جمعرات، 23 جولائی، 2020

قربانیوں سے عبارت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی



       ابراہیم علیہ السلام  اللہ کے نہایت ہی  برگزیدہ نبی  ہیں ۔ آپ کی دعوت  توحید کے داعیوں کے لئے ایک مثال ہے ، فکروذہن کی سلامتی ، قوت استدلال وبیان ،صبر وثبات اور توکل علی اللہ کی بہترین مثالیں آپ کی زندگی میں ملتی ہیں ۔ آپ کاذکر اللہ تعالی نے  قرآن کریم کے اندر مختلف اندازواسلوب میں کیا ہے جو ابلاغ حق ، رد باطل ، حسن سلوک  امرباالمعروف  ، نھی عن المنکر اور اس راہ میں درپیش مشاکل اور ان پر صبر  اور توکل کی بہترین عکاس ہیں ،اللہ تعالی نے آپ کی ثبات قدمی کا صلہ دیاکہ ان کو متقیوں کا امام بنادیا،فرماتاہے :( وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ)  (سورۃ البقرہ /124) (جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا اور انہوں نے سب کو پوراکردیاتو اللہ نے فرمایاکہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنادوں گا عرض کرنے لگے میری اولادکو فرمایا میراوعدہ ظالموں سے نہیں )۔یہاں کلمات سے مراد احکام شریعت ، مناسک حج ، بیٹے کی قربانی ، آگ نمرود میں ڈالاجانا، ہجرت اور بیوی بچوں کومکہ کے صحراءمیں چھوڑدینا وغیرہ وہ تمام آزمائشیں ہیں جن سے ابراہیم علیہ السلام گزارےگئے، اور ساری آزمائشوں میں کامیاب رہے، اور آپ کو امام الناس کے منصب جلیل پر فائزکیاگیا چنانچہ مسلمانوں کے علاوہ یہودی ، عیسائی  حتی کہ عرب کے مشرکین میں بھی  ان کی شخصیت کو محترم اور پیشوامانی جاتی ہے۔
آئیے ہم ابراہیم علیہ السلام  کی   قربانیوں سے عبارت زندگی کے کچھ احوال  کا ذکرکرتےہیں، جو فکری سلامتی ، جدوجہد ، دعوت  توحید ، صبر واستقلال اور قدوۃ وامامت سے معنون ہے   :
فکرکی سلامتی :   کسی بھی انسان کے لئے ذہن وفکر کی سلامتی سب سے اہم اور بنیادی امرہے کیونکہ جب تک انسان کی سمجھ اللہ رب العزت کے مطالبات کے مطابق نہ ہو اس کے نزدیک  اس کی حیثیت اوراس کے اعمال پرکاہ کے برابر بھی نہیں ہے ، بلکہ  اللہ تعالی انہیں بے عقل جانوروں سے بھی بدتر قراردیتاہے ، ارشاد فرماتاہے:( وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ) (سورۃ الاعراف/179) (اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لئے پیدا کئے ہیں جن کے پاس دل ہیں لیکن وہ ان سے سمجھتے نہیں ، ان کے پاس آنکھیں ہیں لیکن ان سے دیکھتے نہیں ، ان کے پاس کان ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں ، یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ، یہی لوگ غافل ہیں )۔  
لیکن جو اللہ کی کائنات میں غور کرکے اس کی حاکمیت وربوبیت  اور کا‏‏ئنات میں تصرف کا اقرار کرکے صرف اور صرف اسی کی عبادت کرتاہے وہ اس کے نزدیک مقرب ترین بن جاتاہے ، ابراہیم علیہ السلام کی اسی خوبی کا تذکرہ کرتے ہو‏ئے اللہ تعالی  فرماتاہے:( فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ * فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ * فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ * إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ) (سورۃ الانعام /76-79) (جب رات کی تاریکی آئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا اور کہاکہ یہ میرارب ہے ،لیکن جب وہ غروب ہوگیاتو کہاکہ میں غروب ہونے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ پھرجب چاند کو دیکھا تو کہایہ میرا رب ہے لیکن جب وہ غروب ہوگیاتو کہااگر مجھ کو میرے رب نے ہدایت نہ کی تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاؤں گا ۔ پھر جب چمکتے سورج کو دیکھاتو کہا کہ یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑاہے ، پھر جب وہ بھی غروب ہوگیاتو کہااے قوم کے لوگوں ! میں تمہارے شرک سے بیزارہوں ۔میں یکسوہوکر اپنا رخ اس کی طرف کرتاہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیداکیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں )۔
دعوت ومناظرہ  : جب ابراہم علیہ السلام اپنی موہوبی  ذہنی صلاحیتوں کے ذریعہ اس بات سے  واقف ہو‏گئے کہ رب السماوات والارض کے علاو ہ کا ئنات میں کسی بھی تصرف کا حق  کسی کو بھی حاصل نہیں ،اس لئے اس کے علاوہ کو‏ئی بھی ذات  عبادت کی مستحق ہوہی نہیں سکتی ، چنانچہ  ہزاروں کی تعداد میں موجود معبودان  جن کو لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے بنالیاہے وہ خود اتنے بے بس ہیں کہ اپنے اوپر بیٹھی گندی مکھی کو بھی نہیں بھکا سکتے  اور نہ ہی وہ خود اپنی مدد آپ کرسکتےہیں ، تو کس طرح وہ دوسروں  کی مدد کے لائق ہوسکتے ہیں  ؟ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس یقین کے بعد اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں کی اس کھلی گمراہی کا رد شروع کردیا ،  اور نہایت ہی مدبرانہ اندازمیں اپنی دعوت شروع کی ،  اور سب سے پہلے دعوت کی شروعات اپنے باپ سے کی ، اللہ تعالی  اس کی  تصویر کشی کرتے ہوئے فرماتاہے : ( وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ) (سورۃ الانعام /74) ( اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب ابراہیم نے اپنے باپ  آزرسے کہا کہ تو بتوں کو معبود قراردیتاہے؟ بے شک میں تم کو اور تیری ساری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھتاہوں) ۔
نیز ابراہیم علیہ السلام کا اپنے باپ کی مشفقانہ دعوت کے اسلوب کا بیان کرتے ہوئے فرماتاہے: ( إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا * يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا * يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِيًّا * يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِنَ الرَّحْمَنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا * قَالَ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا * قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا * وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَى أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا  ) (سورۃ مریم/42-48) ( جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ اباجان! آپ ان کی عبادت کیوں کررہے ہیں جو نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتےہیں ، اور نہ آپ کو کچھ بھی نفع پہونچا سکتے ہیں ؟ ۔ میرے مہربان باپ !  میرے پاس وہ علم آیاہے جوآپ کے پاس نہیں آیا تو آپ میری بات مانیں میں بالکل سیدھی راہ کی طرف آپ کی رہنمائی کروں گا۔ میرے اباجان ! آپ شیطان کی پرستش نہ کریں کیوں کہ وہ رحم وکرم والے اللہ کا بڑا ہی نافرمان ہے ۔ اباجان ! مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ پر اللہ کا عذاب نہ آجائے کہ آپ کا شیطان کا ساتھی قرارپائیں ۔ اس نے جواب دیا اے ابراہیم ! کیا تو ہمارے معبودوں سے روگردانی کررہاہے ۔ سن اگر تو باز نہ آیا تومیں تجھے پتھروں سے ماروں گا ، جامجھ سے ایک مدت دراز تک دور رہ ۔ توانہوں نے کہا تم پر سلام ہو میں تو اپنے رب سے تمہاری بخشش کی دعاء کرتا رہوں گا ، وہ مجھ پر حد درجہ مہربان ہے ۔ میں تو تمہیں بھی اور جن جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو انہیں بھی سب کو چھوڑ رہاہوں ، اور صرف اپنے پروردگار کو پکارتارہوں گا مجھے یقین ہے کہ میں اپنے پروردگار سے دعاء مانگ کرمحروم نہ رہوں گا)۔
 پھر ابراہیم علیہ السلام کی دعوت باپ کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کے لئے شروع ہوتی ہے، ان سے مختلف انداز میں سوال کرتےہیں   :( مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ ) (سورۃ الانبیاء/52) (یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے ہوکیاہیں ؟)،  ان سب نے جواب دیا:(  وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ ) (سورۃ الانبیاء/53) (ہم نے اپنے باپ دادا کو انہیں کی عبادت کرتے ہوئے پایا )   ،   پھر ان پر نقد کرتےہوئے کہتے ہیں :( قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ) (سورۃ الانبیاء/54) ( تم اور تمہارے باپ دادا سب  یقیناکھلی گمراہی میں مبتلارہے)،  پھر قوم کے لوگ  کہنے لگے :( أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنْتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ ) (سورۃ الانبیاء/55) ( آپ ہمارےپاس سچ مچ حق لائے ہیں یا یوں ہی مذاق کررہے ہیں )، پھر نہایت ہی بلیغانہ انداز میں ان کو توحید کی  حقیقت کو سمجھاتے ہوئے  کہتے ہیں :( بَلْ رَبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَى ذَلِكُمْ مِنَ الشَّاهِدِين ) (سورۃ الانبیاء/56) ( درحقیقت تم سب کا پروردگار تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے جس نے انہیں پیداکیاہے ، اور مجھے اس کا پورا پورا مشاہدہ ہے )۔
   پھر جب ان کی  قوم نے ان سے اپنے معبودان باطلہ کے لئے بحث کیا تو انہوں نے  ان کوبہترین جواب دیا ، اللہ تعالی فرماتاہے: (وَحَآجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلاَ أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلاَّ أَن يَشَاء رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلاَ تَتَذَكَّرُونَ * وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلاَ تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالأَمْنِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ) (سورۃ الانعام /80-81) ( اور ان کی قوم نے ان سے حجت کرنا شروع کردی تو انہوں نے فرمایا کہ تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہوحالانکہ اس نے مجھے  ہدایت دی ہے ۔ اور میں ان چیزوں سے نہیں ڈرتا جن کو تم اللہ کے ساتھ شریک بناتےہو۔ ہاں اگر میرا رب جو چاہے ۔ میرے رب کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے کیاتم پھر بھی خیال نہیں کرتے ۔ میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جنہیں تم نے اللہ کے ساتھ شریک کیاہے ، حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایاہے جس کی کوئی دلیل تمہارے اوپر نازل نہیں کیاہے ۔ سواگر تمہیں خبرہے (تو بتاؤ) ان دونوں جماعتوں میں سے امن کا زیادہ مستحق کون ہے)۔
بتوں کی توڑنا : پھر جب قوم کو سمجھانےمیں ناکامی ہوئی تو ان کو سمجھانے کا دوسرا طریقہ اختیار کیا اور وہ تھا عملی اقدام،چنانچہ انہوں نے دل میں اس بات کا عزم کیاکہ وہ ان بتوں کو توڑ دیں گے :( تَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ )  (سورۃ الانبیاء/57)  ( اللہ کی قسم جب تم چلے جاؤگے تو میں ان کے ساتھ   لازمی کوئی تدبیرکروں گا)۔
پھر وہ وقت آیا جب قوم کے لوگ عید یا کوئی قومی تہوار منانے کے لئے باہر چلے ‏گئے ، ان لوگوں نے ان کو بھی اپنے ساتھ جانے کے لئے کہا لیکن  انہوں نے بیماری کا بہانہ کردیا  اور پھر جب سب لوگ چلے گئے تو  ان بتوں کے پاس جاکر بڑے بت کے علاوہ سب کو توڑ  کر ریزہ ریزہ کردیا ۔ بڑے کو اس حکمت کے ساتھ  چھوڑ دیا کہ ا اس کی بے بسی  کو لوگوں کے سامنے دلیل بنائیں گے ، چنانچہ جب وہ لوگ میلہ سے واپس آئے تو اپنے معبودان باطلہ کو تہس نہس دیکھا ، اور حیران وپریشان ہو‏گئے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ کس ظالم نے ہمارے معبود وں کے ساتھ ایسا کیاہے ۔ پھر لوگوں سے پتا چلا کہ ان کے بارے میں ایک نوجوان ابراہیم کوباتیں کرتے ہوئے سنا گیاہے  ، پھر ان کو مجمع عام میں لایاگیا  ان سے پوچھا گیا  تو انہوں نے کہا : اس بڑے نے کیا ہے ، اگر یہ ٹوٹے پھوٹے بت بول سکتے ہیں تو ان سے ہی پوچھ لو ۔ پھر وہ اس جواب سے سوچ میں پڑگئے اور لاجواب ہوکر ایک دوسرے سے کہنے لگے واقعی ظالم تو تم ہی ہو ۔  جو اپنی جان بچانے پر اور نقصان پہنچانے والے کا ہاتھ پکڑ نے پر قادر نہیں وہ مستحق عبادت  کیونکر ہوسکتاہے۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے شرک وکفرپر لوٹ گئے اور کہنے لگے : ابراہیم تو  اچھی طرح جانتاہے کہ یہ بولنے کی طاقت سے محروم ہیں  پھر ہم کیسے ان سے پوچھ سکتےہیں ؟ اللہ کے خلیل نے اسی وقت فرمایا :  (أَفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ * أُفٍّ لَكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ) ( سورۃ الانبیاء /66-67) (افسوس !  کیا تم لوگ اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہوجو نہ تمہیں کچھ بھی نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان ۔ تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کوچھوڑ کرعبادت کرتے ہو تف ہے ، کیا تمہیں اتنی سی بھی عقل نہیں )۔
حاکم وقت سے مناظرہ اورآزمائشوں کی شروعات : حاکم وقت نمرودجو خود کو رب اور کائنات میں تصرف کا اہل سمجھتاتھا اسے جب ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کا پتاچلا تو اس کا غصہ ہونا بدیہی تھا، پھر جب ابراہیم علیہ السلام کو اس کے پاس لایاگیاتو اس نے اپنی دعوائے ربوبیت کےثبوت کے لئے آپ سے مناظرہ اور بحث  شروع کردیا ، اللہ تعالی فرماتاہے:(أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ) (سورۃ البقرہ/258) (کیا آپ نے اسے نہیں دیکھا جوسلطنت وحکومت پاکرابراہیم سے ان کے رب کے بارےمیں جھگڑرہاتھا،جب ابراہیم نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو جلاتاہے اور مارتاہے ، وہ کہنے لگا میں بھی جلاتااور مارتاہوں ابراہیم نے کہا کہ اللہ تعالی سورج کو مشرق  سے طلوع کرتاہے تو مغرب سے کردے ۔ اب تو وہ کافربھونچکا رہ گیا۔ اللہ تعالی ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا)۔
پہلی قربانی : آگ میں ڈالا جانا اور ثبات قدمی  پھر اللہ کی نصرت  :  حاکم وقت اور پوری قوم جب آپ کے دلائل سے لاجواب ہوگئی تو انہیں  سزادینے کا ارادہ کرلیا  اور کہا:(حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ ) (سورۃ الانبیاء/68) ۔ (اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو اسے جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو)۔ (قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ ) سورۃ الصافات/97) ( وہ کہنے لگے اس کے لئے ایک مکان بناؤ اور اس (دہکتی ہو‏ئی )آگ میں اسے ڈال دو)۔
چنانچہ آپ کے لئے آگ بھڑکائی گئی اور آپ کو اس  بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیاگیا ، ایسے موقع سے بھی آپ نے کسی سے بھی مدد نہیں مانگی اور نہ اپنی جان بچانے کےلئے کوئی تدبیر اختیار کیا ، صبر وثبا ت اور توکل علی اللہ کی یہ عظیم ترین مثال ہے ، صحیح بخاری کے اندر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایسے موقع سے ابراہیم علیہ السلام کی زبان مبارک پر صرف " حَسْبُنَا اللَّهُ ونِعْمَ الوَكِيلُ" جاری تھا۔ اور یہ آپ کا آخری جملہ تھا۔(صحیح بخاری/4563-4564)
اور یہ جملہ آگے چل کر انبیاء وصالحین اورسچے مؤمنین و مؤحدین کا شعار بن گیا ۔
اللہ رب العزت کا فضل ابراہیم علیہ السلام پر ایسا ہواکہ آگ سلامتی والی  بن گئی اور دشمنان توحید کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ  گئیں ، اللہ تعالی فرماتاہے:(قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ * وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ) (سورۃ الانبیاء/69-70)  (ہم نے کہا اے آگ تو ٹھنڈی پڑجا اور ابرہیم(علیہ السلام) کے لئے سلامتی (اورآرام کی چیز) بن جا ۔ اور انہو ں نے ابراہیم کے ساتھ براچاہاتو ہم نے انہیں ناکام بنادیا)۔
دوسری قربانی: بیوی بچوں کو مکہ کی وادیوں میں چھوڑنا ۔  ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش یہی نہیں رکتی  ، اللہ رب العزت کا حکم ہوتاہے کہ اپنے بیوی بچوں کو ایسی بیابان میں تن تنہا چھوڑ دو جہاں انسان تو کیا کسی چرند وپرند کا بسیرا بھی نہ تھا ، نہ دانہ نہ پانی سوائے اللہ پر توکل اور بھروسہ کے  ، اور بیوی بھی ایسی صابرہ ،شاکرہ  اور اللہ پر توکل والی یہ سننے کے بعد کہ یہ اللہ کا حکم ہے  منہ سے شکایت کا  ایک جملہ بھی نہیں نکلتا ، جب ابراہیم علیہ السلام ان کو اور ان کے شیرخوار بچے کوتن تنہا چھوڑکر جانے لگتے ہیں تو پوچھتی ہیں  :" يا إبْرَاهِيمُ إلى مَن تَتْرُكُنَا؟" ابراہیم علیہ السلام کہتےہیں : "إلى اللَّهِ" پھر وہ کہتی ہیں : رَضِيتُ باللَّهِ" ۔
پھر اللہ کی تدبیر ہوتی ہے اور وہاں زمزم  کا پانی جاری ہوتاہے، اور یہاں سے ان پر اللہ کا کی نعمت اور فضل کی فراوانی ہوتی ہے  ۔( دیکھئے:صحیح بخاری /3365)  ۔
ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی اور بچے کو اس بیابان میں چھوڑتے وقت دعاء کرتےہیں :( رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ) (سورۃ ابراھیم/37) (اے میرے رب ! میں نے اپنی کچھ اولاد کو اس بے کھیتی  کی وادی میں تیرے حرمت والے گھرکے پاس بسائی ہے ، اے رب! یہ اس لئے کہ وہ نمازقائم رکھیں ۔ پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے اور انہیں پھلوں کی روزی عطافرما تاکہ وہ شکر گزاری کریں )۔
چنانچہ دنیا نے دیکھاکہ کس طرح زمزم کا کنواں ظاہر ہونے کے بعد لوگ آکر وہاں بسنے لگے اور رزق کی فراوانی ہونے لگی ، اور  آج مکہ میں دنیا کی تمام آسائشیں وافر مقدار میں  موجود ہیں، دنیا کے کسی بھی  گوشےمیں اللہ کی شاید ہی کوئی نعمت کسی بھی موسم میں ہو آپ مکہ میں نہ پائیں ۔ فللہ الحمد۔
 تیسری قربانی جواں سال بیٹے کو ذبح کرنا:   ابراہیم علیہ السلام کی وہ قربانی جسے اللہ تعالی نے قیامت تک کے لئے جاوداں کردیا ، اطاعت وفرمانبرداری کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ اپنے جواں سال بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ہوتاہے ،باپ بیٹے دونوں اطاعت وفرمانبرداری کے اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں بڑے بڑوں کے پیرڈگمگاجاتےہیں ، اللہ تعالی اس کا نقشہ کھینچتےہوئے فرماتاہے :(  فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَإذَا تَرَى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِن شَاء اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ* فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ* وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ* قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ* إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاء الْمُبِينُ) ( سورۃ الصافات/102-106) (پھروہ (اسماعیل) اتنی عمرکوپہنچاکہ اس کے ساتھ چلے پھرے تو اس (ابراہیم علیہ السلام)  نے کہا اے میرے بیٹے خواب میں میں خود کو تجھے ذبح کرتےہو‏ئے دیکھ رہاہوں ۔ اب تو بتا تیری کیارائے ہے ؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا اسے بجالائیے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔ پھرجب دونوں نے حکم الہی مان اور  اس (بیٹے)کو پیشانی کے بل گرادیا تو ہم نے آوازدی اے ابراہیم! یقینا تونے اپنےخواب کو سچا کردکھایا، بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ۔درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا)۔
ابراہیم علیہ السلام پر  اللہ کے انعامات
 ابراہیم علیہ السلام کےبے مثال صبر اور عظیم قربانیوں کا صلہ اللہ تبارک وتعالی  نے مختلف آزمائشوں میں کامیابی کے اعتبار سےہی عطا کیا ، آیئے دیکھتے ہیں اللہ رب العزت کا انعام آپ پر کیسے ہوا۔
1 -  آگ کا ٹھنڈی ہوجانا اور سلامتی  اور آرام والا ہونا: جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو اللہ تعالی نے آگ کو حکم دیتے ہوئے فرمایا :( يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ) (سورۃ الصافات/69) (اے آگ تو ٹھنڈی پڑجا اور ابرہیم(علیہ السلام) کے لئے سلامتی (اورآرام کی چیز) بن جا) ۔
2- ان کی اولادمیں سلسلہ نبوت کا جاری ہونا: ابراہیم علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے دعاء کی تھی کہ ان کی اولادمیں نبیوں کو بھیجے  : ( رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) (سورۃ البقرہ /129) (اےہمارے رب ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے ، انہیں کتاب وحکمت سکھائے، اور انہیں پاک کرے ، یقینا تو غلبہ والا اور حکمت والاہے)۔
چنانچہ  نبوت ورسالت اورنزول کتب   کا سلسلہ اللہ رب العزت نے ان ہی کی اولاد میں رکھی ، ارشاد فرماتاہے  : ( لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا وَإِبْرَاهِيمَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ ) (سورۃ الحدید/26)  (بے شک ہم نے نوح اور ابراھیم (علیھما السلام) کو رسول بنا کربھیجا اور ان کی اولادمیں نبوت اور کتاب جاری رکھی)۔
6 – دعاؤں کا قبو ل ہونا: ابراہیم علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے مختلف دعائیں مانگی تھی جنہیں اللہ رب العزنے شرف قبولیت سے نوازا ، ان دعاؤوں کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن مجید کے اندر مختلف مقامات پر اور مختلف اسالیب میں ذکرکیاہے ،  مختصرا وہ دعائیں ہیں  :
* - مکہ کو امن والا شہر بنادے اور ان پر اپنے رزق کی فراوانی کردے ۔ (سورۃ البقرہ /126 ، سورۃ ابراہیم/35)۔
*  - ان کو اور ان کی اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچائے۔( سورۃ ابراہیم/35)۔
* -  ان کی اولاد میں نبوت ورسالت کا سلسلہ جاری کردے ، اپنی کتابیں انہیں میں نازل فرما۔( سورۃ البقرہ/129، سورۃ الحدید/26)۔
* - حج کے مناسک سکھادے۔(سورۃ البقرہ/128)۔
* - بیت اللہ کی تعمیر کو قبول فرما۔(سورۃ البقرہ/127) ۔
* - بیوی بچوں کوتنہائی سے نکال کرلوگوں کوان کے پاس بھیج دے ۔(سورۃ ابراھیم /37) ۔
* - علم وحکمت سے سرفراز فرما ، نیک لوگوں  میں ملادے اور آنے والی نسلوں میں  ان کے ذکر خیرکو باقی رکھے ۔( رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ * وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِين ) (سورۃ الشعراء/83-84)۔
* - انہیں اور ان کی اولاد کو نماز کا پابند بنائے اور  ان کی دعاؤں کو قبول فرمائے۔ (سورۃ ابراہیم /40) ۔
* - نیک اولاد عطا فرما۔(رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ ) (سورۃ الصافات /100) ۔
 7 –  ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم  اور اس کا  قیامت تک جاری رہنا : اللہ تعالی نے کئی مقامات پر ملت ابرہیمی کی اتباع کا حکم دیاہے ، فرماتاہے ( قُلْ صَدَقَ اللَّهُ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ) (سورۃ آل عمران/95) ( کہہ دیجئے اللہ سچاہے تم سب ابراہیم  کے ملت حنیف کی پیروی کرو جو مشرک نہ تھے) ۔
نیزفرماتاہے:( ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ) (سورۃ النحل /123) (پھرہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں جو مشرکوں میں سے نہ تھے )۔
 نیز فرماتاہے : (وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا) (سورۃ النساء/125) (باعتباردین کے اس سے اچھاکون ہے جو اپنے کو اللہ کے تابع کردے وہ بھی نیکوکار، اور ساتھ ہی یکسوئی والے ابراہیم کے دین کی پیروی کررہاہو)۔
 8 – اللہ نے آپ کو اپنا خلیل بنالیا۔ ( وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا ) (سورۃ النساء/125) ( ابراہیم کو اللہ نے اپنا دوست بنایاہے)۔
 9 – آپ کا ذکرقیامت تک ہوتارہےگا  : ( وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الآخِرِينَ) ( سورۃ الصافات /108) ( اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں رکھا)۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے ایسے وسائل پیدا فرمائے اور عبادتیں مشروع قراردیں جن کے ذریعہ ان کاذکر خیر قیامت تک ہوتارہےگا ، ان  کا ذکر ذیل میں اختصارکے ساتھ پیش خدمت ہے:
* - بیت اللہ اور حج  وعمرہ کے ذریعہ : اللہ تعالی فرماتاہے: ( وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ) (سورۃ الحج /27) ( لوگوں میں حج کی منادی کردیجئے لوگ آپ کے پاس پیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پربھی ، دور درازکی تمام راہوں سےآئيں گے)۔ نیز فرماتاہے :( إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ * فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ) (سورۃ آل عمران/95-97) (اللہ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایاگیا وہی ہے جو مکہ میں ہے جو تمام دنیاکے لئے برکت اورہدایت والاہے۔ جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں ۔  اس میں جو آجائے امن والا ہوجاتاہے۔ اللہ تعالی نے ان لوگوں پر جو اس  طرف راہ پا سکتےہوں اس گھرکا حج فرض کردیاہے) ۔
*- قربانی کے ذریعہ : اللہ تعالی فرماتاہے:( وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ) ( سورۃ الصافات /107-108) (اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا۔  اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں رکھا)۔

* - درودو سلام کے ذریعہ :   دنیا کا ہر مسلمان جب نماز پڑھتاہے تو اس میں درود وسلام پڑھتاہے ، اس کے اندر ابراہیم علیہ السلام کے  ذکر  کی وجہ اسے درود ابراہیمی کے نام سے جانتےہیں ۔  اور یہ ذکراس وقت تک رہیگا رہے گا  جب تک دنیا رہیگی  اور مسلمان    اس درود وسلام  کا ورد کرتےرہیں گے ۔ درود کے الفاظ ہیں  :
 * -  " اللهمَّ صلِّ على محمَّد وعلى آل محمَّد، كما صليتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم؛ إنَّك حميدٌ مجيد. اللهمَّ بارِك على محمَّد وعلى آل محمَّد، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم؛ إنَّك حميدٌ مجيد" (صحیح بخاری/3370، صحیح مسلم/406) ۔
 * -  " اللهمَّ صلِّ على محمَّد وأزواجه وذُريَّته، كما صليتَ على آل إبراهيم، وبارِك على محمَّد وأزواجه وذُريَّته، كما باركتَ على آل إبراهيم؛ إنَّك حميدٌ مجيد" (صحیح بخاری/3369، صحیح مسلم/407)۔
* -  اور قرآن کریم میں تلاوت کے ذریعہ: اللہ تعالی نےآپ کاذکر نے  قرآن کریم کے اندر مختلف اندازواسلوب میں تقریبا 35 بار ذکر کیا ہے،چنانچہ جب تک قرآن مجید کی تلاوت ہوتی رہےگی آپ کا  ذکرخیر ہوتارہےگا۔
اللہ رب العزت ہمیں دین مستقیم پر قائم ودا‏ئم رکھے اوراپنے فضل وکرم سے سرفراز فرمائے ۔وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم ۔
******














پیر، 13 جولائی، 2020

مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ : منہج سلف کےبہترین ترجمان


مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف  رحمہ اللہ  
منہج سلف کےسچے  ترجمان
تحریر:عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی /سعودی عرب
الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده, و بعد:
          ابو الدرداء رضی اللہ عنہ  سےمروی  ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" إن العلماء ورثة الأنبياء، إن الأنبياء لم يورثوا ديناراً ولا درهما، وأورثوا العلم، فمن أخذه؛ أخذ بحظ وافر" "علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور نبیوں نے اپنا وارث درہم و دینار کا نہیں بنایا ،بلکہ علم کا وارث بنایا ،تو جس نے علم حاصل کیا اس نے ایک وافر حصہ لے لیا۔"( ابوداود/3641، ترمذی /2682 ، ابن ماجہ223 ، احمد:5/196 ، علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیاہے )۔
بلا شبہ علماء کی  متنوع  دینی ، علمی اوردعوتی  خدمات ان کے نبی کی وراثت کے سچے حقدار ہونےکی گواہی دیتی ہیں  ،  اور قدرومنزلت اور خدمت  میں ان علماء کا مقام اور بڑھ جاتاہے جنہوں ، فتنوں کے دور میں ثابت قدمی کے ساتھ انہیں ختم کرنے کی سعی کی  ، اور کسی بھی طرح کی عملی وفکری گمراہی کے سامنے سینہ سپر ہوکرکھڑے ہوگئے ۔ بسا اوقات ایسا ہوتاہے کہ آدمی کی پوری زندگی علم وعمل  ، تعلیم وتعلم اور درس وتدریس میں گزرجاتی ہے ،اور دنیامیں اس کا وہ عمل جاوداں ہوجاتاہے جو دفاعی اندازمیں دین وعقیدہ کی نصرت  کے لئے  خاص ہوتاہے، اور بسا اوقات  اس کی زندگی کا حرف   حرف  سنہرے اندازمیں تاریخ کے  اوراق پر  مرصع ہوتاہے ۔
حافظ صلاح الدین یوسف ہمارے دور کے انہیں علماء میں سے ایک ہیں جن کی خدمات کا نہ یہ کہ  ایک عالم معترف ہے بلکہ ان کی  دینی  خدمات کا زمزم لوگوں کے لئے علمی ودینی    سیرابی کا   چشمئہ صافی  ہے ۔
حافظ صلاح الدین  یوسف کا نام میرے لئے اس وقت سے معروف  ہے جب میں جامعہ سلفیہ بنارس کے ابتدائی درجہ کا طالب تھا ، اس وقت برصغیر کے  چند  سلفی علماء کا نام ہمارے لئے بڑے ہی تعظیم اور تکریم کا ہوا کرتاتھا  ، جن سے ہم جیسے چھوٹے  اور بے وقعت طلباء بھی بے انتہاء متأثرتھے ،جن میں شیخ صفی الرحمن مبارکپوری  بجرڈیہہ بنارس  کے مناظرہ میں اہل  بدعت پر فتح اور الرحیق المختوم کی عالمی مقبولیت کی وجہ سے ، مولانا مختار احمد ندوی بے انتہاء دینی  خدمات  کی وجہ سے جن میں مختلف  اداروں اور  جامعات کی سرپرستی ، مجلہ البلاغ کی تحریریں   اور دیگر دینی خدمات  شامل ہیں ،خطیب الاسلام عبد الر‌ؤوف جھنڈانگری  ، ڈاکٹر محمد لقمان سلفی  ، مولانا عبداللہ مدنی جھنڈانگری ،  رحمہم اللہ  اورشیخ صلاح الدین مقبول   حفظہ اللہ ، وغیرہم خصوصی طور پر قابل ذکرہیں  ۔ انہیں میں سے نہایت ہی قابل قدر نام حافظ صلاح الدین یوسف کا ہے    ۔ فجزاھم اللہ خیرالجزاء ۔
یوں تو ان کی بے شمار دینی خدمات  ہیں  جن میں تصنیف وتالیف اور بحث تحقیق کا خاص  اورقابل ذکر لائق قدر حصہ ہے ،لیکن یہاں میں سردست ان کی صرف دو کتابوں سے متعلق اپنے خیالات قلمبندکروں گا،  جن سے میں  تعلیمی ، تدریسی  اور دعوتی زندگی میں خاصا متأثر رہاہوں ۔اور وہ ہیں " خلافت و ملوکیت :تاریخی و شرعی حیثیت"  اور "احسن البیان"۔
 اپنے بعض اساتذہ کی رہنمائی پر میں نے طالبعلمی کے ابتدائی  زمانے میں   ہی " خلافت وملوکیت :تاریخی و شرعی حیثیت" کا مطالعہ کیا تھا ،جو اب تک میرے لئے نہ یہ کہ ایک خوش کن احساس ہے بلکہ  میری فکری نشو ونمامیں  اللہ رب العزت کی توفیق کے ساتھ میرے شیخ محترم احمد مجتبی مدنی  حفظہ اللہ  اور ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ کی ذاتی رہنمائی  اور شیخ ابن باز کی سلیس عقائد پرمبنی  تحریروں کے بعد اس کتاب کا  بہت بڑا  حصہ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منہج نقدو رد جیسے فن کو سمجھنے کے لئے میں نے   اسی کتاب کا انتخاب کیا ، جس    نے  میرے کچے ذہن پر نہایت ہی تابناک اورانمٹ نقش چھوڑے۔ آگے چل کر ہمارے  عقائد وادیان کے دو مؤقر اساتذہ کی تعلیم  اور رہنمائی نے اسے مزید مضبوطی عطا کی ، اور وہ ہیں   ڈاکٹر محمد ابراہیم مدنی بنارسی اور شیخ احسن جمیل مدنی بنارسی حفظہما اللہ ۔فجزاھما اللہ خیرالجزاء ۔
 جب میں نے اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو  درسی کتابو ں کے علاوہ دوسری کسی کتاب کی طرف نہیں دیکھا یہاں تک اس کو مکمل نہ کرلیا ۔ سچ پوچھئے تو یہ کتاب میرے لئے   دین کے نام پر گمراہی سے بچاؤ اور فکری کج روی کو سمجھنے اور اس کے اصول نقد وردکے لئے آج بھی   مبتداء  اور سنگ میل کی حیثیت  رکھتی ہے ۔
       اس کتاب کی تالیف اس وقت کی گئی تھی  جب  خلافت کے نام پر پھیلنے والے فتنے نے  عصمت صحابہ کو تارتار کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیاتھا، بلکہ ایک مخصوص جماعتی فتنہ اپنے عروج کی طرف گامزن  تھا  ، ایسے وقت میں مولانا مودووی رحمہ اللہ کی کتاب"خلافت وملوکیت" ( جس کے رد میں مذکورہ کتاب   کو ترتیب دیاتھا ) جلتی پر تیل کا کام کررہی تھی  ،۔فکری بھٹکاؤکے شکار  اہل سنت کے بے شمار افراد کے علاوہ اہل رفض  وتشیع کے لئے  یہ  کتاب   ایک مضبوط قلعہ کی طرح تھی ۔ بلکہ اہل رفض وتشیع  کے لئے اپنے باطل نظریات  وافکار کی ترویج کے لئے  مہمیزکا کام کررہی تھی ۔
یوں تو مولانا مودودی کی کتاب کی رد میں اور بھی تالیفات معرض وجود میں آ‏ئیں  لیکن  مذکورہ کتاب  ان میں سب سے بہترین مفصل اور تشفی بخش تھی ، اور یقین جانئے کہ اس کتاب کی وہی حیثیت وضرورت آج بھی باقی ہے  جو پہلے دن تھی ۔
       میں جب  بھی  فکری گمراہیو ں کے رد میں اسلاف کی خدمات کا  تصور کرتاہوں ،خاص طور سے امام احمد بن حنبل ،  امام بخاری ،  ابو الحسین الملطی ،امام ابن  تیمیہ ، امام ابن القیم ،  اما م   لالکائی ،امام ابو العزالحنفی  ،شیخ الاسلام محمدبن عبد الوہاب  اور علامہ احسان الہی ظہیروغیرہم  رحمہم اللہ   کی تو حافظ صلاح الدین  یوسف اور ان کی اس کتاب  کی   طرف ذہن ضرور جاتاہے ۔ کیونکہ ان کی یہ کتاب  بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف  بڑھتے فتنوں کو روکنے کے لئے پوری جماعت اہل حدیث کی طرف سے فرض کفایہ کی ادائیگی تھی ۔ اللہ رب العزت موصوف کو اس کا بہترین بدلہ دے ۔
         حافظ صاحب کی دوسری  کتاب جس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا " احسن البیان " ہے جو  اردو زبان میں کلام اللہ کی  مختصرمگر بہترین  اور جامع تشریح ہے ۔ میں اپنی ابتدائی تعلیمی دور سے  جب سے قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنا شروع کیا اب تک اس کتاب سے بےنیاز نہ ہو سکاہوں ۔ طالبعلمی کے دور میں ترجمہ وتفسیر  کی معرفت اور امتحانات کی تیاری کے لئے ، تدریس  اور تالیف وتصنیف اور ترجمہ کے دور میں اور اب جب کہ  دعوتی اور تصنیفی  وتحقیقی کاموں سے منسلک ہوں  ہمیشہ اس سے استفادہ کرتارہتاہوں ، بلکہ حسب ضرورت موبائل میں اکثر اس کا پروگرام ڈاؤنلوڈ کرکے رکھتاہوں ۔ اکثر ایسا ہوتاہے کہ  عربی تفسیری مراجع  جیسے تفسیر ابن کثیر ، تفسری طبری ،  معالم التنزیل  اور تفسیر سعدی وغیرہ سے مراجعت کے بعد  احسن البیان کی طرف رجوع کرتاہوں تاکہ  اس مسئلے پر مکمل اطمینان ہوسکے ۔ اور  کتب تفاسیر سے شغف رکھنے والے  یہ بخوبی جانتے ہیں کہ احسن البیان دراصل انہیں کتب کا نخبہ اور خلاصہ ہے، جس کے اندران کتب کی روایات و بیانات    کو تنقیح وتصحیح  اور چھانٹ پھٹک کے بعدنہایت ہی  بہترین ترتیب کے ساتھ اور عام فہم  زبان میں  اس میں شامل کیاگیا ہے ۔
 احسن البیان کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے علماء وطلباء کے علاوہ عام اردو داں طبقہ بھی مکمل طریقے سے مستفید ہوتاہے، بلکہ اب تو اس کا کئی زبانوں میں ترجمہ کے بعد اس زبان کے جاننے والے اس سے فائدہ اٹھاتےہیں ۔
       دعوتی کاموں سے منسلک ہونےکی وجہ سے کئی بار ایسا ہوتاہے کہ اچانک کہیں  خطبہ جمعہ یا  خطاب عام کی  ضرورت پیش آجاتی ہے، ایسے موقع سے کسی متعین موضوع سے متعلق مواد بھی مستحضر نہیں ہوتا، اور قرآن مجید کی بعض آیات کے مفہوم ومطلب   کے لئے  یقینی اور تشفی بخش   معلومات ضروری ہوتی ہیں ،ایسے مواقع سے  آس پاس یا پھرموبائل  وغیرہ میں اس تفسیر کا ہونا بہت بڑی غنیمت ہے ۔
      آج جب حافظ  صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ  اس دنیا میں نہیں رہے  ، بار بار ان کا تصور ذہن میں آرہاہے ،اور بار بارسامنے ٹیبل پرپڑے "احسن البیان " کے نسخے کو دیکھ کر  ان کے لئے  زبان پر رب ذوالجلال والاکرام کے حضوررحمت ومغفرت  کی  دعاء  جاری ہو جارہی ہے ۔ اللهم اغفر له وارحمه، وعافه ،واعف عنه ،وأكرم نُزُله ، ووسع مُدخلهُ ، واغسله بالماء والثلج والبرد ، ونقه من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس ، وأبدله داراً خيراً من داره ، وأهلاً خيراً من أهله وزوجاً خيراً من زوجه، وأدخله الجنة ،وأعذه من عذاب القبر ومن عذاب النار۔
********