منگل، 14 اگست، 2018

یوم عرفہ کا روزہ : احکام و فضائل اوربعض شبہات کاازالہ


  بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده,وبعد:
*عرفہ کادن* :   
یوم عرفہ کو یوم عرفات بھی کہتے ہیں کیونکہ حج کے ایام میں نویں ذی الحجہ کو حاجی حج کے ایک اہم  رکن کی ادائیگی کے لئے  مقام عرفات میں اکٹھا ہوتے ہیں جو مکہ  سے قریب بائیس کیلو میٹر کی مسافت پر ایک پہاڑی کا نام ہے ۔( معجم المعانی اور لغت کی ديگر کتب ،  مادہ : "عرف") اہل لغت کی تصریح کے مطابق  عرفہ کے دن کی تعیین میں زمان ومکان دونوں ایک دوسرے سے مرتبط ہیں۔  
نیز عرفہ کے دن  کی تعیین کے سلسلے میں عام طور پر اہل لغت  لکھتے ہیں کہ  عرفہ  ذی الحجہ کا نواں دن ہے (دیکھئے: " القاموس الفقهي " "معجم لغةالفقهاء"،اسی طرح دیگر شروح كتب السنۃ) ۔
اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عرفہ کا دن ذی الحجہ کی نویں تاریخ کوہی پڑتاہے اور ذی الحجہ کا اعتبارمکہ ونواحی کی رؤیت کے اعتبار سے ہوتاہے کیونکہ عرفہ کا دن حج کے اعمال سے متعلق ہے جو بلاشبہ مکہ کی رؤیت کے اعتبارسے ہی ہوتاہے۔
عرفہ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں امام ابن قدامہ فرماتے ہیں :" فأما يوم عرفة : فهو اليوم التاسع من ذي الحجة ، سمي بذلك لأن الوقوف بعرفة فيه،وقيل : سمي يوم عرفة لأن إبراهيم عليه السلام أري في المنام ليلة التروية أنه يؤمر بذبح ابنه، فأصبح يومه يتروى، هل هذا من الله أوحلم ؟ فسمي يوم التروية،فلما كانت الليلة الثانية رآه أيضا فأصبح يوم عرفة، فعرف أنه من الله، فسمي يوم عرفة " (المغني : 4/ 442 )" عرفہ کا دن ذی الحجہ کی نویں تاریخ  ہے یہ نام اس لئے پڑاکہ اسی دن وقوف عرفہ ہوتاہے ، اور کہاجاتاہے کہ يوم عرفہ کانام  یوم عرفہ اس لئے پڑاکیونکہ ابراہیم علیہ السلام کویوم ترویہ کی رات میں خواب میں دکھایاگیا کہ انہیں اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کاحکم دیاجارہاہے ، پھر وہ پورے دن اس غور و فکر میں رہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے یا پھرمحض ایک خواب ؟ اسی وجہ سے اس دن کا نام یوم ترویہ پڑا  ،پھر دوسری رات بھی آپ کو یہ خواب دکھایاگیا پھرجب عرفہ کی صبح ہوئی تو آپ جان گئے کہ یہ اللہ کی جانب سے (حکم) ہے ، اسی وجہ سے اس کا نام عرفہ کا دن پڑا"۔
اس کے علاوہ بھی عرفہ یا عرفات کی وجہ تسمیہ سے متعلق بہت سارے اقوال مفسرین نے نقل کئے ہیں جن میں آدم علیہ السلام کا اس جگہ کو پہچاننا , آدم وحواء علیہما السلام کا اسی مقام میں ایک دوسرے کو پہچاننا ، ابراہیم علیہ السلام کا جبریل علیہ السلام کے ذریعہ بتانے پر حج کے ارکان کا پہچاننا اور لوگوں کا اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا وغیرہ ۔(ان سارے اقوال کے لئے دیکھئے : " تفسسير الطبري : 2 / 297 ) ، البحر المحيط :2 / 275 (( فإذا أفضتم من عرفات ... الآية , کی تفسیرمیں  )) ،اور اسی طرح  " لسان العرب لابن منظور : 4 / 2898  = مادة : (عرف ) ۔
*یوم عرفہ کے دیگر نام* : 
اس دن کو عرفہ کے علاوہ بھی کئی ناموں سے جانا جاتا ہے، مثلا : یوم التمام ، یوم الحج الاکبر، المشھود،الوتراور یوم الرضاء وغیرہ ۔
*عرفہ کے دن کی فضیلت*: 
عرفہ کے دن   کی نصوص قرآن وسنت میں  بہت بڑی فضیلت وارد ہے  ، مثلا :
1 -  عرفہ کا دن اہل موقف کے لئے عید کا دن ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "يوم عرفة ويوم النحر وأيام منى عيدنا أهل الإسلام"(رواه أحمد/16932أبوداود:7/63 رقم/ 2419,الترمذي :3/417 رقم/768 والنسائي: 5/278رقم 3006وصححه الألباني في صحيح سنن أبي داؤد رقم/2090الإرواء :4/130) یعنی :" عرفہ ، نحر(قربانی) اور منی کے ایام ہم اہل اسلام کے لئے عیدکے دن ہیں "۔ 
2 –  اس روز دعاء کا خاص مقام ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"خير الدعاء دعاء يوم عرفة " یعنی : "سب سے بہترین دعاء عرفہ کے دن کی دعاء ہے" (الترمذي:رقم /3585 وحسنه الألباني في صحيح الترمذي وتخريج مشكاة المصابيح :رقم/2531) .
3 – عرفہ کے دن اللہ تعالی کثرت سے لوگوں کو جہنم سے رہا کرتاہے  اللہ کے رسول صلى الله عليہ وسلم کا ارشادہے : " ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبدا من النار من يوم عرفة"( صحيح مسلم / 1348)
یعنی : " عرفہ کے دن سے زیادہ اللہ تعالی کسی دن بندوں کو آزاد نہیں کرتا"۔
4 – اللہ تعالی عرفہ میں وقوف کرنے والوں پر اہل آسمان کے درمیان فخرکرتاہے  ، اللہ کے رسول صلى الله عليہ وسلم کا ارشادہے :  "إن الله يباهي بأهل عرفات أهل السماء"( رواه أحمد وصحح إسناده الألباني " اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"وإنه ليدنو ثم يباهي بهم ......." " اللہ تعالی قریب ہوتاہے پھر ان پرفخرکرتاہے " (صحیح مسلم / 1348 )۔
5 - اسی دن دین اسلام کی تکمیل ہو‏ئی اورنعمت کا اتمام ہوا۔(صحیح البخاری : 4606 )
6 – اس دن کی اللہ تعالی نے مختلف آیتوں میں قسم کھائی ہے جو اس دن کی اہمیت ومرتبہ کو بیان کرتاہے ، جیسے سورۃ البروج میں " مشھود" (البيهقي فی السنن :" 3/170 ، الترمذی :رقم/3339  وحسنه الالبانی في الصحيحة رقم/1502) اور بتفسیر عکرمہ وضحاک سورۃ الفجرمیں " الوتر" ۔ (دیکھئے : تفسیر الطبری وغیرہ )
7 –اسی دن اللہ تعالی نے بنی آدم سے توحید پر عہدومیثاق لیاتھا ۔ ( رواہ احمد/2455 ،والحاكم /75    وصححہ الالبانی )
اس کے علاوہ بھی اور بہت ساری خصوصیات ہیں جو اس دن کو دیگر ایام سے ممتازکرتی ہیں ۔
*عرفہ کے دن کے روز ہ کی فضیلت* :
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرفہ کے دن کے روزہ سے متعلق پوچھاگیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:"إني أحتسب على الله  أن يكفر السنة التي قبله  والسنة التي بعده ......" ( صحیح مسلم/1162 ) " مجھے اللہ تعالی سے امیدہے کہ (اس روزے کے بدلے) اس سے پہلے والے سال اور اس کے بعدوالے سال کے گناہوں کو معاف فرمادیگا)۔
*"کیا حاجی مقام عرفات میں روزہ رکھ سکتاہے؟* :
حاجی مقام عرفات میں روزہ رکھنے کے سلسلے میں علماء کی مختلف رائیں ہیں :
اول : مقام عرفات میں حاجی کے روزہ کے سلسلے میں روایت واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ سلم نے عرفات میں  روزہ نہیں رکھا۔(دیکھئے :صحیح بخاری : 1658 ،صحیح مسلم /1123)  ۔                                                                      یہ قول مالکیہ ، شافعیہ کا معتمد قول ، حنابلہ  عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما  اور اکثر علماء کا ہے ۔
عبداللہ بن عمر فرمایا کرتے تھے کہ :"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ نہیں رکھا اورنہ ہی ابوبکرنےاورنہ ہی عمرنے    اور نہ ہی عثمان نے ،  اور نہ میں رکھتاہوں ،اور نہ میں اس کا حکم دیتاہوں اور نہ اس سے روکتاہو ں"۔(اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے ، دیکھئے : عارضۃ الاحوضي : 3/285 رقم /752  ، امام البانی نے اسے صحیح الاسناد قراردیا ہے ، صحیح سنن الترمذی : رقم /599)۔
امام ابن بازایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :"الحاج ليس عليه صيام عرفة وإن صام يخشى عليه الإثم ; لأن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن صوم عرفة بعرفة ولم يصم . وإن تعمد الصيام وهويعلم النهي يخشى عليه من الإثم لأن الأصل في النهي التحريم " " حاجی کےاوپرعرفہ کا روزہ نہیں ہے اور اگروہ روزہ رکھ لیتاہے تو اثم کا خطرہ ہے ، اس لئے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ میں عرفہ کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے  اور خود بھی نہیں رکھا ہے ۔ اوراگر ممانعت کوجانتے ہوئےبھی روزہ رکھتاہوتو آثم ہونے کا خطرہ ہے ، کوہنکہ نھي میں اصل تحریم ہوتی ہے"(مجموع فتاوى ومقالات الشیخ ابن باز :15/405) .
دوم : اگرحاجی اس روز روزہ رکھنے پہ قادرہواور اس سے اس کی عبادات اور ذکرواذکارپر کوئی اثر نہ پڑتا ہوتو اس کے لئے روزہ رکھنا مستحب ہے ، یہ قول حنفیہ کا ہے اور شافعیہ کا قدیم قول بھی یہی ہے ، اور اس کے قائلین میں سے قتادہ اورعطاء بھی ہیں ،صاحب عون المعبود لکھتے ہیں : "امام خطابی کے بقول : یہ ممانعت استحبابی ہے نہ کہ ایجابی ،اس روز حاجیوں کے لئے روزہ کی ممانعت اس لئے ہےکہ مبادہ اس مقام میں ذکرودعاء میں حاجی  کمزورپڑجائےگا،لہذاجوقدرت رکھتاہواورروزے کے ساتھ کمزروی کا خوف نہ ہوتواس کے لئے اس دن کا روزہ بمشئۃ اللہ افضل ہے ، کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ کا (عمومی) فرمان ہے : " عرفہ کے دن کاروزہ  اس کے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد  دوسالوں  کے گناہوں کے لئے کفارہ ہے "۔حاجی عرفہ کے دن روزہ رکھ سکتاہے یا نہیں  ؟  اس سلسلےمیں لوگوں کی مختلف رائیں ہیں ، عثمان بن ابی العاص اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ دونوں روزہ رکھا کرتے تھے ،  امام احمد بن حنبل کہتے ہیں : "اگر روزہ رکھنے پہ قادرہے تو رکھےگا اوراگرنہیں رکھتاہے تو یہ ایسادن ہے جس دن  (دعاء وعبادت کے لئے ) قوت کی ضرورت پڑتی ہے " اور امام اسحاق اس دن حاجی کےلئے روزہ کو مستحب  سمجھتے تھے ۔ امام مالک ، امام سفیان ثوری اور اسی طرح امام شافعی   روزہ نہ رکھنے کے قائل تھے ۔ عطاءکہتے تھے کہ میں  جاڑے کے موسم میں روزہ رکھتاہوں اور گرمی میں نہیں رکھتاہوں ۔(عون المعبود :7/75- 76 ، نیزدیکھئے :دلائل الاحکام لابن شداد : 4299- 4305 ، الحاوی الکبیر : 3/472)۔                                                                                        سوم : اس روز روزہ رکھنا حاجی کے لئے مطلقا مستحب ہے ،  یہ قول عائشہ وعبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہما اور اسحاق بن راہویہ اور ظاہریہ کا ہے ۔(دیکھئے :مؤطاامام مالک: 1/375 ، شرح السنۃ للبغوی : 6/345-346  ،  تحفۃالاحوذی : 3/378)۔   
*حاجیوں کے لئے اس دن روزہ نہ رکھنے کی حکمت* :
- تاکہ اس دن حاجی بلاکسی تھکاوٹ وپریشانی کے ذکرودعاء اور  عبادت میں خودکو یکسوئی کے ساتھ مشغول کرسکے۔
-   یہ دن اہل موقف کے لئے عید کا دن ہے ۔
-  اس دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں روزہ نہیں رکھا ۔
*یوم عرفہ کا روزہ اور اختلاف مطالع کا اثر* :                                                                                                دائمی کمیٹی برائے فتاوی نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے  : 
"يوم عرفة هو اليوم الذي يقف الناس فيه بعرفة ، وصومه مشروع لغير من تلبس بالحج، فإذا أردت أن تصوم فإنك تصوم هذا اليوم، وإن صمت يومًا قبله فلا بأس، وإن صمت الأيام التسعة من أول ذي الحجة فحسن؛ لأنها أيام شريفة يستحب صومها...." ( " فتاوى اللجنة " (10 / 393 ) " عرفہ کا دن وہی دن ہے جس دن لوگ (مقام ) عرفہ میں وقوف کرتے ہیں ، اور غیرحاجیوں کے لئے اس (دن) کا روزہ مشروع ہے ، اگرآپ روزہ رکھنا چاہتے ہیں تو اسی دن رکھیں ، اور اگرایک دن قبل رکھاہے تو کوئی حرج نہیں ہے ، اور اگرپہلی ذی الحجہ سے ہی نو دنوں تک رکھنا چاہیں تو اچھاہے ، اس لئے کہ یہ مبارک دن ہیں جن کاروزہ مستحب ہے ۔۔۔"۔
شیخ عبدالرحمن السحیم ایک استفتاء کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں  :
والعبرة بوقوف الناس في "عرفة "،ولا عبرة بِمن خالف إجماع امة الإسلام ،فأمّة الإسلام تحج وتقف وتُجمِع على أن يوم عرفة ،وهو اليوم الذي يقف فيه الناس .ولا عبرة هنا باختلاف المطالع ؛ لأن الأمة تجتمع على أن يوم عرفة في ذلك اليوم الْمُحدَّد."" لوگوں کے عرفہ میں وقوف کا اعتبار ہوگا نہ  کہ جوامت اسلام کی مخالفت کرے اس کا ، چنانچہ امت مسلمہ حج ،وقوف اور اجتماع اس بنیاد پر کرتی ہے کہ عرفہ کادن ہی ہے جس میں لوگ وقوف کرتےہیں ، اوریہاں پر اختلاف مطالع کا کوئی اعتبار نہیں ہے ، کیونکہ امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ عرفہ کادن اسی متعین ومحددد  دن میں ہے "۔
اورایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :" يوم عرفة يوم يقف الناس في عرفات ، وليس لأحد أن يُخالف أمة الإسلام ، فإن امة الإسلام تجتمع وتُجمِع على أن يوم عرفة يوم يقف الناس ، وهو اليوم التاسع من ذي الحجة . فمن قدّم أو أخّر في الصيام فاته أجر صيام يوم عرفة، والله أعلم "۔ عرفہ کادن وہی دن ہے جس دن لوگ عرفات میں وقوف کرتے ہیں او رکسی کے لئے جائزنہیں کہ امت اسلام کی مخالفت کرے، کیونکہ امت اس بنیاد پر اکٹھی ہوتی ہے اور اس کا اجماع  ہے کہ عرفہ کادن لوگوں کے وقوف کا دن ہے ،جو ذی الحجہ کی نویں تاریخ  ہے ، لہذا جو  روزے میں تقدیم وتاخیر کرتاہے اس سےعرفہ کےدن کےروزے کا اجرفوت ہوجاتاہے،اللہ اعلم" ۔
ہمارے استاد اور معروف محقق شیخ احمد مجتبی  سلفی مدنی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:"یہ واضح رہے کہ یوم عرفہ سے مراد مکہ کے کیلنڈرکے حساب سے نو ذی الحجہ کی تاریخ ہے ، کسی دیگرملک میں اگرچاندمکہ سے ایک دن بعد دیکھا گیاہوتووہاں کے لوگ بھی مکہ کے کیلنڈرہی سے نوذی الحجہ کا روزہ رکھیں ۔ "(تقدیم  ومراجعہ بکتاب "قربانی کے احکام ومسائل قرآن وسنت کی روشنی میں " /ص 23 )۔
شیخ محمد المغراوی اپنے ایک فتوی میں فرماتے ہیں  : 
عرفات هو اسم للجبل الذي يقف عليه الحجاج في اليوم التاسع من شهر ذي الحجة، وهو يوم واحد لا يتعدد، فالصيام مع وقوف الحجاج هو الصيام الصحيح، وأما ما سواه فلا أعلم له أصلا لا في الكتاب ولا في السنة.اهـ " "عرفات اس پہاڑی  کانام ہے جہاں نویں ذی الحجہ کو حجاح کرام وقوف فرماتےہیں ، اور وہ صرف ایک ہی دن ہے متعددنہیں ، اس لئے (عرفہ کا) روزہ حاجیوں کے وقوف کے ساتھ ہی صحیح ہے ، اورجہاں تک اس کے علاوہ (دن) کی بات ہے تو میں قرآن وسنت میں اس کی کوئی اصل نہیں جانتا "۔                                                                                      عصر حاضرمیں  اختلاف مطالع اور اس سے پیدہ شدہ بعض مسائل  کی بنیاد پر عرفہ کے دن کےروزہ کی تاریخ کی تعیین میں  کچھ علماء  بعض شبہات کے شکا رہیں اور عرفہ کے دن کے روزہ  کے دن کی تعیین میں  صرف نو ذی الحجہ کے قا‏ئل وفاعل ہیں، اس سلسلے میں بنیادی چیزجو قابل غورہے وہ  یہ ہے کہ  عرفہ کے دن  کے  روزے کا سبب کیا ہے ؟ اوراس کا تعلق دن  اور تاریخ سے ہے یا حاجیوں کے کسی مخصوص دن میں شریعت  کے ذریعہ مخصوص عمل (یعنی عرفات میں وقوف) سے؟ جب اس چیز کی تعیین ہو جائےگی تو مسئلہ  میں کسی التباس کی کوئی  وجہ باقی نہیں رہ جائے گی ۔آیئے اس سلسلے میں چند نکتوں پہ غور کرتے ہیں :
1 – کسی بھی مسئلہ کی وضاحت اوراس سے متعلق امورمیں حکم کا بہت بڑا دخل ہوتاہے  ، تاکہ مکلف پر اس پر عمل کی حیثیت واضح اور مدون ہوسکے ۔عرفہ کے دن کا روز ہ حکم کے اعتبار سے ( اپنی بے انتہا فضیلت کے باوجود)مستحب  یا سنت مؤکدہ کے  زمرے میں آتاہے  ،اس لئے ترک وعمل اورتعیین وتحدید میں  اس کا اعتباربھی اسی   حیثیت سے ہوگا ، نہ کہ  بالکلیہ دوسرے سببی اور غیر سببی روزوں کے اعتبارسے ۔
2-  بلا شبہ رمضان اورغیررمضان کے روزوں میں رؤیت ہلال کا بہت بڑا دخل ہے جبکہ عرفہ کے دن کا روزہ رؤیت کے تخمینہ کے ساتھ ساتھ عرفہ میں حاجیوں کے وقوف سے متعلق ہے ۔ اسی وجہ سےہم دیکھتے ہیں کہ اس روزہ کی فضیلت  جن روایتوں میں بیان کی گئی ہے ان میں زیادہ ترمیں"یوم عرفہ " کا ذکرہے نہ کہ تاریخ ذی الحجہ کا یہ الگ بات ہے کہ یوم عرفہ نو ذی الحجہ ہی کو پڑتا ہے ۔
3- جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ عرفہ کے دن کا روزہ کوئی واجبی روزہ نہیں ہے کہ اس کا توڑنے والا گنہگار ہوگا البتہ اس کے لئے  خیرکثیر سے محرومی کا باعث ضرورہے ۔
4 – (ساری عبادتوں  میں تاریخ  ، دن اوراوقات  کی تعیین میں اختلاف مطالع کا واقعی معتبر ہونے کے باوجود) جب اس  بات کی تعیین ہوجاتی ہے کہ اس روزہ کا تعلق عرفہ کے دن سے ہے تو  اس میں اختلاف مطالع کا کوئی  اعتبار نہیں رہ جاتاہے ، دنیا میں تاریخ  کوئی بھی  ہوعرفہ کا دن وہی ہوگا جس روز حاجی مقام عرفات میں قیام فرمائیں گے۔
*عرفہ کے دن کاروزہ اور بعید ممالک*  :
یہاں پر یہ اشکا ل پیش کرنا کہ: "بعض ممالک مثلاً : لیبیا ، تیونس اور مراکش ۔۔۔ ایسے ہیں جہاں چاند مکہ مکرمہ سے بھی پہلے نظر آتا ہے۔ یعنی ان ممالک میں جب 10/ذی الحج کا دن آتا ہے تو مکہ مکرمہ میں عرفہ کا دن ہوتا ہے۔ اگر ان ممالک کے لوگ حجاج کرام کے وقوفِ عرفات والے دن روزہ رکھیں تو یہ گویا ، ان کے ہاں عید کے دن کا روزہ ہوا اور یہ تو سب کو پتا ہے کہ عید کے دن روزہ ممنوع ہے۔ "۔ تو یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ  عرفہ کے دن کا روزہ ( جیساکہ پہلے بیان کیاجاچکا ہے) کو ‏ئی واجبی روزہ نہیں ہے جس کا نہ رکھنے والا گنہگار ہوگا ۔ خاص طورسے جب اسے چھوڑنے کے لئے کوئی مناسب اورمضبوط سبب موجود ہو ، اس لئے جن ممالک میں قربانی کا دن حاجیوں کے عرفات میں وقوف کے  دن  پڑ جائے توان کے یہاں قربانی کے دن کو ترجیح حاصل ہوگی ،کیونکہ ایسے لوگوں کے لئے عدم قدرت کی وجہ سے یہ روزہ مشروع ہی نہیں ہے ۔ اور جوعبادت  خاص طورسے نفلی عبادت کسی کے لئے مشروع نہ ہو اس کے اندرتاویل کرکے زبردستی کسی دوسرے دن میں لے جانا اور اس کی خصوصیت کو تعمیم میں بدل دینا کیا یہ احداث فی الدین نہیں ہے  ؟؟؟۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ  مختلف ممالک میں  اختلاف مطالع کی وجہ سے نو ذی الحجہ الگ الگ ہوتاہے  ، اوران الگ الگ ایام کو عرفہ کا نام دینا  مناسب نہیں ہے ، جن میں حاجیوں کا عرفات میں  قیام ہی نہیں ہوا ، بلکہ  دیگر ایام کو وہ نام دینا جو شریعت نے کسی خاص دن کو دے رکھاہے  شریعت پہ زیادتی  کے قبیل سے ہے۔
اگر اس چیزکی اجازت دے دی جائےکہ نو ذی الحجہ کو یوم عرفہ کہاجائے خواہ وہ دنیا کے کسی اور خطے میں کسی دوسرے دن ہی کیوں نہ پڑے  تو پوری دنیامیں ایک سے زیادہ  عرفہ کے ایام ہوجائیں گے اور نام " یوم عرفہ " کے بجائے " ایام عرفہ " رکھنا ہوگا۔
شریعت میں اس  نوع کے  بہت سارےاعمال  ہیں جو کسی مناسب یا شرعی سبب کی بناء پریا توبعض افراد کے لئے غیرمشروع  یا ان سےساقط ہوتےہیں ، مثلا :
- ایک آدمی سفرکرکے کسی دوسرے ملک میں گیا اور وہاں کے لوگ عید منارہے ہوں ، جبکہ اس کا روزہ  جس ملک میں شروع کیا ہے کے مطابق ایک کم ہورہاہے پھربھی لوگوں کے ساتھ روزہ توڑدیگا ، یہ الگ بات ہے کہ یہ روزہ  فرض ہونے کی وجہ سے اس کی قضاء واجب ہوگی ۔ 
- جمعہ کے روزے کی ممانعت عرفہ کے روزے کی عزیمت کی وجہ سے ساقط ہے ۔
- عرفہ کے دن وقوف عرفات کی وجہ سے حاجیوں سے اس روز روزہ ساقط ہے۔
- مقیم امام کی اقتداءمیں نماز پڑھنے کی وجہ مسافرکے لئے قصر ساقط ہے ۔
- فجر اور ظہر وغیرہ کی سنتوں  یا جماعت کھڑی ہونے کی وجہ سےمسجدمیں داخل ہونے والے کے لئے  تحیۃ المسجد مشروع نہیں  ہے کیونکہ یہ سنتیں تحیۃ المسجدکے لئے کفایت کرتی ہیں ۔
- اسی طرح سببی نمازوں  جیسے فرض نمازوں کی قضاء ، طواف کی دورکعتیں ، تحیۃ المسجد اورسورج گرہن  کی نماز وغیرہ  کی وجہ سے ممنوعہ اوقات میں نماز کی  ممانعت ساقط ہے ۔
ان کے علاوہ بھی اور بہت سارے مسائل ہیں جو اس  نقطے کی وضاحت کے لئے کافی ہیں ۔
اس لئے جن ممالک میں یوم النحر عرفہ کے دن پڑجائے وہاں کے رہنے والوں سے عرفہ کے دن کا روزہ ساقط مانا جائے یہ احوط ہے اس بات سے کہ  شریعت کے متعین کردہ دن  کو ہی بدل دیا جائے ۔
( *نوٹ* : جب میں نے  کسی خاص سبب کی وجہ سے عرفہ کے  روزہ کے سقوط والی بات لکھی تو بہت سارے احباب نے اس پر یہ کہہ کر تنقید کی کہ آپ کون ہوتے ہیں کسی عمل کو ساقط کرنے والے  ؟
اس طرح کی بات  جب کسی ایسے آدمی کی زبان سے صادرہو جو شریعت کے علوم سے نابلد ہو تو سمجھ میں آتی ہے ، لیکن یہی بات کسی عالم دین جو کتاب وسنت کے رموزواسرار سے واقف ہو اور عبادتوں میں توقیف اور اسباب ومصالح کے دخل کا ادراک رکھتا ہو سے صادرہوتو پھر کیا کہاجاسکتاہے  ؟، جبکہ اشارۃ کچھ مسائل  کا ذکربھی کردیاگیاہو ۔)
*عرفہ کا دن اور رؤيت والی روایت کا اعتبار* :
"صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته ......"  والی روایت سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء اس بات پرزور دیتے ہیں کہ اس روایت میں  جو عمومیت وارد ہے وہ  رمضان کے ساتھ ساتھ سال کے ہرماہ  کے لئے عام ہے جس میں عرفہ کا دن بھی شامل ہے ،  امام خرشی  مالکی  کے بقول :والمواسم جمع موسم الزمن المتعلق به الحكم الشرعي  ولم يرد بعرفة موضع الوقوف بل أراد به زمنه وهو اليوم التاسع من ذي الحجة ،وأراد بعاشوراءاليوم العاشر من المحرم "اهـ (شرح مختصر خليل:2/234)  مواسم موسم الزمن  کی جمع ہے جس سے حکم شرعی متعلق ہوتاہے لہذا عرفہ سے وقوف کی جگہ مراد نہ لے کر وقت وزمن مراد لیاگیا ہے جو نو ذی الحجہ کوپڑتاہے اور اسی طرح عاشوراء بول کردس محرم مراد لیاگیاہے ۔"۔                            امام خرشی کا مذکورہ استدلال کئی وجہوں سے قابل اعتبارنہیں ہے:                                                                   - بلاشبہ بہت ساری عبادتیں موسم وزمان سے متعلق ہیں ، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ناقابل انکار حقیقت ہے کہ بہت ساری عبادتوں میں  زمان ووقت کا قطعا اعتبار نہیں ہوتا ، اور بسااوقات  اعتبار ہوتابھی ہے تو اس کے بعض احکام ومسائل اورجز‌ئیات اس اعتبارسے نکل جاتےہیں ،انہیں میں عرفہ کا دن ہے ، جوشروع  تو ہوتا مکہ ونواحی کی رؤیت سےہےلیکن اعتبار  عرفات کے میدان میں  حاجیوں کے اجتماع کا ہوتاہے ، مثلا : مکہ ونواحی کے غیرحجاج افرادجنہیں اس بات کا یقین بھی ہو کہ تعیین یوم عرفہ میں غلطی ہوئی ہے اور باعتبار طلوع قمر  ایک دن بعد یا ایک دن قبل یوم عرفہ ہونا چاہئے پھربھی ان کے روزے کا اعتباراس دن کا ہوگا جس دن خطأ کے باوجود  حاجی میدان عرفات میں ہوں ۔
- امام خرشی کا یہ کہنا کہ عرفہ سے جگہ نہ مراد لے کرنو ذی الحجہ  کی تاریخ مراد لی گئی ہے ،  دعوی بدون دلیل ہے ، جب کہ معاملہ اس کے برخلاف ہے ، روایت میں واضح طورپر یوم عرفہ سے وقوف عرفات کا دن ہی مراد لیا گیا ہے ،لہذا جس روز مقام عرفات میں حاجیوں کا قیام ہی نہ ہوا ہو اس روز کو یوم عرفہ کہنے کے لئے دلیل صریح کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ فقہاء کے بیان کے مطابق  یوم عرفہ اسی دن کوکہاجائے گا جس دن حاجی مقام عرفات میں  ہونگے ۔ 
 - امام خرشی رحمہ اللہ نے عاشوراء یعنی دس محرم کی مثال دی ہے کہ جس طرح عاشوراء بول کر دس محرم کی تاریخ مراد لی جاتی ہے   اسی طرح عرفہ بول کرنو ذی الحجہ کی تاریخ مراد لی جائے گی ۔ یہاں یہ بات  واضح ہونی چاہئے کہ عاشوراء یا تاسوعاء   معین تاریخ کا نام ہے ، جس میں اعتبار گنتی  وعدد کےمطابق محرم کے نویں  اور دسویں دن کا ہوتاہے اور یہ تاریخ دنیا کےہرملک میں بروقت جاری شہری و قمری   اعتبارکے مطابق ہوتاہے ، جبکہ عرفہ کے ساتھ ایسی کسی بھی عمومیت کے لئے دلیل چاہئے ہوتی ہے ، خاص طور سے جب اس کے ساتھ کچھ خاص اعمال واحکام اور تعیین وتحدید مرتبط ہو ں، نیز یہ واضح ہونا چاہئے کہ عرفہ کا بیان  لفظ "یوم" سے خالی ہرگزنہیں ہے ، جو یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ یہ دن اپنی عمومیت پہ ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ  زمان کے ساتھ ساتھ اجتماع ومکان  کی تخصیص موجودہے جس کے بغیر نہ یہ دن مکمل ہوتاہے اور نہ ہی حاجی کا حج ۔۔۔ فافھم وتدبر۔ 
لہذا یہ چیز واضح ہے کہ عرفہ ایک مخصوص دن کا نام ہے، جس روز  مقام عرفات میں حاجیوں کااجتماع ہوتاہے،اس لئےاسے کسی تاریخ سے متعلق کرکے اس میں تعددپیدا کرناقطعا مناسب نہیں ہے، اسی وجہ سےہم دیکھتے ہیں کہ اس روزہ کی فضیلت  جن روایتوں میں بیان کی گئی ہے ان میں زیادہ ترمیں "یوم عرفہ " کا ذکرہے نہ کہ تاریخ ذی الحجہ کا یہ الگ بات ہے کہ یوم عرفہ مکہ ونواحی کی رؤيت  کے اعتبارسے نو ذی الحجہ ہی کو پڑتاہے ۔
 یہاں یہ بات قابل غورہے کہ اگرکسی اجتہادی غلطی کی وجہ سے حجاج آٹھ یا دس ذ ی الحجہ میں وقوف کرتے ہیں تو اسی دن کو یوم عرفہ شمارکیا جائے گاجیسا کہ فقہاء نے اپنی کتابوں میں  اس کی صراحت کی ہے ۔ (دیکھئے:حاشية ابن القيم على سنن أبي داود : 6/317, المحلى  لابن حزم :5/203-204 ،المغني لابن قدامة : 3/456, المهذب مع شرحه المجموع: 8/292, المجموع  للإمام النووي : 8/292, مجموع فتاوى الإمام ابن تيمية : 25/107 , بدائع الصنائع: 2/304 , شرح الخرشي على مختصر خليل : 2/ 321 , روضة الطالبين :2/377 )
چنانچہ"صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ –" والی روایت کو عمومیت کی بنیاد پرمطلقا یوم عرفہ کے روزہ کے لئے  تاریخ کی  تحدید کے طورپرپیش کرنا محل نظرہے ، کیونکہ اس روزے کا تعلق یوم عرفہ (حاجیوں کے مقام عرفات میں قیام ) سے ہے نہ کہ تاریخ سے ۔
یہاں یہ نکتہ کافی اہم ہے کہ مذکورہ روایت رمضان کےروزوں کے باب میں صریح ہے اور اس کا تعلق مطلقاتمام روزوں سے نہیں ہے کیونکہ کچھ روزے دن سے متعلق ہیں نہ کہ تاریخ سے، جیسےسوموار وجمعرات اورخود یوم عرفہ کا روزه .
