منگل، 20 مارچ، 2018

جھوٹ کے نقصانات


الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده,وبعد :
جھوٹ زبان کی بدترین گناہوں میں سے ایک دینی ومعاشرتی برائی ، لامتناہی خرابیوں کاسبب ، نقاق کا جزء اور ایمان کے فقدان کا سبب ہے اسکےانسان اورمعاشرےپر بےپناہ اضرارونقصانات کی وجہ سےشریعت اسلامیہ نے کبیرہ گناہوں کےزمرےمیں رکھاہے۔ اصل موضوع کی طرف آنے سے پہلے اس سےمتعلق چند وضاحتیں ضروری ہیں :
جھوٹ کو عربی میں کذب کہاجاتاہے جو صدق وسچائی کاضد ہے ، جس کی تعریف ہے :" الكذب : هو مخالفة الكلام للواقع" "یعنی حقیقت کے خلاف کرنےکو جھوٹ کہاجاتاہے" ۔ حافظ ابن حجر کے بقول :" والكذب هو الإخبار بالشيء على خلاف ما هو عليه، سواء كان عمدًا أم خطأً""حقیقت کے خلاف خبردینا خواہ جان بوجھ کرہو یا سہوا ہو"۔
جھوٹ بولنے کے چند اسباب ہیں جیسے : انسان عادۃً جھوٹ بولتاہے ، یا پھرطمع ولالچ کے سبب یا پھربغض وحسد اور عداوت ودشمنی کی وجہ  سے  ۔
جھوٹ کی بنیادی طورپر دو قسمیں ہیں : قولی  اور عملی ۔ اور ان  کی ذیلی تین قسمیں ہیں : اللہ اور رسول پرجھوٹ ۔ جس کی  سب سے قبیج صورت  ہے ان چیزوں کو حلال قراردینا جنہیں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ  وسلم نے حرام قرار دیا ہے اور ان چیزوں کوحرام  قراردینا جنہیں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ  وسلم نے حلال  قرار دیا ہے، اللہ تعالی فرماتاہے : " وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِه)(اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پرجھوٹ باندھے یا اس کی آیات کوجھٹلائے) نیزفرمایا:(وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ  تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ  وُجُوهُهُم  مُّسْوَدَّةٌ  ) (قیامت کےروزان لوگو ں کوجنہوں نے اللہ پرجھوٹ باندھا دیکھوگے کہ ان چہرہ کالا پڑجائےگا ) اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :  من كذب عليَّ متعمدًا فليتبوَّأ مقعده من النار" (متفق عليه ) "جس نے میرے اوپرجھوٹ باندھا وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے "
اور دوسری قسم ہے :   عام لوگو ں  سےان  کی عزت ودولت سے متعلق   جھوٹ بولنا  جس کے چندواضح  مظاہرمیں سےکچھ یہ ہیں   :
پہلا : شہادۃ الزور یعنی جھوٹی گواہی   ۔ جھوٹ کی اس قسم کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے ساتھ شرک اور والدین کی نافرمانی کے ساتھ ذکرکرتے ہوئے  اکبرالکبائر قراردیاہے ۔(اس روایت کو امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی صحیح کے اندرذکرکیاہے)۔
دوسرا : جھوٹی گواہی  پرقسم کھانا :  یہ جھوٹ شہادۃ الزور کی قسم میں سے ہے  ، اس کےاندرجھوٹا اپنی جھوٹ کے ساتھ جھوٹی قسم ملاتاہے ، چنانچہ یہ  پہلے والے سے سخت جرم اور زیادہ گناہ والاہے ۔بخاری اور مسلم کی روایت میں ہے کہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "قیامت کے دن ایسا شخص اللہ سے اس حال میں ملےگا کہ وہ اس پہ غضبناک ہوگا" ۔
تیسرا : خریدوفروخت میں جھوٹ بولنا :  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : «اليمين الكاذبة مُنفقة للسلعة مُمحقة للكسب"(متفق عليه) " یعنی  قسم کھانے سے سامانِ تجارت کا تو فروغ ہوتا ہے، لیکن قسم سے برکت اٹھا لی جاتی ہے"۔ ابو ذر رضی الله عنہ رسول  اکرم صلى الله عليہ وسلم سے روايت كرتے ہيں كہ آپ نے فرمايا :  "تین شخص ایسے ہیں، جن سے قیامت کے دن اللہ تعالی نہ بات کرےگا، نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھےگا، اور نہ انہیں گناہوں سے پاک کرےگا، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے, ٹخنوں سے نیچے اپنا تہبند گھسیٹ کر چلنے والا، احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم سے اپنے سامانِ تجارت کو فروغ دینے والا۔اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیاہے )۔
چوتھا  : مذا ق وسخریہ کے مقصد سے جھوٹ بولنا :  یہ بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"ويل للذي يُحدِّث فيكذب ليُضحك به القوم،ويلٌ له ويلٌ له" "تباہی  ہے اس آدمی کے لئے جولوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتاہے ، تباہی ہے اس کے لئے ، تباہی  ہے اس کے لئے "  ( اسے  احمد ابوداؤد اور ترمذی نے روایت کیاہے اور امام ابن باز رحمہ اللہ نےاسےجید قراردیاہے )۔
پانچواں  : لوگوں کے درمیان بگاڑ وفساد پیداکرنے  کے لئے جھوٹ بولنا  ۔
جھوٹ کی تیسری قسم ہے : عام لوگوں سے ان  چیزوں میں جھوٹ بولنا جو ان کی عزت ودولت سے متعلق نہ ہو ، جھوٹ کی یہ قسم گرچہ  پہلے والے سے اخف ہے لیکن نہایت ہی مذموم ہے ، جیسے آدمی اپنی بڑائی  جتانے کے لئے ایسی چیزکا دعوی کرے جو اس کے اندرنہیں ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" " مَنِ ادَّعَى مَالَيْسَ لَهُ فَلَيْسَ مِنَّاوَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ"(رواه ابن ماجة والبيهقي وصححه الشيخ الألباني)"جس کسی نے ایسی چیزکا دعوی کیا جو اس کا نہیں  ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے اور وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے " ۔
اسی طرح  جھوٹے خواب  بیان کرنےوالے   کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "جس نے ایساخواب بیان کیا جو اس نے نہیں دیکھاتو اسےقیامت  کے روز دو جو کے درمیان گانٹھ  لگانے کے لئے کہاجائے گا جب کہ وہ اسے ہرگز انجام نہیں دے سکتا"(اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیاہے ) ۔
جھوٹ کی مختلف شکلوں کے بارے میں امام راغب اصفہانی  لکھتے ہیں : "جھوٹ  کہتے ہیں :  یاتو کوئی بے بنیاد کہانی گھڑلی جائے یا کسی قصےمیں  حذف واضافہ کیاجائے جو اس کے مفہوم کو بدل دے یا عبارت کے اندرتحریف کردی جائے ، اگرکہانی گھڑی جائے تو اسے افتراء کہتے ہیں  اور کمی وزیادتی کو  مَيْنٌ  کہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اگرکوئی جھوٹ بولتاہے تویاتو جس کے بارے میں جھوٹ بولتاہے وہ موجودہو یا موجودنہ ہو ، اگرموجود ہے تو یہ بہتان ہے اور اگرموجودنہیں  ہے تویہ کذب ہے ، اور اگرکوئی سنی ہوئی جھوٹی بات بیان کرتا ہے تو اسے  إفكٌ  کہتے ہیں "۔
لفظ کذب کا ذکر قرآن مجید میں تقریبا  251 بار ہوا ہے ، جھوٹ اورجھوٹوں کے بارے میں اللہ تعالی کافرمان ہے: (وَيْلٌ لِّكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ)(ہرجھوٹے گناہ گارکے لئے ہلاکت ہے )،نیزفرمایا:(وَاجْتَنِبُواقَوْلَ الزُّورِ)(جھوٹی بات سے بچو)۔  نیز فرمایا:(إِنَّ اللَّهَ  لَا يَهْدِي  مَنْ  هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّاب) )(اللہ تعالی حق کوجھوڑ کراورباطل کو اختیارکرکے حدسے تجاوزکرنےوالے جھوٹےکو ہدایت نہیں دیتا)نیزفرمایا: (إِنَّمَا يَفْتَرِي  الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ۔ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ)۔(وہ لوگ جو اللہ تعالی کی آیات پرایمان نہیں رکھتے  وہ جھوٹ گھڑتے ہیں ، اور یہ لوگ صحیح معنوں میں جھوٹے ہیں )
اسی طرح جھوٹ اورجھوٹوں سے متعلق ذخیرہ احادیث میں بے شمارروایتیں موجود ہیں جن میں سے چندایک آپ حضرات کے سامنے بیان کردینا مناسب سمجھتی ہیں :عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" وإياكم والكذب فإن الكذب يهدي إلى الفجور و إن الفجور يهدي إلى النار , وما يزال الرجل يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا" "جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ فسق وفجور کی طرف لے جاتاہے ، اور فجورجہنم کی طرف لے جاتاہے ، اور آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتاہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں کذاب لکھ دیاجاتاہے" ۔  نیز فرمایا :"‎ " أربع  من كن فيه كان منافقا خالصا وإن صام وصلى وزعم أنه مسلم ومن كانت فيه خصلة منهن , كانت فيه خصلة من النفاق  حتى يدعها منها: إذا حدث كذب""جس آدمی کے اندرچارخصلتیں ہوں وہ خالص منافق ہوتاہے ، اگرچہ وہ روزہ نما زوالاہو اور خودکومسلمان سمجھتاہو، اوراگران میں سے کوئی ایک خصلت اس کے اندرہوتواس کے اندرنفاق کی ایک خصلت ہوتی ہے   یہاں تک کہ اسے چھوڑدے ان میں سے ایک یہ کہ جب بات کرتاہے توجھوٹ بولتاہے " ۔
ان روایتوں کےعلاوہ بے شمار روایتیں ہیں  ۔
جھوٹ کے نقصانات   :
جھوٹ کبیرہ  گناہوں میں سے ایک ہے ۔ جھوٹ نفاق کی علامتوں میں سے ایک ہے ۔ انسان کی مروءت وکرامت کے خلاف ہےچنانچہ جھوٹ بولنے والے سے لوگوں کا بھروسہ اٹھ جاتاہے گرچہ وہ سچ ہی بولے لوگ اس کا بھروسہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں   ۔ جھوٹ ذلت ورسوائی کا سبب ہے ،جھوٹ  کی وجہ سے انسان عذاب الہی کا مستحق بن جاتاہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ) وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ )(ان کے جھوٹ کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے ) ، جھوٹا اللہ کی لعنت کا مستحق قرار پاتا ہےاللہ تعالی ارشادفرماتاہے :( وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ) (پانچویں بار میں اس سے کہاجائےگا کہ اگروہ جھوٹوں میں سے ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہوگی )جھوٹ ایک دوسرے پربھروسہ کو کمزورکردیتا ہے جس کی وجہ لوگ ایک دوسرےکے خلاف  کینہ ، بغض ، حسد،افتراء ،بہتان ، اورتجسس کے شکارہوجاتے ہیں ۔جھوٹ انسان کے اندر تعلی اور خودنمائی پیدا کرتاہے ،  جھوٹ بولنا قیمتی وقت کا ضیاع بھی ہے کیونکہ جھوٹا اپنے جھوٹ کی ترویج کے لئے حیلہ اور طریقہ کی جستجو میں وقت ضائع کرتا رہتاہے ۔ جھوٹا بداخلاقی اور دوسروں کی بے عزتی  کرنے کا ارتکاب کرنے میں کو‏ئی عار نہیں سمجھتا ۔جھوٹ روح وجسم کی پاگیزگی کو ختم کردیتاہے ۔ جھوٹ معاشرے میں  فساد و بگاڑکا سبب ہے ۔  جھوٹ کی وجہ سے سچائی مسخ ہوجاتی ہے  اور برائیاں  عام ہوجاتی ہیں ۔ حقائق مسخ ہونے اور بے ایمانی کے پھیلنے میں جھوٹ کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے ۔جھوٹا اللہ کی ہدایت سے محروم ہوتاہے : اللہ تعالی فرماتاہے: ( إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ) (اللہ تعالی جھوٹے کافرکو ہدایت نہیں دیتا )۔خریدوفروخت کے معاملات میں جھوٹ برکت کو ختم کردیتاہے  ، امام بخاری نے  اپنی صحیح میں  حکیم بن حزام رضی اللہ سے روایت کیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ :"خریدوفروخت کرنے والے سچائی اور حقیقت بیانی کے ساتھ لین دین کرتےہیں توان کی تجارت میں برکت ہوتی ہے  اور اگردھوکااور جھوٹ کے ساتھ کرتے ہیں توان کی تجارت میں برکت ختم کردی جاتی ہے ".جھوٹ سے حقائق مسخ ہوتے ہیں اور لوگوں کے حقوق ضائع ہوتے ہیں ۔جھوٹ کی وجہ  سےصدق وسچائی کی ساری  اعلی وارفع خوبیاں ضا‏ئع ہوجاتی ہیں ۔جھوٹ فسق وفجور کی جڑ اوربنیاد ہے ۔  بہت سارے گھراورخاندان کے انتشار کا سبب جھوٹ ہوتاہے ۔جھوٹ انسان کے اندرسے اللہ کاخوف زائل کردیتا ہے اور رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت صرف دکھاوے کے لئے ہوتی ہے، جھوٹ  فرائض واجبات کی ادائگی سے محروم کردیتاہے۔ ضمیر کو مردہ کردیتاہے۔ شعورواحساس کو مضمحل کردیتاہے ، فسق وفجور کے دروازے کھول دیتاہے ۔ خواہش نفس کا پیروکاربنا دیتاہے ۔ جھوٹ کافروں کا شیوہ ہے ۔  اگلی امتیں اپنے  کفر اور کذب کی وجہ سے ہلاک کردی گئیں ۔ جھوٹ کے برخلاف صدق وصفا ابنیاء  وصالحین کاوطیرہ رہاہے جس کی وجہ سے وہ اللہ کے مقرب ومحبوب بندے قرار پائے ۔ ایک وقت تھا کہ دیگر صفات حسنہ اور قوت ایمانی   کے ساتھ ساتھ صدق وصفا نے ہمارے اسلاف کے اندروہ  عزم وحوصلہ  پیداکردی تھی جنہوں نے نہایت ہی کم وقت میں دنیا کے گوشے گوشےکو اسلام کی حقانیت سے روشناس کرادیاتھا۔
ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم نے جھوٹ کو گُناہ سمجھنے کے بجائے ہنر سمجھ لیا ہے، جھوٹ بول کر سودا کرنا، جھوٹ بول کر ووٹ لینا، جھوٹ بول کر حکومت کرنا اور جھوٹ کے ذریعے اپنی بددیانتی کو عین دیانت داری ثابت کرنے کا عمل ہمارے اندر رچ بس گیا ہے ہم توقع یہ رکھنے لگتے ہیں کہ جھوٹ سوچ کر ،جھوٹ بول کر ،جھوٹ پر عمل کرکے ہمیں وہ فائدے حاصل ہوں گے جو سچ کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔لیکن  یادرہے کہ جھوٹ کے بیج سے سچ کی فصل کاشت نہیں کی جاسکتی ۔
آج کے پرآشوب دور میں جھوٹ کو رواج دینے کے بہت سارے وسائل جدید ٹکنالوجی کی شکل میں موجود ہے الکٹرانک اور سوشل میڈیا نے جھوٹ کو پھیلانے کا بہت بڑاکام کیاہے ۔ چشم زدن میں جھوٹ پورے معاشرے کو اپنی چپیٹ میں لے لیتا ہے اورپورامعاشرہ اس   کے بھیانک انجام سے دوچارہونے لگتاہے   ۔ بسااوقات  اس کی وجہ ہے   قتل وغارت گری جیسے جرائم کا ارتکاب ہونے لگتاہے ۔  ایسے وقت میں سچائی کی  اہمیت اور فوا‏ئد اورجھوٹ کے بھیانک انجام کو  پوری طاقت اور ہمت وحوصلہ کے ساتھ بیان کرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہمارا معاشرہ امن وشانتی کا گہوارہ بن سکے ۔                                                                                                                                            
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ  بعض  دوررس مصلحتوں کے پیش نظر تین حالتوں میں جھوٹ کو مباح قراردیاگیاہے جیسا کہ اسماء بنت یزیداور   ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہما  کی  صحیح سندوں سے مروی روایتوں  میں ہے ، اور وہ ہیں : لوگوں کو آپس میں صلح کرانے کے لئے ، دشمن سے حالت جنگ میں اور بیوی کو راضی کرنے کے لئے ۔
اللہ رب العزت سے دعاء ہے کہ اللہ تعالی ہمیں  صدق وسچائی کاپیکربنائے  اورجھوٹ جیسے عظیم گناہ سے بچنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین ۔  وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم ۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