز میں صریح ہے ۔
دوم : وہ روایتیں جومیّت کی طرف سےقربانی کےجواز میں صریح نہیں ہیں۔
سوم : عام صدقات اورحج وغیرہ پرقیاس  ۔
       ذیل کی سطورمیں ہم تینوں طرح کی دلیلوں کاجائزہ لیتےہیں تاکہ حق واضح ہوجائےاورہماراعمل کتاب وسنّت کےمطابق انجام پائے ۔
واللہ ھوالموفق للحق والصواب  ۔
اوّل : پہلی قسم کی دلیل حنش کی روایت ہے، جسے ابوداؤد ، ترمذی  اوراحمد وغیرہ نےروایت کیاہے(أبوداؤد :  الضحایا/2 ( 2790)  الترمذي : الأضاحي/ 3( 1495)  و أحمد ( 1/ 150 ))، وہ کہتےہیں کہ : علی   رضی اللہ عنہ دو  مینڈھوں کی قربانی کیاکرتےتھے: ایک رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سےاوردوسری اپنی طرف سے ، جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی توانہوں نےفرمایا  :"  أمرني به – يعني النبي صلی اللہ علیہ وسلم  -  فلاأدعه أبدا " مجھےرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کاحکم دیاہے اس لئےمیں اسےکبھی نہیں چھوڑتاہوں "
اور ابوداؤد کی روایت میں ہے:"إن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أوصاني أن أضحي عنه فأناأضحي عنه" " نبی أكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی وصیت  فرمائی ہے کہ میں آپ کی طرف سےقربانی کروں اس لئےمیں آپ کی طرف سے قربانی کرتاہوں  "
مندرجہ بالاروایت حددرجہ ضعیف ہونےکی وجہ سےناقابل اعتبارہے کیوں کہ اس کی سندمیں تین راوی معلول ہیں  :
1 -  شریک بن عبداللہ نخعی : ان کوعلمائےحدیث نےسوء حفظ کی بنیادپرضعیف قراردیاہے۔( دیکھئے : تھذیب التھذیب رقم (  577  )) ۔
2 – شریک کےاستاد ابوالحسناء : یہ مجہول ہونےکی بناپرمتروک ہیں(دیکھئے : التقریب  رقم ( 8053 )    ) ۔
3 – حنش بن عبداللہ ابوالمعترالکنانی : ان کےمتعلق ابن حبان لکھتے ہیں : كان كثير الوهم في الأخبارينفردعن علي بأشياءلايشبه حديث الثقات حتى صارممن لايحتج به "( المجروحين ( 1/ 269 ))  "یہ احادیث میں بہت زیادہ وہم کےشکارتھے، علی رضی اللہ عنہ  سے بہت ساری روایتوں میں منفرد ہیں ، جوثقات کی روایتوں کےمشابہ نہیں ، یہاں تک یہ ان لوگوں میں سے ہوگئےجوناقابلِ احتجاج ہیں  "
منذری لکھتےہیں :" ان کےسلسلےمیں کئی ایک لوگوں نےکلام کیاہے "
( دیکھئے : تحفۃالاحوذی ( 5 /79 )دوم : وہ روایتیں جواس معنی میں صریح نہیں ہیں، جیسے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم   کاقربانی کےوقت یہ دعاءکرنا:اللهم تقبّل من محمدوآل محمدوأمة محمد" (مسلم  :  الأضاحي/ 3 (  1967  )) اے اللہ محمدکی طرف سے اور محمد کی آل واولاد کی طرف سےاورمحمد کی امّت کی طرف سے اس قربانی کوقبول فرما  " .
      مذکورہ روایت کے لفظ " أمة "  کی عمومیت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اس کےاندر زندہ اورمردہ ہرقسم کےلوگ شامل ہیں  ۔     
     مذکورہ روایت کے لفظ " أمة "  کی عمومیت میں گرچہ فوت شدہ مسلمان بھی شامل ہیں اس کےباوجوداس سےمیت کی طرف سےقربانی کے جوازپراستدلال کئی وجوہات سےدرست نہیں ہے،کیونکہ اس سےزیرِنظر مسئلہ کی پوری وضاحت نہیں ہوپارہی ہے، اس لئےکہ لفظ " أمة "  کی عمومیت میں آئندہ نسل بھی شامل ہے،اوریہ معلوم ہےکہ کسی پُراُمّید فرد کی جانب سےقربانی یاکسی بھی قسم کاکارخیرجائزنہیں ہے، نیزکسی شخص کےلئے یہ جائزنہیں ہےکہ وہ پوری امت کی طرف سےقربانی کرے، لہذااس بنیادپریہ عمل نبی أكرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصائص میں سےہوگا، جیساکہ شیخ البانی رحمہ الله نےحافظ ابن حجررحمہ  الله کی فتح الباری کے حوالہ سے بعض اہلِ علم سےنقل کیاہے) دیکھئے :  ارواء الغلیل ( 4/ 354 ))۔ نیزصحابہ کرام رضي الله عنهم کی معتدبہ تعداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہی اوربعض نے لمبی عمریں پائیں ، اس کے باوجودکسی بھی صحابی سےرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سےاورنہ ہی کسی دوسرے فوت شدہ شخص کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہے ، اگریہ کارخیر ہوتا یاجواز کی کوئی صورت ہوتی توصحابہ  کرام  رضي الله عنهم اس کےکرنےمیں ایک دوسرے سے ضرور سبقت کرتےاوراگرکسی نے کیاہوتاتوہم تک ضرورپہنچتا  ؟؟؟؟؟
اسی طرح اللہ کےرسول e کےرشتہ داروں میں سب سےپیارے چچاحمزہ رضی اللہ عنہ سب سےپیاری بیوی خدیجہ رضي الله عنها اورآپ کی اپنی اولادیں آپ کی زندگی میں فوت ہوچکی تھیں اگرمُردوں کی طرف سےقربانی نیک عمل ہوتاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کی طرف سے ضرورکرتے، یاتقریرًا کسی کو اجازت دیناثابت ہوتا ۔
   شیخ ابن العثیمین رحمہ اللہ فرماتےہیں : " قربانی کےسلسلےمیں اصل یہ ہےکہ یہ زندوں کےحق میں مشروع ہےجیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب اپنی طرف سےاوراپنےاہل کی طرف سےکیاکرتےتھے ، اوربعض لوگ جو مردوں کی طرف سےمستقل قربانی کرتےہیں تواس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔
  اورمردے کی طرف سےقربانی کی تین قسمیں ہیں  :
پہلی : زندہ لوگوں کی طرف سے قربانی میں مُردوں کوشامل کرلیاجائے، جیسےقربانی کرتےوقت آدمی اپنےاوراپنےگھروالوں کی طرف سےقربانی کرے اوراس میں زندہ اورمُردہ سب کی نیت کرلے ۔ جس کی دلیل  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اوراپنےاہل کی طرف سے قربانی کرنی ہے اوراہل میں جوپہلےوفات پاچکےتھے وہ بھی شامل ہیں ۔
دوسری : مرنےوالےکی اگروصیت تھی کہ اس کی طرف سےقربانی کرنی ہےتواس کی وصیّت پوری کی جائےگی اور اس کی دلیل اللہ تعالی کا مندرجہ ذیل فرمان ہے : {فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ }(البقرة181)(پس  اگرکوئی شخص وصیت سن لینےکےبعد اسےبدل دےگا تواس کاگناہ اس کےبدلنے والوں کوہوگا، بےشک اللہ بڑاسننے والا اور جاننے والاہے )
تیسری : اگرمیت کی طرف سے مستقلاً کی جا‏ئے توفقہاء حنابلہ کےنزدیک صدقہ پرقیاس کرتےہوئےاس کاثواب میّت کوپہنچےگا، لیکن میں نہیں سمجھتاکہ خاص میت کی طرف سے قربانی کرناسنت ہے، کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی کسی بھی بیوی کی طرف سےخصوصی طورسےقربانی نہیں کی ہے اور نہ ہی اپنے رشتہ داروں میں سب سےپیارےچچاحمزہ کی طرف سےاورنہ ہی اپنی اولادوں کی طرف سےجوآپ کی زندگی میں وفات پاگئیں تھیں ، جن میں تین شادی شدہ بیٹیاں اورتین چھوٹےچھوٹےبچےتھے اورنہ اپنی سب سے پیاری بیوی خدیجہ رضی اللہ عنھا کی طرف سے، اورنہ ہی آپ کےعہد میں کسی صحابی ہی سےاپنےکسی وفات شدہ رشتہ دارکی  طرف سےقربانی کرناثابت ہے" (دیکھئے : احکام الاضحیۃ والذکاۃ  نیزدیکھۓ : الشرح الممتع علی زادالمستقنع ( 7/455 – 456) رسالۃ الاضحیۃ( 51)  اور الجامع لاحکام الاضحیہ (ص 48) ۔)
سوم : عام صدقات اورحج پرقیاس : شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله فرماتےہیں :" وتجوزالأضحية عن الميت كمايجوز الحج والصدقة عنه "( مجموع فتاوی ( 26/ 306 ))  
یہاں پریہ وضاحت ضروری ہے کہ جس طرح کوئی بھی عبادت جب تک کتاب وسنت سےمعمول بہا نہ ہو اس کاکرناجائزنہیں ہے ، ٹھیک اسی طرح سنت سےثبوت کےبغیرنیابتا اس کاکرناجائزنہیں ہے ، شیخ البانی رحمہ  الله فرماتے ہیں : وبالأحرى أن لايجوزله القياس عليهاغيرها من العبادات كالصلاة والصيام والقراءة ونحوهامن الطاعات لعدم ورودذلك عنه صلی اللہ علیہ وسلم فلايصلى عن أحدولايصوم عن أحد ولايقرأ عن أحد وأصل ذلك كله قول تعالى :{وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى}( النجم  39 ) نعم هناك أموراستثنيت من هذاالأصل بنصوص وردت ...........(إرواءالغليل   (4/ 354 ) " زیادہ مناسب بات یہ ہےکہ قربانی پردیگر عبادات کاقیاس جائزنہیں ہے جیسے نماز، روزہ اورتلاوت وغیرہ جیسی عبادتیں کیونکہ اس سلسلےمیں سنت سےکوئی چیزثابت نہیں ہے ، اس لئے کسی کی طرف سےنمازپڑھ سکتاہے، روزہ رکھ سکتاہےاورنہ ہی تلاوت کرسکتاہے اوراس سلسلےمیں دلیل اللہ تعالی کافرمان {وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى }( النجم  39 )  ( انسان کی اپنی محنت ہی کارگرہوگی ) ہے ، البتہ نصوص کی بنیادپرکچھ چیزیں اس سے مستثنی ہیں ۔۔۔۔۔۔" ۔
      کچھ لوگ حج پرقیاس کرتےہوئے میت کی طرف سےقربانی کوجائزقرار دیتےہیں کیونکہ میت کی طرف سےحج کاثبوت ہےاورحج کےاندر ھَدي بھی ہے !
     لیکن یہ قیاس کئی وجہوں کی بناپردرست نہیں ہے ، کیونکہ حج ایک مستقل عبادت ہےجس کےمستقل اورمتعین ارکان وفرائض ہیں جن میں احرام ، تلبیہ، طواف ،منی ،مزدلفہ اورعرفات کےاحکام وعبادات ، رمی جمار ، سعی،حلق یاقصراورھدي وغیرہ ہیں ، اوران میں سےکوئی بھی رکن سنت سےثبوت کےبغیرکسی اورکےلئےکرناجائزنہیں ہے ، جیساکہ امام البانی کے قول میں گزرا ۔
لہذاجن عبادتوں کاکرنانصوص سے ثابت ہےان کاکرناجائزہے ، لیکن جن کا کرنا ثابت نہیں اسےکرنااوررواج دیناقطعادرست نہیں ہے ، کیونکہ اس سےدین میں بدعات کی راہ کھلنےکاخطرہ پایاجاتاہے ، اورایسابہت ساری عبادتوں کےاندرہم آئےدن ملاحظہ کرتے رہتےہیں اوراس وجہ سےبہت سارے مسائل بھی پیداہوتے رہتےہیں ۔
        اب قربانی کوہی لےلیجئے ، جن لوگوں نےمُردےکی طرف سے قربانی کے جوازکافتوی دیاہے ان کےدرمیان یہ اختلاف پایاجاتاہےکہ میت کی طرف سےکی گئی قربانی کےجانورکاگوشت کاکیاحکم ہے؟ اسےاستعمال کیاجا سکتاہے، یاتمام کےتمام کوصدقہ کردیناچاہئے ؟ کسی نبی خاص طورسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سےقربانی کی جاسکتی ہےیانہیں ؟ اگرکرلی گئی تواس کے گوشت اورچمڑےکاکیاحکم ہوگا؟
     یہ اوراس طرح کےبےشمارمسائل پیداہوتےہیں جنکی کتاب وسنت اور آثارصحابہ میں کوئی دلیل نہیں ہے ۔
 چنانچہ قربانی بھی انہیں عبادتوں میں سےہےجن کافوت شدہ آدمی کی طرف سےکرناثابت نہیں ہے ، اورنہ ہی یہ سنت ہے، البتہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرتےہوئے آدمی قربانی کرتے وقت یہ کہے : " أللهم تقبل مني ومن أهل بيتي"   " اےاللہ میری اورمیرےگھروالوں کی طرف سے قبول فرما " تویہ عین سنت ہےاوراس میں زندہ اورمردہ سب شامل ہيں  ۔  واللہ أعلم بالصواب   ۔
********
قربانی کی بدعات ورسوم
       قربانی کےتعلق سےعوام الناس میں بہت ساری غلط رسمیں اور بدعات رائج ہیں ، جوہماری عبادتوں کوناقابل قبول اورمردود بنادیتی ہیں ، اورنہ صرف یہ کہ یہ عبادتیں غلط ہوجاتی ہیں بلکہ الٹاسبب گناہ بن جاتی ہیں ، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهورد (بخاری : البیوع /60(4/448) والاعتصام /20 (13/387تعلیقا , ومسلم : الأقضیة/8 (1718/18)) "جوکوئی ہمارےاس دین میں کوئی نئی چیزنکالےجواس میں سےنہ ہو تووہ مردودہے" اورفرمايا  : " من أحدث في أمرناهذا ماليس منه فهورد"( بخاری : الصلح/6(5/370) رقم (2697) ومسلم : الاقضیۃ/8(1718/17))"جوکوئی ایساعمل کرےجوہمارےدین سےبیگانہ عمل ہوتووہ قبول نہ ہوگا"اورفرمايا : "إياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة وكل ضلالة في النار "( أبوداؤد : السنة /6  رقم (4607)  والترمذي : العلم/16 (2678) وابن ماجة : المقدمۃ/6(42) شیخ البانی نے اس روایت کوصحیح قراردیاہے، دیکھئے : صحیح سنن الترمذی (2157)  )  (دین میں ) نئی چیزایجادکرنے سےبچو کیوں کہ (دین میں ) ہرایجادکی گئی نئی چیزبدعت ہےاورہربدعت گمراہی ہےاورہرگمراہی جہنم میں لے جانےوالی ہے"
ذیل میں ہم قربانی کےتعلق سےرائج چندبدعات کاتذکرہ کرتےہیں تاکہ ہم ان سےواقف ہوکراوران سےبچ کراپنےایمان و عمل کودرست کرلیں  اللہ تعالی ہمیں خالص سنت کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے  -  آمین :
1 – جانوروں کی نمائش  : آج کل جانوروں کی نمائش ، ایک دوسرے سے مقابلہ ، جانوروں کومہندی لگانااورانہیں سجاناسنوارنامسلم معاشرہ میں ایک عام بات ہوچکی ہے جوکہ اخلاص وللہیت اورمقصد قربانی کے یکسرمنافی  ہے ، موٹے، تروتازہ اورتندرست جانورکاانتخاب ایک مستحب عمل ہے لیکن ان کی نمائش وتزئین کتاب وسنت اورآثارصحابہ سےثابت نہیں ، بلکہ دیکھاجائےتویہ چیزخاص طورسےبرصغیرمیں ہندورسم ورواج سےمتأثر عمل ہےجوکہ وہ جانوروں کی بلی کےوقت کرتےہیں ( نعوذباللہ من ذلک ) ۔
2 – ذبح کےوقت جانورکےپیٹھ کوچھونا ۔
3 – ذبح سے پہلے جانورکووضوء کرانا ۔
4 – ذبح سےپہلےجانورکوغسل دینا ۔
5 – ذبح سےپہلےجانورکوکچھ کھلانا ۔
6  -  نبی أكرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سےقربانی کرنا جس کاکتاب وسنت سے کوئی ثبوت  نہیں ہے ، اگراس کاکوئی ثبوت ہوتاتودرودوسلام کے فضائل کی طرح اس کابھی بیان نصوصِ قرآن وسنت میں ضرورہوتا ۔
– قربانی سےپہلےجانورکوکسی قبریامزارکاطواف کرانا ، یہ سب سے بدترین  بدعتوں میں سےایک ہے ۔
8 – قربانی کی جگہ کی خوب تزئین اور اسے قابل تبرّک سمجھنا ۔
9 -  بعض لوگ میت کےپہلےسال میں جس میں وہ مراہےاس کی طرف سےقربانی اس اعتقادکےساتھ کرتےہیں کہ اس کےثواب میں کسی کی شرکت جائز نہیں ہے ، ایسی قربانی کویہ لوگ (أضحية الحفرةکانام دیتےہیں ۔  
10 – عید کی رات میں اس کے سرسےلیکردم تک چھونا ۔
11 – اس کاخون گھر کے دروازے اور سواریوں پر لگانا ۔
12 – اس  کاخون چھوٹےبچوں کی پیشانی پرلگانا ۔
13 – قربانی کرتے وقت درودپڑھنا، کیوں کہ اس کاثبوت نہیں ہے اور تعبد للہ کےاندربغیرثبوت کےعمل بدعت ہے ۔
14 – کسی قبریا مزار کے پاس ذبح کرنا، یہ شرک اکبرکےدرجہ میں آتاہے اگر ایسا کوئی ذبیحہ ہے تو اس کاکھانا قطعًا حرام ہے، اسی طرح قبر یا مزار پر رکھی ہوئی کسی بھی چیزکا استعمال حرام ہے ۔
15 – ذبح کرنےوالےمولوی کوضروری یا اس کاحق سمجھ کرقربانی کے جانور کاسر اور پیر یا ان کی قیمت دینا ( البتہ اگراس کو قربانی کامشروع و مسنون ہدیہ یاصدقہ کے بطور بلا کسی عضو کی تخصیص کے دیاجائے تویہ مستحب ومسنون ہے  ) ۔
********
قربانی سےمتعلق چندضعیف اورموضوع روایتیں
       کتاب کےاس حصہ میں ہم قربانی کےمتعلق واردبعض ضعیف اور موضوع روایتوں کاذکرکررہےہیں تاکہ قارئین کےعلم میں قربانی کےاحکام وغیرہ کےتعلق سےاضافہ ہوسکےاوروہ ‍ قربانی کےتعلق سے اپنےبعض اعمال پر نظرثانی کرسکیں   :
احکام وفضائل : 
1عن عائشة رضي الله عنهاأن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  قال:"ما عمل آدمي من عمل يوم النحر أحب إلي الله من إهراق الدم  إنها لتأتي يوم القيامة بقرونها وأشعارها وأظلافها وأن الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع من الأرض فطيبوا بها نفساً "( أخرجه الترمذي : الأضاحي/ 1 ( رقم 1493) وابن ماجة : الأضاحي /3 (رقم 3126 )  والحاكم  (4/221 - 222) .).اللہ تعالی کےنزدیک قربانی کےدن خون بہانےسے زیادہ پسندیدہ عمل کوئی بھی نہیں ہے، قیامت کےدن (وہ جانور) اپنے سینگ ،بال اورکھُروں کےساتھ آئےگا،اوراس کاخون زمین پرپڑنےسے پہلے اللہ کےیہاں مقبول ہوجاتاہے، پس خوش دلی سے قربانی کرو "
اس روایت کوامام ذہبی ،امام منذری ، امام ابوحاتم اورعلامہ البانی نے ضعیف قراردیاہے (دیکھئے : السلسلة الضعيفة ( 2/14رقم (526) ۔)
2عن زيد بن أرقم  رضی اللہ عنہ  قال:قال أصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم:ما هذه الأضاحي ؟ قال سنة أبيكم إبراهيم . قالوا : فما لنا فيها يا رسول الله ؟ قال: بكل شعرة حسنة، قالوا: فالصوف يا رسول الله؟ قال: بكل شعرة من الصوف حسنة "( أخرجه ابن ماجة : الأضاحي/ 3 ( رقم 3127) والحاكم (2/389)).                      
 صحابہ کرام نےاللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے قربانی کےمتعلق پوچھاتوآپ نے فرمایا :" تمہارےباپ ابراہیم کی سنت ہے " انہوں نےپوچھا : اس میں ہمیں کیاملےگا؟ توآپ نےفرمایا :'" ہربال کےبدلےایک نیکی " پوچھا:
 صوف ( بھیڑکےملائم لمبےبال ) کےمتعلق کیافرماتےہیں ؟  توفرمایا  :
" صوف  کےہربال کےبدلےایک نیکی ہے  "
    اس روایت کی سند میں ابوداؤدنفیع بن الحارث متروک راوی ہےجو حدیثیں گھڑنے کامتہم بھی ہے، ابن معین نےاس کی تکذیب کی ہے (دیکھئے : تھذیب التھذیب (10/470) اورتقریب التھذیب (7207))
علامہ البانى ضعيفۃ  کے اندرفرماتے ہیں کہ یہ روایت موضوع ہے (دیکھئے: الضعیفة  ( 2/14 ) رقم (527))                                    
3 - أبو سعيد رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  :يا فاطمة قومي إلى أضحيتك فاشهديها فإن لك بأول قطرة تقطر من دمهاأن يغفر لك ماسلف من ذنوبك" قالت:يارسول الله ! ألنا خاصة أهل البيت أولناوللمسلمين ؟ قال:" بل لنا وللمسلمين" (رواه البزاركمافي كشف الأستار رقم (1202) والمنذري في الترغيب والترهيب رقم (1622))اےفاطمہ اپنی قربانی کےجانورکےپاس جاؤ، کیونکہ اس کےبہنے والے خون کےپہلے قطرےکے بدلےتمہارے کئے گئے سارےگناہ معاف کردئےجائیں گے" فاطمہ رضی اللہ عنھا نے پوچھا :  اے اللہ کےرسول (صلی اللہ علیہ وسلم) !  یہ  ہم اہل بیت کے لیےخاص ہے یاتمام مسلمانوں کےلئے(عام ) ہے ؟ توآپ نےفرمایا:" ہمارےاور تمام مسلمانوں کےلئے(عام ) ہے "
اور أبو القاسم الأصبهاني نے علي رضی اللہ عنہسے روایت کیاہےجس کےالفاظ یہ ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :" يا فاطمة قومي فاشهدي أضحيتك فإن لك بأول قطرة تقطر من دمها مغفرة لكل ذنب أما إنه يجاء بلحمها ودمها توضع في ميزانك سبعين ضعفا " قال أبو سعيد : يا رسول الله ! هذا لآل محمد خاصة فإنهم أهل لما خصوا به من الخير أو للمسلمين عامة ؟ قال :" لآل محمد خاصة وللمسلمين عامة "( الأصبهاني في الترغيب والترهيب رقم (348) والمنذري في الترغيب والترهيب رقم (1623))
اےفاطمہ اپنی قربانی کےجانورکےپاس جاؤ، کیونکہ اس کےبہنے والےخون کاپہلاقطرہ تمہارےسارےگناہوں کےلیے مغفرت کاسبب ہے، قیامت کےدن اس کاگوشت اورخون لایاجائےگا اور تمہارے میزان (ترازو) میں سترگنازیادہ کرکے رکھ دیاجا‏ئےگا " ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہنےپوچھا : اےاللہ کےرسول (صلی اللہ علیہ وسلم! اہل بیت کاخیرکےاہل ہونےکی بنیاد پر یہ ان کےساتھ خاص ہے یا (تمام) مسلمانوں کےلئےعام ہے؟ توآپ نےفرمایا :" آل محمد کےلئے خاص ہےاورتمام مسلمانوں کےلئے عام ہے "
اس کوامام البانی نے ضعیف قراردیاہے (دیکھئے :  ضعیف الترغیب  )
      اورایک روایت میں ہےکہ آپ نےفرمایا :"يافاطمةقومي إلى أضحيتك فاشهديها فإنه يغفر لك عند أول قطرة من دمهاكل ذنب عملتيه وقولي:(إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لاشريك له وبذلك أمرت وأنا من المسلمين ) قال عمران بن حصين : قلت:يا رسول الله ! هذالك ولأهل بيتك خاصة وأهل ذاك أنتم،أم للمسلمين عامة ؟  قال:" لا بل للمسلمين عامة "( أخرجه الطبراني في الكبير(18/239) وفي الأوسط(140) والحاكم(4/122) والبيهقي في الكبرى(9/383)) .
اےفاطمہ اپنی قربانی کےجانورکےپاس جاؤاوروہاں حاضررہو کیونکہ اس کےبہنےوالےخون کےپہلےقطرےکےوقت تمہارےسارےگناہ بخش دئےجاتےہیں، اوراس وقت تم یہ دعاء پڑھو  ‏: إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لاشريك له وبذلك أمرت وأنا من المسلمين)عمران بن حصين نےکہا:يارسول الله!یہ آپ کے گھر والوں کےلئےخاص ہے ، جس کےآپ لوگ حقداربھی ہیں یا (تمام) مسلمانوں کےلئےعام ہے؟ توآپ نےفرمایا : تمام مسلمانوں کےلئے (عام) ہے "
 یہ روایت " منکر" ہے امام حاکم نےاس کی تصحیح کی ہےلیکن امام ذہبی نےاسے ردکردیاہے،فرماتےہیں :" ( اس روایت میں ) ابوحمزہ نہایت درجہ ضعیف ہےاوراسماعیل صحت کےلائق نہیں " ابوحاتم فرماتےہیں : "میں نےاپنےوالد محترم کوکہتےسناکہ یہ حدیث منکرہے"( دیکھئے  :  علل الحدیث  ( 2/28 – 39 )) امام البانی نے بھی اس حدیث پرمنکرہونےکاحکم لگایاہے (دیکھئے :  الضعیفة ( 2/ 15  )) ۔
4 – " أمرت بيوم الأضحى عيدا جعله الله عز وجل لهذه الأمة "قال الرجل:أرأيت إن لم أجد إلا أضحية أنثى أفأضحي بها ؟ قال: " لا ولكن تأخذ من شعرك وأظفارك وتقص شاربك وتحلق عانتك فتلك تمام أضحيتك عند الله عز وجل "( أبو داؤد : الضحايا/ 1(2789) النسائي : الضحایا/2(رقم 4370))
 " مجھےقربانی کےدن کواس امت کےلئے عیدکادن بنانےکاحکم دیا گیا ہے" ایک آدمی نےپوچھا: اگرمجھےمادہ جانورہی ملےتوکیامیں اس کی قربانی کرسکتا ہوں؟ توآپ نےفرمایا :" نہیں لیکن اگرتم اپنے بال منڈواؤ ، ناخن تراشو، مونچھے کترو اورزیرناف بال بنا‌ؤ تواس سےاللہ تعالی کےنزدیک تمہاری  قربانی پوری ہوجائےگی"شیخ البانی نےاس روایت کوضعیف قراردیاہے (دیکھئے : ضعیف الجامع الصغیر(1265) ضعیف سنن النسائی (294) ضعیف سنن ابی داؤد (595) وتحقیـقـه علی مشکاۃ المصابیح (1479))(لیکن دکتورمساعد الراشدنے "احکام العیدین "للفریابی کی تحقیق میں متعدد متابعات اورشواہدکی بناپراس کو حسن قرار دیا ہے/احمدمجتبی سلفی )۔
5 - عن الحسن بن عليّ رضي الله عنهما قال:قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم" من ضحى طيبة بها نفسه  محتسباً الأضحية  كانت له حجابا من النار"( رواه الطبراني في الكبيركمافي مجمع الزوائد  (  4/ 17 ))"جس نے بطیب خاطر ‌قربانی کےثواب کی نیت سےقربانی کیاتووہ قیامت کےدن اس کےلئے جہنم سے پردہ ہوجائےگا "
ہیثمی فرماتےہیں :" اس کی سند میں سليمان بن عمرو النخعي کذاب ہے"( دیکھئے  :  مجمع الزوائد (4/17))
ابن حبان ان کے سلسلےمیں کہتے ہیں کہ : " یہ بظاہرصالح آدمی تھالیکن حدیثیں گھڑاکرتاتھا" اورشیخ البانی نےاسےموضوع قراردیاہے(دیکھئے :  الضعيفة ( 2/15 ) رقم (529)   ) ۔
 امام ابن العربی عارضۃ الاحوذی میں فرماتے ہیں  :" قربانی کی فضیلت میں واردکوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے(دیکھئے :   عارضۃ الاحوذی  ( 6/ 228 )) "
 علامہ مبارکپوری نےبھی تحفۃ الاحوذی میں ان کی تائیدکی ہے(دیکھئے : تحفۃ الاحوذی  (5 / 75 )) ۔
قیمتی اورموٹاجانور  :
    متعدد صحیح احادیث میں اس بات کی صراحت موجودہےکہ موٹا، تازہ ، تندرست اوربےعیب جانورکی قربانی مستحب ہے،اسی طرح اس کی دیکھ ریکھ اوراسے کھلاپلا کرتندرست اورموٹاکرنامستحب ہے ۔
 اندھا ، لنگڑا اورنہایت ہی دبلے پتلےجانورکی قربانی درست نہیں ہے ۔( دیکھئے : أبوداؤد : ضحایا/ 6 ( 2802) اور ابن ماجة : اضاحی/ 6 و 8 ( 3142 - 3144) وغیرہ)
عوام میں بعض ضعیف احادیث کی بنیادپرمشہورہے کہ موٹےجانورکی قربانی کی حکمت یہ ہےکہ یہ بروزقیامت پُل صراط پرسواری کاکام دیں گے، حن میں سےایک مندرجہ ذیل ہے  :
1"استفرهواضحاياكم فإنهامطاياكم على الصراط"عمدہ جانورکی قربانی کروکیونکہ یہ پُل صراط پرتمہاری سواری ہوں گے"
 دیلمی نےاسے بطریق عبد الله بن المبارك عن يحيى عن أبيه عن أبي هريرة روایت  کیاہے(مسندالفردوس رقم  (  267 )) اورامام الحرمین نے نھایۃ اوروسیط میں"عظِّموا"کے لفظ کے ساتھ نقل کیاہے، یعنی"جانورکوموٹا کرو"( دیکھئے :  المقاصدالحسنۃ للسخاوی (  رقم 108 ص  14 )) ۔
 یہ روایت نہایت ہی ضعیف ہے کیونکہ اس کےراوی یحیی بن عبداللہ ضعیف ہیں (دیکھئے :لسان المیزان( 5231  ))امام عجلونی کشف الخفامیں لکھتے ہیں:"رواه الديلمي بسند ضعيف جدا"(دیکھئے:کشف الخفا  (1/133))یعنی "دیلمی نےاسےنہایت ہی ضعیف سندکے ساتھ روایت کیاہے" امام سخاوی فرماتےہیں :"يحيى ضعيف جدا" (المقاصد الحسنة   (  ص  114 ))
 شیخ البانی اس روایت کےبارےمیں فرماتےہیں : "ضعيف جدا"( ضعیف الجامع رقم ( 924 ))                                      
2 – " إن أفضل الضحاياأغلاهاواسمنها "( رواه أحمد (3/424) والحاكم (4 /231) والبيهقي (9/ 168عن أبي الأشد عن أبيه عن جده) یعنی "سب سے افضل قربانی قیمتی اورموٹاجانور کی قربانی ہے "
 اس روایت کی سند میں دوراوی مجروح ہیں ؛  ایک عثمان بن زفرالجھنی ہیں جوکہ مجھول ہیں(دیکھئے : تقریب رقم (  4469 )) اوردوسرے أبوالأشد السلمي ہیں یہ بھی مجھول ہیں، ہیثمی لکھتےہیں :أبوالأشد لم أجده من وثقه ولاجرحه وكذلك أبوه" (مجمع الزوائد (4 /21)) "ابوالاشدکےسلسلےمیں میں نےنہ توثیق کرنےوالےکوہی پایااورنہ ہی جرح کرنےوالےکواوراسی طرح ان کےباپ کےسلسلےمیں "۔
رات میں قربانی  :
عن ابن عباس مرفوعاً:"نهى رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عن الأضحية ليلاً"( رواه الطبراني في الكبير  (رقم 11458)) اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں قربانی کرنے سےمنع  فرمایا  "  
ہيثمي فرماتے ہیں : " اس کی سند میں سليمان بن أبي سلمۃ الجنايزي متروك ہیں  " (دیکھئے  : ‎ مجمع الزوائد (  4 /23 )  جنايزی کے ترجمہ کےلئے دیکھئے : میزان الاعتدال (2/209))  
مسافرکی قربانی  :
1 - عن علي رضی اللہ عنہ,قال:"ليس على المسافرجمعة ولاأضحية"( دیکھئے :  هداية ( 4 / 345 )  مسافرپرجمعہ اورقربانی نہیں ہے "
 حافظ ابن حجرفرماتےہیں :" میں نےاس روایت کوکہیں نہیں پایا "( دیکھئے  : الدراية  ( 2 / 215 )) امام زیلعی فرماتےہیں : " غريب " (دیکھئے : نصب الراية ( 4/ 211 ))  
2 – ہدایہ کے اندرہےکہ ابوبکروعمررضی اللہ عنھما سفرمیں قربانی نہیں کیا کرتے تھے (دیکھئے  :  ھدایۃ (4 / 345 )
   حافظ ابن حجراورامام زیلعی فرماتےہیں : " اس روایت کوہم نےنہیں پایا، صحیح بات یہ ہےکہ یہ دونوں حضرات مطلقًاقربانی نہیں کیاکرتے تھےکہ مبادا اسے واجب سمجھ لیاجائے" (دیکھئے :  نصب الراية ( 4/ 211  )  الدراية  (2/215 ))
امام شافعی فرماتےہیں :" وبلغنا أن أبا بكر وعمر رضي الله عنهما كانا لا يضحيان كراهية أن يُرَى أنها واجبة ""ہمیں یہ خبرپہنچی ہےکہ مبادا قربانی کوواجب سمجھ لیاجائے اس لئے ابوبکراورعمررضی اللہ عنھما قربانی نہیں کرتے تھے " (مختصر المزني مع الأم ( 8/ 283 ))
 امام بیھقی نےابوشریحہ حذیفہ بن اسیدغفاری رضی  اللہ عنہسے روایت کیاہے  : أدركت أبابكروعمرأورأيت أبابكر وعمر رضي الله عنهما كانا لا يضحيان- في بعض حديثهم - كراهية أن يقتدى بهما "( سنن البيهقي الكبرى (  9/ 265 )) میں نےابوبکروعمرررضی اللہ عنہما کوپایا یادیکھا کہ وہ  قربانی نہیں کیاکرتے تھے – بعض روایتوں میں ہے کہ -  اس خوف سےکہ ان کی اقتدا (اسے واجب سمجھ کر) کی جا‏ئے  "
امام نووی نےاس روایت کی سندکوحسن  قراردیاہے (المجموع   ( 8/383  ))
ہیثمی لکھتےہیں :ورواه الطبراني في الكبير ورجاله رجال الصحيح" (مجمع الزوائد (  4/18  ))"اسےطبرانی نےمعجم کبیرمیں روایت کی ہے اوراس کےرجال صحیح کے رجال  ہیں  "
 شیخ البانی نےبھی اسےصحیح قراردیاہے (دیکھئے  : إرواء الغليل   (4/355  )
3 – امام نخعی فرماتے ہیں : " عمربن خطاب رضي اللہ عنہ حج میں قربانی نہیں کیا کرتے تھے "                                                                   
   یہ روایت مرسل ہےجیساکہ امام ابن حزم نےمحلی کے اندرذکر کیاہے
 (المحلی ( 2/ 375 ))
     یہاں یہ ذکرکردینازیادہ مناسب ہےکہ سفرمیں قربانی کرنااللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنھم سےصحیح سندوں کےساتھ ثابت ہے، جیساکہ پچھلےصفحات میں گزرا ۔
********
نمازعیدالاضحی کا طریقہ
کتاب ناقص رہے گی اگرعیدالاضحی کی نمازکا طریقہ  اس کے اندر نہ شامل کیاجائے ۔
عیدالفطراورعیدالاضحی کی نمازوں کا ایک ہی طریقہ ہے ، بس فرق اتناہے کہ عیدالفطرکی نمازکےلئے عیدگاہ جانے سے پہلے اگرمیسرہو توچندکھجوریں کھالی جائیں ، یا کچھ بھی کھالیاجائے اورعیدالاضحی کی نمازکےلئےعیدگاہ جانے سےقبل کچھ بھی نہ کھایاجائےاورواپس آکر جس کےیہاں قربانی ہووہ قربانی کےگوشت سےکھانے کی ابتداء  کرے،اورجس کےیہاں قربانی نہ ہواورنہ ہی کسی کےیہاں سے فوری گوشت ہدیہ آنےکی امیدنہ ہوتو جوچیزبھی میسرہوکھالے، عیدالفطر اورعیدالاضحی کے نمازکے لئے جاتے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سنت تھی (یعنی عیدالفطرمیں کھاکرجانااور عید الاضحی میں باسی منہ جانا)
اگرممکن ہوتو ایک راستہ سے عیدگاہ جائے اوردوسرےراستہ سے واپس آئے ، آتے جاتے تکبیرات کہتےہوئے جائے اورواپس آئے ۔
عیدین کی نمازدورکعت سنت مؤکدہ ہے پہلی رکعت میں تکبیرتحریمہ کے بعدسات زائدتکبیریں اوردوسری رکعت میں سجدے سےاٹھتے وقت والی تکبیرکے علاوہ اسی کے بعدپانچ زائدتکبیریں سنت ہیں ۔
پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کےبعد"سبح اسم ربک الاعلی " اوردوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد" ھل اتاک حدیث الغاشیۃ" پڑھنا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہے ۔
سلام کے بعدامام دونوں عیدوں کی مناسبت سے عید کا خطبہ دے، عیدین کا خطبہ ایک ہی ہے جمعہ کی طرح دونہیں ، تمام حاضرین کو نمازکی طرح خطبہ میں بھی شریک رہناچاہئے۔
جہاں پرانتظام ہو وہاں عورتوں کوبھی عیدگاہ لے جاناچاہئے ، پاک عورتیں نمازمیں شریک ہوں گی اورحائضہ اورنفاس والی عورتیں نمازسے الگ رہیں مگردعاء میں شریک ہوجائیں ۔   
  اللہ رب العزت ہمیں اپنےدین پرکتاب وسنّت کےمطابق عمل پیراہونے کی توفیق عطافرمائے اورہماری عبادتوں کوخالص اپنےلئے کردےاورہرقسم کے شروفتن سےاپنے امان میں رکھے ۔  وصلى الله على خير خلقه ونبيه وعلى آله وصحبه وسلم  – آمين  -
**********