جمعرات، 29 فروری، 2024

نعمتِ خاص ہے اللہ رے قسمت میری

                       نعمتِ خاص ہے اللہ رے قسمت میری

 

  لكَ الحــــمدُ حــــمداً نستلذُّ به ذكــــــــراً       وإن كــنـتُ لا أحــــصي ثـنــــــاءً ولا شكـــــــــــــرا

             لكَ الحـــــمدُ حــــمداً طـيــباً يمــلأ السـما      وأقــــطارهـــــا والأرضَ والــبـــــــــرَّ والبـحــــــــــرا   

             لَك الحـــــمد مقــــــرونا بشكــرك دائـــــما        لَك الحمد في الأولى لك الحـمد في الأخرى

(میرے مولی! تیری ایسی حمدوتعریف ہے کہ جس سےہم  ذکر میں  لذت  پاتےہیں،گرچہ میں تیری ثنا ء اورتیرے شکر  کا احصاء نہیں کرسکتا ۔تیرے لئے ایسی بہترین اورپاک  حمد ہے جوآسمان کے تمام گوشوں کو اور زمین کی تری وخشکی(سارے خطوں) کو  بھردے۔شکر کے ساتھ تیری  دائمی حمدو تعریف ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تیری  ہی حمد وتعریف ہے)۔

جہاں مل گیاہے زماں مل گیاہے       مجھے بھی بلند آسماں مل گیاہے۔

 میری منجھلی   لخت جگر  عفراء بتول  سنابلینے کلیہ عائشہ صدیقہ للبنات  جوگابائی نئی دہلی سے  آج  فضیلت کی سند حاصل کرلی ہے ،یہ اللہ رب العزت کا  اپنے اس بندے کے اوپر اس کے جملہ احسانات واکرام  میں سے ایک ہے ،جس کے حصول پر کسی بھی  شخص کا خوش ہونا فطری ہے،چنانچہ اس نعمتِ خاص کے حصول پر  اہل خانہ کے ساتھ میرا دل بھی  خوشی سے بلیوں اچھل رہاہے: (رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ) (اے میرے رب ! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر بطورانعام کی ہیں اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے توراضی  رہےاور مجھے اپنی رحمت سے اپنےنیک بندوں میں شامل کر لے)۔

ماں باپ کے لئے  ان کی اولاد میں بیٹیاں خاص طور سے ہمیشہ ناتواں رہتی ہیں ، ان پر ادنی ذمہ داری کا بوجھ بھی ان کے لئے فکر کا سامان ہوتاہے گرچہ وہ  گھراور خاندان کی ذمہ داری کا نباہ مردوں سے زیادہ  اوراچھا کرتی ہیں ،پھرجب وہی بیٹیاں   مکلف کی گئی  کسی ذمہ داری کو اچھی طرح سے  ادا کرلیتی ہیں  تو ان کی خوشی کاٹھکانہ نہیں ہوتا ۔

سال رواں  کی ابتداء  میں میری بیٹی عفراء بتول کو  کلیہ کی طالبات  کی  نہایت ہی فعال تنظیم   ندوۃ الطالبات کی  امانت ونظامت  کی  ذمہ داری دی گئی تو اس کی والدہ نے بہت زیاد ہ تشویش کا اظہارکیا  ،لیکن چونکہ میں  خودجامعہ سلفیہ بنارس میں اپنی طالب علمی کے زمانہ میں اور مختلف اداروں میں وظیفہ کے دورمیں کئی سالوں تک  اس قسم  کی ذمہ داری کامیابی کے ساتھ نبھاچکا ہو ں تو انہیں میں نے اس کی افادیت اور ضرورت کا حوالہ دے کر  مطمئن کردیا ۔لیکن دوران سال میرے ایک عزیزکے ساتھ   ایسا حادثہ پیش آیا جس نے ان کے خدشات میں مزید  اضافہ کردیا ، اور ا‎س تشویش کا اظہار انہوں نے کئی بار کیا۔ ہمارے عزیز ہندوستان کے ایک بڑے دینی ادارے میں بعینہ اسی ذمہ داری کے مکلف تھے ، وہاں کے کسی استاد کے ناروا اور غیر اخلاقی رویہ کی وجہ سے طلبہ میں اشتعال پیداہوگیا ،اور اس معاملے میں عزیز موصوف   کی کوئی غلطی نہ ہونے اور بار بار اپنی صفائی پیش کرنے کے باوجود بادشاہ سلامت  کی  خودرائی   اور   لگاؤ بجھاؤ قسم کے لوگوں  کے ذریعہ ساری ذمہ داری ان پر ڈال   کر انہیں ایسے موڑپرلاکرکھڑا کردیا گیا جہاں سے اَن چاہےمنزل کی تلاش میں دوسراراستہ اختیار کرنے پر مجبور  ہونا پڑا ،یہ کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں تھی    ،اس حادثہ نے  بہت سارے لوگوں کےقلوب واذہان پر بڑا  اوربرا اثر چھوڑا ،جسےسن کر اوردیکھ کرعلاقےکے  بہت سارے لوگ دین ومنہج  سے بیزار ہوگئے اور مستقبل میں اپنے بچوں کو کسی دینی ادارہ میں  ڈالنے کی بجائے  صرف اور صرف عصری تعلیم کی ترجیح کی بات  کرنے لگے۔ واللہ المستعان ۔یہ سب باتیں سن کرکسی بھی شخص خاص طور سے اپنوں کا تشویش میں مبتلاءہونا بدیہی ہے۔

خیر اللہ کے فضل وکرم  اور کلیہ صدیقہ جوگابائی دہلی کے ذمہ داران  اور معلمین ومعلمات کے حسن انتظام  اور عنایتوں سے ہماری بچی بحمداللہ خیر وخوبی کے ساتھ کامیاب ہوکر نکلی ہے ۔ ہم اس کے لئے یہی نصیحت کرتے ہیں کہ :

  تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا       ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

سيروا إلى العلياء واقتادوا المنى       وامضوا إلى الإبداعِ دون توقف

(بلندیوں کی طرف بڑھیں ، آرزؤوں کو مہمیزدیں ، اور بغیر رکے تخلیقی صلاحیتوں کوپروان چڑھانے  کی کوشش میں  آگے بڑھتےرہیں )۔

اللہ رب العزت کے شکر وحمد کے بعد میں ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتاہوں جنہوں نے کسی بھی طور پر میری بچی
 کی کامیابی اور تعلیم وتربیت میں حصہ لیاہے، خصوصا أم عفراء  کا جن کی کوششوں ،محنتوں اور قربانیوں کی بدولت
 خوشی ومسرت کا یہ دن آیا ہے،درحقیقت عفراء  اور اس کی بہنوں کی کامیابی میں انہیں کی پوری محنت ولگن ہے ۔ فجزاھا
 اللہ خیرا في الدنیا والآخرۃ ومتعھا بالصحة والعافية۔
اس کی بڑی بہن عزیزہ زھراء بتول سنابلی  بھی خصوصی شکریہ کی مستحق ہے جوگزشتہ سال ہی مذکورہ کلیہ سےفراغت 
پاکراب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں زیرتعلیم ہے جس نےہرموڑ پر اس کی علمی رہنمائی کی ہے۔يوفقها الله لكل مايحبه
 ويرضاه ويحفظها ويرزقنا صلاحهاوبرها۔  
 کلیہ کے ذمہ داران ، اساتذہ اور معلمات کا  بھی  بہت بہت شکریہ جن کی بہترین تربیت اور محنت سے قوم کی بچیاں
 دینی تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ ہوکر خاندان اور قوم کی دینی خدمت کی اہل بنتی ہیں :۔

نَوالٌ جَزيلٌ يَنهِر الشكرَ وَالحَمدا          وَصُنعٌ جَميلٌ يوجِب النُصحَ وَالودّا

(ایک عظیم عطیہ  جو شکر اور تعریف سے شرابور ہے، اور نہایت ہی عمدہ کارکردگی  جو نصح  اور محبت کو مستلزم  ہے)۔

فجزاھم اللہ خیرا فی الدنیا والآخرۃ۔وصلی اللہ علی خیرخلقہ محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم۔

                                   

                                        (عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی )

                                                                       سعودی عرب

                                        17/8/1445ھ  موافق: 27/2/2024ء

 

qqqqqqqqqqqqqqq

ماحولیاتی تحفظ اوراسلام کی تعلیمات

 ماحولیاتی تحفظ اوراسلام کی تعلیمات                                  

  (عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی / سعودی عربیہ) مذہب اسلام پیار ،محبت ، الفت، رحمت ،شفقت تحفظ اور دفع مضرت والا دین ہے، نیز طہارت  ونظافت اور پاکیزگی اس کے اہم اورضروری تعلیمات میں سے ہیں ۔اس کے احکام ہر جگہ اور ہر زمانہ کے لئے مفید ومناسب  ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ   ایک آفاقی مذہب ہے  جس نے زمین  اور اس کی ہر شئی کی حفاظت  پر خصوصی توجہ  دی ہے ، اس کاتعلق اس پر بسنے والے انسان سے ہو ،چرند پرند اورچوپایوں سے ہو خواہ ماحولیات سے ۔  اللہ تعالی نے انسان  کی زندگی کے لئے ضروری اور فائدے مند جو کچھ بھی اس روئے زمین میں  پیدا کیا ہےوہ ماحولیات سے متعلق ہیں ،ہوا ،پانی ،، آگ ، مٹی ،زمین ،پہاڑ ،، فضا،  درخت ، پودے ،سمندر ، دریا، اور چرندو پرند وغیرہ بالواسطہ یا بلا واسطہ سب اس  کے اندر  داخل  ہیں  ،جن میں خصوصی اہمیت  کا حامل صاف ستھری آب و ہوا ہے،جو انسان کی زندگی کے لئے نہایت ہی اہم اور ضروری  عناصرمیں سے ہیں ۔ اور درحقیقت جب ماحولیات کی بات کی جاتی ہے تو اس سے عمومی مراد یہی دونوں ہوتےہیں ۔

ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں اورزندگی کے ہر لمحہ  میں اس سے آکسیجن پاتےہیں ،اگر لمحہ بھر کو بھی روئے زمین ہواسے خالی ہوجائے توخلقت کی حالت کیاہوگی ادنی خرد  بھی اس کا ادراک کرسکتی ہے  ۔

اور ماحولیات کا ایک اہم جزو صاف وشفاف پانی ہےجو  حیات انسانی کے لئے بنیادی حیثیت رکھتاہے، جس سے ہم اپنی پیاس بجھاتےہیں ، اپنے جانوروں کی پیاس بجھاتےہیں  اور اپنے کھیت وباغات کو سیراب کرتے ہیں یہ پانی پہاڑوں چشموں ،دریاؤں اور زمین کی تہہ سے ہمیں نصیب ہوتاہے ،اسی پانی سے سرزمین میں ہریالی چھاتی ہے درخت وپودے ہرے بھرے نظر آتے ہیں جہاں ہماری زندگی خوشرنگ گزرتی ہے یہ جنگل ،ہرےبھرےپہاڑ اور کھیت کھلیان سب اسی کی وجہ سےہیں  ۔اور یہ سمندر یہ دریااور تالاب جس سے ہمیں مچھلی کی شکل میں بہترین غذائیں نصیب ہوتی ہیں سب اسی کی وجہ سے ہیں ، اورانہیں سمندروں سےقیمتی اثاثے موتیوں کی شکل میں ہمارےگھروں اور جسموں کی  زیب وزینت  بڑھانے اور دولت وثروت کی نمو کےلئے حاصل ہوتےہیں ۔ 

چنانچہ یہ تمام چیزیں جو ہماری ضروریات زندگی اور ہمارےلئے فائدہ مند ہیں  انہیں  کو ماحولیات ،  پریاورن (पर्यावरण) یا عربی میںبيئة سے تعبیرکیاجاتاہے  جن کا  اور ان سے ہونے والے فوائدواہمیت  کا ذکر اللہ تبارک وتعالی نے قرآن کریم کے اندر کیاہے اور انسان کو ان کی حفاظت   کا حکم دیاہے اور  کسی بھی طرح سے انہیں ختم کرنے یا بگاڑنے سے منع فرمایا ہے ، فرماتاہے :(هُوَ الَّذِي أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لَّكُم مِّنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ يُنبِتُ لَكُم بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُونَ وَالنَّخِيلَ وَالأَعْنَابَ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُون).(وہی تمہارے فائدے کے لیے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے اگے ہوئے درختوں کو اگایا جسے  تم اپنے جانوروں کو چراتے ہواسی سے وه تمہارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے بےشک ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں اس میں بڑی نشانی ہے)۔(النحل/10-11)۔نیز فرماتاہے :(فَلْیَنْظُرِالْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖۤ اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآءَ صَبًّا ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا فَاَنْۢبَتْنَا فِیْهَا حَبًّا وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا وَّزَیْتُوْنًا وَّنَخْلً وَّحَدَآىِٕقَ غُلْبًا وَّفَاكِهَةً وَّاَبًّا مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ )۔ (انسان کو چاہئے کہ اپنے کھانے کو دیکھےکہ ہم نے خوب پانی برسایا پھر زمین کو اچھی طرح  پھاڑاپھر اس میں سے اناج اگائے اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجور اور گنجان باغات اور میوه اورگھاس بھی اگایا  تمہارے استعمال وفائدے کے لئے اور تمہارے چوپایوں کے لئے)۔(عبس/24-32)۔

چنانچہ جب ہم ماحولیاتی آلودگی (पर्यावरण प्रदूषण)  اور اس سے ہونے والے نقصانات کی بات کرتے ہیں تو  اس سے سب سے زیادہ جو عناصر متأثر ہوتےہیں ان میں ہوا اور پانی  ہیں۔ اور بنظرغائر دیکھاجائے تو دنیا میں گلوبل وارمنگ (Global Warming)  کی صورت حال کے لئے ماحولیات کی آلودگی بھی بہت حد تک ذمہ دار ہےجس کی طرف عالمی ادارۂ صحت  (W.H.O.)نے بارہا انتباہ کیاہے ۔ مذکورہ ادارہ کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا کی ننانوے فیصد آبادی ایسی  ہوا میں سانس لےرہی  ہے جس میں آلودگی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔اسی طرح ماحولیاتی آلودگی بارش اور اس  سے ہونے والی پیداوار پر بھی اپنا گہرا اور مضرت رساں اثر چھوڑتی ہے جس سے بارش کی  کمی    ہوتی ہے  اور  فصلیں متأثر ہوتی ہیں ۔ماحولیاتی آلودگی کا ہی اثر ہے کہ آج دریاکے دریا خشک  اور نہریں اورتالاب  بے آب پڑے ہوئے ہیں ۔یہی نہیں مختلف قسم کےخطرناک اورجان لیوا  اور ہلاکت خیزبیماریوں کے پھیلنے میں ماحولیات کے فساد کا بھی بڑا دخل ہے ۔  اسی طرح  گلوبن وارمنگ سے   خوراک اور توانائی کی سلامتی کو بھی خطرہ درپیش ہے۔ ماحولیات کی آلودگی اور فساد کا اثر صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں ہوتابلکہ اس کی چپیٹ میں کائنات کی ہر وہ چیزآتی ہے جس کے اندر نمووبالیدگی (Growth) ہے ۔جیسے  پرندے ،چوپائے  اور پیڑپودے وغیرہ ۔

ماضی کے مقابلے عصرحاضر کے ماحولیاتی ماہرین  سخت ترین خطرے کا انتباہ کرتے ہیں کہ  اگر ماحولیات کی حفاظت کےلئے پوری بیدار مغزی ، ہوشیاری ، اورتندہی کے ساتھ کوشش نہ کی گئی تو آگے زندگی بڑی دشوار ہونے والی ہے کیونکہ ماحولیات  کی خرابی نے انسان کے سامنے بہت بڑے  اور مشکل حالات پیش کئےہیں  اور اگر معاملہ ایسا ہی رہاتو وہ دن دور نہیں کہ زندگی کو آنے والے خطرات سے بچانا  بڑا مشکل اور چیلنجوں  بھراہوسکتاہے اوریہ سب انسان کی اپنی کرتوتوں کا نتیجہ ہوگا اور اگرایسا ہواتواس کا سبب صرف اور صرف انسان ہوگا کیونکہ خشکی  وتری سے لے کر ماحول وفضامیں خرابی کا سبب انسان کا خود اپنا عمل اور کرتوت ہوگا ۔اس لئےکہ  اس طرح کے کسی بھی فساد اوربگاڑکو روکنا ہماری اولین ذمہ داری بنتی ہے، ماحولیات کی حفاظت میں تھوڑابہت جو بھی ہوسکےاس میں اپنی ذمہ داری اور حصےداری کوادا کرنا ہماری اولین ذمہ داری بنتی ہے ۔خاص طور سے ہمیں چاہئے کہ  جنگلوں ، باغات اور درختوں کی حفاظت کے لئے کمر کس لیں اور حکومت اور ذمہ داروں کا ہرممکن تعاون کریں  ، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے :( وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ).(اورتم ایسے وبال سےبچو! کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے واﻻ ہے)۔(الانفال/25)۔

چنانچہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ماحولیات کی حفاظت سے متعلق سرجوڑ کر بیٹھیں اور ہرممکن وسائل کو بروئے کارلائیں جو ان کی حفاظت کے لئے کارگرہوں، ورنہ ماحولیات کی آلودگی اور اس کے تکدر کے ذمہ  دار ہم خود ہوں گےاورہماری اس غلطی کا خمیازہ   لاقدراللہ صرف ہمیں ہی نہیں ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑےگا۔

اسلام میں ماحولیات کی حفاظت کےلئے    بہت سارے اسباب ذکرکئے گئےہیں جنہیں اپنا کر ہم ماحول کو صاف وشفاف (स्वच्छ) بنا سکتےہیں :ان میں سے چند کا ذکر کردینا مناسب ہے :

پہلاسبب -شجرکاری: عالمی حرارت کو کم کرنے کا سب سے بہترین راستہ شجرکاری (یعنی نئے پودوں کو اگانا )ہے۔ پودے اور درخت کاربن ڈائی آکسائڈ (carbon dioxide)جذب کرلیتے ہیں اور ماحول میں اس کی مقدار کم ہوجاتی ہے۔ ہوا میں پھیلے  آکسیجن کے تناسب کو معتدل رکھنے میں پیڑپودوں کا نہایت ہی اہم رول ہوتاہے،بلکہ قدرت کے نظام  اور مخلوق کی طبیعت اورمزاج کے مطابق یہ درخت  دن کے وقت کاربن ڈائی آکسائیڈجذب کرکے آکسیجن پیدا کرتے ہیں جبکہ رات کے وقت اس کے برعکس  ہوجاتاہے،سوائے  بعض  درختوں کے جیسےپیپل اور نیم کے درخت یہ چوبیس گھنٹےآکسیجن پیدا کرتے ہیں  ۔

چنانچہ زیادہ سےزیادہ  نفع بخش پیڑ پودے  لگانا ماحولیات کی صحت اور آلودگی سے بچاؤکے لئے ضروری ہے ،ایک طرف  اس کی ہریالی سے ماحول صحیح ہوگااور انسان سے لےکر جانور تک کو صحت منداورنفع بخش غذائیں ملیں گی،نیزآلودہ ہوا  (pollution) کی صفائی  اور پانی کی قلت سے نجات کے علاوہ    اس کے دوسرے فوائدبھی  حاصل ہوں گے جن کا بیان اس فن کے ماہرین نے تفصیل کے ساتھ کیا ہے، تو دوسری طرف آدمی کے لئے  یہ کارخیر ثواب کا ذریعہ اور صدقہ بھی ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ"۔ "کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے، پھر اس میں سے پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھائےگاوہ اس کی طرف سے صدقہ ہے "۔(صحیح البخاری/2320 ،صحیح مسلم/553)۔اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " إِنْ قَامَتِ السَّاعَةُ وَفِي يَدِ أَحَدِكُمْ فَسِيلَةٌ، فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا تَقُومَ حَتَّى يَغْرِسَهَا فَلْيَغْرِسْهَ "۔"اگرقیامت قائم ہونے کو ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کوئی پودا ہو تو اگرقیامت قائم ہونے سے قبل اسے لگا سکتاہے توضرورلگائے)۔ (مسند الإمام أحمد: 3 / 183، 184، 191 مسند الطيالسي/ 2068، الأدب المفردللامام البخاری / 479  ،علامہ البانی نے صحیحۃ/9 کے اندر اس کی تصحیح کی ہے)۔

اس سےیہ بھی  معلوم ہواکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کےپہلے وہ انسان ہیں جنہوں نے اپنی امت کو شجرکاری پر ابھاراہے۔

دوسرا سبب -  ہر طرح کے اسراف سے بچا جائےجس سے  ماحول کی  ہر چیزکا  بحسب ضرورت استعمال ہوگا اور ان سارے اشیاء کی حفاظت ہوگی جو ماحول کی سلامتی کا سبب ہیں ۔ اللہ تعالی اسراف وتبذیر سے بچنے کا حکم دیتے ہوئے  ارشاد فرماتاہے :(ثُمَّ صَدَقْنَاهُمُ الْوَعْدَ فَأَنجَيْنَاهُمْ وَمَن نَّشَاءُ وَأَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِينَ)۔(پھر ہم نے ان سے کیے ہوئے سب وعدے سچے کیے انہیں اور جن جن کو ہم نے چاہا نجات عطا فرمائی اور حد سے نکل جانے والوں کو غارت کر دیا)۔(الانبیاء/9)۔

 اور اللہ تعالی فرماتاہے:(وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا)۔( اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا اراده کرلیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو (کچھ) حکم دیتے ہیں اور وه اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب کی) بات  ثابت ہوجاتی ہے پھر ہم اسے تباه وبرباد کردیتے ہیں)۔(الاسراء/16)۔اور اللہ تعالی فرماتاہے:(ولاتُبَذِّرْتَبْذِيرًاإنَّ المُبَذِّرِينَ كانُواإخْوانَ الشَّياطِينِ)۔(اور اسراف اور بیجا خرچ سے بچو بیجا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں)۔(الاسراء/26-27)۔ اور اللہ تعالی فرماتاہے:( وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ)۔(اور حد سے مت نکلو۔ بےشک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا)۔(الأعراف/31)۔اورامام ابن ماجہ نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، وہ وضو کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ کیسا اسراف ہے؟"، انہوں نے کہا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں چاہے تم بہتی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہو"۔(سنن ابن ماجۃ/425،علامہ البانی نے اسے حسن کہاہے،دیکھئے سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ/3292)۔

چنانچہ جب ہم کسی چیز کے استعمال میں حد سے تجاوز کرتے ہیں تو ہماری زندگی پر اور ماحولیات پر اس کا منفی اثر لازمی ہے ۔ معلوم ہونا چاہئے کہ  ہم جو گاڑیا ں استعمال کرتےہیں اس کے پٹرولیم سے خارج ہونے والےکیمیاوی مادےماحول کو خراب کرنے میں  کتنا اہم رول ادا کرتےہیں جس سے ہوا پانی  سب متاثر ہوتے ہیں ۔ اس لئے اس کے استعمال میں کسی بھی طرح کی  بے احتیاطی اور اسراف  سے بچاجائےتوماحولیاتی فساد میں خاطرخواہ کمی آئےگی ۔ جب مختلف توانائیوں کے استعمال میں(جو گلوبل وارمنگ میں اضافہ کرسکتے ہیں) اعتدال کی راہ اختیارکرتےہوئے کمی  کی جائے تو اس سے ماحولیاتی آلودگی کے خطرات کوکم کیاجاسکتاہے۔

اسی طرح  کھانے پینے کی اشیاء میں بھی اعتدال  اور ضرورت کا خیال رکھا جائے اور اسراف اوتبذیر سے پرہیزکیاجائے توصحت ومعاش کے ساتھ ساتھ ماحولیات پر بھی اس کا مثبت اثر لازما دیکھنے کو ملےگا  ۔کیونکہ کسی بھی چیز میں اسراف خاص طور سے ماحولیات کے  اندر  نقصان اور فساد وبگاڑ کا سبب ہوتاہے جیسے کیماوی مادوں کے حد سے زیادہ استعمال سے ہوائیں مسموم ہوتی ہیں ، الکٹرانک اور توانائی کے  آلات جیسے ہیٹر اور ایئرکڈیشنزوغیرہ کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے فضائیں آلودگی کا شکار ہوتی ہیں ،پانی کے بلا ضرورت استعمال سے  پانی کی قلت کا سامنا کرناپڑتاہے ، درختوں اور جنگلوں کو بلا ضرورت کاٹنے اور انہیں جلانے سے صحراپن (Desertification)  میں اضافہ ہوتاہے اور ماحولیات کے اندر آکسیجن وغیرہ کی کمی ہوتی ہے ، جس سے گلوبل وارمنگ کی صورت حال پیدا ہوتی ہے ۔معلوم ہوا کہ حدسےتجاوز اور اسراف ماحولیات کے فساد کے اسباب میں سے ایک بہت بڑا  اور بنیادی سبب ہے ۔

تیسراسبب- نظافت وصفائی کا خاص خیال رکھنا  :اسلام نے اس کی جانب خصوصی رہنمائی کی ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ "."طہارت نصف ایمان ہے"۔(صحیح مسلم /211)۔ بلاشبہ طہارت میں ہر طرح کی نظافت شامل ہے چنانچہ یہاں آدمی کو جسم اور کپڑوں کی صفائی اورنظافت کا حکم  بھی شامل ہے جس سے گھر ، سڑک اور دیگر مقامات کے اندر گندگی  ، بدبو اور ڈسٹ وغیرہ سے بچاؤ ہوگا ، بلکہ اسلام نے سڑکوں کی صفائی کو ایمان میں سے قراردیاہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"الإِيمانُ بضْعٌ وسَبْعُونَ، أوْ بضْعٌ وسِتُّونَ، شُعْبَةً، فأفْضَلُها قَوْلُ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وأَدْناهاإماطَةُ الأذَى عَنِ الطَّرِيقِ"۔"ایمان کےسترسےاوپر (یاساٹھ سے اوپر) شعبے (اجزاء)  ہیں۔ سب سے افضل جزو لاالہ الا اللہ  کا اقرار ہے اور سب سے چھوٹا کسی اذیت (دینے والی چیز) کو راستے سے ہٹانا ہے "۔(صحیح مسلم/35)۔

 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں کو صاف ستھرا اور پاک صاف رکھنے پر ابھاراہے،فرماتےہیں :" طَهِّرُوا أَفْنِيَتَكُمْ ، فَإِنَّ الْيَهُودَلَاتُطَهِّرُأَفْنِيَتَهَا"۔" اپنے آنگنوں کو پاک کرو کیونکہ یہودی اپنے آنگنوں کو پاک نہیں کرتے"۔ (المعجم الأوسط للطبراني/4057، علامہ البانی نے اسے حسن قراردیاہے،دیکھئے: سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ/236)۔ 

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ہماری سڑکیں اور گلیاں  کوڑےدان بنی ہوئی ہیں جگہ جگہ کوڑے کےڈھیر پڑے ہوئے نظر آئيں گے  ،جس سے بدبو پھیل کر ماحولیات کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی  ،ان سے ہلاکت خیز جراثیم پھیلتےہیں  جن سے مختلف قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ۔ اور اس سے زیادہ افسوس کی بات تویہ ہے کہ بعض جگہوں پر شہری انتظامیہ کی طرف سے کوڑے دان رکھے جانےاو ر ان کی سخت ہدایات  کے باوجود  ان کا استعمال کم ہی کیاجاتاہے اور کوڑے کرکٹ جہاں تہاں پھینک دئےجاتےہیں ۔

چوتھاسبب - حیوانی ثروت کی حفاظت کےذریعہ بھی اسلام نے ماحولیات کی حفاظت کی   ترکیب نکالی ہے، بلکہ اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے اس جانب خصوصی توجہ دی ہے ، اور اس ضمن میں  بہترین اور مثبت  اقدام کیاہے،چنانچہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی جانور کو بلا وجہ کے قتل کرنے سے منع فرمایاہے ، اسی طرح  کھیل کود وغیر ہ میں کسی جانور کو ہدف بنانے سے  منع فرمایاہے ۔دیکھئے : صحیح بخاری/5515 ، صحیح مسلم/1956-1957)۔

 واضح رہے کہ اسلام  میں کسی بھی جانور کو قتل کرنے کی صرف دووجہیں ہیں : اول : اس سے نفع حاصل کرنا مقصود ہو ،جیسے کھانے کے لئے ۔ دوم : دفع مضرت یعنی نقصان سےبچاؤ مقصود ہو ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" جس نے کسی گوریا، یا اس سے چھوٹی کسی چڑیا کو بلا وجہ مارا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سلسلے میں سوال کرے گا"۔ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! تو اس کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: "اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اسے ذبح کر کے کھائے اور اس کا سر کاٹ کر یوں ہی نہ پھینک دے" ۔(سنن النسائی /4450 ، 4354 ۔ علامہ البانی نے اسے حسن کہاہے،دیکھئے: سلسلة الاحادیث الصحیحة،/ 999، تراجع الالبانی 458 )۔

یہ تو  صرف ایک  گوریا کی بات ہے کہ اگر کسی  نے اسے بلا وجہ کے قتل کیاہےتواس سے اس کے متعلق سوال ہوگا   پھر بڑےجانورکا کیاحال ہوگا ؟۔

ان کے علاوہ  کھانے پینے ، اٹھنے ،بیٹھنے ، قضائے حوائج ،بات چیت  اور اسی طرح اشیاء کے استعمال اور ان کے اتلاف سے متعلق قرآن وسنت کے نصوص میں بیشمار تعلیمات اورآداب کا ذکر موجود ہے جو کسی نہ کسی طرح ماحولیات کے تحفظ میں اپنا تھوڑا بہت کردار ادا کرتی ہیں ۔

اس لئے  ماحولیات کو کسی بھی طرح کی آلودگی سے بچانا ہماری دینی وشرعی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ سماجی ومعاشرتی اورانسانی   ذمہ داری بھی ہے یہی اسلام کا نظام اور اس کی تعلیم ہے  ،جس نے اپنے تمام احکام کے اندر  مخلوق کی  ہرطرح کے فائدے اور  اس کی حفاظت  کا خاص خیال رکھاہے۔

اللہ تعالی ہمیں ہر طرح کے خیرکاخوگربنائےجو ہمارےلئے دنیا وآخرت دونوں جگہ کامیابی کا ذریعہ بنیں اور اللہ کے دیگر تمام مخلوقات کےلئے نفع بخش ہوں اور ہر طرح کی برائی اور شر وفساد سے بچائے ۔ آمین یارب العالمین وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم ۔

ماہنامہ فانوس جھارکھنڈ جنوری 2024                                                                                                               

******************                                                                                            

بدھ، 28 فروری، 2024

اسلام میں خاندان کی تعمیراور اس کے استحکام کی اہمیت

 اسلام میں خاندان کی تعمیراوراس کے استحکام کی اہمیت          

    خاندان انسانی  پرورش کا پہلا اور بنیادی گہوارہ  ہوتاہے، تعلیم وتربیت ، زبان وبیان ، ادب واخلاق  اورنفس وضمیرکی نشونما  میں  بطورنگراں   سب سےبڑا حصہ  اسی کا ہوتاہےچنانچہ خاندان کی بنیاد  جتنی مضبوط ہوتی ہے عمارت اتنی ہی  مستحکم  ہوتی  ہے اور جتنی کمزور ہوتی ہے عمارت اتنی ہی کمزور ہوتی ہےچنانچہ ہم دیکھتےہیں کہ عہد قدیم سے لےکر  عصرحاضر تک کسی بھی فردکے اخلاق  واطوار اور سلوک کے لئے خاندانی اطواروطرز کو میزان بنایاجاتاہے، کسی کی تعریف کرنی ہوتو اسے اس کےخاندان سے ملایا جاتاہے اور اس کی مثال دی جاتی ہے اورکسی کی برائی اورعیب جوئی کی جاتی ہے توبھی "کس خاندان کاہے ؟ " "فلاں خاندان سے لگتاہے" ،" اس کا خاندان ہی ایساہے" ، "خاندان کا اثر توپڑےگاہی "اور"خاندانی  اثریا وراثت ہے" جیسے طعنوں سے موسوم کیاجاتاہے۔
    خاندان معاشرے کا مرکزی  اوربنیادی حصہ ہوتاہے،  جواس کی تشکیل وتعمیر  کی پہلی اور بنیادی اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے، اور اسی پر اس کی شان وشوکت  قائم ودائم  ہوتی ہے اور اس کا درجہ بلند  وبالا ہوتاہے، ایک طرح سے خاندان معاشرے کے جسم کی مانند ہوتاہے جب خاندان صحیح اور قابل اطمینان ہو گا تو معاشرہ بھی مضبوط اور مستحکم ہوگا اور جب خاندان کے اندر فساد اور بگاڑ ہوگا تو معاشرے کے اندر بھی اس کا اثر پڑنا لازم ہے ۔ چنانچہ خاندان کا  معاشرے کے اہم ترین اجزاء میں سے ایک  ہونے کی وجہ سے مذہب اسلام  نے مسلم خاندان کی بہترین   تعمیر اور  اس کی تشکیل کو بہت زیادہ اہمیت دیتےہوئے اس کے لئے وسائل ترقی  واستحکام کا  خاص خیال رکھاہے ۔ 
خاندان جوڑے سےبنتاہے:
اللہ تعالی نے دنیا قوم سے اورقوم خاندان  کی ترکیب سے بنائی ہے اور خاندان کی ترکیب وتنظیم کی بنیاد بھی  جوڑے   پر رکھی ہے ، فرماتاہے: ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً﴾ ۔(النساء:1)۔ اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں)۔
پھر اللہ تعالی نے ہم ہی میں سے جوڑے پیداکرکے   ہمیں  جو بہت بڑی نعمت  سے نوازرکھا ہے اس کا احسان جتاتے ہوئے فرماتاہے: ﴿وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ﴾ (الروم: 21) ۔(اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی، یقیناً غور وفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں) ۔
اسلام سے قبل خاندانی حالت :
اسلام سے پہلے خاندان کی بنیاد زیادتی اور ناانصافی پر تھی، خاندانی نظام کا سروے سروا  اوراصل الاصول صرف مرد ہوتاتھا، ہر طرح کی خصوصیات اور فضائل کا حامل صرف مردتھا ، عورتوں کے حقوق ہر طرح سے مارےجاتےتھے ، وراثت میں ان کا حصہ نہیں ہوتاتھا، شوہر کی وفات  یا طلاق کے بعد بلاوجہ دوسری شادی  سے روک دی جاتی تھیں  ،اسی طرح  انہیں ثروت اورمال  سمجھاجاتاتھا چنانچہ مال ومتاع اورجانور کی طرح  ان کوبھی تقسیم کیاجاتاتھا،یہاں تک کہ بچیوں کی پیدائش کو عار سمجھاجاتاتھا ، اللہ تعالی اس کا نقشہ کھینچتےہوئے فرماتاہے:(وَإِذَابُشِّرَأَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّاوَهُوَ كَظِيمٌ * يَتَوَارَىٰ  مِنَ  الْقَوْمِ  مِنْ سُوءِ مَابُشِّرَبِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۗ أَلَاسَاءَ مَايَحْكُمُونَ)۔ ( النحل / 58)۔(ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہره سیاه ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹن محسوس کرنے لگتا ہے(وہ اپنے گمان کے مطابق )  اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لئے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے، آه! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں)۔
پھر اسلام نے آکر ان تمام جاہلی امورسے جو ظلم وتعدی پر مبنی تھے سختی سے روکا اور ہرایک کا جومبنی برانصاف حق بنتاہے اسے سختی سےلاگوکیا   جس کی  ساری تفصیلات سے   قرآن وسنت کے نصوص بھرےپڑےہیں ۔
 خاندان کے استحکام کےلئے اہل خانہ کے حقوق ضروری ہیں :
   جب اسلام آیا تو اس نے  خاندان کو قائم اور مستحکم کرنے اور اسے نقصان پہنچانے سے بچانےکےلئے اور خاندان کے ہر فرد کو اس کی زندگی میں اہم کردار کی نشان دہی کرتے ہوئے  اس کی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی بہترین اور مضبوط  تعلیم دی۔ اس نے عورتوں کو جاہلیت کی اس پستی سے نکال کر ماں بہن ، بیٹی اوربیوی کی حیثیت سے وہ تمام حقوق عطاکئے جن کا وہ حقدارتھیں ،تعلیم وتربیت ، تحفظ ، عفت وعصمت کی حفاظت    اور وراثت  ہر وسائل کے ذریعہ کبھی  انہیں مردوں کے مقابل کھڑا کیا تو کبھی مردوں سے زیادہ  بڑا مقام ومرتبہ دیا جو ایک خاندان کی تعمیر وترقی اور استحکام کے لئے بہترین ذریعہ اور وسیلہ ہے ، ان کی حیثیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:"النساء شقائق الرجال"۔" عورتیں(اصل خلقت اور طبیعت میں) مردوں ہی کی طرح ہیں "۔(سنن ابی داود/236 ،سنن الترمذی/113،علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔
چونکہ عورتیں گھراور خاندان میں عضو خاص کی حیثیت رکھتی ہیں اس لئے  اس کی ترقی ، امن وامان اور استحکام کےلئے ان کے حقوق کی مکمل رعایت ناگزیر ہے جس  کےبغیر  خاندان کی ترقی کا تصور ناممکن ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ان کے فضائل کے بیان کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کی مکمل رعایت کو بڑی اہمیت دی ہے ،چنانچہ ماں کی حیثیت سے جو مقام ہے اس کا بیان ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ  :ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: لوگوں میں سے حسنِ معاشرت (خدمت اور حسن سلوک) کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ نے فرمایا: "تمہاری ماں" اس نے کہا: پھر کون؟ فرمایا: "پھر تمہاری ماں" اس نے پوچھا: اس کے بعد کون؟ فرمایا: "پھر تمہاری ماں" اس نے پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: "پھر تمہارا والد"۔(صحیح البخاری/5971، صحیح مسلم/2548)۔
اور بیٹی وبہن کی حیثیت سے جو مقام ہے اس کے بارے میں  متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روایتوں  میں  مختلف الفاظ کے ساتھ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" جس کی تین بیٹیاں ہوں یاتین بہنیں ہوں یا دوبیٹیاں یا دوبہنیں ہوں  اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتاہو اور ان کے بارےمیں اللہ سے ڈرتاہو " بعض روایتوں میں ہے کہ:" یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائیں " اوربعض میں ہے:"یہاں تک کہ ان کی وفات ہوجائے"اوربعض میں ہے :"یہاں تک کہ ان کی شادی ہوجائے، تو وہ جنت میں جائےگا"، یا "وہ جہنم سے آڑبنیں گی "اوربعض روایتوں میں ہے  کہ :"آپ نے سبابہ(شہادت ) اور بیچ والی  انگلیوں کو ملا کرفرمایا کہ:" وہ میرے ساتھ  جنت میں  اس طرح ہوگا "۔(صحیح ابن حبان:2/190 شیخ البانی نے  صحیح الترغیب 1970، صحیح الجامع/5372 اور صحیحۃ/296 کے اندر ان سب کا ذکرکرکے انہیں صحیح قراردیاہے)۔
اور صحیح مسلم کے اندر انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے :"مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتَّى تَبْلُغَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ، وَضَمَّ أَصَابِعَه"۔" جس شخص نے دو لڑکیوں کی ان کے بالغ ہونے تک پرورش کی، قیامت کے دن وہ اور میں اس طرح آئیں گے۔" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ملایا۔(صحیح مسلم/2631)۔
اوربیوی کی حیثیت سے ان کے ساتھ سلوک کا بیان کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي"۔ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں"۔(سنن الترمذي / 3895 ، علامہ البانی نے اس کی تصحیح کی ہے دیکھئے:سلسلۃ صحیحۃ/285)۔
خاندان کی تعمیر  اور اسلام:
   خاندان چونکہ معاشرے کا سب اہم اور بنیادی اکائی ہوتا ہے اس لئےدین اسلام میں خاندان کی اہمیت  اس کے استحکام اور تعمیر پر خصوصی زور دیا گیا  ہے کیونکہ معاشرے کی ترقی، نشوونما اور استحکام کا انحصار بھی خاندان کے استحکام پر ہے۔ چنانچہ اسلام نے خاندان کی حفاظت وترقی اورتعمیرواستحکام کے لئے ضروری دینی ،معاشرتی اور   اقتدار واختیار تینوں محاور  اوربنیادوں  کی مکمل رعایت کی ہے ۔
بنابریں  اسلام نے خاندان کی تعمیروترقی اور استحکام وتحفظ کےلئے جن اصول  وقواعد اور کا ذکر کیاہے خاص طورسے موجودہ انارکی زدہ  اور تجدد پسند معاشرے کےلئے  بہت ضروری ہے ،ذیل میں ہم قرآن وسنت کی روشنی میں ان میں سے بعض  اصول کا مختصر بیان کرتے ہیں جنہیں اپنا کر اپنے خاندان اور معاشرے کو پرامن اور مستحکم اور مضبوط بنایا جاسکتاہے:
استحام خاندان میں تعلیم وتربیت کی اہمیت :
کسی بھی معاشرے اور خاص طور سے خاندان کی تعمیروترقی اور امن واستحکام میں تعلیم و تربیت کا بہت بڑا دخل ہوتاہے خاص طور سے شریعت اسلامیہ کے بنیادی اصول کی تعلیم کسی بھی خاندان اور معاشرے کی تعمیر کےلئے بہت ضروری ہے ،کیونکہ تعلیم ہی وہ اہم وسیلہ  ہےجس سے انسان کے اندر  صحیح اخلاق اور وقار کی نشو نما ہوتی ہے ، زندگی کا معیار بلند سے بلند ترہوتاجاتاہے ،خیر وشر کی پہچان ،نفع ونقصان  کےادراک  ، اسراف وقناعت کے فرق  ، صبر ورضا کی اہمیت ،  اور مقام ومرتبہ کے حصول کے ذرائع کی صحیح  پہچان  بھی اسی سے ہوتی ہےنیز اس کے ذریعہ  معاش کے حصول کے بہترین ذرائع میسرہوتے ہیں ۔تعلیم انسان کی ذہنی بیداری ، مثبت ومستحکم سوچ تجزیہ    تصفیہ اور غوروفکر   کی پروازکا اہم سبب بھی ہے ، یہی وجہ ہے کہ  وحی اول سے لے کر پوری نبوی زندگی میں تعلیم کی بڑی اہمیت رہی ہے اور ہر موقع سے مسلمانوں کو تعلیم پر ابھاراگیاہے ،قرآن وسنت کےبے شمار  نصوص اس  کی اہمیت کوواضح کرنے کےلئے کافی ہیں ۔
مستحکم خاندان کےلئےانتخاب زوجین   کی اہمیت :
اسلام نے ایک نیک اور صالح معاشرے کو قائم کرنے کے لئے شادی کے وقت سے ہی میاں بیوی کے اختیار کےلئے بہت ہی اہم ضابطہ بنایا دیاہے کیوں کہ خاندان کی کامیابی اور ترقی کے اسباب میں سے جوڑوں کا صحیح انتخاب  بہت ہی اہم ہے، تاکہ  خاندان اور معاشرےکےاندرمحبت والفت اور رحمت ورافت قائم ہوسکے، اوریہ  ایمان باللہ کے بعد ایک  خاندان کے لئے بہت  ہی اہم تحفہ ہے  اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:"تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَلِجَمَالِهَا، وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ"۔ " عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تم  دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کرو، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی" (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہو گی)۔( صحیح البخاری/5090 ، صحیح مسلم/1466)۔
یہاں پر اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےشادی اورنکاح  میں بیوی کے انتخاب و اختیارکےلئے دین اور اخلاق کوبہت زیادہ اہمیت دی ہے کیونکہ  اسی سے  خاندان کی  کشتی کے پتوارکومناسب اور مضبوطی کے ساتھ پکڑنے والا ملاح ملتاہے چنانچہ جب خاندان کی کشتی کا ملاح دینداراورصاحب اخلاق ہوگا توگھر اورخاندان اسی کی دکھائے راہ پرچلےگا اور استحکام واطمینان کا گہوارہ بنےگا۔ اور وہ خود کو جہنم سے تو بچائےگا ہی اپنے اہل وعیال کو بھی بچائےگاجیساکہ اللہ تعالی نے ارشادفرمایا:﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواقُواأَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا﴾ (التحريم: 6) (اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ)۔ چنانچہ جب اصل اوربنیاددینی اوراخلاقی اعتبار سے مضبوط ومستحکم ہوگی  تواس کے فروعات بھی اسی نہج پر انضباط اور استحکام سے مبرہن ہوگا اور آنے والی نسل  اس سے تربیت پاکر ایک صالح معاشرہ کی تشکیل میں بنیادی  حصہ دار بنےگی ۔
چنانچہ اپنی اولادکے لئے جب مناسب اور دیندار رشتہ ملےاس سےشادی کےلئےمنع کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہئے،بلکہ ایسا نہ کرنامعاشرے میں بگاڑاور فساد کا سبب بھی بن سکتاہے،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:"إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ"۔" جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہو گا"۔( سنن الترمذی /1084، سنن ابن ماجہ/1967، علامہ البانی نے ارواء الغلیل(1668) اور صحیحۃ (1022) کے اندراس کوحسن کہاہے)۔ 
ایک آدمی نے امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کہاکہ : میری بیٹی کےلئےکچھ لوگوں نے پیغام نکاح بھیجاہے،میں ان میں سے  کس کوترجیح دوں ؟ تو انہوں نے فرمایا:جو اللہ سے ڈرے اسے ترجیح دو، کیونکہ اگر وہ اس سے محبت کرےگا تو اس کی عزت وتکریم کرےگا اور اگر اس سے ناراض ہوگا تو اس پر ظلم کرنے  سےبچےگا۔
والدین کی ذمہ داریاں :
یہ اچھی طرح جان لیناچاہئے  کہ خاندان کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل نسل کی پرورش میں والدین کا  بہت بڑا کردار  ہوتاہے۔چنانچہ بچوں کی شادی کے بعد والدین کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں کیونکہ یہ جوڑا بالکل نیا ہونے کی  وجہ سے دنیا کے سرد وگرم سے بالکل انجان ہوتاہے اور نئی زندگی ہرموڑ پر رہنمائی کی محتاج  اور ضرورت مند ہوتی ہے ، اس موقع سے تھوڑی سی بےاحتیاطی بھی خاندان کے انتشار اورفتنہ وفساد کا سبب بن سکتی ہے،اور اس لئے بھی مردوعورت ہرایک  کے اوپر گھر کے تمام افراد کی  ذمہ   داری بنتی ہے کہ اسلام نے انہیں اس پر مکلف کیاہے  اور ہر ایک کی ذمہ داری متعین کردی ہے، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: " الرَّجُلُ في أهْلِهِ رَاعٍ وهو مَسْؤُولٌ عن رَعِيَّتِهِ، والمَرْأَةُ في بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وهي مَسْؤُولَةٌ عن رَعِيَّتِهَا"۔"مرد اپنے گھر کے معاملات کا افسر  اورذمہ دارہے اور اس سے اس کی رعایا  اور ذمہ داری کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی افسر اور ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا اورذمہ داری کے بارے میں سوال ہو گا"۔ (صحیح البخاری/2558،صحیح مسلم/1829)۔
  چنانچہ  گھراورخاندان کے بڑوں خصوصا والدین کے اوپر اپنی اولاد کی شادی کے وقت اور اس کے بعدچند ذمہ داریاں عائد  ہوتی ہیں ،جیسے:
- شادی میں مناسب انتخاب کے بعد والدین کےلئے ضروری ہے کہ اپنےبچوں کو ازدواجی زندگی کی تعظیم و احترام  کی طرف  رہنمائی کریں  ، کیونکہ  یہ وہی میثاق غلیظ اور مضبوط ومحکم عہدوپیمان اور  تعلق ہے جس  کا بیان اللہ تعالی نے اپنے فرمان کے اندر کیاہے،فرماتاہے: ﴿وَأَخَذْنَ مِنْكُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا ﴾ ( النساء: 21) (ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہد وپیمان لے رکھا ہے)۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"اتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ؛ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ .." ۔" تم لوگ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اس لئے کہ ان کو تم نے اللہ تعالیٰ کی امان سے لیا ہے اور تم نے ان کے ستر کو اللہ تعالیٰ کے کلمہ (نکاح) سے حلال کیا ہے"۔ (صحیح مسلم /1218) ۔
- اسی طرح میاں بیوی کو یہ بتائے کہ ازدواجی زندگی اور ایک خوشحال خاندان  کی کامیابی کی  بہترین کنجی  اللہ کا تقوی، حسن معاشرت اور ایک دوسرے کےتئیں  محبت اور احترام کا معاملہ اور تبادلہ ہے ، اللہ تعالی فرماتاہے:﴿وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾(النساء: 19) (ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو)۔نیز فرماتاہے: ﴿وَلاَ تَنسَوُاْ الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾(البقرة: 337)۔(اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے)۔اور اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا"۔" اور عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو "۔ (صحیح البخاری/5185،5186 صحیح مسلم /1468)۔اورایک جگہ فرمایا: "لَا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً؛ إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ "۔  "کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت سے بغض نہ رکھے۔ اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہے تو دوسری پسند ہو گی"۔(صحیح مسلم/ 1469)۔
- اپنے بچو ں کی  ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح پر تربیت کی جائے ،جن میں سے ایک ہے میاں بیوی کے درمیان  بھلائی اورخیر  پر مبنی معاشرت  اوراسی طرح  آپسی تعلقات ومعاملات  ، جیسے اچھی باتیں ، بہترین سلوک ،  ہمیشہ خندہ پیشانی  سے ملنا ،  بیوی پر اسراف سے بچتے ہوئے دل کھول کر خرچ کرنا ، میاں بیوی کا  ایک دوسرے کی چاہت کا خیال رکھنا وغیرہ اور  یہ سب امور اس لئے ضروری ہیں تاکہ  کامیابی  اور خوشی  قائم رہے جس سے گھرکے اندرسکون واطمینان  برقراررہےگا ، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے :﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ (النحل:97)۔(جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے)۔ 
- اسی طرح بیٹوں اوربیٹیوں کی  رضاء اورقناعت پر تربیت ضروری ہےاس لئے  کہ اللہ تعالی نے جوکچھ بھی بندوں کو دےرکھا ہےاس سے راضی اور اس پرقانع رہنا اللہ کی وحدانیت کا اقرارہے ، اللہ تعالی فرماتاہے: ﴿أهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ﴾ (الزخرف:32)۔(کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے ہی ان کی دنیاوی زندگی میں  ان کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے ممتازاور بلند  کررکھاہے)۔اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللهُ لَكَ تَكُنْ مِنْ أَغْنَى النَّاسِ"۔" اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم کردہ رزق پر راضی رہو، سب لوگوں سے زیادہ بے نیاز رہو گے"۔(سنن الترمذی/2305 ، سنن ابن ماجہ/4217، شیخ البانی نے صحیحۃ (930) کےاندراسے حسن کہاہے)۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ؛ وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ"۔" تونگری یہ نہیں ہے کہ سامان زیادہ ہو، بلکہ امیری یہ ہے کہ دل غنی ہو(یعنی آدمی دل کا دھنی ہو)"۔(صحیح البخاری/6446، صحیح مسلم/1051)۔
چنانچہ حقیقی اورمعتبربےنیازی  رضا،قناعت، استغناء نفس، دنیا سے عدم حرص اور دین  واخلاق کا حریص ہونا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتےہیں کہ بہت سارے لوگ دولت مند ہونےکے باوجود نفس کا فقیر ہوتےہیں ، خوب سے خوب تر دنیا کے حصول کی کوششوں میں لگے رہتےہیں جس سے مالداروں والی زندگی سے محروم رہتےہیں اور خوف وہراس سے پُرفقرومحتاجی والی زندگی ان کا مقدربن جاتی ہے ۔یہ چیزایک خاندان کی سلامتی اور اور اتفاق واتحادا ورباہمی تفاہم کے لئے بہت بڑی آفت ہے۔اس سے خاندان کی سلامتی تو مفقود ہوتی ہی  ہے اس کے افراد ایک دوسرے سے ذہنی اورمعاشرتی طور پر انحراف اور تفرق کاشکارہوجاتےہیں۔
شاعرکہتاہے: 
النَّفْسُ تَجْزَعُ  أَنْ  تَكُونَ  فَقِيرَةً    ** وَالْفَقْرُ خَيْرٌ مِنْ غِنًى يُطْغِيهَا
وَغِنَى النُّفُوسُ هُوَالْكَفَافُ فَإِنْ أَبَتْ ** فَجَمِيعُ مَافِي الأَرْضِ لاَيَكْفِيهَا
(آدمی غریب  ومحتاج ہونے سےخوف کھاتاہے جبکہ غریبی  اس مالداری سے بہترہے جو اسے بگاڑدے۔ نفس کی مالداری تویہ ہے کہ اسے بقدرضرورت اساس زندگی میسرہوجائےورنہ  روئے زمین کی ساری دولت  بھی پالےتو وہ اس کےلئے کافی نہیں ہوگی۔)
- میاں بیوی کو یہ تعلیم  ضرور دیں کہ وہ صبر کو اپنا زیوربنائیں او ر ایک دوسرے کی غلطیوں پر چشم پوشی کریں  ، ایک دوسرے کے گھروالوں کی عیب جوئی سےبچیں  اور ان کےاحترام وتکریم کی ہر ممکن کوشش کریں ۔
خاندان کی تعمیر میں  اتحاد کی ضرورت :
خاندانی اتحاد واتفاق ایک مسلم معاشرے کےقیام کے لئے نہایت ہی اہم اور ضروری عنصرہے ،جس کے بغیر  نہ تو خاندان مستحکم ہوسکتاہے اورنہ ہی اس سے بنا معاشرہ  ۔ اتفاق واتحاد اور باہمی ہم آہنگی  کسی بھی خاندان اور  معاشرے کے لئے بہت بڑی نعمت ہے ،اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے: (وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا)۔(الانعام/103) ۔ (اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے)۔
خاندان کی تعمیر میں  شوری  کی اہمیت :
باہمی تفاہم اور مشورہ  کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے  حکومتی اورمعاشرتی سطح پر اس کی اہمیت وضرورت کی طرح کسی بھی خاندان کی حفاظت ، بھلائی  ، تنظیم  اور اس  کی ترقی اوراستحکام کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے ، اللہ تعالی مشورہ کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرماتاہے: (وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۪ وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰی بَیْنَهُمْ ۪ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ)۔(الشوری/38)  (اور اپنے رب کے فرمان کو قبول کرتے ہیں  اور نماز کی پابندی کرتے ہیں  اور ان کا (ہر) کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے، اور جو ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے (ہمارے نام پر) دیتے ہیں) ۔
آج کا بکھراخاندان :
آج کے  تجدد پسند لبرل  اور مغرب زدہ معاشرے کو دیکھ لیجئے آزادی اور حقوق کےنام پر کس قدر خاندان  کے خاندان انارکی ،بے راہ روی اور انتشار  کے شکارہیں   ،بچے بوڑے، مرد ، عورتیں  ہر کوئی اپنی دنیا میں مست ومگن ہے خصوصا نوجوان نسل اچھی تربیت کے نہ ہونے کی وجہ سے جنسی بے راہ روی کی عمیق تاریکیوں میں  گم ہے ،جس کی وجہ سے ہر جگہ ٹوٹے پھوٹے اوربکھرے خاندان نظرآتےہیں  ، کسی نے سچ کہاہے کہ  اگر اس کی  حقیقت معلوم کرنی ہوتو قیدخانوں، ہسپتالوں  ، بوڑھوں کے لئے بنےاداروں (اولڈہا‌ؤسز) اور کمزور وبےبس افراد کے گھروں میں جا کردیکھو۔
اللہ رب العزت ہمیں ہر طرح کے تناؤ اور بکھراؤ سے محفوظ رکھ  کر  ایک کامیاب اور مستحکم خاندان کی ترقی کا ذریعہ بنائے اور ہمارےسماج اور معاشرے کو پر امن ،نیک اور صالح معاشرہ بنادے اور ہمارے خاندان کو موتیوں کی لڑی کی طرح آپس میں جوڑے رکھے۔ وصلی اللہ علیہ خیرخلقہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم ۔

سہ ماہی مجلہ صدائے حق جھارکھنڈ (اکتوبر-دسمبر2023 تا جنوری - مارچ 2024               

****

بدھ، 20 دسمبر، 2023

ختنہ کا اسلامی تصوراور جسِم انسانی پر اس کے اثرات

ختنہ کا اسلامی تصوراور جسم انسانی  پر اس کے اثرات

      ڈاکٹراجئےکمار (بہارکے) معروف یورولوجسٹ Urologist (ماہرامراض تناسل بولی) ہیں جو یورولوجی سوسائٹی آف انڈیا اور انڈین میڈیکل  ایسوسیشن کےصدربھی رہ چکے ہیں ، انہوں نے اپنے  ایک انٹرویوں میں  مردوں  کے  ختنہ   circumcision  اور  اس سے ہونے والے فوائد اور موجودہ دور میں اس کی  ضرورت واہمیت  سے متعلق    مختصر لیکن جامع بات کی ہے ۔

مذکورہ انٹرویومیں ڈاکٹر موصوف نے  ختنہ کے جن فائدوں کا خصوصی طورپر  ذکرکیاہے وہ طب سے متعلق ہیں  ،انہوں نےاپنے تجربات کی بنیاد پر  واضح طورپرکہا کہ بسااوقات آدمی کے لئے کچھ ایسے طبی  حالات پیداہوجاتےہیں جن میں ختنہ ناگزیرہوجاتاہے۔ ڈاکٹرموصوف نے اس ضمن میں جن باتوں کی طرف رہنمائی کی  ان کا خلاصہ  کچھ یو  ں ہے :

بہت سارے بچوں میں ختنہ نہ کرنے کی وجہ سے  phimosis جسے عربی میں شَبَم   (یعنی چمڑی کا تنگ ہونا) کہتےہیں کی بیماری پائی گئی ہے،
جس کی وجہ سے کبھی کبھی  چمڑہ کے اندر گھاؤ یا پھر اس کے بندہوجانے یا بسا اوقات  پیشاب کرتے وقت  پیشاب کے قطرات کے اندر 
رہ جانے کی شکایت پائی جاتی ہے جو کسی  بڑی بیماری کا سبب بھی بن سکتےہیں ۔ اسی طرح بالغان کے  عضوتناسل کے چمڑے کےپھولنے اور پیشاب کا
 صحیح طریقہ  سے خارج نہ ہونے کی  پریشانی بھی درپیش ہوتی  ہے ۔خاص طور سے ان لوگوں کے اندر  جو ذیابیطس (شوگر)کی بیماری سے متاثر ہوتےہیں ،
 انفیکشن ،سوجن یا  سرخی  کی شکایت ہوجاتی ہے اور اس کے اندر سے چکنی رطوبت کا  اخراج بھی ہوتاہے جسے میڈیکل اصطلاح میں Esmegma کہا
جاتاہے، اگر ایسے لوگوں کو عضو تناسل میں ایک بار انفیکشن ہوگیا تو پھر وہ ختم نہیں ہوتاکیونکہ  ختنہ نہ کرانے کی صورت
 میں عضوتناسل کا اوپری حصہ  ہمیشہ ڈھکا رہتاہے جس سے  اس کے اندر ہوا کا گزرنہیں ہوپاتا، ایسی صورت میں  ایسے 
لوگوں کےلئے اطباء کی تخصیص کے مطابق ختنہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔
ڈاکٹر موصوف نےاپنی گفتگوکے درمیان جو  سب سے اہم بات بتائی وہ ہے ختنہ نہ کرانے کی صورت میں اگر عضوتناسل میں   Esmegma  اپنی جگہ بنالیتاہے
 تو دھیرے دھیرے  Penile cancer (عضوتناسل کا کینسر) کا سبب بن جاتاہے۔
ڈاکٹر موصوف نے یہ بھی بتایا کہ مسلم اور یہود قوم  میں  Penile cancer   کی شکایت نہیں ہوتی ،  جس کی وجہ یہ ہے  کہ ان دو مذاہب کے افراد  ختنہ کا اہتمام 
کرتے ہیں ، جبکہ  یہ معاملات    عام طور پر ہندؤوں کے اندر ملحوظ کئےگئے ہیں ، کیونکہ ان کے درمیان   کسی وجہ سے ختنہ سے دوری بنائی جاتی ہے ۔ ڈاکٹر کمار نے اس
 بات پر زور دیاکہ ختنہ کےلئے مذہب کو بیچ میں لانے سے پرہیزکرناچاہئے کیونکہ  ختنہ ایک   scientific (علمی وتجرباتی ) عمل ہے جس کا فائدہ واضح ہے ۔
حالانکہ ڈاکٹر صاحب نے لوگوں کو  مذہبی شعار  کی  بجائے  scientific  بنیادوں پر   ختنہ کرانے کا مشورہ دیا لیکن یہاں ایک بات واضح ہوکر آتی ہے کہ ختنہ کا  حکم  
اللہ تبارک وتعالی کا ایسا حکم ہے جو ہر فرد کے لئے دور رس اور  خصوصی فوائد کا حامل  ہے ۔

جیساکہ ڈاکٹرموصوف نے کہا بلا شبہ ختنہ     کا تصور اور اس پر عمل مذہب اسلام کے ساتھ بعض دیگر  قدیم مذاہب خصوصا یہودیت  میں  بھی پایاجاتاہے ، اور

 حالات  وتحقیقات نے انسان کے سامنے اس کے فوائد اور ضرورت کو  واضح کردیاہے ۔

      یہ   جان لینا چاہئے کہ ختنہ  کے طبی فوائد کے ساتھ ساتھ  اسلام اور یہودیت ہردومذاہب میں  اس کی شرعی حیثیت  بھی ہے ۔ اس کے علاوہ مسیحیت اور قدیم تمدن میں بھی اس کی حیثیت مسلم رہی ہے ۔یہودیت میں ولادت سے لے کرزیادہ سے زیادہ  سات دنوں  کے اندر ختنہ کردیاجاتاہے۔مسیحیت کے  عہدجدید میں  حالانکہ ختنہ کا مذہبی   تصور وتعامل  کے اعتبار سےکوئی شرعی   لزوم   نہیں رہا ہے  اس لئے کسی بھی گرجا یا مذہبی رہنما کی طرف سے  اپنے ماننے والوں کو اس کا پابندنہیں کیاجاتااور نہ ہی کرنے والوں کومنع کیاجاتاہے جو کسی  وجہ سے کرتےہیں ۔ حالانکہ عہد قدیم میں ان کے یہاں بعض کنیسہ  کی طرف سے مردوں کے لئے ختنہ ضروری قراددیاجاتا تھا ،بلکہ مسیحی لاہوت  کے نزدیک  کسی دور میں  ختنہ کا ایک ثقافتی پروگرام ہوا کرتاتھا۔ یہی وجہ ہےکہ آج کل مسیحی اکثریتی ممالک مثلا امریکہ ،فلپین، افریقہ ، شمالی امریکہ ، ایشیا اور مشرق وسطی  وغیرہ  میں مردوں کا ختنہ بڑے پیمانے پر رائج ہے، جبکہ مسیحی اکثریت والے یورپ ، لاتینی امریکہ اور  کیریبین (Caribbean  )  خطوں  کے مسیحیوں کے اندر اس کا رواج  بہت کم پایاجاتاہے،  البتہ ان کے یہاں ختنہ بطورنظافت کے ہے نہ کے بطور تطہیر۔(یہ معلومات  آزادویکیپیڈیا سے ماخوذہیں)۔

موضوع کی مناسبت سے ذیل کی سطور میں ہم مناسب سمجھتے ہیں  کہ   ختنہ کے اسلامی نظریہ اور اس کے احکام وفوائد سے متعلق 
مختصرگفتگوکی جائے ،کیونکہ برصغیرمیں  اسلامی تہذیب وثقافت  اور اس کے  احکام ونظام پر جو اعتراضات کئے
 جاتے ہیں  ان میں سے ایک مسلمانوں کا ختنہ
 کرانا  بھی ہے ، یہاں تک کہ بعض نفرت  پرست اور عداوت پسند افراد
کا ذہن اس معاملے میں اتنا مسموم ہوچکاہے کہ مسلمانوں کو اسی واسطے سے کٹوا جیسے الفاظ سے گالی دیتےہیں یہی نہیں
 ہندستان کے ایوان بالا تک میں اس لفظ کے ذریعہ  ذہنی دیوالیہ پن کاثبوت دیاگیا، چنانچہ ہر مسلمان کو  اس فطرتی شعار اور
 اس کے فوائد سے واقفیت ضروری ہے ۔
ختنہ کا اسلامی نظام واحکام :
اسلامی شریعت کے اندر ختنہ کو ایک فطرتی عمل قراردیاگیاہے ،  جسے سنن الفطرۃ  کا نام دیا جاتاہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ 
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" الفطرة خمس: الختان، والاستحداد، ونتف الإبط، وقص الشارب، 
وتقليم الأظفار"۔ "پانچ چیزیں فطرت سے ہیں، ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال بنانا، بغل کے بال صاف کرنا، مونچھ چھوٹی کرانا اور ناخن کاٹنا"۔ 
(صحیح البخاری/5889 ،  6297 وصحیح مسلم/257)۔ 
یہاں فطرت کا معنی ذکر کردینا مناسب ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ   شریعت میں ختنہ کے فطرتی ہونے کا کیامطلب ہے ؟ 
فطرت کا معنی خلقت جبلت اور ساخت ہے  ، نیز فطرت کا معنیٰ:طبعی حالت، دین، سنت، طریقہ، پیدائش اور وہ صفات  جس پر ہر موجود اپنی خلقت کے 
وقت ہوکا بھی ہے ۔ اسی طرح  امام ابن القیم ، امام ابن کثیر  اور امام شوکانی  وغیرہ نے فطرت کا معنی دین اسلام سے لیاہے، اوراکثر شارحین حدیث کے
 نزدنیک  مذکورہ حدیث  اور اس جیسی دیگر احادیث میں وارد فطرت سے مراد سنت ہے، جیسا کہ امام نووی نےصحیح مسلم کی شرح میں بیان کیاہے۔
  اسی طرح امام بیضاوی  نے بیان کیاہے کہ اس فطرت سے مراد سنت انبیاء سے جن کا کرنا تمام سابقہ شریعتوں میں  مشروع رہاہے ۔
(مزیدتفصیلات تفسیر  کی کتابوں میں شرح وبسط کےساتھ مذکورہیں ۔)
ختنہ کیاہے: 
ختنہ کہتےہیں: مرد کے آلہ تناسل کےگول دائری حصےکے اوپرکےزائدچمڑے کو کاٹنا۔ اورعورتوں کی اندام نہانی (vagina)  میں ایک مخصوص اوراہم جنسی  عضو 
(clitoris)کےظاہری حصےکو کاٹنا۔ مرد کے ختنے کو عربی میں إعذار  اور عورت کے ختنے کو خفض   کہاجاتاہے۔ 
عرب میں عام طورپر  ختنہ  کرانے کو "تطہیر " اور برصغیرمیں "سنت کرانا " بولاجاتاہے۔

بعض وحشی ممالک میں ختنہ کے نام پر  عضوتناسل کے  تمام چمڑوں کو چھیل دیاجاتاہے جو کہ سراسر خلاف سنت اور مختون کو تکلیف میں مبتلا کرنا ہے جبکہ شرعی

ختنہ صرف عضوتناسل کے اوپری حصے کے گول دائرے کے گرد  زائد چمڑے کوکاٹناہے ۔

ختنہ کب سے ہے:
روایتوں میں آتاہے کہ  ابراہیم علیہ السلام نے  کافی عمر گزرجانے کے بعد اسی (80) سال کی عمرمیں اپنا ختنہ کیاتھا،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"  اخْتَتَنَ إِبْرَاهِيمُ بَعْدَ ثَمَانِينَ سَنَةً، وَاخْتَتَنَ بِالْقَدُومِ"ابراہیم علیہ السلام نے اسی سال 
کی عمر میں ختنہ کرایا اور آپ نےبَسُولا  یا کلہاڑی سے ختنہ کیا"۔(صحیح البخاري /6298 وصحیح مسلم/2370)۔ 

قدوم کے کئی معانی بیان کئے گئےہیں,ایک قول کےمطابق  قدوم  شام یا سراۃ میں ایک جگہ کا نام ہےلیکن راجح قول کے مطابق بڑھئی کے لکڑی  کاٹنے کے آلہ کو  قدوم کہتےہیں ، جسے حافظ ابن حجرنے ابویعلی وغیرہ کی روایت سے استدلال کرتےہوئے راجح قراردیاہے، جس کے الفاظ ہیں :" أمِرَ إبراهيمُ فاختتنَ بقَدُوم فاشتدَّ عليه؛ فأوحى الله تعالى إليه: عجلتَ قبل أن نأمرَك بآلته قال: ياربّ كرهتُ أن أؤخّرأمرَكَ"۔ "ابراہیم علیہ السلام کو  ختنہ کا حکم دیاگيا تو انہوں نے بسولا سے اپنا ختنہ کرلیا،جس سے ان کو کافی تکلیف پہنچی  تو اللہ تعالی نے وحی کی کہ تم نے جلدبازی سےکام لیاہے  قبل اس کے کہ میں تجھے کسی ہتھیار کے بارے میں بتاؤں(   تم نے اپنا ختنہ کرلیا)۔ تو انہوں نے کہا کہ : اے  رب  ! تیرے حکم کو  مؤخر کرنا مجھے پسند نہیں تھا"۔ (دیکھئے:فتح الباری:6/390)۔

بعض مقطوع روایتوں میں آتاہے کہ ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے فردہیں جنہوں نے اپنا ختنہ کیا ، اسی طرح   ابن ابی الدنیا  ،ابن ابی عاصم اور  اورابن عساکرکی روایتوں میں بھی  ہے جن  کی تخریج علامہ البانی نے صحیحہ (725)کے اندر کیاہے اورحسن قراردیاہے۔(نیز دیکھئے:  التَّحبيرلإيضَاح مَعَاني التَّيسيرلمحمد بن اسماعیل الصنعانی:4/ 632)۔ نیز یہ بھی بیان کیاجاتاہے کہ  یہ ان آزمائشوں میں  سے ایک  تھا جن میں ابراہیم علیہ السلام کو مبتلا کیاگیاتھا  اور انہوں نے انہیں پورابھی کیاتھا،جس کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے فرمان میں کیاہے :( وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ) ۔(جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کئی باتوں سے آزمایا  اور انہوں نے سب کو پورا کردیا)۔  )البقرة/124)۔

امام بیھقی نے یہ بھی ذکرکیاہے کہ  اسماعیل علیہ السلام کا ختنہ تیرہ سال کی عمرمیں اور اسحاق علیہ السلام کا ختنہ  سات  دن میں ہواتھا۔ (السنن الکبری للبیھقی :17/ 513)۔ امام ابن القیم نے ذکرکیاہے کہ  ابراہیم علیہ السلام کے بعد بھی انبیاء کرام میں ختنہ جاری رہا یہاں تک کہ  عیسی علیہ السلام کا ختنہ بھی ہواتھا۔(دیکھئے:تحفۃ المودود/158) ۔

 اسلام میں ختنہ کاحکم : 

ختنہ کے حکم کے سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف پایاجاتاہے: شافعیہ  اور  حنابلہ  کے نزدیک  مردوں کاختنہ واجب ہے ،اسی قول کو امام ابن تیمیہ اورعلامہ ابن العثیمن  رحمھما اللہ نے اختیارکیاہے اور اسی کے مطابق سعودی عرب کی دائمی کمیٹی برائے فتاوی نے بھی اپنا   فتوی جاری  کیاہے ۔

جبکہ عورتوں کے حق میں ختنہ کی استحبابی صورت ہے جس کے قائلین حنفیہ اور مالکیہ ہیں  اور شوافع   وحنابلہ کا ایک قول بھی یہی ہے جسے امام شوکانی  ، ابن باز اور ابن العثیمین وغیرہم رحمھم اللہ نے اختیارکیاہے۔

 ختنہ کی مشروعیت کی حکمت :

خاص طور سے مردوں کے لئے ختنہ کی مشروعیت کی حکمت واضح اور مبرہن ہے کیونکہ پیشاب کے قطرات سے طہارت وپاکیزگی بغیرختنہ کےبہت ہی مشکل امرہے، کیونکہ ایسی صورت میں پیشاب کے قطرات چمڑوں کی تہہ میں جمع رہتے ہیں جو بدن اور کپڑادونوں  کی نجاست کا سبب ہیں ، یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ختنہ کے معاملے میں سختی برتاکرتے تھے یہاں تک روایت کی جاتی ہے کہ وہ کہاکرتےتھے کہ :"جس کا ختنہ نہیں  ہوا اس کا حج اور اس کی نمازمقبول نہیں" ۔(دیکھئے:المغنی لابن قدامہ:1/115)۔

اور عورتوں کےختنہ کی حکمت کےبارے میں کہاجاتاہے کہ  اس سے ان کے اندر کی شہوت کومعتدل کرنے میں مدد ملتی ہے ،  اس لئے کہ  غیرمختون  رہنے کی صورت میں  شہوت سے مغلوبیت کا شکا رہوجاتی ہیں ۔(دیکھئے : مجموع فتاوی الامام ابن تیمیہ :21/114)۔

صحت وطب کے اعتبار سے ختنہ کے فوائد:

جیساکہ مذکورہ سطور  میں صحت اور طب کے اعتبار سے ختنہ کےفوائد اور نہ کرانے کے نقصانات کے بارے میں ڈاکٹر اجئے کمار کی  باتیں گزریں ، ذیل میں ہم ان فوائد اور مزید فائدوں کا بالاختصار ذکر کردینا مناسب  سمجھتےہیں :

1 - ختنہ  نظافت اورپاکیزگی اختیار کرنے میں سہولت وآسانی کا سبب ہے۔

2 -  ختنہ کی صورت میں طہارت کی سہولت   کی وجہ سے آلہ تناسل میں انفیکشن سے بچاؤ ہوتاہے ۔

3 - پیشاب کی نلی میں انفیکشن  کے خطرہ میں کمی آتی ہے ۔متعددتحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ غیر ختنہ شدہ بچوں میں پیشاب کے
 نظام اور پیشاب کی نالی کا انفیکشن بہتعام ہے، اور کم عمری میں بچے کو شدید انفیکشن  کی وجہ سے  اس کے لئےگردے کے مسائل سمیت 
کئی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہےاور اگر انفیکشن زیادہ بڑھ جاتاہے تو مثانہ  کے اندر بھی  انفیکشن کا خطرہ رہتاہے ،جس سے پیشاب  کے
 مسائل بھی پیدا ہوسکتےہیں ۔

4 - ختنہ آلہ تناسل سے متعلق عمومی امراض سے بچاؤ   کا ذریعہ ہے جن میں  چمڑے میں کسی بھی طرح کے  مضر رطوبت کا  اخراج نیز اس میں سختی اور تناؤ  

بھی شامل ہیں  ۔

5 - ختنہ ایک بڑی بیماری  Penile cancer (عضوتناسل کا کینسر) سے بچاؤ ہے ۔

6 -  ختنہ آلہ تناسل میں خون جمنے کے عوارض سے بچاؤ ہے ۔

7 - ختنہ  جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن سےبچاؤ ہے ، کیونکہ ختنہ نہ ہونے کے سبب  عضوتناسل کے گردموجود اضافی جلد  بیکٹیریا (Bacteria)
 اور مختلف جراثیم  (Microorganism /  Germs) کے نشو ونما اور ان کی افزائش کا سبب بنتاہے جن کا  جنسی ملاپ (Sexual intercourse) 
کے وقت اپنے ساتھی کے اندر منتقل ہونے کا زیادہ خطرہ رہتاہے، کیونکہ مطالعات سے معلوم ہوا ہے کہ غیر ختنہ شدہ مردوں سے جنسی طور پر منتقل
 ہونے والی بیماریاں بہت حدتک  پھیلتی ہیں۔

8 - چونکہ حشفہ  (Glans penis  ) کے اردگرد اضافی چمڑے کی موجودگی اس کی صفائی اور نظافت  کے اہتمام کو کم کردیتی ہے نیز اس کی وجہ سے اس میں بیکٹیریا یا دیگر جراثیم  اور رطوبتیں  اس کے خلیات ( cells ) اور مردہ جلد کے اندر  جمع ہوتی ہیں ،اس لئے اس کے اندر بدبو وغیرہ  کاپیدا ہونا  بدیہی ہے  جس کا امکان  ختنہ کی وجہ سے   ختم ہوجاتاہے ۔

9 - عدم تطہیر کے سبب  آلہ تناسل میں پیداہونےوالے جراثیم اور بیکٹیریا  کی وجہ سے جنسی فعل کے بعد  ساتھی کے رحم کے اندر بھی کینسریا دیگر موذی امراض کے جنم لینے  کا امکان رہتاہے ،اس لئے ختنہ مستقبل میں   اس طرح کی  کسی بھی بیماری سے بچاؤکا ذریعہ ہے۔ اس طرح ختنہ نہ یہ کہ  خود آدمی کے لئے  مختلف بیماریوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے بلکہ اس کے  ساتھ  جنسی تعلقات  قائم کرنے والے  پارٹنرکے لئے  بھی احتیاطی بچاؤ کا سبب ہے ۔

10 -  جیساکہ ذکرکیاگیا ختنہ مختلف پھیلنے والی  جنسی بیماریوں سے بچاؤ کا ایک بہترین اوراحتیاطی  ذریعہ ہے جیسے  ہرپس    (Herpes) ، آتشک     (Syphilis) ، فنگس ( Fungus / Candida)  ، سوزاک ( (Gonorrhea ،گومڑی یا مَسّے ( (warts  اور  اَلسر  (Chancroid ) وغیرہ ۔

11- جدید تحقیقات سے یہ بھی پتہ  چلا ہے کہ  غیرختنہ شدہ افراد کے مقابلے میں  ختنہ شدہ افراد کے اندر ایڈز  (HIV/AIDS) جیسی مہلک بیماری کا خطرہ کم ہوتاہے ، اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ  مختون آدمی ایڈزکے خطرات سے کلی طور پر محفوظ ہوتاہے ، کیونکہ زنا ولواطت  اور اس بیماری میں مبتلا کسی فرد سے جنسی تعلقات ایڈزکے پھیلاؤ کے بنیادی اسباب میں سے ہیں  جس سے ختنہ شدہ اورغیر ختنہ شدہ افراد یکساں متاثر ہوسکتے ہیں ۔ یہاں  زنا ولواطت  سے متعلق اسلام  کے سخت نظام وقانون کے فلسفہ ،  حکمت اور اس  کی اہمیت  وضرورت کا پتا چلتاہے ۔

12 - ختنہ ایک فطری عمل ہے جس کا نہ کرانا فطرت کے خلاف جاناہے۔

13 -  ایک مؤمن کے لئے ختنہ کرانےکا سب سے بڑافائدہ  اللہ کی رضا وخوشنودی کا حصول ہے کیونکہ ایسی صورت میں   اللہ تبارک وتعالی  کے حکم کی فرمانبردای  اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت  واتباع   بجا لاتاہے۔

ایک اعتراض :

بعض حلقوں  کی طرف سے یہ  اعتراض کیاجاتاہے کہ جب ختنہ کرانا ہی تھا تو اللہ تعالی نے ختنہ کے ساتھ ہی انسان کو کیوں  نہیں پیدا کیا ؟

اس طرح کے اعتراضات  یا تو عناد پر ست عناصر  کی طرف سے وارد ہوتےہیں یا اللہ کے فرمان واحکام  کی حکمت سے نابلدی کی بنیاد پر ۔ ایک مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کا جوبھی حکم ہوتاہےوہ بلا وجہ نہیں ہوتا ،  اس کے اندر کوئی نہ کوئی حکمت ضرورہوتی ہے خواہ اس کا ادراک ہمیں ہو سکے یا نہیں ۔ چنانچہ کسی بھی حکم الہی پر اگر کوئی شرعی عذر نہ ہوتو  ایک مسلمان  خندہ پیشانی کے ساتھ بلاچوں وچرا عمل کرتاہے، اور یہ اس کے اوپر واجب وفرض  ہے،اور پھر اس کے بعد حسب احوال  وضرورت  اس کے مالہ وماعلیہ پر بحث  اس فن کے اصحاب اختصاص پر چھوڑدیتاہے ،ختنہ بھی انہیں احکام میں سے ہے حالانکہ اس کے فوائد اور اہمیت  و ضرورت کا بیان اور ادراک زمانہ قدیم سے رہا ہے ،خاص  طور سے موجودہ طبی تحقیقات نے اسے بحسن وخوبی اور مضبوطی کے ساتھ  واضح کیا ہے ۔ 

اطباء نے اس بات کی پوری طرح سے وضاحت کی ہے کہ وہ چمڑا جس کو بچے کی ولادت کے بعد زائل کیاجاتاہے جب  بچہ  ماں کے پیٹ میں ہوتاہے تو بحالت جنین اس   کا ہونا نہایت ہی ضروری ہے،کیونکہ عضو تناسل  جسم کا نہایت ہی حساس عضو ہوتاہے اور خاص طور سے اس کا اوپری حصہ  ،اورچونکہ ماں کے پیٹ میں بچہ حرکت بھی کرتاہے، اور اس کےاندراعصابی تناؤ  بھی ہوتاہے حالانکہ  اس کا اعصابی نظام ابھی تک تشکیل اور تعمیر کے مرحلے سے گزررہاہوتاہے ، اور ایک نامکمل نظام کا  یہ تناؤ اس کی نشوونما میں رکاوٹ اور ناپختگی کا سبب بھی بنتاہے۔ لہذا اس عضو کی تخلیق اور اعصابی نظام کوکنٹرول کرنےکےلئےاس جلد کی موجودگی نہایت ہی ضروری ہے، جو اس کےلئےمحافظ (Protector )  کی حیثیت رکھتاہے ورنہ بصورت دیگر نقصان کا قوی  امکان ہے ،پھر وہی بچہ جب پیداہوجاتاہے تو اس زائد چمڑے کی کوئی ضرورت  باقی نہیں  رہتی  بلکہ اس کو ویسے ہی چھوڑدینے سے بےشمار نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے ۔  چنانچہ  بچے کا اس زائد چمڑے کے ساتھ ماں کے رحم میں پلنا اس  کے تحفظ اوربچاؤ ( Safety / Protection ) کے لئے نہایت ہی ضروری اور  ایک اہم وجہ  ہے ۔

عورتوں کا ختنہ :

نسوانی ختنہ جسےFGM ((Female Genital Mutilation  کہاجاتاہے جوعورت کے  اندام نہانی میں ظاہری   جنسی عضوکے بالائی حصے کوکاٹنے کا 
عمل ہےاورزمانہ قدیم سے دنیا کے مختلف حصوں میں روبہ عمل رہاہے۔ واضح رہے کہ  مختلف نسلی گروہوں میں اختتان اناث کے مختلف طریقےرائج 
رہے  ہیں لیکن عمومی طریقہ کے مطابق عورتوں کے جنسی اعضاء میں ایک مخصوص اوراہم جنسی  عضوجسے عربی میں بظر اور انگش میں   clitoris 
کہاجاتاہےکے اوپری حصےکو کاٹاجاتا ہےجس میں بظر اور داخلی لیبیہ کو جزوی یا کلی طور پر کاٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے۔
یوں تو عورتوں کا ختنہ رواج اور حکم کے اعتبار سے اتنا اہم اورعام نہیں ہے بلکہ برصغیر اور آس پاس کے مناطق میں  فی زمانہ معدوم العمل ہے ، البتہ
 شاذو نادر کہیں کہیں مشاہدہ  میں آجاتاہے ۔ حالانکہ گرم علاقوں  میں یہ عمل اب بھی  موجودہے،خاص طورسے   افریقی ممالک جیسے صومالیہ(Somalia)  ،
گنی  (Guinea ) ، مصر (Egypt ) ، اریٹریا (Eritrea ) ، مالی(Mali) ، سرالیون  ( Sierra Leone ) ، سوڈان ( Sudan )  ،
 گیمبیا(Gambia)  ، برکینافاسو(Burkina Faso )  ، حبشہ(Abyssinia / Ethiopia ) ، موریطانیہ(Mauritania) ،
  لائبیریا (Liberia)  اور گنی بساو (Guinea-Bissau  ) میں یہ عمل   عام  ہے ۔  اورافریقہ سے باہر یمن ، عراق کے کرد علاقوں اورجنوبی امریکہ
 کے بعض قبائل  میں بھی یہ عمل کچھ حد تک موجود ہے۔ اسی طرح ہندستانی میں  بوہرہ کمیونیٹی کے اندر یہ عمل  پایاجاتاہے۔ ایک اندازے کے مطابق
   (سنہ 2013 ء کے اعداد وشمارکے حساب سے ) دنیا بھرمیں  اس عمل سے گزرے والی خواتین کی تعدادتقریبا  ستر کروڑ  تھی ۔
بعض ممالک ایسے ہیں جہاں مختلف تنظیمیں( جن میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی  بھی  شامل ہے۔)  اس عمل کو روکنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے اس 
میں بہت حدتک  کمی آئی ہے ۔
عورتوں کے ختنہ کے سلسلے میں بحث اور اس کے  فوائد اورنقصان  ایک طویل گفتگو کی متقاضی ہے ،البتہ اتنا تو ہے کہ تقریبا آدھی دنیامیں عہدقدیم سے  اس عمل کورواج
 حاصل رہاہے۔(ساری معلومات  ویکیپیڈیا سے ماخوذہیں)۔
بعض  ممالک میں عورتوں کے ختنہ  سے ہونے والے بعض  نقصانات کو جس کا مشاہدہ   بھی کیاگیاہے بڑے  شدومدسے اٹھایاجاتاہے ،  اور کہیں کہیں تو اس کو مسلمانوں کا 
ذمہ دار مان کر اسلام پر اعتراض کیاجاتاہے ، جبکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام میں  اس کو واجبی عمل نہیں ماناگیاہے، بلکہ ضرورت اور حالات کو دیکھتےہوئے استحبابی
 صورت قراردیاگیاہے(حالانکہ بعض فقہاء اس کے وجوب کی طرف گئےہیں )، اور دوسری بات یہ کہ یہ عمل اسلام کی آمد سے صدیوں پہلے سے دنیا کے اکثر حصوں
 میں رائج تھا ، جس سے اسلام نے منع نہیں کیا ،بلکہ  اسے غیراجباری حیثیت میں  باقی رکھا ،یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اس پر عامل بھی نہیں ہے ،ہاں اگر کہیں
 اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے  اور اس پر عمل ناگزیر ہوتاہےتواسے عمل میں لایاجاتاہے ۔ اب یہ کام اطباء کا ہے کہ  وہ ایمانداری کے ساتھ  دنیا کے سامنے واضح 
کریں کہ کن حالات میں اس عمل سے خطرہ یا کسی طرح کا نقصان  پہنچنے کا اندیشہ ہے،صرف اس وجہ سے کہ کسی مذہب میں اس پر 
عمل جائزہے واویلہ غیراخلاقی اور ذہنی پسماندگی کی دلیل ہے ۔
اللہ رب العزت ہمیں ہرطرح کےخیروبھلائی والے عمل کی توفیق دے اور ہرطرح کے دینی اور معاشرتی نقصانات اور برائیوں سے حفظ و امان میں رکھے۔
 وصلی اللہ علی  خیرخلقہ وسلم۔ 
*******