منگل، 19 اکتوبر، 2021

 






بسم اللہ الرحمن الرحیم

           إن الحمد لله،نحمده ونستعينه،ونستغفره ونستهديه ونتوب إليه،ونعوذ بالله من شرورأنفسنا وسيئات أعمالنا،من يهده الله فلا مضل به،ومن يضلل فلاهادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له،وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله وصفيه وخليله - صلى الله عليه وسلم - ، وعلى آله وصحابته أجمعين،وبعد :

          جاہلیت کے جن عادات سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایاہے اور اپنی امت کو ان سے ڈرایاہے ان میں سےایک تعویذاور گنڈےلٹکاناہے ، جن کے متعلق کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ بری نظرسے بچاتے ہیں اور نقصان اورتکلیف کو دورکرتے ہیں ،جیسے تانت اور مالا وغیرہ ،جنہیں  حسداور بدنظری سے بچنے کےغرض سے بچوں اورجانوروں کو پہنایاجاتاہے ، جوکہ شرک باللہ کےقبیل سے ہے، جس سے اللہ تعالی سخت ناراض ہوتاہے اور اس نے اسے جنت سے محرومی کا سبب قراردیاہے، فرماتاہے: (إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ ) (المائدہ /72) (یقین مانوکہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتاہے اللہ تعالی نے اس پرجنت حرام کردی ہے ، اوراس کا ٹھکانہ جہنم ہے ، اورظالموں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا)۔

اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:(إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْضَلَّ ضَلَالًابَعِيدًا) (النساء /116) ۔ (بےشک اللہ تعالی شرک کو معاف نہیں کرےگا ، اور شرک کے علاوہ جو گناہ ہیں جن کے لئے چاہے معاف فرمادےگا ، اور اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا بہت دورکی گمراہی میں جاپڑا)۔

امام احمد نے عقبہ بن عامرالجہنی سے روایت کیاہےکہ :  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جماعت آئی تو آپ نے نو آدمیوں سے بیعت کی اورایک سے اپناہاتھ کھینچ لیا ، آپ سے لوگوں نے کہاکہ :اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے نو لوگوں سے بیعت کی اور اس  ایک سے نہیں ؟ تو آپ نے فرمایا:" إن عليه تميمة" "یہ تعویذ پہنے ہواہے" ، تواس نے اپنا ہاتھ داخل کیا اورتعویذکو کاٹ دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیعت کی اور فرمایا: "من علق تميمة فقد أشرك" "جس نے تعویذ لٹکائی اس نے شرک کیا"(امام ہیثمی مجمع الزوائدمیں فرماتےہیں کہ امام احمدکی سندکے رجال ثقہ ہیں )۔

اورعبداللہ بن مسعود رضی اللہ  عنہ روایت کرتے ہیں  کہ : میں نے  اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو  ارشاد فرماتےہوئے سنا:"إن الرقى والتمائم والتوَلة شرك" "جھاڑپھونک ،تعویذاور منتر(جو میاں بیوی کے درمیان محبت پیداکرنے کے لئےکیاجاتاہے) شرک ہے "۔( رواه أحمد، أبو داود ( 3883 ) وابن ماجہ( 353) والحاکم ، امام حاکم نے اسے صحیح قراردیاہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے) ۔

انہیں میں سےگاڑیوں پر تعویذاوردھاگے لٹکانا بھی ہے ، گاڑیوں کے آگے،یااس کے پیچھے کو‏ئی کپڑا (یادھاگہ ، جوتا،یا لیمون مرچ وغیرہ) لٹکایاجاتاہے، اور یہ عقیدہ رکھاجاتاہےکہ یہ حسد اورڈاہ کو دورکرتاہے، اور کسی بھی طرح کے حادثہ سے محفوظ رکھتاہے۔ یہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کے اعمال وعادات میں سے ہے ، جو اپنے جانوروں پر  نظربدکے ڈرسےلٹکاتے تھے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے توڑنے کاحکم دیاہے ، ابوبشیرانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت  ہے کہ  وہ کسی سفرمیں  اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ نے ایک قاصدکو یہ حکم دے کربھیجاکہ :" لا يَبْقَيَنَّ في رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلَادَةٌ مِن وَتَرٍ، أوْ قِلَادَةٌ إلَّا قُطِعَتْ"" کسی بھی  اونٹ کی گردن میں تانت کا گنڈا ہو یا(یا یہ فرمایا)   گنڈا (ہاریا کسی بھی طرح کا پٹہ وغیرہ) ہو اسے کاٹ  دیاجائے"۔(متفق علیہ)۔ امام مالک رحمہ اللہ  فرماتےہیں : "میرےخیال سےاسےنظربدسے بچنےکےلئے لٹکایاجاتاتھا" یعنی  اسے لٹکانے سےاس لئے منع فرمایا، کیونکہ ان لوگوں کا عقیدہ تھاکہ گھوڑے کو تانت پہنانا اسے نظربداور نقصان سے بچاتاہے،  گویایہ ان کےلئے تعویذ کی طرح تھا اسی لئے انہیں (اس سے) منع فرمایا، اور انہیں بتایاکہ یہ کسی بھی ضرراورنقصان کو دور نہیں کرتا،اورنہ ہی کسی طرح کا   بچاؤکرتاہے۔

    اس سلسلے میں علماء احناف نے بھی سختی اختیارکرتے ہوئے اسے شرک قراردیاہے، امام طحاوی حنفی کہتےہیں : " یہ ہمارے نزدیک – واللہ اعلم -  اسےقبل ازمصیبت لٹکایاجاتاہے، تاکہ وہ ٹل جائے، اور یہ ایسی چیزہے جس کی استطاعت وقدرت  اللہ عزوجل کےعلاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے چنانچہ اس سے منع فرمایا کیوں کہ یہ شرک ہے"۔

امام زیلعی حنفی کہتےہیں :" تمیمہ  وہ دھاگہ ہے جسے زمانہ جاہلیت میں   ان کے اپنے اعتقادکے مطابق کہ وہ اس کے ذریعہ خود سے نقصان وضررکو دورکرتے ہیں  گردن یا  ہاتھ پر باندھا جاتاتھا ، اوریہ (اسلام میں ) ممنوع وحرام ہے "۔

خادمی حنفی کہتےہیں :" اس حدیث سےیہ استدلال کیاجاتاہےکہ  لوگوں کو اپنی اولادکو تعویذ ،دھاگے اور گنڈے  وغیرہ  جس کی مختلف قسمیں ہیں پہنانا منع ہے ،  لوگوں کا عقیدہ ہے کہ  یہ   ان کو نفع پہنچاتاہے ، یا ان کو نظربد اور شیطانی وسوسوں   سے بچاتاہے، اس کے اندر شرک کی  قسم  پائی جاتی ہے – اللہ تعالی اس سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے-  نفع اورنقصان تو اللہ کے ہاتھ میں ہے نہ کہ غیراللہ کے ہاتھ میں " ۔

تعویذلٹکانے والے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعاء فرمائی ہے ، خودلٹکائے، اولادکے اوپرلٹکائے خواہ اپنے جانورپریا اپنی گاڑی میں لٹکائے ، امام احمد ،ابویعلی ، اورطبرانی نے عقبہ بن عامرالجہنی سے روایت کیاہے ، وہ کہتے ہیں کہ :میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : " من علق تميمة فلا أتم الله له، ومن علق ودعة فلا ودع الله له"" جس نے گلے میں تعویذلٹکائی  اللہ تعالی اس کی حاجت پوری نہ کرے، اور جس نے کوڑی یا گھونگھا لٹکائی اللہ تعالی اس کو آرام (شفا) نہ دے" ۔(امام حاکم نے اس روایت کو صحیح کہاہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرماناکہ:" اللہ تعالی اس کی حاجت پوری نہ کرے" اس پر بددعاء ہے کہ اللہ تعالی  اس کی  جو ضرورت یعنی    حرام ذریعہ سے  پریشانی کو دورکرناہے اسے پوری نہ کرے ۔ کئی بار ان لوگوں کے ساتھ سخت اورجان لیوا حادثے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی گاڑیوں میں اس طرح کے دھاگے لٹکارکھے تھے ، لیکن اس سے ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ، اور انہیں اللہ کے اس فرمان کا معنی بخوبی پتا چل گیا :(وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ) (یونس /107) ( اور اگر اللہ تعالی تمہیں کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تواس کے سوا اسے کوئی دور نہیں کرسکتا، اور اگر وہ تم کوکوئی خیرپہنچانا چاہے تواس کے فضل کا ہٹانے والا کوئی نہیں ہے ، وہ اپنا فضل بندوں میں سے جس پرچاہے نچھاور کردے اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والاہے)۔

  اور امام احمد امام ترمذی اور امام طبرانی نے عبداللہ بن عکیم الجہنی  رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:" مَن تعلق شيئاً وُكِلَ إليه "" جس نے کوئی چیزلٹکائی اسے اس چیزکے حوالے کردیاجاتاہے"۔(امام حاکم نے اس روایت کو صحیح کہاہے)۔

  انسان کی ذلت ورسوائی کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی اس کی حفاظت سے بری ہوجائے اور اسے کسی کمزوراورعاجزوناتواں مخلوق کے حوالے کردے ، جونہ اپنےخودکے نفع ونقصان کا مالک ہے اور نہ ہی کسی اورکے، اس لئے ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو شرکیہ اعمال سے بچنے اوراللہ وحدہ لاشریک لہ  کی ذات پرمکمل توکل وبھروسہ کرنے کی وصیت کرتے ہیں ، کہ وہی ہمارےلئے کافی ہےاوروہ بہت اچھا کارسازہے۔

اللہ رب العزت سے ہم دعاء کرتے ہیں کہ : اے اللہ ہم تجھ سے نیکیاں  کرنے اورگناہ چھوڑنے کی توفیق کے طلبگارہیں۔  وصلى الله وسلم على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين  ۔ آمین۔

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

 

                       عبد العزيز بن عبد الله بن محمد آل الشيخ / الرئيس                         أحمد بن علي المباركي/ عضو

                       صالح بن فوزان الفوزان/ عضو                                                               عبد الله بن غديان/ عضو

                        محمد بن حسن آل الشيخ/ عضو                                                                سعد بن ناصر الشثري/ عضو

              عبد الله بن محمد بن خنين/ عضو                                                            عبد الله بن محمد المطلق / عضو

g

اردوترجمہ

عبدالعلیم بن عبدالحفیظ /مترجم:  اسلامی دعوت وارشاد سینٹر یدمہ نجران سعودی عرب)

 

کوئی تبصرے نہیں: