بدھ، 10 مئی، 2023

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے (بڑی بہن کی وفات پرایک بھائی کے جذبات)

 ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

  (بڑی بہن کی وفات پرایک بھائی کے جذبات)

                        (عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی)

        --------------------------------------------------------

    قد كنت ُ أحسب ُ أني للفراق ِفتى    

صلدا ً صبورا ً تعيب ُ الدمعَ أحداقي

  لكن وَجْدي , ودمع ُ العين ِ كذّبني   

 إذ  صار يُرسل ُ سيلَ الحُبِ رقراق 

(میں تو سمجھتا تھاکہ میں (اپنی بہن کی )  جدائی کے وقت بڑا سخت جان،  صبر والاہوں گا ،آنسومیری پلکوں سے نالاں  ہوگا (کہ تو بہتی کیوں نہیں ؟)۔ لیکن جب  محبت کے سیلاب اور روانی  نے آسوؤں کی جھڑی لگادی تو میری بےخودی و غم اور آنکھوں سے بہتےآنسوؤں نے مجھےجھوٹا ثابت کردیا) ۔

حواس مجتمع نہیں ہیں ،فرط غم نے بار بار آنکھوں  میں آنے والے آسوؤں کو  ضبط کرنا بہت ہی مشکل  کر رکھاہے ، شاید زندگی میں  پہلی بار آنسوؤں پر کنٹرول کرنے سے قاصر ہوں ، کئی گھنٹے گزرجانے کے بعد بھی  ،خود کے غم سے دورنہیں ہوپارہا، تلاوت   قرآن کے لئےبیٹھا تو  درمیان میں  بار بار آنکھوں میں آنسو آجا رہے ہیں، تراویح  میں بھی  وہی کیفیت رہی ہے  ،کئی گھنٹے تک اپنوں سے اس سلسلے میں بات کرنے  کی  ہمت نہیں جٹا پایامبادہ دل کا دردنگاہوں  سےنہ چھلک پڑے ۔کسی اپنے کی  موت ہی اتنی تکلیف دہ ہوتی ہے اور وہ بھی جب اپنا خون ہو ، اس یقین کے بعد بھی کہ موت ایک حقیقت اور صبر آزما ہے   جو  بڑا سخت ہوتاہے :

الموت كأس وكل الناس شاربه        

والقبر باب وكل الناس داخله

(موت ایک ایسا جام ہے جسے ہر آدمی کو پیناہے  اور قبر ایک ایسا دروازہ ہے جس میں ہرشخص کو داخل ہونا ہے)۔

میر ی سب سے بڑی بہن  (عزیزم خالدہشم اللہ تیمی  سلمہ اللہ کی والدہ )  کی پہلے ہارٹ اٹیک او رپھر چند ہی گھنٹوں میں وفات  پورے خاندان  اوراحباب واصدقاء کے دل ودماغ  کو جھنجھوڑگئی ۔(اللهم اغفر لها, وارحمها، وعافها, واعفُ عنها, وأكرم نُزُلَها, ووسِّع مُدْخَلَها, واغسلها بالماء والثَّلج والبَرَد, ونَقِّها من الخطايا كما يُنَقَّى الثوبُ الأبيضُ من الدَّنَس, وأبدلها دارًا خيرًا من دارها, وأهلًا خيرًا من أهلها, وأدخلها الجنة, وقِهِا فتنةَ القبروعذابَ النار).

میرے لئےاس تکلیف کو برداشت کرنا شاید اس لئے مشکل ہورہاہےکہ آٹھ بھائی بہنوں میں یہ کسی پہلے   فردکی  وفات ہے،اور یہ احساس بھی کہ ہم میں ایک فردکم ہوگیاجس سے اب کبھی  ملاقات اور بات نہیں ہوگی  ۔ اور یہ ایک ایسا احساس ہے جس سے ہر فردکو سامنا کرنا پڑتاہے۔(رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا) ۔

میری بہن کی شادی اس وقت ہوئی تھی جب میں بہت چھوٹا تھا غالبا پانچ یا چھ سال کا رہاہوں گا ، انہوں نے اپنی پوری زندگی جدوجہد میں گزاری ہے۔ 

جب آپ سے کوئی محبت کرنے والا ہوتو لگتاہے کہ آپ ہی اس کے سب سےزیادہ چہیتےہو،بسا اوقات  مجھے بھی ایسا ہی  لگتا تھاکہ  اپنے تمام بھائیوں کے درمیان  میں ان سےزیادہ قریب ہوں  اور وہ مجھے سب سے زیادہ لاڈ کرتی ہیں  ،حالانکہ انہیں  اپنے تمام بھائیوں سے بے انتہا محبت تھی اور کیوں نہ ہو اللہ تعالی نے بہن بھائی کے تعلق میں ایک قدرتی محبت جو رکھی ہے ،جو دکھاوہ سے دور حقیقت پر مبنی ہوتی ہے ۔

