بدھ، 28 دسمبر، 2022

ابوالعلاء مَعَرِّی کاایک شعر اورنظریہ ارتقاء

 

ابوالعلاءمَعَرِّی کاایک شعر اورنظریہ ارتقاء

                                                                     عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی


و الذي حارت البرية  فيه

حيوان مستحدث من جماد

(مخلوق جس کے بارے میں حیران ہےکہ ایک حیوان (ذی روح ) جماد (غیرذی روح ) سے پیدا کیاگیا( ۔

شعر کی بلاغی حیثیت :

    یہ شعر ابو العلاء المعری (363 ھ- 449ھ)  کے ایک لمبےقصیدہ کا جزء ہے ،جسے ادباء نے "فلسفۃ الحیاۃ  والموت"  کا عنوان دیاہے ۔ معری کا یہ قصیدہ "قصیدۃ دالیة" کے نام سے مشہورہے  جسےاس نےاپنے منظوم " سقط الزند"میں ایک فقیہ کے مرثیہ میں کہی تھی ۔  (دیکھئے: سقط الزند ص /7-12  ط:داربیروت ودارصادر)  ۔

اہل بلاغہ نےاس شعرکو عام طورمسنداورمسندالیہ کے قاعدے کے تحت ذکرکیاہے، جسے مسند الیہ کامسندپر مقدم ہونےکامستدل بنایاہے ، جس کےتقدیم سے سامع کے ذہن میں خبر راسخ ہوجائے،  نیزاس سےاس کےاندرخبرکا اشتیاق پیداہوتاہے کہ آخر وہ کون سی انوکھی چیزہےجس کا ذکرمتکلم کرنےوالا ہے اور جس نے مخلوق کوحیرت زدہ کررکھاہے۔(دیکھئے: لطائف التبيان في علمي المعاني والبيان لشرف الدین الطیبي 743 ھ بتحقیق ھنداوي / ص 65 و كتاب عروس الأفراح في شرح تلخيص المفتاح للسبکي:1/ 232)۔

شاعراوراس کاعقیدہ  ونظریہ :

   ابوالعلاء المعری کاپورانام أحمدبن عبدالله بن سليمان القضاعی التنوخی المعری  ہے، یہ عباسی دورکا شاعر، مفكر،فلسفی،نحوي اوراديب تھا۔اوراس دور کےاختلافی اورنزاعی افکارکامتحمل فلسفی کےطورپرجاناجاتاتھا۔ اس کی ولادت  سنہ 363 ہجری میں معرۃالنعمان میں ہوئی تھی جو فی الوقت سوریا کےاندر محافظہ ادلب میں واقع ہے۔بچپن میں ہی ایک بیماری (چیچک ) کی وجہ سے نابیناہوگیاتھا، صغرسنی سے ہی اس کے اندرشاعری کا ملکہ تھا، گیارہ بارہ سال کی عمر  میں اس نے پہلی شاعری کی تھی ۔ 

ابوزکریا تبریزی اس کی  لغوی براعت وتفوق سے متعلق فرماتے ہیں : " ما أعرف أن العرب نطقت بكلمة ولم يعرفها المعري" " میں کسی ایسے  کلمہ سے متعلق نہیں جانتاجسے عرب نے بولاہواور معری اس سے واقف نہ ہو"۔(الفكراللغوي عندأبي العلاء في ضوء علم اللغۃ الحديث للدکتورجمال محمد طلبۃ /ص  5 )۔

اس نےاپنی زندگی ایک فلسفی اور دنیاسے بےرغبت انسان کی طرح گزاری ۔ عصرحاضرکے معیار کے مطابق(خاص طورسے خودساختہ مغربی افکارکے تناظر میں)اسے حقوق الحیوانات کےدفاع کابہت بڑا علم بردار مانا جاتا ہے ۔ یہ متشددسبزی خورتھا، گوشت خوری سےخودکودور رکھتا تھا، اس کاماننا تھا کہ کائنات میں کسی بھی جاندارکو تکلیف پہونچانا امر مکروہ اور غیرمناسب ہے۔  کہاجاتاہے کہ اس سلسلے میں  وہ ہندستانی فکروفلسفہ سے متأثرتھا۔

ابو العلاء معری کا عقیدہ ونظریہ علماء اسلام کے یہاں مشکوک رہاہے، خاص طور سےدین کےمعاملے میں اس کا نظریہ معروف ہےجس کے مطابق اس کاماننا تھا کہ   دین پہلے لوگوں کی ایجاد کردہ خرافات ہے :

أَفِيقُواأَفِيقُوايَاغُوَاةُ فَإِنَّمَا                  دِيَانَاتُكُمْ مَكْرٌ مِنَ الْقُدَمَا

(اےبھٹکےہوئے لوگو!سدھرجاؤتمہارےادیان محض پہلے لوگوں کافریب ہیں )۔

علامہ ابن کثیر،امام ابن قيم الجوزية اورامام ابوالفرج بن الجوزي،وغیرهم نے اس کی طرف زندیقیت کی نسبت کی ہے) البدايۃوالنهايۃ:3/331 ، سير أعلام النبلاء  : 17/10، طبقات الشافعيۃ للسبکی :5/288)۔ 

 کچھ لوگوں نےاس کی نسبت قرامطہ کی طرف کی ہے  ۔

 اس کے بعض اشعار میں  ملتاہے کہ اس نے قدماء کی رائے سے ہٹ کربہت ساری باتیں کی ہیں،خواہ قدماءکی رائے سے ٹکراؤ ہی کیوں نہ پیدا ہو،جیسے:

  وإني وإن كنتُ الأخيرَ زمانُه             لآتٍ بما لم تستطعه الأوائلُ

(اگرچہ میں بعدکے زمانےکا ہوں لیکن ایسی چیزیں بیان کرسکتاہوں جس کی قدرت پہلے کےلوگوں کےاندرنہیں تھی ) ۔

اس کا مانناتھا کہ حقدوکینہ، عداوت ودشمنی اورجنگ وجدال کے رواج میں ادیان وشرائع  کابہت بڑاہاتھ رہا ہے :

إِنَّ الشَرائِعَ أَلقَت بَينَنا إِحناً        وَأَودَعَتنا أَفانينَ العَداواتِ

(شریعتوں نےہمارےدرمیان بغض ونفرت کورواج دیاہے، اور دشمنی کےفنون اور طریقوں سے واقف کرایاہے)۔

دین اس کےیہاں رسولوں کی اختراع کےسواکچھ نہیں ہے،جس کامقصدلوگوں کو پریشان کرناہوتاتھا:

فلا تحسْب مَقَال الرُّسْلِ حقًّا       ولكنْ قولُ زُورٍ سطَّرَوُهُ

(رسولوں کی بات کوسچ مت سمجھ، وہ توان کےلکھے ہوئےجھوٹ ہیں )۔

وكان النّاس في عَيْشٍ رَغِيدٍ   فجاءوا بالمُحَالِ فكدَّرُوه

(لوگ خوش وخرم عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے تھےکہ ان لوگوں نےاپنی مہارت وچالبازی سےاسے مکدرکردیا)۔

اس کے علاوہ بھی اس کے عقائد ونظریات سے متعلق لوگوں نےبہت ساری باتیں لکھی ہیں ۔

   وہی ایک دوسراگروہ ہے جس نے اسےصحیح العقیدہ قراردیاہے ان میں ڈاکٹرطہ حسین،اور ڈاکٹرشوقی ضیف وغیرہ خاص ہیں۔ڈاکٹرطہ حسین نےاس کی بڑی وکالت کی ہےاور اپنی مختلف کتابوں اور مضامین میں اس پرخوب لکھاہے، جن میں سب سے مشہورکتاب "معَ أبي العلاءِ في سجنِه"ہے۔

اسی طرح حافظ ابوطاھر السلفی، امام ذہبی، مصری ادیب محمودمُحمَّدشاكر  ہندوستانی ادیب عبد العزيز ميمني اورمصری  قلم کار بنت الشاطئ، وغيرهم نےاس کےصحیح العقیدہ ہونے کو بیان کیاہے۔

کچھ دیگرادباءجیسے ابن الوردی وغیرہ نے لکھاہے کہ معرّی ابتداء میں زندیق تھالیکن آخرعمرمیں صحیح  اسلام کی طرف رجوع کرلیاتھا۔

(أبوالعلاءالمعرِّي:دفاع المُؤرِّخ ابن النديم عنه/ ص 9-10 و 12-14) ۔

   امام ذہبی نےلکھاہےکہ یہ خودکواپنےآپ کوگھرمیں مقیدکرلینےیاپھرعدم بینائی کی وجہ سے"رهين المَحْبِسَيْنِ " کہاکرتاتھا۔ وجہ یہ تھی کہ اس نے آخر وقت میں اپنی وفات سنہ 449 ھ تک معرۃ النعمان میں اپنے گھرکےاندر خودکو قیدکرلیاتھا۔مرتے وقت اس نےوصیت کی تھی کہ اس کی قبرپر یہ عبارت کندہ کی جائے(هذاجَناهُ أبي عليَّ،وماجَنيْتُ على أَحَد)  جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا  باپ اس کی ماں سے شادی کرکےاس کودنیامیں لانےکاسبب بنا،جوکہ ایک جرم،اولادکوناکردہ گناہ کی سزادينااوراس کےاوپرظلم ہے، کیونکہ اسےدنیامیں لاکرغم، مصیبت،حوادث، آفات اورتکالیف کےحوالے کردیا۔یہی وجہ ہےکہ اس نے شادی نہیں کی تھی،کیونکہ اس کاعقیدہ تھاکہ شادی اولادپرظلم ہےاوراس نےشادی نہ کرکےخودکوکسی پرظلم کرنے سےبچالیا۔

اس کی قبرپراس زمانے کے بےشمار ادیبوں اورشعراءنے حاضری دی اوراس کے لئے  اسی(80)  مرثیہ کہےگئے۔

   اس کی بےشمارتصنیفات ہیں جنہیں معجم الأدباء کے اندرذکرکیاگیاہے،نیزابن خلکان نے وفیات کےاندربھی بہت ساری کتابوں کاذکرکیاہے، جیسے:الأيك والغصون، تاج الحرة،عبث الوليد، رسالة الملائكة، شرح ديوان المتنبي، رسالة الغفران،خطبة الفصيح، الرسائل الإغريقية،الرسالة المنبجية،الفصول والغايات اللامع العزيزي ،اللُّزوميَّات، سِقْطُ الزَّنْد،وغیرہ۔ ان میں سے بعض مطبوع اوربعض  مخطوط ہیں ۔

شعرکامطلب اورمفہوم :

- ساری مخلوق اس بات سےششدراورحیران ہےکہ ایک عقل وفہم والامتحرک حیوان (یعنی انسان)جماد(جس کےاندرنہ عقل ہے،نہ سمجھ بوجھ ہےاور نہ ہی حرکت ہے) سے کیسے پیدا کیا گیاہے۔

 - بعض اقوال کے مطابق   اس سےآدم علیہ السلام کو مرادلیاگیاہے،جنہیں مٹی جیسی جماد شیئ سے پیداکیاگیاتھا۔

-- ایک قول کےمطابق اس سےمقصودانسان ہے،ابن السيدالبطليوسی ( 444- 521 ھ ) شرح سقط الزند میں رقمطرازہے:

  "معناه :مقصود به الإنسان، والحيرة الواقعة فيه، من قبيل اتصال النفس بالجسم، إذ النفس جوهرية والجسم عرض؛ فلذلك يعدم الجسم الحياة، إذا فارقته النفس، والحيرة الواقعة فى نياطهابه. (عروس الأفراح في شرح تلخیص المفتاح:1/232 ط : المکتبة العصرية - بیروت – لبنان 1423ھ ).

 "اس سے مقصودانسان ہے، جس کےاندرروح اورجسم کےایک دوسرےسےاتصال پرحیرت واقع ہوتی ہے، کیونکہ روح جوہر اورجسم عرض ہے (فلسفہ کی اصطلاح میں وہ شےجوقائم بالذات ہوجوہرہے۔اورجو کسی دوسرے کے ساتھ قائم ہوعرض کہلاتاہے.) یہی وجہ ہےکہ جب روح جسم سےجدا ہوتی ہےتوجسم بےکارہوجاتاہے،حیرانگی درحقیقت روح کےجسم سےارتباط سےہوتی ہے"۔

-  اس سے یہ مراد بھی لیاگیاہے کہ آدمی بلکہ عام طورپر سارے حیوانات پانی (یعنی مادہ منویہ ) سے معرض وجودمیں آتےہیں ۔

- کچھ لوگوں نے اس سے صالح علیہ السلام کی اونٹنی مراد لی ہے جوکہ قوم ثمودکے مطالبہ پر اللہ تعالی کےحکم سے بطورمعجزہ ایک پہاڑکےچٹان سےنکلی تھی۔

- وہی کچھ لوگوں نے موسی علیہ السلام کی عصا کو مرادلیاہے،جس نےموسی علیہ السلام کونبوت ملنےکے وقت اورفرعون کے جادوگروں سے مقابلہ کے وقت ازدہا کی شکل اختیارکرلیاتھا۔

- اس کاایک مطلب یہ بھی بیان کیاگیاہےکہ شاعر نےاس سےفقنس(فَقَنَّسُ) یاققنوس Phoenix (جسے یونانی میں Phenix کہتےہیں) نامی چڑیا مرادلیا ہے، یہ قصے کہانیوں کی ایک خیالی اورنہایت ہی خوبصورت چڑیاہے، جس کاذکرسندباد کے معروف انڈونچروالی کہانی اور"الف لیلہ"اورقدیم عربی کہانیوں میں ملتاہے۔  اس کی آواز نہایت ہی جاذب اور شیریں ہوتی تھی۔ اس  کارنگ خوب سفیداورچونچ لمبی ہوتی تھی جس کےاندر چالیس سوراخ ہوتےتھے ۔  اوربعض مصادرنےتین سو ساٹھ سوراخوں کاذکرکیاہے۔ ان سوراخوں سے نہایت ہی  خوش گلوآوازیں نکلتی تھیں۔

بعض کہانیوں کےمطابق اللہ تعالیٰ نے اسے ہندوستان میں پیدا کیاتھا، نیز بعض کہانی نگاروں نےذکرکیاہےکہ یہ چڑیا مختلف ناموں سے،  عرب،چین، یونان، مصراور ایران میں بھی پائی جاتی تھی،جیسے:عربی میں عنقاءکےنام سےچائنامیں

فینگھوانگ (Fenghuang) ، مصرمیں طائرالفينيق (بعض لوگوں نےکہاہےکہ یہ مصریوں کےیہاں دوسرا پرندہ ہے)، اہل فارس کے نزدیک ھوما یا ھما اور سیمرغ یا قفنس یا ققنوس اورترکیوں کےنزدیک قنرل(Qonrul) کےنام سے۔ اس پرندےکو بادشاہ گر سیماب صفت پرندہ بھی کہاجاتاہے۔ مشہور ہےکہ ہما  کاسایہ جس کےسر پر پڑجائے وہ بادشاہ بن جاتا ہے۔

اور ہندی میں اسے अमरपक्षी या मायापंछी (یعنی ہمیشہ زندہ رہنےوالایاجادوئی پرندہ)کہاجاتاہے۔یہ نہایت ہی رنگین  سنہری یابیگنی اوربعض روایتوں کےمطابق  ہری یانیلی رنگت کی ہوتی تھی۔

  بعض قدیم افسانوں میں  یہ بھی بیان کیاگیاہے کہ اس کےاندرانسانی شکل اختیار کرنےکی صلاحیت تھی ۔

اس کے متعلق کہاجاتاہےکہ وہ اپنی قسم کی واحدچڑیا تھی جوپانچ یاچھ سو سال(بعض کہانیوں میں اس کی عمر چھ سو سال سے ہزار سال تک کاذکرہے) تک زندہ رہتی ۔ پھرجب اللہ تعالی اس کی موت کافیصلہ کرتاتو وہ پہاڑوں پرلکڑیاں جمع کرتی اور وہاں بیٹھ کرچالیس دنوں تک خودپر نوحہ کرتی، ساراعالم اکٹھا ہوکراس کی آوازسے لطف اندوزہوتا۔  پھراس لکڑی پر بیٹھ کراپنےپروں کو پھڑپھڑاتی جس سےاس لکڑی میں آگ لگ جاتی اور وہ لکڑی کےساتھ جل کر راکھ بن جاتی، پھر بارش ہوتی اوراس راکھ (جماد) سےانڈےیاکیڑےپیداہوتے جس سےپھراس چڑیا کاجنم ہوتایااس سےپھر دوسرا ققنس پیداہوتا ۔(اس پرندے کاذکرابن سینانےبھی اپنی کتاب "الشفا" کےاندرکیاہے)۔ (دیکھئے:تاج العروس :16/ 342  -  مادۃ/ف ق ن س - )۔

اس چڑیا کو رومن امپائر کے سلوگن اور قدیم یونانی فلسفہ کےاعتبارسے تناسخ ارواح نیز بعث بعدالموت کی علامت کےطورپربھی جانا جاتاہے۔ (دیکھئے : عربی ویکیپیڈیا)

- اس کے علاوہ بھی لوگوں نےاس شعر کےدوسرے معانی بیان کئے ہیں جوناقابل اعتناء اور شعرکی من مانی تأویلات ہیں ۔

نظریہ ارتقاءاورابوالعلاء کایہ شعر:

   بعض علماء نےاس بات کی صراحت کی ہے کہ قدیم یونانی فلاسفہ کا نظریہ ارتقاء(جس کابہت بڑاداعی انگریز ماہرحیاتیات  Charles Darwin چارلس ڈارون 1859ء تھا۔ اوراس کے اس ارتقائےحیات والے مفروضےکوڈارونزم   "Darwinism" سے موسوم کیاجاتاہے۔)  کہ حیاتی اجسام کےاندربقا کے لیے ماحول کے مطابق  تبدیلی ہوتی رہتی ہے، بلکہ خود کویہ اجسام ماحول کے مطابق ڈھال لیتے ہیں،جسےانتخاب طبعی (Natural Selection ) کا عمل کہاجاتاہے۔ حالانکہ  ڈارون کےنظریےکےاندر  انسان کی بات نہیں کی گئی  تھی مگر بہرحال اُس کا نظریہ بنی نوع انسان کے ساتھ ہرجاندار شے پہ لاگو ہوتا ہے۔ڈارون کے نزدیک تمام جانداراپنےاطراف کے ماحول میں زندہ رہنےکےلیےاپنی ہیئت کو تبدیل کرتے رہتے ہیں۔

 اسی نظریہ کے حاملین اس کےاندرامتداد پیدا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان بن مانس  یا بندرکی نسل سےتھاجو اپنےماحول کی وجہ سے تبدیل ہوکر موجودہ شکل وشباہت کاہوگیا،جوکہ لاکھوں برس کےارتقاءاور انتخاب طبعی   Selection  Natural  کاماحصل ہے۔ چمپینزی جیسےچو پائےسے دو پیروں پر انسان اس لیے کھڑاہوگیاکہ اُس زمانے میں اوراُس وقت کے ماحول کے مطابق اُس کی بقاء کے لیےیہ ضروری تھا۔ ایک عام آدمی کی سماعت کو یہ نظریہ بڑا دلچسپ اور بھلا لگتاہے، یہی وجہ ہےکہ اس پر سینکڑوں کہانیاں اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں،اور اسی سے متعدد فلمیں ، فیچرس اور افسانےجنم لےچکے ہیں۔جبکہ  ایک صحیح العقیدہ مسلمان کاایمان اس کےقطعی برعکس ہے،جو ایک لاانکار حقیقت ہے ۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو بالکل اسی حلیےمیں بنایاہےجس میں وہ آج موجودہے،جس کی صراحت خودباری تعالی نےکیاہے:( لَقَدْخَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ) (یقینا ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیداکیاہے)  (سورۃ التین/4) ۔ اسی طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی متفق علیہ روایت اوراس معنی کی دیگر روایتوں میں وضاحت کی گئی ہے کہ  اللہ تعالی نےآدم علیہ السلام کواپنی صورت پر پیداکیاہے:" خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ ۔۔۔"(صحیح البخاری /6227 ، صحیح مسلم/2841)۔ جیساکہ سلف کے یہاں اس روایت کامعنی معروف ہے ۔

 اس موضوع پرگفتگوایک لمبی بحث کی متقاضی ہے۔

 کہاجاتاہےکہ اس سےقبل یہ  نظریہ قدیم یونان میں موجودتھا ۔ فتوحات اسلامیہ کےبعدیونانی کتب کاعربی میں ترجمہ کرکےاس تصورکو عرب میں عام کیاگیا، جسے بعض علماءعرب نے اختیارکیا، ان میں جاحظ، زکریا القزوینی، ابن خلدون، ابن مسکویه اوراخوان الصفا خاص طورسےلیاجاتاہے۔ (تفصیل کےلئےدیکھئے:اردو انسائیکلوپیڈیا "ارتقائیت" کے زیرعنوان)۔

اورابوالعلاءمعری نےاپنے شعر(والذي حارت البرية فيه……حيوان مستحدث من جماد) کے ذریعہ اسی نظریہ کی صراحت کی ہے ۔(دیکھئے: خاطرات جمال الدين الأفغانی :6/155 ط : مکتبۃ الشروق الدولیہ 1423ھ)۔ حالانکہ بعض کے نزدیک ابوالعلاءکےاس شعر میں یہ نظریہ لائق اعتناء اس لئےنہیں ہےکہ اولا اس شعر کی حیثیت ایک پہیلی کی ہے،اوراس کےاندرکسی خاص نظریہ کی صراحت نہیں کی گئی ہے۔

ابوالعلاءکے اس شعرکو ڈارون کے نظریہ ارتقاءپر منطبق کرنااس لئےبھی صحیح نہیں ہےکہ اس کا مصداق - جیساکہ پہلے ذکرکیاگیا - انسان کا مٹی سے یاذی حیات کاپانی (منی) سے پیدا ہونابھی ٹھہرتاہے۔

یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی سےخالی نہیں کہ ارتقائی نظریات کےحاملین کےلئے   ابوالعلاءکےمذکورہ شعرکے علاوہ اس سےمشابہ کچھ اوراشعاربھی ہیں، جن سےان کو دلیل فراہم ہوسکتی ہے ، جیسے :

-  اس کا نظریہ ہےکہ حیوان کےاندربقاء کی جدوجہداور چاہت جبلی ہے، اس لئےجب اسےکسی ڈراونےاورخوفناک چیزسے واسطہ پڑتاہے،تو فطرتا اس سےخوف کھانے لگتاہے :

أَرى حَيوانَ الأَرضِ يَرهَبُ حَتفَهُ        وَيُفزِعُهُ رَعدٌ وَ يُطمِعُهُ  بَرقُ

(میں روئےزمین کےجانورکو دیکھتاہوں کہ وہ موت سے خوفزدہ رہتاہے ،بدلی کی کڑک اسےڈراتی ہےاوربجلی کی چمک اس کے اندرامیداورلالچ پیداکرتی ہے)۔

- وہ مانتاہےکہ جانوروں کو مضبوط اعضاءاور قوی ساخت و بناوٹ سےاس لئے مسلح کیاگیاہےکہ ان کے اندرجدوجہد کا ملکہ پیداہو اور کامیابی وکامرانی کی چاہت کےساتھ زندگی کی دوڑمیں آگے بڑھ سکیں:

وَما جُعِلَت لِأُسودِ العَرينِ          أَظافيرُ إِلّا اِبتِغاءَ الظَفَر

(غاروں میں رہنےوالےشیروں کےناخن صرف اس لئے بنائےگئے ہیں کہ ان کےاندر کامیابی اورفتح وکامرانی کی چاہت ہو)۔

- اوربقاء کی جنگ اورزندگی کی دوڑمیں ایک دوسرے سے تنازع اور تنافس سےمتعلق کہتاہے:

  وَلا يُرى حَيوانٌ لا يَكونُ لَهُ               فَوقَ البَسيطَةِ أَعداءٌ وَحُسّادُ

(کوئی ایسا حیوان نظرنہیں آتا کہ روئے زمین پراس کےدشمن اوراس سے حسدکرنے والےنہ ہوں ) ۔

ان کے علاوہ بھی مزید اشعارہیں جنہیں طوالت کے خوف سےذکرنہیں کیاجارہاہے۔

      بہرحال نظریہ ارتقاءایک  غیرشرعی، ملحدانہ اور غیرمنطقی نظریہ ہے،ہرچیز  کی تخلیق باری تعالی کی طرف ویسے ہی کی گئی ہے جیسی ان کی موجودہ ہیئت وماہیت ہے،البتہ تہذیبی اور سائنسی ارتقاءنےبدلتےوقت کےساتھ تعیش وتمدن کے طرزکوخاصامتاثرکیاہے۔ خاص طورسےانسان سے متعلق اس نظریہ کےبطلان پر دلائل شرعیہ کےاندر وافرمقدارمیں مواد موجودہے، جس پرعلماءامت نے بہت کچھ لکھاہے ۔ اللہ رب العزت ہی صحیح راستےکی ہدایت دینے والاہے ۔

 

*********

منگل، 27 دسمبر، 2022

محبت کا شرعی مفہوم اور اس کے فوائد ووسائل

 

محبت کا شرعی مفہوم اور اس کے فوائد ووسائل

    عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی 

          محبت ایک فطری جذبہ ہے جو کسی بھی انسان کے دل میں پیدا ہوتاہے ،بلکہ انسان کی زندگی بھی مکمل طریقےسے ابتداء تا انتہا اس کے ساتھ ہی گزرتی ہے ۔ صحیح محبت کے لئے توفیق الہی اصل ہے ، بلکہ اللہ رب العزت نے جب روحوں کو پیدا کیا اسی وقت   انہیں  ایک دوسرے سے محبت کا خوگربنادیا ، عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت ہے فرماتی ہیں کہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"الأرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَما تَعَارَفَ منها ائْتَلَفَ، وَما تَنَاكَرَ منها اخْتَلَفَ "۔ "روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ ہیں، پھر جنہوں نے ان میں سے ایک دوسرے کی پہچان کی تھی وہ دنیا میں بھی ایک دوسرے سے الفت ومحبت کرتی  ہیں اور جو وہاں الگ تھیں یہاں بھی الگ رہتی ہیں"۔(صحیح بخاری/3336، صحیح مسلم/6376)۔

     اسلامی شریعت نے دیگر امور کے ساتھ ساتھ اس  سے متعلق بھی بہترین رہنمائی کی ہے  ، اور اس کے کچھ اصول وقواعد اور ضوابط بیان کیاہے ۔ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سلسلے میں ڈھیر ساری روایتیں منقول ہیں  کہ آپ کس طرح اپنی ازواج مطہرات ، اولاد ، اہل بیت ، صحابہ کرام  خصوصا اصحاب بدر اور  بیعت رضوان  میں شریک ہونے والوں   سے محبت کرتے تھے ، اسی طرح  دین کے شعائر خاص طور سے نماز  سے آپ کو کتنی محبت تھی ، نیز آپ خوشبو سے  بھی محبت کرتے تھے۔(دیکھئے:سنن النسائی /3939، مسند احمد/13079 علامہ البانی نے صحیح سنن النسائی کے اندرصحیح قراردیاہے)۔

    شریعت کےبیان کردہ محبت کے ضوابط کے علاوہ اساطیری اور خیالی  کہانیوں ، افسانوں  اورڈراموں نے دنیا کے سامنے اس کا جومفہوم پیش کیاہے، ایک متشر د اور منتشر ذہن کے لئے وقتی آسودگی کا سبب تو بن سکتاہے، لیکن سماج کے بگاڑ اور بربادی کا ایک مضبوط حربہ  بھی ہے  ۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب ایک انفعالی  اور افسانوی جذبہ کو  معاشرتی اور اصلاحی روایات کے برخلاف   حقیقی روپ دےکر پیش کیاجائےگا تو  معاشرے میں خرابی کا پیدا ہونا لازمی ہے ۔ دیکھاجائے تو آج زیادہ تر معاشرہ اسی سبب سے بدکاری و بدفعلی ، ذہنی انتشارا  ور  روایتی بھٹکاؤکا شکار ہے ۔  

          اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم معاشرہ  اس فطری   اور  صالح معاشرہ  اور خوشحال زندگی اور کامیاب آخرت کے لئے ضروری وسیلہ اور بہترین  صفت کو اچھی طرح سمجھے   اور صحیح وغلط کا فرق معلوم کرے ، اور اسے یہ بھی پتاہو کہ اسلام کے اندر محبت کو کتنی اہمیت دی گئی ہے ، اور کس قسم کی محبت سے منع کیاگیا ہے ، کیونکہ دیگر عباوت وامورکی طرح  محبت بھی عمل اوراستعمال کے اعتبار سے عبادت واباحت اور وجوب وحرمت  میں تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔

محبت کا معنی   :

محبت کا لغوی معنی :" محبت "یا "حب " ہے، یہ بغض کا نقیض ہے ،جس کا مطلب ہوتاہے،   لازم پکڑنا اور ثابت قدم رہنا ۔(تھذیب اللغۃللازھری:4/8، مقاییس اللغۃ:2/26،لسان العرب:1/290)۔   

محبت کے لئے بسا اوقات جب خالص محبت ہو تو " ود" اور " مودۃ " کا استعمال بھی ہوتاہے ،  اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مختلف صیغوں کے ساتھ کئی جگہوں پر  اس کا  استعمال کیاہے ۔ اسی سے "الودود" بنا ہے  جو اللہ رب العزت کے اسماء حسنی میں سے ہے، جس کا مطلب ہوتاہے "بہت محبت کرنے والا"کیونکہ وہ انبیاء وصالحین اور  اپنے نیک بندوں سے بے انتہا محبت کرتاہے ۔

اسی طرح حدیث میں   بہت زیادہ محبت کرنے والی عورت سے شادی کرنے کے سلسلے میں آتاہے :" تزوَّجوا الوَدود " "خوب محبت کرنے والی عورت سے شادی کرو"" (سنن ابی داود/2050،سنن النسائی/3227، علامہ البانی نےاسے صحیح قراردیاہے)۔ 

"مودت "اور "محبت "میں ایک   دقیق فرق ہے ، جیسے :"محبت" کا تعلق دل  میں استقرارسے ہے ،جبکہ" مودت "کا تعلق  اندازوبیان  کے ذریعہ اظہار سے ۔چنانچہ  ہر "ودود" محبت کرنے والا ہوتاہے لیکن ہر محبت کرنے والا" ودود" نہیں ہوتا۔

اسی طرح  محبت ان چیزوں میں ہوتی ہے جن میں طبیعت کا میلا ن اور حکمت دونوں   ہو جبکہ" مودۃ" صرف  طبیعت کا میلان  ہے ۔ جیسے کہاجاتاہے : مجھے فلاں سے محبت ہے  اور اس سے  مودۃ ہے ،  اور  نماز کے سلسلے میں کہاجاتاہے:مجھے نمازسے محبت ہے ،  یہ نہیں کہاجاتاکہ مجھے نماز سے مودت ہے ۔( دیکھئے :الفروق اللغویۃ/ ص 122)۔

اسی طرح مختلف اسالیب میں  کچھ فرق کے ساتھ  محبت کے معنی میں  رغبت  ، شوق ،رجاء ، الفت  اور تمنا جیسے الفاظ کا استعمال بھی ہوتاہے ۔ مخلتف مواقع سے قرآن وسنت میں بھی ان الفاظ  اور ان   سے مستفاد معانی کا ذکر موجود ہے ۔  محبت کے لئے  لغات میں تقریبا  ساٹھ ناموں کا ذکر آتاہے (۔(دیکھئے :روضۃ المحبین ونزھۃ المشتاقین لابن القیم / ص : 13 )

محبت کا اصطلاحی معنی :  اہل لغت نے محبت کی مختلف الفاظ میں تعریف کی ہے : جیسے المعجم الوسیط (ص151) کے اندرہے کہ :" محبت خوش کن چیزکی طرف مائل ہونا  ہے"۔

امام راغب نے اس کی تعریف یوں کی ہے:"نفس جس چیز کے اندر اچھائی محسوس کرے اسے محبت کہتے ہیں " (الذریعۃ الی مکارم الشریعۃ/ص256

اور ہروی کے بقول : " المحبَّة: تعلق القلب بين الهمة والأنس، فِي البَذْل وَالمنْع على الإِفْرَاد"  " رووح ونفس کامحبت کرنے والے کی ہمت اورمحبوب کی خالص  انسیت کے مابین معلق ہونا محبت ہے"۔(منازل السائرین/ص88

محبت کی قسمیں  : 

محبت کی بنیادی طورپردو قسمیں ہیں :  خاص محبت ۔ عام  (یا مشترک ) محبت۔

خاص محبت : اس کی دو قسمیں ہیں :  شرعی محبت اور حرام اورناجائز محبت ۔

شرعی محبت  : اس کی چند قسمیں ہیں  :

(1)  اللہ تعالی سے محبت : یہ محبت واجب ترین محبت ہے ،کیونکہ یہ دین کی اصل ہے اور اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا ، جب کسی کے اندر اللہ کی محبت کامل ہو تو اس کا ایمان مکمل ہوتاہے اور توحید کی تکمیل ہوتی ہے ، اور جس کے اندر اس محبت میں نقص یا خرابی ہو   اس کی توحید بھی ناقص ہوتی ہے ، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے: :( وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ * وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ) (سورۃ البقرہ/165) (بعض لوگ ایسے ہیں جو اوروں کو اللہ کا شریک ٹھہراکر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں ، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہئے ۔ اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتےہیں)۔

 (2) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی دین کے واجبات میں سے ہے کیونکہ اس کے بغیربھی دین مکمل نہیں ہوتا ۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" :"لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من ماله وولده والناس أجمعين "تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک میں اس کے نزدیک اس کی دولت ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں "۔(صحیح بخاری/15،صحیح مسلم/44) اس معنی ومستدل کی ڈھیروں روایتیں نصوص احادیث میں موجودہیں ۔

(3)  انبیاء وصالحین اور مؤمنین سے محبت : یہ محبت بھی واجب ہےکیونکہ اہل طاعت اور نیک لوگوں  کی محبت بھی اللہ کی محبت کو لازم ہے، اور جس کا حکم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیاہے ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" "لا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا....." " تم جنت میں  نہیں جاوَ گے، جب تک ایمان نہ لاوَ گے اور ایماندار نہ بنو گے،جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ رکھو گے۔۔۔۔"( صحیح مسلم /194) ۔  

حرام محبت :  خاص محبتوں میں سے حرام محبتیں بھی ہیں جیسے معصیت میں کسی سے کوئی محبت کرے یا وہ محبت جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ خاص ہے بعینہ وہی محبت غیر کےساتھ کرے ، بلکہ ان میں سے بعض آدمی کو شرک جیسے گناہ عظیم میں مبتلا کردیتی ہیں ،  جس کا بیان اللہ تعالی نے خودقرآن کریم  کے اندرکیاہے کہ مشرکین  جس طرح اللہ سے محبت کی جاتی ہے اسی طرح غیراللہ کے لئے کرتےہیں  ، وہ غیراللہ کی عبادت کرتےہیں ان کو اللہ کا شریک ٹھہراتےہیں اور ان سے استغاثہ وفریاد کرتےہیں ، جو اللہ رب العزت کے لئے خاص ہے دراصل  وہ محبت اور تعظیم میں  انہیں اللہ کا شریک ٹھہراتےہیں ، ارشاد فرماتاہے:( وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ * وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ) (سورۃ البقرہ/165)  (بعض لوگ ایسے ہیں جو اوروں کو اللہ کا شریک ٹھہراکر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں ، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہئے ۔ اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتےہیں)۔

     اور بعض حرام محبتیں شرک تو نہیں ہوتیں لیکن وہ بھی حرام اور ممنوع ہیں ،  جیسے آل واولاد ، مال ودولت اور تجارت ونوکری سے اتنی محبت کرتاہو کہ انہیں اللہ کے واجب کردہ امور جیسے ہجرت ، جہاداور دیگر فرائض وواجبات  پر ترجیح دے ، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے : (قُل إِن كانَ آباؤُكُم وَأَبناؤُكُم وَإِخوانُكُم وَأَزواجُكُم وَعَشيرَتُكُم وَأَموالٌ اقتَرَفتُموها وَتِجارَةٌ تَخشَونَ كَسادَها وَمَساكِنُ تَرضَونَها أَحَبَّ إِلَيكُم مِنَ اللَّـهِ وَرَسولِهِ وَجِهادٍ في سَبيلِهِ فَتَرَبَّصوا حَتّى يَأتِيَ اللَّـهُ بِأَمرِهِ وَاللَّـهُ لا يَهدِي القَومَ الفاسِقينَ) (سورۃ التوبۃ/24)  ( آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارےبھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے خاندان اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہواگریہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیزہیں ، تو تم انتظار کروکہ اللہ تعالی اپنا عذاب لے آئے ۔ اور اللہ تعالی فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا)۔

عام (یامشترک) محبت :  اس میں کئی طرح کی محبتیں ہیں :

عمومی جائز محبت، جیسے: کسی آدمی کی کسی  اچھی خصلت سے متاثر ہوکر یا کسی پسندیدہ شیئی سے محبت کرنا۔

 طبعی  وفطری محبت :  مثلا : آدمی  اپنے نفس کے میلان کے مطابق کرتاہے جیسے : بھوکے کا کھاناسے ،پیاسے کا پانی سے  اور اس کے علاوہ انسان کا  حسب ضرورت وچاہت محبت کرنا ۔

عطف ورحم والی محبت : جیسے باپ اور ماں  کا بیٹے سے وغیرہ وغیرہ ۔

انس والفت والی محبت : جیسے کسی بھی فن وحرفت ، علم ، تجارت یا  سفرمیں شریک لوگوں کے ساتھ   محبت ۔

محبت اور عشق کا فرق :

محبت کے لئے "عشق " کا لفظ بھی استعمال کیاجاتاہے،جوکہ حدسے بڑھی ہوئی محبت  کا متبادل ہے ۔عربی میں عشق کو" إدمان في الحب " سے بھی تعبیرکیاجاتاہے۔ادمان کا مطلب  کسی چیزکا عادی ہونا ہوتاہے یعنی  آدمی جب کسی شیئ کے دام میں گرفتارہوتاہے تو اس سےجی چھڑانامشکل ہی نہیں بسا اوقات ناممکن ہوجاتاہے۔

یہ کہاجائے کہ "عشق " محبت کا افسانوی اور خیالی  او ربھٹکا ہو ا نام ہے تو بےجا نہ ہوگا ۔ لفظ عشق  عربی کے عَشِقَ سے بنا ہے جس کا معنی ہوتاہے "اس کا  دل ھوی وخواہشات سے متعلق ہوگیا" چنانچہ محبت میں افراط کو  عشق کہاجاتاہے۔  اسی طرح عشق کا مطلب گہری چاہت  اور فرط محبت بھی بیان کیاجاتاہے۔

عشق کی ایک تعریف یہ کی جاتی ہے :"عفت وفحاشی دونوں حالتوں میں  محبت کرنے والے   کا محبوب کے لئے پسندیدگی "  ۔(دیکھئے :روضۃ المحبین ونزھۃ المشتاقین لابن القیم / ص : 21 )

عشق کی ایک تعریف یہ بھی ہے:" الإغرام بالنساء والإفراط في المحبة" "عورتوں پر فریفتہ ہونا اور محبت میں حد سے گزر جانا"۔ (الفروق اللغویۃ/99 ، المعجم الوسیط ،المصباح المنیر)۔

عشق کی ایک تعریف یہ بھی کی جاتی ہے کہ :" عشق ایک وہمی بیماری ہے  جو آدمی اپنی فکر و ذہن کو کسی خوبی کی اچھائی یا استحسان پر مرکوز کرکے اسے  اپنے اوپر طاری کرلیتاہے 

اسی طرح عشق ایک لالچ ہے جو دل میں پیداہوتی ہے  ، اور جوں جوں وہ لالچ مضبوط ہوتی جاتی  ہے بڑھتی جاتی ہے ، اور بسا اوقات  وہ غم  اضطراب  کی حد کو پہنچ جاتی ہے  ،اور عاشق  اس کی وجہ سے یاتو خودکشی کرلیتاہے یا مرجاتاہے ، اور کبھی کبھی یہ بھی ہوتاہے کہ اپنے معشوق کو دیکھ کر فرط خوشی سے مرجاتاہے ،کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ معشوق کے عیوب سے اندھا ہوتاہے۔(دیکھئے :روضۃ المحبین ونزھۃ المشتاقین لابن القیم / ص : 21-22  ،   نیز ص : 99- 100 )۔  مطلب عشق زندگی کے لئے خطرناک تو ہوتاہی ہے انسان کے عقل وخرد کو بھی متاثر کردیتاہے،  غالب کا مشہو ر شعر ہے :

خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو  -  ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے ۔

عشق نے  غالب  نکما   کر دیا        -       ورنہ ہم بھی آدمی تھے  کام کے۔

اور اکبر الہ آبادی کا شعرہے :

عشق نازک مزاج ہے بے حد  - عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا ۔

اور میرتقی میرکا شعرہے:

کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق - جان کا روگ ہے بلا ہے عشق   ۔

متنبی کا ایک شعرہے:

وما العشق إلا غرّة وطماعة         يعرّض قلب نفسه فيصاب

عشق توصرف دھوکا اورلالچ ہے،  کوئی دل  خودکویہ روگ لگاتاہے اور  پھر  بیمارہوجاتاہے۔

شہاب الدین نویری متوفی  733 ھ نے اپنی کتاب نهايۃ الأرب في فنون الأدب (2/ 130)  کے اندرمحبت اورعشق کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھاہے:"قالواالمحبة جنس، والعشق نوع. فإن الرجل يحب أباه وأمه، ولا يبعثه ذلك على تلف نفسه، بخلاف العاشق" ۔ "کہتے ہیں کہ محبت جنس ہےاورعشق نوع۔ آدمی اپنےماں باپ سے محبت کرتاہےجو اسے اتلاف نفس پر نہیں ابھارتا برخلاف عاشق کے"۔

    لفظ "عشق"نے مشرقی تہذیب کی شفافیت  وپاکیزگی کو  آلودہ کرنے میں بہت بڑا کردار اداکیاہے۔ اسی طرح دین کے نام پر عقائد واعمال کو بگاڑکرصحیح دین  اور صراط مستقیم سے لوگوں کو دور کرنے میں بھی اس کا بہت بڑاہاتھ ہے ۔

 گرچہ  یہ لفظ صدیوں پرانا ہے ،لیکن  معاشرہ ومذہب  اور علوم وفنون پر   بعد کے زمانوں میں  حملہ آور ہواہے ۔

جب سے اس لفظ کو تصوف و فنا کے نام پر دین میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی  اس نے مسلم امہ کے ایک بڑے طبقے کو  فرائض وواجبات اور توحید  وسنت سے  دور کرکے شرک وبدعات اور خرافات معاصی   میں   دھکیل دیاہے ۔

اس لفظ نے پاکیز ہ شاعری کو جب سے اپنے لپیٹے میں لیاہے اسے غزلیات کے نام پر جادَۂ راہ سے بھٹکا دیاہے ۔

افسانوں  ، ڈراموں اور رومانس وشہوت پر مبنی کہانیو ں کی بنیاد ہی عشق پرہے  ،جس نے ادبی موادکو بھی  اساطیری  و شہوانی  افسانوں اور کہانیو ں سے  متلبس ہو کر ہیجان وشہوات  کو رواج دینے میں بہت بڑاکرداراداکیاہے۔

نئے دور میں  اس لفظ نے محبت ، مودۃ ، پیار ، الفت ،چاہت ،  انسیت ،خواہش ، پریم، دوستی  اور لو جیسے معروف ومتداول او ر اور عام اصطلاحات میں یک گونہ بے حیائیوں سے پاک الفاظ اور ان کے مفاہیم  کو بھی مکدر کردیاہے ۔

اس لفظ کےلئے  انگریزی زبان میں مختلف اصطلاحات رائج ہیں ،جیسے: love,flirt, affection,crush, infatuation     وغیرہ ۔  حالانکہ ان الفاظ کے اندر لفظ عشق کے ساتھ ساتھ   ان میں سے بعض کے کچھ دوسرے لغوی معانی  بھی ہیں  مگر  محبت اور اس سے  متقارب  ومترادف معانی میں استعمال کی وجہ سے  عام طورپر  عشق کے اظہارکے لئے ان کا استعمال  عام  اور چلن میں ہے ، جیسے : فتنے میں پڑنا ، غم وعشق سے دیوانہ ہوجانا،قدم متزلزل ہونا،جنون ، سحر، شغف ، ہوس ،  شیفتگی، فریفتگی ،  زیادتي ِغم سے نیم پاگل ہوجانا ،عقل وہوش زائل ہوجانا ،  شدت عشق سے پریشان وحواس باختہ ہونا، عشق ومحبت، گرویدگی ، غم ِ جاناں ،خوف، بد حواسی، بے قراری وغیرہ۔

گویا اس لفظ نے جہاں بھی اپنے قدم جمائے ہیں پورے طورپر  محبت کے اصلی تصور کو بدل دیاہے اور رومانس وشہوت کو عروج عطا کیاہے ۔ حالانکہ اس کے دلدادہ یہ دعوی کرنے سے بھی نہیں چوکتے کہ  اس کا استعمال ان کے یہاں پاک جذبے کے لئے ہوتاہے ، لیکن ان کی بات میں کتنی سچائی ہے اس لفظ کی تعریف اس کے مفہوم  اور مواقع استعمال  سے ہی  پتا چلتاہے۔ واضح رہے کہ قدیم عربی زبان میں بھی پاک اورنامناسب عشق کا فرق کیاجاتاتھا۔

عشق اور اس کے استعمال واستغراق سے متعلق شہاب الدین نویری متوفی  733 ھ نے  اپنی کتاب نهايۃ الأرب في فنون الأدب( جس کا شمار مختلف فنون کے موسوعہ میں ہوتاہے) کے اندر بہت ہی مفصل بحث کی ہے۔

اسی طرح امام ابن الجوزی کی کتاب ذم الھوی اورروضۃ المحبین عشق کی ماہیت او رحقیقت سے متعلق  مرجع کی حیثیت رکھتی ہے ۔

اللہ ا و ر اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے لئے لفظ "عشق "  کا استعمال  :

 اللہ اور اس کے  رسول  صلی اللہ علیہ وسلم اور صلحا ء واولیاء کے  لئے لفظ  عشق کا استعمال  صوفیاء اور قوالوں  کے یہاں عام بات ہے ، بلکہ  ان کے یہاں   یہ لفظ محبت سے زیادہ پرکشش اور متبرک ہے ، اس ضمن میں ان کے یہاں مختلف دلیلیں موجود ہیں، جو یاتو ان کے خود ساختہ ذہن کی اختراع ہیں یا پھر بعض روایات سے ماخوذ ،جن میں زیادہ ترباطل من گھڑت اور موضو‏ ع ہیں ، اور اگر کوئی روایت مانوس بھی ہے تو اس سے استدالال بے محل اورغیرمناسب ہے۔

اس کے برخلاف  سلف  وخلف میں  محدثین وفقہاء اور علماء اہل سنت کے یہاں اس کی معنوی قباحت کی وجہ سے  اللہ  اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے لئے  اس کا استعمال  حرام وممنوع ہے ، ذیل میں ہم اس سے متعلق چند  وجوہات اور دلیلیں پیش کررہے ہیں  :

*  - عشق کی مذکورہ تعریفات کی بنیاد پر یہ بات واضح ہے کہ اس کے اندر وہ معانی پائے جاتے ہیں جن کا استعمال  ایک مؤمن  لئے زیب نہیں ، چہ جائے کہ اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے لئے استعمال کیاجائے ، اس کے اندر لالچ ، غم ، اضطراب ،وہم ، بیماری ،شہوت ، فحاشی کی چاہت، رومانس،   خود کشی کی خواہش کا پیدا ہونا ، بسا اوقات موت کا سبب بننا اور معشوق کے عیوب    کا نظرنہ آنا  وغیرہ مفاہیم پائے جاتے ہیں جو  عشق کے وہ عناصر ہیں  جو  اللہ  اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس کے استعمال سے مانع ہیں ۔

*-   لفظ" محبت" کے اندر پاکیزگی ہے، جبکہ عام بو ل چال میں بھی لفظ "عشق "سے ذہن میں رومانس  متبادر ہوتاہے۔کوئی بھی آدمی پاکیزہ رشتوں کے لئے صرف اور صرف محبت کا استعمال کرتاہے ، کسی بھی صورت میں ان کے لئے عشق کا استعمال نہیں کرسکتا، جیسے ماں ، بہن ، بیٹی ، خالہ ،پھوپھی اور دیگر تمام رشتوں کے لئے ۔ بلکہ رشتوں کے علاو ہ عام لوگوں کے لئے بھی آدمی جب کسی سے اپنی محبت کا اظہار کرتاہے تو یہ کبھی نہیں کہتاکہ "مجھے تم سے عشق ہے "۔ ایک عقلمند اور دیندار آدمی کے لئے یہاں یہ سمجھنا قدرے مشکل نہیں کہ  جو لفظ  عام  وخاص رشتوں میں اوردیگر  تعلقات کے اظہار کے لئے  گھٹیا اور معیوب سمجھا جاتاہو  اللہ اور رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کیسے مناسب ہو سکتاہے "۔

* - عشق کے اندر  محبت میں افراط پایاجاتاہے  اور اللہ رب العالمین  کی طرف کسی بھی چیزمیں افراط کی نسبت جائزنہیں ہے ۔

امام ابو العز حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :" عشق   حب مفرط(حد سے زیادہ محبت) ہےجس سے عشق کرنے والے پر ڈر پیداہوتاہے، اللہ رب العزت کو اس سے موصوف نہیں کیاجائےگا  اورنہ ہی بندے کو اپنے رب سے محبت کے لئے "۔(شرح العقیدۃ الطحاویۃ:1/166)۔

* - عشق کے اندر شہوت کے ساتھ محبت اور چاہت  کا مفہوم پایا جاتاہے، جو کہ کسی بھی طرح اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مناسب نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ پاکیزہ رشتوں کے لئے کبھی  بھی اس کا استعمال نہیں کیاجاتاہے۔

*-  قرآن وحدیث میں جہاں بھی غایت درجہ محبت کا ذکر ہواہے  عشق کے برخلاف "محبت " کا لفظ ہی مستعمل ہواہے ، جیسے  مؤمنوں کی اللہ سے محبت۔ جس سے  بڑا درجہ  دوسری کسی بھی محبت کی نہیں ہوسکتی ہے ، بلکہ یہ محبت عین عبادت ہے پھر بھی اس کے لئے "حب" کا لفظ ہی اللہ  تبارک وتعالی نے ذکر کیاہے ، ارشاد فرماتاہے:(  وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ) (جوصاحب ایمان ہیں وہ اللہ سے بہت زیادہ محبت کرتےہیں "۔  (سورۃ البقرہ /165)۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالی نے اپنے بندوں سے اپنی  محبت کا جہاں بھی ذکر کیاہے اسی لفظ کے ساتھ کیاہے، فرماتاہے: (إن الله يحب المحسنين ) (سورۃ البقرہ/195)   ( اللہ تعالی احسان کرنے والوں سے محبت کرتاہے)۔ ( إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)  (سورۃ البقرہ/222)  (اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتاہے ۔)،(إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ)(آل عمران/159)   ( اللہ تعالی توکل کرنے والوں  سے محبت کرتاہے)۔ان کے علاوہ اور بھی آیتیں ہیں جن  میں صرف اور لفظ "محبت" کا ذکرہے۔

* - کسی انسان کی دوسرے سے خواہش اور حد درجہ فریفتگی کی تعبیرمیں بھی  اللہ رب العزت   نے لفظ "محبت"  ہی کا استعمال کیا ہے، عزیز مصر کی بیوی نےجویوسف علیہ السلام جیسے پاکباز نفس کو آمادۂ گناہ کرنا چاہا او رآپ نے پاکدامنی کا بے مثال نمونہ پیش کیا  ، اس خبرکو اللہ رب العزت نے   کس اسلوب میں پیش کیا ہے  ملاحظہ کریں :( وَقَالَ نِسْوَةٌ فِى الْمَدِيْنَةِ امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَنْ نَّفْسِهٖ ۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۖ اِنَّا لَنَرَاهَا فِىْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ) (سورۃ یوسف/30) (اور شہر کی عورتوں میں یہ چرچا ہونے لگا  کہ عزیز کی عورت اپنے غلام کو بہلانے پھسلانے میں لگی رہتی ہے ، بے شک اس کی محبت  اس کے دل میں بیٹھ گئی ہے، ہم تو اسے صریح گمراہی میں  دیکھتے ہیں) ۔

غور کیجئے محبت  ،چاہت او رخواہش و شہوت کے   اس منزل کو موجودہ فریفتگان عشق کے یہاں کیا نام دیا جاسکتاہے  ؟ لیکن رب العزت نے    اس کے لفظی  ومعنوی  اسلو ب اور بیان کو ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک رکھاہے ۔

اسی طرح حدیث کی کتابوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مغیث کا اپنی بیوی بریرہ کے لئے فرط محبت کا تذکرہ ہے ، جومغیث  کو چھوڑنا چاہ رہی تھی اور مغیث ان کے پیچھے پیچھے روتے اور آنسو بہاتےہوئے جارہے تھے، ان کی داڑھی آنسو سے ترتھی ،یہ دیکھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا :" يا عَبَّاسُ، ألَا تَعْجَبُ مِن حُبِّ مُغِيثٍ بَرِيرَةَ ، ومِنْ بُغْضِ بَرِيرَةَ مُغِيثًا " ۔ " اے عباس آپ کو مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی مغیث سے نفرت پر تعجب نہیں ہے "۔ (صحیح بخاری /5283) ۔

اس فرط محبت کی تعبیر کے لئے بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے "محبت" کا لفظ ہی استعمال کیاہے ۔

* - قرآن و حدیث کے نصوص میں لفظ "محبت" کا استعمال بارہا ہواہے جبکہ لفظ "عشق "  کسی بھی صحیح نص میں  مذکور نہیں ہے ، اور اگر کسی روایت میں اس کا ذکر ہے بھی  تو وہ موضوع اور من گھڑت ہے ۔ حالانکہ بعض روایتوں کو بعض محققین نے صحیح  یا حسن کے درجے کا  قراردیاہے ، پھر بھی ان روایتوں سے اس لفظ کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے استعمال درست  اس لئے نہیں ہے کہ جن معانی میں ان کا  استعمال ہواہے اللہ اوررسول کے لئے قطعا  غیرمناسب ہے ۔آیئے ان میں سے کچھ روایات کا مختصرا جائزہ لیتےہیں :

(1) -  "من عشق فعف فكتم فمات فهو شهيد"" جس نے عشق کیا  پھر پاکدامنی اختیار کی اور چھپایا پھر مرگیا تو وہ شہیدہے "۔(دیکھئے : المجروحین لابن حبان (1/349) تاریخ بغداد (5/156،262  و  6/50-51 )المنار المنيف:1/ 139 ، سلسلہ ضعیفہ/409 ،ضعیف الجامع/5697،5698 ، تاریخ دمشق:43/ 195)۔

  اس روایت کو ان الفاظ کے علاوہ  مختلف محدثین نے اپنی کتابوں میں عبداللہ بن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے مختلف الفاظ کے ساتھ ذکرکیاہے:

- "مَنْ عَشِقَ فَكَتَمَ،وَعَفَّ فَمَاتَ،فَهُوَشَهِيدٌ"" جس نے عشق کیا  پھر چھپایا اور پاکدامنی اختیار کی اور پھر مرگیا تو وہ شہیدہے"۔  (تاریخ بغداد:13/183)۔

- "مَن عَشِقَ فعفَّ فماتَ فَهوَ شَهيدٌ"۔(العلل المتناھیة :2/771)

-" من عشق فعف فكتم فمات، مات شهيداً "۔ (الجامع الکبیرللسیوطی /3795)

- " من عشق فعف ثم مات مات شهيدا" ۔(دیکھئے:تاریخ بغداد:14/501،الجامع الصغیر:12472 )

-"مَنْ عَشِقَ وَكَتَمَ وَعَفَّ وَصَبَرَ غَفَرَ اللهُ لَهُ وَأَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ"۔ " جس نے عشق کیااور چھپایا اور پاکدامنی اختیار کی  اور صبرکیا تو اللہ تعالی اس کی مغفرت کرےگا اور اسے جنت میں داخل کرےگا"۔ (الجامع الکبیرللسیوطی/3796)۔

-  صوفیہ کی بعض کتابوں میں  اس کے الفاظ ہیں : "من عشق الله تعالى وكتم فمات، مات شهيداً" " جس نے اللہ تعالی سے عشق کیااور چھپایاپھرمرگیاتو اس کی موت شہید کی موت ہوگی"۔ (بین سیروطیر/عرين شوكت سلامۃ قدسي ص 445) ۔

محدثین نے اس روایت کے مختلف الفاظ سے وارد ہونے کےباوجود موضوع اور من گھڑت ہونے کا حکم لگایاہے،( دیکھئے ضعیف الجامع الصغیر/5697) ۔

مذکورہ روایت  پر سندا اورمتنا کلام کرتے ہوئے امام ابن القیم فرماتےہیں :" فَإِنَّ هَذَا الْحَدِيثَ لَا يَصِحُّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ مِنْ كَلَامِهِ، فَإِنَّ الشَّهَادَةَ دَرَجَةٌ عَالِيَةٌ عِنْدَ اللَّهِ، مَقْرُونَةٌ بِدَرَجَةِ الصِّدِّيقِيَّةِ، وَلَهَا أَعْمَالٌ وَأَحْوَالٌ، هِيَ شَرْطٌ فِي حُصُولِهَا، وَهِيَ نَوْعَانِعَامَّةٌ وَخَاصَّةٌ۔۔۔۔۔" (زادالمعاد:4/ 252-253)۔

" یہ روایت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح وثابت نہیں ہے ، اوریہ جائزہی نہیں ہے کہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہوسکے،کیونکہ شہادت  اللہ تعالی کے نزدیک ایک بلنددرجہ ہے جوصدیقیت کے درجہ سے مقرون ہے ، اور اس کے اعمال واحوال ہیں جو اس کے حصول کی شرائط میں سے ہیں جو عام اورخاص دوقسمیں ہیں  ۔۔۔۔"

امام ابن القیم نے زاد المعاد اور بعض دیگرکتابوں میں اس روایت کے اوپر  اچھی خاصی بحث کی ہے۔

اسی طرح علامہ البانی نے سلسلہ ضعیفہ کے اندر مفصل کلام کیاہے۔(دیکھئے:سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ:1/402-408) ۔

 (2) - دیلمی کے حوالے سے بلاسند ایک روایت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے ذکرکی جاتی ہے"الْعِشْقُ مِنْ غَيْرِ رِيبَةٍ كفَّارَةٌ لِلذُّنُوبِ "بنا کسی شک وشبہےوالی بات کےساتھ عشق گناہوں کے لئے کفارہ ہے "۔ (دیکھئے:الدررالمنتثرہ في احادیث المشتھرۃ/ ص185 ، كتاب الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ ص 353 رقم /508)۔

بلا سندکا ہونا ہی اس روایت کےبطلان اور غیرمعتبرہونے کےلئے کافی ہے ۔

(3) - حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " اقْرَءُوا الْقُرْآنَ بِلُحُونِ الْعَرَبِ وَأَصْوَاتِهَا ، وَلا تَقْرَءُوا الْقُرْآنَ بِلُحُونِ أَهْلِ الْعِشْقِ وَأَهْلِ الْكِتَابَيْنِ ۔۔۔۔۔۔۔". " قرآن کو عرب کے لب ولہجہ میں پڑھو اور قرآن کو اہل عشق اوراہل کتابین کے لہجہ میں مت پڑھو ۔۔۔۔۔" (مختصرقيام الليل  للمروزی رقم /185،  نوادرالأصول للحکیم الترمذی:3/255) ۔

اس روایت میں مروزي اورحکیم ترمذی کی کتابوں کےاندرلفظ "عشق"  ہے،لیکن زیادہ تراحادیث کی کتابوں میں عشق کی بجائے" فسق" ہے،جیسے : شعب الایمان للبیھقی /رقم  2406 ،المعجم الاوسط للطبرانی /7430  وغیرہ حالانکہ  امام تبریزی نے المشکوۃ (2/676) کے اندر اس روایت کو امام بیہقی کے حوالے سے ذکرکیاہے ،جس کے اندر "لفظ "أهل العشق"  مذکورہے،  ملا علی قاری نے جس سے " اصحاب الفسق " مرادلیاہے۔ (المرقاۃ:5/13)۔۔ابن الاثیر نے بھی رزین کے حوالے سے  " أهل العشق " کا ذکرکیاہے۔      (جامع الاصول:2/  459  رقم /913)۔

یعقوب الفسوی نے المعرفۃ والتاریخ (2/480) کے اندر روایت کیاہے  ، جس کے اندر" أَهْلِ الْكِتَابَيْنِ" کی جگہ " أَهْلِ الْمَكَايِسِ" کا لفظ ہے ۔ابن عدی کی روایت میں "أهل الفسق" کی بجائے "أهل الفتن " ہے۔ الکامل في ضعفاء الرجال(2/ 272) ۔

واضح رہے کہ یہ روایت حددرجہ ضعیف بلکہ بعض محدثین کے نزدیک منکر ہے۔ھیثمی لکھتےہیں :" رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَفِيهِ رَاوٍ لَمْ يُسَمَّ وَبَقِيَّةُ أَيْضًا"۔ "طبرانی نے اوسط کے اندرروایت کیاہے ،اس کے اندرایسا راوی ہے جو مجہول ہے اوربقیہ بھی ہیں "۔ (مجمع الزوائد (7/169 ) ۔  ابن عدی نے الکامل في ضعفاء الرجال(2/ 272)کے اندراسے ذکرکیاہے۔

جوزقانی الاباطیل کے اندرذکرکرنےکےبعد لکھتےہیں: "هَذَا حَدِيثٌ بَاطِلٌ، وَأَبُو مُحَمَّدٍ شَيْخٌ مَجْهُولٌ، وَحُصَيْنُ بْنُ مَالِكٍ أَيْضًا مَجْهُولٌ وَبَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ ضَعِيفٌ "۔ "یہ روایت باطل  ہے اورابو محمد مجہول شیخ ہیں ، اورحصین بن مالک بھی مجہول ہیں اور بقیہ بن ولیدضعیف ہیں "۔(الاباطیل والمناکیر/723) ۔

امام ذھبی لکھتے : "تفرد عنه بقية، ليس بمعتمد والخبر منكر". " اسے روایت کرنے مین بقیہ متفردہین جو معتمدنہیں اوریہ خبرمنکرہے"۔ (لسان المیزان :1/ 553)۔

امام ابن الجوزی نے  العلل المتناهية في الأحاديث الواهية (1/ 111)  کے اندرذکرکیاہے اور لکھتےہیں :" هَذَا حَدِيثٌ لا يَصِحُّ وَأَبُو مُحَمَّدٍ مَجْهُولٌ وبقية يروي عن حديث الضُّعَفَاءِ وَيُدَلِّسُهُمْ"۔ " یہ حدیث صحیح نہیں اورابومحمد مجہول ہیں اوربقیہ ضعیف راویوں سے روایت کرتےہیں اور تدلیس کرتےہیں "۔

امام طبرانی لکھتےہیں :" لا يروي عن حذيفة إلا بهذا الإسناد، تفرد به بقية"۔ " حذیفہ سے صرف اسی سند سے مروی ہے اور بقیہ اسے روایت کرنے میں متفردہیں "۔

ایسا نہیں ہے کہ لفظ عشق کوئی مستحدث  اصطلاح ہے ، اس کا استعمال قدیم عربی زبان میں  بھی موجود ہے، خاص طورسے عربی شعراء اور ادیبوں نے اسے استعمال کیاہے بلکہ بعض روایتوں میں بھی اس کا ذکرملتاہے،جیساکہ اوسط میں امام طبرانی اورالسنن الکبری کے اندرامام نسائی نے ایک طویل روایت  ذکرکیاہےکہ  عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ بھیجا انہوں نے غنیمت حاصل کی جن میں ایک آدمی تھا اس نے کہا: اللهم إني لست منهم، عشقت امرأة فلحقتها، فدعوني أنظر إليها نظرة ثم اصنعوا بي ما بَدا لكم۔۔۔۔۔۔" میں ان میں سے نہیں ہوں میں نے تو ایک عورت سے عشق کیاہے جس سے ملنا چاہتاتھا اس لئے مجھے چھوڑدواسے ایک نظردیکھ لوں پھرتمہیں جو جی چاہےکرنا ۔۔۔۔۔۔"

پھر اس کے بعد اس روایت میں اس آدمی کے قتل  اوراس  عورت کی موت کا ذکرہے ،جس کی خبرلگنے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" أما كان فيكم رجل رحيم" "کیاتم میں کوئی رحم دل شخص نہیں تھا"۔ اس روایت کو امام نسائی نے  السنن الكبرى /8610  میں محمَّد بن علي بن حرب کے طریق سے رایت کیاہے اور امام نسائی سےامام طبرانی نے في المعجم الكبير/11/369  ، المعجم الأوسط2/196 ، اورامام بيهقي نے  دلائل النبوة :5/118 رقم 1873 ، اورابن الجوزي  نے  ذم الهوى /ص 501 ،کے اندرروایت کیاہے، حافظ ابن حجر نے اس کی تصحیح کی ہے (فتح الباری:8/ 58) ،  ہیثمی مجمع الزوائد/6/309 کے اندر لکھتےہیں : إسناده حسن. اور امام البانی نے ان کی موافقت کی ہے ۔ (دیکھئے: سلسۃ الاحادیث الصحیحۃ/2594)۔

اس روایت میں آگے کا واقعہ مذکورہےکہ وہ آدمی اپنی معشوقہ سے ملتاہے ،  دونوں کے درمیان گفتگو ہوتی ہے، اورپھر جب اس کی گردن ماردی جاتی ہے تو وہ  عورت  اس لاش پرگرکر  گھونٹی  ہوئی آواز کے ساتھ چیخ مارکرمرجاتی ہے ۔

* - چونکہ صوفیہ کے عقائد مجملا ومفصلا اسی اصل پر  منحصرہیں اس لئے ان کی کتابوں میں عشق اور اس سے متعلق الفاظ کے ساتھ  مختلف اورمتنوع  منگھڑت اور واہیات قسم کی روایتیں ملیں گی ، جن پر وہ فنا فی اللہ اور عشق الہی کی  من گھڑت  ،موضوع اور غیرشرعی  عقیدہ   کی بنیادرکھتےہیں ۔ جیسے ان کے یہاں یہ روایت بہت مشہورہے جسے حسن سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ :"  اللہ تعالی فرماتاہے( إِذَا كَانَ الْغَالِبُ عَلَى عَبْدِي الِاشْتِغَالُ بِي جَعَلْتُ نَعِيمَهُ وَلَذَّتَهُ فِي ذِكْرَى فَإِذَا جَعَلْتُ نَعِيمَهُ وَلَذَّتَهُ فِي ذِكْرِي عَشِقَنِي وَعَشِقْتُهُ، فَإِذَا عَشِقَنِي وَعَشِقْتُهُ رَفَعْتُ الْحِجَابَ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَهُ۔۔۔۔۔)" ۔"جب میرے بندے پرمجھ سے مشغولیت غالب آتی ہے تواس کے سکون اورلذت کا سامان  اپنےذکرمیں بنا دیتاہوں، وہ مجھ سے عشق کرتاہے اورمیں اس سے عشق کرتاہوں اورپھرجب وہ مجھ سےعشق کرتاہےاور میں اس سے عشق کرتاہوں تو اس حجاب کوہٹادیتاہوں جو میرے اور اس کے درمیان ہے ۔۔۔۔ ) " ۔

ابونعیم لکھتےہیں :  عبدالواحد نے حسن سے ایسےہی مرسلاروایت کیاہے  اور یہ روایت حسن کی تمام  مقبول  مرسل روایتوں سے خارج ہے کیونکہ اس کے اندر محمد بن الفضل اور عبدالواحدہیں نیزیہ ان (حسن) سے ضعیف روایتوں کو بیان کرتے ہیں "۔ (حلیۃ الاولیاء:6/ 165)۔

اسی طرح جنیدکی ایک روایت ہے جوسَرِيُّ السّقَطي  سے روایت کرتے ہیں : "مكتوب فِي بَعْض الكتب الَّتِي أنزل اللَّه تَعَالَى إِذَا كَانَ الغالب عَلَى عبدى ذكرى عشقني وعشقته"۔ "بعض کتابوں میں جنہیں اللہ تعالی نے نازل فرمایایہ لکھاہواہے کہ : جب میرےبندےپرمیراذکرغالب آجاتاہےتووہ مجھ سے عشق کرتاہے اور میں اس سے عشق کرتاہوں"۔ (دیکھئے: الرسالۃ القشیریۃ :32/378 ومختصرالافادات في ربع العبادات والآداب وزیارات لابن بلبان الحنبلي/ص 465) ۔

ان  روایات کے علاوہ شعیہ کی اکثرکتابیں اس قسم کی واہیات روایتوں سے بھری ہوئی ملیں گی جن کے اندر عشق الہی جیسا خودساختہ اورغیرشرعی عقیدہ ملےگا۔ اورمزےکی بات یہ ہے کہ تصوف  کو  " دام گرفتاریْ عِشق  بھی کہتے ہیں"۔

محبت  اور اطاعت :

یہاں ایک اہم وضاحت ضروری ہے کہ  اللہ تبارک وتعالی نے کسی سے محبت کا معیارللہ فی اللہ رکھا ہے ، یعنی اگر کسی سے محبت یا نفرت کرے تو صرف اور صرف اللہ کی رضا وخوشنودی کو پیش نظررکھے، اس محبت کے ساتھ  کوئی بھی دنیاوی غرض یا شہوت وناجائزاشتیاق  نہ یہ کہ اس محبت کی روح کو ماردیتاہے بلکہ بسا اوقات اللہ رب العزت کی ناراضگی اور سزا وعذاب کا سبب  بھی بنتا ہے۔

اسی طرح محبت کے لئے اطاعت  ضروری ہے ، اگر کوئی  اللہ اور  اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوے دارہے تو ان کی نافرمانی سے بچنا اور  ان کی اطاعت کرنا فرض ہے ، اس کے بغیرکوئی نہ صحیح محبت کرنے والا ہوسکتاہے اور نہ ہی مؤمن ، اللہ  تعالی فرماتاہے :( قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي) (سورہ آل عمران /31)  (کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہوتو میری اطاعت واتباع کرو)۔

 اسی طرح اگر کوئی  اللہ  اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے سے محبت کرتاہو  تو ان کی اطاعت صرف معروف اور بھلائی کے کاموں میں ہی کرنی ہے ،   اللہ تعالی کی معصیت میں ان کی اطاعت   سے بچنا ضروری ہے ،  علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" لا طاعة في معصية، إنما الطاعة في المعروف " ۔ " اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت  جائز نہیں ہے اطاعت صرف نیک کاموں میں ہے" (صحیح بخاری/7257،4340 ، صحیح مسلم /1840)۔أعلى النموذجأسفل النموذج

اللہ کے لئے محبت کے ثمرات وفوائد  :

 شریعت اسلامی میں کسی سے  اللہ کے لئے محبت   مشروع ومطلوب عمل ہے ،بلکہ  بندوں کے لئے یہ ایک ربانی اور الہی عطیہ ہے ۔ اور  صحیح  اور صالح اسلامی معاشرے کی بنیادبھی اسی پر قائم ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس ربانی صفت کے بے شمار فائدے ہیں ، آئیے انہیں فوائد اور ثمرات  کا مختصرا ذکرکرتےہیں  :

* -  محبت والفت اللہ رب العزت کی نعمت ہے : اللہ تعالی  محبت والفت کو اپنی نعمت سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتاہے:( وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا )  (سورۃ آل عمران/103)  (اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے)۔

  * - اللہ رب العزت   اہل ایمان اور عمل صالح  کرنے والوں کے درمیان محبت پیدا کردیتاہے ، ارشاد فرماتاہے :( إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا ) (سورۃ مریم/96)  (بے شک جو ایمان لائے ہیں اورجنہوں نے نیک اعمال کئے ہیں ان کے لئے رحمن محبت پیدا کردےگا)۔ مفسرین اس کی تفسیر کرتےہوئے لکھتےہیں کہ " اللہ ان سے محبت کرتاہے اور اپنے مؤمن بندوں کے نزدیک  ان کو محبوب بنا دیتاہے)۔ (دیکھئے : معالم التنزیل للبغوی:5/257)۔

* - محبت بندے کو دنیا میں مقبول بنادیتی ہے : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:" إنَّ اللَّهَ إذا أحَبَّ عَبْدًا دَعا جِبْرِيلَ فقالَإنِّي أُحِبُّ فُلانًا فأحِبَّهُ، قالَفيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، ثُمَّ يُنادِي في السَّماءِ فيَقولُإنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلانًا فأحِبُّوهُ، فيُحِبُّهُ أهْلُ السَّماءِ، قالَ ثُمَّ يُوضَعُ له القَبُولُ ۔۔۔۔ "۔ " جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ :( اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے۔ تم بھی اس سے محبت رکھو) ، چنانچہ جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں۔ پھر جبرائیل علیہ السلام تمام اہل آسمان کو آوازلگاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت رکھتا ہے۔ اس لیے تم سب لوگ اس سے محبت رکھو، چنانچہ تمام آسمان والے اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد روئے زمین  میں اس کی مقبولیت نازل کردی جاتی ہے ۔۔۔۔" (صحیح بخاری/3209 ،صحیح مسلم/2637)۔

* - محبت ایمان کی تکمیل ہے  : ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" مَن أحبَّ للَّهِ وأبغضَ للَّهِ ، وأعطى للَّهِ ومنعَ للَّهِ فقدِ استَكْملَ الإيمانَ " " جس نے (اہل ایمان سے) اللہ  کی رضاکے لئے محبت کیا اور (اہل معصیت سے) اللہ  کی رضاکے لئے نفرت کیا، اور اللہ  کی رضاکے لئے خرچ کیا اور کسی کو اللہ  کی رضاکےلئے منع کر دیاتو اس نے (اپنا)  ایمان مکمل کرلیا"( سنن ابی داود/4681، الطبرانی /7613 ، شیخ البانی نے اسے صحیح قراردیاہے، دیکھئے : سلسلہ صحیحہ /380)۔

* - محبت ایمان کی مٹھاس ہے  : ایمان کی مٹھاس  پانے والے لوگوں میں سے  وہ آدمی بھی ہے جو اللہ کی رضاکے لئے کسی سے محبت کرتاہے  ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" ثلاثٌ من كن فيه وجد حلاوة الإيمان أن يكون الله ورسوله أحب إليه مما سواهما، وأن يحب المرء لا يحبه إلا لله، وأن يكره أن يعود في الكفر كما يكره أن يقذف في النار"۔ "تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔" ( صحیح بخاری/16، صحیح مسلم/174)۔

* - محبت کرنے والا قابل رشک ہوتاہے: قیامت کے دن اللہ کے لئے دو محبت کرنے والوں پر رشک کیاجائےگا ، معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"اللہ تعالی فرماتاہے:المتحابُّون في جلالي لهم منابرُ مِن نور يغبطُهم النبيون والشهداء" میری عظمت و بزرگی کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن نور کے ایسے منبر ہوں گے جن پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں گے"۔(سنن الترمذی /2390، علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔

* -  لوگوں سے محبت کرنے والا اللہ کا محبوب ہوتاہے : اللہ کی محبت بھی اللہ کے لئے محبت کرنے والوں کو ملتی ہے ، معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" اللہ تعالی فرماتاہے : (وجَبَتْ مَحَبَّتِي للمُتَحابِّينَ فِيَّ ۔۔۔۔۔) " "میری رضاکے لئے آپس میں محبت کرنے والوں کے لئے میری محبت واجب ہوگئی"۔ ( مسند احمد/22030، مؤطا الامام مالک :2/953، علامہ البانی نے صحیح الترغیب /2581 کے اندر اس کی تصحیح کی ہے)۔

محبت کرنے والے کو قیامت کے دن عرش کا سایہ نصیب ہوگا : اللہ کے لئے محبت کرنے والوں کو قیامت کے دن عرش کا سایہ نصیب ہوگا  ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" إنَّ اللَّهَ يقولُ يَومَ القِيامَةِ: أيْنَ المُتَحابُّونَ بجَلالِي، اليومَ أُظِلُّهُمْ في ظِلِّي يَومَ لا ظِلَّ إلَّا ظِلِّي"" اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: کہاں ہیں وہ لوگ جو میری بزرگی اور اطاعت کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے آج کے دن کہ میں ان کو اپنے سایہ میں رکھوں گا۔ اور آج کے دن کوئی سایہ نہیں ہے سوائے میرے سایہ کے۔" (صحیح مسلم /2566)۔ اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ان سات لوگوں کا ذکرہے جن کو  سایہ نصیب ہوگا ،ان میں سے  اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرنے والےبھی ہوں گے ۔(صحیح بخاری/660، صحیح مسلم/1031)۔

محبت کے شرعی وسائل :

آپسی محبت کے لئے شریعت نے کچھ ایسے اعمال ووسائل کی طرف رہنمائی کی ہے جنہیں اپنا کر آدمی کسی کی محبت  پاسکتاہے ، جن میں سے چند کا ذکر مناسب ہے :

* - سلام کو عام کرنا :  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" لا تدخلون الجنَّة حتَّى تؤمنوا، ولا تؤمنوا حتَّى تحابُّوا، أولا أدلُّكم على شيء إذا فعلتموه تحاببتم؟ أفشوا السَّلام بينكم"(جنت میں ا س وقت تک  نہیں جاؤگے جب تک  ایمان نہ لے آؤگے، اور ایماندار نہ بنو گے۔ جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ رکھو گے، اور میں تم کو وہ چیز نہ بتلا دوں جب تم اس کو کرو گےتو آپس میں محبت کرنے لگوگے؟ ، سلام کو آپس میں رائج کرو۔) (صحیح مسلم/54)۔

* -    ہدیہ :  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" تَهادَوا تحابُّوا" (ایک دوسرے کو ہدیہ دو  آپس میں محبت بڑھےگی "۔(الادب المفرد للامام البخاری/594 ، مسند ابو یعلی /6148، علامہ البانی نے صحیح الجامع/3004 کے اندراسے حسن کہاہے)۔

* - جس سے محبت کرتاہے اسے بتادے : انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہواتھاکہ ایک آدمی کا  (وہاں سے ) گذرہوا ،تو بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کسی نے کہا : اے اللہ کے رسول میں  اس آدمی سے محبت کرتاہوں ، تو اللہ کےرسول نے پوچھا :" کیا  تم نے اسے (اس کے بارے میں ")  بتایاہے  ؟" تو اس نے کہا نہیں ۔ تو آپ نے فرمایا :" جاؤ اور اس کو بتادو"۔(صحیح ابن حبان /571، علامہ البانی نے سلسلہ صحیحہ کے اندر اسے صحیح کہاہے)۔

* - اسی طرح  کسی کے ساتھ احسان ،  بہترین اخلاق  کے ساتھ پیش آنا ، مشکلوں میں مدد، اللہ کے لئے نصیحت ، مریض کی عیادت ، کسی کی موت پر تعزیت ،کسی بھی سماجی کام میں  خلوص سے شرکت وغیرہ وغیرہ یہ سب محبت کے عام ہونے کے وسائل میں سے ہیں ۔

 اللہ رب العزت ہمارے دلوں میں  اپنی اور اپنے رسول اور نیک لوگوں کی  محبت پیدا کردے اسی طرح اعمال صالحہ کے لئے الفت اور ان کی  توفیق عنایت فرمائے ۔ صلى الله على خير خلقه وسلم۔  (اللهم آمين)

                             *******