بدھ، 20 دسمبر، 2023

ختنہ کا اسلامی تصوراور جسِم انسانی پر اس کے اثرات

ختنہ کا اسلامی تصوراور جسم انسانی  پر اس کے اثرات

      ڈاکٹراجئےکمار (بہارکے) معروف یورولوجسٹ Urologist (ماہرامراض تناسل بولی) ہیں جو یورولوجی سوسائٹی آف انڈیا اور انڈین میڈیکل  ایسوسیشن کےصدربھی رہ چکے ہیں ، انہوں نے اپنے  ایک انٹرویوں میں  مردوں  کے  ختنہ   circumcision  اور  اس سے ہونے والے فوائد اور موجودہ دور میں اس کی  ضرورت واہمیت  سے متعلق    مختصر لیکن جامع بات کی ہے ۔

مذکورہ انٹرویومیں ڈاکٹر موصوف نے  ختنہ کے جن فائدوں کا خصوصی طورپر  ذکرکیاہے وہ طب سے متعلق ہیں  ،انہوں نےاپنے تجربات کی بنیاد پر  واضح طورپرکہا کہ بسااوقات آدمی کے لئے کچھ ایسے طبی  حالات پیداہوجاتےہیں جن میں ختنہ ناگزیرہوجاتاہے۔ ڈاکٹرموصوف نے اس ضمن میں جن باتوں کی طرف رہنمائی کی  ان کا خلاصہ  کچھ یو  ں ہے :

بہت سارے بچوں میں ختنہ نہ کرنے کی وجہ سے  phimosis جسے عربی میں شَبَم   (یعنی چمڑی کا تنگ ہونا) کہتےہیں کی بیماری پائی گئی ہے،
جس کی وجہ سے کبھی کبھی  چمڑہ کے اندر گھاؤ یا پھر اس کے بندہوجانے یا بسا اوقات  پیشاب کرتے وقت  پیشاب کے قطرات کے اندر 
رہ جانے کی شکایت پائی جاتی ہے جو کسی  بڑی بیماری کا سبب بھی بن سکتےہیں ۔ اسی طرح بالغان کے  عضوتناسل کے چمڑے کےپھولنے اور پیشاب کا
 صحیح طریقہ  سے خارج نہ ہونے کی  پریشانی بھی درپیش ہوتی  ہے ۔خاص طور سے ان لوگوں کے اندر  جو ذیابیطس (شوگر)کی بیماری سے متاثر ہوتےہیں ،
 انفیکشن ،سوجن یا  سرخی  کی شکایت ہوجاتی ہے اور اس کے اندر سے چکنی رطوبت کا  اخراج بھی ہوتاہے جسے میڈیکل اصطلاح میں Esmegma کہا
جاتاہے، اگر ایسے لوگوں کو عضو تناسل میں ایک بار انفیکشن ہوگیا تو پھر وہ ختم نہیں ہوتاکیونکہ  ختنہ نہ کرانے کی صورت
 میں عضوتناسل کا اوپری حصہ  ہمیشہ ڈھکا رہتاہے جس سے  اس کے اندر ہوا کا گزرنہیں ہوپاتا، ایسی صورت میں  ایسے 
لوگوں کےلئے اطباء کی تخصیص کے مطابق ختنہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔
ڈاکٹر موصوف نےاپنی گفتگوکے درمیان جو  سب سے اہم بات بتائی وہ ہے ختنہ نہ کرانے کی صورت میں اگر عضوتناسل میں   Esmegma  اپنی جگہ بنالیتاہے
 تو دھیرے دھیرے  Penile cancer (عضوتناسل کا کینسر) کا سبب بن جاتاہے۔
ڈاکٹر موصوف نے یہ بھی بتایا کہ مسلم اور یہود قوم  میں  Penile cancer   کی شکایت نہیں ہوتی ،  جس کی وجہ یہ ہے  کہ ان دو مذاہب کے افراد  ختنہ کا اہتمام 
کرتے ہیں ، جبکہ  یہ معاملات    عام طور پر ہندؤوں کے اندر ملحوظ کئےگئے ہیں ، کیونکہ ان کے درمیان   کسی وجہ سے ختنہ سے دوری بنائی جاتی ہے ۔ ڈاکٹر کمار نے اس
 بات پر زور دیاکہ ختنہ کےلئے مذہب کو بیچ میں لانے سے پرہیزکرناچاہئے کیونکہ  ختنہ ایک   scientific (علمی وتجرباتی ) عمل ہے جس کا فائدہ واضح ہے ۔
حالانکہ ڈاکٹر صاحب نے لوگوں کو  مذہبی شعار  کی  بجائے  scientific  بنیادوں پر   ختنہ کرانے کا مشورہ دیا لیکن یہاں ایک بات واضح ہوکر آتی ہے کہ ختنہ کا  حکم  
اللہ تبارک وتعالی کا ایسا حکم ہے جو ہر فرد کے لئے دور رس اور  خصوصی فوائد کا حامل  ہے ۔

جیساکہ ڈاکٹرموصوف نے کہا بلا شبہ ختنہ     کا تصور اور اس پر عمل مذہب اسلام کے ساتھ بعض دیگر  قدیم مذاہب خصوصا یہودیت  میں  بھی پایاجاتاہے ، اور

 حالات  وتحقیقات نے انسان کے سامنے اس کے فوائد اور ضرورت کو  واضح کردیاہے ۔

      یہ   جان لینا چاہئے کہ ختنہ  کے طبی فوائد کے ساتھ ساتھ  اسلام اور یہودیت ہردومذاہب میں  اس کی شرعی حیثیت  بھی ہے ۔ اس کے علاوہ مسیحیت اور قدیم تمدن میں بھی اس کی حیثیت مسلم رہی ہے ۔یہودیت میں ولادت سے لے کرزیادہ سے زیادہ  سات دنوں  کے اندر ختنہ کردیاجاتاہے۔مسیحیت کے  عہدجدید میں  حالانکہ ختنہ کا مذہبی   تصور وتعامل  کے اعتبار سےکوئی شرعی   لزوم   نہیں رہا ہے  اس لئے کسی بھی گرجا یا مذہبی رہنما کی طرف سے  اپنے ماننے والوں کو اس کا پابندنہیں کیاجاتااور نہ ہی کرنے والوں کومنع کیاجاتاہے جو کسی  وجہ سے کرتےہیں ۔ حالانکہ عہد قدیم میں ان کے یہاں بعض کنیسہ  کی طرف سے مردوں کے لئے ختنہ ضروری قراددیاجاتا تھا ،بلکہ مسیحی لاہوت  کے نزدیک  کسی دور میں  ختنہ کا ایک ثقافتی پروگرام ہوا کرتاتھا۔ یہی وجہ ہےکہ آج کل مسیحی اکثریتی ممالک مثلا امریکہ ،فلپین، افریقہ ، شمالی امریکہ ، ایشیا اور مشرق وسطی  وغیرہ  میں مردوں کا ختنہ بڑے پیمانے پر رائج ہے، جبکہ مسیحی اکثریت والے یورپ ، لاتینی امریکہ اور  کیریبین (Caribbean  )  خطوں  کے مسیحیوں کے اندر اس کا رواج  بہت کم پایاجاتاہے،  البتہ ان کے یہاں ختنہ بطورنظافت کے ہے نہ کے بطور تطہیر۔(یہ معلومات  آزادویکیپیڈیا سے ماخوذہیں)۔

موضوع کی مناسبت سے ذیل کی سطور میں ہم مناسب سمجھتے ہیں  کہ   ختنہ کے اسلامی نظریہ اور اس کے احکام وفوائد سے متعلق 
مختصرگفتگوکی جائے ،کیونکہ برصغیرمیں  اسلامی تہذیب وثقافت  اور اس کے  احکام ونظام پر جو اعتراضات کئے
 جاتے ہیں  ان میں سے ایک مسلمانوں کا ختنہ
 کرانا  بھی ہے ، یہاں تک کہ بعض نفرت  پرست اور عداوت پسند افراد
کا ذہن اس معاملے میں اتنا مسموم ہوچکاہے کہ مسلمانوں کو اسی واسطے سے کٹوا جیسے الفاظ سے گالی دیتےہیں یہی نہیں
 ہندستان کے ایوان بالا تک میں اس لفظ کے ذریعہ  ذہنی دیوالیہ پن کاثبوت دیاگیا، چنانچہ ہر مسلمان کو  اس فطرتی شعار اور
 اس کے فوائد سے واقفیت ضروری ہے ۔
ختنہ کا اسلامی نظام واحکام :
اسلامی شریعت کے اندر ختنہ کو ایک فطرتی عمل قراردیاگیاہے ،  جسے سنن الفطرۃ  کا نام دیا جاتاہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ 
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" الفطرة خمس: الختان، والاستحداد، ونتف الإبط، وقص الشارب، 
وتقليم الأظفار"۔ "پانچ چیزیں فطرت سے ہیں، ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال بنانا، بغل کے بال صاف کرنا، مونچھ چھوٹی کرانا اور ناخن کاٹنا"۔ 
(صحیح البخاری/5889 ،  6297 وصحیح مسلم/257)۔ 
یہاں فطرت کا معنی ذکر کردینا مناسب ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ   شریعت میں ختنہ کے فطرتی ہونے کا کیامطلب ہے ؟ 
فطرت کا معنی خلقت جبلت اور ساخت ہے  ، نیز فطرت کا معنیٰ:طبعی حالت، دین، سنت، طریقہ، پیدائش اور وہ صفات  جس پر ہر موجود اپنی خلقت کے 
وقت ہوکا بھی ہے ۔ اسی طرح  امام ابن القیم ، امام ابن کثیر  اور امام شوکانی  وغیرہ نے فطرت کا معنی دین اسلام سے لیاہے، اوراکثر شارحین حدیث کے
 نزدنیک  مذکورہ حدیث  اور اس جیسی دیگر احادیث میں وارد فطرت سے مراد سنت ہے، جیسا کہ امام نووی نےصحیح مسلم کی شرح میں بیان کیاہے۔
  اسی طرح امام بیضاوی  نے بیان کیاہے کہ اس فطرت سے مراد سنت انبیاء سے جن کا کرنا تمام سابقہ شریعتوں میں  مشروع رہاہے ۔
(مزیدتفصیلات تفسیر  کی کتابوں میں شرح وبسط کےساتھ مذکورہیں ۔)
ختنہ کیاہے: 
ختنہ کہتےہیں: مرد کے آلہ تناسل کےگول دائری حصےکے اوپرکےزائدچمڑے کو کاٹنا۔ اورعورتوں کی اندام نہانی (vagina)  میں ایک مخصوص اوراہم جنسی  عضو 
(clitoris)کےظاہری حصےکو کاٹنا۔ مرد کے ختنے کو عربی میں إعذار  اور عورت کے ختنے کو خفض   کہاجاتاہے۔ 
عرب میں عام طورپر  ختنہ  کرانے کو "تطہیر " اور برصغیرمیں "سنت کرانا " بولاجاتاہے۔

بعض وحشی ممالک میں ختنہ کے نام پر  عضوتناسل کے  تمام چمڑوں کو چھیل دیاجاتاہے جو کہ سراسر خلاف سنت اور مختون کو تکلیف میں مبتلا کرنا ہے جبکہ شرعی

ختنہ صرف عضوتناسل کے اوپری حصے کے گول دائرے کے گرد  زائد چمڑے کوکاٹناہے ۔

ختنہ کب سے ہے:
روایتوں میں آتاہے کہ  ابراہیم علیہ السلام نے  کافی عمر گزرجانے کے بعد اسی (80) سال کی عمرمیں اپنا ختنہ کیاتھا،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"  اخْتَتَنَ إِبْرَاهِيمُ بَعْدَ ثَمَانِينَ سَنَةً، وَاخْتَتَنَ بِالْقَدُومِ"ابراہیم علیہ السلام نے اسی سال 
کی عمر میں ختنہ کرایا اور آپ نےبَسُولا  یا کلہاڑی سے ختنہ کیا"۔(صحیح البخاري /6298 وصحیح مسلم/2370)۔ 

قدوم کے کئی معانی بیان کئے گئےہیں,ایک قول کےمطابق  قدوم  شام یا سراۃ میں ایک جگہ کا نام ہےلیکن راجح قول کے مطابق بڑھئی کے لکڑی  کاٹنے کے آلہ کو  قدوم کہتےہیں ، جسے حافظ ابن حجرنے ابویعلی وغیرہ کی روایت سے استدلال کرتےہوئے راجح قراردیاہے، جس کے الفاظ ہیں :" أمِرَ إبراهيمُ فاختتنَ بقَدُوم فاشتدَّ عليه؛ فأوحى الله تعالى إليه: عجلتَ قبل أن نأمرَك بآلته قال: ياربّ كرهتُ أن أؤخّرأمرَكَ"۔ "ابراہیم علیہ السلام کو  ختنہ کا حکم دیاگيا تو انہوں نے بسولا سے اپنا ختنہ کرلیا،جس سے ان کو کافی تکلیف پہنچی  تو اللہ تعالی نے وحی کی کہ تم نے جلدبازی سےکام لیاہے  قبل اس کے کہ میں تجھے کسی ہتھیار کے بارے میں بتاؤں(   تم نے اپنا ختنہ کرلیا)۔ تو انہوں نے کہا کہ : اے  رب  ! تیرے حکم کو  مؤخر کرنا مجھے پسند نہیں تھا"۔ (دیکھئے:فتح الباری:6/390)۔

بعض مقطوع روایتوں میں آتاہے کہ ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے فردہیں جنہوں نے اپنا ختنہ کیا ، اسی طرح   ابن ابی الدنیا  ،ابن ابی عاصم اور  اورابن عساکرکی روایتوں میں بھی  ہے جن  کی تخریج علامہ البانی نے صحیحہ (725)کے اندر کیاہے اورحسن قراردیاہے۔(نیز دیکھئے:  التَّحبيرلإيضَاح مَعَاني التَّيسيرلمحمد بن اسماعیل الصنعانی:4/ 632)۔ نیز یہ بھی بیان کیاجاتاہے کہ  یہ ان آزمائشوں میں  سے ایک  تھا جن میں ابراہیم علیہ السلام کو مبتلا کیاگیاتھا  اور انہوں نے انہیں پورابھی کیاتھا،جس کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے فرمان میں کیاہے :( وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ) ۔(جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کئی باتوں سے آزمایا  اور انہوں نے سب کو پورا کردیا)۔  )البقرة/124)۔

امام بیھقی نے یہ بھی ذکرکیاہے کہ  اسماعیل علیہ السلام کا ختنہ تیرہ سال کی عمرمیں اور اسحاق علیہ السلام کا ختنہ  سات  دن میں ہواتھا۔ (السنن الکبری للبیھقی :17/ 513)۔ امام ابن القیم نے ذکرکیاہے کہ  ابراہیم علیہ السلام کے بعد بھی انبیاء کرام میں ختنہ جاری رہا یہاں تک کہ  عیسی علیہ السلام کا ختنہ بھی ہواتھا۔(دیکھئے:تحفۃ المودود/158) ۔

 اسلام میں ختنہ کاحکم : 

ختنہ کے حکم کے سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف پایاجاتاہے: شافعیہ  اور  حنابلہ  کے نزدیک  مردوں کاختنہ واجب ہے ،اسی قول کو امام ابن تیمیہ اورعلامہ ابن العثیمن  رحمھما اللہ نے اختیارکیاہے اور اسی کے مطابق سعودی عرب کی دائمی کمیٹی برائے فتاوی نے بھی اپنا   فتوی جاری  کیاہے ۔

جبکہ عورتوں کے حق میں ختنہ کی استحبابی صورت ہے جس کے قائلین حنفیہ اور مالکیہ ہیں  اور شوافع   وحنابلہ کا ایک قول بھی یہی ہے جسے امام شوکانی  ، ابن باز اور ابن العثیمین وغیرہم رحمھم اللہ نے اختیارکیاہے۔

 ختنہ کی مشروعیت کی حکمت :

خاص طور سے مردوں کے لئے ختنہ کی مشروعیت کی حکمت واضح اور مبرہن ہے کیونکہ پیشاب کے قطرات سے طہارت وپاکیزگی بغیرختنہ کےبہت ہی مشکل امرہے، کیونکہ ایسی صورت میں پیشاب کے قطرات چمڑوں کی تہہ میں جمع رہتے ہیں جو بدن اور کپڑادونوں  کی نجاست کا سبب ہیں ، یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ختنہ کے معاملے میں سختی برتاکرتے تھے یہاں تک روایت کی جاتی ہے کہ وہ کہاکرتےتھے کہ :"جس کا ختنہ نہیں  ہوا اس کا حج اور اس کی نمازمقبول نہیں" ۔(دیکھئے:المغنی لابن قدامہ:1/115)۔

اور عورتوں کےختنہ کی حکمت کےبارے میں کہاجاتاہے کہ  اس سے ان کے اندر کی شہوت کومعتدل کرنے میں مدد ملتی ہے ،  اس لئے کہ  غیرمختون  رہنے کی صورت میں  شہوت سے مغلوبیت کا شکا رہوجاتی ہیں ۔(دیکھئے : مجموع فتاوی الامام ابن تیمیہ :21/114)۔

صحت وطب کے اعتبار سے ختنہ کے فوائد:

جیساکہ مذکورہ سطور  میں صحت اور طب کے اعتبار سے ختنہ کےفوائد اور نہ کرانے کے نقصانات کے بارے میں ڈاکٹر اجئے کمار کی  باتیں گزریں ، ذیل میں ہم ان فوائد اور مزید فائدوں کا بالاختصار ذکر کردینا مناسب  سمجھتےہیں :

1 - ختنہ  نظافت اورپاکیزگی اختیار کرنے میں سہولت وآسانی کا سبب ہے۔

2 -  ختنہ کی صورت میں طہارت کی سہولت   کی وجہ سے آلہ تناسل میں انفیکشن سے بچاؤ ہوتاہے ۔

3 - پیشاب کی نلی میں انفیکشن  کے خطرہ میں کمی آتی ہے ۔متعددتحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ غیر ختنہ شدہ بچوں میں پیشاب کے
 نظام اور پیشاب کی نالی کا انفیکشن بہتعام ہے، اور کم عمری میں بچے کو شدید انفیکشن  کی وجہ سے  اس کے لئےگردے کے مسائل سمیت 
کئی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہےاور اگر انفیکشن زیادہ بڑھ جاتاہے تو مثانہ  کے اندر بھی  انفیکشن کا خطرہ رہتاہے ،جس سے پیشاب  کے
 مسائل بھی پیدا ہوسکتےہیں ۔

4 - ختنہ آلہ تناسل سے متعلق عمومی امراض سے بچاؤ   کا ذریعہ ہے جن میں  چمڑے میں کسی بھی طرح کے  مضر رطوبت کا  اخراج نیز اس میں سختی اور تناؤ  

بھی شامل ہیں  ۔

5 - ختنہ ایک بڑی بیماری  Penile cancer (عضوتناسل کا کینسر) سے بچاؤ ہے ۔

6 -  ختنہ آلہ تناسل میں خون جمنے کے عوارض سے بچاؤ ہے ۔

7 - ختنہ  جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن سےبچاؤ ہے ، کیونکہ ختنہ نہ ہونے کے سبب  عضوتناسل کے گردموجود اضافی جلد  بیکٹیریا (Bacteria)
 اور مختلف جراثیم  (Microorganism /  Germs) کے نشو ونما اور ان کی افزائش کا سبب بنتاہے جن کا  جنسی ملاپ (Sexual intercourse) 
کے وقت اپنے ساتھی کے اندر منتقل ہونے کا زیادہ خطرہ رہتاہے، کیونکہ مطالعات سے معلوم ہوا ہے کہ غیر ختنہ شدہ مردوں سے جنسی طور پر منتقل
 ہونے والی بیماریاں بہت حدتک  پھیلتی ہیں۔

8 - چونکہ حشفہ  (Glans penis  ) کے اردگرد اضافی چمڑے کی موجودگی اس کی صفائی اور نظافت  کے اہتمام کو کم کردیتی ہے نیز اس کی وجہ سے اس میں بیکٹیریا یا دیگر جراثیم  اور رطوبتیں  اس کے خلیات ( cells ) اور مردہ جلد کے اندر  جمع ہوتی ہیں ،اس لئے اس کے اندر بدبو وغیرہ  کاپیدا ہونا  بدیہی ہے  جس کا امکان  ختنہ کی وجہ سے   ختم ہوجاتاہے ۔

9 - عدم تطہیر کے سبب  آلہ تناسل میں پیداہونےوالے جراثیم اور بیکٹیریا  کی وجہ سے جنسی فعل کے بعد  ساتھی کے رحم کے اندر بھی کینسریا دیگر موذی امراض کے جنم لینے  کا امکان رہتاہے ،اس لئے ختنہ مستقبل میں   اس طرح کی  کسی بھی بیماری سے بچاؤکا ذریعہ ہے۔ اس طرح ختنہ نہ یہ کہ  خود آدمی کے لئے  مختلف بیماریوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے بلکہ اس کے  ساتھ  جنسی تعلقات  قائم کرنے والے  پارٹنرکے لئے  بھی احتیاطی بچاؤ کا سبب ہے ۔

10 -  جیساکہ ذکرکیاگیا ختنہ مختلف پھیلنے والی  جنسی بیماریوں سے بچاؤ کا ایک بہترین اوراحتیاطی  ذریعہ ہے جیسے  ہرپس    (Herpes) ، آتشک     (Syphilis) ، فنگس ( Fungus / Candida)  ، سوزاک ( (Gonorrhea ،گومڑی یا مَسّے ( (warts  اور  اَلسر  (Chancroid ) وغیرہ ۔

11- جدید تحقیقات سے یہ بھی پتہ  چلا ہے کہ  غیرختنہ شدہ افراد کے مقابلے میں  ختنہ شدہ افراد کے اندر ایڈز  (HIV/AIDS) جیسی مہلک بیماری کا خطرہ کم ہوتاہے ، اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ  مختون آدمی ایڈزکے خطرات سے کلی طور پر محفوظ ہوتاہے ، کیونکہ زنا ولواطت  اور اس بیماری میں مبتلا کسی فرد سے جنسی تعلقات ایڈزکے پھیلاؤ کے بنیادی اسباب میں سے ہیں  جس سے ختنہ شدہ اورغیر ختنہ شدہ افراد یکساں متاثر ہوسکتے ہیں ۔ یہاں  زنا ولواطت  سے متعلق اسلام  کے سخت نظام وقانون کے فلسفہ ،  حکمت اور اس  کی اہمیت  وضرورت کا پتا چلتاہے ۔

12 - ختنہ ایک فطری عمل ہے جس کا نہ کرانا فطرت کے خلاف جاناہے۔

13 -  ایک مؤمن کے لئے ختنہ کرانےکا سب سے بڑافائدہ  اللہ کی رضا وخوشنودی کا حصول ہے کیونکہ ایسی صورت میں   اللہ تبارک وتعالی  کے حکم کی فرمانبردای  اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت  واتباع   بجا لاتاہے۔

ایک اعتراض :

بعض حلقوں  کی طرف سے یہ  اعتراض کیاجاتاہے کہ جب ختنہ کرانا ہی تھا تو اللہ تعالی نے ختنہ کے ساتھ ہی انسان کو کیوں  نہیں پیدا کیا ؟

اس طرح کے اعتراضات  یا تو عناد پر ست عناصر  کی طرف سے وارد ہوتےہیں یا اللہ کے فرمان واحکام  کی حکمت سے نابلدی کی بنیاد پر ۔ ایک مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کا جوبھی حکم ہوتاہےوہ بلا وجہ نہیں ہوتا ،  اس کے اندر کوئی نہ کوئی حکمت ضرورہوتی ہے خواہ اس کا ادراک ہمیں ہو سکے یا نہیں ۔ چنانچہ کسی بھی حکم الہی پر اگر کوئی شرعی عذر نہ ہوتو  ایک مسلمان  خندہ پیشانی کے ساتھ بلاچوں وچرا عمل کرتاہے، اور یہ اس کے اوپر واجب وفرض  ہے،اور پھر اس کے بعد حسب احوال  وضرورت  اس کے مالہ وماعلیہ پر بحث  اس فن کے اصحاب اختصاص پر چھوڑدیتاہے ،ختنہ بھی انہیں احکام میں سے ہے حالانکہ اس کے فوائد اور اہمیت  و ضرورت کا بیان اور ادراک زمانہ قدیم سے رہا ہے ،خاص  طور سے موجودہ طبی تحقیقات نے اسے بحسن وخوبی اور مضبوطی کے ساتھ  واضح کیا ہے ۔ 

اطباء نے اس بات کی پوری طرح سے وضاحت کی ہے کہ وہ چمڑا جس کو بچے کی ولادت کے بعد زائل کیاجاتاہے جب  بچہ  ماں کے پیٹ میں ہوتاہے تو بحالت جنین اس   کا ہونا نہایت ہی ضروری ہے،کیونکہ عضو تناسل  جسم کا نہایت ہی حساس عضو ہوتاہے اور خاص طور سے اس کا اوپری حصہ  ،اورچونکہ ماں کے پیٹ میں بچہ حرکت بھی کرتاہے، اور اس کےاندراعصابی تناؤ  بھی ہوتاہے حالانکہ  اس کا اعصابی نظام ابھی تک تشکیل اور تعمیر کے مرحلے سے گزررہاہوتاہے ، اور ایک نامکمل نظام کا  یہ تناؤ اس کی نشوونما میں رکاوٹ اور ناپختگی کا سبب بھی بنتاہے۔ لہذا اس عضو کی تخلیق اور اعصابی نظام کوکنٹرول کرنےکےلئےاس جلد کی موجودگی نہایت ہی ضروری ہے، جو اس کےلئےمحافظ (Protector )  کی حیثیت رکھتاہے ورنہ بصورت دیگر نقصان کا قوی  امکان ہے ،پھر وہی بچہ جب پیداہوجاتاہے تو اس زائد چمڑے کی کوئی ضرورت  باقی نہیں  رہتی  بلکہ اس کو ویسے ہی چھوڑدینے سے بےشمار نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے ۔  چنانچہ  بچے کا اس زائد چمڑے کے ساتھ ماں کے رحم میں پلنا اس  کے تحفظ اوربچاؤ ( Safety / Protection ) کے لئے نہایت ہی ضروری اور  ایک اہم وجہ  ہے ۔

عورتوں کا ختنہ :

نسوانی ختنہ جسےFGM ((Female Genital Mutilation  کہاجاتاہے جوعورت کے  اندام نہانی میں ظاہری   جنسی عضوکے بالائی حصے کوکاٹنے کا 
عمل ہےاورزمانہ قدیم سے دنیا کے مختلف حصوں میں روبہ عمل رہاہے۔ واضح رہے کہ  مختلف نسلی گروہوں میں اختتان اناث کے مختلف طریقےرائج 
رہے  ہیں لیکن عمومی طریقہ کے مطابق عورتوں کے جنسی اعضاء میں ایک مخصوص اوراہم جنسی  عضوجسے عربی میں بظر اور انگش میں   clitoris 
کہاجاتاہےکے اوپری حصےکو کاٹاجاتا ہےجس میں بظر اور داخلی لیبیہ کو جزوی یا کلی طور پر کاٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے۔
یوں تو عورتوں کا ختنہ رواج اور حکم کے اعتبار سے اتنا اہم اورعام نہیں ہے بلکہ برصغیر اور آس پاس کے مناطق میں  فی زمانہ معدوم العمل ہے ، البتہ
 شاذو نادر کہیں کہیں مشاہدہ  میں آجاتاہے ۔ حالانکہ گرم علاقوں  میں یہ عمل اب بھی  موجودہے،خاص طورسے   افریقی ممالک جیسے صومالیہ(Somalia)  ،
گنی  (Guinea ) ، مصر (Egypt ) ، اریٹریا (Eritrea ) ، مالی(Mali) ، سرالیون  ( Sierra Leone ) ، سوڈان ( Sudan )  ،
 گیمبیا(Gambia)  ، برکینافاسو(Burkina Faso )  ، حبشہ(Abyssinia / Ethiopia ) ، موریطانیہ(Mauritania) ،
  لائبیریا (Liberia)  اور گنی بساو (Guinea-Bissau  ) میں یہ عمل   عام  ہے ۔  اورافریقہ سے باہر یمن ، عراق کے کرد علاقوں اورجنوبی امریکہ
 کے بعض قبائل  میں بھی یہ عمل کچھ حد تک موجود ہے۔ اسی طرح ہندستانی میں  بوہرہ کمیونیٹی کے اندر یہ عمل  پایاجاتاہے۔ ایک اندازے کے مطابق
   (سنہ 2013 ء کے اعداد وشمارکے حساب سے ) دنیا بھرمیں  اس عمل سے گزرے والی خواتین کی تعدادتقریبا  ستر کروڑ  تھی ۔
بعض ممالک ایسے ہیں جہاں مختلف تنظیمیں( جن میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی  بھی  شامل ہے۔)  اس عمل کو روکنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے اس 
میں بہت حدتک  کمی آئی ہے ۔
عورتوں کے ختنہ کے سلسلے میں بحث اور اس کے  فوائد اورنقصان  ایک طویل گفتگو کی متقاضی ہے ،البتہ اتنا تو ہے کہ تقریبا آدھی دنیامیں عہدقدیم سے  اس عمل کورواج
 حاصل رہاہے۔(ساری معلومات  ویکیپیڈیا سے ماخوذہیں)۔
بعض  ممالک میں عورتوں کے ختنہ  سے ہونے والے بعض  نقصانات کو جس کا مشاہدہ   بھی کیاگیاہے بڑے  شدومدسے اٹھایاجاتاہے ،  اور کہیں کہیں تو اس کو مسلمانوں کا 
ذمہ دار مان کر اسلام پر اعتراض کیاجاتاہے ، جبکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام میں  اس کو واجبی عمل نہیں ماناگیاہے، بلکہ ضرورت اور حالات کو دیکھتےہوئے استحبابی
 صورت قراردیاگیاہے(حالانکہ بعض فقہاء اس کے وجوب کی طرف گئےہیں )، اور دوسری بات یہ کہ یہ عمل اسلام کی آمد سے صدیوں پہلے سے دنیا کے اکثر حصوں
 میں رائج تھا ، جس سے اسلام نے منع نہیں کیا ،بلکہ  اسے غیراجباری حیثیت میں  باقی رکھا ،یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اس پر عامل بھی نہیں ہے ،ہاں اگر کہیں
 اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے  اور اس پر عمل ناگزیر ہوتاہےتواسے عمل میں لایاجاتاہے ۔ اب یہ کام اطباء کا ہے کہ  وہ ایمانداری کے ساتھ  دنیا کے سامنے واضح 
کریں کہ کن حالات میں اس عمل سے خطرہ یا کسی طرح کا نقصان  پہنچنے کا اندیشہ ہے،صرف اس وجہ سے کہ کسی مذہب میں اس پر 
عمل جائزہے واویلہ غیراخلاقی اور ذہنی پسماندگی کی دلیل ہے ۔
اللہ رب العزت ہمیں ہرطرح کےخیروبھلائی والے عمل کی توفیق دے اور ہرطرح کے دینی اور معاشرتی نقصانات اور برائیوں سے حفظ و امان میں رکھے۔
 وصلی اللہ علی  خیرخلقہ وسلم۔ 
*******

 

جمعرات، 14 ستمبر، 2023

اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گی

 

اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گی

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ  (ہر جان موت کا مزه چکھنے والی ہے)

إنماالموتُ مُنْتهى كُلِّ حيّ  (ہرجاندار کی انتہا موت ہے)

                          ابھی کل ہی کی بات ہے اہلیہ سے فون پر بات ہورہی تھی ، اچانک انہوں نے اپنا ایک خواب بیان کرنا شروع کردیا حالانکہ میں نے انہیں  ہر وہ خواب بیان کرنے سے منع کررکھاہے جو بُرے اور ڈراونے ہوں ،لیکن شاید انہیں یہ خواب بُرا یا ڈراونا نہیں لگا ،     یا  انہیں  لگا ہو کہ جس سے انہیں یگ گونہ محبت ہے گرچہ وہ دنیامیں نہیں ہیں حالت خواب میں  اس سے ملنے جارہی تھیں اس لئے بیا ن کردینےمیں کوئی حرج نہیں ہے۔

خیر میں نے اطمینان سے  ان کا خواب  سنا اور انہیں پھر یاددہانی کرائی کہ میں نے اس طرح کے خواب کوبیان کرنے سے منع کیاتھا،  کہنے لگیں کہ میں نے اس میں کوئی قباحت یا کسی طرح کی کوئی چیز محسوس نہیں کی اس لئے بیان کردیا ، ان کا  خواب تھا کہ : میری بڑی بہن (جن کا انتقال گزشتہ رمضان میں ہواتھا ) سے ملنے جارہی  ہیں  کہ اچانک راستے میں ایک گڑھا آگیا جس کی وجہ سے دروازہ تک جانا مشکل ہوگیا پھر دوسری جانب سے بہن کی کھڑکی پر جاکر انہیں آواز دیا۔

 خواب  معمولی ساتھا لیکن اسے سن کر میرا دل پریشان ہوگیا اورخیال آیا کہ ان کے سامنے شاید کوئی حادثہ ہونے والاہے، اور چونکہ ان کےوالد صاحب کئی سالوں سے صاحب فراش تھے اس لئے ان  کی طرف خیال کا بھٹکنا  بدیہی تھا۔

آج  صبح ناشتہ کرکے آفس میں جوں ہی بیٹھا ان کا فون آیا کہ میکے سے فون آیاتھا والد صاحب کو  کافی بےچینی  محسوس ہورہی ہے ،ان کی کال  کاٹ کر میں نے  فورا  اپنے سالے کوویڈیو کال کیا تاکہ انہیں دیکھ سکوں اور خیریت لینے کے ساتھ  کچھ ہدایات دے سکوں، کافی نحیف نظرآرہے تھے اور گھر کے افراد آس پاس بیٹھےہوئے تھے میں نے سلام کیا تو سلام کا جواب دیا قدرے عافیت میں لگ رہےتھے پھرمیں نے  گھروالوں کو کھانے پینے اورعلاج سے متعلق کچھ ہدایات  دیااور  اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔تقریبا آدھے گھنٹہ کے بعد بڑی بچی کا میسیج ملا کہ نانا کا انتقال ہوگیا ،زبان پر ۔إنا لله وإنا إليه راجعون۔ کا ورد جاری ہوگیا۔

ان کی عمراسی سے  نوے سال کے درمیان رہی ہوگی جب تک ہاتھ پاؤں چلتارہا شاہانہ زندگی بسر کی بڑھاپےمیں بھی غضب کی پھرتی تھی اپنے گھرسے موتیہاری تقریبا پینتالیس کیلومیٹر سائیکل سے آنا جانا کرلیتےتھے، مجھے  بےحد عزیز رکھتے بلکہ اپنے بیٹوں سےزیادہ قدر ومحبت دیتے ، نفاست ایسی تھی کہ ہمیشہ اپنے بستر سے لے کر سائیکل اور دیگر سامان کو صاف ستھرا رکھتے اورکسی کو ان کے قریب بھی نہیں آنے دیتے ،لیکن میں جب بھی ان  کے یہاں  جاتا نہایت ہی محبت سے کپڑا بدلنےکے لئے اپنی لنگی پیش کرتے اور کہتے کہ کہیں جانا ہوتو میری سائیکل لے کرجانا ۔ لوگ کہتے ہیں کہ  جوانی سے لے کربڑھاپے تک اپنی نفاست پسندی کی وجہ سے  کبھی   بچوں یا ناتی پوتوں کو اپنے قریب نہیں آنے دیا ۔لیکن جب میری بچیاں پیداہوئیں تو انہیں اپنی گود میں لیتے یہاں تک کہ ان کی  ناک وغیر ہ بھی صاف کرتےدیکھےگئے۔جامعہ امام ابن تیمہ میں جب تک رہا  ہر دوسرے تیسرے دن گھر سے سائیکل کے ذریعہ آتے اور ہمار ےبچوں کی ضروریات کی چیزیں لاتے ، اسی طرح جب بھی  گاؤں  جاکر وہاں کچھ دن گزارنا ہوتا یہ سن کر کافی خوش ہوتے اور ہمارے وہاں پہنچنے سے قبل ہی اناج اور دیگر ضروریات کا سامان  خرید کر پہنچ جاتے ۔

آج جب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں ان کی  طبعی عمرمیں وفات کے بعد بھی دل  بےچین ہے ، دنیا کی یہی ریت ہے کہ آنے والا آتاہے اور جانے والا چلا جاتاہے،لیکن دنیا ویسے ہی چلتی رہتی ہے،  ہر چیز اپنے وقت پر مقدر ہے ۔

یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں       اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گی

انہوں نے اپنے پیچھے  چھ بیٹے اور  دوبیٹیاں اور ان کے ساتھ بےشمارناتی پوتے چھوڑاہے ۔


عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی  (7/9/2023ء) 

*********

 

جمعرات، 24 اگست، 2023

جہالت کی فلاّحى

  فیس بک کے ایک کمنٹ پر رد عمل کا جواب 

جہالت کی فلاّحى

محترم غفران اصلاحی صاحب  !

 

(Ghufran Rafeequi Islahi Builders)

اگر علم وفہم سے واسطہ ہوتاتو اس طرح کی واہیات باتیں نہیں کرتے یہ بچے بچیوں کا کھیل نہیں ہےکہ ان کی غیر ضروری اور غیر مطابق مثالیں پیش کریں ، آپ اپنی بلڈنگ  کی ڈیزا‏ئننگ  میں مست رہئے، اور شوق سے اس میں تصرف کیجئے لیکن یہاں دین کا معاملہ ہے اس لئے ہوش میں رہ کر کسی بات پر کمنٹ کیجئے ، تقلیدی جمود نے ویسے ہی آپ جیسوں کا دماغ خراب کررکھا ہے اس لئے کسی کی بات کو سمجھنا آپ کے بس کی نہیں ہے ، میں نے جو کمنٹ کیاہے اس کا مدعاء قمر فلاحی صاحب اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اسی لئے انہوں نے کم سے کم یہاں پر خاموش رہ کرحکمت سے کام لیاہے ،حالانکہ انہوں نے مجھے پوری طرح بلاک کردیاہے جس کی وجہ سے   ان کا کوئی پوسٹ میرے سامنے نہیں آسکتا اورنہ ہی میں ان کے کسی بھی پوسٹ پر کوئی کمنٹ وغیرہ کرسکتا ہوں ۔ اور آپ  ہیں کہ بےگانی شادی میں دیوانہ بن کر آگئے ،یہ تو خیر ہے کہ میں  کسی اورکے فیس بک میں آپ کے کمنٹ سے واقف ہوگیا اور یہ چند سطریں لکھنے پرمجبور ہوگیا، اگر نہیں لکھوں تو ہوسکتاہے آپ  خودکوطرم خان سمجھنے لگیں کہ سامنے والا لاجواب ہوگیا۔

آپ نے جوش جہالت میں یہ بھی نہیں دیکھا کہ قمر صاحب نے کس پس منظر میں اپنا مذکورہ پوسٹ ڈالاہے ،اگر پس منظرپر غورکرتے تو اتنی حماقت والی بات نہیں کرتے، بات ابراہیم علیہ السلام کے مجبور کئے جانےکے امکان اور غیرامکان کی تھی جس کے بہانے ایک سیرت نگار کے فہم اور منہج کو چیلنج کیاجارہاتھا اور اس  کی آڑمیں  تمام سلفیوں کو مطعون کرنے کی ناروا کوشش کی جارہی تھی۔ ویسےتو میں عام طور پر اس قسم کے مسائل سے خو د کو الگ رکھتاہوں اور جلدی کوئی کمنٹ نہیں کرتا، البتہ بسا اوقات جب زیادہ ضروری سمجھتاہوں توکچھ ہلکا پھلکا لکھ دیتاہوں ،کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ آپ جیسے نیم فہم تقلیدی اپنی زبان اوربیان پر قابو نہیں رکھتے۔ خیر فلاحی صاحب  کئی ماہ سے اپنی فکر کی کجی کی وجہ سے سلفیوں کے  راڈار پر ہیں ، اوریہ بدیہی ہے کیونکہ  سلفیت  کا یہی امتیاز ہے کہ دین وشریعت ، عقائدواعمال  ، انبیا ء  ورسل ، اہل بیت اور صحابہ وتابعین ومن تبعہم باحسان  کے بارے میں کسی بھی طرح کی غلط بات کی جائے اس کا رد کریں اور دین وشریعت کی حفاظت کے لئے کوئی لحمہ فروگزاشت نہ کریں ، اور یہی دینی فریضہ بھی ہے ،  اور فلاحی صاحب کے سلسلے میں بھی احباب کی جانب سے  وہی کیاگیا ، گرچہ ان میں سے بعض کے طرز تخاطب سے مجھے بھی اختلاف  ہی نہیں سخت اختلاف ہے ۔  ایسا لگتاہے کہ فلاحی صاحب نے مولانا مباکپوری  رحمہ اللہ  کی کتاب میں مذکور ابراہیم علیہ السلام کے واقعے کو اس  کے اسباب وعوامل کا  صحیح طرح سے مطالعہ اور اس پر غوروفکر کئےبغیر ہی چھیڑدیا ہے  ( اس میں ان کی نیت کیاتھی وہی جانیں اور اللہ تعالی  سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔)،  اورانہوں نےیہ نہیں  دیکھا کہ مولانا رحمہ اللہ نے اس   واقعہ کو کہاں سے ذکر کیاہے ،اور ان سے پہلے اسلاف کے درمیان اس سلسلے میں کیا کیا اور کن بنیادوں پر لکھا  گیاہے   ؟  جس کی وجہ سے مؤاخذہ کرنے پر بغیر سوچے سمجھے ہی ادھر ادھر کی مار رہے ہیں ،خیر یہ ان کا معاملہ ہے لیکن کسی بھی مسئلے کو چھیڑنے سے پہلے  اس موضوع سے متعلق خوب اچھی طرح سے معلومات اکٹھی کرلینی چاہئے، تاکہ فضیحت کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

یہاں میں قمر فلاحی صاحب کے فکر  اور ان کے اس خاص پوسٹ اور اس پر اپنے اور ان کے کمنٹ کو ذکر کردوں تاکہ ناظرین  کو حقیقت معلوم ہوسکے:

فلاحی صاحب نے لکھا : "پوری دنیا ایک طرف کیوں ناہوجائے، بنی کو کوئی مجبورنہیں کرسکتا"۔

میرا کمنٹ تھا :" جی محترم بالکل صحیح ، لیکن : اللہ تعالی کسی کوبھی مجبور کرسکتاہے اور اپنی کسی حکمت کے تحت کسی کے ذریعہ مجبور کروا بھی سکتاہے۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو !!!"

اس کے بعد فلاحی صاحب لکھتےہیں :"توبہ ہے"

 پھر میں نے لکھا:"یعنی آپ مان رہے ہیں کہ کوئی انسان خواہ نبی ہی ہو اللہ کی  کسی حکمت کے تحت کسی معاملے میں مجبور کیاجاسکتاہے"۔

اس کےبعد پتہ نہیں کیاہوا کہ فلاحی صاحب کے سارے پوسٹس اور کمنٹس مجھ سے  مکمل طور پر محجوب ہوگئے   ، لاکھ کوشش کے باوجود میں نہیں جان سکاکہ آگے کیاہوا ، پھر اپنے آفس والے  اکاؤنٹ سے سرچ کیاتو ان کا پوسٹ اور اس پر کئے گئے کمنٹس نظرآئے ، میرے کمنٹ کے بعد فلاحی  صاحب تو خاموش نظرآئے لیکن آپ  غفران اصلاحی صاحب غیر کی شادی میں بطور عبداللہ دیوانہ نظر آئے اور ہمارے تبصرےکو بے تکا قرار دے دیا  یہ کہہ کرکہ:   کائنات اور اس میں موجود تمام مخلوقات کی کہ یہ سب کے سب ایک ہوجائیں پھر بھی نبی کے استقامت میں لغزش نہیں آسکتی ،پھر درمیان میں اللہ کو لاکر بچکانہ پن کیوں ظاہر کرنے لگے ؟؟

یہ ہے آپ کی    جاہلانہ سمجھ شریف ، جب اللہ تعالی خود بخود بیچ میں ہے تو ہماری کیااوقات کہ اسے بیچ میں  لائیں، اللہ تعالی خود ابراہیم اور ان کی اہلیہ علیھما السلام کو ہجرت کا حکم دیتاہے اس کےلئے اسباب پیدا کرتاہے اورپھر  ایک ایسا سبب پیدا کرکے ان کواپنی  بیوی  اور شیرخواربچے کو مکہ کے بیان میں چھوڑنے  کا حکم دیتاہے، جس کا ذکر مختلف روایتوں میں موجود ہے جنہیں سیرت نگاروں نے بیان کیاہے اور یہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ جس طرح مکہ سے بے انتہامحبت کے باوجود اللہ جل شانہ ہمار ےنبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چند  اسباب پیدا کرتاہے آپ کے خلاف قتل کی سازشیں ہوتی ہیں بلکہ روایتوں میں ہے کہ آپ نے مکہ سے نکلتے وقت ایک ٹیلہ  کھڑے ہوکر حسرت کے ساتھ اس کی طرف دیکھ کر فرمایا :" والله إنك لخيرأرض الله , وأحب أرض الله إلى الله , ولولاإني أخرجت منك ما خرجت " (سنن الترمذی/3925 ، سنن ابن ماجۃ/3108) "اللہ کی قسم  ! تو بلاشبہ اللہ کی سب سے بہترین سرزمین ہے ،  اللہ کے نزدیک محبوب ترین سرزمین ہے ، اگر مجھے تجھ سے نہ نکالا جاتا ہو میں نہیں نکلتا"۔ پھر رب ذوالجلال آپ کو مدینہ کے لئے ہجرت کا راستہ اختیار  کرنے کا حکم دیتاہے، راستے میں  دسیوں پریشانیاں آتی ہیں لیکن پائے استقامت میں لغزش نہیں آتی  غار ثورمیں بھی پناہ لینا پڑتاہے، وہاں پراپنے ساتھی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اللہ کی معیت کا حوالہ دے کر ہمت وڈھارس دلانی پڑتی ہے  ۔  اسی طرح موسی علیہ السلام کو  بھی مجبوری میں  فرعون کے ظلم واستبداد سے اپنوں کو بچانے کے لئے اللہ کے حکم سےمصرسے بھاگنا پڑتاہے،بات بنواسرائیل اور موسی علیہ السلام کی مجبوری سے شروع ہوتی ہے اور اللہ کے حکم پرہجرت کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔

یہی نہیں موسی علیہ السلام کے واقعے میں ان کے ڈراوراحتیاط کا ذکراللہ تعالی نےواضح طورپرکیاہے، فرماتاہے: (وَجَآءَ رَجُلٞ مِّنۡ أَقۡصَا ٱلۡمَدِينَةِ يَسۡعَىٰ قَالَ يَٰمُوسَىٰٓ إِنَّ ٱلۡمَلَأَ يَأۡتَمِرُونَ بِكَ لِيَقۡتُلُوكَ فَٱخۡرُجۡ إِنِّي لَكَ مِنَ ٱلنَّٰصِحِينَ* فَخَرَجَ مِنۡهَا خَآئِفٗا يَتَرَقَّبُۖ قَالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ ٱلۡقَوۡمِ ٱلظَّٰلِمِينَ) (القصص/20-21) ۔

(شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا ۔ اور کہنے لگا اے موسیٰ! یہاں کے سردار تیرے قتل کا مشوره کر رہے ہیں، پس تو بہت جلد چلا جا مجھے اپنا خیر خواه مان * پس موسیٰ (علیہ السلام) وہاں سے خوفزده ہوکراحتیاط کے ساتھ دیکھتے بھالتے نکل کھڑے ہوئے ، کہنے لگے اے پروردگار! مجھے الموں کے گروه سے بچا لے)

کیا یہاں ایک نبی مجبوری کی حالت میں اپنی قوم اور اپنے شہرکو نہیں چھوڑرہا ہے؟ جس کی وجہ سے اپنے رب سے نہایت ہی عاجزی کے ساتھ دعاء بھی کررہاہےکہ وہ انہیں ظالم قوم کےجبرواستبداد سے محفوظ رکھے۔(تدبرتفهم)غورکیجئے بات ضرور آپ کو سمجھ آئےگی !!!

کیا آپ یہ بتا سکتےہیں کہ   یوسف علیہ السلام کا جیل میں رہنا ان کی مجبوری نہیں تھی ؟(بلکہ اس مجبوری کو آپ نے اپنی عزت عصمت اورپاکیزگی کو بچانےکےلئےخوداپنالیاتھا)۔   کیا آدم علیہ السلام کا   جنت سے نکالے جانے  کا واقعہ اور اس کے اسباب وعوامل ہمارے سامنے نہیں ہیں  ؟    وغیرہ وغیرہ۔

بلاشبہ کسی بھی انسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ کسی نبی کو  (ہم تو کہتے  ہیں کہ کسی  اللہ والے  نیک انسان کو بھی)  مجبور نہیں کرسکتا،لیکن جب یہی اللہ کی مرضی اور اس کاحکم ہوتو کوئی بھی کسی کوبھی خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو کسی بات پر مجبور کرسکتاہے ،یہ الگ بات ہے کہ  ہر نبی  استقامت کی بلندی پر ہوتا، ان کے قدم کبھی اور  کہیں نہیں ڈگمگاتے اور وہ ہمہ دم  اس معاملے میں اللہ تعالی کی رہنمائی کا منتظر رہتے، اور پھرجوبھی امر باری تعالی ہو اس کی پاسداری میں  اس پر توکل کرکے جی جان لگادیتے، کیا جنگ بدر ، جنگ احد ، جنگ خندق  جیسے معرکوں میں نبی مکر م صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی مثالیں ہمارے سامنے نہیں ہیں ، اور خود ابراہیم علیہ السلام کا نمرود کے ذریعہ آگ میں ڈالے جانے کے وقت استقامت میں ہمار ے لئے نصیحت نہیں ہے  ؟   اس طرح کی بے شمار  مثالیں قرآن وسنت میں  ملیں گی ،جن میں کسی کا گھرسے نکلنے پر مجبورکیاجانا ، کسی کو اپنی جان کو قربان کردینا وغیرہ شامل ہیں۔

چونکہ فلاحی صاحب کا مقصد  ایک خاص کتاب اور  صاحب کتاب کے منہج وفکر پر رد کرنے کاتھا اس لئے انہوں نے  مذکورہ کلمات پوسٹ کئے  ، جس تناظرمیں انہوں نے پوسٹ ڈالا میں نے اسی کے حساب سے اس پر تبصرہ کیاہے ،ورنہ  ایک ایک مسلمان جانتاہے کہ کسی نبی کے پائے میں کوئی بھی انسان لغزش نہیں لاسکتا۔ فلاحی صاحب کے جملے کے سلسلے میں میں وہی کہوں گا جو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خوارج کے نعرہ "لاحکم الا للہ" کے بارے میں کہاتھا : "كلمة حق أريد به الباطل" "بات صحیح ہے لیکن اس کا مقصد غلط ہے "۔

غفران اصلاحی صاحب !  مجھے آپ کی سمجھ پر افسوس ہورہا  کہ ایک سیریس معاملے میں بچوں جیسی بچکانہ حرکت کی   سینس لیس بچکانہ مثال پیش کرکے   خود کو مدعائے کلام کا  بہت بڑا فاہم  سمجھ رہے ہیں ، اگر فلاحی صاحب کے آرگومینٹس اور ان پر کئے گئے ردود سے تھوڑی بھی واقفیت ہوتی تو اس طرح کی جاہلانہ حرکت سے پرہیز کرتے۔

اصلاحی صاحب ! آپ کی دلیل بھی بڑی کائناتی ہے :"زمیں جنبد آسماں جنبد نہ جنبد پیر محمدصلی اللہ علیہ وسلم"

یہاں اس طرح کی دلیل پیش کرنے والے کی عقل پرسوائے ہنسنے کےاورکیاکیاجاسکتاہے ؟؟؟؟ ۔

ایک آدمی خود سینس لیس ہوکر  دوسرےکو سینس کی نصیحت کررہاہے ، ایں چہ بوالعجبی است ؟ ۔

 اللہ تعالی ہم سب کو صحیح فکر وفہم کی دولت سے نوازے اور حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے اور سمجھنے کی توفیق دے ۔

********

                            عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی 

                                                              (24/8/2023)