عرفہ کے روزے کے لئےدن کی تعیین کی وجہ سے جب رؤيت كا اعتبارکالعدم کےحکم میں ہے تو یہاں پر اختلاف مطالع کی بحث بے معنی ہے .یہاں یہ اشکال پیش  کرنا کہ :"اگرروزے سےمتعلق  ر‏ؤیت  ہلال کا حکم نکال دیا جائے تو روزہ بے معنی ہوجائےگا  , ایک دن کا بھی کوئی روزہ نہیں رکھ سکتا ہے ، نہ سحری کھاسکتا اور نہ ہی  افطار کرسکتاہے ۔"، شریعت سے کج فہمی کی دلیل ہے ، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ  دین کے زیادہ تر مسائل میں ر‏ؤیت ہلال کے اعتبار وحکم  کا کوئی بھی فرد انکارنہیں کرتا ، جو لوگ  توحید مطالع کے قائل ہیں ان کے یہاں بھی اعتبار رؤیت ہی ہے ، نہ کہ فلکی حسابات اور اعداد تاریخ  ۔  
قاعدے کی رو سے رؤیت کا اعتبار  ان روزوں میں ہے جو رؤیت سے متعلق ہیں ، نہ کہ ان روزوں میں جو سببی اور مخصوص دن اور مخصوص وجہ سے متعلق ہیں ۔ کیا عرفہ اور اس دن  حاجی او ر غیر حاجی کے لئے مشروع اعمال  کا تعلق خاص نہیں ہے ؟ ۔
واضح رہے کہ رؤيت كے اعتبارکومطلق تمام روزوں کے لئے پیش کرکے ہی اشکال پیداکیاجاتاہے،قطع نظر اس کے کہ تمام روزوں کی حیثیت وماہیت میں یکسانیت نہیں ہے. اور "یوم" اور"تاریخ " اور "تعیین"اور"تخمینہ " کے اس بے انتہا "فرق" کے باوجود کچھ حضرات "واضح نص" کے مطالبے پر مصرہیں ؟؟؟؟  اور زبردستی ایک مخصوص ومعمول شیئ کو "نسبتی" عمل قرار دینے پرتلے ہوئے ہیں .                                                                                          اس پرمستزاد یہ کہ اپنے تأويلى موقف کو زبردستی ثابت کرنے کے لئے غیرضروری تأويلات وشبا ت كا سہارالیتے ہیں ۔     
 *کیا روایات میں وارد نو ذی الحجہ کا لفظ دنیا کے تمام خطوں کے لئے ہے ؟* :
جو حضرات عرفہ کے دن کے روزے کے تعدد کے قائل ہیں ان کی سب سے بڑی دلیل  ہے کہ عرفہ کے دن کے لئے روایات میں نو ذی الحجہ کا ذکر بصراحت موجود ہے  ۔ 
بلاشبہ عرفہ کے دن کے لئے نوذی  الحجہ کا  کے دن کی تعیین  باعتبار رؤیت مکہ اور حوالی مکہ وارد ہے ، اور اہل لغت بھی جہاں عرفہ کی تعریف کرتے ہیں اس میں  نو کی تحدید کرتے ہیں ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عرفہ مکہ اورحوالی مکہ کی ر‎ؤیت کے اعتبار سے عام طورسے نو ذی الحجہ کو ہی پڑتاہے ، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ  اس تحدید کو تعمیم میں بدل دیاجائے اور سارے عالم کےاختلاف رؤیت کو مخصوص ومتعین عمل کے لئے سبب اختلاف بنا دیاجائے،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حج ایک مستقل عبادت ہے، اس کے تمام ارکان وایام متعین ہیں، دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی دن یا تاریخ ہو ایام حج اور ارکان واعمال حج پر اس کا کوئی اثرنہیں ہوتاہے ۔  
یہاں پراس اشکال کی توجیہ بھی ضروری ہے کہ :" ایام حج میں جس دن قربانی کی جاتی ہے دنیا کے تمام ممالک میں اس کے علاوہ کے ایام میں وہاں کی رؤیت کے اعتبار سے کی جاتی ہے ؟؟" ۔
جیساکہ میں نے ذکرکیاکہ حج ایک مستقل عمل ہے اس کا تعلق چند مخصوص ایام اور اعمال سے ہے،اس پر دوسرے ممالک میں اداکئے جانے والے اعمال کوقیاس نہیں کیاجاسکتا، بلاشک  دونوں قربانیوں کی ہیئت وماہیت اور ارکان وادائگیے میں یکسانیت ہے لیکن دونوں کی ادائیگی کے اوقات واستحقاق میں بے تحاشہ فرق ہے، مثلا : 
- قرآن وسنت کے مطابق دونوں حاجی وغیرحاجی کی طرف سے اللہ کےتقرب کے لئے ذبح ہے ، لیکن ایک کے لئے ھدي اور دوسرے کے لئےاضحیہ کا لفظ واردہے، گرچہ اس کو مکہ اور بالخصوص منی میں ہی کیوں نہ ذبح کیاگیاہو۔
- تمتع ،قرآن یا لزوم دم کے سبب ھدي کا حکم وجوب کا ہے برخلاف اضحیہ کے، کیونکہ  یہ جمہورفقہاء کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے (المغنی لابن قدامہ    :9/435) حالانکہ بعض اہل علم وجوب کے قائل بھی ہیں ۔
- عام قربانی کے جانوراور حج کے ھدي کے جانورمیں تبدیلی کے امکان کے بارےمیں امام مالک کا فتوی ہے کہ قربانی کے جانورکوکسی حادث عیب کی وجہ سے اس سے اچھے جانورسے تبدیل کیاجاسکتاہے برخلاف  ھدي کے ۔ (المدونہ:1/549 ) 
-  ھدي ایک خاص جگہ کے ساتھ مخصوص ہے برخلاف قربانی کے اسے منی ، مکہ یا کسی دوسری جگہ کہیں بھی کیاجاسکتاہے ، امام شافعی فرماتے ہیں : " اضحیہ مسلمانوں میں سے ہرصاحب استطاعت کے لئے سفر،حضر، گا‏ؤں ، شہر، مکہ ، حج میں منی وغیرہ میں ہرجگہ سنت ہے  اس کے ساتھ ھدي ہو یا نہ ہو "(المجموع للامام النووی: 8/383 )
- قربانی کے بدلے کوئی دوسرا عمل نہیں کرسکتے جبکہ متمتع اورقارن کو اگرھدي میسرنہ ہوتواس کے اوپردس روزے واجب ہیں ، تین  حج کے ایام میں اور سات گھرواپسی کے بعد۔
- قربانی کا ایک جانوریا حصہ اہل  خانہ کے لئے کفایت کرتاہے جبکہ ھدي صرف حاجی کےلئے ہوتاہے ۔
- اضحیہ کے لئے عید کی نماز شرط ہے جبکہ ھدي کے روزنمازعید ہے ہی نہیں ۔
- قربانی کی نیت کرنے والے کے لئے اول ذی الحجہ سے  بال اور ناخن نہ کاٹنے کا حکم ہے ، جب کہ  حاجی کے لئے یہ حکم صرف حالت احرام تک ہی محدود ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
یہاں دونوں قربانیوں میں فرق ذکرکرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ حج کے ایام میں حرم ، منی ، مزدلفہ ، یا عرفات سے متعلق اعمال وعبادت دیگرایام وامکنہ میں کئے جانے والے اعمال سے حکم میں مختلف ہیں لہذا یہ کہنا کہ جس طرح یوم النحریا رمضان وعیدین پوری دنیا میں اختلاف مطالع کےاعتبارسے مختلف ہوتے ہیں  اسی طرح یوم عرفہ بھی مختلف ہوگا قطعا درست نہیں ہے، کیونکہ یوم عرفہ ایک خاص دن ہے جو ایک خاص مقام میں قیام اور خاص اعمال واحکام سےمتعلق ہے،جسے دوسرے ایام و اعمال پرقیاس  کرنا صحیح نہیں ہے ۔
واضح رہے کہ کچھ لوگوں کو روایات میں وارد "تسع من ذی الحجہ" سے اشتباہ ہوا ہے کہ اس سے مراد نویں ذی الحجہ کا روزہ ہے ، جبکہ  اس روایت میں نویں ذی الحجہ کی تعیین کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے ، کیونکہ " تسع" سے مراد ذی الحجہ کے شروع کے نو دن ہیں نہ کہ نواں دن ، دائمی کمیٹی برائے فتاوی نے اس غلط تاویل اور فہم کی تصحیح کرتے ہوئے لکھا ہے:"وقول بعضهم :إن المراد بتسع ذي الحجة اليوم التاسع,تأويل مردود,وخطأ ظاهر للفرق بين التسع والتاسع ""کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ تسع ذی الحجہ سے مراد نویں ذی الحجہ ہے ، تاسع اور تسع کے فرق کی بنا پرمردود تاویل اور واضح غلطی ہے "۔(اللجنۃ الدائمہ :رقم /20247)
*بعض شبہات کا ازالہ* : 
1 - بعض حضرات  یوم عرفہ اور عرفات کا فرق واضح کرتے ہوئے لکھتےہیں :" یوم عرفہ اور وقوف عرفات دوالگ الگ چیزیں ہیں ، یوم عرفہ دن اور تاریخ کو کہتے ہیں اورجوقمری حساب سے نو ذوالحجہ کو کہتےہیں جبکہ وقوف عرفات کا تعلق میدان عرفات سے ہے۔"
یہاں اس وضاحت کی ضرورت تھی کہ "یوم عرفہ " کو دن اور تاریخ کی گنتی میں کس سبب سے لایاگیاہے؟ کیادنیاکے کسی بھی خطے میں نو ذوالحجہ کو " یوم عرفہ" لکھا اور بولاجاتاہے؟۔
بلاشبہ وقوف عرفات کا تعلق میدان عرفات سے ہے،  ٹھیک اسی طرح " یوم عرفہ " کاتعلق بھی وقوف عرفات سے ہے ،دن اور تاریخ سے نہیں،گویایہ دونوں ایک دوسرے سے مرتبط ہیں ، جیسا کہ مذکورہ سطورمیں فقہاءکے اقوال کی روشنی میں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ "یوم عرفہ " کا اطلاق اسی دن پرہوگا جس دن حجاج وقوف عرفات کریں گے وہ دن بسبب اجتہاد وخطا آٹھ یا دس ذی الحجہ ہی کیوں  نہ ہو ۔
یہاں  یہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ عام طورپر اہل لغت کے یہاں عرفہ کا اطلاق زمان اورعرفات کا  مکان کے لئے ہوتا ہے، اور دونوں بحیثیت علم اور مترادف کے  بھی استعمال ہوتے ہیں. (دیکھئے :معجم المعانی وغیرہ ۔)  اس لئے جب عرفہ یا عرفات کے ساتھ یوم کی اضافت ہوتی ہے تو اس دن کی تعیین کے لئے ہی ہوتی ہے جس دن مخصوص اعمال انجام دئے جاتے ہیں  ،بعض اہل لغت  لکھتےہیں :" وعرفة اسم لموقف الحاج ذالك اليوم وهي إثناعشرميلا من مكة وسمي عرفات أيضا وهو المذكور في التنزيل  ....."اور عرفہ حاجی کے اس دن قیام کے مقام کا نام ہے جو مکہ سے بارہ میل کی دوری پر ہے ، اس  کانام عرفات بھی ہے جس کا ذکرقرآن مجید کے اندرہے " نیساپوری کے بقول :"عرفات جمع عرفة وكلاهما علم للموقف , كأن كل قطعة من تلك الأرض عرفة فسمي مجموع تلك القطعة بعرفات " "عرفات عرفہ کی جمع ہے اور دونوں موقف کے لئے بطورعلم استعمال ہوتاہے ، گویا اس کا ہرحصہ عرفہ ہے لہذا اس کے سارے حصوں کے مجموعے کا نام عرفات ہے " اسی طرح کی بات ابن الحاجب نے شرح المفصل کے اندرلکھی ہے ۔ اورطبرسی کے بقول :"عرفات :إسم للبقعة المعروفة التي يجب الوقوف بها,ويوم عرفة يوم الوقوف بها" "عرفات : اس  معروف جگہ کا نام ہے جہاں (حاجی کے لئے ) وقوف واجب ہے ، اور وہاں وقوف کرنے کادن عرفہ کا دن ہے " فیروزآبادی نے بھی ان کی تائید کی ہے ۔(مزید وضاحت کے لئے دیکھئے: الصحاح للجوھری :4/1401-1402 ،معجم الفروق اللغویۃ للعسکری : ص 354 ، المغرب فی ترتیب المعرب  للمطرزی : ص 312 ، شرح الرضی علی الکافیۃ لابن الحاجب :3/259 ، المصباح المنیرللفیومی : 2/404 ، القاموس المحیط للفیروزآبادی : 1/836  ،اور تاج العروس للزبیدی  : 24/137)۔
2 - ایک اشکال یہ پیش کیاجاتاہے کہ : " اگرعرفات میں وقوف سے متعلق روزه ہوتاتوعرفہ نہیں عرفات کا ذکرہوتا" اس اشکال میں  دین میں ایک نئی  اصطلاح گھڑنے کے ساتھ ساتھ لغت معانی کے ساتھ خردبرد کی کوشش کی گئی ہے ، گویا مقام عرفات میں حاجیوں کے قیام  کےدن کے علاوه بهی کئی دن ہیں جنہیں عرفہ کا دن کہاجائےگا.(جب کہ نصوص اور اہل لغت کی صراحت کے مطابق "عرفہ " عرفات" اور ان کی طرف "یوم " کی نسبت  اور " اس دن " اور " اس دن اور اس مقام  کا عمل " ایک دوسرے سے متعلق ہیں  !!!) واضح رہےکہ "یوم عرفہ" "عرفہ کادن"یعنی جس دن حاجی میدان عرفات میں جمع ہوں کا بصراحت ذکرہے. لہذا میں نے پہلے ہی ذکرکیاہےکہ فقہاء كى صراحت کے مطابق اگرکسی اجتہادی غلطی کی وجہ سے حجاج آٹھ یا دس ذ ی الحجہ میں وقوف کرتے ہیں تو اسی دن کو یوم عرفہ شمارکیا جائے گا. گویاتاریخ نہیں حجاج کے مقام عرفات میں اجتماع کا اعتبار ہوگا.
3 - ایک اشکال یہ پیش کیاجاتاہے کہ:"اگر یہ وقوف عرفہ کی وجہ سے ہوتاتوحاجیوں کے لئے بهی یہ روزہ مشروع  ہوتا". کہنا یہ چاہتے ہیں حاجی اور غیرحاجی کے لئے احکام ومسائل میں کوئی فرق ہی نہیں ہے ؟؟؟؟ 
یہ ملحوظ رہےکہ حجاج کرام کے لئے یہ روزہ ان کے مقام عرفات میں قیام کی وجہ سے ہی ممنوع ہے (ياغيرمسنون ، كيونكہ بعض اسلاف کے یہاں حاجیوں کے لئے بهی عرفہ کا روزہ مشروع ہے، جس کابیان گذرچکاہے ) جیساکہ غیرحاجیوں کےلئےایام عیدکا روزہ  ، جیسا کہ روایت میں ہے  کہ عرفہ ان کے لئے عیدکا دن ہے۔
4 - کچھ حضرات یہ اشکال پیش کرتے ہیں کہ:"  اگر عرفہ کے دن  کے روزہ کا مقصد حاجیوں کے مقام عرفات میں قیام سے مطابقت ہوتا تو ان لوگوں کے لئے کیاکہیں گے جن کا روزہ حاجیوں کے قیام سے کئی گھنٹے پہلے یا کئی گھنٹے بعد میں شروع یا ختم ہوجاتا ہے ؟"
اس قسم کا اعتراض یا اشکال پیداکرنااسلامی عبادات کے اسرارورموز ، اسباب ومقاصد اور روح ومعانی سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہوتاہے ، یہ بات  ایک عام آدمی بھی جانتاہے کہ   روزے رکھے توقمری اعتبار سے جاتےہیں لیکن امساک وافطارمیں اعتبارشمسی ہوتاہے ، اور اعداد میں دن کا اطلاق صرف سورج کے  آسمان پرباقی رہنے تک نہیں ہوتا بلکہ دن اور رات کو ملا کر ہوتاہے ۔
یہ بھی واضح رہنی چاہئے کہ عرفات میں قیام  یوم النحرکی طلوع فجرسے قبل چند لمحات قیام  یا مرور سے بھی حاصل ہوجاتاہے جبکہ روزہ صرف طلوع فجرسے غروب شمس تک ہوتاہے ۔(روضۃ الطالبین :2/377)۔
5 - بعض علماء عرفہ کی وجہ تسمیہ کے ذکرمیں اہل لغت  کے اقوال کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں  کہ  :"ان لوگوں کا دعوی بلا دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ عرفہ کے دن کا نام فقط حاجیوں کے وہاں وقوف کی بنا پرہے  ۔  "دراصل یہاں یہ اشکال پیش کیا جاتاہے کہ اللہ رب العزت نے جس دن ذریت آدم سے توحید پر عہدوپیمان لیاتھا وہ دن عرفہ کا تھا ، اور یہ معلوم ہے کہ اس وقت مقام عرفات میں حاجیوں کا قیام نہیں ہوتاتھا، پھربھی اسے عرفہ کا دن کہاگیا ۔                                                           اس میں  کوئی شک نہیں کہ اہل معرفت کے بیان کے مطابق عرفہ  کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں ڈھیروں وجوہات مذکورہیں ، لیکن یہ بھی حق ہے کہ قیام عرفہ اور اس سے متعلق دیگر احکام وامور کا اعتبار قرآن وسنت پرہے ، ماقبل الاسلام کوئی بھی عمل ، رواج  یا مسمی جب تک  انہیں اسلام میں باقی نہ رکھا گیاہو قابل اعتبار ہرگز نہیں ہیں ، یہاں مسئلہ وجہ تسمیہ کے ساتھ ساتھ اس دن کے لئے نصوص قرآن وسنت سے ثابت احکام واعمال کا ہے ، کیونکہ کسی چیزکا تعارف اس کی حیثیت وماہیت کے بیان کے لئے ہوتا ہے نہ کہ  قرآن وسنت میں وارد احکام کی تشریع یا ان  کے رد کے لئے ۔ 
اور عرفہ کی  وجہ تسمیہ اور دن اور وقت کی تعیین جو کتب احادیث ، فقہ اور لغات ومعاجم میں بھرے پڑے ہیں اس دن کے نام کے لئے دلیل نہیں  ہیں ؟ آخرانہیں کس الہامی دلیل کا انتظارہے ؟
6 - نیز عرفہ کے دن کی تعیین کے انکارکے لئے ایام تشریق اور یوم ترویہ کومثال بنا عرفہ کو ایک نسبتی نام کےطورپر پیش کیاجاتاہے  کہ  :" مناسک حج میں حج کی نسبت سے بہت سارے نام رکھے گئے ہیں  ان سب پرعمومی قاعدہ ہی لگے گا  الایہ کہ خاص وجہ ہو۔۔۔"  ایک طرف  بہت سارے ناموں کو حج سے نسبت کیاجارہاہے اور دوسری طرف "عرفہ" کو جو حج کے ساتھ خاص ہے عموم کی فہرست میں ڈالا جا رہا ہے ۔ ایں چہ بوالعجبی است ۔ یوم الترویہ یا یوم عرفہ  یہ ایسے نام ہیں جو حج کے بعض ایام کے ساتھ خاص ہیں  جن کے خاص امورواحکام ہیں ، اور رہی بات ایام تشریق کی تو یہ نام حاجیوں کی قربانی (ھدي) کے ایام  اور غیرحاجیوں    کی قربانی (اضحیہ) کے ایام کے ساتھ عام (مشترک) ہے ۔ (بلکہ ھدي اور اضحیہ دونوں کے ایام کے لئے یوم النحر کا لفظ وارد ہے جس کی نسبت سے دونوں کے اگلے تین دنوں کے لئے ایام تشریق کا اطلاق ہوتا ہے ۔) یہاں یہ  بات بھی  قابل اعتناء ہے کہ ایام تشریق کے اعمال بھی حاجی اور غیر حاجی کے اعتبار سے مختلف ہیں ، مثلا : ایام تشریق میں روزہ رکھنا ممنوع ہے، سوائے متمتع اورقارن حاجی کے ، کیونکہ ان کے لئے ان ایام میں اگر وہ ھدي نہ پائیں تو روزہ مشروع ہے ۔ 
تعجب تو اس بات پرہے کہ عرفہ کے دن کو حج کی طرف "  نسبت" کرکے بھی اس دن کے روزے کو "عموم" کے زمرے میں رکھا جاتا ہے ۔  پتا نہیں یہ منطق کا کون سا کلیہ ہے ؟ 
7 -  یہ کہنا کہ  سلف کے یہاں عرفہ سے مراد  مطلق  نو ذی الحجہ کی تاریخ ہے ، ان پہ اتہام باندھنا ہے ، سلف سے یہ کہیں مروی نہیں ہے کہ وہ عرفہ کے قیام کے دن کے علم یقینی کے باوجود اس کے پہلے یا دوسرے دن کو یوم عرفہ مانتے ہوں ، بلا شبہ عدم وسائل  اوررؤیت ومطالع میں اجتہاد اور دیگر اسباب کا اس دن کے اعمال پر اثر پڑسکتاہے لیکن  یہ کہناکہ وہ پوری دنیا کے اختلاف مطالع کی وجہ سے عرفہ کے دن کو متعدد مانتے تھے دعوی بلا دلیل ہے ، اور اگر کسی نے اختلاف مطالع کو بنیاد بناکر کوئی بات کہی بھی ہے تو یہ ان کا محض اجتہاد ہے ۔ 
بلکہ صحابہ کرام اورتابعین   کے یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے ،جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے جس میں مسروق نے عرفہ کے دن روزہ اس احتمال کی بنیاد پرنہیں رکھا کہ کہیں قربانی کا دن نہ ہو اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان اس کی تصحیح فرمائی  جس کا مستفاد یہ ہے کہ آج عرفہ کا دن ہے اورعیداور قربانی وغیرہ میں  اعتباراسی  دن کا ہوگا جس دن  لوگ اسے انجام دے رہے ہوں  گرچہ اس دن کےبارے  میں شک ہی کیوں نہ  ہو  ۔(بیھقی /8301 ، شیخ البانی نے اس روایت کی سند کو جیدقرار دیا ہے ، سلسلہ صحیحہ : 1/1/ 442) ۔                                                                                                 اور عطاء کی ایک مرسل روایت میں ہے:" أضحاكم يوم تضحون " "قربانی کا وہی دن ہوتاہے جس دن تم لوگ قربانی کرتے ہو"وأراه قال:"وعرفة يوم تعرفون " "عرفہ کا دن وہی ہے جس دن تم لوگ عرفہ میں قیام کرتے ہو " أخرجه البيهقي في " السنن الكبرى "( 5 / 176 ) والشافعي في " الأم "( 1/ 264) عن عطاء مرسلاً،وصححه الألباني في "صحيح الجامع " ( 4224). اور بیھقی کی روایت میں عبدالعزيز بن عبد الله بن خالد بن أسيد  سے مرسلا مروی ہے :"يوم عرفة الذي يعرف فيه الناس""عرفہ کادن وہی دن ہے جس دن لوگ عرفہ میں قیام کرتے ہیں "(السنن الكبرى للبيهقي : 5/ 176 امام بیھقی فرماتےہیں :"هذا مرسل جيد أخرجه أبوداؤد في المراسيل " رقم /149" اور ابن حجر فرماتے ہیں :"وورواه الترمذي واستغربه وصححه , والدارقطني من حديث عائشة مرفوعا ,صوب الدارقطني وقفه في العلل ..." " اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے "غریب اور صحیح " کہاہے ، اور دراقطنی نے اسے علل کے اندرموقوف قرار دیاہے "دیکھئے : التلخیص الحبیر: 2/256 رقم /1051 ، اسی معنی کی روایت طبرانی نے اوسط کے اندر ذکر کیا ہے:"إنما عرفة يوم يعرف الإمام " ، ھیثمی لکھتے ہیں :" اس طبرانی نے اوسط کے اندرروایت کیا ہے اس کی سندمیں دلہم بن صالح ہیں جنہیں ابن معین اور ابن حبان نے ضعیف قراردیا ہے ، اوراس کی سند حسن ہے " مجمع الزوائد:3/190 ، دلہم  بن صالح کو امام ابوداؤد نے "لاباس بہ "قراردیا ہے ،تھذیب التھذیب :رقم /303 ،اور نسائی ،ذہبی اور ابن حجر نے ضعیف قراردیاہے ،دیکھئے :ضعفاء النسائی :ص 101 ، الجرح والتعدیل : 3/436، التقریب : 1/236 ) .                                                                      اسی  چیزکی تصریح فقہاء کے اس بیان میں بھی موجود ہے جس میں بسبب اجتہاد وخطا  آٹھ یا نو ذی الحجہ کو حاجی کے مقام عرفات میں اجتماع کے دن کو ہی عرفہ کا دن قراردیاگیاہے ۔                                                                     مذکورہ روایات وتوجیہات کودیکھتے ہوئے کہ عرفہ کے دن کے روزے کا تعلق  مقام عرفات میں حاجیوں کے قیام سے ہے یہ کہنا کہ:"اپنے اپنے ملک کےحساب سے نو ذی الحجہ کو عرفہ کا روزہ ماننا ہوبہو سلف کا عملی نمونہ ہے "،  کتنی مضحکہ خیزبات ہے ۔ نیزیہ کہنا کہ :" اگر سلف کے یہاں صوم عرفہ حاجیوں کے عرفات میں وقوف سے متعلق ہوتا یقینا وہ کسی نہ کسی ذریعہ سے حاجیوں کے وقوف عرفات جاننے کی کوشش کرتے ۔۔۔۔"سلف پراتہام  اور مغالطےمیں ڈالنے والی بات ہے ، جب سلف  کے یہاں اس بات میں کوئی اختلاف ہی نہیں تھا کہ عرفہ کا دن عین وقوف عرفات ہے، تو پھر وہ آخر کس ذریعہ سے کس چیزکوتلاش کرتے ؟کیا سلف میں کسی سے اس اختلاف کی بابت مروی ہے کہ یوم وقوف کے علاوہ بھی عرفہ ہوتاہے ؟ ۔ بناکسی دلیل کے باربار سلف کے فہم کا حوالہ ذہنی انتشار کی دلیل اور لوگوں پر اپنے من کی تھوپنے کی نارواکوشش  ہے ۔ چاہئےتویہ تھا کہ عرفہ کو وقوف عرفات کے علاوہ پر اطلاق کے لئے کوئی ایسی دلیل لائی جاتی جو قرآن وسنت سے ثابت ہو اور صحابہ کرام نے اس پرعمل کیا ہو !!!  جبکہ وقوف عرفہ ہی اصل یوم عرفہ ہے جس دن کے احکام واعمال  حاجی اورغیرحاجی کے لئے متعین ومعروف ہیں  جس پر قرون اولی میں تعامل رہاہے ۔
