اتوار، 28 ستمبر، 2025

زاویۂ نگاہ

 

زاویۂ نگاہ

عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی /سعودی عربیہ

      لیلی العامریہ  عشق ومحبت  کے باب میں مذکورکہانیوں اورافسانوں کے مطابق عرب کی معروف ترین   خاتون گزری ہے،  اگر ادب ورومانس سے متعلق کہانیوں کو  صحیح مانیں تو قیس بن معاذ یا  قیس بن الملوح جوادب ورومانس کی دنیا میں   لیلی کا مجنون   کےنام سے معروف ہے  کی محبوبہ رہی ہے۔

لیلی  کو بھی عربی شعرادب میں خوب دسترس حاصل تھا  اوروہ  جاہلیت واسلام سے متعلق  تاریخ عرب کی بھی ماہر تھی۔ کہا جاتاہےکہ لیلی معمولی قدکاٹھی   کی تھی اور شکل وصورت  اتنی  زیادہ  قابل اعتناء نہیں تھی ،  دبلی پتلی  اور سانولی سی لڑکی تھی ۔

زاویۂ فکر کے تعلق سے مشہور ہےکہ ایک عرب امیر نے لیلیٰ اور اس کے مجنون  کی محبت کے بارے میں سنا توان کواپنے سامنے حاضرکرنے کا حکم دیا ۔چنانچہ جب لیلیٰ اس کے سامنے کھڑی ہوئی تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک دبلی پتلی اور سانولی سی لڑکی ہے، اس نے اسے غیر اہم اورحقیر  ومعمولی سمجھا،مجنوں امیر  کے دل کا حال سمجھ گیااور اس کی طرف دیکھ کرکہا:عالیجاہ! اگرآپ مجنون کی غم زدہ آنکھوں کی توانائیوں سے لیلیٰ کو دیکھں گےتوآپ پر  اس کی محبت     کی وجہ سے اس کے دیدار کاراز کھل جائے گا۔امیر کو مجنوں کا یہ جواب بہت پسندآیا اور وہ خوش ہوگیا۔(نوادرالعشاق /ص 157)۔

اسی طرح لیلی  کا ایک شعر بھی اسی زاویۂ کی بہترین ترجمان ہے کہتی ہے:

كِلَانَا مظهر للنّاس بغضاً   

وكلّ عِنْد صَاحبه مكين

تبلّغنا الْعُيُون بِمَا رَأينَا   

وَفِي القلبين ثمَّ هوى دَفِين

(ہم دونوں  لوگوں کی نفرت کے مظہرہیں ، جبکہ ہم میں کا ہرایک دوسرےکےنزدیک قابل قدرہے،ہم جو دیکھتےہیں نگاہیں اسی کو ہم تک پہونچاتی ہیں،  ہم تو ایک دوسرے کے دلوں میں ہیں جہاں جذبات ومحبت مدفون ہیں)۔(خزانۃ الأدب للبغدادی:4/230)

ہوا یوں کہ قیس نہایت ہی خوبرو جوان   اور خوش اسلوب تھا،اچھی باتیں کرتا  اور شعرگوئی کرتا ، اور جب بھی کسی مجلس میں  یا کسی کے ساتھ ہوتاتو ان  میں لیلی  کی باتیں کرتا رہتا   ،ور اس سے  اپنی دل لگی اور الفت وچاہت   کو بیان کرتا،پھر ایک وقت آیا جب  لیلی اس سے بےاعتنائی برتنے لگی اس پر اسے بڑی تکلیف ہوئی اور لوگوں میں اس کا چرچہ  ہونےلگا ، جب  یہ بات لیلی کو معلوم ہوئی تو اس  نے مذکورہ جذبے کا اظہار اپنے شعرکیا۔

