اتوار، 26 دسمبر، 2021

خمارِتَدَیُّن

 

P

 

( خمارِتَدَیُّن)

(عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی)

             دینداری ایک خوبصورت احساس ہے جو کسی بھی انسان  کے عمل سے مترشح ہوتاہے ،کوئی بھی انسان خاص طورسے مسلمان جب کسی دیندار اور اس کی دینداری کودیکھتاہےتو خودبخود اس کے دل میں اس  کی قدربڑھ جاتی ہے ، یہ ایک فطری جذبہ ہے ، مجھے یاد ہے ہمارے گاؤں  اورعلاقےمیں نمازی یا داڑھی والےکو  بڑی قدرکی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا ،جہاں سے ان کا گزرہوجائے لوگ احتراما کھڑے ہوجاتےتھے ،اورکہیں کہیں آج بھی  یہ چیز موجود ہے ۔

 لیکن کیا کسی بھی مسلمان کا بظاہر دیندارہونا اللہ تعالی کے یہاں کافی ہے ، خاص طورسے جب اس کے عمل اورعقیدہ  کے اندر غیرشرعی مقاصد کی آمیزش ہو؟ جیسے ریاءکاری ، دنیا طلبی ، بدعت ، شرک اور دیگر خطرنا ک امور وعقائد  ؟   

ایسا بالکل نہیں ہے ، ظاہر سی بات ہےکہ شریعت کی نگاہ میں آدمی اعمال کا پہاڑلے کر آئے پھربھی عمل کی  قبولیت اور اصل دینداری کا اعتبار قرآن وسنت صحیحہ کے مطابق   ہوگا  اور ہر دینداری کے لئے شریعت کا میزان  ہی ضروری قرارپائےگا ۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ غیرضروری اور حدسے بڑھی ہوئی دینداری بسااوقات فتنوں کا سبب بھی بنتاہے ، اورایسا دیندار اپنی بےجادلیلوں کی وجہ سے  اپنی دینداری میں اندھابہرہ  بن جاتاہے ، اب اس کے سامنے لاکھ صحیح اورمناسب دلیلیں پیش کی جائیں ، مانتاوہی ہے جو اس کی دینداری کے تَحَیُّض  کوسوٹ کرتاہو،اس لئے ایسی دینداری سے  عصبیت اورغلو کا تعفُّن غیر متوقع نہیں ہے۔

موجودہ دورمیں کسی گروہ کےصحیح وغلط ہونے کےلئے ان کی بعض محنت وکوشش کو معیارقراردینا ،جب کہ وہ  کسی گروہ سے بغض یا کسی کی طرف رجحان   اور اس سے حدسے بڑھی ہوئی عقیدت کی بنیاد پر ہو عام  سی بات ہوگئی ہے ، حالانکہ ایسے موقع سے خاص طورسے جب معاملہ دین کا ہو  ایسے گروہ یا فرد کے اعمال کے ساتھ ساتھ  ان کے عقائد کو بھی دیکھنا ضروری ہے ، ورنہ عقائدکی خرابی انسان کی دنیا وآخرت کے خسران کا سبب بن سکتی ہے ،یہ دیکھتےہوئے کہ عالَمِ دریافت میں فکروفہم کے ایسے ایسے راستے موجودہیں جو پلک جھپکتےہی   سمجھ کے زاویے بدل دیتےہوں ،  اور حدسےبڑھی ہوئی دینداری نے تو اس عالَم سے وافرحصہ پایاہے ،  اس نے تو اسلام جیسے منہج صافی کو بھی ہرممکن مکدرکرنے کی کوشش کی ہے ، شرک سے لے کر بدعات تک جتنی بھی   خرابیاں ہم مسلمانوں میں دیکھتےہیں ، وہ سب   مقصدِکسب  مال اور حصول زرکےساتھ ساتھ غیرمناسب تدیّن ہی کا نتیجہ ہیں ،   یہی وجہ ہے کہ سلف نے  ہمیشہ اس بات کا خدشہ ظاہرکیاہے کہ  بدعتی کو توبہ کی توفیق نہیں ہوتی  کیونکہ دینداری میں غلو ہمیشہ توبہ اورتوفیق کی راہ میں آڑے آتی ہے  ۔

خوارج اسلام میں پیدا ہونے والا ایک ایسا گروہ ہے جو پورے طورپر اسلام اور دینداری کے نام  پر وجودمیں آیا ، حالانکہ اس گروہ  کی پیشن گوئی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی پہلے ہی کردی گئی تھی ، سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اس گروہ کا وجودخیرالقرون میں ہوتاہے ، خلیفہ راشدبھی موجود ہے ، صحابہ کی ایک بڑی تعدادبھی موجود ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کے افراد بھی موجودہیں ،دینداری کے لئے ایک مثالی عہد ہے ، عبادت ،جہاد، نظام خلافت کے سارے شرائط ، صحیح تعلیم وتعلم کا وسیلہ سب کچھ موجود ہوتے ہوئے جب یہ گروہ جنم لیتاہے تو صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم اجمعین انہیں واجب القتل قراردیتےہیں ، ایسا نہیں تھا کہ یہ گروہ  بددین تھا ،عمل وعبادت میں یہ ایسے تھے کہ صحابہ کرام  اپنے عمل کو ان کے سامنے حقیراورکمترسمجھتےتھے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عملی تحمس کاتذکرہ ان الفاظ میں کیاہے : "يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلاَتَهُ مَعَ صَلاَتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ"۔ " تم ان کی نمازکےسامنے اپنی نمازاور ان کے روزےکے سامنے اپنے روزوں  کو حقیرسمجھوگے،یہ قرآن پڑھیں گےلیکن وہ  ان کےگلےسےنہیں اترےگا ،یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکارکےجسم  سے نکل جاتاہے" ۔

صحیح بخاری کی روایت میں ہے : "يقرءون القرآن لا يجاوزحناجرهم يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية لئن أدركتهم لأقتلنهم قتل عاد"" قرآن پڑھیں گے لیکن  وہ ان کےگلےسےنہیں اترےگا ،اہل اسلام کوقتل کریں گےاوربتوں کے پجاریوں کودعوت دیں گے یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم  سے نکل جاتاہے،اگرمیں ان کوپالوں توقوم عادکی طرح ان کوقتل کروں گا"۔ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ فرماتےہیں :میں گواہی دیتاہوں کہ میں نے یہ حدیث اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سےسنی ہے۔ (دیکھئے:صحيح البخاري : 3341 ،3344،4351 ،صحیح مسلم : 1064،1065،1066 

دینداری کی وہ کون سی  ظاہری شرط ہے جو ان میں نہیں تھی ؟ :

- قرآن کی تلاوت میں بڑھ کرتھے۔

- نمازروزوں میں  عملا   و جہدا  ممتازتھے۔عبداللہ بن عباس کے بقول :"میں نے عبادت میں ان سے زیادہ مجتہدنہیں دیکھا،  ان کے چہروں پرسجدوں کے نشانات تھے۔

- جھوٹ ان کے یہاں ایسا کبیرہ گناہ کہ  اس کا ارتکاب کرنے والے کو " خلودفی النار " کا مستحق قرار دیا۔

- جنگ اوراختلاف کے وقت ایسا نعرہ کہ اس سے بہتر نعرہ شایدڈھنڈھنے سے ملے (لاحکم الا للہ)  ، ایک صحیح مسلمان کے لئے  اختلاف اورانتشارکے وقت اس سے بہتر نعرہ  اور کیاہوسکتاہے ؟

لیکن یہ فرقہ اپنے غیرمعمولی عملی  دینداری  کے باوجودصحیح عقائد  بھٹکاہواتھا ،  ولی الامرکی اطاعت سے نکلنا، صحابۂکرام رضی اللہ عنہم کوسب وشتم کرنا، مرتکب کبیرہ کی تکفیر، حجیت سنت کا انکاراورصفات باری تعالی کی تاویل وتعطیل ،  یہ ایسےعقائد ہیں جوکسی بھی فرقہ کی گمراہی کے لئے کافی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ تمام صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم نے ان سے دوری اختیارکی اوران سےقتال کرنے میں  پس وپیش سے کام نہیں لیا ۔

       قابل ذکربات یہ ہے کہ خوارج  روایت حدیث میں ثقہ ترین لوگوں میں سے تھے ان کی بعض روایتیں  صحیح ترین  سندوں میں شمارکی جاتی ہیں ، جیساکہ خطیب بغدادی نے امام ابوداؤدکا قول نقل کیاہے کہ :" بدعت پرستوں میں سےخوارج کی روایتوں سے زیادہ صحیح روایتیں کسی کی نہیں ہوتیں " اور شیخ الاسلام  ابن تیمیہ کےبقول :"خوارج جان بوجھ جھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں تھے یہاں تک کہاجاتاہے کہ ان کی حدیثیں صحیح ترین ہواکرتی تھیں  لیکن یہ جہالت کی  وجہ سے  اپنی بدعت میں گمراہ ہوگئے ، اوران کی بدعت الحادوزندقیت کی بنیادپرنہیں تھی بلکہ قرآن کریم کے فہم سے جہالت  وگمراہی کی بنیاد پر تھی "۔(منہاج السنہ النبویہ  :1/68) ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جھوٹ جوکبیرہ گناہوں میں سے ہے ان کے نزدیک نہ یہ کہ اس کا مرتکب آثم ہے بلکہ  جیساکہ پہلے ذکرکیا گیا اس کے اوپرکفرکا اطلاق ہوتاہے ۔ معلوم ہواکہ  روایت حدیث میں اپنی ثقاہت کے باوجود تاویلی اورتخریبی فکروعمل کااثران کی گمراہیت کاسبب بناجس کی پیشن گوئی پہلےہی کی جاچکی تھی  ۔یہی وجہ ہے کہ  علماء سلف  کی ایک معتدبہ تعداد جیسے  امام بخاری ، امام ابوبکربن العربی ،امام سبکی اورامام قرطبی  ، امام شافعی ، امام مالک،امام احمدنیز  اہل حدیث کی ایک جماعت  نے ظاہری تدین  وتزہد کے باوجود ان کی طرف کفرکی نسبت کی ہے ، معاصرین میں سے شیخ ابن بازبھی اسی کی جانب گئے ہیں ۔( دیکھئے : فتح الباری :12/313 ، الابانۃ الصغری :ص152 ، الشفا:2/1057 ،مجموع فتاوی ابن تیمیہ :28/518 والمغنی لابن قدامہ :12/239)

 اوروجہ تکفیر :  علماء سلف نے ان کی تکفیر بلاوجہ نہیں کی ہے ، اگروہ صرف ان کی ظاہری عملی دینداری کو دیکھتے تو تکفیر کی کوئی وجہ نہیں تھی ، لیکن دینداری کی مذکورہ صورت  کے بجائے انہوں نے ان کے عقائد اورافکارکو معیاربنایا ، ہم یہاں یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان کی نمازیں ، ان کا روزہ اوردیگر عباتیں سنت کے بیان کردہ طریقوں سے ہٹی ہوئی تھیں ، کیونکہ صحابہ کرام کا عہد ہے  عبادت واعمال میں بدعت کو رواج دینے کا چلن ابھی نہیں ہواہے ۔

آیئے دیکھتے ہیں  کہ سلف نے ان کی تکفیر کن بنیادوں پر کی ہے  :

(1)  احادیث میں وارد الفاظ کی بناپر جن میں ان کی ضلالت و گمراہی کی وضاحت موجودہے  کو بنایاہے جیسے :

- "يمروقون من الإسلام مروق السهم من الرمية""دین سے ایسےنکل جائیں گےجیسےتیرشکارکےجسم سے نکل جاتاہے " ۔

- "لايجاوزإيمانهم حناجرهم" "ان کاایمان ان کےحلق سے نیچےنہیں اترےگا"۔

- "فأينما لقيتموهم فاقتلوهم" "انہیں جہاں بھی پاؤقتل کرڈالو"۔

- " فإن قتلهم أجرلمن قتلهم يوم القيامة""ان کوقتل کرنےوالےکوقیامت کےدن اجرملےگا"۔

- "لأقتلنهم قتل عاد "وفي لفظ "ثمود""(اگرمیں انہیں پالیتاتو)عادکی طرح  قتل کردیتا" اورایک روایت میں لفظ "ثمود" ہے ۔

- "هم شرالخلق " "وہ بری مخلوق ہیں "۔

- "إنهم أبغض الخلق إلى الله تعالى " "وہ اللہ تعالی کے نزدیک مخلوق میں  سب سے برےہیں "۔

(2)   بزرگ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کوشامل ہے کیونکہ آپ نے ان کے جنتی ہونےکی شہادت دی ہے ۔

(3)   یہ اپنے مخالفین کے خون اورمال  کومباح سمجھتےہیں اوران کی تکفیرکے قا‏ئل ہیں۔

            آپ تاریخ کے صفحات میں دیکھیں گے کہ عالم اسلام میں جب  جب انتشارپھیلا ،مسلمانوں کے مختلف گروہ بنے اوران میں آپسی قتل وخونریزی کا ایک لامتناہی سلسلہ بنا اس کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ غیرمناسب اورحدسے بڑھاہواتدیّن بھی رہاہے ۔ جبکہ قرآن وسنت کے بےشمارنصوص میں غلو فی الدین  اور تقدم بین یدي اللہ ورسولہ کو  مذموم ممنوع  قرار دیاگیاہے ، آخر یہودونصاری کوبھی غلونے ہی گمراہ کیاتھا ، جس سے اللہ رب العزت نے  واضح طورپر منع کیاہے:( يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ)(النساء/171) ۔(اے اہل کتاب اپنےدین میں غلو مت کرو، اوراللہ تعالی  پربجزحق کے کچھ نہ کہو)۔

چنانچہ جب کسی فردیا جماعت کے مزاج وعمل میں  غلوفی الدین کا عمل دخل ہوجاتاہےتو اس کے اندراپنی خودساختہ دینداری کا ایسا نشہ چھاتاہے جواسے کسی بھی حق اور معیارتدین کوقبول  کرنے سے گرداں کردیتاہے،جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ  کچھ ظاہری اعمال کوہی  اصل دین سمجھ لیتاہے۔ :

أغاية الدين أن تحفوا شواربكم         يا أمة ضحكت من جهلها الأمم (متنبي)

(کیادین کا یہی مقصد ہے کہ اپنی مونچھےجڑسے مونڈلو ؟ ہائے رے امت اس کی جہالت پرقومیں ٹھٹھاکر رہی ہیں ) ۔

        آج جب کسی  جماعت یا فردکے عقیدہ وعمل کی خرابی کو بیان کیاجاتاہے تو  کہاجاتاہے کہ فلاں  جماعت نہایت ہی بےضررجماعت ہے ، ان کی بےشمارخدمات ہیں ،یہ دن ورات خوب محنت کرتے ہیں سیکڑوں میل پید ل چلتے ہیں ، دنیاسےدوررہتے ہیں ، اللہ کے راستےمیں نکلنے کے لئے کچھ دنوں تک گھربار،کھیتی باڑی ، بال بچوں اور نوکری اورتجارت تک کو بھول جاتےہیں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ باتیں کہنے اور سننے میں بڑی بھلی اور میٹھی لگتی ہیں ، لیکن اگر صرف یہ سب ہی معیار دین ہوتا تو پھر رہبانیت اور مطلقا تَبتُّل کو شریعت میں حرام کرنےکی کیاضرورت تھی ؟

یہ بھی دیکھاگیاہے کہ اس طرح کی  جماعتوں نے ظاہری دینداری  کے باوجود قرآن وسنت کی صحیح تعلیمات سے شعوری یاغیرشعوری طورپر عام لوگوں کے ساتھ ساتھ کچھ تعلیم یافتہ  افرادکوبھی دورکردیاہے ،  عام لوگ اس دھوکے میں ہوتے ہیں کہ یہ نہایت ہی دیندار ہیں ، جبکہ ان کی دینداری نے ہی لوگوں کے عقائدکوخراب کیاہے ، آپ دینداری کا دعوی کریں اور قرآن وسنت  کی صحیح تعلیمات سے روگردانی کریں ان سے بے اعتنائی برتیں   - ايں چہ بوالعجبی است  ؟-

طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ ایسی جماعتیں اپنے مخالفین کو ہرگزبرداشت نہیں کرتیں  ، دین کے نام پر جنم لینے والی بعض جماعتوں کو حال اورماضی میں دیکھا گیاہے کہ انہوں نے  مسجدوں تک کو مسمارکیاہے ، صرف ہندوستان میں سیکڑوں مسجدوں کے پروجیکٹ کو روک دیاہے ، صرف اس لئے کہ یہ مسجدیں بنانے والے اور ان کی دیکھ ریکھ کا ذمہ سنبھالنے والے  ان کے نظریات  وعقائد فاسدہ کے مخالف ہیں  یا  اپنی مساجد میں صرف قرآن وسنت کی تعلیم کی ہی اجازت دیتےہیں ۔ آپ دین کی دعوت اور شرائع اسلامی کی نشرواشاعت کا دعوی کریں ، یہ دعوی کریں کہ ہم  مسلم عوام کو کلمہ پڑھاکرمسجدوں سے قریب کردیتےہیں  ،لیکن دوسری طرف مسجدیں توڑیں ،  انہیں بننے سے روکیں ، قرآن وحدیث کی شروحات وتراجم پہ  اپنی من پسند اوررائج کتاب کو  جس کے اندر لیت ولعل کی بھرمارہو کو فوقیت دیں ،یہاں  تک کہ اہل حق کی مساجد میں درمیان خطبہ  ہنگامہ خیزی کریں ، آپ کے عقائدونظریات پر کوئی بحث   یا مضمون لکھےتو اسے جان سے مارنےکے درپےہوجائیں   ، یہ دینداری کی کون سی قسم ہے ؟ :

وإذا أراد الله إشقاء القرى         جعل الهداة بها دعاة شقاق  (أحمد شوقي)

(اللہ تعالی جب بستیوں کو بدحال (یا آزمائش میں مبتلا) کرناچاہتاہےتووہاں کے رہنماؤں کورنجش کا داعی بنادیتاہے) ۔

وهل أفسد الدين إلا الملوك      وأحبار سوء ورهبانها (ابن المبارك)

(دین کو بادشاہوں ،علماء سوء اور درویشویں نے  ہی بگاڑرکھاہے) ۔

 مجھے کہنے دیجئے کہ  : آپ کی دعوت نے مسلمانوں کے دلوں میں کون سا اثرچھوڑاہے ؟ علاوہ  ان کے عقائد کو تباہ کرنے ، اوربعض معاشروں  میں تعصب کی بنیادپر نفرت پھیلانے کے اور کچھ کیاہوتو اللہ آپ کو جزائے خیردے اور ہدایت کے راستے پرچلائے۔ اس کے علاوہ ہم آپ کےلئے  اورکیا دعاء کرسکتےہیں ؟

آپ  پر نقدکیاجائے یا آپ کےکسی رویہ  کو واضح کیاجائے تو اپنی دینداری کا واسطہ دیکر  واویلہ کرنا  ، آپ کے خلاف دینداری کے نشےمیں ڈوبے ہونےکا ثبوت ہے  ، گرچہ آپ لاکھ اپنے بےضررہونے اور اکرام    غیر اور محنت  شاقہ  کی د ہائی دیں ،لیکن آپ کا صحیح عقائد سے عاری ہونا اور جہلِ  کلی کے باوجود دین وشریعت کے مسائل میں بے جامداخلت اورفتوی بازی   جس کا میں نے  بارہا تجربہ کیا ہے   دین وعقائد صحیحہ کے لئے سب سے بڑا ضرراورنقصان ہے ، جس کا ادراک ایک صحیح العقیدہ مسلمان ہی کرسکتاہے ۔

         چلتے چلتے یہ بتاتاچلوں کہ ہمارے ساتھ اورہمارے بعض احباب کے ساتھ کئی بار یہ مسئلہ پیش آیا ہے کہ جب ہم نے کسی غلطی پر کسی کو نصیحت کی ہے تو جواب ملا کہ فلاں صاحب نے  اس کے علاوہ فتوی دیا ہے اور ہم اسی کی بات مانیں گے کیونکہ انہوں نے اتنے دنوں تک اور اتنی بار  فلاں فلاں  "جماعت " میں وقت گزارہ ہے ، جو آدمی اتنا  "دیندار"  ہو ہم اسی کی بات مانیں گے ، پھر جب فلاں صاحب کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں  تو پتاچلا کہ ان کی تعلیم صرف اورصرف گاؤں کے مکتب میں" ناظرہ قرآن مجید" ، اور "یسرنا القرآن " سے آگے نہیں  بڑھی ہے ، اور کچھ تو محض "اردوقاعدہ " کا دور بھی اپنے لئے معراج علم سمجھتےہیں ، اور اس سے بھی زیادہ مصیبت خیز  اس " فلاں"  کا رویہ ہوتاہے ، کہ جب  کوئی مسئلہ  ان سے  پوچھ دیا جائے تو اس کا جواب نہ دینا اپنی  "لاجواب شخصیت "  کی  کسرشان  سمجھتا ہے، اوربجائے اس کے کہ کسی عالم دین کی طرف  رجوع کا مشورہ دے خود "چلائی  فتوی "  جھاڑدیتا ہے ۔ یہ صرف اس  ایک جماعت کے جہلاء کی حالت نہیں ہے میں تو کہوں گا اس حمام میں تمام جماعتوں اور تحریکوں کے متعالمین  اور جہلاء   ننگےہیں ۔ یا  للأسف !!!

آپ سوبارسوچیں کہ آپ نے دین کی تبلیغ کے نام پر عقیدہ اوراعمال کے کون سے خُرمہ اور بتاشے بانٹےہیں ؟  آپ کی دعوت سے اگر ایک  آدمی کا عقیدہ صحیح ہوجائے  وہ لاکھوں بدعقیدہ  خودساختہ دیندارسے بہترہے ۔

کو‏‏ئی لاکھ اپنی دینداری کا ڈھنڈھورہ پیٹ لے لیکن اصلی دینداروہی ہے  جس کا عقیدہ  وعمل دونوں قرآن وسنت کے موافق ہو ورنہ محض دعوی  مرفوض کے ساتھ ساتھ مبغوض بھی ہے :

وكل يدعي وصلا بليلى   وليلى لا تقر لهم بذاكا

(ہر ایک لیلی سے وصال ومحبت کا دعویدارہے جبکہ لیلی ان کوبھاؤ ہی نہیں دیتی ) ۔

آپ کی دعوت اگر خالص قرآن وسنت پر مبنی ہو تو اللہ رب العزت کے یہاں مقبول اور دیرپاہے لیکن وہی دعوت قرآن وسنت کی غلط اور من مانی  تاویل اور  ان میں تشکیک  پیداکرکے ہوتو پھر اس دعوت کا کوئی فائدہ نہیں  :

وكيف يفيد نصحك مستهاما    وقلبك من مقامك مستريب

                   وهل تثق النفوس بقول داع     وتعلم أن قائله كذوب  (محمد سلیم الجندی)

(کسی دیوانے کو آپکی نصیحت کیسے فائدہ پہونچا سکتی ہے جبکہ خودکا دل اپنے مرتبہ سے شک کا شکارہو۔کیا  نفس کسی داعی کے قول  پر بھروسہ کرسکتاہے جبکہ اسے پتاہے کہ اس بات کا کہنے والاجھوٹاہے) ۔

اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه وصل علی نبینا محمد وعلی آله وصحبه أجمعین ۔

 

>>>>>>>>>>>>>

 

 

 

 

 

 

 

 

منگل، 19 اکتوبر، 2021

 






بسم اللہ الرحمن الرحیم

           إن الحمد لله،نحمده ونستعينه،ونستغفره ونستهديه ونتوب إليه،ونعوذ بالله من شرورأنفسنا وسيئات أعمالنا،من يهده الله فلا مضل به،ومن يضلل فلاهادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له،وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله وصفيه وخليله - صلى الله عليه وسلم - ، وعلى آله وصحابته أجمعين،وبعد :

          جاہلیت کے جن عادات سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایاہے اور اپنی امت کو ان سے ڈرایاہے ان میں سےایک تعویذاور گنڈےلٹکاناہے ، جن کے متعلق کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ بری نظرسے بچاتے ہیں اور نقصان اورتکلیف کو دورکرتے ہیں ،جیسے تانت اور مالا وغیرہ ،جنہیں  حسداور بدنظری سے بچنے کےغرض سے بچوں اورجانوروں کو پہنایاجاتاہے ، جوکہ شرک باللہ کےقبیل سے ہے، جس سے اللہ تعالی سخت ناراض ہوتاہے اور اس نے اسے جنت سے محرومی کا سبب قراردیاہے، فرماتاہے: (إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ ) (المائدہ /72) (یقین مانوکہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتاہے اللہ تعالی نے اس پرجنت حرام کردی ہے ، اوراس کا ٹھکانہ جہنم ہے ، اورظالموں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا)۔

اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:(إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْضَلَّ ضَلَالًابَعِيدًا) (النساء /116) ۔ (بےشک اللہ تعالی شرک کو معاف نہیں کرےگا ، اور شرک کے علاوہ جو گناہ ہیں جن کے لئے چاہے معاف فرمادےگا ، اور اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا بہت دورکی گمراہی میں جاپڑا)۔

امام احمد نے عقبہ بن عامرالجہنی سے روایت کیاہےکہ :  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جماعت آئی تو آپ نے نو آدمیوں سے بیعت کی اورایک سے اپناہاتھ کھینچ لیا ، آپ سے لوگوں نے کہاکہ :اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے نو لوگوں سے بیعت کی اور اس  ایک سے نہیں ؟ تو آپ نے فرمایا:" إن عليه تميمة" "یہ تعویذ پہنے ہواہے" ، تواس نے اپنا ہاتھ داخل کیا اورتعویذکو کاٹ دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیعت کی اور فرمایا: "من علق تميمة فقد أشرك" "جس نے تعویذ لٹکائی اس نے شرک کیا"(امام ہیثمی مجمع الزوائدمیں فرماتےہیں کہ امام احمدکی سندکے رجال ثقہ ہیں )۔

اورعبداللہ بن مسعود رضی اللہ  عنہ روایت کرتے ہیں  کہ : میں نے  اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو  ارشاد فرماتےہوئے سنا:"إن الرقى والتمائم والتوَلة شرك" "جھاڑپھونک ،تعویذاور منتر(جو میاں بیوی کے درمیان محبت پیداکرنے کے لئےکیاجاتاہے) شرک ہے "۔( رواه أحمد، أبو داود ( 3883 ) وابن ماجہ( 353) والحاکم ، امام حاکم نے اسے صحیح قراردیاہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے) ۔

انہیں میں سےگاڑیوں پر تعویذاوردھاگے لٹکانا بھی ہے ، گاڑیوں کے آگے،یااس کے پیچھے کو‏ئی کپڑا (یادھاگہ ، جوتا،یا لیمون مرچ وغیرہ) لٹکایاجاتاہے، اور یہ عقیدہ رکھاجاتاہےکہ یہ حسد اورڈاہ کو دورکرتاہے، اور کسی بھی طرح کے حادثہ سے محفوظ رکھتاہے۔ یہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کے اعمال وعادات میں سے ہے ، جو اپنے جانوروں پر  نظربدکے ڈرسےلٹکاتے تھے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے توڑنے کاحکم دیاہے ، ابوبشیرانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت  ہے کہ  وہ کسی سفرمیں  اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ نے ایک قاصدکو یہ حکم دے کربھیجاکہ :" لا يَبْقَيَنَّ في رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلَادَةٌ مِن وَتَرٍ، أوْ قِلَادَةٌ إلَّا قُطِعَتْ"" کسی بھی  اونٹ کی گردن میں تانت کا گنڈا ہو یا(یا یہ فرمایا)   گنڈا (ہاریا کسی بھی طرح کا پٹہ وغیرہ) ہو اسے کاٹ  دیاجائے"۔(متفق علیہ)۔ امام مالک رحمہ اللہ  فرماتےہیں : "میرےخیال سےاسےنظربدسے بچنےکےلئے لٹکایاجاتاتھا" یعنی  اسے لٹکانے سےاس لئے منع فرمایا، کیونکہ ان لوگوں کا عقیدہ تھاکہ گھوڑے کو تانت پہنانا اسے نظربداور نقصان سے بچاتاہے،  گویایہ ان کےلئے تعویذ کی طرح تھا اسی لئے انہیں (اس سے) منع فرمایا، اور انہیں بتایاکہ یہ کسی بھی ضرراورنقصان کو دور نہیں کرتا،اورنہ ہی کسی طرح کا   بچاؤکرتاہے۔

    اس سلسلے میں علماء احناف نے بھی سختی اختیارکرتے ہوئے اسے شرک قراردیاہے، امام طحاوی حنفی کہتےہیں : " یہ ہمارے نزدیک – واللہ اعلم -  اسےقبل ازمصیبت لٹکایاجاتاہے، تاکہ وہ ٹل جائے، اور یہ ایسی چیزہے جس کی استطاعت وقدرت  اللہ عزوجل کےعلاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے چنانچہ اس سے منع فرمایا کیوں کہ یہ شرک ہے"۔

امام زیلعی حنفی کہتےہیں :" تمیمہ  وہ دھاگہ ہے جسے زمانہ جاہلیت میں   ان کے اپنے اعتقادکے مطابق کہ وہ اس کے ذریعہ خود سے نقصان وضررکو دورکرتے ہیں  گردن یا  ہاتھ پر باندھا جاتاتھا ، اوریہ (اسلام میں ) ممنوع وحرام ہے "۔

خادمی حنفی کہتےہیں :" اس حدیث سےیہ استدلال کیاجاتاہےکہ  لوگوں کو اپنی اولادکو تعویذ ،دھاگے اور گنڈے  وغیرہ  جس کی مختلف قسمیں ہیں پہنانا منع ہے ،  لوگوں کا عقیدہ ہے کہ  یہ   ان کو نفع پہنچاتاہے ، یا ان کو نظربد اور شیطانی وسوسوں   سے بچاتاہے، اس کے اندر شرک کی  قسم  پائی جاتی ہے – اللہ تعالی اس سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے-  نفع اورنقصان تو اللہ کے ہاتھ میں ہے نہ کہ غیراللہ کے ہاتھ میں " ۔

تعویذلٹکانے والے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعاء فرمائی ہے ، خودلٹکائے، اولادکے اوپرلٹکائے خواہ اپنے جانورپریا اپنی گاڑی میں لٹکائے ، امام احمد ،ابویعلی ، اورطبرانی نے عقبہ بن عامرالجہنی سے روایت کیاہے ، وہ کہتے ہیں کہ :میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : " من علق تميمة فلا أتم الله له، ومن علق ودعة فلا ودع الله له"" جس نے گلے میں تعویذلٹکائی  اللہ تعالی اس کی حاجت پوری نہ کرے، اور جس نے کوڑی یا گھونگھا لٹکائی اللہ تعالی اس کو آرام (شفا) نہ دے" ۔(امام حاکم نے اس روایت کو صحیح کہاہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرماناکہ:" اللہ تعالی اس کی حاجت پوری نہ کرے" اس پر بددعاء ہے کہ اللہ تعالی  اس کی  جو ضرورت یعنی    حرام ذریعہ سے  پریشانی کو دورکرناہے اسے پوری نہ کرے ۔ کئی بار ان لوگوں کے ساتھ سخت اورجان لیوا حادثے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی گاڑیوں میں اس طرح کے دھاگے لٹکارکھے تھے ، لیکن اس سے ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ، اور انہیں اللہ کے اس فرمان کا معنی بخوبی پتا چل گیا :(وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ) (یونس /107) ( اور اگر اللہ تعالی تمہیں کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تواس کے سوا اسے کوئی دور نہیں کرسکتا، اور اگر وہ تم کوکوئی خیرپہنچانا چاہے تواس کے فضل کا ہٹانے والا کوئی نہیں ہے ، وہ اپنا فضل بندوں میں سے جس پرچاہے نچھاور کردے اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والاہے)۔

  اور امام احمد امام ترمذی اور امام طبرانی نے عبداللہ بن عکیم الجہنی  رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:" مَن تعلق شيئاً وُكِلَ إليه "" جس نے کوئی چیزلٹکائی اسے اس چیزکے حوالے کردیاجاتاہے"۔(امام حاکم نے اس روایت کو صحیح کہاہے)۔

  انسان کی ذلت ورسوائی کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی اس کی حفاظت سے بری ہوجائے اور اسے کسی کمزوراورعاجزوناتواں مخلوق کے حوالے کردے ، جونہ اپنےخودکے نفع ونقصان کا مالک ہے اور نہ ہی کسی اورکے، اس لئے ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو شرکیہ اعمال سے بچنے اوراللہ وحدہ لاشریک لہ  کی ذات پرمکمل توکل وبھروسہ کرنے کی وصیت کرتے ہیں ، کہ وہی ہمارےلئے کافی ہےاوروہ بہت اچھا کارسازہے۔

اللہ رب العزت سے ہم دعاء کرتے ہیں کہ : اے اللہ ہم تجھ سے نیکیاں  کرنے اورگناہ چھوڑنے کی توفیق کے طلبگارہیں۔  وصلى الله وسلم على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين  ۔ آمین۔

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

 

                       عبد العزيز بن عبد الله بن محمد آل الشيخ / الرئيس                         أحمد بن علي المباركي/ عضو

                       صالح بن فوزان الفوزان/ عضو                                                               عبد الله بن غديان/ عضو

                        محمد بن حسن آل الشيخ/ عضو                                                                سعد بن ناصر الشثري/ عضو

              عبد الله بن محمد بن خنين/ عضو                                                            عبد الله بن محمد المطلق / عضو

g

اردوترجمہ

عبدالعلیم بن عبدالحفیظ /مترجم:  اسلامی دعوت وارشاد سینٹر یدمہ نجران سعودی عرب)