8 - وقوف عرفات سے  عرفہ کے دن کے روزے کے متعلق ماننے پر اشکال پیداکرتےہوئے کہا جاتاہے کہ :(لوگوں کا یہ کہنا کہ) : "سو سال پہلے لوگ اپنے ملک کے حساب سے نوذی الحجہ کا ہی روزہ رکھتے تھےمگروقوف عرفات نہ جان سکنے کی وجہ سے معذورتھے ، اب وہ عذرباقی نہ رہا ۔ اس بات سے لازم آتاہے کہ ان سب میں سے کسی نے صحیح روزہ نہیں رکھا سوائے وقوف عرفات کا علم رکھنے والے کے ، اس سے ان لوگوں بشمول سلف صالحین کی فہم  حدیث اور عمل میں نتقیص کا پہلو نکلتاہے " ۔   
  میں کہتا ہو ں کہ سلف صالحین کے عمل میں تنقیص کا پہلو نکلتاہے اور نہ ہی ان کی فہم حدیث میں ، البتہ صاحب اشکال کی فہم  کا قصور ضرور ہے ، یہ کہاں ہے کہ اجتہادوخطا کی بنیاد پر کسی کا عمل ناقص اور فہم کمزور ہوجاتاہے ، آپ کے بیان کے مطابق تو - نعوذ باللہ  - ان سارے صحابہ کرام ، ائمہ محدثین وفقہاء اورمجتہدین کا عمل جو  بسبب اجتہادوخطأ  نص کے خلاف تھا ناقص ہوا اور ان کے فہم میں تقصیر تھا ۔ اللہ ہدایت دے ۔
تاریخ میں بارہا ایسا ہو اہے کہ لوگوں نے عیدین منائی اور حج کیا ، اور پھر بعدمیں پتاچلا کہ وہ دن  صحیح نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے یا بعد والا دن صحیح تھا ، کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ ان لوگوں کاعمل  مردود و  ناقص تھا یا مقبول ومصاب ؟ کیا ایسے لوگوں کو اپنے حج اور دیگرعبادات کا اعادہ کرنا چاہئے تھا  ؟۔ بزعم خویش" تحقیقی" مضمون لکھنے کا دعوی کرنے والے کو اتنی سطحی بات لکھنے سے پہلے صحیح فہم اور اسلاف کے منہج وطریقہ کو اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے  ۔
اسکے علاوہ بهی غیرضروری اشکالات وتوجیہات اورمحاکمات پیش کی جاتی ہیں جوناقابل اعتناء  عقل وذہن کی پیداوار ہیں  ۔ 
یاد رکهیں کہ کوئی بهی عمل توحید کے بعد اتباع سنت پرہی منحصر ہے .
اللہ رب العزت ہمیں حق وصواب کی توفیق عطا فرمائے . وصلى الله على خيرخلقه وسلم .
               ********

اتوار، 22 جولائی، 2018

استادمحترم مولانا عبدالسلام مدنی رحمہ اللہ کچھ بھولی بسری یادیں



16/ جولائی بروز سوموار قیلولہ کے بعد عصرکی نمازکے لئے اٹھا تو واٹس اپ پرمختلف شخصی اور گروپ میں ڈھیروں رسائل موصول ہوئے کہ ہمارے استاد محترم مولانا عبدالسلام صاحب مدنی اب اس دنیا میں نہیں رہے ، زبان پر (إنا لله وإن إليه راجعون ) کا ورد جاری ہوگیا ، اور ایسا پہلی بار ہوا کہ یہ جملہ باربارزبان وذہن پرایک طرح سے مسلط ہوگیا ہو ، اس کے ساتھ ہی جامعہ سلفیہ بنارس میں گذارے ہوئے آٹھ سال کا وقفہ ذہن میں گردش کرنے لگا ،استاد """ محترم """ مولانا عبدالسلام مدنی رحمہ اللہ کی شخصیت ہی کچھ ایسی تھی کہ آپ کے ساتھ بتائے علمی وقت  لمبے وقفے کے بعدبھی ذہن سے محو نہیں ہوسکتا ، آپ کا وہ طرزتخاطب : پیار ، محبت ، نصح ، اصلاح ،  طنز ، تنقید وغیرہ وغیرہ  ۔۔۔۔کوئی کیسے بھلا سکتاہے ؟  سنت کے مطابق  لمبی داڑھی اورنفیس شیروانی میں ملبوس میٹھی زبان  آج بھی لذت فکروسماع کا احساس دلا رہاہے ۔
 مولانا سے ہم نے دوکتابیں پڑھی تھی صحیح مسلم  کا نصف حصہ اور شرح الوقایہ کی دونوں جلدیں ، جن کی چاشنی آج بھی  احساس وشعور کی پرتوں پر قائم ودائم ہے ، موصوف کی تدریس  کا انداز ہی کچھ ایساتھا ۔ بہترین اسلوب بیان کے ساتھ  ساتھ نصوص ومواد کا کثرت ذکرآپ کے معیار تدریس کی  بلندی کا غمازتھے ۔  یہی وجہ تھی کے آپ کی تدریس سے مستفید کوئی بھی طالب کسی بھی ادارے میں تفوق پالیتاتھا ۔
بعض مسائل میں تفرد کے باوجود طلبا ء واساتذہ کے اندر آپ کے علم واستدلال کو نہایت ہی قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ،  منکر پر انکار میں آپ کبھی بھی تساہل یا تاخیر نہیں برتتے ،  چاہے مجلس جتنی بڑی ہو فورا کھڑے ہوکر تنبیہ فرماتے ، مجھے یاد ہے جامعہ کے  ایک پروگرام میں ایک طالب نے روایتی اندازمیں نعت نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھی  اسی پروگرام میں آپ نے اس پر تنبیہ فرمائی اور آپ کا وہ جملہ آج بھی جب میں کسی نعت خواں کو دیکھتاہوں میرے ذہن میں آجاتاہے ، ہوایوں کہ نعت خواں کلین شیو تھے ، مولانا نے فرمایا "محترم آپ اپنی نعت میں اس عظیم ہستی کی صفت بیان  فرمارہے تھے ، اور آپ کی یہ زبان آپ کی داڑھی سے کتنی دوری پر ہے جس میں آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت کررہے ہیں " ۔
آپ کی رہائش دارالضیافہ کی آخری منزل پرٹھیک ماموں جان شیخ احمد مجتبی مدنی کی رہائش کے سامنے تھی جہاں میرا آناجانا کافی زیادہ تھا اس لئے محترم سے باربار ملاقات ہوتی تھی سلام ودعاء کے بعد کبھی کبھار آپ کی نصیحت میرے لئے کافی قیمتی رہے۔
جب میں مرکزامام ابن باز میں بحیثیت باحث متعین ہواتوجامعہ امام ابن تیمیہ اور کلیہ خدیجۃ الکبری للبنات  میں   مختلف مراحل میں حدیث وتفسیر اورعقائد کی کتابوں کے ساتھ ساتھ فقہ کی بعض کتابیں تدریس کے لئے ملیں  ان کتابوں کی تدریس میں مولانا عبدالسلام صاحب کے طریقہ تدریس نے کافی مددکیا  ، اوریہ کہنے میں کوئی ہچک نہیں کہ جب جب میں نے فقہ کی کتابیں پڑھائی ہے آپ کی اور استاد محترم مولانا محمد حنیف مدنی رحمہ اللہ کی  یاد ہمیشہ آتی رہی ہے ۔
مولانا موصوف  شرح الوقایہ کی تدریس  کے وقت  جب جب کو ئی ایسا مسئلہ آتا جو صرف عقل وتخیلات پر مبنی ہوتا فرماتے " یہ  احناف کے یہاں ہی ممکن ہے " ۔
فن خطابت کے آپ شہسوار مانے جاتے تھے ، داہنے ہاتھ کی انگلیوں کی جنبش کے ساتھ کلام میں روانی اورزبان میں چاشنی  عوام کے ساتھ ساتھ خواص کو بھی گرویدہ کردیتی تھی ، آپ ہمیشہ دینی جلسوں اور پروگراموں میں شرکت کرتے اور لوگوں کی ڈھیرو ں محبتیں اور دعائیں ملتیں ۔
جامعہ میں جن  چند اساتذہ کے خطبۂ جمعہ سب سے زیادہ پسند کئے جاتے ان میں آپ بھی تھے حالانکہ آپ کی تنقید بھری نصیحتیں کچھ لوگوں کو ناگوار گذرتیں لیکن پھر بھی آپ ان سب کی پرواہ کئے بغیر اپنا اسلوب و انداز جاری رکھتے۔
جامعہ چھوڑنے کے بعد مختلف وظائف واشغال میں مصروفیت کی وجہ سے بنارس کم ہی جانا ہو اجس کی وجہ سے زیادہ تر اساتذہ سے  رابطہ نہ رہا جن میں مولانا " محترم " بھی ہیں ، آخری بار ان سے ملاقات غالبا تین سال پہلے  دہلی میں جامعہ نگر کے شاہین باغ میں ہوئی تھی جب میں چھٹیوں میں ہندستان گیا ہوا تھا، میں اور میرے خالہ زاد  عزیزم ڈاکٹر عبدالمحسن تیمی ایک ڈاکٹر سے ملاقات کے بعد واپس آرہے تھے کہ موصوف کو ایک جوس کی دکان پہ دیکھا شوق ملاقات میں آپ کے قریب گیا سلام مصافحہ کے بعد تعارف ہو ا چونکہ ایک طویل مدت کے بعد ملاقات ہوئی تھی اس لئے پہلی نظرمیں پہچان نہ سکے  پھرجب تعارف کرایا تو پہچان گئے اور نہایت ہی محبت کے ساتھ  حال  احوال دریافت کئے اور حالیہ مشغولیات کے بارے میں پوچھا ۔
آپ اپنے مخاطب کو ہمیشہ "محترم"سے موصوف کرتے گویا یہ آپ کا تکیہ کلام تھا,آپ کے اس طرز تخاطب نے خود آپ کو "محترم" بنا دیا تھا، اور یہ آپ کے لئے صفاتی نام بن گیاتھا۔
آج مولانا ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن آپ کی جہد کریمہ اورخدمات جلیلہ ہمیشہ آپ کی یاد دلاتی رہیں گی ، آپ کی تصنیفات اور اقطارعالم میں پھیلے آپ کے ہزاروں علمی وارثین آپ کی شخصیت کی بلندی اور محنت ولگن کی روشن دلیلیں ہیں اللہ۔
 رب العزت آپ کو غریق رحمت کرے ، لغزشوں کو درگذرفرمائے ، اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے ، اقرباء،اصدقاء اوراولادواحفادکوصبر دے .
وجزاه الله  عنا وعن الإسلام والمسلمين خيرالجزاء.


=============

جمعرات، 10 مئی، 2018

سفرمیں روزےکےمسائل


         روزہ اسلام کی پانچ بنیادوں میں سےایک ہے ،جس کےانکارسےآدمی کافر ہوجاتاہے ، مسافر کے لیےاللہ تعالی نےنمازہی کی طرح روزہ کےاندربھی  ازراہ تفضل اوراحسا ن  تخفیف اورچھوٹ دےرکھی ہے ، اوراسےاجازت دے دی ہے کہ  سفر میں  روزہ نہ رکھ کراس کے بدلےدوسرےدنوں میں  اس کی قضاء کرلے، چنانچہ ارشاد فرماتا ہے:(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ* أَيَّاماً مَّعْدُودَاتٍ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضاً أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَأَن تَصُومُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ* شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى  لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضاً أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ) [البقرة :183 – 185] (اے ایمان والو ! تم پرروزےرکھنافرض کیاگیا ہےجس طرح تم سے پہلےلوگوں پر فرض کیاگیاتھا تاکہ تم تقوی اختیارکرو،گنتی کےچند ہی دن ہیں، لیکن  تم میں سے جوشخص بیمارہو یاسفرمیں ہو تووہ اوردنوں میں گنتی کوپوراکرلے۔ اورجنہیں روزےرکھنےمیں مشقّت اٹھانی پڑتی ہو، وہ بطور فدیہ ہر روزایک مسکین کو کھاناکھلادیں۔ اورجوکوئی نیکی میں سبقت کرےوہ  اسی کےلیے بہترہے ، اور( مشقت برداشت کرتےہوئے ) روزہ رکھ لینا  تمہارےلیے زیادہ بہترہے ، اگرتم علم رکھتے ہو۔  وہ رمضان  کامہینہ ہے جس میں قرآن کا نزول ہواہے ، اورجولوگوں کوراہ راست دکھاتاہے ، اور جس میں ہدایت کےلیے اورحق وباطل کےدرمیان تفریق کرنے کےلیےنشانیاں ہیں ۔ پس جواس مہینہ کوپائےوہ روزہ رکھےاورجوکوئی  بیمارہویاسفرمیں ہوتووہ اتنےدن گن کربعدمیں روزہ رکھ لے۔ اللہ تمہارےلیےآسانی چاہتاہے ، تمہارےلیے تنگی کو پسندنہیں کرتا) ۔
مذکورہ آیات سےمسافرکےلیےدوران سفرروزہ نہ رکھنےکی اجازت کی صراحت واضح ہے ، اس بنا پردوران سفرروزہ نہ رکھناواجب ہے، یارخصت؟ اس  بابت   علماءکےدواقوال ہیں  : پہلاقول  ظاہریہ کاہے جوکہتےہیں سفرمیں روزہ نہ رکھناواجب ہے ، اوراگرکوئی روزہ رکھ لیتاہے تویہ اس کےلیےکافی نہیں ہوگابلکہ اسے اس کی قضاءدوسرےایام میں  حالت حضرمیں کرنی ہوگی  ، اس سلسلے میں ان لوگوں نےمختلف دلائل دئے ہیں ، جو مندرجہ ذیل ہیں :
دلائل
1 –  اللہ تعالی کافرمان : (فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضاً أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ)
  اس آیت کےاندرمطلق بیان ہےکہ  رمضان میں  مسافرکو روزہ نہیں رکھنی چاہئے بلکہ دوسرےایام میں رکھنی چاہئے ، اس میں روزہ رکھنےاورنہ رکھنےکے درمیان  اختیارکی کوئی بات نہیں کی گئی ہے ، بلکہ مطلق نہ رکھنےاوردوسرےدنوں میں اس کی قضاءکی با ت کہی گئی ہے  ۔
2 -  عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما فرماتےہیں: "إن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى مكة في رمضان فصام حتى بلغ الكديد أفطر فأفطر الناس، وكان صحابة رسول الله صلى الله عليه وسلم يتبعون الأحدث فالأحدث من أمره" [1]  "اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان میں مکہ کی طرف نکلےاورروزہ رکھا، جب مقام کدید پہنچے تو روزہ توڑدیااورلوگوں نےبھی روز ہ توڑ دیا، اوراللہ کےرسول کےاصحاب آپ کےامورمیں سے نئے امرکی اتباع کرتے تھے"۔
اس حدیث سےاستدلال کرتےہوئےکہتےہیں کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل  سفر میں روزہ نہ رکھنےکاتھا ، اورصحابۂ کرام  رضی اللہ عنھم  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےآخری عمل کی ہی اتباع کرتے تھے، گویااللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کاسفرمیں روزہ رکھنااس حدیث سےمنسوخ ہے ۔
3 – اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  کافرمان : "ليس من البر الصوم في السفر" [2]  یعنی  "سفرمیں روزہ   رکھنانیک کام نہیں ہے "۔
4 -   جابررضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ : اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں عام الفتح کومکہ کےلیے نکلےاور روز ہ رکھا، یہاں تک کہ کراع الغمیم  پہنچے، لوگوں نےبھی روزہ رکھاہواتھا،  پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےپانی کاپیالہ منگایا اوراسےبلندکیایہاں تک کہ سب نےاسےدیکھ لیا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پی گئے، اس کےبعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو خبردی گئی کہ  کچھ لوگ اب  بھی روزےسےہیں ، توآب نےفرمایا:"أولئك العصاة، أولئك العصاة "" وہ لوگ  نافرمان ہیں ، وہ لوگ نافرمان ہیں " [3] ۔
5 -  عبدالرحمن بن عوف  رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "صائم رمضان في السفر كالمفطر في الحضر" [4]  "سفرمیں رمضان کاروزہ رکھنےوالاحضرمیں روزہ نہ رکھنے  والےکی طرح ہے "۔
6 –  انس بن مالک کعبی  رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا: "إن الله وضع عن المسافر شطر الصلاة والصوم عن المسافر وعن المرضع والحبلى" [5]  "اللہ تعالی نے مسافرسےآدھی نمازاورمسافر، دودھ پلانےوالی عورت اورحاملہ عورت سے روزہ  کو معاف کردیاہے"۔
جمہورکاقول
جمہور کہتےہیں:  مسافرکےلیےروزہ رکھنےاورنہ رکھنےکےدرمیان اختیارہے ، اگرکو‏ئی  شخص  دورا ن سفر روزہ رکھ لیتاہے تودوسرےایام میں دوبارہ رکھنےکی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ وہ روزہ اس کےلیے کافی  ہے  ۔
دلائل
1  -   عائشہ  رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : حمزہ بن عمرو اسلمی  رضی اللہ عنہ نےاللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم سےکہا کہ : میں  سفر میں  روزہ  رکھتا ہوں؟  (حمزہ ) بہت زیادہ روزہ رکھاکرتےتھے  ، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا : "إن شئت فصم وإن شئت فأفطر" [6]  "چاہوتوروزہ رکھواوراگرچاہوتو نہ رکھو"۔
2 - ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ  فرماتےہیں: ہم لوگوں نے  سولہ  رمضان گزرنے کےبعد اللہ  کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ غزوہ کیا، ہم میں سےکچھ لوگ  روزہ رکھےہوئےتھےاورکچھ لوگ  بغیرروزہ سےتھے ، روزہ داروں نےان لوگوں پرجوروزہ نہیں رکھےہوئے تھے کوئی عیب نہیں لگایا اورنہ بےروزہ  لوگوں نےروزہ داروں پرکوئی عیب لگایا "  [7] ۔
3 -    جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، وہ فرماتےہیں :"ہم نے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ سفرکیا،تو ہم میں سےبعض نےروزہ رکھااوربعض نےنہیں رکھا" [8]  ۔
4 – عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  فرماتےہیں :" اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےسفرمیں روزہ بھی رکھاہے اور روزہ نہیں بھی  رکھاہے ، لہذاجوچاہے رکھے اور جو چاہےنہ رکھے" [9]   ۔
یہ اوران جیسی بےشمارروایتیں ہیں جن سےسفرمیں روزہ رکھنےاورنہ رکھنےکے درمیان  اختیار کےثبوت کاپتہ چلتاہے ، ہاں اتناضرور ہے  کہ سفرمیں روزہ نہ رکھنااللہ کی طرف  رخصت ہے اور اس  رخصت کوبندوں  کوقبول کرناچاہئے ۔
ظاہریہ کی دلائل پرایک نظر
ذیل کی سطورمیں ہم ظاہریہ کی طرف سےپیش کردہ دلائل پرایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں   :
1 – ظاہریہ کی پہلی دلیل  اللہ تعالی کافرمان : (فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضاً أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ)ہے ، لیکن  ان کااس آیت سے استدلال اس لیےدرست نہیں ہےکہ  اس کامفہوم وہ نہیں ہے  جوانہوں نےسمجھ رکھاہے (یعنی سفرروزہ رکھنےسےمانع ہے ) بلکہ  آیت کااصل مفہوم ہے " فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضاً أَوْ عَلَى سَفَرٍ  فأفطر فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ" یعنی " تم میں سے جوشخص بیمار ہویاسفرمیں ہو اوروہ  روزہ توڑدے  تووہ اوردنوں میں گنتی کوپوراکرلے" ۔
نیزاگران کےاستدلال کودلیل قطعی مان لیں تو مریض کےسلسلےمیں کیاکہیں گے ؟ اگرکوئی بیمار ہواورباوجودبیماری کے استطاعت رکھتاہے کہ روزہ رکھ لےاورروزہ رکھ بھی  لیتاہے توکیایہ کہا جا سکتا ہے کہ  اس کایہ روزہ ناکافی ہے اوراسے دوسرےدنوں میں لازمااس کی قضاء کرنی پڑےگی ؟ ہرکوئی بیمارکےاس روزہ کوکافی مانےگااور کہےگاکہ اس کےبدلےدوسرےدنوں میں روزہ رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، ٹھیک اسی طرح اگرمسافرروزہ رکھنےپرقادر ہےاوربلاکسی مشقّت اور پریشانی کے روزہ رکھ لیتاہے تواس کایہ روزہ کافی ہے ، حمزہ بن عمرو کی روایت بھی اسی کی طرف اشارہ  کرتی ہے  ۔
2 –  ان کی دوسری دلیل عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے ، جس میں   "إنما يؤخذ من أمر النبي صلى الله عليه وسلم الآخر فالآخر" سے استدلال کرتےہوئےاللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےسفرمیں روزہ رکھنےکو منسوخ  قراردیاگیاہے ، لیکن اس سےاستدلال اس لیے درست نہیں کہ  مذکورہ  عبارت مدرج ہے جو امام زہری کاقول ہے ، جس کی صراحت  امام بخاری نےکتاب المغازی کے اندرکیاہے  [10]  نیزراوی حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نےصراحۃ بیان کیا ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےسفرمیں روزہ رکھابھی ہے اورنہیں بھی رکھا ہے ، تواب جوچاہےرکھےاورجوچاہےنہ رکھے، ان کےعلاوہ انس  اورابوسعید خدری رضی اللہ  عنہما  کی روایتیں بھی  اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےسفرمیں روزہ رکھنے اورنہ رکھنےسےمتعلق  وضاحت کےساتھ موجودہیں  ، نیز دیگر صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم بھی آپ کےنقش قدم کی پیروی کرتے  ہوئے دونوں پرعمل کیاکرتے تھے  [11]  ۔
3 -  ان کی تیسری دلیل اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  کافرمان: "ليس من البر الصوم في السفر" یعنی   " سفرمیں روزہ رکھنانیک کام نہیں ہے " ہے ۔
لیکن یہ بات ان لوگوں کےلیےکہی گئی ہے جومشقّت برداشت کرکےبھی سفرمیں روزہ رکھتےہیں ، اس کی تائیداس روایت سےہوتی ہے جس میں ہےکہ ایک جگہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےبھیڑدیکھی جس میں ایک آدمی کےاوپرسایہ کیا ہواتھااوروہ روزے سےتھا، اس کی پریشانی اورمشقت کودیکھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: "سفر  میں روزہ رکھنا نیک کام نہیں ہے"اوریہی مقصود:(لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا) [البقرة: 286] (اللہ  بندوں کواس کی قوت وطاقت کےمطابق ہی مکلف کرتاہے ) کاہے  ۔ نیز حمزہ بن عمراسلمی رضی اللہ عنہ   کی روایت بھی اس کی تائیدمیں ہے جس کےالفاظ ہیں: "قلت: يارسول الله! إني أجد بي قوة على الصيام في السفر فهل علي جناح؟ قال هي رخصة من الله عزوجل فمن أخذ بها فحسن ومن أحب أن يصوم فلا جناح عليه" [12]  "میں نےپوچھا : اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنےاندرسفرمیں روزہ رکھنےکی طاقت پاتاہوں ، توکیامیرےاوپرکوئی  گناہ ہے اگرمیں روزہ رکھ لوں  ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : " یہ اللہ کی جانب سےرخصت ہے ، جوچاہےاس رخصت کولےلےتویہ بہترہے ، اورجو روزہ  رکھنا چاہےتو اس  پرکوئی گناہ نہیں "  ۔
نیز"بِرّ" کی نفی  روزے کی نفی کومتقاضی نہیں ہے ۔
4 -   ان  کی چوتھی دلیل جابررضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں روزہ رکھنے والو ں کو نافرمان کہاگیا ہے ۔
جمہوراس کاجواب یہ دیتےہیں کہ یہاں پراللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  نےروز ہ توڑلینےکاعزم کرلیا تھا، اورصحابہ کرام رضی اللہ عنھم  کوایک طرح سے حکم تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع کرتےہوئےروزہ توڑ دیں،  ایسی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت  نافرمانی ہی ہوگی ، اوراس کےعلاوہ دیگربہت ساری دلائل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کےاصحاب کا روزہ رکھناثابت ہے، اس لیے عام حالات میں روزہ رکھنےوالا عاصی اورنافرمان نہیں  ہوگاکیونکہ یہ حکم اس وقت اوراس جیسےحالات پیداہونےکےساتھ خاص ہوگا ، اوریہ بھی ہوسکتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کااس سفر میں روزہ توڑناکسی خاص  مصلحت  سےرہاہو  ۔
5 – ان کی پانچویں دلیل عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں سفرمیں روزہ رکھنےوالے کو حضر میں روزہ نہ رکھنےوالےسےتشبیہ دی گئی ہے ، گویا سفر میں روزہ رکھناباطل قرارپائےگا ، لیکن اس روایت سےاستدلال درست نہیں ہے، کیونکہ یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سندیوں ہے: "عبدالله بن موسى التيمي، عن أسامة بن زيد، عن ابن شهاب الزهري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبيه عبدالرحمن بن عوف،  عن النبي صلى الله عليه وسلم "
مذکورہ سندکےاندردوعلّتیں پائی جاتی ہیں:
اول : اس کےاندرانقطاع ہے  ، اس لیے کہ ابوسلمہ کاسماع اپنےباپ سےثابت نہیں ہے۔
دوم : اسامہ بن زیدضعیف ہیں ۔ [13]
امام بیہقی کہتےہیں :" یہ روایت موقوف ہے اوراس کےاندرانقطاع ہے ، یہ روایت مرفوعا بھی مروی ہے لیکن اس کی سندضعیف ہے" [14]
حافظ ابن حجرنےبھی اسےضعیف قراردیاہے ۔ [15]
6 -  ان کی چھٹی دلیل میں  مسافرسےروزہ معاف کرنےکامطلب یہ نہیں  ہے کہ اگرکسی نےروزہ رکھ لیا تووہ غیر مقبول ہوگا، خاص کران روایتوں کےہوتےہوئے جو صحیح سندوں کے ساتھ مروی ہیں اور ان میں اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  اورآپ کےاصحاب کےروزہ رکھنے کی صراحت موجودہے ۔ نیز انس بن مالک کعبی رضی اللہ عنہ  کی روایت میں اس بات  کی صراحت بھی ہے کہ حاملہ اوردودھ پلانےوالی عورتوں سےبھی روزہ ساقط ہے ، تواب اگراس نوع کی عورتیں  روزہ رکھنےکی طاقت کےساتھ روزہ رکھ لیتی ہیں توکیاان کا روزہ باطل اورناکافی ہوگا؟ توجس طرح ان کاروزہ کافی ہوگااوردوسرے دنوں میں اس کی قضاء ضروری نہیں ہوگی مسافرکاروزہ بھی اس کےلیےکافی ہوگا اوراسےبھی دوسرےدنوں میں قضاءکی ضرورت نہیں ہوگی ۔
دوران سفر روزہ رکھنےاورنہ رکھنےمیں افضل کیاہے ؟
سفرمیں روزہ رکھنےاورنہ رکھنےکی افضلیت میں علماء کےمختلف آراء ہیں   :
اول  : ان لوگوں کےلیے جوروزہ رکھنےکی طاقت رکھتےہوں اوران پرروزہ شاق نہ گزرتاہو روزہ  رکھنا افضل ہے ، دلیل میں سلمہ بن المحبّق  کی روایت پیش کرتےہیں کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  نےارشاد فرمایا: "من كان له حمولة تاوي إلى شبع فليصم رمضان حيث أدركه" [16] .  
لیکن اس روایت سےاستدلال درست نہیں ہے کیونکہ اس میں ایک راوی عبدالصمدبن حبیب الازدی  ضعیف ہیں  [17]   
دوم : چونکہ سفرمیں روزہ نہ رکھنااللہ تعالی کی جانب سےرخصت ہے اس لیے روزہ نہ رکھناہی افضل ہے ، شیخ ابن باز فرماتے ہیں : روزہ دارکےلیے سفرمیں بالاطلاق روزہ نہ رکھناہی افضل ہے ، اورجس نےروزہ رکھ لیاتواس پر کوئی حرج نہیں کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سےدونوں کاثبوت ہے  ، اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سےبھی ، لیکن اگرگرمی سخت ہو اورپریشانی بڑھ جائے تومسافرکےلیے روزہ نہ رکھنا تاکیدی  اوررکھنامکروہ ہوجاتا ہے [18]  ۔
سوم : مطلق اختیارہے ، روزہ رکھےخواہ نہ رکھے،برابرہے ۔
چہارم : مسافرکےلیےجوآسان ہو وہی  افضل ہے ، اللہ تعالی کاارشادہے : ( يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ) [البقرة: 185] ( اللہ تمہارےساتھ آسانی کرنا چاہتاہے اور تمہارے ساتھ سختی نہیں کرناچاہتا) ۔
جیسےایک نوکری پیشہ آدمی کےلیے  جدید وسائل سفرکی زیادہ سےزیادہ سہولت وآسانی کوملحوظ خاطررکھتےہوئے  روزہ رکھنابہ نسبت دیگرایام  کےزیادہ آسان ہو تواس کےلیے روزہ رکھ لیناہی افضل ہے ،اوراگراس کےلیے روزہ رکھنا مشقّت انگیز ہو اورحالات روزہ نہ رکھنےکامتقاضی ہوں  تواس کےلیے روزہ نہ رکھناہی  افضل   ہے ۔
عام روایات کودیکھتےہو‏ئے آخری قول ہی راجح  اورقرین قیاس ہے ۔ والله أعلم بالصواب وهوالهادي  إلى سواء السبيل ۔
******




 [1]  البخاري : كتاب الصوم /34 باب إذاصام أياماًمن رمضان ثم سافر(4/180) مسلم : كتاب الصيام/15 باب جوازالصوم والفطرفي شهررمضان للمسافر (2/784) أبوداؤد: كتاب الصوم /42 باب الصوم في السفر(2/794) النسائي : كتاب الصيام /60 الرخصۃ للمسافرأن يصوم بعضاًويفطر بعضاً (4/189) ابن ماجہ : كتاب الصيام /10 باب ماجاءفي الصوم في السفر(1/531)
و  أحمد(1/244 , 350)
[2]    البخاري : كتاب الصوم /36 باب قول النبي صلى الله عليہ وسلم لمن ظلل عليہ واشتدالحر " ليس من البر الصوم في السفر "(4/183) مسلم : كتاب الصيام/15 باب جوازالصوم والفطرفي شهررمضان للمسافر(2/786) أبوداؤد: كتاب الصوم /43 باب اختيارالفطر(2/796)النسائي : كتاب الصيام /47 العلۃالتي من أجلها قيل ذلك ......(4/175) أحمد (3/299 ,317 , 319 , 352 , 399)
[3]    مسلم : كتاب الصيام/15 باب جوازالصوم والفطرفي شهررمضان للمسافر(2/785) الترمذي : كتاب الصوم /18 باب ماجاء في كراهيۃالصوم في السفر(3/89)
 [4]   النسائي : كتاب الصيام /53 ذكرقولہ" الصائم في السفركالمفطرفي الحضر" (4/183) ابن ماجہ : كتاب الصيام /11 باب ماجاء في الإفطارفي السفر(1/532) تاريخ بغداد(11/383) علامہ البانی نےاس روایت کوضعیف قراردیاہے ، دیکھئے : سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ /رقم 498(1/505) وضعیف سنن ابن ماجہ / رقم   365   (ص 128)
 [5]   أبوداؤد: كتاب الصوم /43 باب اختيارالفطر(2/796)النسائي : كتاب الصيام /50 ذكروضع الصيام عن المسافر ....(4/180)  الترمذي : كتاب الصوم /21 باب ماجاء في الرخصۃفي الإفطارللحبلى والمرضع (3/94) ابن ماجہ : كتاب الصيام /12 باب ماجاء في الإفطارللحامل والمرضع (1/533)  و أحمد (4/347)
 [6]   البخاري : كتاب الصوم /33 باب الصوم في السفر والإفطار(4/179) مسلم : كتاب الصيام/17 باب التخييرفي الصوم والفطرفي السفر(2/789) أبوداؤد: كتاب الصوم /43 باب الصوم في    السفر(2/793)   الترمذي : كتاب الصوم /19 باب ماجاء في الرخصۃ في السفر(3/91)  النسائي : كتاب الصيام /58 ذكرالاختلاف على هشام بن عروة فيہ (4/187) ابن ماجہ: كتاب الصيام /10 باب ماجاء في الصوم في السفر (1/531)  و أحمد (3/494) و (6/46 , 93 ,202 ,207)
[7]   مسلم : كتاب الصيام/15 باب جوازالصوم والفطرفي شهررمضان للمسافر ....(2/786)  أبوداؤد: كتاب الصوم /42 باب الصوم في السفر(2/795)  الترمذي : كتاب الصوم /19 باب ماجاء في الرخصۃ في السفر(3/92)  النسائي : كتاب الصيام /59 ذكرالاختلاف على أبي نضرة المنذر......(4/188)
  [8]  مسلم : كتاب الصيام/15 باب جواز الصوم والفطر.......(2/787) النسائي : كتاب الصيام / 59 ذكرالاختلاف على أبي نضرة المنذر......(4/188) أحمد (3/316)
[9]    البخاري : كتاب الصوم /38 باب من أفطرفي السفرليراه الناس (4/186) ) مسلم : كتاب الصيام/15 باب جوازالصوم والفطرفي شهررمضان للمسافر(2/784) النسائي : كتاب الصيام /61 الرخصۃ  في الإفطارلمن حضرشهررمضان فصام ثم سافر(4/189)
 [10]  دیکھئے : صحیح بخاری ( 8/3) نیزامام مسلم نےبھی اس کی صراحت کی ہے ، دیکھئے : صحیح مسلم   ( 2/785)
  [11]   تفصیل کے لئےدیکھئے : صحیح مسلم ( 2/787 – 788 )  
[12]     مسلم : كتاب الصيام/17 باب التخييرفي الصوم والفطرفي السفر(2/790 )  النسائي : كتاب الصيام /57  ذكرالاختلاف على عروة في حديث حمزة فيہ (4/186)  و   أحمد (3/494)
[13]      دیکھئے : سلسلہ ضعیفہ /رقم  498 (1/505)                            
[14]     السنن الکبری ( 4/244)
   [15]  التلخیص  الحبیر ( 2/205)
  [16]  أبوداؤد : كتاب الصوم /44 باب من اختارالصيام (2/798)
 [17]    دیکھئے : تقریب التھذیب ( ص213)
 [18]    تحفۃ الإخوان ( ص 161)