جمعرات، 10 مئی، 2018

سفرمیں روزےکےمسائل


         روزہ اسلام کی پانچ بنیادوں میں سےایک ہے ،جس کےانکارسےآدمی کافر ہوجاتاہے ، مسافر کے لیےاللہ تعالی نےنمازہی کی طرح روزہ کےاندربھی  ازراہ تفضل اوراحسا ن  تخفیف اورچھوٹ دےرکھی ہے ، اوراسےاجازت دے دی ہے کہ  سفر میں  روزہ نہ رکھ کراس کے بدلےدوسرےدنوں میں  اس کی قضاء کرلے، چنانچہ ارشاد فرماتا ہے:(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ* أَيَّاماً مَّعْدُودَاتٍ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضاً أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَأَن تَصُومُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ* شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى  لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضاً أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ) [البقرة :183 – 185] (اے ایمان والو ! تم پرروزےرکھنافرض کیاگیا ہےجس طرح تم سے پہلےلوگوں پر فرض کیاگیاتھا تاکہ تم تقوی اختیارکرو،گنتی کےچند ہی دن ہیں، لیکن  تم میں سے جوشخص بیمارہو یاسفرمیں ہو تووہ اوردنوں میں گنتی کوپوراکرلے۔ اورجنہیں روزےرکھنےمیں مشقّت اٹھانی پڑتی ہو، وہ بطور فدیہ ہر روزایک مسکین کو کھاناکھلادیں۔ اورجوکوئی نیکی میں سبقت کرےوہ  اسی کےلیے بہترہے ، اور( مشقت برداشت کرتےہوئے ) روزہ رکھ لینا  تمہارےلیے زیادہ بہترہے ، اگرتم علم رکھتے ہو۔  وہ رمضان  کامہینہ ہے جس میں قرآن کا نزول ہواہے ، اورجولوگوں کوراہ راست دکھاتاہے ، اور جس میں ہدایت کےلیے اورحق وباطل کےدرمیان تفریق کرنے کےلیےنشانیاں ہیں ۔ پس جواس مہینہ کوپائےوہ روزہ رکھےاورجوکوئی  بیمارہویاسفرمیں ہوتووہ اتنےدن گن کربعدمیں روزہ رکھ لے۔ اللہ تمہارےلیےآسانی چاہتاہے ، تمہارےلیے تنگی کو پسندنہیں کرتا) ۔
مذکورہ آیات سےمسافرکےلیےدوران سفرروزہ نہ رکھنےکی اجازت کی صراحت واضح ہے ، اس بنا پردوران سفرروزہ نہ رکھناواجب ہے، یارخصت؟ اس  بابت   علماءکےدواقوال ہیں  : پہلاقول  ظاہریہ کاہے جوکہتےہیں سفرمیں روزہ نہ رکھناواجب ہے ، اوراگرکوئی روزہ رکھ لیتاہے تویہ اس کےلیےکافی نہیں ہوگابلکہ اسے اس کی قضاءدوسرےایام میں  حالت حضرمیں کرنی ہوگی  ، اس سلسلے میں ان لوگوں نےمختلف دلائل دئے ہیں ، جو مندرجہ ذیل ہیں :
دلائل
1 –  اللہ تعالی کافرمان : (فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضاً أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ)
  اس آیت کےاندرمطلق بیان ہےکہ  رمضان میں  مسافرکو روزہ نہیں رکھنی چاہئے بلکہ دوسرےایام میں رکھنی چاہئے ، اس میں روزہ رکھنےاورنہ رکھنےکے درمیان  اختیارکی کوئی بات نہیں کی گئی ہے ، بلکہ مطلق نہ رکھنےاوردوسرےدنوں میں اس کی قضاءکی با ت کہی گئی ہے  ۔
2 -  عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما فرماتےہیں: "إن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى مكة في رمضان فصام حتى بلغ الكديد أفطر فأفطر الناس، وكان صحابة رسول الله صلى الله عليه وسلم يتبعون الأحدث فالأحدث من أمره" [1]  "اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان میں مکہ کی طرف نکلےاورروزہ رکھا، جب مقام کدید پہنچے تو روزہ توڑدیااورلوگوں نےبھی روز ہ توڑ دیا، اوراللہ کےرسول کےاصحاب آپ کےامورمیں سے نئے امرکی اتباع کرتے تھے"۔
اس حدیث سےاستدلال کرتےہوئےکہتےہیں کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل  سفر میں روزہ نہ رکھنےکاتھا ، اورصحابۂ کرام  رضی اللہ عنھم  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےآخری عمل کی ہی اتباع کرتے تھے، گویااللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کاسفرمیں روزہ رکھنااس حدیث سےمنسوخ ہے ۔
3 – اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  کافرمان : "ليس من البر الصوم في السفر" [2]  یعنی  "سفرمیں روزہ   رکھنانیک کام نہیں ہے "۔
4 -   جابررضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ : اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں عام الفتح کومکہ کےلیے نکلےاور روز ہ رکھا، یہاں تک کہ کراع الغمیم  پہنچے، لوگوں نےبھی روزہ رکھاہواتھا،  پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےپانی کاپیالہ منگایا اوراسےبلندکیایہاں تک کہ سب نےاسےدیکھ لیا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پی گئے، اس کےبعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو خبردی گئی کہ  کچھ لوگ اب  بھی روزےسےہیں ، توآب نےفرمایا:"أولئك العصاة، أولئك العصاة "" وہ لوگ  نافرمان ہیں ، وہ لوگ نافرمان ہیں " [3] ۔
5 -  عبدالرحمن بن عوف  رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "صائم رمضان في السفر كالمفطر في الحضر" [4]  "سفرمیں رمضان کاروزہ رکھنےوالاحضرمیں روزہ نہ رکھنے  والےکی طرح ہے "۔
6 –  انس بن مالک کعبی  رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا: "إن الله وضع عن المسافر شطر الصلاة والصوم عن المسافر وعن المرضع والحبلى" [5]  "اللہ تعالی نے مسافرسےآدھی نمازاورمسافر، دودھ پلانےوالی عورت اورحاملہ عورت سے روزہ  کو معاف کردیاہے"۔
جمہورکاقول
جمہور کہتےہیں:  مسافرکےلیےروزہ رکھنےاورنہ رکھنےکےدرمیان اختیارہے ، اگرکو‏ئی  شخص  دورا ن سفر روزہ رکھ لیتاہے تودوسرےایام میں دوبارہ رکھنےکی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ وہ روزہ اس کےلیے کافی  ہے  ۔
دلائل
1  -   عائشہ  رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : حمزہ بن عمرو اسلمی  رضی اللہ عنہ نےاللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم سےکہا کہ : میں  سفر میں  روزہ  رکھتا ہوں؟  (حمزہ ) بہت زیادہ روزہ رکھاکرتےتھے  ، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا : "إن شئت فصم وإن شئت فأفطر" [6]  "چاہوتوروزہ رکھواوراگرچاہوتو نہ رکھو"۔
2 - ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ  فرماتےہیں: ہم لوگوں نے  سولہ  رمضان گزرنے کےبعد اللہ  کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ غزوہ کیا، ہم میں سےکچھ لوگ  روزہ رکھےہوئےتھےاورکچھ لوگ  بغیرروزہ سےتھے ، روزہ داروں نےان لوگوں پرجوروزہ نہیں رکھےہوئے تھے کوئی عیب نہیں لگایا اورنہ بےروزہ  لوگوں نےروزہ داروں پرکوئی عیب لگایا "  [7] ۔
3 -    جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، وہ فرماتےہیں :"ہم نے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ سفرکیا،تو ہم میں سےبعض نےروزہ رکھااوربعض نےنہیں رکھا" [8]  ۔
4 – عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  فرماتےہیں :" اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےسفرمیں روزہ بھی رکھاہے اور روزہ نہیں بھی  رکھاہے ، لہذاجوچاہے رکھے اور جو چاہےنہ رکھے" [9]   ۔
یہ اوران جیسی بےشمارروایتیں ہیں جن سےسفرمیں روزہ رکھنےاورنہ رکھنےکے درمیان  اختیار کےثبوت کاپتہ چلتاہے ، ہاں اتناضرور ہے  کہ سفرمیں روزہ نہ رکھنااللہ کی طرف  رخصت ہے اور اس  رخصت کوبندوں  کوقبول کرناچاہئے ۔
ظاہریہ کی دلائل پرایک نظر
ذیل کی سطورمیں ہم ظاہریہ کی طرف سےپیش کردہ دلائل پرایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں   :
