اتوار، 6 مئی، 2018

عورت کاسفر


عورت کےتنہا سفرکرنےمیں ہزاروں قباحتوں اوربےشمارخطرات اور  مضرات کے پیش اس کے تنہاسفرکوممنوع قراردیاگیاہے، اس لیےضروری ہے کہ سفرمیں اس کے ساتھ کوئی محرم ہو ، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسےمروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا : "لاتسافر المرأة ثلاثة أيام إلا مع ذي محرم"[1] " عورت تین دن کی مسافت کاسفرتنہانہ کرےالاّیہ کہ اس کےساتھ کوئی محرم ہو " ایک دوسری روایت میں اس بات کی وضاحت ہےکہ ایک دن سےزیادہ کےسفرمیں شوہریامحرم کی رفاقت ضروری ہے ، ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، وہ فرماتےہیں کہ ، اللہ کےرسو ل صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا: "لايحل لإمرة تؤمن بالله واليوم الآخرأن تسافرمسيرة يوم وليلة ليس معها حرمة"[2] " کسی عورت کےلیےجواللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے یہ جائز نہیں کہ ایک دن اورایک رات کا سفر بغیر محرم کے کرے"۔ ایک دوسری روایت میں عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سےمروی ہے کہ اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: "لاتسافر المرأة إلامع ذي محرم، ولايدخل عليها رجل إلا ومعها محرم" فقال رجل: يارسول الله! إني أريد أن أخرج  في جيش كذا وكذا وإمرأتي تريد الحج، فقال: "اخرج معها" [3]" کوئی عورت محرم کےبغیرتنہاسفرنہ کرے اوراس سےتنہائی میں کوئی اجنبی مردنہ ہوالایہ کہ اس کےساتھ کوئی محرم ہو " ایک آدمی نےکہا : اے اللہ کے رسول ! میں فلا ں جنگ میں جاناچاہتا ہوں اورمیری بیوی حج کاارادہ رکھتی ہے ( تومیں کیاکروں ؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا  : "اپنی بیوی کےساتھ جاؤ ".اورابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی روایت  ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا: "لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر سفراً يكون ثلاثة أيام فصاعداً، إلا ومعها أبوها، أو ابنها، أو زوجها، أو أخوها، أو ذو محرم منها"[4] "اللہ اورقیامت کےروزپرایمان رکھنے والی کسی عورت کےلیےیہ جائز نہیں کہ تین دن یااس سےزیادہ کاکوئی بھی سفرکرے،الایہ کہ اس کے ساتھ اس کاباپ ،یااس کابیٹا، یااس کاشوہر، یااس کا بھائی، یااس کاکوئی ذومحرم ہو" ۔
ذومحرم کی تعریف
لغوی تعریف : المَحْرَمُ :یعنی حرام، کہاجاتاہے:اس کاذومحرم: یعنی جس سےاس کانکاح جائزنہیں ہے[5] ۔ 
اصطلاحی تعریف : ابن الاثیرکہتےہیں : "ذو المَحْرم: من لا يحل له نكاحها من الأقارب وكالأب والابن والأخ والعم ومن يجري مجراهم"[6] "ذوالمحرم:ان رشتہ داروں کوکہتےہیں جن سےنکاح جائزنہیں ہے، جیسے: باپ ،بیٹا،بھائی ، چچااوران جیسےلوگ"۔
ابن قدامہ کہتےہیں:"المَحرمُ: زوجهاأومن تحرم عليه على التأبيد بنسب أوسبب مباح كأبيها وابنهاوأخيهامن نسب أو رضاع"[7] "محرم عورت کاشوہرہوتاہے،یاایسارشتہ دارجونسب یاکسی جائزسبب کی بنیادپرہمیشہ ہمیش کےلیےاس پرحرام ہو، جیسے:اس کاباپ اوراس کابیٹااوراس کابھائی نسبی ہوخواہ دودھ شریک ".
حافظ ابن  حجرفرماتےہیں:"محرمُ المرأة: من حُرم عليه نكاحها على التأبيد إلا أمّ الموطوءة بشبهة، والمُلاعنة، فإنهما حرامان على التأبيد، ولا محرمية هناك، وكذا أمهات المؤمنين، وأخرجهن بعضهم بقوله في التعريف بسبب مباح، لا لحرمتها، وخرج بقيد التأبيد أخت المرأة وعمتها وخالتها وبنتها إذا عقد مع الأم ولم يدخل بها"[8] "عورت  کامحرم وہ ہے جس پراس سےنکاح کرناہمیشہ کے لیے حرام ہے،سوائےشبہاتی وطی شدہ اورلعان  شدہ کے کیونکہ یہ  دونوں یہاں پر بلاسبب حرمت کےحرمت ابدیہ میں سےہیں ،نیزامہات المؤمنین ، ان کوبعض لوگوں نےاپنی تعریف میں لفظ "سبب مباح "کےذریعہ   نہ کہ ان کی حرمت کی وجہ سےمستثنی کیاہے ۔ اسی طرح "ابدیت " کی قیدسےبیوی کی بہن (سالی ) اس کی پھوپھی ، اس کی خالہ اوراس کی بیٹی جب ماں کےساتھ عقدکیاہواوراس کےساتھ جماع نہیں کیاہونکل جاتی ہیں" ۔
 علامہ ابن بازفرماتےہیں: "المَحْرَمُ :هو الرجل الذي تَحْرُمُ عليه المرأة بنسب كأبيها وأخيها أوبسبب مباح كالزوج وأبي الزوج وابن الزوج،والابن من الرضاع والأخ من الرضاع ونحوهم" [9] . "محرم : وہ آدمی ہے جس پرعورت نسب کی وجہ سےحرام ہوتی ہے، جیسے: اس کاباپ اوراس کابھائی ، یاکسی مباح وجائزسبب کی وجہ سے، جیسے: شوہر، سسر،شوہرکابیٹا،رضاعی (دودھ شریک) بیٹا، دودھ شریک بھائی اوران جیسےلوگ "۔
سفرمیں بیویوں کےدرمیان انصاف
بیوی کوسفرمیں ساتھ رکھنا مستحب ہے ، اوراگرکسی کےپاس  ایک سےزیادہ بیویاں ہوں تو ان کے درمیان قرعہ اندزی کرکےجس کےنام کاقرعہ نکلے اسےساتھ لےجائے ، عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے ، وہ فرماتی ہیں: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أراد سفراً أقرع بين نسائه فأيّتهن خرج سهمها خرج بها معه" [10]" اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  جب سفرکاارادہ کرتےتواپنی بیویوں  کےدرمیان قرعہ اندازی کرتےتوجس کانام نکلتااپنےساتھ  لےجاتے"۔



[1]  البخاري : كتاب تقصيرالصلاة /4باب في كم يقصرالصلاة .... (2/566) وكتاب الصوم / 67باب صوم يوم النحر (4/240  عن أبي سعيد الخدري  , وفيہ:" مسيرةيومين ) مسلم : كتاب الحج 74 باب سفرالمرأة مع محرم إلى حج وغيره (2/975) الترمذي : كتاب الرضاع /15 ماجاءفي كراهيۃ أن تسافرالمرأة وحدها (3/472)ابن ماجہ: المناسك /7 باب المرأة تحج بغيرولي (2967 عن أبي سعيد الخدري ) أحمد (1/222 عن ابن عباس   یہ روایت   مسندمیں مختلف صحابہ کرام سےتقریباّ پچیس جگہوں پرمنقول ہے  ) الدارمي (2/200  عن أبي سعيد الخدري ) وابن حبان (4/174)
[2] البخاري : كتاب تقصيرالصلاة /4باب في كم يقصرالصلاة .... (2/566) ومالك في المؤطا : كتاب الاستئذان /14باب ماجاءفي الوحدة في السفر للرجال والنساء (2/979)
[3]  البخاري : كتاب جزاءالصيد /26باب حج النساء (4/72) وكتاب الجهاد /140 باب من اكتتب في جيش فخرجت إمرأتہ حاجۃ.....(6/142)  وفيہ/181 باب كتابۃ الإمام الناس (6/178) وكتاب النكاح /111 باب لايخلون رجل بإمرأةإلاذومحرم والدخول على المغيبۃ(9/330) مسلم : كتاب الحج /74 باب سفرالمرأة مع محرم إلى حج وغيره (2/975) وأحمد(1/222)
[4]   مسلم  : كتاب الحج / باب سفرالمرأة مع محرم إلى حج وغيره /رقم  (1339)
[5]  دیکھئے : مختار الصحاح   ( 1/ 56 )
[6]  دیکھئے : النهايۃ   ( 1/377)
[7]   دیکھئے : المغني  (2/32 )
[8] دیکھئے : الفتح  ( 9/ 332)
[9] دیکھئے  : الفتاوى ( 8/ 336) اور: مجلۃ الدعوة  /نمبر  1497  
[10]  البخاري : كتاب الهبۃ/  باب هبۃالمرأةلغيرزوجها رقم( 2593 ) والشهادات /15 باب تعديل النساء بعضهن بعضاً 5/332 وباب القرعۃ في المشكلات 5/360 والجهاد والسير /64 باب حمل الرجل إمرأتہ في الغزو دون بعض نسائہ 6/95 والمغازي /34 باب حديث الإفك 7/538 ومسلم : كتاب فضائل الصحابۃ / 13 باب فضائل عائشۃ رضي الله عنها /رقم( 2445) وأحمد /رقم (25782  ,24313  )

کوئی تبصرے نہیں: