بدھ، 1 اکتوبر، 2014

عرفہ کے دن کا روزہ یا نوذی الحجہ کا ؟

الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده,وبعد:
عرفہ کے دن کے روزے کی احادیث میں بہت بڑی فضیلت وارد ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن کی اہمیت کئی اعتبارسے شریعت میں مسلم ہے ، مثلا :
1 -  عرفہ کا دن اہل موقف کے لئے عید کا دن ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (يوم عرفة ويوم النحر وأيام منى عيدنا أهل الإسلام ) رواه أبو داود وصححه الألباني .
یعنی :( عرفہ ، نحر(قربانی ) اور منی کے ایام ہم اہل اسلام کے لئے عیدکے دن ہیں )
2 – اس روز دعاء کا خاص مقام ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :(خير الدعاء دعاء يوم عرفة ) صححه الألباني في كتابه السلسة الصحيحة. قال ابن عبد البر – رحمه الله - : وفي ذلك دليل على فضل يوم عرفة على غيره.
یعنی : (سب سے بہترین دعاء عرفہ کے دن کی دعاء ہے)
3 – عرفہ کے دن اللہ تعالی کثرت سے لوگوں کو جہنم سے رہا کرتاہے  اللہ کے رسول صلى الله عليہ وسلم کا ارشادہے : ( ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبدا من النار من يوم عرفة) رواه مسلم في الصحيح.
یعنی : ( عرفہ کے دن سے زیادہ اللہ تعالی کسی دن بندوں کو آزاد نہیں کرتا)
4 – اللہ تعالی عرفہ میں وقوف کرنے والوں پر اہل آسمان کے درمیان فخرکرتاہے  ، اللہ کے رسول صلى الله عليہ وسلم کا ارشادہے :( إن الله يباهي بأهل عرفات أهل السماء) رواه أحمد وصحح إسناده الألباني .
اس کے علاوہ بھی اور بہت ساری خصوصیات ہیں جو اس دن کو دیگر ایام سے ممتازکرتی ہیں ۔
عصر حاضرمیں  اختلاف مطالع اور اس سے پیدہ شدہ بعض مسائل  کی بنیاد پر عرفہ کے دن کےروزہ کی تاریخ کی تعیین میں  کچھ علماء  بعض شبہات کے شکا رہیں اور عرفہ کے دن کے روزہ  کی تاریخ  کی تعیین میں نو ذی الحجہ کے قا‏ئل وفاعل ہیں     ، اس سلسلے میں بنیادی چیزجو قابل غورہے وہ  یہ ہے کہ  عرفہ کے دن کے روزے کا سبب کیا ہے ؟ اوراس کا تعلق دن  اور تاریخ سے ہے یا حاجیوں کے کسی مخصوص دن میں شریعت  کے ذریعہ   مخصوص عمل (یعنی عرفات میں وقوف ) سے  ؟ جب اس چیز کی تعیین ہوجائےگی تو مسئلہ  میں کسی التباس کی کوئی  وجہ باقی نہیں رہ جائے گی ۔آیئے اس سلسلے میں چند نکتوں پہ غور کرتے ہیں :
1 – کسی بھی مسئلہ کی وضاحت اوراس سے متعلق امورمیں حکم کا بہت بڑا دخل ہوتاہے  ، تاکہ مکلف پر اس پر عمل کی حیثیت واضح اور مدون ہوسکے ۔عرفہ کے دن کا روز ہ حکم کے اعتبار سے ( اپنی بے انتہا فضیلت کے باوجود)مستحب  یا سنت مؤکدہ کے  زمرے میں آتاہے  ،اس لئے ترک وعمل اورتعیین وتحدید میں  اس کا اعتباربھی اسی   حیثیت سے ہوگا ،   نہ کہ  بالکلیہ دوسرے سببی اور غیر سببی روزوں کے اعتبارسے ۔
2-  بلا شبہ رمضان اورغیررمضان کے روزوں میں رؤیت ہلال کا بہت بڑا دخل ہے جبکہ عرفہ کے دن کا روزہ   رؤیت کے تخمینہ کے ساتھ ساتھ عرفہ میں حاجیوں کے وقوف سے متعلق ہے ۔ اسی وجہ سےہم دیکھتے ہیں کہ اس روزہ کی فضیلت  جن روایتوں میں بیان کی گئی ہے ان میں زیادہ ترمیں   "یوم عرفہ " کا ذکرہے نہ کہ تاریخ ذی الحجہ کا یہ الگ بات ہے کہ یوم عرفہ نو ذی الحجہ ہی کو پڑتاہے ۔
 یہاں یہ بات قابل غورہے کہ اگرکسی  اجتہادی غلطی کی وجہ سے حجاج آٹھ یا دس ذ ی الحجہ میں وقوف کرتے ہیں تو اسی دن کو یوم عرفہ شمارکیا جائے گاجیسا کہ فقہاء نے اپنی کتابوں میں  اس کی صراحت کی ہے  ۔ (دیکھئے :  حاشية ابن القيم على سنن أبي داود6/317, المحلى  لابن حزم : 5/203-204 ،  المغني لابن قدامة 3/456 ,  المهذب مع شرحه المجموع 8/292 , المجموع  للإمام النووي 8/292  , مجموع فتاوى الإمام ابن تيمية  25/107 ,  بدائع الصنائع 2/304  , شرح الخرشي على مختصر خليل 2/321 )
چنانچہ " صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ -والی روایت کو مطلقا یوم عرفہ کے روزہ کے لئے تاریخ کی  تحدید کے طورپرپیش کرنا محل نظرہے ، کیونکہ اس روزے کا تعلق یوم عرفہ (حاجیوں کے مقام عرفات میں قیام ) سے ہے ۔
3- جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ عرفہ کے دن کا روزہ کوئی واجبی روزہ نہیں ہے کہ اس کا توڑنے والا گنہگار ہوگا البتہ اس کے لئے  خیرکثیر سے محرومی کا باعث ضرورہے ۔
4 –  (ساری عبادتوں  میں تاریخ  ، دن اوراوقات  کی تعیین میں اختلاف مطالع کا واقعی معتبر ہونے کے باوجود) جب اس  بات کی تعیین ہوجاتی ہے کہ اس روزہ کا تعلق عرفہ کے دن سے ہے تو  اس میں اختلاف مطالع کا کوئی  اعتبار نہیں رہ جاتاہے ، دنیا میں تاریخ  کوئی بھی  ہوعرفہ کا دن وہی ہوگا جس روز حاجی مقام عرفات میں قیام فرمائیں گے۔
یہاں پر یہ اشکا ل پیش کرنا کہ  : (بعض ممالک مثلاً : لیبیا ، تیونس اور مراکش ۔۔۔ ایسے ہیں جہاں چاند مکہ مکرمہ سے بھی پہلے نظر آتا ہے۔ یعنی ان ممالک میں جب 10۔ذی الحج کا دن آتا ہے تو مکہ مکرمہ میں یومِ عرفہ کا دن ہوتا ہے۔ اگر ان ممالک کے لوگ حجاج کرام کے وقوفِ عرفات والے دن روزہ رکھیں تو یہ گویا ، ان کے ہاں عید کے دن کا روزہ ہوا اور یہ تو سب کو پتا ہے کہ عید کے دن روزہ ممنوع ہے۔ )
تو یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ  عرفہ کے دن کا روزہ ( جیساکہ پہلے بیان کیاجاچکا ہے) کو ‏ئی واجبی روزہ نہیں ہے جس کا نہ رکھنے والا گنہگار ہوگا ۔ خاص طورسے جب اسے چھوڑنے کے لئے کوئی مناسب اورمضبوط سبب موجود ہو ، اس لئے جن ممالک میں قربانی کا دن حاجیوں کے عرفات میں وقوف کے  دن      پڑ جائے توان کے یہاں قربانی کے دن کو ترجیح حاصل ہوگی اور عرفہ کا روزہ ان سے ساقط ہوجائے گا ۔
 شریعت میں اس  نوع کے  بہت سارے اعمال   ہیں جو کسی سبب مناسب کی بناء پر ساقط ہوجاتے ہیں ، مثلا :
- جمعہ کے روزے کی ممانعت عرفہ کے روزے کی عزیمت کی وجہ سے ساقط ہے ۔
- عرفہ کے دن وقوف عرفات کی وجہ سے حاجیوں سے اس روز روزہ ساقط ہے۔
- مقیم امام کی اقتداءمیں نماز پڑھنے کی وجہ مسافرکے لئے قصر ساقط ہے ۔
- فجر اور ظہر وغیرہ کی سنتوں  یا جماعت کھڑی ہونے کی وجہ سے تحیۃ المسجد ساقط ہے کیونکہ یہ سنتیں تحیۃ المسجدکے لئے کفایت کرتی ہیں ۔
- اسی طرح سببی نمازوں  جیسے فرض نمازوں کی قضاء ، طواف کی دورکعتیں ، تحیۃ المسجد اورسورج گرہن  کی نماز وغیرہ  کی وجہ سے ممنوعہ اوقات میں نماز کی  ممانعت ساقط ہے ۔
ان کے علاوہ بھی اور بہت سارے مسائل ہیں جو اس  نقطے کی وضاحت کے لئے کافی ہیں ۔
اس لئے جن ممالک میں یوم النحر عرفہ کے دن پڑجائے وہاں کے رہنے والوں سے عرفہ کے دن کا روزہ ساقط مانا جائے یہ احوط ہے اس بات سے کہ  شریعت کے متعین کردہ دن  کو ہی بدل دیا جائے ۔
5 - (واضح رہے کہ   مختلف ممالک میں  اختلاف مطالع کی وجہ سے نو ذی الحجہ الگ الگ ہوتاہے  ، اوران الگ الگ ایام کو عرفہ کا نام دینا  مناسب نہیں ہے ، جن میں حاجیوں کا عرفات میں  قیام ہی نہیں ہوا ، بلکہ  دیگر ایام کو وہ نام دینا جو شریعت نے کسی خاص دن کو دے رکھاہے  شریعت پہ زیادتی  کے قبیل سے ہے ۔
اگر اس چیزکی اجازت دے دی جائےکہ نو ذی الحجہ کو یوم عرفہ کہاجائے خواہ وہ دنیا کے کسی اور خطے میں کسی دوسرے دن ہی کیوں نہ پڑے  تو پوری دنیامیں ایک سے زیادہ  عرفہ کے ایام ہوجائیں گے اور نام " یوم عرفہ " کے بجائے " ایام عرفہ " رکھنا ہوگا۔)

                                                         ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