بدھ، 21 اکتوبر، 2020

*علم وہدایت کی بہترین مثال*

 


        ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" مَثَلُ ما بَعَثَنِي اللَّهُ به مِنَ الهُدَى والعِلْمِ، كَمَثَلِ الغَيْثِ الكَثِيرِ أصابَ أرْضًا، فَكانَ مِنْها نَقِيَّةٌ، قَبِلَتِ الماءَ فأنْبَتَتِ الكَلَأَ والعُشْبَ الكَثِيرَوكانَتْ مِنْها أجادِبُ،أمْسَكَتِ الماءَ، فَنَفَعَ اللَّهُ بها النَّاسَ، فَشَرِبُوا وسَقَوْا وزَرَعُوا، وأَصابَتْ مِنْها طائِفَةً أُخْرَى، إنَّما هي قِيعانٌ لا تُمْسِكُ ماءً ولا تُنْبِتُ كَلَأً، فَذلكَ مَثَلُ مَن فَقُهَ في دِينِ اللَّهِ، ونَفَعَهُ ما بَعَثَنِي اللَّهُ به فَعَلِمَ وعَلَّمَ، ومَثَلُ مَن لَمْ يَرْفَعْ بذلكَ رَأْسًا،ولَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الذي أُرْسِلْتُ بهِ" " اللہ تعالی نے جس ہدایت اور علم کے ساتھ مجھے مبعوث کیاہےاس کی مثال اس  موسلا دھار بارش کی ہے جوروئے  زمین کے اس  حصے پرپڑی  جو عمدہ اورورخیزتھی جس نے پانی کو اپنے اندرجذب کیا ،نئی نئی ہری گھاس اور خوب سبزیوں کواگایا ،اس کے علاوہ زمین کے ایک سخت اور بنجر ٹکڑے نےبارش کے پانی کوجمع کرلیا، اللہ تعالی نے اس کے ذریعہ بھی لوگوں کو نفع پہنچایا ، لوگوں نے (اس سخت زمین کے جمع شدہ پانی کو ) خود بھی پیا اور اپنے جانوروں کوپلایا اور اپنی کھیتیوں کو سیراب کیا ، اس کے علاوہ  بارش کا و ہ پانی زمین کے ایسے حصے پر بھی برساجو سپاٹ اورچٹیل میدان تھا جس کے اندرنہ تو پانی کو جمع کرنے کی صلاحیت تھی اور نہ ہی گھاس پودوں کو اگانے کی ۔یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ کے دین میں سمجھ حاصل کی ، اور اللہ نے جس علم اورہدایت کے ساتھ مجھے مبعوث کیا اس سے اسے فائدہ بھی پہنچا ، اس نے خود بھی (دین حق ) کو سیکھااور دوسروں کو بھی سکھایا ۔ اوریہی اس شخص کی مثال ہے جس نے اللہ کے دین کی طرف سراٹھاکربھی نہیں دیکھا، اور اللہ نے جس ہدایت ونور کے ساتھ مجھے مبعوث کیاہے اسے قبول بھی نہیں کیا"۔   ( صحیح بخاری/79، صحیح مسلم/2282) ۔

       یہ روایت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نہایت ہی بہترین انداز میں تعلیم دیتے ، اور  نہایت ہی بلیغ اور فصیح اندازمیں مثالیں بیان کرتے جس سے ذہن میں علم وہدایت کی روشنی پہنچتی ۔

      اس حدیث میں اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی تشیبہ  مختلف قسم کی زمینوں پر برسنے والی بارش سے دیاہے جواپنی طبیعت  اور صلاحیت کے حساب سے اس بارش کے پانی سے فائدہ اٹھاتی ہیں  ، اور دوسروں کو فا‏ئدہ پہنچاتی ہیں ، یہاں پر  تشبیہ کے لئے ان  زمینوں کی تین قسموں کا بیان ہواہے :

اول :  سرسبزوشادات پانی کے جذب  کی صلاحیت رکھنے والی زمین جو  کیڑے مکوڑوں کے نقصان سے محفوظ   ہے ، اور جو بارش کے پانی کو اپنے اندر جذب کرکے   باذن اللہ ہرے بھرے اور سوکھے بے شمارگھاس اوراناج پیدا کرتی ہے جن سے اللہ کی مخلوق مستفید ہوتی ہے ،یہ مثال ایک ایسے  عالم دین کی  ہے جو شریعت کے اندرتفقہ  اور سمجھ رکھتاہو ، جو خود اپنے علم  کے مطابق  عمل کرتاہے اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دیتاہے ۔ یہ ہدایت اور علم کا سب سےبلند مقام ہے ۔

دوم   : سپاٹ اورچٹیل میدان  جس کے اندر پانی جذب  کرکے کوئی چیز اگانے کی طاقت نہیں ہے البتہ وہاں پانی  تالابو ں ، یا گڑھوں میں جمع  ہوجاتاہے ،  جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور خو دبھی پیتے ہیں ،اپنے چوپایوں کو بھی پلاتے ہیں،نیز اس سے کھیتیا ں اور باغات کو  بھی سیراب کرتے ہیں ۔ یعنی اس سپاٹ اورچٹیل سرزمین نے اس پانی کو اپنے اندرجذب کرکے  خود تو اس پانی سے فائڈہ نہیں اٹھایا لیکن دوسروں کو فائدہ پہونچایا، یہ مثال ان لوگوں کی ہے جن کے پاس  صلاحیت  کی کمی نہیں  ، سوچ وفکربھی اللہ رب العزت نے دے رکھی ہے ، لیکن  علم وہدایت سے استفادہ کی توفیق نہیں ہے ،دوسروں کو علم اورحکمت وہدایت کی باتیں بتاتودیتے ہیں لیکن خود اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ اس سے مراد وہ عالم ہے جو دوسروں کو تو علم بانٹتاہے لیکن خود اس پرعمل نہیں کرتا، اس چراغ کی طرح جو خود کو جلا کردوسروں کو روشنی پہونچاتاہے ۔

سوم : وہ سرزمین جو  جس کے اندر نہ کچھ پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور نہ ہی وہاں پانی اکٹھا ہوسکتاہے ، اس سے نہ خود فائدہ اٹھاتی ہے اور نہ ہی جمع کرکے دوسرے کو فائدہ پہونچاتی ہے ، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو نہ خود علم اورہدایت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو فائدہ پہونچاتے ہیں ۔

*******