1 – ظاہریہ کی پہلی دلیل  اللہ تعالی کافرمان : (فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضاً أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ)ہے ، لیکن  ان کااس آیت سے استدلال اس لیےدرست نہیں ہےکہ  اس کامفہوم وہ نہیں ہے  جوانہوں نےسمجھ رکھاہے (یعنی سفرروزہ رکھنےسےمانع ہے ) بلکہ  آیت کااصل مفہوم ہے " فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضاً أَوْ عَلَى سَفَرٍ  فأفطر فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ" یعنی " تم میں سے جوشخص بیمار ہویاسفرمیں ہو اوروہ  روزہ توڑدے  تووہ اوردنوں میں گنتی کوپوراکرلے" ۔
نیزاگران کےاستدلال کودلیل قطعی مان لیں تو مریض کےسلسلےمیں کیاکہیں گے ؟ اگرکوئی بیمار ہواورباوجودبیماری کے استطاعت رکھتاہے کہ روزہ رکھ لےاورروزہ رکھ بھی  لیتاہے توکیایہ کہا جا سکتا ہے کہ  اس کایہ روزہ ناکافی ہے اوراسے دوسرےدنوں میں لازمااس کی قضاء کرنی پڑےگی ؟ ہرکوئی بیمارکےاس روزہ کوکافی مانےگااور کہےگاکہ اس کےبدلےدوسرےدنوں میں روزہ رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، ٹھیک اسی طرح اگرمسافرروزہ رکھنےپرقادر ہےاوربلاکسی مشقّت اور پریشانی کے روزہ رکھ لیتاہے تواس کایہ روزہ کافی ہے ، حمزہ بن عمرو کی روایت بھی اسی کی طرف اشارہ  کرتی ہے  ۔
2 –  ان کی دوسری دلیل عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے ، جس میں   "إنما يؤخذ من أمر النبي صلى الله عليه وسلم الآخر فالآخر" سے استدلال کرتےہوئےاللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےسفرمیں روزہ رکھنےکو منسوخ  قراردیاگیاہے ، لیکن اس سےاستدلال اس لیے درست نہیں کہ  مذکورہ  عبارت مدرج ہے جو امام زہری کاقول ہے ، جس کی صراحت  امام بخاری نےکتاب المغازی کے اندرکیاہے  [10]  نیزراوی حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نےصراحۃ بیان کیا ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےسفرمیں روزہ رکھابھی ہے اورنہیں بھی رکھا ہے ، تواب جوچاہےرکھےاورجوچاہےنہ رکھے، ان کےعلاوہ انس  اورابوسعید خدری رضی اللہ  عنہما  کی روایتیں بھی  اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےسفرمیں روزہ رکھنے اورنہ رکھنےسےمتعلق  وضاحت کےساتھ موجودہیں  ، نیز دیگر صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم بھی آپ کےنقش قدم کی پیروی کرتے  ہوئے دونوں پرعمل کیاکرتے تھے  [11]  ۔
3 -  ان کی تیسری دلیل اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  کافرمان: "ليس من البر الصوم في السفر" یعنی   " سفرمیں روزہ رکھنانیک کام نہیں ہے " ہے ۔
لیکن یہ بات ان لوگوں کےلیےکہی گئی ہے جومشقّت برداشت کرکےبھی سفرمیں روزہ رکھتےہیں ، اس کی تائیداس روایت سےہوتی ہے جس میں ہےکہ ایک جگہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےبھیڑدیکھی جس میں ایک آدمی کےاوپرسایہ کیا ہواتھااوروہ روزے سےتھا، اس کی پریشانی اورمشقت کودیکھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: "سفر  میں روزہ رکھنا نیک کام نہیں ہے"اوریہی مقصود:(لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا) [البقرة: 286] (اللہ  بندوں کواس کی قوت وطاقت کےمطابق ہی مکلف کرتاہے ) کاہے  ۔ نیز حمزہ بن عمراسلمی رضی اللہ عنہ   کی روایت بھی اس کی تائیدمیں ہے جس کےالفاظ ہیں: "قلت: يارسول الله! إني أجد بي قوة على الصيام في السفر فهل علي جناح؟ قال هي رخصة من الله عزوجل فمن أخذ بها فحسن ومن أحب أن يصوم فلا جناح عليه" [12]  "میں نےپوچھا : اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنےاندرسفرمیں روزہ رکھنےکی طاقت پاتاہوں ، توکیامیرےاوپرکوئی  گناہ ہے اگرمیں روزہ رکھ لوں  ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : " یہ اللہ کی جانب سےرخصت ہے ، جوچاہےاس رخصت کولےلےتویہ بہترہے ، اورجو روزہ  رکھنا چاہےتو اس  پرکوئی گناہ نہیں "  ۔
نیز"بِرّ" کی نفی  روزے کی نفی کومتقاضی نہیں ہے ۔
4 -   ان  کی چوتھی دلیل جابررضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں روزہ رکھنے والو ں کو نافرمان کہاگیا ہے ۔
جمہوراس کاجواب یہ دیتےہیں کہ یہاں پراللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  نےروز ہ توڑلینےکاعزم کرلیا تھا، اورصحابہ کرام رضی اللہ عنھم  کوایک طرح سے حکم تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع کرتےہوئےروزہ توڑ دیں،  ایسی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت  نافرمانی ہی ہوگی ، اوراس کےعلاوہ دیگربہت ساری دلائل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کےاصحاب کا روزہ رکھناثابت ہے، اس لیے عام حالات میں روزہ رکھنےوالا عاصی اورنافرمان نہیں  ہوگاکیونکہ یہ حکم اس وقت اوراس جیسےحالات پیداہونےکےساتھ خاص ہوگا ، اوریہ بھی ہوسکتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کااس سفر میں روزہ توڑناکسی خاص  مصلحت  سےرہاہو  ۔
5 – ان کی پانچویں دلیل عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں سفرمیں روزہ رکھنےوالے کو حضر میں روزہ نہ رکھنےوالےسےتشبیہ دی گئی ہے ، گویا سفر میں روزہ رکھناباطل قرارپائےگا ، لیکن اس روایت سےاستدلال درست نہیں ہے، کیونکہ یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سندیوں ہے: "عبدالله بن موسى التيمي، عن أسامة بن زيد، عن ابن شهاب الزهري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبيه عبدالرحمن بن عوف،  عن النبي صلى الله عليه وسلم "
مذکورہ سندکےاندردوعلّتیں پائی جاتی ہیں:
اول : اس کےاندرانقطاع ہے  ، اس لیے کہ ابوسلمہ کاسماع اپنےباپ سےثابت نہیں ہے۔
دوم : اسامہ بن زیدضعیف ہیں ۔ [13]
امام بیہقی کہتےہیں :" یہ روایت موقوف ہے اوراس کےاندرانقطاع ہے ، یہ روایت مرفوعا بھی مروی ہے لیکن اس کی سندضعیف ہے" [14]
حافظ ابن حجرنےبھی اسےضعیف قراردیاہے ۔ [15]
6 -  ان کی چھٹی دلیل میں  مسافرسےروزہ معاف کرنےکامطلب یہ نہیں  ہے کہ اگرکسی نےروزہ رکھ لیا تووہ غیر مقبول ہوگا، خاص کران روایتوں کےہوتےہوئے جو صحیح سندوں کے ساتھ مروی ہیں اور ان میں اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  اورآپ کےاصحاب کےروزہ رکھنے کی صراحت موجودہے ۔ نیز انس بن مالک کعبی رضی اللہ عنہ  کی روایت میں اس بات  کی صراحت بھی ہے کہ حاملہ اوردودھ پلانےوالی عورتوں سےبھی روزہ ساقط ہے ، تواب اگراس نوع کی عورتیں  روزہ رکھنےکی طاقت کےساتھ روزہ رکھ لیتی ہیں توکیاان کا روزہ باطل اورناکافی ہوگا؟ توجس طرح ان کاروزہ کافی ہوگااوردوسرے دنوں میں اس کی قضاء ضروری نہیں ہوگی مسافرکاروزہ بھی اس کےلیےکافی ہوگا اوراسےبھی دوسرےدنوں میں قضاءکی ضرورت نہیں ہوگی ۔
دوران سفر روزہ رکھنےاورنہ رکھنےمیں افضل کیاہے ؟
سفرمیں روزہ رکھنےاورنہ رکھنےکی افضلیت میں علماء کےمختلف آراء ہیں   :
اول  : ان لوگوں کےلیے جوروزہ رکھنےکی طاقت رکھتےہوں اوران پرروزہ شاق نہ گزرتاہو روزہ  رکھنا افضل ہے ، دلیل میں سلمہ بن المحبّق  کی روایت پیش کرتےہیں کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  نےارشاد فرمایا: "من كان له حمولة تاوي إلى شبع فليصم رمضان حيث أدركه" [16] .  
لیکن اس روایت سےاستدلال درست نہیں ہے کیونکہ اس میں ایک راوی عبدالصمدبن حبیب الازدی  ضعیف ہیں  [17]   
دوم : چونکہ سفرمیں روزہ نہ رکھنااللہ تعالی کی جانب سےرخصت ہے اس لیے روزہ نہ رکھناہی افضل ہے ، شیخ ابن باز فرماتے ہیں : روزہ دارکےلیے سفرمیں بالاطلاق روزہ نہ رکھناہی افضل ہے ، اورجس نےروزہ رکھ لیاتواس پر کوئی حرج نہیں کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سےدونوں کاثبوت ہے  ، اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سےبھی ، لیکن اگرگرمی سخت ہو اورپریشانی بڑھ جائے تومسافرکےلیے روزہ نہ رکھنا تاکیدی  اوررکھنامکروہ ہوجاتا ہے [18]  ۔
سوم : مطلق اختیارہے ، روزہ رکھےخواہ نہ رکھے،برابرہے ۔
چہارم : مسافرکےلیےجوآسان ہو وہی  افضل ہے ، اللہ تعالی کاارشادہے : ( يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ) [البقرة: 185] ( اللہ تمہارےساتھ آسانی کرنا چاہتاہے اور تمہارے ساتھ سختی نہیں کرناچاہتا) ۔
جیسےایک نوکری پیشہ آدمی کےلیے  جدید وسائل سفرکی زیادہ سےزیادہ سہولت وآسانی کوملحوظ خاطررکھتےہوئے  روزہ رکھنابہ نسبت دیگرایام  کےزیادہ آسان ہو تواس کےلیے روزہ رکھ لیناہی افضل ہے ،اوراگراس کےلیے روزہ رکھنا مشقّت انگیز ہو اورحالات روزہ نہ رکھنےکامتقاضی ہوں  تواس کےلیے روزہ نہ رکھناہی  افضل   ہے ۔
عام روایات کودیکھتےہو‏ئے آخری قول ہی راجح  اورقرین قیاس ہے ۔ والله أعلم بالصواب وهوالهادي  إلى سواء السبيل ۔
******




 [1]  البخاري : كتاب الصوم /34 باب إذاصام أياماًمن رمضان ثم سافر(4/180) مسلم : كتاب الصيام/15 باب جوازالصوم والفطرفي شهررمضان للمسافر (2/784) أبوداؤد: كتاب الصوم /42 باب الصوم في السفر(2/794) النسائي : كتاب الصيام /60 الرخصۃ للمسافرأن يصوم بعضاًويفطر بعضاً (4/189) ابن ماجہ : كتاب الصيام /10 باب ماجاءفي الصوم في السفر(1/531)
و  أحمد(1/244 , 350)
[2]    البخاري : كتاب الصوم /36 باب قول النبي صلى الله عليہ وسلم لمن ظلل عليہ واشتدالحر " ليس من البر الصوم في السفر "(4/183) مسلم : كتاب الصيام/15 باب جوازالصوم والفطرفي شهررمضان للمسافر(2/786) أبوداؤد: كتاب الصوم /43 باب اختيارالفطر(2/796)النسائي : كتاب الصيام /47 العلۃالتي من أجلها قيل ذلك ......(4/175) أحمد (3/299 ,317 , 319 , 352 , 399)
[3]    مسلم : كتاب الصيام/15 باب جوازالصوم والفطرفي شهررمضان للمسافر(2/785) الترمذي : كتاب الصوم /18 باب ماجاء في كراهيۃالصوم في السفر(3/89)
