منگل، 19 اکتوبر، 2021

 






بسم اللہ الرحمن الرحیم

           إن الحمد لله،نحمده ونستعينه،ونستغفره ونستهديه ونتوب إليه،ونعوذ بالله من شرورأنفسنا وسيئات أعمالنا،من يهده الله فلا مضل به،ومن يضلل فلاهادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له،وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله وصفيه وخليله - صلى الله عليه وسلم - ، وعلى آله وصحابته أجمعين،وبعد :

          جاہلیت کے جن عادات سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایاہے اور اپنی امت کو ان سے ڈرایاہے ان میں سےایک تعویذاور گنڈےلٹکاناہے ، جن کے متعلق کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ بری نظرسے بچاتے ہیں اور نقصان اورتکلیف کو دورکرتے ہیں ،جیسے تانت اور مالا وغیرہ ،جنہیں  حسداور بدنظری سے بچنے کےغرض سے بچوں اورجانوروں کو پہنایاجاتاہے ، جوکہ شرک باللہ کےقبیل سے ہے، جس سے اللہ تعالی سخت ناراض ہوتاہے اور اس نے اسے جنت سے محرومی کا سبب قراردیاہے، فرماتاہے: (إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ ) (المائدہ /72) (یقین مانوکہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتاہے اللہ تعالی نے اس پرجنت حرام کردی ہے ، اوراس کا ٹھکانہ جہنم ہے ، اورظالموں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا)۔

اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:(إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْضَلَّ ضَلَالًابَعِيدًا) (النساء /116) ۔ (بےشک اللہ تعالی شرک کو معاف نہیں کرےگا ، اور شرک کے علاوہ جو گناہ ہیں جن کے لئے چاہے معاف فرمادےگا ، اور اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا بہت دورکی گمراہی میں جاپڑا)۔

امام احمد نے عقبہ بن عامرالجہنی سے روایت کیاہےکہ :  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جماعت آئی تو آپ نے نو آدمیوں سے بیعت کی اورایک سے اپناہاتھ کھینچ لیا ، آپ سے لوگوں نے کہاکہ :اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے نو لوگوں سے بیعت کی اور اس  ایک سے نہیں ؟ تو آپ نے فرمایا:" إن عليه تميمة" "یہ تعویذ پہنے ہواہے" ، تواس نے اپنا ہاتھ داخل کیا اورتعویذکو کاٹ دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیعت کی اور فرمایا: "من علق تميمة فقد أشرك" "جس نے تعویذ لٹکائی اس نے شرک کیا"(امام ہیثمی مجمع الزوائدمیں فرماتےہیں کہ امام احمدکی سندکے رجال ثقہ ہیں )۔

اورعبداللہ بن مسعود رضی اللہ  عنہ روایت کرتے ہیں  کہ : میں نے  اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو  ارشاد فرماتےہوئے سنا:"إن الرقى والتمائم والتوَلة شرك" "جھاڑپھونک ،تعویذاور منتر(جو میاں بیوی کے درمیان محبت پیداکرنے کے لئےکیاجاتاہے) شرک ہے "۔( رواه أحمد، أبو داود ( 3883 ) وابن ماجہ( 353) والحاکم ، امام حاکم نے اسے صحیح قراردیاہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے) ۔

انہیں میں سےگاڑیوں پر تعویذاوردھاگے لٹکانا بھی ہے ، گاڑیوں کے آگے،یااس کے پیچھے کو‏ئی کپڑا (یادھاگہ ، جوتا،یا لیمون مرچ وغیرہ) لٹکایاجاتاہے، اور یہ عقیدہ رکھاجاتاہےکہ یہ حسد اورڈاہ کو دورکرتاہے، اور کسی بھی طرح کے حادثہ سے محفوظ رکھتاہے۔ یہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کے اعمال وعادات میں سے ہے ، جو اپنے جانوروں پر  نظربدکے ڈرسےلٹکاتے تھے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے توڑنے کاحکم دیاہے ، ابوبشیرانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت  ہے کہ  وہ کسی سفرمیں  اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ نے ایک قاصدکو یہ حکم دے کربھیجاکہ :" لا يَبْقَيَنَّ في رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلَادَةٌ مِن وَتَرٍ، أوْ قِلَادَةٌ إلَّا قُطِعَتْ"" کسی بھی  اونٹ کی گردن میں تانت کا گنڈا ہو یا(یا یہ فرمایا)   گنڈا (ہاریا کسی بھی طرح کا پٹہ وغیرہ) ہو اسے کاٹ  دیاجائے"۔(متفق علیہ)۔ امام مالک رحمہ اللہ  فرماتےہیں : "میرےخیال سےاسےنظربدسے بچنےکےلئے لٹکایاجاتاتھا" یعنی  اسے لٹکانے سےاس لئے منع فرمایا، کیونکہ ان لوگوں کا عقیدہ تھاکہ گھوڑے کو تانت پہنانا اسے نظربداور نقصان سے بچاتاہے،  گویایہ ان کےلئے تعویذ کی طرح تھا اسی لئے انہیں (اس سے) منع فرمایا، اور انہیں بتایاکہ یہ کسی بھی ضرراورنقصان کو دور نہیں کرتا،اورنہ ہی کسی طرح کا   بچاؤکرتاہے۔

    اس سلسلے میں علماء احناف نے بھی سختی اختیارکرتے ہوئے اسے شرک قراردیاہے، امام طحاوی حنفی کہتےہیں : " یہ ہمارے نزدیک – واللہ اعلم -  اسےقبل ازمصیبت لٹکایاجاتاہے، تاکہ وہ ٹل جائے، اور یہ ایسی چیزہے جس کی استطاعت وقدرت  اللہ عزوجل کےعلاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے چنانچہ اس سے منع فرمایا کیوں کہ یہ شرک ہے"۔

امام زیلعی حنفی کہتےہیں :" تمیمہ  وہ دھاگہ ہے جسے زمانہ جاہلیت میں   ان کے اپنے اعتقادکے مطابق کہ وہ اس کے ذریعہ خود سے نقصان وضررکو دورکرتے ہیں  گردن یا  ہاتھ پر باندھا جاتاتھا ، اوریہ (اسلام میں ) ممنوع وحرام ہے "۔

خادمی حنفی کہتےہیں :" اس حدیث سےیہ استدلال کیاجاتاہےکہ  لوگوں کو اپنی اولادکو تعویذ ،دھاگے اور گنڈے  وغیرہ  جس کی مختلف قسمیں ہیں پہنانا منع ہے ،  لوگوں کا عقیدہ ہے کہ  یہ   ان کو نفع پہنچاتاہے ، یا ان کو نظربد اور شیطانی وسوسوں   سے بچاتاہے، اس کے اندر شرک کی  قسم  پائی جاتی ہے – اللہ تعالی اس سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے-  نفع اورنقصان تو اللہ کے ہاتھ میں ہے نہ کہ غیراللہ کے ہاتھ میں " ۔

تعویذلٹکانے والے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعاء فرمائی ہے ، خودلٹکائے، اولادکے اوپرلٹکائے خواہ اپنے جانورپریا اپنی گاڑی میں لٹکائے ، امام احمد ،ابویعلی ، اورطبرانی نے عقبہ بن عامرالجہنی سے روایت کیاہے ، وہ کہتے ہیں کہ :میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : " من علق تميمة فلا أتم الله له، ومن علق ودعة فلا ودع الله له"" جس نے گلے میں تعویذلٹکائی  اللہ تعالی اس کی حاجت پوری نہ کرے، اور جس نے کوڑی یا گھونگھا لٹکائی اللہ تعالی اس کو آرام (شفا) نہ دے" ۔(امام حاکم نے اس روایت کو صحیح کہاہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرماناکہ:" اللہ تعالی اس کی حاجت پوری نہ کرے" اس پر بددعاء ہے کہ اللہ تعالی  اس کی  جو ضرورت یعنی    حرام ذریعہ سے  پریشانی کو دورکرناہے اسے پوری نہ کرے ۔ کئی بار ان لوگوں کے ساتھ سخت اورجان لیوا حادثے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی گاڑیوں میں اس طرح کے دھاگے لٹکارکھے تھے ، لیکن اس سے ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ، اور انہیں اللہ کے اس فرمان کا معنی بخوبی پتا چل گیا :(وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ) (یونس /107) ( اور اگر اللہ تعالی تمہیں کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تواس کے سوا اسے کوئی دور نہیں کرسکتا، اور اگر وہ تم کوکوئی خیرپہنچانا چاہے تواس کے فضل کا ہٹانے والا کوئی نہیں ہے ، وہ اپنا فضل بندوں میں سے جس پرچاہے نچھاور کردے اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والاہے)۔

  اور امام احمد امام ترمذی اور امام طبرانی نے عبداللہ بن عکیم الجہنی  رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:" مَن تعلق شيئاً وُكِلَ إليه "" جس نے کوئی چیزلٹکائی اسے اس چیزکے حوالے کردیاجاتاہے"۔(امام حاکم نے اس روایت کو صحیح کہاہے)۔

  انسان کی ذلت ورسوائی کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی اس کی حفاظت سے بری ہوجائے اور اسے کسی کمزوراورعاجزوناتواں مخلوق کے حوالے کردے ، جونہ اپنےخودکے نفع ونقصان کا مالک ہے اور نہ ہی کسی اورکے، اس لئے ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو شرکیہ اعمال سے بچنے اوراللہ وحدہ لاشریک لہ  کی ذات پرمکمل توکل وبھروسہ کرنے کی وصیت کرتے ہیں ، کہ وہی ہمارےلئے کافی ہےاوروہ بہت اچھا کارسازہے۔

اللہ رب العزت سے ہم دعاء کرتے ہیں کہ : اے اللہ ہم تجھ سے نیکیاں  کرنے اورگناہ چھوڑنے کی توفیق کے طلبگارہیں۔  وصلى الله وسلم على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين  ۔ آمین۔

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

 

                       عبد العزيز بن عبد الله بن محمد آل الشيخ / الرئيس                         أحمد بن علي المباركي/ عضو

                       صالح بن فوزان الفوزان/ عضو                                                               عبد الله بن غديان/ عضو

                        محمد بن حسن آل الشيخ/ عضو                                                                سعد بن ناصر الشثري/ عضو

              عبد الله بن محمد بن خنين/ عضو                                                            عبد الله بن محمد المطلق / عضو

g

اردوترجمہ

عبدالعلیم بن عبدالحفیظ /مترجم:  اسلامی دعوت وارشاد سینٹر یدمہ نجران سعودی عرب)

 

جشن عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کےتعلق سے علامہ ابن العثیمین کا فتوی

                                                               

                                                             


                                                                     بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال : علامہ محمدبن صالح العثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیاگیاکہ : جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیاحکم ہے ؟

جواب : اولا  : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی رات کا قطعی علم مفقودہے ،بلکہ بعض اہل عصر کی تحقیق کے مطابق آپ کی  تاریخ ولادت نو ربیع الاول  ہے نہ کہ بارہ ربیع الاول ، لہذا تاریخی ناحیے سے  بارہ ربیع الاول کو مجلسیں لگانے کی کوئی اصل وحقیقت نہیں بنتی ۔

ثانیا : شرعی اعتبار سےجشن  میلاد النبی منانے کی کوئی اصل نہیں ہے ، کیونکہ اگر یہ  اللہ کی جانب سے مشروع ہوتاتو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسےضرورکیا ہوتا یا اپنی امت کو اس کےبارے میں بتایاہوتا ، اور اگر آپ نے کیا ہوتایابتایا ہوتا تو ضرور محفوظ ہوتا ،کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ) (الحجر/9) (ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیاہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ) ۔

چنانچہ جب  اس بارے میں کوئی چیز ثابت ہی نہیں ہے تو اس سے  بخوبی پتاچلاکہ یہ  اللہ کے دین کا حصہ نہیں ہے ، اور جب یہ دین نہیں ہے تو ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم اس طریقہ سے  اللہ کی عبادت کریں او راس کے ذریعہ اس کا تقرب حاصل کریں ، چنانچہ جب اللہ تعالی نے  خود تک پہنچنے کے لئے ایک متعین طریقہ بیان کردیاہے   - اور وہ  یہ ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیان کیاہو - تو ہمارے لئے –جب کہ ہم عام بندے ہیں -  کیسے جائز ہوسکتاہے کہ خودسے کوئی طریقہ بنالیں جو ہمیں اللہ تک پہونچائے ؟  یہ تو اللہ رب العز ت کے حق میں جرم کا ارتکاب ہوا کہ ہم اس کے دین وشریعت کے اندر ایسی چیز شریعت  بناکرپیش کریں جو  شریعت کا حصہ ہے ہی نہیں ۔  

     اسی طرح یہ عمل اللہ رب العزت کے فرمان :(اليومَ أكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وأَتْمَمْتُ علَيْكُم نِعْمَتي) (المائدۃ/39 (آج ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیاہے ، اور تم پر اپنی نعمت کاا تمام کردیاہے) کوجھٹلانا بھی ہوا۔ چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ اس طرح کی عیدمنانا  اگردین کے کمال کا حصہ ہوتاتواسے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل  موجود ہونا چاہئے تھا ، اوراگر کمال دین میں سے نہیں ہے تو اس کا دین ہونا ممکن نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا ارشادہے ، (اليوم أكملت لكم دينكم ) (کہ آج میں نے تمہارےلئےتمہارےدین کو مکمل کردیاہے) ۔  اور جو یہ سمجھتاہے کہ یہ کمال دین میں سے ہےجبکہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدوجودمیں آیاہےتو اس کا کہنا اس آیت کریمہ کو جھٹلاناہوا ۔

 اور بلاشبہ جو لوگ عیدمیلادالنبی  صلی اللہ علیہ وسلم مناتے ہیں اس سے ان کا مقصد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ، آپ سے محبت کا اظہار اور اس محفل میلاد میں  (اللہ کے رسول صلی  اللہ علیہ وسلم کے تئیں  پیداہونے والے)اپنے جذبات کودوبالاکرنا  ہوتاہے، اور یہ سب چیزیں عبادت کی قبیل سےہیں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت عبادت ہے، جس کے بغیرایمان پورانہیں ہوتا،یہاں تک کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آدمی کے نزدیک خوداس سے، اس کی اولادسے، والد سے اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں۔ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم بھی عبادتوں میں سے ہے، اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں اپنے جذبات کوابھارنا اور اس کا پرجوش اظہاربھی دین ہے کیونکہ اس کے اندر آپ کی لائی ہوئی شریعت کی طرف رجحان  اورجھکنا ہے ۔

       چنانچہ  اللہ کے تقرب اور اس کے رسول کی تعظیم  کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا جشن منانا عبادت ہے ، اوراگر یہ عبادت ہے تو کسی صورت جائز نہیں کہ اللہ کے دین میں ایسی چیز ایجادکی جائے جو اس کا حصہ نہیں ہے ، لہذا جشن میلاد بدعت اور حرام ہے ، پھر ہم نے  یہ بھی سناہے کہ اس جشن میں بڑے بڑے منکر اورغیرمناسب  اعمال انجام دئے جاتے ہیں جنہیں نہ تو شریعت   ہی قبول کرسکتی ہے اورنہ ہی عقل وخرد ، جشن منانے والے ایسے کلام اورقصیدے پڑھتے ہیں جن کے اندر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں غلو بھراہوتاہےیہاں تک کہ – اللہ کی پناہ – آپ کو اللہ رب العزت سے بھی بڑابنادیاجاتاہے ، اسی طرح  کچھ بے وقوفوں اور کم عقلوں کی حماقت   کے بارے میں بھی میں نے سناہے کہ جب   ولادت کا واقعہ بیان کرتاہے اور "ولدالمصطفی" پرپہنچتاہے تو سارے لوگ ایک ساتھ  یہ کہتے ہوئے کھڑے ہوجاتے ہیں  کہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک تشریف لائی ہے  توہم  ان کی تعظیم وتوقیرکے لئے کھڑے ہوتےہیں ۔ یہ سفاہت وحقاقت ہے ، پھر یہ بھی واضح رہے کہ کھڑاہونا ادب نہیں ہے ،کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے قیام کو ناپسند فرماتےتھے ، آپ کے اصحاب لوگوں میں سب سے زیادہ آپ سے محبت کرنے والے تھے  اور ہم سےزیادہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعظیم کرنے والے تھے،  اوروہ لوگ آپ کے لئے کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ جانتے تھے کہ آپ کو یہ  پسندنہیں  ، جب کہ آپ زندہ تھے ، توپھر اس قسم کے خیالی  (اور من گھڑت )عقیدہ  کی بنیاد پر کیسے اس طرح کا عمل انجام دیاجاسکتاہے ؟!

 اور یہ بدعت(بدعت جشن میلاد) تین بہترین صدیاں گزرنے کے بعد ایجاد کی گئی ، اور اس کے اندر اس طرح کی منکراورناپسندیدہ اعمال ملائےگئےجواصل دین کے منافی ، اور شریعت کی خلاف ورزی ہیں۔ اس پرمستزادیہ کہ ان محفلوں میں مردو وعورت کے درمیان اختلاط پایاجاتاہے اوراس کے علاوہ بھی بہت سارے منکرات ہیں ۔

*******


سوال : علامہ ابن العثیمین رحمہ اللہ  سے ایک مجلس میں سوال کیاگیا : فضیلۃ الشیخ ! آپ نے اللہ تعالی کے فرمان : ﴿لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ﴾ (الفرقان:72)  کی تفسیرمیں بہتان سے متعلق حدیث ذکرکی ہے ، تو کیا جشن میلاد میں شامل ہونا بھی بہتان کے قبیل سے ہے؟

جواب : میلادنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت سے محفلیں سجانا اور جشن مناناسلف صالحین سے معروف نہیں ہے ، نہ خلفاء راشدین نے اسےکیا ہے، نہ صحابہ کرام نے ، نہ تابعین نے ، اور نہ ہی ان کے بعدائمۃ المسلمین نے۔

یہاں پرہمارا ایک سوال ہے : کیا ہم ان حضرات سے زیادہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم کرنےوالے ہیں ؟ ہرگزنہیں ۔۔۔۔ کیاہم ان سے زیادہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں ؟ نہیں ہرگزنہیں۔۔ اگر معاملہ ایساہی ہے توہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان کے مطابق چلیں اور جشن میلادنبی منانے سے پرہیز کریں ، کیونکہ یہ بدعت ہے ۔

اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہاں منایا ہے؟ اپنی ولادت کا جشن آپ نے کیوں نہیں منائی ؟ خلفاء راشدین کہاں گئے؟ صحابہ کہاں گئے ؟(ان لوگوں نے کیوں نہیں منائی ؟) ،کیاوہ لوگ  اس سے بےخبرتھے یا اس سلسلے میں جو حق تھا اسے چھپاگئے  ، یا اس سے بےاعتنائی برتتے ہوئے اسے چھوڑگئے؟ ان میں سے کچھ بھی نہیں تھا۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سارے لوگ جو اس طرح کی مجلس میلاد قائم کرتے ہیں  ان کی نیت صحیح ہوتی ہے ، یا تو اللہ کے رسول کی محبت میں یا پھر عیسایوں کے مقابلے میں جو عیسی علیہ السلام  کی پیدائش کا جشن مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم زیادہ حق پرہیں ۔ لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے ، کیونکہ انسان جتنی زیادہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرےگا اتنی ہی زیادہ بدعتوں سے دور رہےگا ،کیونکہ جب وہ اس  طرح کا عمل کرناشروع   کرتاہے اور کہتاہے کہ : میں اس کے ذریعہ اللہ تعالی کی قربت حاصل کرناچاہتاہوں تو ہم اس سے کہیں گےکہ : تم نے اللہ کے دین میں  ایسی چیز داخل کردی ہے جواس میں  پہلے نہیں تھی ، اور اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے ۔اور اگر وہ کہتاہے : یہ ہمارے نزدیک ایک رسم ہے  تو ہم کہیں گے : کہ عیدیں رسم وعادت کی بنیاد پر قائم کی جاتی ہیں یا شریعت کی بنیاد پر؟  !  بلاشبہ شریعت کی بنیادپر ؛ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  جب مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگوں کو اپنی نصرت وفتح کی یاد میں  دوعیدیں (جشن ) مناتے ہوئے دیکھا تو آپ نے ان کو اس سے منع فرمادیا اور فرمایا:" إن الله أبدلكم بخيرٍ منهما: عيد الأضحى وعيد الفطر" (أخرجه أبو داود (1134)، والنسائي (1556)، وأحمد (12006) باختلاف يسير )" اللہ تعالی نے تمہیں  ان دونوں کےبدلے ان  سے اچھی عیدیں  دیاہے اور وہ : عید الاضحی اور عیدالفطرہیں " ، تو پھر تم کوئی عیدکیسے مناسکتےہو؟! ۔

اگر وہ کہتے ہیں کہ : ہم لوگ یہ عید اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرکے احیاء کے لئے مناتےہیں تو وہ جان لیں کہ:

اولا: یہ بات درست ہی نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بارہ ربیع الاول کوہوئی ہے ۔

ثانیا : اگر یہ ثابت بھی ہوجائے تو اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کاذکر ہردن باربار ہوتاہے ، کیامسلمان ہر دن  اذان میں  یہ نہیں کہتےہیں :" أشهد أن محمداً رسول الله" ؟ ضرورکہتےہیں ،بلکہ آدمی ہر نمازمیں تشہدپڑھتاہے، اورکہتاہے:" السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمداً عبده ورسوله" ۔

*******

 

(آپ کی ) یاد تو مؤمن کے دل میں ہمیشہ رہتی ہے ، کسی متعین دن کے ساتھ خاص نہیں ہے۔  اس  کے باوجودکہ بہت سارے لوگ اس حقیقت سےجاہل ہیں اوربدعت کی خطرناکی سے ناواقف  اور اس پرقائم ہیں مجھے –الحمدللہ- پوری امید ہے کہ آج کل بہت سارے  لوگ خاص طورسے ان  میں سے نوجوان طبقہ  اس بات سے واقف ہوچکاہے کہ یہ بلااصل بدعت ہے جس کی