 جس گاؤں میں بیاہی گئی تھیں وہاں جہالت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی ا س ماحول میں  انہوں نے اپنے دوبیٹوں کو میرے حوالے کردیا کہ ان کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری تمہاری ہے ،جن  کو میں نے اپنے پاس ہی جامعہ امام ابن تیمیہ میں داخل کرا کررکھ لیا،    لیکن ان میں سے چھوٹا  دینی تعلیم کی طرف بے رغبتی کی وجہ سے اسکولی تعلیم کی طرف متوجہ ہوگیا  اور دوسرا عزیزم خالد تیمی سلمہ اللہ  اپنی محنت اورلگن  سے جامعہ امام ابن تیمیہ اور پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اپنی تعلیم مکمل کرکے سب کی امیدوں کا مرکز بنا ہواہے  ۔سهل الله أموره وسدد خطاه۔

آج ان کے ساتھ بتائے زندگی کا ہر پل رہ رہ کر نگاہوں میں گھوم رہاہے ، جامعہ امام ابن تیمیہ کے دور میں  جب کہیں جانا ہوتا  اورمواصلات کی کمی کی وجہ سے  بیراگنیا ریلوے اسٹیشن  سے ٹرین پکڑنے کے لئے بذریعہ سائیکل جانا ہوتا  توچونکہ ان کا گھر اسٹیشن سے قریب ہی تھا اس لئے سائیکل انہیں کے گھرچھوڑدیتاتاکہ واپسی کے وقت  آسانی ہو،جوں ہی  ان کے گھر پہنچتا پہلے ٹرین کا وقت دیکھتیں اور اگر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کا وقفہ ہوتاتو ہزار منع کرنے کے باوجود کھانا بنانے میں لگ جاتیں ۔ میری ایک عادت ہے کہ بہنوں کے یہاں جاتے وقت  اگر امکان میں ہواتوکچھ نہ کچھ   تحفہ مٹھائی یا پھل کی شکل میں  لے کر ضرور جاتاہوں  ، کبھی ایسا ہوتاکہ کسی وجہ سے کچھ نہ لےجاسکاتو کبھی  پیشانی پر بل نہیں لاتیں بلکہ وہی مسکراہٹ اور خندہ پیشانی  ہمیشہ کی طرح  استقبال ووداع کرتی  اس حکم کے ساتھ کے بابو پھر آنا ۔(ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے)۔

ادھرچند سالوں سے اپنے بیٹے خالد کے پاس دہلی میں رہنے لگی تھیں ،  میں جب بھی سعودی عرب سے چھٹی پرجانے کا ارادہ کرتا سب سے پہلے   اس امر پربات ہوتی کہ بہن کےیہاں کب جاناہے یا انہیں اپنےگھر کب بلاناہے ؟ ، ابھی چند روز قبل ہی  اہلیہ کہہ رہی تھیں کہ بہن کو عید کے دن اپنے یہاں بلانا ہے لیکن   : (اے بسا آرزوکہ خاک شدہ )۔

دل ابھی سے پریشان ہے کہ اگلے سفرمیں  سب تو ہوں گے لیکن وہ نہیں ہوں گی ،پھران کی مسکراہٹ اورپیار دیکھنے کو نگاہیں ترسیں گی ، ان کی  مہمان نوازی کےلئے دل ترسےگا اور ان کی ہمیشہ کےلئے جدائی پر دل تڑپےگا،بس یہی  ایمان ہے کہ جو اللہ کو منظورتھاوہی ہوا :"كُلُّ شَيْءٍ بِقَدَر" "ہر چیز تقدیر سے ہے"۔

آج میں خود کو اور اپنے  گھر والوں اور خاص طور سے بہن کی اولاد اور ان کے شوہر کو صبر کی تلقین کرتاہوں  اور رب العزت سے دعاء کرتاہو کہ سب کو صبر جمیل دے ، اور متوفیہ کےگناہوں کو معاف کرکے اپنی رحمت اور مغفرت سے نوازے اور  ان کی قبر کو نور سے بھر دے اورقیامت کے روز ہم سب کو جنت الفردوس میں اکٹھاکرے۔

يارب فاجعل  جنان الخلد مسكنها       

الكل فانٍ وأنت الواحد الباقي

(اے میرے رب جنت الخلدمیں  ان کا ٹھکانہ بنا  ہر شیئ فانی ہے بس تو  ہی اکیلا باقی رہنے والاہے)۔

وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.

                    2023/4/10

                             **************