بدھ، 9 مئی، 2018

مقیم ومسافرکا ایک دوسرے کی اقتداکرنےکامسئلہ


    مقیم کےمسافرکی اقتداکرنےکامسئلہ        
مقیم مسافرکی اقتداکرسکتاہے ، مسافردورکعتیں پڑھ کرسلام پھیردےگااور مقیم  اپنی چاررکعتیں پوری کرلےگا ، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ  سےمروی ہے ، وہ فرماتےہیں:’’ماسافررسول الله صلى الله عليه وسلم سفراً إلاصلى ركعتين حتى يرجع  وإنه أقام بمكة زمن الفتح ثمان عشرة ليلة يصلي بالناس ركعتين ركعتين إلا المغرب ثم يقول: ’’يا أهل مكة قوموا فصلواركعتين أخريين فإنا قوم سفر‘‘ [1]  "اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےجوبھی سفرکیااس میں دورکعتیں ہی اداکیا، یہاں تک کہ سفرسے واپس آگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفتح مکہ کےوقت مکہ میں اٹھارہ دنوں تک قیام کیااورلوگوں کومغرب کےسوا دیگر نمازوں کو دو دو رکعتیں پڑھاتے، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم (سلام پھرنےکے بعد)  فرماتے:" اےاہل مکہ کھڑےہوجاؤ اور آخری  دو رکعتیں پوری کرلواس لیےکہ ہم مسافرہیں "۔
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ  : عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ جب مکہ تشریف لاتےتواہل مکہ کودررکعتیں پڑھاتےپھر فرماتے : "يا أهل مكة أتموا صلاتكم فإنا قوم سفر" [2]  "اےمکہ والوں تم  لوگ اپنی نمازیں مکمل کرلو اس لیےکہ ہم مسافرہیں " ۔
مسافرکےمقیم کی اقتداکرنےکامسئلہ
       اس مسئلہ کےاندرعلماءکےمختلف اقوال ہیں   :
1- مسافرمقیم کی اقتدانہیں کرسکتاہے ، داؤد ، شعبی ،قاسم ، ھادی اورطاؤس وغیرہ اسی کی طرف  گئے ہیں  [3] ۔
دلیل  : اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان: "لاتختلفوا إمامكم" [4]  "اپنےامام کی مخالفت مت کرو"۔
وجہ استدلال : اگرمسافرمقیم کی اقتداکرتاہے تو عدد اورنیت دونوں میں اختلاف ہوجائےگا ۔
2 - مسافرمقیم کی اقتداکرسکتاہے ، شوافع اوراحناف اسی کی طرف گئےہیں ۔
دلائل :
1 –  نافع کہتےہیں کہ : "كان ابن عمر إذا صلى مع الإمام صلى أربعاً وإذا صلى وحده صلى ركعتين" [5]  "عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ (حالت سفرمیں ) جب (مقیم ) امام  کے ساتھ نماز پڑھتےتوچار رکعتیں پڑھتےاورجب تنہاپڑھتےتو دو رکعتیں  پڑھتے" ۔
2 – موسی بن سلمہ کہتےہیں کہ : ہم لوگ مکہ میں عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ کےساتھ تھے، میں نےان سےکہا: جب ہم آپ کےساتھ ہوتے ہیں تو چاررکعتیں پڑھتےہیں اورجب اپنےخیموں میں ہوتےہیں تودورکعتیں پڑھتےہیں  توانہوں نےفرمایا: "یہی ابوالقاسم ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سنت ہے"  [6]  ۔
3 – ابومجلز کہتےہیں کہ : میں نےعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سےپوچھاکہ : اگرمیں مقیم کی نمازکےساتھ ایک رکعت پاؤں توکیا کروں ؟  توانہوں نےفرمایا:" مقیم کی نمازپڑھو" [7]   ۔
اقتداکاطریقہ
مسافرکےمقیم کی اقتداکےطریقےسےمتعلق علماءکےمختلف آراءپائےجاتےہیں  :
1 -  عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہم ، تابعین کی ایک جماعت ، امام "ثوری ، امام اوزاعی ، امام شافعی ، ابوثوراوراصحاب الرائ رحمہم اللہ  اس بات کےقائل ہیں کہ اگرمسافرمقیم کی اقتداکرتاہے تواس پراتمام لازم ہے ،امام کےساتھ پوری نمازپائےخواہ کم  [8]  ان حضرات نے عبداللہ بن عمراورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکورہ  روایتوں کودلیل بنایاہےجن میں مقیم امام کےساتھ اتمام اورتنہاقصرکےساتھ نماز  پڑھنےکی صراحت ہے  ۔
2 – اسحاق بن راہویہ کہتےہیں کہ مقیم کےپیچھےمسافرہرحالت میں قصرکرےگا،  اگرماموم (مسافر) کی  نمازپوری ہوجاتی ہے توتنہاتشہدکرےگااورسلام پھیردےگااور امام  اپنی بقیہ نمازپوری کرےگا  [9] ۔
3 -  امام حسن بصری ، امام نخعی ، امام زہری ، امام قتادہ اورامام مالک ر حمہم اللہ  کہتےہیں کہ : اگرمسافرمقیم کے ساتھ  ایک رکعت پاتاہے تواتمام کرےگااورایک رکعت سےکم پاتا ہےتوقصرکرےگا  [10] ۔
یہ حضرات دلیل میں اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی مندرجہ ذیل  حدیث  پیش کرتےہیں:"من أدرك الصلاة ركعةً فقد أدرك الصلاة" [11]  "جس نے ایک رکعت  نمازپالی اس نےپوری نمازپالی "۔
پہلاقول شافعیہ وغیرہ کاراجح ہے کیونکہ  ان کےدلائل کےاندرصراحت ہےکہ یہی سنت ہے ، جس سےمسئلہ کا مرفوع ہوناثابت ہوتاہے ۔
اورامام نخعی وغیرہ کے پیش کردہ دلائل میں دراصل اس مسئلہ کی طرف اشارہ ہے جس میں ہے کہ اگرکسی نےجمعہ کی نمازایک رکعت پالی توگویااس نےجمعہ پالیایامغرب یافجرسےپہلےایک رکعت پالی توگویااس نےپوری نمازپالی ۔ [12]





 [1]    أحمد (4/431) البيهقي (3/157) اس کی سندمیں علی بن زیدبن جدعان  ضعیف ہیں ، لیکن حافظ ابن حجرنےترمذی کےحوالے سےنقل کیاہے کہ انہوں نےاس حدیث کےشواھدکودیکھتےہوئےاس کی تحسین کی ہے ،دیکھئے : التلخیص (2/46)
 [2]   مؤطا الإمام مالك :كتاب قصرالصلاة /6 باب صلاة المسافرإذاكان إماماًأوكان وراء الإمام (1/149) البيهقي(3/157) المصنف لعبدالرزاق (2/540) امام شوکانی رقمطرازہیں :" عمر کےاثرکی سندکےرجال ثقات ائمہ ہیں " دیکھئے: نیل الاوطار(2/402)
 [3]   دیکھئے : نیل الاوطار(3/189) والفتح الربانی ( 5/280)
[4]   اس معنی کی روایت بخاری : الاذان /74 (722)مسلم : الصلاۃ /19(411) میں " إنماجعل الإمام ليؤتم به فلاتختلفواعليه " کےالفاظ کےساتھ ہے  ۔            
  [5]  مسلم :كتاب صلاة المسافرين/2 باب قصرالصلاة بمنى (1/482) مؤطاالإمام مالك : كتاب صلاة المسافرين/4 باب  صلاة المسافر باب مالم يجمع مكثاً(1/148) و/5 باب صلاة المسافرإذاكان إماماًأوكان وراءالإمام(/149) البيهقي(3/157)
  [6]  مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین /1 باب صلاۃ المسافرین وقصرھا (1/479)  النسائی : کتاب تقصیرالصلاۃ /2 باب الصلاۃ بمکۃ (3/119)
 [7]    المصنف لعبدالرزاق (2/542)
 [8]    دیکھئے:  المغنی (2/284) الفتح الربانی (5/281)
 [9]     دیکھئے : المغنی (2/284) الفتح الربانی (5/281)
 [10]    دیکھئے : المغنی (2/284) الفتح الربانی (5/281)
 [11]   ابن ماجہ : كتاب الإقامۃ /91 باب ماجاء فيمن أدرك من الجمعۃ ركعۃ (1/356)علامہ البانی نےاس روایت کی تصحیح کی ہے ،دیکھئے : ارواء الغلیل (3/90) اورصحیح سنن ابن ماجہ/ رقم  921(1/185)
[12]    دیکھئے :  سنن ابن ماجہ: كتاب الإقامۃ/11 باب وقت الصلاة في العذروالضرورة (1/229) و كتاب الإقامۃ/91 باب ماجاء فيمن أدرك من الجمعۃ ركعۃ  (1/356)

کوئی تبصرے نہیں: