اتوار، 28 ستمبر، 2025

زاویۂ نگاہ

 

زاویۂ نگاہ

عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی /سعودی عربیہ

      لیلی العامریہ  عشق ومحبت  کے باب میں مذکورکہانیوں اورافسانوں کے مطابق عرب کی معروف ترین   خاتون گزری ہے،  اگر ادب ورومانس سے متعلق کہانیوں کو  صحیح مانیں تو قیس بن معاذ یا  قیس بن الملوح جوادب ورومانس کی دنیا میں   لیلی کا مجنون   کےنام سے معروف ہے  کی محبوبہ رہی ہے۔

لیلی  کو بھی عربی شعرادب میں خوب دسترس حاصل تھا  اوروہ  جاہلیت واسلام سے متعلق  تاریخ عرب کی بھی ماہر تھی۔ کہا جاتاہےکہ لیلی معمولی قدکاٹھی   کی تھی اور شکل وصورت  اتنی  زیادہ  قابل اعتناء نہیں تھی ،  دبلی پتلی  اور سانولی سی لڑکی تھی ۔

زاویۂ فکر کے تعلق سے مشہور ہےکہ ایک عرب امیر نے لیلیٰ اور اس کے مجنون  کی محبت کے بارے میں سنا توان کواپنے سامنے حاضرکرنے کا حکم دیا ۔چنانچہ جب لیلیٰ اس کے سامنے کھڑی ہوئی تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک دبلی پتلی اور سانولی سی لڑکی ہے، اس نے اسے غیر اہم اورحقیر  ومعمولی سمجھا،مجنوں امیر  کے دل کا حال سمجھ گیااور اس کی طرف دیکھ کرکہا:عالیجاہ! اگرآپ مجنون کی غم زدہ آنکھوں کی توانائیوں سے لیلیٰ کو دیکھں گےتوآپ پر  اس کی محبت     کی وجہ سے اس کے دیدار کاراز کھل جائے گا۔امیر کو مجنوں کا یہ جواب بہت پسندآیا اور وہ خوش ہوگیا۔(نوادرالعشاق /ص 157)۔

اسی طرح لیلی  کا ایک شعر بھی اسی زاویۂ کی بہترین ترجمان ہے کہتی ہے:

كِلَانَا مظهر للنّاس بغضاً   

وكلّ عِنْد صَاحبه مكين

تبلّغنا الْعُيُون بِمَا رَأينَا   

وَفِي القلبين ثمَّ هوى دَفِين

(ہم دونوں  لوگوں کی نفرت کے مظہرہیں ، جبکہ ہم میں کا ہرایک دوسرےکےنزدیک قابل قدرہے،ہم جو دیکھتےہیں نگاہیں اسی کو ہم تک پہونچاتی ہیں،  ہم تو ایک دوسرے کے دلوں میں ہیں جہاں جذبات ومحبت مدفون ہیں)۔(خزانۃ الأدب للبغدادی:4/230)

ہوا یوں کہ قیس نہایت ہی خوبرو جوان   اور خوش اسلوب تھا،اچھی باتیں کرتا  اور شعرگوئی کرتا ، اور جب بھی کسی مجلس میں  یا کسی کے ساتھ ہوتاتو ان  میں لیلی  کی باتیں کرتا رہتا   ،ور اس سے  اپنی دل لگی اور الفت وچاہت   کو بیان کرتا،پھر ایک وقت آیا جب  لیلی اس سے بےاعتنائی برتنے لگی اس پر اسے بڑی تکلیف ہوئی اور لوگوں میں اس کا چرچہ  ہونےلگا ، جب  یہ بات لیلی کو معلوم ہوئی تو اس  نے مذکورہ جذبے کا اظہار اپنے شعرکیا۔

میں  نے مذکورہ باتیں  بطور مثال ذکرکی ہے یہ بتانے کےلئے کہ  تعلق کا جذبہ جو انسان کے اندر ہوتاہے قوم وملت اور رنگ ونسل سے پرے ایک اندرونی  جذبہ ہوتاہے جو بسا اوقات سامنے والے کی سوچ سے  بالا تر ہوتاہے، اس لئے ہم کسی کے تعلق ولگاوٹ کو اپنی نگا ہ سے نہیں دیکھ سکتے کیونکہ اگر دیکھنے کی کوشش کریں گے تو اس کے اندر خطا  اورغلطی کا امکان بھی ہوسکتاہے ،بلکہ بسا اوقات  شروفساد اور فتنہ کا دروازہ بھی کھل سکتاہے، اس لئےکہ جب ہم کسی  کے فعل اورحرکات  کو اپنی نگاہ سے دیکھیں گےتو اپنے اعتبار وخیال سے کوئی رائے قائم کرکے اس پرکوئی حکم لگانے کی کوشش کریں گے جبکہ حقیقتا سامنے والا اس کے برعکس سوچ اور سمجھ رہاہوگا۔

تعلق اور لگاوٹ سے متعلق انسان کے لئے  ایک حد   برقراررکھنا  بھی ازحدضروری ہے ،چنانچہ آپ کی محبت ولگاوٹ کا جذبہ خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو  اس کے اندر اعتدال ضروری ہے ورنہ  اس کے اندر بے اعتدالی  بسا اوقات انسان کے لئے باعث عار وشرمندگی بھی بن جاتی ہے ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی ایک موقوف روایت ہے وہ فرماتےہیں:"أحبِبْ حبيبَك هَونًاماعسى أن يكونَ بغيضَك يومًاما،وأبغِضْ بغيضَك هَونًاما؛عسى أن يكونَ حبيبَك يومًاما"۔"اپنے دوست سے اعتدال اور توسط کے ساتھ دوستی رکھو شاید وہ کسی دن تمہارا دشمن ہو جائے اور اپنے دشمن سے اعتدال اور توسط کے ساتھ دشمنی کرو شاید وہ کسی دن تمہارا دوست بن جائے"۔ ( الأدب المفرد للامام البخاری/1321 علامہ البانی نے اسے حسن لغیرہ کہاہے)۔چنانچہ اس تعلق کے اندرگہرائی محبوب تو ہے لیکن غلومبغوض ہے ،خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی محبت کے جذبات کے تعلق سے امت کو سخت تنبیہ کیاہے ،چنانچہ آپ کا ارشاد ہے:"لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَاأَنَاعَبْدُهُ،فَقُولُوا:عَبْدُاللَّهِ وَرَسُولُهُ"۔"مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے (میرے متعلق)  یہی کہا کرو کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں"۔(صحيح بخاری/3445)۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اسی جذبہ کے اندر غلو کی وجہ سے گزشتہ امتیں ہلاک ہوئیں، جس کا بیان قرآن وسنت کے اندر بے شمار نصوص میں موجودہے،چنانچہ غیراللہ سے اپنی اسی محبت کی وجہ سے وہ شرک جیسے ناقابل معافی جرم کے شکار ہوئے ،اللہ تعالی فرماتاہے:﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ)۔(بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اوروں کو اللہ کے شریک ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیئے)۔(البقرة/165)۔

نفرت کےبرعکس محبت انسان کو بہت جلد اپنے دام میں گرفتارکرکے اپنا تابع کرلیتی ہے جس کی وجہ سے اس رویہ جاجزانہ اور تابعدارانہ ہوجاتاہے، ایک شاعر کہاہے:

       والحب شعر النفس إن هتفت به      

سكت الوجود ولأطرق استعظاما

(محبت نفس  کا شعر ہے اگر وہ اسے آواز لگاتی ہے تو وجودساکت ہوجاتاہے، اوراس کی عظمت اور اہمیت کےسامنے اپنا سرجھکا لیتاہے)۔

یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اگریہ لگاوٹ اور الفت اللہ کے ساتھ ہے تو توحید  اور عبادت ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے تومحبت کے ساتھ ایمان ہے ، اورمخلوق کے ساتھ ہے تو حقیقی اسلام ہے۔ البتہ مخلوق کے ساتھ  اس کی حیثیت  ان کی قربت وتعلق کے مدارج اورحالات کے اتارچڑھاؤ کے ساتھ بدلتی رہتی ہے،جیسے ماں باپ ، بھائی بہن ، بیوی بچےاورعام مسلمان اور غیرمسلمان  وغیرہ ۔ اور یہ بھی واضح ہوکہ ان سے تعلق ومحبت  شرعی دائرے میں ہونے کے ساتھ ساتھ   اللہ کے لئے  ہو  ،یہی ایمان کا تقاضہ اور اس باب میں اسلام کا مطلوب اور حصول عز وشرف کا سبب  ہے ، اورجب کسی انسان کے اندر یہ خوبی آجائے تو وہ ایمان کی مٹھاس اور لذت محسوس کرنے لگتاہے، انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتےہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا ۔۔۔"۔ ان تین چیزوں میں سے ایک ہے :"أن يحب المرءلايحبه إلالله"۔" کسی سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے"۔(صحیح بخاری/16 ، صحیح مسلم/43)۔

بلکہ ایک روایت میں اسے تکمیل ایمان سے تعبیر کرتےہوئے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس نے اللہ ہی کی  رضا کے لیے محبت کی، اللہ ہی کی رضا کے لیے دشمنی کی، اللہ ہی کی  رضا کے لیے دیا، اللہ ہی کی  رضا کے لیے منع کر دیا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا"۔(سنن ابی داود/4681 ،علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔ یہی نہیں بلکہ جن   کے اندر یہ  خصلت اور جذبہ پیدا ہوجائے اوراللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت رکھیں ، اسی پر جمع ہوں اور اسی پر جدا ہوں تو وہ ان سات خوش نصیبوں میں شامل ہوجاتےہیں جنہیں بروز قیامت  اللہ تعالیٰ اپنے (عرش کے) سایہ میں رکھے گا، جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا"۔(دیکھئے: صحیح بخاری/1423، صحیح مسلم/1031)۔

بلاشبہ دلوں کا مالک اللہ رب العزت ہے وہی اس کا پھیرنے والاہےاس کے اندر الفت ومحبت بھی  وہی ودیعت کرتاہے ،ایک مقام پر فرماتاہے: ( وَإِنْ يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ * وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ )۔(اگر وه ( دشمن عہدکرکے) تجھ سے دغا بازی کرنا چاہیں گے تو اللہ تجھے کافی ہے، اسی نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعہ  تیری تائید کی ہے۔ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے۔ زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے وه غالب حکمتوں والا ہے)۔(الانفال/62-63)۔ یہی وجہ ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اکثریہ دعاء کرتے رہتےتھے:" يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ"۔"اے دلوں کے الٹنے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ" ۔(سنن الترمذی/2140،3522 ،علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔

چنانچہ پختہ اورمضبوط علم والوں کی اہم دعاؤں میں سے ایک یہ  دعاء بھی ہے جس کی تعلیم اللہ تعالی نے دی ہےکہ:( رَبَّنَا لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَاِذْهَدَیْتَنَا)۔(اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل(جہالت ونادانی یا کفروعناد اور معصیت وخرافات کی وجہ سےان لوگوں کے دلوں کی طرح جوراہ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں) ٹیڑھے نہ کردینا)۔(آل عمران/8)۔

چنانچہ مثبت اور مناسب سوچ  کے ساتھ اور شریعت کے احکام کےدائرے میں دل کے معاملات  انجام دینا ایک اچھے   انسان کی پہچان  اور دنیا وآخرت کی فلاح وکامیابی کےلئے ضروری ہے او رخاص طور سے ایک مؤمن کے لئے اس کےتئیں بیداری واجب ہےکہ کہیں  غلواور افراط وتفریط میں پھنس  کر گذشتہ  ہلاک شدہ امتوں کی طرح  راہ حق سے بھٹک کر خائب وخاسر نہ ہوجائے۔ اللہ رب العزت ہمیں اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ وصلی اللہ علی خیر خلقہ وسلم۔

********

 

 

   

 

 

 

اتوار، 31 اگست، 2025

ریسرچ کی فیلڈ میں عزیزم زین الدین انصاری کی ایک بہترین کاوش

 ریسرچ کی فیلڈ میں عزیزم زین الدین انصاری کی ایک بہترین  کاوش

       عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی(سعودی عربیہ)   

       صحت وتندرستی  اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہے  ،اگر انسان کو یہ  نعمت نصیب ہوتو وہ دینی اور دنیاوی ہر طرح کے کا م بحسن وخوبی انجام دے سکتاہے،اطمینان قلب کے ساتھ زندگی گلزار بن سکتی ہے ۔صحت مند جسم کے لئے   ورزش، آرام ، ذہنی اور دماغی سکون ، اورمناسب  علاج کے ساتھ ساتھ صحت بخش غذاء کا  انتخاب  اور اس کا حصول بہت ہی اہم اور ضروری ہے۔اگر ہم  مناسب غذا ء کا انتخاب کرتے ہیں تو اس  سے جہاں ہمارےکھان  پان کی ضرورت   پوری ہوتی ہے وہی جسم کے اندر مدافعتی  سسٹم کو  قوت ملتی ہے، جس سے ہمارا جسم مختلف قسم کی بیماریوں سے لڑتاہے  اور ان سے  محفوظ رہتاہے  اور زندگی چین و سکون اور جہد وعمل کے ساتھ گزرتی ہے اور ہم اپنےاندر موسم کے سردوگرم کو برداشت کرنے اور اپنے مزاج کواس کے مطابق  ڈھالنے کی قوت  پاتےہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں سائنس وتحقیق سے متعلق  افراد نے اس جانب خصوصی توجہ دی ہے اور جسم وصحت سے متعلق امور کا مطالعہ کرکے اور مختلف اشیاء خوردونوش کے اندر موجود فوائد واضرار  سے لیس اجزاء کا تجزیہ کرکے  دنیا کےسامنےصحت مندخوراک  کے استعمال کے مواقع اور مناسبات کا حل پیش کیاہے۔خاص طورسے موجودہ دورمیں   جبکہ  اشیاء خوردونوش کی پیداواراور صناعت کا عمومی انحصار مختلف  النوع کیمیکل  اجزاء پرہے ، جب شعوری  یا غیرشعوری طورپر  ان کا غیر  مناسب  استعمال  عام ہوجائے تو وہ صحت کے لئے کتنا نقصان دہ ہوسکتاہے اس کا ادراک ہر شخص کو ہے ۔ اسی سلسلے کی کڑی سنٹرل ڈپارٹمنٹ  آف زولوجی  تریبھوون  یونیورسٹی کاٹھمانڈو  نیپال  (Central Department of Zoology Tribhuvan University Kathmandu) کے سائنس اینڈٹیکنالوجی   کے شعبہ کے سابق  ریسرچر زین الدین انصاری بن پرویز احمد انصاری(ساکن بہو ری ،بیرگنج ،ضلع پرسا نیپال جو فی الوقت بیرگنج نیپال کے مختلف  کالجوں اور میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں بطورمعاون لکچرار اپنی خدمات دے رہےہیں۔) نے اپنی ریسرچ ٹیم کے ساتھ  (کاٹھمانڈو میٹروپولیٹن سٹی نیپال میں فروخت ہونے والی کچی سبزیوں میں  آنتوں کی   اعلی ترین  پرجیوی آلودگی ) کے موضوع پر  بہترین تحقیق پیش کی ہےجسے سائنسی اسٹڈیز اور  اشاعتوں سے متعلق معروف  جریدہ جرنل آف ٹراپیکل میڈیسن  (ویلی)

 Journal of Tropical Medicine (Wiley)  

نے اپنی اشاعت میں خصوصی جگہ دی ہے ۔

مذکورہ ریسرچ عزیز موصوف کا ماسٹرآف سائنس (MSc )  کا مقالہ تھا ،جسے انہوں نے تریبھوون یونیورسٹی کے مذکورہ ڈیپارٹمنٹ میں  پیش کیاتھا۔

واضح رہے کہ  مذکورہ مقالہ کاٹھمانڈو شہر میں  فروخت ہونے والی کچی سبزیوں میں موجود  پرجیوی آلودگی سے متعلق ہے۔ پرجیوی (Parasite) ایک ایسا جاندار یا جرثومہ ہے جو دوسرے جاندار  کے اندراپنےلئے رہائش بناتاہے اور اس سے خوراک حاصل کرتا ہے اور اس کے بدلے میں اس  کو نقصان پہنچاتا ہے یا اسے کمزور کرتا ہے، یہ جرثومہ کسی جسم  کےاندریا جسم  کے  اوپربھی رہتاہے اور ہر دوصورت میں اس جسم پر منحصرہوتاہے اور اسی سے اپنا خوراک حاصل کرتاہے،  اور جب  وہ  کسی انسان، جانور، یا پودےکے جسم میں داخل ہو کراس کے وسائل استعمال کرنے لگتا ہےتو اس سے صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔یہ پرجیوی پانی، مٹی، خوراک، یا ہوا کے ذریعے پھیل سکتاہے۔

 سبزیاں  انسان کی خوراک  کا لازمی حصہ ہیں جن کا شمار انسان کی اعلی  اور صحتمند غذاؤوں میں ہوتاہے جن کے استعمال سے انسان تندرست وتوانا اورصحتمندتورہتاہی ہے اس کے جسم کا مدافعتی نظام بھی مضبوط ہوتاہےجس سے بیماریوں سےلڑنے میں مدد ملتی ہے۔ اور صحت مند غذاء کے لیےبہت ہی  ضروری تازہ سبزیاں اکثر وٹامنز، غذائی ریشوں(فائیبر)  اور معدنیات کے ممکنہ ذرائع کے طور پریا بطور سپلیمنٹس/ supplements (ملحق غذاءجیسےسالن  اور سلاد وغیرہ)کھائی جاتی ہیں اور ان کا باقاعدہ استعمال فالج، کینسر، دماغی عارضہ الزائمر (Alzheimer)  اور قلبی امراض وغیرہ کے لئے مدافعتی غذا کے طور پریا ان  کے کم خطرے  کے حامل کے طورپرہوتا  ہے ،تو وہی  یہ بھی مشاہدہ ہے کہ  آنتوں کے پرجیوی بنیادی طور پر کچی آلودہ سبزیوں کے استعمال سے پھیلتے ہیں۔چنانچہ ایسے حالات  میں ان سبزیوں سے متعلق تحقیق ہماری زندگی کا ایک لازمی عمل ہے۔چنانچہ اسی غرض کی تکمیل اور اس موضوع میں حصہ داری اور اپنی تعلیمی  ضرورت  وواجب  کو پورا کرتے ہوئے عزیزم زین الدین انصاری نے اپنا مذکورہ مقالہ پیش کیاہے ۔

جرنل آف ٹراپیکل میڈیسن  (ویلی) میں ان کی اس تحقیق کی اشاعت پرہم ان کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتےہیں اور اللہ تعالی سے دعاءکرتےہیں کہ  انہیں اپنی رحمت خاص سے نوازتے ہوئے دنیا اورآخرت میں کامیابیوں سے ہمکنارکرے ۔

                       
************


 

منگل، 19 اگست، 2025

                                                           مصنوعی ذہانت اپنےمثبت اورمنفی اثرات کے تناظرمیں  

               عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی/سعودی عربیہ

       اللہ رب العزت نے انسان کو وہ باتیں سکھائی ہے جن سے وہ نابلدتھا، اس کے لئے شریعت بنائی اسے حلال وحرام کا علم دیا ، قوت فکروعمل دیا اوراس کےلئےعقل اور فہم کے دروازےکھولے۔ یہی وجہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ    زندگی  کے تمام شعبوں میں ترقی  کے مختلف ادوار آتے رہتے ہیں ، پےدرپے جدید صنعتی انقلابات نے دنیا کو حیران کررکھاہے، خاص طورسے موجودہ دورایک ایسا دور ہے کہ ہم یہ نہیں  کہہ سکتےکہ جو آج  جس شکل میں موجود ہے کل کو وہ  بعینہ اسی صورت میں موجود رہےگا،ہر انقلاب کے بعد ہی ایک ایسا انقلاب ابھر کر سامنے آتا ہے جوپہلے سے بالکل ہٹ کرہوتاہے۔ٹیکنالوجی کی  آسیب زدہ دنیا میں ابھرتے انقلابات  میں سے ایک انقالاب مصنوعی ذہانت ہے ، جسے انگریزی میں  (Artificial Intelligence)  یا مختصرً ا AI)) کہاجاتاہے ۔

مصنوعی ذہانت کیاہے:

مصنوعی ذہانت ایک  ایسا سسٹم  ہے جو کمپیوٹر سائنس اور مشینیات کے میدان میں انسانی ذہانت کے اصولوں کے مطابق کا م کرتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی مشینوں کو انسانوں کی مانند سوچنے  ،مسائل کا حل نکالنے، پیچیدہ مسائل کو حل کرنے اور ان کی طرح فیصلہ کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے ۔ درحقیقت  مصنوعی ذہانت  کمپوٹر  سائنس کی ایک شاخ ہے  جو انسانی ذہانت کی نقل کرنے کے قابل نظام تیار کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔نیز یہ  مشینوں کو سیکھنے، شکلوں اور نمونوں کو پہچاننے، معلومات کے مطابق  کارروائی کرنے،حساب وکتاب ، اصوات ومواد کی ترسیل  وتوصیل ، تخمینی امور اور انسانوں کی طرح فیصلے کرنے جیسے کام کوانجام دینےکے مواقع  فراہم کرتاہے۔آسان زبان میں کہیں توان مشینوں میں ذخیرہ شدہ معلومات کی بنیاد پر سوچنے، سیکھنے، فیصلے کرنے اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت موجودہے۔ یہ ایک ایسی ٹکنالوجی  اور ذہین مشین  ہے جو ان کاموں میں اپنا مہارت دکھاتی ہے جنہیں  انسان کے ذریعہ عقل اور فکروسمجھ کی بنیاد پرانجام دیاجاتاہے ،چنانچہ یہ وہ آلہ ہے جو انسان کی طرح کا م کرتاہے اورانسان کی طرح برتاؤ کرتاہے ، جیسے کہ بولنا، سوچنا اور  نتائج اخذکرناوغیرہ۔اوراس ٹیکنالوجی کی سب سے اہم بات یہ ہےکہ یہ انسانی عمل اورکازکو بہت ہی آسان بناکر نہایت ہی کم وقت میں اور احسن طریقےسےپوراکردیتی ہے۔ سنہ 2014 عیسوی میں جاپان میں ٹیکنالوجی کی  ایک بڑی نمائش میں کئی طرح کے روبوٹ رکھے گئے تھے، جن میں  کھیل کود سے لےکر کئی  امورمیں انسانوں کی نقل کرنے والے روبوٹس  تھے اور خاص طورسے جس روبوٹ نے لوگوں کی خصوصی توجہ کھینچی   وہ انسان نما بولنے والی   آسونہ نام کی  روبوٹک حسینہ  تھی   جسے خاص طورسے گانا گانے کےلئےڈیزائن کیاگیا تھا اور جس نے اپنی آواز سے سب کو دیوانہ  کردیاتھا۔یہ صرف ایک مثال ہےورنہ اس طرح کی بےشمارتکنیک دن بہ دن ترقی کے منازل طے کر رہی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کےدائرۂ کار کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتےہیں کہ اگر آپ کی چھوٹی بڑی  کوئی چیز گم ہوگئی ہواور اس کا ڈھونڈھنا مشکل ہورہاہوتو گم ہونے والی جگہ کی مکمل ويڈیو بنا کر اےآئی سے اس کی جگہ کا تعین کیاجاسکتاہے۔  چیٹ جی پی ٹی کا نیا ماڈل  GPT-OSS ایک زندہ، سوچنے والے دماغ کی طرح ہے۔جسےمصنوعی ذہانت کی تحقیقی تجربہ گاہ  (OpenAI) نے حال ہی میں اوپن ویٹ(open-weight) لینگویج  ماڈل سیریزکے تحت لانچ کیاہے۔

 آپ  خواہ جس عمر یا پیشے سے متعلق ہوں اس سے کچھ بھی پوچھیں، یہ سوال کو خود سمجھ کر سوال کرنے والے کی زبان ہی میں جواب دیتا ہے،  یہ صرف معلومات نہیں دیتا، بلکہ بات چیت کرتا ہے جیسے آپ کے کمپیوٹر میں ایک ہوشیار انسان بیٹھا ہو۔،آپ کو  مشورہ دےگا،آپ کی مدد کرےگا وغیرہ ،اوریہ سب آپ ہی زبان میں ہوگا۔ اور سب سے زبردست بات یہ ہے کہ اب  یہ سب کچھ بغیر انٹرنیٹ کےبھی  ممکن ہے۔

مصنوعی ذہانت کی اہمیت:

کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے نہایت ہی اہم اور
 بے شمار فوائد ہیں ، جس کا استعمال زندگی کے متعدد شعبوں میں ہوتا ہے۔

 واضح رہے کہ مصنوی ذہانت کا دائرہ کار بہت ہی وسیع ہے، زندگی کے متعدد  شعبوں  میں اس  کا استعمال عام ہی بات ہوگئی ہے، موبائل جیسے چھوٹے آلات  سے شروع ہوکر کمپیوٹر ، ویب سائٹس اور روبوٹ  تک اس کے اثرات  نظر آتےہیں  ، جو انسان کی زندگی کے تمام گوشوں تعلیم ، تجارت ، معاشیات، صحت، وکالت، مذہبی قانون، طب، ریاضت،فوج، صنعت، اور دیگر خدمات کے شعبے سے متعلق ہیں۔غرضیکہ زندگی کے روزانہ کے چھوٹے بڑے ہر معاملات   پر اپنا تسلط جماچکاہے،بلکہ یہ کہاجائےکہ سب پرحاوی ہے توبیجا نہ ہوگا۔اوراب تو بعض حالات میں چیٹ جی پی ٹی کا نیا ماڈل   GPT_OSS انٹرنیٹ کے بغیر بھی کمپیوٹریا کسی دورسرے ڈیوائس پر چلتا ہے۔

بلا شبہ مصنوعی ذہانت اپنے بندوں پراللہ رب العزت  کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، جو انہیں وہ چیزیں سکھاتی ہے جنہیں  وہ پہلے نہیں جانتے تھے، اور جو کچھ زمین و آسمان میں ہے ان کے لیے دستیاب کراتی ہے ، تاکہ وہ انہیں   اپنے روزہ مرہ کے امور واعمال  میں استعمال کر سکیں جو ان کی  زندگی اور طریقۂ زندگی کے لئے سود مندہوں  اور انہیں اپنے رب اور خالق کے قریب  کردیں ،اللہ تعالی فرماتاہے:‏﴿وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ﴾ (اور آسمان وزمین کی ہر ہر چیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے تابع کر دیا ہے) ۔(الجاثیۃ/13)۔تابع اورمطیع کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ان کو اپنی رحمت اور فضل خاص سے انسان کی   خدمت پر مامور کردیا ہےاور ہمارے مصالح ومنافع اور معاش سب انہی سے وابستہ ہیں ۔

یہ اللہ کی عطاکردہ ذہانت اور صلاحیت ہی ہےکہ  لوگوں کے لیے مصنوعی ذہانت سے  استفادہ آسان ہو گیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کا خوب استعمال کرکے اپنی اور اپنی صلاحیتوں کی نشوونما کی ہے، اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے ، علم پھیلانے، اپنے معاشرے کے لیے مفید ذرائع تیار کرنے، اور لوگوں کو اپنے رب کے قانون سے روشناس کرانے میں  اہم کرداراداکیاہے۔ٹیکنالوجی کی دنیا میں اس انقلاب کی صرف ایک مثال ہی اس کی اہمیت اور کامیاب  کاریگری   کا اندازہ لگانے کےلئے کافی ہے ،ہوائی جہاز جیسے دیوہیکل   سواری  جو ہزاروں ٹن کا بوجھ لے کر پینتیس چالیس ہزار فٹ  کی اونچائی پر پروازکرتاہے ، اور یہ اے آئی (مصنوعی ذہانت )جیسے ٹکنالوجی کا ہی کمال ہے کہ چند منٹوں کی پروازکے بعد اس کا انجن خودکار  طریقے اپنے مرکز ومحورکا تخمینہ لگانے میں کامیاب ہوجاتاہے ، اور جب تک اس کے اندر کوئی تکنیکی ( (technical خرابی نہ آئے  بحسن وخوبی اپنی منزل کی طرف روا ں دواں رہتاہے ۔ اے آئی  سے متعلق اس طرح کی ہزاروں مثالیں ہیں ، جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ سب  اللہ تعالی کی کمال قدرت کا نتیجہ اوراس کی  عطاکردہ  ذہنیت اور صلاحیت  کا کمال  ہےکہ ہم ان سارے علوم وفنون سے حسب استطاعت و ضرورت  مستفیدہوتےرہتےہیں۔

مصنوعی ذہانت کے فوائد:

جیساکہ ذکرکیاگیاکہ مصنوعی ذہانت کو اگر مثبت ومناسب انداز میں تعمیری فکر کے ساتھ استعمال 
کیاجائے تواس کےمختلف جہات میں بےشمارفوائدہیں،جیسے: بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے 
 منصوبےکے تحت طب کے میدان میں ۔ ذاتی نوعیت کے تعلیمی منصوبے کے تحت تعلیم کے  
میدان میں۔خود کار مشینیں اور روبوٹک نظام (Robotic systems ) کے تحت  صنعت 
کےمیدان میں ۔خودکار سرمایہ کاری اور اس سے متعلق   امور کے تحت  مالیاتی خدمات کےلئے، اسی
  طرح بینکنگ ،سیفٹی ،میڈیسن اور انجینئرنگ  وغیرہ   کی فیلڈ میں ۔اگر اس کےفوائدکامکمل احصاء کیا
جائے تو بات بہت لمبی  ہوتی چلی جائےگی ،لیکن اگراس کےفوائدپرمختصرابات کی جائے اس کا حیطۂ  
عمل یا دائرۂ کارکچھ یوں ہے: 
روز مرہ کے کاموں میں  ترتیب ،تنسیق اور ان میں سہولت اوران کی اچھی طرح سے تکمیل۔ مختلف
 پروگراموں کی حسن  ترتیب جن کے اندرکم سے کم غلطیاں ہوں۔حمل ونقل  کے وسائل اور ان کی
 توفیر تسہیل  میں بہترین خدمات ۔ اپنی آواز اورجذبات کو کم وقت میں صحیح طورپر دنیاکے زیادہ تر  اور
 مختلف زبانوں میں پہنچانا۔طبی امور کی تسہیل  اور امراض وبیماریوں کی تشخیص  اور جراحی  اور آپریشن
 اور اس کی نگرانی میں آسانی ۔امن وسلامتی کے وسائل کی توفیر اور اس کی نگرانی ۔کسٹمر سروسزمیں 
بہترین خدمات ۔

زمین ،پہاڑ ،فضاؤں،سبزیوں اورديگر اشیاء خردونوش کے اندرموجودعناصرکا تجزیہ وتحلیل کرکے بہترین نتائج اخذکرنا۔موسم وماحول اورہواؤں کا تجزیہ کرکے بارش اورسردی وگرمی کا تخمینہ لگانا۔تعلیمی امور میں ترقی   اور اس حصول کےوسائل و اسباب کی توفیر اسی طرح  تعلیمی مواد تیار کرنا اور ریاضی کےمسئلے حل کرنا ۔ مالی اور تجارتی امور کی نگرانی اور ان میں وسائل اور فوائد کی  راہ متعین کرنے میں آسانی پیداکرنا ۔ درست تجزیہ کے ذریعے معیشت کو ترقی دینا۔دعوتی امور جیسے نصوص کی جمع وترتیب ، علماءکے بیانات سےاستفادہ اور  نشروتوزیع کےوسائل  کا کارگر اور مثبت استعمال۔ تحریریں لکھنا۔صحافت سے متعلق امور  جیسے جمع مواد اور ترتیب وتنسیق سے لے کر طباعت وتوزیع میں آسانیاں ۔ کسی بھی مود کا خلاصہ بنانا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں  معلومات  کا وسیع استعمال اور کامیاب  نتائج کا حصول۔ کسی کام کی پلانگ اور منصوبہ بندی اور تجویزیں پیش کرنا۔جنگی آلات  اور مدافعتی قوت کی تنسیق وترتیب اور ان کے  استعمال میں مہارت حاصل کرنا۔ سیاسی امور میں   معلومات اور روابط کا بہترین ذریعہ۔ادارتی امور منظم رکھنا اور اس کی  ترتیب وتنسیق اور اشراف ونگرانی ۔سماجی ترقی میں  بے مثال خدمات  اور گھروں اور کمیونٹیز کے لیے تکنیکی ذہانتوں (Smart technologies) کے ذریعے طرز زندگی کو پرامن، معتدل اور بہتر بنانا۔ بڑے پیمانے پر زرعی ڈیٹا کا تجزیہ کرکے اور کسانوں کو درست  معلومات اور طریقۂ کار فراہم کرکے زرعی پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے میں مکمل تعاون۔ڈیجیٹل کامرس (Digital commerce) اورای کامرس (E-commerce)کو سپورٹ کرنا، آن لائن مارکیٹنگ اورسہولت کاری کےساتھ ان کےلئےپلیٹ فارم تیارکرنااورمختلف  ثقافتوں اور   مجالات میں   کمپنیو ں اورافراد کے درمیان ترجمانی کے ذریعہ  رابطہ کا ذریعہ اوراس میں  سہولت پیدا کرنا وغیرہ ۔ابھی حال ہی میں وزارت برائے اسلامی امورسعودی عرب کے زیراشراف پنتالسویں شاہ عبدالعزیز بین الاقوامی قرآن مجیدکےمقابلہ میں تحکیم کےلئے عام تقلیدی اورورقی نظام سےہٹ کر الیکٹرانک ثالثی کی تکنیک متعارف کرائی گئی ہےجس سے درجات ونتائج کے احتساب میں  سہولت،شفافیت اور سرعت آئی ہے۔اسی طرح مشارکین اور زائرین کی رہنمائی  اور تقریبات ، مقامات اور شمولیت کے طریقۂ کار سے متعلق معلومات  فراہم کرنے کےلئے  دنیا کی مختلف زبانوں میں ساجھا  روبوٹک تکنیک (Interactive robotic technology) کی سہولت بھی  رکھی گئی ہے ۔

مصنوعی ذہانت کے منفی اثرات:

مصنوعی ذہانت کے عظیم اوربسااوقات یقینی  فوائد کے باوجودزندگی کے ہر شعبہ پراورہرمیدان میں  اس کے منفی اثرات اور بعض اوقات غیرمعمولی اوربےشمار خطرات اپنی جگہ پر موجودہیں،اس لئے کہ کوئی بھی زیرک انسان جو اس فن کا ماہر ہو اسے غلط  کمانڈ دےکر  اس سے ناجائزفائدہ اٹھا سکتاہے۔ چنانچہ ہمیں اس ترقی  کی  آڑمیں چھپی خطرناکی  کوبھی سمجھناچاہئے اور اس پر غور کرنا چاہیےکہ اگر اس کا غلط استعمال کیا جاتا ہے یا اسے قانونی کنٹرول کے بغیر  اوربےمہارچھوڑ دیا جاتا ہے توانسانیت پر اس کے کتنےمنفی اور گہرے اثرات مرتب ہوں گے؟

مصنوعی ذہانت دیگر جدید آلات کی طرح ایک دو دھاری تلوار ہے۔ اگر اسے بھلائی، تعمیرو ترقی، اور دعوت وتعلیم  کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ انسانیت لئے بہت بڑی نعمت اوراوراس پرعظیم  احسان ہوگا۔ لیکن اگر اسے برائی، تکبر اور تباہی کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ اس کے لیے لعنت، آفت اور آزمائش ہوگی۔

جب ہم مصنوعی ذہانت کے سلبی پہلو کو دیکھتےہیں تو  اس کے غلط اثرات  کے تجربات بھی ہوئے ہیں ،
بہت سارے لوگوں نے ان کا غلط استعمال کیاہے ،بلکہ خوب غلط استعمال کیاہے اور ان طریقوں سے
 کیاہے جو شدت اور اثرمیں عام  غلط رویوں سے ہٹ کر ہے ۔ اس کےاندر آواز، فوٹو اور ویڈیو  ایڈیٹنگ 
کرکے کوئی بھی بات کسی کی طرف بھی منسوب  کردی جاتی ہےجو صدفی صد اصلی معلوم پڑتی ہے 
  خاص طور سے اس  فن میں  انٹرنیٹ اور ٹکنالوجی کی دنیا کا انقلاب چیٹ بوٹ ( chatbot ) کا  
  خاص  کردارہےجو ایک سافٹ ویئر ایپلی کیشن  (Software application ) یا ویب  
 انٹرفیس (Web interface)  ہے جسےنصی ( متنی)  یا  زبانی گفتگو کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے،
جواپناعمل  گہرےمطالعہ (Deep learning ) اور قدرتی زبان کے تجزیاتی عمل
  ( Processing ) کا استعمال کرکے پوراکرتاہےحالانکہ  اس  کا بنیادی کام انسانی گفتگو کی
 نقل کرنا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے انقلاب اور اس کے بڑھتےرسوخ واثرات پر اگر غورکریں توعام انسانی اعمال پراس کے بہت ہی گہرے اور نامناسب اثرات مرتب ہوتےہیں ، اس لئے کہ جوں جوں  انسانی افکار واعمال میں اس کا اثربڑھتاجائےگا ان پر اپنا تسلط ہوتے ہوتے آدمی کو ناکارہ اور بےروزگاربناتاجائےگا ، اس لئےکہ  ایک بڑا طبقہ  جو اپنے کاروبارمیں منافع اور خوب منافع کا خواستگار ہوگا انسانوں سے زیادہ ان مشینوں اور اختراعی ذہانت پر بھروسہ کرنے لگےگا،اس لئےکہ اس میں وقت کا بچاؤبھی ہے اورزیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کا امکان بھی، جس کا واضح نتیجہ عام انسانوں کے تعطل عمل کی صورت میں پیش آئےگا ،جو بے روزگاری کو بڑھاوہ دےگا ، بلکہ  آج دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں اور کاریگر سماج میں  اس کا واضح اثر دیکھنے کو مل رہاہے۔ اسی طرح اخلاقی مسائل سے لےکر فیصلہ سازی میں برتے جانے والے تعصب  جیسے امور بھی ہمارے سامنےہیں ۔  اےآئی کی خطرناکی کا اندازہ  اس بات سے بھی  لگا سکتے  ہیں کہ اس کے ذریعہ ویڈیوزکی ایڈیٹنگ کرکے روتے کو ہنستا اور ہنستے کو روتا  ہوا بآسانی دکھایا جاسکتاہے، اسی طرح دیگر معاملات میں بھی غلط اور برعکس صورت پیش کی جاسکتی ہے ، جس سے ملک و قوم  اور سماج اورمعاشرہ  غلط فہمی کی بنیاد پر کسی بھی بڑے فتنے کا شکار ہوسکتاہے، مصنوعی ذہانت چونکہ ایک پاورفل او ر زود اثر ٹکنالوجی اورتیز انتشارکا ذریعہ ہے اس لئے اس  کے ذریعہ پھیلائے جانےوالے افواہ اور جھوٹی باتوں  کی وجہ سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔

 اس کے خطرات میں سے جرائم کے ارتکاب میں سہولت اور آ‎سانی  اور ارتکاب کےبعد سزاسے بچنے کے طریقے بھی ہیں،سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے خطرات بہت زیادہ ہیں  خاص طورسے ڈیجیٹل اچکوں (Hackers) کے ذریعہ  بینک اکاؤنٹ سے لے کر کمپنیوں تک  کے ڈیٹا تک  چراکرجعل سازی اور   فراڈ کرنا جیسے جرائم بھی آج کل عام ہیں۔ نیزاسی  ذہانت کا استعمال کرکے  عالمی او رملکی منڈی کو من مانی کنٹرول کرنا بھی  اس کے مفاسدمیں سے ایک ہے ،جس کی وجہ سے منافع بخش سرمایہ کاری     کو غلط راہ دی جاسکتی ہے ۔بعض جمہوری ممالک جہاں الکٹرانک ووٹنگ سستم رائج ہے ملک وسماج کےلئےضرررساں پارٹیاں اورفتنہ پرور،غیرمہذب اوربےلگام افراد حصول منافع اورقومی، مذہبی،علاقائی اور لسانی عصبیت کی خاطراسی طرح کی ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کرکےحکومتوں اور وزارتوں پرقابض ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت کی سب سے خطرناک بات او راس کی  خامیوں میں سے ایک یہ ہے کہ منفی اثرات اورسلبی نظریات کی ترویج میں  اس    کی نہ  کوئی اخلاقی ذمہ داری  ہوتی ہے اور نہ ہی  اس کا اپنا کوئی معیار ہے، بلکہ  اسے کنٹرول کرنے والا  جس جہت سے چاہے اس کا استعمال کرکے  اپنا الوسیدھا کرسکتاہے۔اسی طرح  اگر اس پر کوئی قانونی کنٹرول نہ ہوتومعاشرتی عدم استحکام ، سماجی تنازعہ  اور دیگر امورمیں کس کی ذمہ داری بنتی ہے  یہ مہمل ہوگا۔

اگر مصنوعی ذہانت کے  ان خطرات  اور  سلبی پہلو کی طرف  کلی توجہ نہیں دی گئی اور اس کا کوئی مثبت حل نہیں نکالاگیا تو اس کے  دام فریب اور منفی اثرات سے ایک جہاں کو  متأثرکرکےبرباد  کیاجاسکتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کےتئیں ہماری ذمہ داری:

مومن وہ ہیں جن کی آنکھیں دنیا کی زینت سے اندھی نہیں ہوتیں کیونکہ  ان ایمان کامل ہے کہ
 سب کچھ  قادرمطلق کے ہاتھ میں ہے سب  اسی کے اختیار میں ہے، وہ فرماتاہے:﴿للهِ مُلْكُ 
السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا فِيهِنَّ وَهُوَ عَلَى كُلِّ 
شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾۔( آسمانوں کی
 اور زمین کی اور جوچیزیں ان میں موجودہیں  کی سلطنت اللہ ہی کی ہے ۔اور وه ہر شے پر پوری 
قدرت رکھتا ہے)۔(المائدۃ/120اور اس لئے بھی کی اللہ کی کاریگری میں اس  کی قدرت
 کے مظاہر ہیں  اور بنو نوع انسان کو جو روئےزمین پرخلافت عطاکی ہے  اس کے اسباب اور ذرائع
  اور ان کے استعمال  کا صحیح راہ متعین کرنا ان  کےاوپرواجب ہے، جس سے قوم ومعاشرہ اور ملک
 وملت کا بھلا ہوسکے۔ 
بلاشبہ ایک سچا مؤمن ذہین اور ہوشیار ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اپنے دین اور دنیا کی بھلائی کے لئے
اس  کا مقام کہاں  ہے ، اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کے لئے  کون سے ذرائع کب اور کہاں میسر 
ہوں گے ،دین وایمان  کا دفاع کیسے کرنا ہے اور اسے پھیلانے کے لیے جدید ذرائع کا استعمال کس حد
 تک  کرسکتا ہے؟  ترقی پذیر دنیا کا کوئی بھی سائنس اور ٹیکنالوجی اس کی داعیانہ  اور مؤمنانہ کردار  کو
  کبھی ہیچ نہیں کرسکتی ، بلکہ ہر بدلتے وقت ، موسم اور  ماحول میں اسے اپنا ہتھیار بنانا اچھی طرح آتاہے 
 اسلاف کی تاریخ نے ہمیں یہی سبق دیا ہے ۔چنانچہ زیربحث موضوع میں اپنے دین وایمان  کی  
 حفاظت کےلئےاس کے اوپر مناسب  عمل اور  صحیح فکر کی  ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور اس  
 کی یہ ذمہ داری ہربدلتےوقت کے ساتھ دوچند ہوتی جاتی ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات لوگ گوگل پر نشر ہونے والے فتاوے پرکلی یقین کرنے لگےہیں
 او ران کے ذہن میں  یہ بیٹھ گیاہے کہ اب علماء  اورمفتیان کی ضرورت باقی نہیں رہی ،  اسی طرح 
 علمی موادکےلئے  طلباء اس پر کلی اعتماد کرنے لگےہیں بجائے اس کے کہ وہ مصادر اصلیہ کی طرف
 رجوع کریں اوراسلاف کےمضامین اور ان کے طرز  استدلال  اورمنہج سے استفادہ کریں ۔  یہ ایک  
ایسا طرزعمل ہے جو آدمی کو دین کی صحیح  تعلیمات اور منہج صحابہ سے دورکردیتاہے ، اس لئے کہ 
 انٹرنیٹ پر نشرکردہ ہر مضمون فی نفسہ صدفی  صد درست ہرگزنہیں ہوتا بلکہ صحیح اور غلط جو کچھ بھی 
 اس کے اندرڈال دیاگیا ہے سب  اس  کے اندر موجود ہے جو نصوص اور مسائل کی باریکیوں اور اس  
 سلسلے میں اسلاف کے منہج کو سمجھنے کے لئے ناکافی  ہے ، اس  کے لئے علماء راسخین فی العلم کی طرف 
 رجوع ضروری ہے ۔
چنانچہ  اس کی طرف سے دی گئی نعمتوں سے پہلوتہی  یا اس کے اندر غیرمناسب تصرفات سے بچنا
 ہمارے لئے ضروری ہے ۔

اس مناسبت سے اگر یہ کہاجائے کہ شریعت کی تعلیم وتعلم  اور تبلیغ واشاعت کے مجال میں مصنوعی ذہانت نے جہاں وسعت دی ہے وہی اس کےموادکےصحیح اورمعقول حصول کا دائرہ بھی محدود  اور معہود کردیاہے ۔ اس انقلابی اور اختراعی دماغ  اور سسٹم کے اندرشریعت سے متعلق  مضامین اور ڈیٹا  کی شکل میں ہر  طرح کے رطب ویابس کو فیڈ کردیاگیاہے، چنانچہ وہ  استفسار کے وقت     اسکرین پر   خاص طورسے  چیٹ جی پی ٹی (ChatGPT) کے توسط سےان ساری معلومات کو ڈسپلےکردیتاہے، جس کی وجہ سے ایک مبتدئ حیس وبیس کا شکار ہوجاتاہےکہ کن معلومات کو اخذکیاجائے ، جوحقیقتا کتاب وسنت کی تعلیمات اور منہج سلف کے موافق ہو،اورپھربسا اوقات اسلاف کے طریقے سے منحرف عقائد وافکار  اور مہمل  اورغیرمؤثق مصادرسے اپنے پیاسے فکر کو سیراب کرنے کی کوشش کرنے لگتاہے ، ٹھیک اسی طرح جیسے بعض تحریکی افکار یا خود خویش مفکرین کی  کتابوں کے مطالعہ کے وقت حاصل ہوتاہے ،جو دین  وتحریک  اور حاکمیت کے نام پر نوجوان ذہنوں  میں میٹھازہر(Sweet Poison) انڈیلنے کی کوشش کرتے ہیں،چنانچہ ایک بڑا طبقہ ان کے دام فریب  میں آکر قرآن وسنت اور منہج صحابہ کے اندر شک وارتیاب کا شکارہوجاتاہے۔

بہت سارے لوگوں نےاس مصنوعی ذہانت کاناجائز فائدہ اٹھا کر اس کے ذریعہ مسلمانوں کو غیر
مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے اور اس عظیم دین کی سچائی اور خالق دوجہاں کے بارے میں شکوک و
 شبہات کا اظہار کرکےاور قرآن وسنت کےنصوص میں بےجا تاویل اورخردبردکرکے اس کےاور
اس کے دین سے لوگوں کو بیزارکرنے کی کوشش کی ہے ۔کچھ لوگوں  نے مسلمانوں کے خلاف اسی 
کے ذریعہ تجسس کارویہ اختیار کرکے ان کے درمیان منافرت اور انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
دین اور دین کے علم بردارعلماء کی کردارکشی کی کوششیں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، وہ اچھی طرح
 جانتےہیں کہ علماء کی شان اور ان کے مقام کو کمزور کردیا جائے تو مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان کے دام
 فریب میں تو آہی جائےگا ،ساتھ  ہی ساتھ جن غیر مسلموں کی دلچسپی اسلامی امور میں ہے وہ اس سے
 دور ہوں گے۔اسی طرح مسلمان حکمرانوں کے تئیں غلط اور نامناسب نظریات پیش کرکے امت کو
 اتحاد سے روکا جاسکتاہے ۔ نیزجھوٹ ،غیبت ،چغلخوری ، تجسس ، بدظنی   اور اخلاقی اقدار کو پامال کرنا
جیسی برائیاں  اس سسٹم  کے ذریعہ بہت ہی آسان ہوگیاہے۔چنانچہ مصنوعی ذہانت کی مثبت پہلو کے
 ساتھ ساتھ منفی اور دور رس برے اثرات سے  بھی ہرصاحب عقل اور خاص طورسے مسلمانوں کے
لئے اچھی  واقفیت ضروری ہے۔ نیزایک  طالب علم  اور عام مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ کسی بھی
 میدان کی متعفن ذہانت کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت سے استفادہ کے وقت  بیدار مغزرہے اور
 کتاب وسنت کے طریقے اور اسلاف کے منہج کو پیش نظر رکھے ورنہ یہ دودھاری تلوار کبھی بھی اور 
کہیں بھی ان کے فکروفہم پر  کاری ضرب  لگا سکتی ہے،اورخاص طورسےکچےاذہان اس سے لاشعوری 
طورپرمتاثرہوکرمنہج سلف کی طرف سے شکوک وشبہات کا شکار ہوسکتےہیں ۔چنانچہ ہمیں حتی 
 الامکان اس کی خظرناکی کو  روکنے کی کوشش کرنی  چاہیے او راس  کے تئیں خود کو بیدار رکھناچاہئے ۔ 
 سچ کہیں تو بسا اوقات اس سسٹم پر  فسق کا اطلاق  صدفی صد درست معلوم ہوتاہے ،جس  کی کسی بھی
 خبر پرآنکھ موند کر بھروسہ نہیں کیاجاسکتاہے ،  بلکہ اس کے  اندرمناسب  اور جائز تفتیش ایک مؤمن 
کے شایان شان اور اس کا فریضہ  ہے ،چنانچہ اللہ تعالی فرماتاہے:(يَاأَيُّهَاالَّذِينَ
 آمَنُواإِنْجَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ 
فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ)۔( اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق 
 خبردےتو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچادو پھر
 اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ)۔(الحجرات/6)۔
  اس آيت کریمہ  کے اندراس کی شان نزول کی بحث سے قطع نظرایک نہایت ہی اہم اصول بیان فرمایا 
گیا ہے، جس کی انفرادی اوراجتماعی دونوں سطحوں پر بڑی اہمیت ہے۔ ہر فردجماعت ، معاشرہ ، طبقہ اور 
حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہےکہ اس کے پاس جو بھی خبر یا اطلاع آئے بالخصوص بدکردار، فاسق اور
 مفسد قسم کے لوگوں کی طرف سےیا پھرجن کے افکارمتعفن یا صحیح اور غلط کے درمیان مخلوط ہوں تو 
پہلے اس کی تحقیق کی جائے تاکہ غلط فہمی میں کسی بھی طرح کے اقدام سے بچا جاسکےجس کا منفی  اثریا 
برانتیجہ دین وایمان ، اخلاق وافکار اور  ملک وملت  پر پڑتاہو۔ 

چنانچہ اول تو کسی بھی مسئلہ میں اس سسٹم کے پیش کردہ مواد پر کلی بھروسہ نہ کیاجائے بلکہ اصل مراجع کی طرف رجوع کیاجائے اوراگرضرورت پڑے توعلماء حق کی طرف رجوع کیاجائے تب کہیں جاکر اس سسٹم کے خفیہ اور ظاہری نقصانات سے بچا جاسکتاہے۔ نیز  مصنوعی ذہانت کے استعمال  اور اس سے استفادہ کے وقت چند شرعی ،اخلاقی  اور قانونی  امورکی مراعات ضروری ہیں ،جیسے: اس  کا استعمال شرعی اصول وضوابط کے مطابق ہو۔ مصالح عامہ اورجائزمنافع کا حصول متحقق ہو۔ فردومعاشرہ اورملک وقوم کی سلامتی پرضرب نہ پڑے۔ استعمال کرنے والا اس کے ضررومفاسد سے محفوظ ہو ۔ اخلاقی اور فطری  اقدارکے منافی نہ ہو۔عملی اور فکری سلامتی  کی کےلئے خطرہ نہ ہو، اس سے کسی قانونی  امرکی مخالفت لازم نہ آتی ہو۔ مقاصد شریعت  پر اس کا فسادمؤثر نہ ہواور مقاصدشریعت  پانچ ہیں:دین کی حفاظت ،  نفس کی حفاظت ، عقل کی حفاظت ، نسل کی حفاظت اور مال کی حفاظت۔  

اللہ تعالی ہمارے اندر صحیح فکری صلاحیت پیداکرے اور ہمارے دین وایمان کی حفاظت فرمائے ۔
وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم۔
                             (رزنامہ "سماج نیوز" 18 / اگست 2025 )
**********