پیر، 13 مارچ، 2023

اس مہرباں نظر کی عنایت کا شکریہ(تشکر نامہ)

                                                   اس مہرباں نظر کی عنایت کا شکریہ(تشکر نامہ) 


لَكَ الحَمدُ ياذا الجودِ والمَجدِ وَالعُلا       تَبارَكتَ تُعطي مَن تَشاءَ وَ تَمنَعُ

إِلَهي وَ خَلّاقي وَحِرزي وَ مَوئِلي         إِلَيكَ لَدى الإِعسارِ وَاليُسرِأَفزَعُ

 (اےسخاوت والے، جلال وبلندی کا مالک ہر طرح کی تعریف وحمد تیرے لئے ہی ہے، تو برکت والاہے جسے چاہتاہے نوازتاہے اورجسے چاہتا  ہےمحروم رکھتاہے ،اے میرے معبود،مجھےپیدا کرنے والے،مجھے پناہ دینے والے، تنگدستی  اور خوشحالی   ہرحال میں تجھ سے ہی فریاد کناں ہوں )۔

    انسان کی زندگی میں غم اورخوشیاں آتی جاتی رہتی ہیں، اور کامیاب  انسان وہی ہے جو ہر غم سے بیگانہ اپنی ڈگرپر چلتاجاتاہے پھر ایک دن اس کے جہد مسلسل کا نتیجہ ضرور سامنے آتاہے :

جنّت تری پنہاں ہے ترے خُونِ جگر میں                 اے پیکرِ گل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ۔

 انسان  جب اپنی  زندگی میں    کسی موڑ پر اللہ رب العزت  کے فضل وکرم سے کسی عظیم نعمت سے سرخرو ہوتاہےتو اس بےبہا خوشی   کی سرفرازی پر اس کے حضور سربسجود ہوجاتاہے ، وہ خوشی  نعمتوں کی جس شکل میں بھی آئے ۔

تو میرے سجدوں کی لاج رکھ لے شعور سجدہ نہیں ہے مجھ کو     یہ سر ترے آستاں سے پہلے کسی کے آگے جھکا نہیں ہے!!!

     آج میرے لئے ایسی ہی خوشی کا دن ہے جس کا انتظار میں نے برسوں کیاہے، میری لخت جگر نور نظر   (زھراء  بتول) نے زندگی کے ایک پڑاؤ  کو بحسن وخوبی پار کرلیاہے ، کلیہ  عائشہ صدیقہ (جامعہ اسلامیہ سنابل نئی دہلی )  سے آج اس کی فراغت کا دن ہے ۔ (اللهم لك الحمد والشكر كما ينبغي لجلال وجهك وعظيم سلطانك)۔ یہ ایک مولویانہ زندگی جینے والے عام آدمی کے لئے بہت بڑی بات ہے ،اس کا ادراک وہی لوگ کرسکتےہیں جو شعور واحساس کے اس دور سےگزرےہوں  ۔

آج ٹھیک ویسی  ہی  خوشی محسوس ہورہی جیسی میں نے سنہ  1996ء میں جامعہ سلفیہ بنارس سے اپنی فراغت کےدن محسوس کی تھی ۔ آپ  یا آپ کا کوئی قریبی خاص طور اولاد جب زیورعلم سے آراستہ ہو  اور وہ بھی شرعی علم سے تو اس  لمحہ  ،اس  گھڑی  جب یہ نعمت ملتی  ہے  اس  کے جذبات اس کے قابو میں نہیں رہتے ،ہر کسی سے اپنی خوشی  بانٹنا چاہتاہے :  ﴿ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ۔

زندگی کی اس بھاگ دوڑ میں جب آدمی کسی ایک جگہ ٹک کر نہیں رہ سکتاہو تو بچوں کی تعلیم پر اس کا بہت زیادہ اثر پڑتاہے ، پردیش میں رہتےہوئے ہمہ وقت ان کی اچھی صحت اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم سے متعلق کچھ زیادہ ہی فکر لاحق  رہتی  ہے ۔مدرسہ احیاء السنہ  بنارس سے لےکر جامعہ امام تیمیہ ومرکزالامام ابن باز للدراسات الاسلامیہ اور پھر سعودی عرب آنے کے درمیان  میرے ساتھ ساتھ  بچے بھی کبھی ایک جگہ ٹک کر نہیں  رہ پائے  ان حالات سےگزرتےہوئے بالآخر  بچیوں کو نئی دہلی کی مناسب فضاء نصیب ہوئی  ، جہاں قدرے اطمینان بخش ماحول ملا اور جیساکہ سب کو معلوم ہےکہ شاہین باغ کے ساتھ ساتھ پوراجامعہ نگر  اپنی تعلیمی اوردینی  اقدار کے لئے  بھی پوری دنیامیں معروف ہے ۔

 بچیوں  کی تعلیم وتربیت کے مسائل کو حل کرنے کےلئے ہی مجھے یہ قربانی دینی پڑی کہ انہیں اپنے سے دور  دہلی میں  رکھ کر ان کے لئے   کسی مناسب  اور مستقل تعلیمی ادارہ  کی تلاش کی جائے جہاں ان کی تعلیم وتربیت  کے ساتھ  ساتھ ہر طرح کی  سہولت  میسر ہو جو اللہ رب العزت کے فضل سے کلیہ عائشہ صدیقہ جوگابائی  کی شکل میں ملا ، جو نہ کہ صرف نئی  دہلی بلکہ ہندوستان کے تمام نسوانی اداروں میں ممتاز حیثیت رکھتاہے ، وہاں کا رکھ رکھاؤ،کھان پان ، اور تعلیم وتربیت بلا شبہ لائق تحسین ہے:

فالعلم قد أشرقت نُوراً مطالعه

والجودُ قد أسبلت سحاً مواطره

(علم نے اس کی فضاکوخوب روشن کیاہے  اورسخاوت کی تو موسلا دھار بارش ہوتی ہے)۔

گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ        ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ

 جس کے لئے   ادارہ کے بانیان خصوصا علامہ عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ    اور اس کے ذمہ داران اور اساتذہ ومعلمات شکریہ  کے مستحق ہیں ۔خاص طور سے موجودہ صدر موالانا محمد رحمانی اور سکریٹری مولانا عاشق علی   اثری حفظہما اللہ  اور کلیہ کے ذمہ دار قاری   محمدمصطفی عثمانی  صاحب  اور ان کے معاونین۔

کلیہ میں جب میں نے اپنی بچیوں کا داخلہ کرایا   اس وقت جامعہ امام ابن تیمیہ کی  میری دو لائق وفائق شاگردائیں صفیہ تسنیم   تیمی اور ساجدہ نو رتیمی  وہاں کے تدریسی امور سےجڑی ہوئی تھیں، جنہوں نے  میری بچیوں کی ہر طرح سے رہنمائی کی اور انہیں ہر موقع سے حوصلہ دیا  ۔ اللہ تعالی انہیں اس کا بہترین اجر دے۔بلاشبہ انہوں نے ہر طرح سے اپنی ذمہ داری کو پوراکیا  ہے، ان کے علاوہ وہاں کے دیگر اساتذہ او رمعلمات بھی شکریہ کے مستحق ہیں  ۔فجزاھم اللہ في الدنیا والآخر‏‏‏‏‏ۃ ۔

اس موقع سے اگر میں اپنی ماموں زاد محترمہ صفیہ مجتبی زھراوي صاحبہ  کا شکریہ ادا نہ کروں تو   میری یہ تحریر ادھوری رہ جائےگی ، جب سے ان کی تقرری کلیہ میں ہوئی  میں ہر طرح کے افکار سے    بیگانہ ہوگیا کہ میری بچیوں کو وہاں گارجین کی شکل میں ایک بہترین مربیہ  مل گئی ہے ، ہمار ےلئے اب کسی بھی طرح کی فکر کی ضرورت نہیں تھی، اور وہ اس امید پر کھری اتریں  ۔ اللہ تعالی انہیں اس کا بہترین اجر دے۔

کل اہلیہ سے میری بات ہورہی تھی  ان کے چہرے سے بےپناہ خوشی کا اظہار ہورہاتھا ، دوران گفتگو کہنے لگیں کہ:"  میں نےتوباضابطہ دینی تعلیم نہیں حاصل کی لیکن آج میری بچی  مدرسہ سے فاضلہ ہوکرنکل رہی ہے " سچ پوچھئے تو اصل خوشی کی حقدار بھی وہی ہیں ، ایک عام گھریلو عورت  ہونے کے باوجود لمبی مدت تک  ہر سردوگرم کوبرداشت کرکے اپنی بچیوں کو دینی تعلیم سےآراستہ کرنے کے لئے  بےپناہ  قربانی دیتی  آرہی ہیں ، بچیوں کے تئیں ایک ماں کی ساری ذمہ داری انہوں نے پوری کی ہے  ، چھٹیوں کے ایام سے لےکر تعلیمی ایام میں  انہوں نے کبھی بھی  اپنی ذمہ کو بوجھ نہیں سمجھا ۔ ابتداء میں بچیوں کو لے کر جب وہ دہلی آئیں تب سے  انہیں چھوٹے سے مکتب اور پھر اسکو ل اورپھر وہاں سے کلیہ تک پہنچانے میں انتھک محنت کی ہے ۔ بلاشبہ وہ  خصوصی شکریہ کی مستحق ہیں ۔اللہ تعالی انہیں صحت وعافیت کے ساتھ رکھے اور ان کی اس خدمت کو ان کے لئے صدقۂ جاریہ  اور دنیا وآخرت میں  کامیابی کا ذریعہ بنائے۔

یہاں پر وہ احباب اوررشتہ دار بھی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے اس راہ میں  کسی بھی طرح کی کوئی مدد کی ہے ،خصوصا ہمارے بڑے بھائی  انڈین ریلوے کے ملازم عبدالحنان انصاری  اور ان کی اولادیں جنہوں نے ہر طرح سے مادی  اور معنوی سہولیات خصوصا رہائش اوراپنی خصوصی  نگرانی فراہم کی ۔ اسی طرح ہمار ے مشفق ومربی شیخ احمد مجتبی مدنی حفظہ اللہ اور ان کی اہلیہ  جن کی  محبت  وحوصلہ  اور خصوصی توجہ   ہمیشہ ساتھ رہی ۔

اس راہ میں جن لوگوں کا ساتھ رہا ان میں بھانجہ خالد ہشم اللہ تیمی، خالہ زاد ڈاکٹر عبدالمحسن تیمی اوردوسرے بڑے بھائی عبدالمنان انصاری  خاص ہیں ۔ اللہ رب العزت  ان سب کو جزائے خیر عطافرمائے  اورعزیزہ زہراء بتول کو والدین  کی آنکھوں کی ٹھنڈک  ان کےلئے صدقۂ جاریہ ،آخرت کا ذخیرہ   اور  متعلقین کے لئےنفع بخش  بنائے، وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم ۔ آمین ۔

  12/3/2023 م 

     ********