میں  نے مذکورہ باتیں  بطور مثال ذکرکی ہے یہ بتانے کےلئے کہ  تعلق کا جذبہ جو انسان کے اندر ہوتاہے قوم وملت اور رنگ ونسل سے پرے ایک اندرونی  جذبہ ہوتاہے جو بسا اوقات سامنے والے کی سوچ سے  بالا تر ہوتاہے، اس لئے ہم کسی کے تعلق ولگاوٹ کو اپنی نگا ہ سے نہیں دیکھ سکتے کیونکہ اگر دیکھنے کی کوشش کریں گے تو اس کے اندر خطا  اورغلطی کا امکان بھی ہوسکتاہے ،بلکہ بسا اوقات  شروفساد اور فتنہ کا دروازہ بھی کھل سکتاہے، اس لئےکہ جب ہم کسی  کے فعل اورحرکات  کو اپنی نگاہ سے دیکھیں گےتو اپنے اعتبار وخیال سے کوئی رائے قائم کرکے اس پرکوئی حکم لگانے کی کوشش کریں گے جبکہ حقیقتا سامنے والا اس کے برعکس سوچ اور سمجھ رہاہوگا۔

تعلق اور لگاوٹ سے متعلق انسان کے لئے  ایک حد   برقراررکھنا  بھی ازحدضروری ہے ،چنانچہ آپ کی محبت ولگاوٹ کا جذبہ خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو  اس کے اندر اعتدال ضروری ہے ورنہ  اس کے اندر بے اعتدالی  بسا اوقات انسان کے لئے باعث عار وشرمندگی بھی بن جاتی ہے ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی ایک موقوف روایت ہے وہ فرماتےہیں:"أحبِبْ حبيبَك هَونًاماعسى أن يكونَ بغيضَك يومًاما،وأبغِضْ بغيضَك هَونًاما؛عسى أن يكونَ حبيبَك يومًاما"۔"اپنے دوست سے اعتدال اور توسط کے ساتھ دوستی رکھو شاید وہ کسی دن تمہارا دشمن ہو جائے اور اپنے دشمن سے اعتدال اور توسط کے ساتھ دشمنی کرو شاید وہ کسی دن تمہارا دوست بن جائے"۔ ( الأدب المفرد للامام البخاری/1321 علامہ البانی نے اسے حسن لغیرہ کہاہے)۔چنانچہ اس تعلق کے اندرگہرائی محبوب تو ہے لیکن غلومبغوض ہے ،خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی محبت کے جذبات کے تعلق سے امت کو سخت تنبیہ کیاہے ،چنانچہ آپ کا ارشاد ہے:"لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَاأَنَاعَبْدُهُ،فَقُولُوا:عَبْدُاللَّهِ وَرَسُولُهُ"۔"مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے (میرے متعلق)  یہی کہا کرو کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں"۔(صحيح بخاری/3445)۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اسی جذبہ کے اندر غلو کی وجہ سے گزشتہ امتیں ہلاک ہوئیں، جس کا بیان قرآن وسنت کے اندر بے شمار نصوص میں موجودہے،چنانچہ غیراللہ سے اپنی اسی محبت کی وجہ سے وہ شرک جیسے ناقابل معافی جرم کے شکار ہوئے ،اللہ تعالی فرماتاہے:﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ)۔(بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اوروں کو اللہ کے شریک ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیئے)۔(البقرة/165)۔

نفرت کےبرعکس محبت انسان کو بہت جلد اپنے دام میں گرفتارکرکے اپنا تابع کرلیتی ہے جس کی وجہ سے اس رویہ جاجزانہ اور تابعدارانہ ہوجاتاہے، ایک شاعر کہاہے:

       والحب شعر النفس إن هتفت به      

سكت الوجود ولأطرق استعظاما

(محبت نفس  کا شعر ہے اگر وہ اسے آواز لگاتی ہے تو وجودساکت ہوجاتاہے، اوراس کی عظمت اور اہمیت کےسامنے اپنا سرجھکا لیتاہے)۔

یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اگریہ لگاوٹ اور الفت اللہ کے ساتھ ہے تو توحید  اور عبادت ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے تومحبت کے ساتھ ایمان ہے ، اورمخلوق کے ساتھ ہے تو حقیقی اسلام ہے۔ البتہ مخلوق کے ساتھ  اس کی حیثیت  ان کی قربت وتعلق کے مدارج اورحالات کے اتارچڑھاؤ کے ساتھ بدلتی رہتی ہے،جیسے ماں باپ ، بھائی بہن ، بیوی بچےاورعام مسلمان اور غیرمسلمان  وغیرہ ۔ اور یہ بھی واضح ہوکہ ان سے تعلق ومحبت  شرعی دائرے میں ہونے کے ساتھ ساتھ   اللہ کے لئے  ہو  ،یہی ایمان کا تقاضہ اور اس باب میں اسلام کا مطلوب اور حصول عز وشرف کا سبب  ہے ، اورجب کسی انسان کے اندر یہ خوبی آجائے تو وہ ایمان کی مٹھاس اور لذت محسوس کرنے لگتاہے، انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتےہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا ۔۔۔"۔ ان تین چیزوں میں سے ایک ہے :"أن يحب المرءلايحبه إلالله"۔" کسی سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے"۔(صحیح بخاری/16 ، صحیح مسلم/43)۔

بلکہ ایک روایت میں اسے تکمیل ایمان سے تعبیر کرتےہوئے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس نے اللہ ہی کی  رضا کے لیے محبت کی، اللہ ہی کی رضا کے لیے دشمنی کی، اللہ ہی کی  رضا کے لیے دیا، اللہ ہی کی  رضا کے لیے منع کر دیا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا"۔(سنن ابی داود/4681 ،علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔ یہی نہیں بلکہ جن   کے اندر یہ  خصلت اور جذبہ پیدا ہوجائے اوراللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت رکھیں ، اسی پر جمع ہوں اور اسی پر جدا ہوں تو وہ ان سات خوش نصیبوں میں شامل ہوجاتےہیں جنہیں بروز قیامت  اللہ تعالیٰ اپنے (عرش کے) سایہ میں رکھے گا، جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا"۔(دیکھئے: صحیح بخاری/1423، صحیح مسلم/1031)۔

بلاشبہ دلوں کا مالک اللہ رب العزت ہے وہی اس کا پھیرنے والاہےاس کے اندر الفت ومحبت بھی  وہی ودیعت کرتاہے ،ایک مقام پر فرماتاہے: ( وَإِنْ يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ * وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ )۔(اگر وه ( دشمن عہدکرکے) تجھ سے دغا بازی کرنا چاہیں گے تو اللہ تجھے کافی ہے، اسی نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعہ  تیری تائید کی ہے۔ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے۔ زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے وه غالب حکمتوں والا ہے)۔(الانفال/62-63)۔ یہی وجہ ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اکثریہ دعاء کرتے رہتےتھے:" يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ"۔"اے دلوں کے الٹنے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ" ۔(سنن الترمذی/2140،3522 ،علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔

چنانچہ پختہ اورمضبوط علم والوں کی اہم دعاؤں میں سے ایک یہ  دعاء بھی ہے جس کی تعلیم اللہ تعالی نے دی ہےکہ:( رَبَّنَا لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَاِذْهَدَیْتَنَا)۔(اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل(جہالت ونادانی یا کفروعناد اور معصیت وخرافات کی وجہ سےان لوگوں کے دلوں کی طرح جوراہ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں) ٹیڑھے نہ کردینا)۔(آل عمران/8)۔

چنانچہ مثبت اور مناسب سوچ  کے ساتھ اور شریعت کے احکام کےدائرے میں دل کے معاملات  انجام دینا ایک اچھے   انسان کی پہچان  اور دنیا وآخرت کی فلاح وکامیابی کےلئے ضروری ہے او رخاص طور سے ایک مؤمن کے لئے اس کےتئیں بیداری واجب ہےکہ کہیں  غلواور افراط وتفریط میں پھنس  کر گذشتہ  ہلاک شدہ امتوں کی طرح  راہ حق سے بھٹک کر خائب وخاسر نہ ہوجائے۔ اللہ رب العزت ہمیں اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ وصلی اللہ علی خیر خلقہ وسلم۔

********