بدھ، 9 ستمبر، 2020

نذراور منت کے احکام

               نذرماننا جسے ہم عام زبان میں منت ماننا کہتےہیں پہلی امتوں میں بھی تھی ، قرآن مجید میں مریم علیھاالسلام کی نذرکے بارے میں مذکورہے:  ( فَاِمَّا تَـرَيِنَّ مِنَ الْبَشَـرِ اَحَدًا فَقُوْلِىٓ اِنِّـىْ نَذَرْتُ لِلرَّحْـمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْيَوْمَ اِنْسِيًّا) (مریم/26)۔ (پھر اگر تو کوئی آدمی دیکھے تو کہہ دے کہ میں نے رحمان کے لیے روزہ کی نذر مانی ہے سو آج میں کسی انسان سے بات نہیں کروں گی) ۔

اسی طرح  مریم کی  والدہ اور عمران کی بیوی کے سلسلے میں فرماتاہے:( اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرَانَ رَبِّ اِنِّىْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِىْ بَطْنِىْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّىْ ۖ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِـيْمُ ) (آل عمران/35) (جب عمران کی عورت نے کہا اے میرے رب جو کچھ میرے پیٹ میں ہے سب سے آزاد کر کے میں نے تیری نذر کیا سو تو مجھ سے قبول فرما، بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے)۔

نذرکا معنی : نذرکہتے ہیں شریعت نے جس چیزکو لازم نہیں کیاہے اسےکسی کام  کی بناپر خود پر لازم اور ضروری کرلینا۔ جیسے کسی کے اوپر صدقہ واجب نہیں ہے لیکن وہ یہ کہہ کراسے اپنے اوپر لازم اور واجب کرلیتاہے کہ اگر اس کا یہ کام ہوگیاتو اتنی نقد یا کوئی چیز اللہ کے راستے میں صدقہ کرےگا۔ 

نذرکے کلمات : جیسے اگر میرا فلاں کام ہوگیاتو میں اتنے دنوں کا روزہ رکھوں گا یا اللہ کے راستے میں صدقہ کروں گا وغیرہ وغیرہ ۔

نذرماننے کا حکم  : نذر کا اصل حکم یہ ہے کہ یہ مکروہ ہے۔ بلکہ بعض اہل علم تو اس کی تحریم (حرمت) کی طرف بھی مائل ہوئے ہیں کیونکہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے بہت  ساری روایتوں میں نذرماننے کی ممانعت آئی ہے جیسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: " لا تَنْذِرُوا، فإنَّ النَّذْرَ لا يُغْنِي مِنَ القَدَرِ شيئًا، وإنَّما يُسْتَخْرَجُ به مِنَ البَخِيلِ"" نذر مت کرو کیونکہ نذر تقدیر سے نہیں پھرتی صرف بخیل سے مال جدا ہوتا ہے"۔ (صحیح مسلم/1640)۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :" لا يَأْتي ابْنَ آدَمَ النَّذْرُ بشيءٍ لَمْ يَكُنْ قُدِّرَ له، ولَكِنْ يُلْقِيهِ النَّذْرُ إلى القَدَرِ قدْ قُدِّرَ له، فَيَسْتَخْرِجُ اللَّهُ به مِنَ البَخِيلِ، فيُؤْتي عليه ما لَمْ يَكُنْ يُؤْتي عليه مِن قَبْلُ" ۔"نذر انسان کو کوئی ایسی چیز نہیں دیتی جو اس کے مقدر میں نہ ہو، البتہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ بخیل سے اس کا مال نکلواتا ہے اور اس طرح وہ چیزیں صدقہ کر دیتا ہے جس کی اس سے پہلے اس کی امید نہیں کی جا سکتی تھی"۔ (صحیح بخاری/6694)۔

عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک روز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نذرماننے سے روک رہے تھے اور فرمارہےتھے:" إنَّه لا يَرُدُّ شيئًا، وإنَّما يُسْتَخْرَجُ به مِنَ الشَّحِيحِ" "وہ کسی چیز کو واپس نہیں کر سکتی، البتہ اس کے ذریعہ بخیل کا مال نکالا جا سکتا ہے"۔(صحیح بخاری/6693، صحیح مسلم/1639)۔

نذرکی قسمیں : نذرکی دوقسمیں ہیں : نذرممدوح نذرممنوع۔

جائز یاممدوح نذر :  طاعت ونیکی کی نذرمانناکہ اس کی وجہ سے آدمی کے اندرطاعت ونیکی سے متعلق جو سستی وکاہلی ہے دورہوسکے اوروہ  اللہ رب العزت کا شکریہ اداکرسکے ۔

عمرفاروق  رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے پوچھا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ میں مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:  "فأوفِ بِنَذرِك" " اپنی نذر کو پورا کرو"  ۔ (صحیح بخاری/2032، صحیح مسلم/1656 

ممنوع نذر: جیسے کوئی آدمی کوئی نذرمان کر ہی طاعت اور نیکیوں کوانجام دیتاہے اگرکوئی کام نہیں ہوتاتو نیکی سے دورہوتاہے ۔ اور بسا اوقات نذرماننے والا جس چیز کی نذرمانی ہے بوجھل من سے اسے انجام دیتاہے ۔

یا معصیت وگناہ  کے ارتکاب کی نذرمانے یا اسی طرح ایسے اعمال کی انجام دہی کی نذر مانے جس سے شرک اور بدعت کوانجام دیاجائے یا اس ان کورواج دیا جائے۔

اور بسا اوقات آدمی ایسی چیز کی نذرمان لیتاہے جو اس کے اوپرمشقت اور پریشانی کا سبب بنے ، انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جو اپنے دو بیٹوں کا سہارا لیے چل رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ان صاحب کا کیا حال ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے کعبہ کو پیدل چلنے کی منت مانی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:"  إنَّ اللهَ لَغَنيٌّ عن تعذيبِه نفْسَه، فلْيَرْكَبْ " " اللہ تعالیٰ اس سے بےنیاز ہے کہ یہ اپنے کو تکلیف میں ڈالیں "  پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سوار ہونے کا حکم دیا۔(صحیح بخاری/1865، صحیح مسلم/1642) ۔

باعتباراحکام جن چیزوں کی نذرمانی جائے :  جن چیزوں کی نذرمانی جاتی ہے وہ حکم کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہیں ، جیسے :

وجوب کی نذر: اگر کوئی ایسی عبادت یا عمل کی نذرمانتاہے جو پہلے سے اس پرواجب ہے تو ایسی نذر صحیح نہیں ہے ،جیسے کوئی پانچ وقت کی نمازوں کی نذرمانے یا رمضان کے ایک ماہ کے روزے کی یا واجب زکاۃ کی  یا والدین کی خدمت وغیرہ کی تو اس قسم کی نذر صحیح نہیں ہے کیوں کہ  یہ امورپہلے سے اس پر فرض ہیں ۔

مندوب ومستحب کی نذر: اگر کوئی ایسے امور کی نذر مانتاہے تو یہ صحیح ہے جیسے اگر اس کا یہ کا م ہوگیاتو اللہ کے لئے نفلی روزے رکھےگا یا اللہ کے راستے مین صدقہ کرےگایا کوئی بھی نیکی کا کام جو اس کے اوپر پہلے سے واجب یا فرض نہیں ہے ۔

حرام ومعصیت کی نذر: اگر کو‏ئی ایسی چیز کی نذرمانتاہے جو معصیت وگناہ کا کام ہے یا حرام  کی قبیل سے ہے تو یہ جائز نہیں ہے ۔

 جس چیز کی نذرمانی جائے اس کی قسمیں :

* - جس چیزکی نذر مانی جائے وہ چیز اس کے اوپر پہلے سے واجب نہ ہو۔

* - جس چیز کی نذر مانی جائے وہ عبادت مقصودہ ہو ۔

* - جس چیزکی نذرمانی جائے اس کا وجود ممکن ہو۔ اگر غیرمتصور یا غیرممکن چیز کی نذر مانتاہے تو وہ واقع نہیں ہوگی۔جیسے کسی نے نذرمانی کہ میرا یہ کام ہوگیاتو رات میں روزہ رکھوں گا وغیرہ کیونکہ روزہ رات کا نہیں ہوتا۔

نذرپوری کرنے والے کی فضیلت :

نصوص احادیث میں گرچہ نذرماننے کی ممانعت آئی ہے لیکن اگر کسی نے  خیراور اطاعت کی نذرمانی ہے تو اس کو پوری کرنے کی قرآن وسنت میں بڑی فضیلت آئی ہے ، اللہ تعالی  نیک لوگوں کی صفات وخصوصیات کا ذکرکرتےہوئے ارشاد فرماتاہے:يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا ) [الإنسان: 7]،( وہ (نیک لوگ)  اپنی منتیں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس کی مصیبت ہر جگہ پھیلی ہوئی ہوگی ) ۔

اور ایک دوسری جگہ  حج سے متعلق امورکو انجام دینے سے متعلق ارشاد فرماتاہے: ( ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [الحج: 29]( پھر چاہیے کہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور قدیم گھر کا طواف کریں)۔

اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:" خيركم قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يجيء قوم يَنذِرون ولا يفُون، ويخونون ولا يُؤتَمنون، ويشْهَدون ولا يُستَشْهدون، ويظهر فيهم السِّمَن" " تم میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، اس کے بعد ان کا جو اس کے قریب ہوں گے۔ اس کے بعد وہ جو اس سے قریب ہوں گے۔ عمران نے بیان کیا کہ مجھے یاد نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ کے بعد دو کا ذکر کیا تھا یا تین کا (فرمایا کہ)  پھر ایک ایسی قوم آئے گی جو نذر مانے گی اور اسے پورا نہیں کرے گی، خیانت کرے گی اور ان پر اعتماد نہیں رہے گا۔ وہ گواہی دینے کے لیے تیار رہیں گے جب کہ ان سے گواہی کے لیے کہا بھی نہیں جائے گا اور ان میں مٹاپا عام ہو جائے گا"۔ (صحیح بخاری/6695، صحیح مسلم/2535) ۔

‏‏‏‏ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میری بہن نے نذر کی کہ بیت اللہ تک ننگے پاؤں جائے گی۔ تو حکم کیا مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے کا۔ میں نے پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"پیدل بھی چلے اور سوار بھی ہو" ۔ (صحیح بخاری/1866، صحیح مسلم/1644) ۔

 نذرکے وجوب کے لئے نیت کے ساتھ تلفظ لازم ہے: امام نووی اور دیگر علماء سلف نے ذکرکیاہےکہاگر کسی نے صرف دل میں نذرکاعزم کیاہے تو وہ کافی نہیں ہے بلکہ منہ سے اس کا اداکرناضروری ہے ۔ اگر کوئی صرف اشارہ سے نذرمانتاہے تو وہ بھی  واقع نہیں ہوتی ۔ الایہ کہ کوئی گونگاہو اور اس کا اشارہ  معلوم اور مفہوم ہو۔

معصیت کی نذر:  اگر کسی نے معصیت اور گناہ کے کام کرنے کی نذرمانی ہےجیسے شراب پینے کی قبروں کا طواف کرنے کی یا کسی بھی طرح کی شرک وبدعت اور معصیت وگناہ کی  تو وہ اسے پوری نہیں کرےگا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: "مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلا يَعْصِهِ""جس نے اس کی نذر مانی ہو کہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے اطاعت کرنی چاہئے لیکن جس نے اللہ کی معصیت کی نذر مانی ہو اسے نہ کرنی چاہئے" (صحیح بخاری/6696) ۔

صحیح مسلم کے اندر عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی ایک لمبی روایت میں ہے : انصار میں کی ایک عورت قید ہو گئی اور عضبا بھی قید ہو گئی پھر اسے باندھ دیاگیا۔ اور کافر اپنے جانوروں کو اپنے گھروں کے سامنے آرام دے رہے تھے ، وہ ایک رات بندھک سے  بھاگ نکلی  اور اونٹوں کے پاس آئی جس اونٹ کے پاس جاتی وہ آواز کرتا وہ اس کو چھوڑ دیتی یہاں تک کہ عضبا کے پاس آئی اس کی پیٹھ پر بیٹھ گئی۔ اور اسے  ڈانٹا تو وہ چلنے لگی  کافروں کو  اس کی خبر ہو گئی وہ (اپنی اپنی اونٹنی پر سوار ہو کے) عضبا کے پیچھے چلے لیکن عضبا نے ان کو تھکا دیا۔ (یعنی کوئی پکڑ نہ سکا عضبا ایسی تیز رو تھی)  اس عورت نے اللہ کی نذرمانی  کہ اگر عضبا مجھے بچا لے جائے تو میں اس کی قربانی کروں گی۔ جب وہ عورت مدینہ میں آئی اور لوگوں نے دیکھا اور انہوں نے کہا: یہ تو عضبا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اوٹنی۔ وہ عورت بولی: میں نے نذر کی ہے اگر عضبا پر اللہ تعالیٰ مجھے نجات دے تو اس کو نحر کروں گی۔ یہ سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (تعجب سے) فرمایا:"سبحان اللہ! اس عورت نے عضبا کو کیا برا بدلہ دیا  (یعنی عضبا نے تو اس کی جان بچائی اور وہ عضبا کی جان لینا چاہتی ہے) اس نے نذر کی کہ اگر اللہ تعالیٰ عضبا کی پیٹھ پر اس کو نجات دے تو وہ عضبا ہی کی قربانی کرے گی۔" لا وَفاءَ لنَذرٍ في معصيةٍ، ولا فيما لا يَملِكُ العبدُ"  جو نذر گناہ کے لیے کی جائے وہ پوری نہ کی جائے اور نہ وہ نذر جس کا انسان مالک نہیں"۔ (صحیح مسلم/1641) ۔

غیر اللہ کے لیے نذر ومنت : غیراللہ کے لئے نذر ماننا شرک ہے : جیسے کوئی یوں کہے کہ : فلاں کے نام کی مجھ پر نذر ہے ، یا اس قبر کے لیے میری منت ہے، یا جبرئیل علیہ السلام کے لیے میری نذر ہے اور اس کے ذریعے سے وہ ان کا تقرب حاصل کرنا چاہتاہو ۔ یا یہ کہےکہ میرا یہ کام ہوگیاتو فلاں مزارکی زیارت کروں گا یا اس پرنیاز چڑھاؤں گا یا وہاں سجدے کرو ں گا یاوہاں بکرے ذبح کروں گا ، وغیرہ۔

کیونکہ جس کے نام کی نذر مانی گئی ہے یہ اس کی عبادت ہے۔ جب یہ عبادت ہے تو اسے اللہ تعالی کے سوا کسی کے لیے ادا کرنا شرک ہوا اور وہ شخص مشرک ہوا۔ اور یہ غیراللہ کی نذر مطلقاً ہی منعقد نہیں ہوتی۔  اس میں کفارہ بھی واجب نہیں ہوتا، بلکہ یہ تو شرک ہے جس سے توبہ  واجب ہے۔ جیساکہ غیراللہ کے نام کی قسم کھانا ہے۔ وہ منعقد نہیں ہوتی، اور نہ ہی اس کا کفارہ ہوتا ہے۔  برخلاف معصیت اور نافرمانی  کی نذر کی   وہ منعقد تو ہوتی ہے لیکن اس سے وفاء کرنا (یعنی اسے پورا کرنا) جائز نہیں۔ اور اس کے ذمے قسم والا کفارہ ہے۔ جیسا کہ کوئی اللہ کی قسم کسی حرام بات پر کھا لے تو وہ منعقد ہوجاتی ہے، اور کفارہ واجب ہوتا ہے۔

نذرکا کفارہ  :  اگر کسی وجہ سے کوئی اپنی نذرپوری نہ کرسکے تو اس کے اوپر اس کا کفارہ واجب ہے اور نذرکا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے ، عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا::" كفارة النذر كفارة اليمين " "نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے" ۔(صحیح مسلم/1645،ابوداود/3323)

 یعنی دس مسکین کوکھانا کھلانایا ان کو کپڑے پہنانایا ایک غلام آزاد کرنا اور اگر ان سب کی استطاعت نہیں ہےتو تین دنوں کا روزے رکھنا۔(سورۃ المائدہ/89)۔

ماں باپ کی نذرپوری کرنا   : اگر کسی نے خیرکے کام کرنے کی نذر مانی ہے اور اسے پوری نہیں کرپایاہے  او راس سے پہلے ہی اس کی وفات ہوگئی تو اس کے وارثین  اسے پوری کریں گے ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  قبیلہ جہینہ کی ایک عورت اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکیں اور ان کا انتقال ہو گیا تو کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ان کی طرف سے تو حج کر۔ کیا تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتیں؟ اللہ تعالیٰ کا قرضہ تو اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کرنا بہت ضروری ہے" ۔(صحیح بخاری/1852)۔  

عبداللہبن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ میری بہن نے نذر مانی تھی کہ حج کریں گی لیکن اب ان کا انتقال ہو چکا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ان پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے؟ انہوں نے عرض کی ضرور ادا کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اللہ کا قرض بھی ادا کرو کیونکہ وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کا قرض پورا ادا کیا جائے۔(صحیح بخاری/6699)۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! میری ماں مر گئی ہے اور اس پر ایک ماہ کے روزے ہیں۔ کیا میں اس کی قضا رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم ادا کرتے یا نہیں؟ - اس نے کہا: ہاں ادا کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھر اللہ کا قرض تو ضرور ادا کرنا چاہیے۔(صحیح بخاری/6959،صحیح مسلم/1148)۔اس معنی کی ڈھیروں روایتیں ہیں ۔

 اگر کسی نے  کسی جگہ میں جانورذبح کرنے کی نذرمانی ہے : عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک عورت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا:  اللہ کے رسول! میں نے نذر مانی ہے کہ میں آپ کے سر پر دف بجاؤں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(بجا کر) اپنی نذر پوری کر لو" اس نے کہا: میں نے ایسی ایسی جگہ قربانی کرنے کی نذر (بھی) مانی ہے جہاں جاہلیت کے زمانہ کے لوگ ذبح کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا کسی صنم (بت) کے لیے؟" اس نے کہا: نہیں، پوچھا "کسی وثن (بت) کے لیے؟" اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اپنی نذر پوری کر لو"۔(سنن ابی داود/3312،علامہ البانی نے اسے حسن صحیح کہاہے)۔

اسی طرح ثابت بن ضحاک  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ بوانہ ( موضع وراء ينبع ) میں اونٹ ذبح کرے گا تو وہ شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے بوانہ میں اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت وہاں تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی؟" لوگوں نے کہا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا کفار کی عیدوں میں سے کوئی عید وہاں منائی جاتی تھی" لوگوں نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اپنی نذر پوری کر لو البتہ گناہ کی نذر پوری کرنا جائز نہیں اور نہ اس چیز میں نذر ہے جس کا آدمی مالک نہیں" ۔ (ابوداود/3313 ،طبرانی /1341 ، بیھقی /20634،علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔

نذراور عقیدہ کی حفاظت  :نذر مانتے وقت اس بات کا خیال ضروری ہےکہ اس سے اس کے عقیدہ پر کوئی ضرب نہ پڑے، کیونکہ ڈھیرون مواقع ایسے ہیں کہ نذرماننے کے وقت آدمی کا عقیدہ متزلزل ہوجاتاہے۔

 بسااوقات ایساہوتاہے کہ نذرماننے والے کے اندرجاہلی عقیدہ پیداہوجاتاہے کہ اس کا یہ کام اس کی نذرماننے کی وجہ سے ہی پوراہواہے یایہ عقیدہ رکھتاہے کہ نذرسے اس کی تقدیربدل گئی وغیرہ۔

 چنانچہ اس بات کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کی قضاء وقدرمیں کوئی چیز تقدیم وتاخیرنہیں کرسکتی اور نہ کسی چیزمیں تبدیلی ہوسکتی ہے ۔

نیز نذر مانتےوقت یہ ضرورخیال رکھناچاہئے کہ اس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایاہے ،البتہ اگر اسے مان لیاہے تو اسے ضرورپوری کرے اور اگرکسی وجہ سے پوری نہیں کرسکتاتو اس کا کفارہ اداکرے۔

                                                        *****