پیر، 6 جولائی، 2020

ناشکری کے اسباب وانجام




ناشکری کا مطلب   : ناشکری کو عربی میں  "کفرالنعمۃ " یا "کفران النعمۃ" کہاجاتاہے ،  کفرکا معنی جحود وانکار  اورچھپانے کا ہوتاہے ، اور چونکہ ناشکری کرنے والا نعمت کا انکار ، اس کی ناقدری کرنے والا، اور اس کو چھپانے والا ہوتاہے اس لئے سے کفر سے تعبیرکیا گیاہے ۔(دیکھئے :مقاییس اللغۃ :5/191،لسان العرب:5/144)۔ اسی معنی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :( فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ) (سورۃ البقرہ/152)  (تم میراذکرکرومیں بھی تمہیں یادکروں گا ، میری شکرگزاری کرو اور ناشکری سے بچو)۔  (یعنی میری نعمتوں کو مت چھپاؤ ) (الجامع لاحکام القرآن:2/171)۔
ناشکری کی سزا : جہاں اللہ رب العزت اپنے بندوں سے اپنی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کا حکم دیتاہے اور شکرگزاری پر مختلف انعمامات واکرام کا وعدہ کرتاہے نیز روزی میں برکت اور نعمتوں میں اضافہ کرتاہے ، وہی ناشکری کرنے  والوں سے نہ یہ کہ  اپنی نعمتوں کو چھین لیتاہے بلکہ ان کو سخت عذاب میں بھی مبتلا کرتاہے، ذیل میں ہم ناشکری کے بھیانک انجام سے متعلق کچھ نصوص پیش کررہے ہیں تاکہ اس کے برے انجام سے واقف ہوکر ہم ناشکری جیسے گناہ سے خود کو بچا سکیں ۔
ناشکری سزا  اور عذاب  کا سبب   ہے  : نا شکری کرنے والے پر اللہ رب العزت نے سزا کا وعدہ کر رکھاہے، ارشاد فرماتاہے :(  إِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ ) (سورۃ ابراھیم/7) (جب تمہارے پروردگارنے تمہیں آگاہ کردیاکہ اگر تم شکرگذاری کروگے تو بےشک تمہیں زیادہ دوں گا ، اور اگر ناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے )۔  
امام طبری اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتےہیں :"اے لوگو!اور اگر تم  اللہ کی نعمت پر شکر کو ترک کرکے انکارکے ساتھ  اور اس کے امرو نہی میں اس کی خلاف ورزی  اور اس کی معصیت کا ارتکاب کرکے اس  کی ناشکری کروگے تو (میرا عذاب بڑا سخت ہے )یعنی جس طرح میں میری مخلوق میں جس نے کفرکیا اس کو عذاب دوں گاویسے تم کو  بھی عذاب دوں گا"(دیکھئے : تفسیر الطبری نیز تفسیر کی دیگر کتابیں )۔
ناشکری جہنم کا سبب ہے : عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" أُرِيتُ النَّارَ فَإِذَا أكْثَرُ أهْلِهَا النِّسَاءُ، يَكْفُرْنَ قيلَ: أيَكْفُرْنَ باللَّهِ؟ قالَ: يَكْفُرْنَ العَشِيرَ، ويَكْفُرْنَ الإحْسَانَ، لو أحْسَنْتَ إلى إحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شيئًا، قالَتْ: ما رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ" " مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی ہیں۔ کہا گیا: یا رسول اللہ! کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شوہرکی ناشکری کرتی ہیں۔ اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرتے رہو۔ پھر تمہاری طرف سے ان کے خیال میں  کبھی کوئی ناگواری کی بات ہو جائے تو فوراً کہہ اٹھے گی کہ میں نے کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی"۔ (صحیح بخاری/29، صحیح مسلم /907) ۔  
ناشکری زوال نعمت کا سبب ہے : اللہ رب العزت قوم سبأ کی ناشکری اور اس کے انجام کی خبر دیتے ہوئے فرماتاہے : ( لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتَانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمَالٍ كُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ * ذَلِكَ جَزَيْنَاهُمْ بِمَا كَفَرُوا وَهَلْ نُجَازِي إِلَّا الْكَفُور) (سورۃ السبأ /15-17) ( قوم سبأ کے لئے اپنی بستیوں میں (قدرت الہی کی ) نشانی تھی ان کے دائیں بائیں دو باغ تھے ( ہم نے ان کو حکم دیاتھاکہ ) اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤاور شکر اداکرو ۔ یہ عمدہ شہر اور وہ بخشنے والا رب ہے ۔ لیکن انہوں نے روگردانی کی تو ہم نے ان پر زبردست سیلاب بھیج دیا اور ہم نے ان کے ہرے بھرے باغوں کے بدلے دو ایسے باغ دئے جو بدمزہ میووں والے اوربہت زیادہ جھاڑ والے تھے اور کچھ تھوڑے ہی بیری کے درخت تھے(وہ بھی کانٹےدار) ۔ ہم نے انہیں ان کی ناشکری کا بدلہ دیا ۔ ہم  ناشکروں کو ہی ایسی سخت سزادیتےہیں )۔
اسی طرح ایک قوم کی ناشکری کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتاہے:( وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ ) (سورۃ النحل /112) (اللہ تعالی اس بستی کی مثال بیان فرماتاہےجو پورے امن اور اطمینان کے ساتھ تھی اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی۔ پھر اس نے اللہ تعالی کی نعمتوں کا انکار کیاتو اللہ تعالی نے اسے بھوک اور ڈرکا مزہ چکھایا، جو ان کے کرتوتوں کا بدلہ تھا)۔
اس بستی سے مراد اکثر مفسرین کے یہاں مکہ ہے۔اہل مکہ  نہایت ہی خوشحالی اور امن وامان میں رہ رہے تھے،لیکن جب انہوں نے  ناشکری  کی اور اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم   ان کے لئے بددعاء فرمائی کہ  جس طرح یوسف علیہ السلام کے زمانے میں مصرمیں قحط سالی ہوئی تھی، اسی طرح ان کے پر بھی  اسے مسلط کردے ، چنانچہ  ان کے اوپر خوف وبدامنی اور بھوک مسلط کردی گئی ۔ ان کا حال یہ ہوگیاکہ ہڈیاں اور درختوں کے پتے کھانے پر مجبورہوگئے ۔
بعض مفسرین کے نزدیک یہاں بستی سے کوئی خاص بستی مراونہیں ہے بلکہ اللہ تعالی نے بطور تمثیل کے بیان کیاہےکہ کفران نعمت کرنے والوں کا یہی حال ہوگا۔(دیکھئے : تفسیر الطبری ، تفسیر ابن کثیراور تفسیرکی دیگر کتابیں)۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:"بے شک اللہ تعالیٰ کی جب ناشکری کی جاتی ہے تو نعمت کو عذاب سے بدل دیا جاتا ہے" (الدر المنشور: 1/279( ۔
اسی طرح صحیحین کے اندر  کوڑھی ، اندھے اور گنجے کا واقعہ ذکر کیاگیاہے، کہ  کس طرح اللہ تعالی نے ان کو اپنی نعمت دے کر آزمایا  اور ان میں سے شکرگزارکے اوپر اپنی نعمت کو برقرار رکھا اور ناشکروں سے اسے چھین لیا ،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"  بنی اسرائیل کے لوگوں میں تین آدمی تھے ایک کوڑھی سفید داغ والا، دوسرا گنجا، تیسرا اندھا، سو اللہ نے چاہا کہ ان کو آزمائے تو ان کے پاس فرشتہ بھیجا سو وہ سفید داغ والے کے پاس آیا پھر اس نے کہا: کہ تجھ کو کون سی چیز بہت پیاری ہے؟ اس نے کہا: اچھا رنگ اور اچھی کھال اور مجھ سے یہ بیماری دور ہو جائے جس کے سبب لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایک فرشتہ نے اس پر ہاتھ ملا سو اس کی گھن دور ہو گئی اور اس کو اچھا رنگ اور اچھی کھال دی گئی۔ فرشتہ نے کہا: کون سا مال تجھ کو بہت پسند ہے؟ اس نے کہا: اونٹ یا گائے۔ اسحاق بن عبداللہ اس حدیث کے ایک راوی کو شک پڑ گیا کہ اس نے اونٹ مانگا یا گائے، لیکن سفید داغ والے یا گنجے نے ان میں سے ایک نے اونٹ کہا، دوسرے نے گائے، سو اس کو دس مہینے کی گابھن اونٹنی دی۔ پھر کہا: اللہ تعالیٰ تیرے واسطے اس میں برکت دے۔ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایافرشتہ پھر گنجے کے پاس آیا سو کہا: کون سی چیز تجھ کو بہت پسند آتی ہے؟ اس نے کہا: اچھے بال اور یہ بیماری جاتی رہے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے گھناتے ہیں۔ پھر اس نے اس پر ہاتھ ملا سو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کو اچھے بال ملے۔ فرشتہ نے کہا: کہ کون سا مال تجھ کو بھاتا ہے۔ اس نے کہا کہ گائے؟ سو اس کو گابھن گائے ملی۔ فرشتہ نے کہا: اللہ تیرے مال میں برکت دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا سو کہا کہ تجھ کو کون سی چیز بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ میری آنکھ میں روشنی دے تو میں اس کے سبب لوگوں کو دیکھوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھر فرشتہ نے اس پر ہاتھ ملا سو اس کو اللہ تعالیٰ نے روشنی دی۔ فرشتہ نے کہا کہ کون سا مال تجھ کو بہت پسند ہے؟ اس نے کہا: بھیڑ بکری۔ تو اس کو گابھن بکری ملی۔ پھر اونٹنی اور گائے اور بکری نے بچے دئے۔ پھر ہوتے ہوتے سفید داغ والے کے جنگل بھر اونٹ ہو گئے اور گنجے کے جنگل بھر گائے بیل ہو گئے اور اندھے کے جنگل بھر بکریاں ہو گئیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابعد مدت کے وہی فرشتہ سفید داغ والے کے پاس اپنی اگلی صورت اور شکل میں آیا، سو اس نے کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں سفر میں میرے تمام اسباب ختم ہو گئےہیں (یعنی تدبیریں جاتی رہیں اور مال اور اسباب نہ رہا)سو آج منزل پر پہنچنا مجھ کو ممکن نہیں بدوں اللہ کی مدد کے پھر بدوں تیرے کرم کے۔ میں تجھ سے مانگتا ہوں اسی کے نام پر جس نے تجھ کو ستھرا رنگ اور ستھری کھال اور مال اونٹ دئیے، ایک اونٹ دے جو میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے اس سے کہا: لوگوں کے حق مجھ پر بہت ہیں (یعنی قرضدار ہوں یا گھربار کے خرچ سے مال زیادہ نہیں جو تجھ کو دوں)۔ پھر فرشتہ نے کہا: البتہ میں تجھ کو پہچانتا ہوں بھلا کیا تو محتاج کوڑھی نہ تھا کہ تجھ سے لوگ گھناتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تجھ کو یہ مال دیا۔ اس نے جواب دیا: کہ میں نے تو یہ مال اپنے باپ دادا سے پایا ہے جو کئی پشت سے بڑے آدمی تھے۔ فرشتہ نے کہا: اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھ کو ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو تھا۔ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اسی اپنی صورت اور شکل میں پھر اس سے کہا: جیسا سفید داغ والے سے کہا تھا۔ اس نے وہی جواب دیا جو سفید داغ والے نے دیا تھا۔ فرشتہ نے کہا: اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھ کو ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو تھا۔ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااور فرشتہ اندھے کے پاس گیا اپنی اسی صورت اور شکل میں پھر فرشتہ نے کہا: میں محتاج آدمی اور مسافر ہوں میرے سفر میں سب وسیلے اور تدبیریں ختم ہو گئیں ہیں ، سو مجھ کو آج منزل پر پہنچنا بغیر اللہ کی مدد اور تیرے کرم کے مشکل ہے۔ سو میں تجھ سے اس اللہ کے نام پر جس نے تجھ کو آنکھ دی ایک بکری مانگتا ہوں کہ میرے سفر میں وہ کام آئے۔ اس نے کہا: بے شک میں اندھا تھا اللہ نے مجھ کو آنکھ دی  ان بکریوں میں سے جتنا تیرا جی چاہے لے جا  ،ان اور جتنا تیرا جی چاہے چھوڑ جا ۔ اللہ کی قسم! آج جو چیز تو اللہ کی راہ میں لے گا میں تجھ کو مشکل میں نہیں ڈالوں گا (یعنی تیرا ہاتھ نہ پکڑوں گا)   فرشتہ نے کہا: اپنا مال رہنے دے تم تینوں آدمی صرف آزمائے گئے تھے۔ تجھ سے تو البتہ اللہ راضی ہوا اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہوا۔ " (صحیح بخاری/3464، صحیح مسلم/2964)۔
اللہ رب العزت نے ناشکروں سے اپنی بے نیازی کا اظہار کیاہے : ارشاد فرماتاہے : (وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ ((سورۃ النمل /40)  یعنی جس نے ناشکری کی تو اللہ رب العزت اس کے شکرکا محتاج نہیں وہ اس سے بے نیاز ہے ، ناشکرے کی ناشکری اسے کوئی نقصان نہیں پہونچاسکتی البتہ کوئی شکر کرتاہےتو اس کا فائدہ خود اسے ہی پہنچتاہے ۔ دراصل ناشکروں کو پاس جو اللہ کی نعمت ہے وہ اس کے اور اللہ کی معصیت کے درمیان ایک کڑی ہے ۔
ناشکری نقص ایمان کی علامت ہے :  شریعت میں ناشکری کو کفرسے تعبیر کیاگیاہے،  جس سے پتہ چلتاہے کہ یہ ایمان میں ضعف اور نقص کی بنیاد پر ہی ہوتاہے ، نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :التَّحدُّثُ بنعمةِ اللهِ شُكرٌ ، و تركُها كُفرٌ ، و مَن لا يشكرُ القَليلَ لا يَشكرُ الكثيرَ ، و مَن لا يشكرُ النَّاسَ لا يشكرُ اللهَ " "اللہ کی نعمت کی تحدیث شکریہ اداکرناہے ، اور تحدیث نعمت  نہ کرنا کفرہے ، اور جو تھوڑی چیزوں پر شکریہ نہیں اداکرتاوہ زیادہ پر بھی نہیں کرتا، اور جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتاوہ اللہ کا شکریہ نہیں ادا کرتا۔" (مسند احمد:5/244 ، مسند البزار/3282 ، المعجم الکبیرللطبرانی :21/84، صحیح الجامع /3014 کے اندر علامہ البانی نے اسے حسن قراردیاہے)۔
ناشکراشیطان کے دام فریب کا شکارہوتاہے : جو آدمی ناشکری کرتاہے وہ دراصل شیطان کے دام فریب کا شکارہوتاہے ، جو کہ ہمیشہ آدمی کو اللہ کے شکر سے دوررکھنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور یہی اس کا مشن ہے ، اس چیز  کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتاہے :( قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ * ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ)  (سورۃ الاعراف/16-17)  (تم نے جو مجھے گمراہ کیاہے اس کی سبب میں ان کے لئے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا ۔ پھر ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے (ان کو گمراہ کرنے کے لئے)  ان پر حملہ کروں گا ، اورآپ ان میں سے اکثرکو شکرگزار نہ پائیں گے)۔
ناشکری کے اسباب :  ناشکری کے مختلف اسباب ہیں جن میں سے چندکا ذکر کرہاہوں  :
*  نعمت کی ناقدری : نعمت کی ناقدری انسان کو ناشکرا بنادیتاہے ، کیونکہ جو آدمی اللہ کی نعمتوں کی قدر  کرنا جانتاہے وہ کبھی ان کی ناشکری نہیں کرتا۔
*  لالچ وطمع : انسان کو خوب زیادہ پانے کی لالچ اس قدرہوتی ہے کہ جو نعمتیں اللہ رب العزت نے اسے دے رکھی ہیں اسے بھول بیٹھتاہے اور اپنے دل کو زیادہ سے زیادہ کے حصول میں مشغول کرلیتاہے ، جس کی وجہ سے اس کے اندر ان نعمتوں کی ناشکری پیدا ہوجاتی ہے ۔
* عدم قناعت : جب کسی آدمی کے اندر قناعت کی صفت  مفقود ہو تو وہ ہمیشہ اپنے سے بہتر کی طرف دیکھتاہے ، جس سے کے اپنے پاس موجود نعمت کی قدراس کے دل سے نکل جاتی ہے اور وہ ناشکری کی بیماری میں مبتلا ہوجاتاہے۔
* اللہ کی پکڑسے خود کو محفوظ سمجھنا :  جب  کوئی کمزور ایمان کا آدمی   بڑے بڑے سرکش اور کفار کو دولتوں  اور عیش وعشرت میں کھیلتا ہوا دیکھتاہے تو اپنے پاس موجودتھوڑی سی نعمت کو حقیر سمجھتے ہوئےخود کو اللہ کی پکڑسے محفوظ سمجھتاہے اور یہ سمجھ بیٹھتاہے کہ پکڑ تو صرف ان لوگو ں کی ہوگی جن کو اللہ تعالی نے بےشمار دولت دے رکھی ہے ۔ جس سے  وہ ان  نعمتوں کی قدربھول بیٹھتا جو اس کے پاس ہے ۔
*   عبرت ونصیحت سے دوری :مؤمن کی ایک  اہم صفت ہے کہ وہ حالات واقعات اور حوادث سے عبر ت پکڑکراپنی حالت پر اللہ کا شکر ادا کرتاہے ، لیکن جو آدمی کسی قوم کی تباہی وبربادی اور ان کی نعمتوں کی محرومی کے اسباب سے عبرت نہیں لیتا اس کے اندر ناشکری پیدا ہوجاتی ہے ۔
*  تکبر و گھمنڈ :  اپنے پاس موجود نعمتوں او ردولت وثروت اور علم وحرفت میں تکبر انسان کو اللہ کے شکر سے دور کردیتاہے، اور وہ خود کو ان چیزوں کا ایسا اہل سمجھتاہے کہ یہ ساری چیزیں صرف اور صرف اس کی اہلیت اور تدبیر کی بناپر ہی حاصل ہوئی ہیں ۔ قارو ن  جس کو اللہ تعالی نے بے شمار دولت دے رکھی تھی  ، جب لوگوں نے اسے اس کے تکبر اور گھمنڈ پر نصیحت کیا تو  اس کہا:( إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِندِي) (سورۃ القصص/78) (یہ سب کچھ مجھے میری سمجھ بوجھ کی بناپر دیاگیاہے )  ،چنانچہ اللہ تبار ک وتعالی نےاسے  اس کے اسی گھمنڈ کی وجہ تباہ وبرباد کردیا اور اس کو  اس کے محل اورخزانوں کے ساتھ  زمیں بوس کر دیا۔
* اللہ کی کتاب اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری : جو آدمی کتاب وسنت سے دور ،صراط مستقیم سےمنحرف اور اللہ ورسول کی اطاعت سے دور  ہوتا ہے  اس کے اندر بددینی کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت کی نعمتوں  ناقدری بھی پیدا ہوجاتی ہے ۔ دراصل ناشکری بھی ایک طرح کی بد دینی ہے ۔
ناشکری کے کلمات :   ناشکری کے لئے  علاقہ اور اسلوب کے اعتبار سے مختلف قسم کے الفاظ ہیں   جیسے : بہت تنگی میں کٹ رہی ہے ۔ اللہ نے ہمیں بہت کم دے رکھاہے ۔فلاں کے مقابلے ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے ۔ میرے ماں باپ نے ہمارے لئے کچھ بھی نہیں چھوڑا۔اللہ نے تمہیں تو بہت کچھ دے رکھاہے (دبےلفظوں میں اپنی حالت کا اظہار اور اس پر افسوس کرنا مقصود ہوتاہے۔) ۔ میرا شوہر کہاں  کماتا ہے ۔ بیٹے کی آمدنی بہت کم ہے ۔ گھرکا خرچہ چلانا مشکل ہے ۔ وغیر ہ وغیرہ ۔
 زبانی اظہار کے علاوہ  اپنے رہن سہن کے طریقوں سے بھی آدمی ناشکری کا اظہار کرتاہے ، خود کے اوپر ایسی مسکینیت طاری کررکھاہوتاہے کہ لوگ اسے حقیر اور گھٹیا سمجھنے لگتے ہیں، جب کہ اللہ تبارک وتعالی نے اگر کسی کو کسی نعمت سے نواز رکھاہے تو اس کا اثر بھی اس کے اوپردیکھنا پسند فرماتاہے ، عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" إنَّ اللَّهَ يُحبَّ أن يَرى أثرَ نعمتِه علَى عبدِه" " اللہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھنا پسند کرتا ہے" (سنن الترمذی /2819 علامہ البانی نے اسے صحیح سنن الترمذی کے اندر "حسن صحیح "قراردیاہے
مالک بن نضلۃ الجشمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک معمولی کپڑے میں آیا تو آپ نے فرمایا "کیا تم مالدار ہو؟"  میں نے عرض کیا: جی ہاں مالدار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"کس قسم کا مال ہے؟" تو انہوں نے کہا: اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام (ہر طرح کے مال سے) اللہ نے مجھے نوازرکھا ہے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" فَإِذَا آتَاكَ اللَّهُ مَالًا فَلْيُرَ أَثَرُ نِعْمَةِ اللَّهِ عَلَيْكَ وَكَرَامَتِهِ " "جب اللہ نے تمہیں مال و دولت دیا ہے تو اللہ کی نعمت اور اس کے اعزاز واکرام  کا اثر تمہارے اوپر نظر آنا چاہیئے"۔ ( سنن ابی داود/4063، سنن کبری للنسائی /5225 ، مسند احمد:3/473، 4/137، علامہ البانی نے اس  کی سند کو صحیح قراردیاہے)۔
چنانچہ جس کے اوپر  اللہ کی دی ہوئی نعمت کا اظہارنہ ہو وہ ناشکرے پن کا شکارہوتاہے۔
اسی طرح اللہ کی نعمت کو غیر شرعی امورمیں استعمال اورخرچ کرکے اس کی ناقدری  کی جاتی ہے، کیونکہ اسے وہ نعمت  اللہ کی راہ میں اس کی خوشنودی کے لئے خرچ کرنے کے لئے ملا ہے  ۔
    اس لئے اسےعباد وبلاد کی بھلائی میں خرچ کرنا اللہ رب العزت کا شکر کرنا ہوا ، چنانچہ جو آدمی بھلائی کے کاموں میں خرچ نہیں کرتاوہ ناشکرا ہوتاہے ۔
اللہ رب العزت ہمیں نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ناشکری اور کفران نعمت جیسے گناہ ومعصیت سے بچائے۔ وصلی اللہ علی خیر خلقہ وسلم ۔
**********


کوئی تبصرے نہیں: