جمعرات، 24 اگست، 2023

جہالت کی فلاّحى

  فیس بک کے ایک کمنٹ پر رد عمل کا جواب 

جہالت کی فلاّحى

محترم غفران اصلاحی صاحب  !

 

(Ghufran Rafeequi Islahi Builders)

اگر علم وفہم سے واسطہ ہوتاتو اس طرح کی واہیات باتیں نہیں کرتے یہ بچے بچیوں کا کھیل نہیں ہےکہ ان کی غیر ضروری اور غیر مطابق مثالیں پیش کریں ، آپ اپنی بلڈنگ  کی ڈیزا‏ئننگ  میں مست رہئے، اور شوق سے اس میں تصرف کیجئے لیکن یہاں دین کا معاملہ ہے اس لئے ہوش میں رہ کر کسی بات پر کمنٹ کیجئے ، تقلیدی جمود نے ویسے ہی آپ جیسوں کا دماغ خراب کررکھا ہے اس لئے کسی کی بات کو سمجھنا آپ کے بس کی نہیں ہے ، میں نے جو کمنٹ کیاہے اس کا مدعاء قمر فلاحی صاحب اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اسی لئے انہوں نے کم سے کم یہاں پر خاموش رہ کرحکمت سے کام لیاہے ،حالانکہ انہوں نے مجھے پوری طرح بلاک کردیاہے جس کی وجہ سے   ان کا کوئی پوسٹ میرے سامنے نہیں آسکتا اورنہ ہی میں ان کے کسی بھی پوسٹ پر کوئی کمنٹ وغیرہ کرسکتا ہوں ۔ اور آپ  ہیں کہ بےگانی شادی میں دیوانہ بن کر آگئے ،یہ تو خیر ہے کہ میں  کسی اورکے فیس بک میں آپ کے کمنٹ سے واقف ہوگیا اور یہ چند سطریں لکھنے پرمجبور ہوگیا، اگر نہیں لکھوں تو ہوسکتاہے آپ  خودکوطرم خان سمجھنے لگیں کہ سامنے والا لاجواب ہوگیا۔

آپ نے جوش جہالت میں یہ بھی نہیں دیکھا کہ قمر صاحب نے کس پس منظر میں اپنا مذکورہ پوسٹ ڈالاہے ،اگر پس منظرپر غورکرتے تو اتنی حماقت والی بات نہیں کرتے، بات ابراہیم علیہ السلام کے مجبور کئے جانےکے امکان اور غیرامکان کی تھی جس کے بہانے ایک سیرت نگار کے فہم اور منہج کو چیلنج کیاجارہاتھا اور اس  کی آڑمیں  تمام سلفیوں کو مطعون کرنے کی ناروا کوشش کی جارہی تھی۔ ویسےتو میں عام طور پر اس قسم کے مسائل سے خو د کو الگ رکھتاہوں اور جلدی کوئی کمنٹ نہیں کرتا، البتہ بسا اوقات جب زیادہ ضروری سمجھتاہوں توکچھ ہلکا پھلکا لکھ دیتاہوں ،کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ آپ جیسے نیم فہم تقلیدی اپنی زبان اوربیان پر قابو نہیں رکھتے۔ خیر فلاحی صاحب  کئی ماہ سے اپنی فکر کی کجی کی وجہ سے سلفیوں کے  راڈار پر ہیں ، اوریہ بدیہی ہے کیونکہ  سلفیت  کا یہی امتیاز ہے کہ دین وشریعت ، عقائدواعمال  ، انبیا ء  ورسل ، اہل بیت اور صحابہ وتابعین ومن تبعہم باحسان  کے بارے میں کسی بھی طرح کی غلط بات کی جائے اس کا رد کریں اور دین وشریعت کی حفاظت کے لئے کوئی لحمہ فروگزاشت نہ کریں ، اور یہی دینی فریضہ بھی ہے ،  اور فلاحی صاحب کے سلسلے میں بھی احباب کی جانب سے  وہی کیاگیا ، گرچہ ان میں سے بعض کے طرز تخاطب سے مجھے بھی اختلاف  ہی نہیں سخت اختلاف ہے ۔  ایسا لگتاہے کہ فلاحی صاحب نے مولانا مباکپوری  رحمہ اللہ  کی کتاب میں مذکور ابراہیم علیہ السلام کے واقعے کو اس  کے اسباب وعوامل کا  صحیح طرح سے مطالعہ اور اس پر غوروفکر کئےبغیر ہی چھیڑدیا ہے  ( اس میں ان کی نیت کیاتھی وہی جانیں اور اللہ تعالی  سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔)،  اورانہوں نےیہ نہیں  دیکھا کہ مولانا رحمہ اللہ نے اس   واقعہ کو کہاں سے ذکر کیاہے ،اور ان سے پہلے اسلاف کے درمیان اس سلسلے میں کیا کیا اور کن بنیادوں پر لکھا  گیاہے   ؟  جس کی وجہ سے مؤاخذہ کرنے پر بغیر سوچے سمجھے ہی ادھر ادھر کی مار رہے ہیں ،خیر یہ ان کا معاملہ ہے لیکن کسی بھی مسئلے کو چھیڑنے سے پہلے  اس موضوع سے متعلق خوب اچھی طرح سے معلومات اکٹھی کرلینی چاہئے، تاکہ فضیحت کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

یہاں میں قمر فلاحی صاحب کے فکر  اور ان کے اس خاص پوسٹ اور اس پر اپنے اور ان کے کمنٹ کو ذکر کردوں تاکہ ناظرین  کو حقیقت معلوم ہوسکے:

فلاحی صاحب نے لکھا : "پوری دنیا ایک طرف کیوں ناہوجائے، بنی کو کوئی مجبورنہیں کرسکتا"۔

میرا کمنٹ تھا :" جی محترم بالکل صحیح ، لیکن : اللہ تعالی کسی کوبھی مجبور کرسکتاہے اور اپنی کسی حکمت کے تحت کسی کے ذریعہ مجبور کروا بھی سکتاہے۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو !!!"

اس کے بعد فلاحی صاحب لکھتےہیں :"توبہ ہے"

 پھر میں نے لکھا:"یعنی آپ مان رہے ہیں کہ کوئی انسان خواہ نبی ہی ہو اللہ کی  کسی حکمت کے تحت کسی معاملے میں مجبور کیاجاسکتاہے"۔

اس کےبعد پتہ نہیں کیاہوا کہ فلاحی صاحب کے سارے پوسٹس اور کمنٹس مجھ سے  مکمل طور پر محجوب ہوگئے   ، لاکھ کوشش کے باوجود میں نہیں جان سکاکہ آگے کیاہوا ، پھر اپنے آفس والے  اکاؤنٹ سے سرچ کیاتو ان کا پوسٹ اور اس پر کئے گئے کمنٹس نظرآئے ، میرے کمنٹ کے بعد فلاحی  صاحب تو خاموش نظرآئے لیکن آپ  غفران اصلاحی صاحب غیر کی شادی میں بطور عبداللہ دیوانہ نظر آئے اور ہمارے تبصرےکو بے تکا قرار دے دیا  یہ کہہ کرکہ:   کائنات اور اس میں موجود تمام مخلوقات کی کہ یہ سب کے سب ایک ہوجائیں پھر بھی نبی کے استقامت میں لغزش نہیں آسکتی ،پھر درمیان میں اللہ کو لاکر بچکانہ پن کیوں ظاہر کرنے لگے ؟؟

یہ ہے آپ کی    جاہلانہ سمجھ شریف ، جب اللہ تعالی خود بخود بیچ میں ہے تو ہماری کیااوقات کہ اسے بیچ میں  لائیں، اللہ تعالی خود ابراہیم اور ان کی اہلیہ علیھما السلام کو ہجرت کا حکم دیتاہے اس کےلئے اسباب پیدا کرتاہے اورپھر  ایک ایسا سبب پیدا کرکے ان کواپنی  بیوی  اور شیرخواربچے کو مکہ کے بیان میں چھوڑنے  کا حکم دیتاہے، جس کا ذکر مختلف روایتوں میں موجود ہے جنہیں سیرت نگاروں نے بیان کیاہے اور یہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ جس طرح مکہ سے بے انتہامحبت کے باوجود اللہ جل شانہ ہمار ےنبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چند  اسباب پیدا کرتاہے آپ کے خلاف قتل کی سازشیں ہوتی ہیں بلکہ روایتوں میں ہے کہ آپ نے مکہ سے نکلتے وقت ایک ٹیلہ  کھڑے ہوکر حسرت کے ساتھ اس کی طرف دیکھ کر فرمایا :" والله إنك لخيرأرض الله , وأحب أرض الله إلى الله , ولولاإني أخرجت منك ما خرجت " (سنن الترمذی/3925 ، سنن ابن ماجۃ/3108) "اللہ کی قسم  ! تو بلاشبہ اللہ کی سب سے بہترین سرزمین ہے ،  اللہ کے نزدیک محبوب ترین سرزمین ہے ، اگر مجھے تجھ سے نہ نکالا جاتا ہو میں نہیں نکلتا"۔ پھر رب ذوالجلال آپ کو مدینہ کے لئے ہجرت کا راستہ اختیار  کرنے کا حکم دیتاہے، راستے میں  دسیوں پریشانیاں آتی ہیں لیکن پائے استقامت میں لغزش نہیں آتی  غار ثورمیں بھی پناہ لینا پڑتاہے، وہاں پراپنے ساتھی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اللہ کی معیت کا حوالہ دے کر ہمت وڈھارس دلانی پڑتی ہے  ۔  اسی طرح موسی علیہ السلام کو  بھی مجبوری میں  فرعون کے ظلم واستبداد سے اپنوں کو بچانے کے لئے اللہ کے حکم سےمصرسے بھاگنا پڑتاہے،بات بنواسرائیل اور موسی علیہ السلام کی مجبوری سے شروع ہوتی ہے اور اللہ کے حکم پرہجرت کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔

یہی نہیں موسی علیہ السلام کے واقعے میں ان کے ڈراوراحتیاط کا ذکراللہ تعالی نےواضح طورپرکیاہے، فرماتاہے: (وَجَآءَ رَجُلٞ مِّنۡ أَقۡصَا ٱلۡمَدِينَةِ يَسۡعَىٰ قَالَ يَٰمُوسَىٰٓ إِنَّ ٱلۡمَلَأَ يَأۡتَمِرُونَ بِكَ لِيَقۡتُلُوكَ فَٱخۡرُجۡ إِنِّي لَكَ مِنَ ٱلنَّٰصِحِينَ* فَخَرَجَ مِنۡهَا خَآئِفٗا يَتَرَقَّبُۖ قَالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ ٱلۡقَوۡمِ ٱلظَّٰلِمِينَ) (القصص/20-21) ۔

(شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا ۔ اور کہنے لگا اے موسیٰ! یہاں کے سردار تیرے قتل کا مشوره کر رہے ہیں، پس تو بہت جلد چلا جا مجھے اپنا خیر خواه مان * پس موسیٰ (علیہ السلام) وہاں سے خوفزده ہوکراحتیاط کے ساتھ دیکھتے بھالتے نکل کھڑے ہوئے ، کہنے لگے اے پروردگار! مجھے الموں کے گروه سے بچا لے)

کیا یہاں ایک نبی مجبوری کی حالت میں اپنی قوم اور اپنے شہرکو نہیں چھوڑرہا ہے؟ جس کی وجہ سے اپنے رب سے نہایت ہی عاجزی کے ساتھ دعاء بھی کررہاہےکہ وہ انہیں ظالم قوم کےجبرواستبداد سے محفوظ رکھے۔(تدبرتفهم)غورکیجئے بات ضرور آپ کو سمجھ آئےگی !!!

کیا آپ یہ بتا سکتےہیں کہ   یوسف علیہ السلام کا جیل میں رہنا ان کی مجبوری نہیں تھی ؟(بلکہ اس مجبوری کو آپ نے اپنی عزت عصمت اورپاکیزگی کو بچانےکےلئےخوداپنالیاتھا)۔   کیا آدم علیہ السلام کا   جنت سے نکالے جانے  کا واقعہ اور اس کے اسباب وعوامل ہمارے سامنے نہیں ہیں  ؟    وغیرہ وغیرہ۔

بلاشبہ کسی بھی انسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ کسی نبی کو  (ہم تو کہتے  ہیں کہ کسی  اللہ والے  نیک انسان کو بھی)  مجبور نہیں کرسکتا،لیکن جب یہی اللہ کی مرضی اور اس کاحکم ہوتو کوئی بھی کسی کوبھی خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو کسی بات پر مجبور کرسکتاہے ،یہ الگ بات ہے کہ  ہر نبی  استقامت کی بلندی پر ہوتا، ان کے قدم کبھی اور  کہیں نہیں ڈگمگاتے اور وہ ہمہ دم  اس معاملے میں اللہ تعالی کی رہنمائی کا منتظر رہتے، اور پھرجوبھی امر باری تعالی ہو اس کی پاسداری میں  اس پر توکل کرکے جی جان لگادیتے، کیا جنگ بدر ، جنگ احد ، جنگ خندق  جیسے معرکوں میں نبی مکر م صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی مثالیں ہمارے سامنے نہیں ہیں ، اور خود ابراہیم علیہ السلام کا نمرود کے ذریعہ آگ میں ڈالے جانے کے وقت استقامت میں ہمار ے لئے نصیحت نہیں ہے  ؟   اس طرح کی بے شمار  مثالیں قرآن وسنت میں  ملیں گی ،جن میں کسی کا گھرسے نکلنے پر مجبورکیاجانا ، کسی کو اپنی جان کو قربان کردینا وغیرہ شامل ہیں۔

چونکہ فلاحی صاحب کا مقصد  ایک خاص کتاب اور  صاحب کتاب کے منہج وفکر پر رد کرنے کاتھا اس لئے انہوں نے  مذکورہ کلمات پوسٹ کئے  ، جس تناظرمیں انہوں نے پوسٹ ڈالا میں نے اسی کے حساب سے اس پر تبصرہ کیاہے ،ورنہ  ایک ایک مسلمان جانتاہے کہ کسی نبی کے پائے میں کوئی بھی انسان لغزش نہیں لاسکتا۔ فلاحی صاحب کے جملے کے سلسلے میں میں وہی کہوں گا جو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خوارج کے نعرہ "لاحکم الا للہ" کے بارے میں کہاتھا : "كلمة حق أريد به الباطل" "بات صحیح ہے لیکن اس کا مقصد غلط ہے "۔

غفران اصلاحی صاحب !  مجھے آپ کی سمجھ پر افسوس ہورہا  کہ ایک سیریس معاملے میں بچوں جیسی بچکانہ حرکت کی   سینس لیس بچکانہ مثال پیش کرکے   خود کو مدعائے کلام کا  بہت بڑا فاہم  سمجھ رہے ہیں ، اگر فلاحی صاحب کے آرگومینٹس اور ان پر کئے گئے ردود سے تھوڑی بھی واقفیت ہوتی تو اس طرح کی جاہلانہ حرکت سے پرہیز کرتے۔

اصلاحی صاحب ! آپ کی دلیل بھی بڑی کائناتی ہے :"زمیں جنبد آسماں جنبد نہ جنبد پیر محمدصلی اللہ علیہ وسلم"

یہاں اس طرح کی دلیل پیش کرنے والے کی عقل پرسوائے ہنسنے کےاورکیاکیاجاسکتاہے ؟؟؟؟ ۔

ایک آدمی خود سینس لیس ہوکر  دوسرےکو سینس کی نصیحت کررہاہے ، ایں چہ بوالعجبی است ؟ ۔

 اللہ تعالی ہم سب کو صحیح فکر وفہم کی دولت سے نوازے اور حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے اور سمجھنے کی توفیق دے ۔

********

                            عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی 

                                                              (24/8/2023)