بدھ، 1 مئی، 2019

خدمت خلق اور اسلام

خدمت خلق اور اسلام
                                             
       مذہب اسلام ایک آفاقی مذہب  Universal religion ہے،جسے رب کائنات نے قیامت تک کے لئے ساری دنیاکا آخری اور سچا مذہب قراردیاہے ،فرماتاہے : (إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۗ) (سورۃ آل عمران:19) (اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے۔) اور اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرماتاہے:( وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ) (سورۃالانبیاء:107) (ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بناکربھیجاہے۔) چنانچہ  خالق باری  پرایمان ویقین  ،اس کاتصور اور اس کے احکامات پر عمل  اور اس کی دعوت اسلام کا بنیادی عنصرہے اوریہی ایمان ویقین اورتدبروتعامل ہمیں اس کی کاری گری میں غوروفکر اس کی مخلوق کی حیثیت اوراس کی ضرورت کو سمجھنے اورپرکھنےکا  راستہ دکھاتاہے ،جس کے ذریعہ مخلوق کی واجب ضروریات اور احتیاجات کی تکمیل کی اہمیت وضرورت کا پتہ چلتاہے جسے ہم عام اصطلاح میں خدمت خلق سے تعبیرکرتے ہیں ۔
      خدمت خلق اورلوگوں کی ضرورتوں کوپوری کرنا  نہایت ہی عظیم فضل کا حامل اوران اعمال صالحہ میں سے ہے جن کے ذریعہ بندہ اللہ رب العزت کا تقرب حاصل کرتاہے۔ اللہ تبارک وتعالی نے اس نیک عمل کی وصیت بھی کی ہے ،فرماتاہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [الحج: 77] (اےایمان والو! (اللہ کےلئے)    رکوع کرو، سجدہ کرو اپنے رب کی عبادت کرو اورخیروبھلائی کاکام کرو تاکہ کامیاب ہوسکو)۔
      لہذ ا خدمت خلق ایسی نیکی ہےجواللہ رب العزت کوبہت زیادہ محبوب ہے ، یہ ایک عبادت بھی  ہے۔ اسی لئے  شریعت اسلامیہ میں اس کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بتلائی گئی ہے ۔ اور اس کی اہمیت وضرورت کونہایت ہی بلیغانہ اندازمیں بیان کرکے مسلمانوں کو خدمت خلق پر ابھارا گیا ہےاور اگر یہ خدمت انسان کی ہو خواہ حیوان کی خلوص و للہیت کے ساتھ کی جائے تو معمولی سا معمولی کام  بھی جہنم سے آزادی اور جنت میں داخلہ کا سبب بن سکتا ہے۔  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: "من نفس عن مؤمن كربة من كرب الدنيا ، نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة ، ومن يسّر على معسر ، يسّر الله عليه في الدنيا والآخرة ....... ، والله في عون العبد ما كان العبد في عون أخيه " (صحیح مسلم /2699)"جس نے کسی مومن کی  کسی دنیاوی تکلیف کودورکیاتواللہ تعالی آخرت میں اس کی کسی تکلیف کودورفرمادےگا ، اورجس نے کسی فقیرمحتاج کی مدد کی تواللہ دنیاوآخرت میں اس کی مدد کرےگا، اللہ بندےکی مدد اس وقت تک کرتارہتاہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مددکرتارہتاہے"۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من كان في حاجة أخيه كان الله في حاجته، ومن فرج عن مسلم كربة فرج الله عنه بها كربة من كرب يوم القيامة "(صحیح بخاری /2442 وصحیح مسلم/2564) " جو اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتاہے تو اللہ اس کی ضرورت پوری کرتاہےاورجس نے کسی مسلمان  کی کسی  تکلیف کودورکیاتواللہ تعالی آخرت میں اس کی کسی تکلیف کودورفرمادےگا " ۔ نیز صحیحن میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:" السَّاعِي عَلَى الأَرْمَلَةِ وَالمِسْكِينِ ، كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، أَوِ القَائِمِ اللَّيْلَ الصَّائِمِ النَّهَارَ "(صحیح بخاری /5353 وصحیح مسلم/2982) "بیوہ اورمسکین کے لئے کوشش کرنےوالا اللہ کےراستے میں جہادکرنےوالےکی طرح ہے یارات میں تہجدگذاراوردن میں روزہ دارکی طرح ہے"۔
     لہذامعلوم ہواکہ کارخیرمیں لوگوں کی  کسی بھی طرح کی  مدد اوران کا تعاون عظیم نیکی ہے جس کا کرنے والا  دنیاوآخرت میں عظیم اجرسے نوازہ جائےگا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے تمام انبیاء و رسولوں نے خود دوسروں کی خدمت کی ہے اور اس کی تلقین و تاکیدبھی  کی ہے۔
  خدمت خلق کا مطلب :  خدمت خلق ایک جا مع تصور  ہے  جو اپنےاندروسیع مفہوم رکھتا ہے،مختصرالفاظ میں اس کی تعریف یوں کی جاسکتی ہےکہ : ”رضا ئے الہی  کے لیے تمام مخلوق خصوصاً انسانوں کے سا تھ جائز امور میں مدد دیناخدمت خلق ہے“ ۔ ہم  اسے موجودہ اصطلاح  میں  social welfare service  کہہ سکتےہیں ۔
خدمت  کا تعلق : خد مت خلق کے  بنیادی دو حصے ہیں جن میں  ایک کا تعلق  جانوروں کے ساتھ ہے اوردوسرےکا انسانوں کے ساتھ ۔جہاں اللہ تبارک وتعالی نے  انسان کے ساتھ اچھےمعاملات کاحکم دیاہے وہی پرغیرانسان کےساتھ کئے جانےوالےسلوک پربھی اپنی رضاوناراضگی کااظہارکیاہے،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت  ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" ایک آدمی راستہ میں چل رہا تھا اسی دوران اس کو بہت زور کی پیاس لگی۔اس کو ایک کنواں ملا جس میں اس نے اتر کے پانی پیا، پھر جب وہ باہر نکلا تو اس نے ایک کتے کو پایا کہ وہ زبان نکالے ہوئے ہا نپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے مٹی چاٹ رہا ہے،یہ دیکھ کر اس نے کہا: اس کتا کی پیاس سے وہی حالت ہے جو میری تھی ۔ لہذا وہ کنواں میں اترا پھر اپنا چمڑا والا موزہ پانی سے بھرا اور کتا کو پلایا ،اس پر کتے نے اللہ سے اس کا شکریہ ادا کیا،اور اللہ نے اس کام کی قدر کی ، اوراس کو بخش دیا، یہ سن کر صحابہ کرام نے آپ سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول کیا ہمارے لیے جانوروں میں بھی اجر و ثواب ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ ہر تروتازہ یعنی زندہ جگر والے میں اجر ہے"۔(صحیح بخاری /173، 2363 )
ایک دوسری متفق علیہ روایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےہی مروی ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:" ایک کتا ایک کنواں کے ارد گرد گھوم رہا تھا ۔ قریب تھا کہ پیاس کی وجہ سے مرجائے۔اسی دوران اچانک اس کو بنو اسرائیل کی ایک زانیہ عورت نے دیکھ لیا تو اس نے اپنا چمڑا والا موزہ نکال کے اس کے ذریعہ پانی نکالا اور پھر اس کو پلادیا۔جس کی وجہ سے اس کو بخش دیا گیا"۔(صحیح بخاری /3280  وصحیح مسلم/4171)
ان دونوں احادیث سے خدمت خلق کے عظیم ثواب کا پتہ چلتا ہے۔ اخلاص کے ساتھ انجام دی گئی ایک معمولی خدمت اور وہ بھی ناپاک جانور کے ساتھ اللہ کی مغفرت و رضامندی کا باعث بن گئی ۔ اس سے بڑا اجر و ثواب اور کیا ہوسکتا ہے۔یقینا یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔
خدمت خلق  کادوسراحصہ انسان کے ساتھ ہے جومسلم ،غیرمسلم ،قریبی ، رشتہ دار ، پڑوسی ،دوست واحباب ، اہل قریہ  اور اہل وطن  سب کےساتھ عام ہے ، بلکہ ضروریات وحالات کے حساب سے اس کی ضرورت اواہمیت بڑھتی جاتی ہے ، یہاں تک کہ بعض حالات میں  فرض وواجب بھی ہوتاہے جیسے والدین کی خدمت وغیرہ  ۔
خدمت خلق کی صورتیں : خدمت خلق کسی ایک صورت میں محدود نہیں ہے بلکہ اس کی بے شمار اور مختلف صورتیں ہیں مثلا:
پیار و محبت کے ساتھ اچھے اسلوب میں بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔
ضرورت مند کواپنے کارو بار اور زراعت وغیرہ میں شریک کرنا۔کسی کو اچھا و نیک مشورہ دیناجس سے مشورہ کرنے والے کا بھلا ہو۔کسی بیمار کا علاج کرادینا۔
اس کی عیادت کرنا اس کےلئے دعاءکرنا ،صحیح مسلم کے اندرابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:"اللہ عزوجل قیامت کےروز کہے گا : اے ابن آدم ! میں بیمارہواتوتونے میری عیادت نہ کی ؟ وہ آدمی کہےگا: اےرتوتورب العالمین ہے میں تیری عیادت کیسے کرسکتاتھا؟ تواللہ فرمائےگا : تجھے پتہ نہیں تھاکہ میرافلاں بندہ بیمارہے، اس کےباوجودتونے اس کی عیادت نہ کی؟ کیاتجھےیہ معلوم نہیں تھاکہ اگرتواس کی زیارت کرتاتومجھےاس کےپاس پاتا"(صحیح مسلم/2569)
"یعنی میری رضا ، میراثواب اورمیری کرامت    اس کےپاس پاتا"۔(مشکل الحدیث وبیانہ/1:152 ،   مرعاۃ المفاتیح/5:217)
اسی طرح کسی بھوکے پیاسے کو کھانا و پانی دینا،اللہ عزوجل قیامت کےروز کہے گا :" اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھانامانگا توتونے مجھے کھانانہیں دیا؟" وہ آدمی کہےگا: اےرب توتورب العالمین ہے میں تجھے کیسے کھلا سکتاتھا؟ تواللہ فرمائےگا  : "کیاتجھے پتہ نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اورتونے اسے نہیں دیاتھا ،؟ تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگرتو اسے کھلاتا تواسےمیرےپاس پاتا، اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا توتونے مجھے پلایانہیں ؟" وہ آدمی کہےگا: اےرب توتورب العالمین ہے میں تجھے کیسےپلا سکتاتھا؟ تواللہ فرمائےگا  :" کیاتجھے پتہ نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا اورتونے اسے نہیں دیاتھا ،؟ تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگرتو اسے پنلاتا تواسےمیرےپاس پاتا"۔(صحیح مسلم/2569) اسی طرح کسی محتاج کے گھرمیں یا محلے میں یا عام گزرگاہوں پر پینے کے پانی کا وقتی یا دائمی انتظام کردینا۔
اسی طرح کسی غریب وضرورت مند کی مادی و معاشی مدد کردینا، صحیح بخاری کے اندرابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: "بھوکے کوکھاناکھلاؤ ، مریض کی عیادت کرواورقیدی کوچھڑاؤ"۔(صحیح بخاری /2881)
نیزیتیموں و غریبوں کی شادی کرادینااوراس کےلئےاسباب فراہم کردینا وغیرہ ۔کسی حاجت مند کو بنا سود کے قرض دینا۔ کوئی سامان کچھ مدت کے لئے ادھار دینا۔کسی کو تعلیم دلا دینا۔قوم وملت کے بچوں کے لئے تعلیمی ادارے قائم کرنا ۔ننگے بدن کو لباس فراہم کرنا۔ درخت اور پودا لگا دینا جس سے انسان و حیوان فائدہ اٹھائیں۔کسی زخمی کی مدد کردینا۔کسی بھولے بھٹکے کو راستہ بتادینا۔ کسی مسافر کی مدد کردینا۔ بیوہ ، یتیم اور مسکین افرادکی  مدد کی خاطررفاہی ادارے قائم کرنا ۔
اسی طرح کسی کی جائزسفارش کے ذریعہ کوئی مسئلہ حل کردینا، بخاری اور مسلم کے اندرابوموسی اشعرری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ : جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس کوئی اپنی ضرورت لے کرآتاتوآپ فرماتے :" کوئی اس کی سفارش کرے اسے ثواب ملے گا، اللہ تعالی اپنے نبی کی زبان کے ذریعہ اسے چاہےتوپورا کردے"۔ (صحیح بخاری /5283  وصحیح مسلم/2627)
اسی طرح کسی کا کام کرنے کے لیے اس کے ساتھ جانا۔کسی کو گاڑی کے ذریعہ اس کے گھر یا منزل مقصود تک پہونچا دینا۔اپنے کام کے ساتھ دوسرے کا بھی کام کر دینا۔مثلا اپنا سامان خریدنے گئے دوسرے کا سامان بھی لیتے لائے۔کسی مظلوم کا حق دلا دینا۔راستہ سے تکلیف دہ چیزکاہٹا دینا۔ وغیرہ ،غرضیکہ حسب استطاعت  خدمت خلق کی بے شمار صورتیں ہیں ۔
خدمت خلق کے دینی ودنیاوی فائدے:خدمت خلق کے بے شماردینی ودنیاوی فائدےبھی  ہیں ، جن میں سے چند کا ذکرکرنا مناسب ہے :
خدمت خلق سے معاشرےمیں ،رشتہ داروں اوراحباب میں محبت والفت پھیلتی ہے۔خدمت خلق  نیکی کرنےکے بہترین وسائل میں سے ہے ۔ خدمت خلق اللہ کی قربت کا ذریعہ اوراللہ کےنزدیک اجرکاسبب  ہے ۔اللہ تعالی فرماتاہے: ﴿ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا (جونیکی تم اپنے لئے آگےبھیجوگےاسے اللہ کےیہاں بہترسےبہتراورثواب میں بہت زیادہ پاؤگے) [المزمل: 20
خدمت خلق کے لئے لوگوں انتخاب خود اللہ رب العزت کرتاہے :امام طبرانی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت کیاہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا: " اللہ کےکچھ بندےہیں جنہیں لوگوں کےفائدےکےلئےنعمتوں کے ساتھ خاص کررکھاہے"(طبرانی :الاوسط /6162،اس روایت کوعلامہ البانی نے صحیح الجامع /2164کے اندرحسن لغیرہ قراردیاہے)۔
 خدمت خلق کرنےوالے سے اللہ تعالی محبت کرتاہے:ابن ابی الدنیا اورطبرانی نے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت کیاہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا "اللہ کے نزدیک سب سے محبوب وہ آدمی ہے جولوگوں کےلئے زیادہ نفع بخش ہو،اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل کسی مسلم کوخوشی دینایااس کی کسی تکلیف کودورکرنایااس کا قرض اداکردینایا اس کی بھوک مٹادیناہے ۔ اورمیں کسی بھائی کے ساتھ اس کی کسی ضرورت کو پوری کرنے کے لئے چلوں وہ میرے نزدیک اس مسجدیعنی مسجدمدینہ میں  ایک ماہ اعتکاف کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے "  (طبرانی :الاوسط /6026،ابن ابی الدنیا:قضاء حوائج الناس /36، اس روایت کوعلامہ البانی نے صحیح الجامع/2623 کے اندرحسن لغیرہ  قراردیاہے)۔
لوگوں کی ضروریات کوپوری کرنے والے کی مدد اللہ تبارک وتعالی کرتاہے، تعاون علی الخیرایک اہم انسانی ضرورت ہے جس سے معاشرےکاکوئی بھی فردبےنیازنہیں ہوسکتا۔ خدمت خلق  معاشرے کی اجتماعیت کے اسباب میں سے ایک ہے : متفق علیہ روایت میں ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ نے ارشادفرمایا: "مومن مومن کےلئے دیوارکی بنیاد کی طرح ہےجوایک دوسرے کومضبوطی سے تھامے رہتاہے"پھرآپ  نےاپنی انگلیوں کوایک دوسرے سےملایا۔(صحیح بخاری /5594 وصحیح مسلم/4812)
خدمت خلق سے آپسی بھائی چارے اورمحبت والفت کوراہ ملتی ہے : صحیح مسلم میں نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ نے ارشادفرمایا:" آپسی الفت ورحمت اورنرمی میں  مومن  کی مثال جسم کی طرح ہے،جس کےایک حصےکوبیماری ہوتی ہے توساراجسم اس سےمتاثرہوتاہے"۔(صحیح بخاری /6011 وصحیح مسلم/2586)
خدمت خلق کرنے والا قیامت کےدن اللہ کی امان میں ہوگا:صحیح مسلم کےاندرہے: "جس نےغریب قرضدارکومہلت دیایا قرض کومعاف کردیا اللہ تعالی اسے اپنے عرش کےسایےمیں رکھےگا"۔(صحیح مسلم /3006)
ایک روایت میں ہے :"سب سے افضل  عمل  مومن  کو خوشی پہنچانا ہے ،اسے کپڑا پہنانا، اس کا بھوک مٹانایا اس کی کوئی ضرورت پوری کردینا"(علامہ البانی نے اس روایت کو حسن لغیرہ قراردیاہے۔صحیح الترغیب والترہیب/2621)
خدمت خلق سے بےاعتنائی برتنےوالا اللہ تعالی کی ناراضگی کاشکارہوگا،اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کوئی حاکم جب کسی ضرورت مند، فقیرومسکین کے لئے اپنادروازہ بندکردیتاہے تواللہ تعالی  اس  کی ضرورت وحاجت  کے وقت آسمان کے دروازے بندکردیتاہے " اسی وجہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے باضابطہ ایک آدمی کولوگوں کی ضروریات سننے پرمامورکیاتھا۔(سنن الترمذی/1332علامہ البانی نے صحیح ترمذی کےاندراس روایت کوصحیح قراردیاہے)۔
خدمت خلق اور سیرت نبوی : خدمت خلق  میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت  ہمارےلئے اسوہ وہ نمونہ ہے،آپ نے نہ یہ کہ مسلمانوں کوابھارہ ہے اوراس کی فضیلت بیان کی ہے بلکہ آپ نے خود ہرموقع سے اس کارخیرمیں بڑھ چڑھ کرحصہ بھی لیاہے ، آپ کبھی بھی کسی بیوہ ،مجبوریا مسکین کے ساتھ جاکراس کی ضرورت پوری کرنے کوحقیرنہیں سمجھتے اورنہ کسی کومنع کرتے۔بچپن سےلےکروفات تک آپ کی  زندگی میں ڈھیروں واقعات ملتےہیں جن  سے پتا چلتاہے کہ کس طرح آپ لوگوں کی خدمت میں حریص تھے اور پیش پیش رہاکرتےتھے ،موقع کی مناسبت سے ان میں سے چند واقعات کی طرف اشارہ کردینا مناسب ہے:
صحیحین کےاندراورسیرت کی تقریبا تمام کتابوں کے اندراس واقعہ کا ذکرملتاہےجس میں آپ کی پہلی ملاقات جبرئیل علیہ السلام سے ہوئی توآپ شدت خوف سے کافی پریشان تھے ایسے موقع سے خدیجہ رضی اللہ عنہانے اپ کوتسلی دیتےہوئے فرمایا:اللہ کی قسم   ! اللہ آپ کوکبھی شرمندہ نہیں کرےگا، آپ صلہ رحمی کرتےہیں اور کمزوروں  کی مدد کرتےہیں ، محتاج کومالی مدد دیتےہیں ، مہمان نوزی کرتےہیں اورمصیبتوں پرلوگوں کی مدد کرتےہیں "۔(صحیح بخاری /3، صحیح مسلم/231)
صحیح بخاری کے اندرانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مدینہ میں ایک لونڈی تھی  جب اسے کسی قسم کی ضرورت پیش آتی تو وہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کوجہاں چاہتی لے جاتی اورآپ  اس کی ضرورت کوپوری کرتے۔(صحیح بخاری /6072)
صحیح مسلم کےاندرہے کہ ایک  ذہنی طورپرمعذورعورت نے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاکہ  اے اللہ کےرسول!  میری ایک ضرورت ہے توآپ نے فرمایا : "اے ام فلاں ! کہاں چلنا ہے ، بولو تاکہ تمہاری ضرورت پوری کرسکوں ؟"  پھرآپ اسے کسی راستےپرلےکرگئے یہاں تک کہ اس نے اپناکام ختم کرلیا۔(صحیح مسلم /2324)
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : "اللہ کی قسم ہم لوگ سفروحضرمیں ہرجگہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ، آپ ہم میں سے بیماروں کی عیادت کرتے ، ہمارےجنازوں میں شریک ہوتے ، ہمارے ساتھ غزوہ میں ہوتے اورتھوڑے بہت سے ہماری دلجوئی  فرماتے"(مسند احمد/ 246:1،شیخ احمد شاکرنے اس روایت کو حسن قراردیاہے۔)
خدمت خلق میں اسلاف کا کردار: خدمت خلق کی انہیں فضیلتوں اوراہمیت کے پیش نظر ہمارےاسلاف ریاء ودکھاوہ سے بچتےہوئےہمہ دم اس کارخیرمیں پیش پیش رہاکرتےتھے، کیاحاکم ، کیاامیرکیاغریب سب کے سب اس میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ، عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں آتاہے کہ آپ راتوں میں اٹھ کرگلیوں کے چکرلگاتےاورضرورت مند کی ضرورتوں کوپوری کردیتے۔ خدمت خلق میں  مکہ کی وادیوں سے لے اسپین  تک اور ایران سے لےکرروم تک عرب وعجم ہرجگہ اسلاف کے بےشمار کارناموں کے نقوش ملیں گے، جن سے تاریخ کے صفحات بھی بھرے پڑے ہیں،  اگر ان سب کا ذکرکیاجائے تو بحث لمبی ہوتی چلی جائےگی ۔
ماضی قریب  میں خدمت خلق کا یہی جذبہ تھا کہ  پوری دنیامیں عوام وخواص  سب کی طرف سے قائم کئے گئے رفاہی وتعلیمی اداروں کا  ایک جال بچھا ہواہے ، اللہ ان اداروں کو قائم ودائم رکھے اور ان کے قائمین کو دنیا وآخرت میں بہترین اجرسے نوازے ۔بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلاف کے اس میراث کو نیک دلی کے ساتھ آگے لے کربڑھیں ، اور وقت کے مطالبات   وضروریات اور نئے وسائل وذرائع کو بروئے کار لاکر قوم وملت اور خلق باری کی خدمت کا فريضہ انجام دیں  اور اس راہ میں مزید کوشش وتگ ودو کریں ۔
خدمت خلق میں زکوۃ کا رول : اسلام کا اہم رکن زکاۃ  دینی وروحانی اہمیت وفوا‏ئد رکھنے کے  ساتھ ساتھ  خدمت خلق کاوہ اہم ذریعہ اورمضبوط ستون ہے جس کی مثال دنیاکے کسی بھی مذہب میں ملنامشکل ہے اس کےمصارف اور افرادو معاشرےپراس کےاثرات کا بغائرمطالعہ کرنے سے خدمت خلق  کے تئیں اسلام کی پیش رفت اوراہتمام کا پتہ چلتا ہے ۔ یہاں تک کہ صدقہ جاریہ کی فضیلت کوبیان کرکے مسلمانوں کو خدمت خلق کےلئے اس اہتمام کی طرف  کی راہنمائی کی ہےکہ دنیاسے جانے کےبعدبھی مخلوق مستفید ہوتی رہے ۔ ٍزکوۃ وصدقات  نے معاشرہ سے لے کرممالک ودول تک  کتنے خدمات انجام دئے ہیں کوئی ڈھکی چھپی چیزنہیں ہے ،اگر سچ کہاجائے تو صدقات وزکوۃ کا نظام ایک ایسا نظام ہے جس نے معاشرے کی خدمت میں سب سے زیادہ اپنا رول نبھایاہے او راس کی ضرورت ہردور اور ہرمعاشرے کوہے اور یوں بھی  انسان کے لئے عالمی اور معاشرتی ہر دو پیمانے پر اس سے بڑی خدمت  کوئی دوسری نہیں ہو سکتی  ، تعلیم وتعلم ، دعوت وارشاد ، معاشی  ومعاشرتی پریشانیوں کا حل ، ملک کی ترقی ، افراد قوم کی پرسکون زندگی ، بیوہ ویتیم اور مساکین  وفقراء کی اطمینان بخش زندگی ، آفات ناگہانی اور مصائب وبلایا میں گرفتار افراد وقوم کی مدد، طبی خدمات ، ماحولیاتی  مسائل کا حل اور ان  کے علاوہ زندگی کے ہر شعبےمیں زکوۃ وصدقات کا اہم بلکہ نہایت ہی اہم اورواجبی  رول ہوتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں لوگوں کواللہ کی جانب سے فرض کردہ زکوۃ کے ساتھ ساتھ  عمومی صدقات پر ابھارہ ہے اورخود پوری زندگی اس کا نہایت ہی زیاد ہ اہتمام کیاہے ، روایتوں میں آتاہے کہ آپ سے کوئی سوال کرتاتوآپ کبھی نا نہیں کرتے۔( صحیح بخاری /6034، صحیح مسلم/2311) آپ رمضان میں جب جبریل علیہ السلام سے ملاقات ہوتی  صدقہ وخیرات میں بہتی ہواؤں سے بھی زیادہ  تیز ہوتے ۔(صحیح بخاری /4997، صحیح مسلم/2308)
اسی طرح صدقۃ الفطر اور قربانی کے گوشت کے بعض مصارف خدمت خلق کی بہترین مثالیں ہیں ۔
          یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ خدمت خلق کو سوشل ورک(Social work)  یا سوشل اکٹیویٹیز(social activities ) کا نام دےکر ہمارے غیرنے اس شعبہ میں غیرمعمولی کام کیاہے اور بلاشبہ انہوں نے اپنے افکار ونظریات کو دنیامیں رائج کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے یہی نہیں بہت حدتک اسلامی افکاراعمال کو بھی نقصان پہنچایاہے ۔ ماضی میں جہاں ہم نے انہیں خدمات کی بنیادپر آدھی دنیاپرکامیاب حکومت کی تھی رفتہ رفتہ ہماری کم ہمتی اور قصورعمل اور ديگر اسباب تنزل نے ہمارے تمام  خصائص وخوبیوں کو دوسروں کے حوالے کردیا ، جس نے ہماری قوم کو  مادی ، معاشی ، معاشرتی ، سیاسی ، تعلیمی اور تنظیمی اعتبارسے نہایت ہی کمزور کردیاہے ، اورآج ہم  پستی کی اس حالت میں پہنچ گئے ہیں کہ تخریبی وتحزیبی جماعتوں کے شرسے بچنے کے لئے اپناقائد ورہنما غیروں میں تلاش کرنے پر مجبورہیں، جو ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھانا خوب اچھی طرح جانتےہیں  ۔
****


جمعرات، 25 اپریل، 2019

صبراور اس کےفوائد و ثمرات


صبراور اس کےفوائدوثمرات

      انسان کودنیاوی زندگی میں خوشی ومسرت کے ساتھ ساتھ غم ، تکلیف اور مصیبت وآفات سے بھی واسطہ پڑتارہتاہے،جوکہ اللہ تبارک وتعالی کےیہاں مقدرہیں اور اس کی مشیئت سے آتی ہیں ،جس پرایک مومن کا کامل یقین وایمان ہوتاہے ، اللہ تعالی فرماتاہے : { مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا}(زمین میں اور تمہاری جانوں میں جومصیبت آتی ہے قبل اس کےکہ ہم   اسے پیداکریں ایک خاص کتاب میں لکھ دی گئی ہے ۔)  (سورۃ  الحدید:22-23)  اورایک دوسری جگہ فرماتاہے :{  قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا}(کہہ دیجئے کہ ہمیں سوائے اللہ کے ہمارے حق میں لکھے ہوئے کےکوئی چیزپہنچ ہی نہیں سکتی)  (سور ہ   توبۃ :51)۔
لہذا مصیبتوں کو اللہ رب العزت  دو وجہوں سے نازل کرتاہے :
 اول :ابتلاء وآزائش کےبطورتاکہ مومن بندہ کے درجات بلند ہوں اورگناہوں کے لئے کفارہ بنے ،  اللہ تعالی ارشادفرماتاہے :  {وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ}(ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے ، دشمن کے ڈرسے ، بھوک پیاس سے ، مال وجان او رپھلوں کی کمی سے ، اور صبر کرنے والوں کو بشارت سنا دیجئے ۔) (سورۃ البقرہ:155)۔
 دوم : کسی گناہ کی پاداش میں ، اللہ تعالی فرماتاہے :{ وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ }(تمہیں جوکچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے ، اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگذرفرمادیتاہے) (سورۃ الشوری :30) ہردوصورت میں چھوٹی بڑی ہرمصیبت میں  ایک مومن بندہ کےلئے انابت الی اللہ اورصبرضرووی ہے جواس کےلئے دنیاوآخرت کی بھلائی کی ضمانت دیتاہے ، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے :  {وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ۔ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ۔ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ}(اور ان صبر کرنےوالوں کو خوشخبری سنا دیجئے جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ کی ملکیت ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ان کے اوپررب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔)  (سورۃ البقرہ :155-157)۔
 ہم اپنے اس مضمون میں صبر کی اہمیت وفضیلت اوراس سے متعلق  امورکوبیان کریں گے تاکہ کسی مصیبت زدہ کےلئے مشعل راہ بنے، اور صبرکی لذتوں اور اس کے فوائد سے بہرہ ورہو  :
صبرکامعنی :
صبرکالغوی معنی :  صبرجزع وفزع کا نقیض ہے جس کالغوی معنی حبس یعنی  روکنا،منع کرنا،قیدکرنااورضبط کرناہے، گویاصبرکامطلب ہوا نفس کوجزع وواویلا سےروکنا۔(دیکھئے : الصحاح للجوہری :ص 706 ولسان العرب : 4/437)
  قرآن کریم میں یعقوب علیہ السلام کے واقعہ میں  صبرجمیل کاذکرواردہے:{فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ }( سورۃ یوسف: 18) ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں : "الصبرالجميل هو الذي لا شكوى فيه ولا معه""صبرجمیل اس صبرکوکہتےہیں جس کےاندریاجس کےساتھ کوئی شکوہ شامل نہ ہو" امام مجاہد فرماتےہیں :"هوالذي لاجزع معه""جس کے ساتھ کوئی آہ وفغاں نہ ہو"۔(دیکھئے :تفسیر ابن کثیر: 2/489)۔ امام شافعی کا شعرہے:
صبرا جميلا ما أقرب الفرجا  ***  من راقب الله في الأمور نجا
 من صدق الله لم ينله  أذى  *** و من رجاه يكون  حيث رجا
"(صبر کیجئے )صبر جمیل کشادگی(یاغم کو ختم کرنے) سےبہت ہی  قریب ہے  ۔  جس نے معاملات میں اللہ تعالی کا خوف کیاوہ نجات پاگیا۔اور جس نے قول وعمل میں اللہ کے ساتھ وفاکی اسے اذیت نہیں پہنچتی  ۔ اور جو اس سے امید لگاتاہے اسے وہی پاتاہے"۔
صبرکااصطلاحی معنی : "نفس کوقرآن وسنت  اورفرائض پرثابت قدم رکھنااوراس کوآہ وبکا اورشکوی وناراضگی سے روکنا۔" صبر کی ایک تعریف یہ کی جاتی ہے : " مصیبت وپریشانی کی تکلیف کوغیراللہ سے بیان کرنے سے پرہیز کرنا "  نیز صبرکی ایک  تعریف  یہ بھی کی جاتی ہے اوروہ ہے :"عقل وشریعت کے مقتضی کے مطابق نفس کوکنٹرول کرنا"۔(دیکھئے : التعریفات للجرجانی : ص 131،مفردات الفاظ القرآن الکریم للراغب الاصفہانی : 474)
امام ابن القیم نے اس کی تعریف یوں کی ہے :"الصبر: بأنه ثبات القلب علی الأحکام القدریة والشرعیة " " تقدیری اورشرعی احکام پہ دل کوثابت قدم رکھنا صبرہے"(الروح :ص 241)۔
ابو بکر بن الانباری نے بعض علماء سے لکھاہے کہ : "صبر کو صبر اس لئے کہتے ہیں وہ دل پہ کڑواہوتاہے اور نفس کے لئے پریشان کن، جیسے کڑوا پھل منہ کے اندر"( ذم الھوی /ابن الجوزی  :58)۔ شاعر کہتاہے :
 الصبر مثل اسمه مر مذاقته   ***   لكن عواقبه أحلى من العسل
"صبرکی لذت اس کے نام کی طرح ہی کڑواہے ۔ لیکن اس کا انجام شہد سے بھی زیادہ میٹھاہے"۔
صبرکے مقامات:
صبرتین  چیزوں پرہوتاہے :
اول : طاعت ونیکی پرصبر: انسان کا نفس نیکیوں سے بھاگتاہے ،اور ان سے سستی اورکاہلی محسوس کرتاہے۔ اس کےباوجود نفس کو اللہ کی طاعت پرآمادہ کرنا اور اس پرقائم رہنا جیسے ، نفس کے انکارکےباوجود نمازقائم کرنا ، نہ چاہتے ہوئے بھی زکاۃ ، صدقات ، روزہ ، حج اوردیگرعبادات کااہتمام کرنا ، مشقت کے باوجود  نیکیوں کو احسن طریقےسے خالص اللہ کے لئے انجام دینا صبر ہے ۔
اسی طرح معاملات میں لوگوں کے ساتھ نرمی اورحسن اخلاق سے پیش آنا ، ان کے حقوق کواداکرنا، ان کو تکلیف دینےسےپرہیزکرنا اورسارےمعاملات میں امانتداری اوردیانتداری کاثبوت دینا  وغیرہ  صبر کی بہترین مثالیں ہیں ۔اللہ رب العزت نے طاعت پہ صبر کی کچھ مثالیں ذکرکی ہے ، جن میں سےچند مندرجہ ذیل ہیں :
فرماتاہے : { رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚ}(آسمانوں اور زمینوں اورجوکچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب وہی ہے تو اسی کی عبادت کراور اس کی عبادت پرصبرکر(جم جا) (سورۃ مریم :65)۔
نمازکے لئے صبر کی تعبیر کرتےہوئے فرماتاہے: {وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَ}(اپنے گھروالوں کو نمازکی تاکیدکر اور اس پر خودبھی صبرکر(جم جا) (سورۃ طہ : 132)۔
دوم  :  محرمات پرصبر: گناہ اپنی جاذبیت کی بناپرانسان کے نفس کواپنی جانب راغب کرتاہے ، ایسے وقت میں اس کے انجام وعواقب، اوراللہ رب العزت کی پکڑ کو پیش نظررکھ کرنفس کواس سے روکنا ،زنا،بدکاری ، چوری ، ڈکیتی ، خودکشی اوراس طرح کے تمام معاصی وگناہوں سے خودپرقابورکھنا بہترین صبرہے  ۔
     گناہ ومعاصی سے صبر دیگر صبر کے مقابلے کچھ زیادہ ہی سخت ہے کیونکہ خواہشات وشہوات سے بچنے کے لئے آدمی کو نفس سے شدت کے ساتھ مجاہدہ کرنا پڑتاہے ، اور اس لئے بھی کہ گناہ اپنی جاذبیت کے ساتھ اس پر عمل سہل  الوصول ہوتاہے ،اور اس سے بچنے کے لئے اللہ کاخوف اور تقوی کے ساتھ ساتھ اس کے برے انجام کا ڈر بھی پیش نظر رکھنا پڑتاہے ،  میمون بن مہران سے مروی ہے:"صبر دوطرح کا ہوتاہے : مصیبت پرصبر اچھاہے اور اس سے بھی افضل صبرگناہوں سے بچناہے "۔ (عدۃ الصابرین وذخیرۃ الشاکرین لابن القیم/71،والصبر والثواب علیہ لابن ابی الدنیا/ص 28)۔
     گناہوں سے بچنے والے نوجوان کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے:" إن ربك ليعجب للشاب لا صبوة له""اللہ تعالی اس نوجوان پر تعجب فرماتاہے جس کا میلان شہوات کی طرف نہیں ہوتا"(اس روایت کوشیخ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ/2843 کے اندر صحیح قراردیاہے)۔
سوم : ابتلاءوآزمائش پرصبر:ابتلاء وآزمائش کےبطورانسان پرمختلف  راستوں سے   چھوٹی بڑی بے شمار مصیبتیں  آتی رہتی ہیں ،جن پر صبر کیاجاتاہے، جیسے :
کسی محبوب کی موت،چھوٹی بڑی کوئی بھی بیماری لاحق ہونا، تنگدستی ومحتاجی لاحق ہونا،دشمن کی طرف سے پہنچنے والاضرر ونقصان ،ظالم حکمراں کا ظلم وتشدداورخانگی و معاشرتی  زندگی میں  آنے والی پریشانی وغیرہ  پرصبر۔
     ان مصائب وپریشانیوں اور دیگر مختلف وجوہات کی بناپروارد بلایا اورمصیبتوں کے وقت اللہ سے اس پر اجروثواب کی امیدلگاکر ثابت قدم رہنا ، جزع وفزع ، آہ وبکا ، اورچہرہ نوچنے ، گریبان چاک کرنے اورچھاتی  پیٹنے سے احتراز ، یہ ایمان رکھتے ہوئے کہ یہ مصیبتیں  ہمارا مقدرہیں  صبر ہے ۔    
صبر کی اہمیت :
     اخلاقی صفات میں صبر وہ صفت ہے جس کا دین اسلام نے بہت زیادہ اہتمام کیاہے اسی وجہ سے اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجیدکے اندرتقریبا نوے (90) بار اس کاذکرکیا ہے۔ قرآن مجیدمیں اللہ تعالی نے جہاں بھی صبرکاذکرکیاہے "یاأیھاالذین آمنوا ۔۔۔"سے خطاب کیاہے ،اورکئی مقامات پراس  کا تذکرہ نمازاورتقوی کے ساتھ کیاہے۔ نیزدین کےاکثرمقامات صبرسے مرتبط ہیں  ، کیونکہ اطاعت کی بجاآوری اورمعصیت سے اجتناب کا نام ہی دین ہے جن کی اصل بنیادصبرہے ،اللہ تعالی نے سورۃ العصرمیں جب زمانے کی قسم کھاکرانسان کی ناکامیوں اوربربادیوں کاتذکرہ کیاتوچندلوگوں کواس سےمستثنی فرمایا جن میں سے وہ لوگ بھی ہیں جوایک دوسرےکوصبرکی تلقین کرتےہیں ۔  نیز اللہ تبارک وتعالی نے مختلف مقامات پر انبیاءکرام علیہم السلام اورمومنوں   کوصبرکاحکم دیاہے ، اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتےہوئے فرماتاہے :{فاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ } (صبر کیجئے  کیونکہ اللہ کا وعدہ برحق ہے ) (سورۃ الروم:60)۔ نیزفرماتاہے : اصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ }(یہ جو کچھ کہتے ہیں اس پر آپ صبرکریں اور اپنے رب کی تسبیح  تعریف کے ساتھ بیان کریں سورج نکلنے سے پہلے بھی اور سورج غروب ہونے سے پہلےبھی ) (سورۃ  ق:39)۔نیزفرماتاہے: {فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ} (جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبرکیااسی طرح آپ بھی صبرکیجئے) (سورۃالاحقاف: 35)۔
ایک جگہ  فرماتاہے :{ يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنذِرْ   وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ  وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ   وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ  وَلَا تَمْنُن تَسْتَكْثِرُ  وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ} (اے کپڑااوڑھنے والے ، کھڑاہوجااور (لوگوں کو)آگاہ کردے،اپنے کپڑوں کو پاک رکھاکر،ناپاکی کوچھوڑدے، اوراحسان کرکےزیادہ لینے کی خواہش نہ کر، اور اپنے رب کی راہ میں صبرکر) (سورۃ المدثر:1-7)۔
نیزفرماتاہے: {وَاصْبِرْ عَلى ما يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا}(اورجوکچھ وہ کہیں اس پر صبرکراور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہ) ( سورۃ المزمل:10
     اللہ رب العزت کے بقول  :لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کوحکم دیتےہوئے فرماتےہیں : { يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ }(اے بیٹے نمازقائم کر، بھلائی کاحکم دے ، برائی سے روک اور اگر تجھے کوئی پریشانی ہو تو صبرکر، یقین مانوں کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے۔) (سورۃ لقمان :17)۔ 
انبیاء کرام کے صبر کے بارے میں فرماتاہے : {وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَى مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا }(آپ سے قبل رسولوں کوجھٹلایاگیاتو انہوں نے اپنے جھٹلائے جانے اور اذیت دئے جانے پر صبرکیا،یہاں تک کہ ان کو ہماری مدد پہنچ گئی ) (سورۃالانعام:34) انبیاء کرام کو لوگ کسی بھی طرح کی تکلیف دیتے تووہ  ان سے کہتے :{وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا آَذَيْتُمُونَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ}(تم ہمیں ایذائیں دوگے تو ہم ان پر صبر کریں گے اور توکل کرنے والوں کے لئے اللہ پرتوکل کرنا ہی زیباہے ) ۔ (سورۃابراہیم :12)۔
نیزفرماتاہے : {وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ كُلٌّ مِنَ الصَّابِرِينَ}(اور اسماعیل ادریس اور ذوالکفل سب کے سب صبرکرنے والوں میں سے تھے)۔( سورۃالانبیاء:85)۔
       ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئےاس وقت آپ کو تیزبخارتھا، انہوں نے چادرکے اوپرہاتھ رکھاتو کہا: اے اللہ کےرسول ( صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ کوتو بہت تیزبخارہے، تو آپ نے فرمایا:"إنا كذلك، يشدد علينا البلاء ويضاعف لنا الأجر""ہم (انبیاء)  پرایسے ہی سخت بلاء آتی ہے اور ہمارے اجرمیں زیادتی کی جاتی ہے" پھر پوچھا : اے اللہ کے رسول ! سب سے سخت مصیبتیں کن لوگوں پرآتی ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: " انبیاء پر" پوچھا: پھرکن پر ؟ تو فرمایا:" علماء پر" پوچھا: پھرکن پر؟ تو فرمایا:"نیک لوگوں پر"۔(شعب الایمان للبیہقی /9774،علامہ البانی نے اس روایت کو صحیح قراردیاہے۔ صحیح الترغیب /3403)۔
     اپنے مومن بندوں کو حکم دیتے ہوئے  اللہ تعالی فرماتاہے : { وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ }(صبر اور نمازکے ساتھ مدد طلب کرو،یہ چیزشاق ہے مگرڈررکھنے والوں پر)  (سورہ البقرہ:45) نیزفرماتاہے :{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ } (اے ایمان والوں صبر کرو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھواورجہاد کے لئے تیار رہواور اللہ سے ڈرتے رہوتاکہ تم کامیاب ہوسکو۔) (سورۃآل عمران:200)۔
      اسی طرح اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجیدکے اندراپنےمومن بندوں کوصبر کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ  ابراہیم اسماعیل، یعقوب ، یوسف ،ایوب ، موسی، عیسی اوردیگرانبیاءکرام علیہم السلام کے صبرکےواقعات مختلف اسلوب واندازمیں ذکرکیاہےجن کاذکرطوالت کاسبب ہے  ۔
صبر کی معرفت :
      اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید کے اندراور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنتوں کے اندر صبرکی مختلف صورتوں راستوں اورطریقوں  کو بیان کیاہےجن کی معرفت انسان کو صبر کی حقیقی اہمیت ، اس کی ضرورت اور فوائدکا ادراک کراتی ہے اور پھر رب کائنات کی حقیقی معرفت اوربےمشقت  زندگی کی راہیں  ہموارکرنے میں ممد ومعاون بنتی ہے  ۔
اسی طرح اللہ کی حاکمیت اور کمال قدرت اور تقیدیر پر ایمان صبر کا عنصرہے ، انسان کو ہمیشہ یہ بات  اپنے ذہن میں رکھنی  چاہئے کہ صبر اس کے اور اس کے رب کے درمیان تعلق کا ایک بہترین ذریعہ ووسیلہ ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے:{ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ}(جب انہیں مصیبت پہنچتی ہے تو { إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ } کہتے ہیں)۔( سورۃالبقرہ:156)۔
     جیساکہ مذکورہ نصوص میں بیان کیاگیاکہ اللہ تبارک وتعالی انسان کے اوپر مختلف وجوہات کی بناپر مصیبتیں اور تکلیفیں نازل کرتارہتا ہے ، کبھی انسان کے نفس میں ، کبھی مال ودولت میں ، کبھی آل واولاد میں تو کھبی رشتہ داروں اور ملک ووطن میں یا اور کسی چیزمیں ۔ ان سارے مصا‏ئب کے اندر اللہ تبارک وتعالی نے  صبر کا حکم دیاہے اور دنیا وآخرت میں کامیابی کا ذریعہ قراردیاہے۔
     لہذا انسان کو ایسے مواقع سے لعن طعن،آہ وواویلااور گریبان چاک کرنے کے بجائے اللہ کی تقدیرپر ایمان کے ساتھ ساتھ اس کی طرف سے آسانی ورحمت کا انتظار کرنا چاہئے کیونکہ یہ مصیبتیں ہمار ےلئےآزمائش، گناہوں کا کفارہ اور ایمان کی مضبوطی کا ذریعہ ہیں۔
   اور اس پر واویلا اور ہائے توبہ ایمان کی کمزوری کا سبب ہے ،سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو گالوں کو پیٹے یا گریبان کو پھاڑے ۔۔۔۔" (صحیح مسلم/103 )۔
صبر کا اصل موقع :
      انسان حسب برداشت وحاجت صبر کرتاہے لیکن اصلی صبروہی ہے جو ابتدائی صدمہ  پہ کیاجائے ، بلا شبہ جب کسی تکلیف اور مصیبت کے پہلے حملے پہ آدمی صبر کرے تو اس کی قوت ارادی اور اللہ سے قربت اور اس پرتوکل اور اسی سے رجاء وامید  کا پتہ چلتاہے  ،  اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إنما الصبرعند الصدمة الأولى" " صبر تو پہلے صدمہ کے وقت ہے "  ۔(صحیح بخاری /1252 ، صحیح مسلم /926)۔
صبرکے فوا‏ئد اور ثمرات :
     قرآن وسنت کے نصوص میں صبرکے مختلف فوائد اوراس کے ثمرات کا بیان ہےجن میں سے چند کاذکر مندرجہ ذیل ہے:
پہلافائدہ وثمرہ:صبرسے ایمان ویقین کی پختگی کاپتہ چلتاہے ، اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیاکہ کون سا ایمان افضل ہے توآپ نے ارشادفرمایا:" الصَّبْرُ وَالسَّمَاحَةُ"صبراوردرگذر (رواہ  ابویعلی/1854 وابن ابی شیبہ فی شعب الایمان/9710 ، علامہ البانی نے سلسلہ صحیحہ /1495 کے اندرصحیح  قرار دیاہے۔) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں:"صبر نصف ایمان ہے"(رواه الطبراني في الكبير /8544 والحاکم/3666، علامہ البانی نے صحیح الترغیب والترھیب /3397کے اندراسےصحیح  قراردیاہے)۔
دوسرافائدہ: صبرآدمی کےاندرخشوع وعاجزی پیداکرتاہے، اللہ رب العزت فرماتاہے : { وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ* الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَى مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ}(عاجزی کرنےوالوں کوخوشخبری سنادیجئے،یہ وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کاذکرکیاجائےتوان کادل تھراجاتاہے،انہیں جب تکلیف پہونچےتوصبرکرتےہیں ،نمازقائم کرتےہیں ، اورہم نےجوکچھ  انہیں دیاہے اس میں سے (اللہ کےراستےمیں ) خرچ کرتےہیں ) (سورۃالحج:34-35) ۔
تیسرافائدہ: صبرسےصدق وتقوی  کی صفت پیداہوتی ہے  ، نیکوکاروں کا تذکرہ کرتےہوئے اللہ تعالی فرماتاہے: { وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ}(تنگدستی ،دکھ ،درد اورلڑائی کےوقت صبرکرنےوالے،یہی لوگ سچے ہیں اوریہی متقی وپرہیزگارہیں ) (سورۃالبقرہ: 177
چوتھا فائدہ : صبرسےہدایت ملتی ہے، اللہ تعالی فرماتاہے : { وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ } (سورۃالتغابن:11) امام طبری اوردیگرمفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا قول نقل کیاہے کہ  اس سے مرادوہ آدمی ہے جس پرمصیبت آتی ہے تواسے یقین ہوتاہے کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے اورپھراس پرسراپاتسلیم ورضابن جاتاہے۔
اورصحیح مسلم کےاندرہے،اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " والصَّبْرُضِياءٌ "(صحیح مسلم /556) یعنی آدمی ہمیشہ صبرکےذریعہ روشن راستہ وہدایت کا طلبگارہوتاہےکہ حق وصواب پرقائم رہے ۔
اللہ تعالی صبرکرنے والوں کے سلسلےمیں  فرماتاہے : { وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ} (اوریہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ) (البقرة: 157
پانچواں فائدہ:صبرسے امامت وحکومت اوررئاست  ملتی ہے،  بنواسرائیل کے سلسلےمیں اللہ تعالی فرماتاہے : {وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُو} (ہم نے ان لوگوں کوجوبالکل کمزروسمجھےجاتےتھےاس سرزمین کےپورب وپچھم کامالک بنادیاجس میں ہم نےبرکت رکھی اورآپ کے رب کانیک وعدہ بنواسرائیل کےحق میں ان کےصبرکی وجہ سے پوراہوگیا) (سورۃالأعراف: 137) نیزفرماتاہے: {وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآَيَاتِنَا يُوقِنُونَ}(اورجب ان لوگوں نے صبرکیاتوہم نے ان میں سے ایسے پیشوابنائےجوہمارےحکم سےلوگوں کوہدایت کرتےتھےاوروہ ہماری آیتوں پریقین رکھتےتھے) (سورۃالسجدة:24
چھٹا فائدہ : صبرسے اللہ کی  رحمت کاحاصل ہوتی ہے ،اللہ تعالی فرماتاہے : {وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ * الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ * أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ} (صبرکرنےوالوں کوبشارت دےدیجئےجنہیں مصیبت پہونچتی ہےتو" إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ " کہتےہیں ، ان پران کےرب کی نوازشیں اوررحمتیں ہیں اوریہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ) (سورۃالبقرة: 155- 157
ساتواں فائدہ : صبرگناہوں کاکفارہ ہے،ابوسعید  خدری اورابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : "ما يصيب المسلم من نصبٍ ولا وصبٍ ولا همٍ ولا حزنٍ ولا أذىً ولا غمٍ حتى الشوكة يشاكُها إلا كفر الله بها من خطاياه""کسی مسلم کوتھکان ،درد،غم ، اذیت ،اورتکلیف پہونچتی ہے ،یہاں تک کہ کانٹابھی چوبھتاہےتواللہ تعالی (صبرکرنےپہ)  اس کےبدلے اس کےگناہ معاف فرمادیتاہے"۔(صحیح بخاری /5641  وصحیح مسلم /2554) نیزفرماتے ہیں : "لَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤْمِنِ أَوْ الْمُؤْمِنَةِ فِي جَسَدِهِ وَفِي مَالِهِ وَفِي وَلَدِهِ حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ وَمَا عَلَيْهِ مِنْ خَطِيئَةٍ" "مومن مرد یا مومنہ عورت کواس کے جسم میں اوراس کی  مال و دولت میں اوراس کی  اولاد میں  مصیتیں پہنچتی رہتی ہیں (اوروہ صبر کرتاہے) تو وہ اللہ تعالی سے  حال میں ملتاہے کہ اس کے اوپر کوئی  گناہ باقی نہیں رہتا"۔(سنن ترمذی /2399،مسند احمد/7859 ، علامہ البانی نے اس روایت کو حسن صحیح قراردیاہے۔سلسلۃالاحادیث الصحیحۃ/2280)۔ 
      اسی طرح بخار جیسی بیماری پر آدمی صبر کرتاہے تو اس کے گناہ جھڑجاتے ہیں ، جابررضی اللہ عنہ سے مروی  ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ام سائب کے پاس گئے (وہ بخارسے تپ رہی تھیں )   ، آپ نے پوچھا : " کیابات ہے تمہارے اوپر کپکپی کیوں طاری ہے ؟ " تو انہوں نے کہاہے : بخارکی وجہ سے ، اللہ تعالی اس کے اندر برکت نہ دے ۔تو آپ نے فرمایا: لا تسبي الحمى ; فإنها تذهب خطايا بني آدم ، كما يذهب الكير خبث الحديد  "بخار کو برابھلامت کہہ کیونکہ بخاربنوآدم کے گناہوں کو اس  طرح ختم کردیتاہے جیسے بھٹی لوہے کی گندگی کو" (رواه مسلم/4678) ،اسی طرح عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "إنَّما مثَلُ العَبْدِ المؤْمِنِ حين يُصيبُه الوَعْكُ والحُمّى؛ كحديدَةٍ تدْخُلُ النارَ، فَيذْهَبُ خَبثُها ويَبْقَى طِيبُها" "مومن بندےکی مثال جب اسے دردو بخار لاحق ہوتاہے اس لوہے کی طرح ہے جو آگ میں جاتاہے تواس کی گندگی ختم ہوجاتی ہے اور اس کا خالص  حصہ بچ جاتاہے " ۔(رواہ الحاکم ، شیخ البانی نے اسے حسن قراردیاہے ۔ صحیح الترغیب /3439)۔  
آٹھواں فائدہ : صبرکرنےوالےکواللہ تعالی بے  حساب اجرسے نوازتاہے، اللہ تعالی فرماتاہے : { إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ} (صبرکرنےوالے کواللہ تعالی بےحساب اجر دیتاہے) (سورۃالزمر:10) ۔نیزفرماتاہے: {إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ} (سوائے ان لوگوں کےجنہوں نے صبرکیااورنیک اعمال انجام دئے توان کےلئے بخشش اوربہت بڑااجرہے) (سورۃھود:11)۔
نواں فائدہ : صبرسےاللہ کی معیت  حاصل ہوتی ہے ،اللہ تعالی فرماتاہے : {إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ}(بےشک اللہ صبرکرنےوالوں کےساتھ ہے) (سورۃالبقرہ:153)۔
دسواں فائدہ :صبرکرنےوالوں سے  اللہ تبارک وتعالی  محبت  کرتاہے،اللہ تعالی فرماتاہے: {وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ} (اور اللہ صبرکرنےوالوں سے  محبت  کرتاہے) (سورۃآل عمران: 146)۔
گیارہواں فائدہ :صبرسے جنت  اوراس کی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں ،اللہ تبارک وتعالی  فرماتاہے:{الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ}(جو صبر کرنے والے اور سچ بولنے والے اور فرمانبرداری کرنے والے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے  اور  بوقت سحر بخشش مانگنے والے ہیں ) (سورۃآل عمران : 17)۔اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے متقی ، صادق،فرمانبردار، دعاءکرنےوالوں اوراللہ کی راہ میں خرچ کرنےوالوں کےساتھ صبرکرنےوالوں کےلئےجنت اوراس کی نعمتوں کاوعدہ کیاہے۔صحیحین کےاندرہے کہ ایک کالی عورت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اورکہا : میرےاوپرغشی طاری ہوجاتی ہے اورمیں بےپردہ ہوجاتی ہوں ،اللہ سےمیرےلئے دعاءکردیجئےکہ ایسانہ ہو۔ توآپ نے فرمایا:"اگرتوصبرکرتی ہےتوتیرےلئے جنت ہے ، اوراگریہ چاہتی ہے کہ تیرےلئے دعاءکروں اوراللہ تمہیں شفادے،توکردوں گا " اس عورت نےکہا: میں صبرکروں گی ، لیکن جوایسی حالت میں بےپردہ ہوجاتی ہوں اس کے لئےدعاءکردیجئے کہ ایسانہ ہو،توآپ نے اس کےلئے دعاءکردیا" ۔(صحیح بخاری /5328 ، صحیح مسلم /2576)حدیث قدسی میں  ہے کہ اللہ کےرسول نے فرمایا کہ: اللہ تعالی فرماتاہے: ے آدم کی اولاداگرتونے پہلےصدمہ کے وقت صبرواحتساب سے کام لیاتومیں جنت سے کم پرتمہارےلئے راضی نہیں ہوں "(اسے ابن ماجہ /1597نے روایت کیاہے اورعلامہ البانی نے حسن قراردیاہے)۔
بارہواں فائدہ : صبرانسان کےاندرعزم وثبات  اورہمت وحوصلہ  پیداکرتاہے،اللہ تعالی فرماتاہے:{ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ} (اگرصبراورتقوی اختیارکروتویقینایہ بہت بڑی ہمت کاکام ہے ) (سورۃآل عمران:186) ۔
تیرہواں فائدہ : صبرسے دشمن کی سازشیں نقصان نہیں دیتیں، اوراللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے،اللہ تعالی فرماتاہے: {وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا}(اگرصبرکرواورتقوی اختیارکروتوان کی سازشیں تمیہں کچھ نقصان نہیں پہونچاسکتیں ) (سورۃآل عمران:  120)۔
چودہواں فائدہ:صبرکرنےوالے کےساتھ اللہ کی نصرت ومدد ہوتی ہے ، اللہ تعالی فرماتاہے: {بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آَلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ}(کیوں نہیں اگرتم صبرکرو،پرہیزگاری کرواوریہ لوگ  اسی دم تمہارےپاس آجائیں توتمہارارب  پانچ ہزارمخصوص نشان والےفرشتوں سے تمہاری مددکرےگا) (سورۃآل عمران: 125)۔
پندرہواں فائدہ:امام حسن بصری فرماتےہیں : "   صبر خیرکے خزانوں میں  سے ایک  خزانہ ہے جو اللہ تبارک وتعالی کی جانب سے نیک بندوں کو ہی دیاجاتاہے ۔( الصبر والثواب عليہ لابن أبی الدنيا/ص 38 ، مختصر منہاج القاصدين/ص259) ۔
سولہواں فا‏ئدہ : اللہ تعالی نے صبر کو فلاح وکامیابی  کا ضامن قراردیاہے، فرماتاہے:{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ } (اے ایمان والوں صبر کرو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھواورجہاد کے لئے تیار رہواور اللہ سے ڈرتے رہوتاکہ تم کامیاب ہوسکو۔)  (سورۃآل عمران:200)۔
سترہواں فائدہ : صبرسے ایک مومن کا تقدیرپر ایمان مضبوط ہوتاہے ،کیونکہ  وہ جانتاہے کہ یہ ساری بلائیں اور مصیبتیں  تقدیرکاحصہ ہیں  ۔
اٹھارہواں فا‏ئدہ : صبرکے اندرخیرہی خیرہے ، اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: "عَجَباً لأمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ لَهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَلِكَ لأِحَدٍ إِلاَّ للْمُؤْمِن: إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْراً لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خيْراً لَهُ""مومن کےمعاملے پرتعجب ہے ،اس کا تمام کاتمام معاملہ خیرہے، اوریہ  صرف مومن کےلئے ہی ہے، اگراسے خوشی ملتی ہےتوشکراداکرتاہے اوریہ اس کےلئےخیرہے اوراگرغم وتکلیف لاحق ہوتی ہےتوصبرکرتاہے، اوریہ اس کےلئےخیرہے" (صحیح مسلم /2999) ۔
انیسواں فائدہ : صبرکومومن بندےکےلئے اللہ کا عطیہ وتحفہ قراردیاگیاہے، اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:" مَا أُعْطِىَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْراً وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ""کسی کےلئے صبرسے بہتراوروسیع ترعطیہ نہیں ہے" (صحیح بخاری /1469 ، صحیح مسلم /1053)۔
بیسواں فائدہ :صبرکرنے والا اللہ رب العزت کی حفظ وامان میں ہوتاہے ، اللہ تعالی فرماتاہے :{ وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۖ}(اپنے رب کے حکم کے انتظار میں صبرسے کام لے کیونکہ تم میری حفظ وامان میں ہو)  (سورۃالطور:48
     اللہ رب العزت ہمیں ناگہانی مصیبتوں سے اپنے حفظ وامان میں رکھے ، اور قسم کی پریشانیوں پر صبر جمیل کی توفیق دے ۔آمین ۔ وصلی اللہ علی خیرخلقہ ونبیہ محمد  وعلی آلہ وصحبہ اجمعین ۔

               عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی                                                                         

٭٭٭٭٭