 [4]   النسائي : كتاب الصيام /53 ذكرقولہ" الصائم في السفركالمفطرفي الحضر" (4/183) ابن ماجہ : كتاب الصيام /11 باب ماجاء في الإفطارفي السفر(1/532) تاريخ بغداد(11/383) علامہ البانی نےاس روایت کوضعیف قراردیاہے ، دیکھئے : سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ /رقم 498(1/505) وضعیف سنن ابن ماجہ / رقم   365   (ص 128)
 [5]   أبوداؤد: كتاب الصوم /43 باب اختيارالفطر(2/796)النسائي : كتاب الصيام /50 ذكروضع الصيام عن المسافر ....(4/180)  الترمذي : كتاب الصوم /21 باب ماجاء في الرخصۃفي الإفطارللحبلى والمرضع (3/94) ابن ماجہ : كتاب الصيام /12 باب ماجاء في الإفطارللحامل والمرضع (1/533)  و أحمد (4/347)
 [6]   البخاري : كتاب الصوم /33 باب الصوم في السفر والإفطار(4/179) مسلم : كتاب الصيام/17 باب التخييرفي الصوم والفطرفي السفر(2/789) أبوداؤد: كتاب الصوم /43 باب الصوم في    السفر(2/793)   الترمذي : كتاب الصوم /19 باب ماجاء في الرخصۃ في السفر(3/91)  النسائي : كتاب الصيام /58 ذكرالاختلاف على هشام بن عروة فيہ (4/187) ابن ماجہ: كتاب الصيام /10 باب ماجاء في الصوم في السفر (1/531)  و أحمد (3/494) و (6/46 , 93 ,202 ,207)
[7]   مسلم : كتاب الصيام/15 باب جوازالصوم والفطرفي شهررمضان للمسافر ....(2/786)  أبوداؤد: كتاب الصوم /42 باب الصوم في السفر(2/795)  الترمذي : كتاب الصوم /19 باب ماجاء في الرخصۃ في السفر(3/92)  النسائي : كتاب الصيام /59 ذكرالاختلاف على أبي نضرة المنذر......(4/188)
  [8]  مسلم : كتاب الصيام/15 باب جواز الصوم والفطر.......(2/787) النسائي : كتاب الصيام / 59 ذكرالاختلاف على أبي نضرة المنذر......(4/188) أحمد (3/316)
[9]    البخاري : كتاب الصوم /38 باب من أفطرفي السفرليراه الناس (4/186) ) مسلم : كتاب الصيام/15 باب جوازالصوم والفطرفي شهررمضان للمسافر(2/784) النسائي : كتاب الصيام /61 الرخصۃ  في الإفطارلمن حضرشهررمضان فصام ثم سافر(4/189)
 [10]  دیکھئے : صحیح بخاری ( 8/3) نیزامام مسلم نےبھی اس کی صراحت کی ہے ، دیکھئے : صحیح مسلم   ( 2/785)
  [11]   تفصیل کے لئےدیکھئے : صحیح مسلم ( 2/787 – 788 )  
[12]     مسلم : كتاب الصيام/17 باب التخييرفي الصوم والفطرفي السفر(2/790 )  النسائي : كتاب الصيام /57  ذكرالاختلاف على عروة في حديث حمزة فيہ (4/186)  و   أحمد (3/494)
[13]      دیکھئے : سلسلہ ضعیفہ /رقم  498 (1/505)                            
[14]     السنن الکبری ( 4/244)
   [15]  التلخیص  الحبیر ( 2/205)
  [16]  أبوداؤد : كتاب الصوم /44 باب من اختارالصيام (2/798)
 [17]    دیکھئے : تقریب التھذیب ( ص213)
 [18]    تحفۃ الإخوان ( ص 161)