اتوار، 5 جولائی، 2020

شکر گزاری اور اس کے احکام وفوائد



     نعمتوں کے حصول پر اللہ تبارک وتعالی  کا شکر انسان کی ان  بہترین صفات اور خصوصیات میں سے ایک ہے جو اسے ایک لائق وفائق بندے کے زمرے میں لاکھڑاکرتاہے ، بندے کی بندگیت کا صحیح اندارزہ بھی اسی سے ہوتاہے کہ وہ نعمتوں کی قدر کرکے اس پر کس قدر شاکرہوتاہے ، بلکہ اللہ تعالی نے جگہ جگہ(لعلكم تشكرون)کہہ کر اپنے بندوں کو شکر کاخوگر بننے کی تعلیم دیاہے۔ ذیل میں ہم اسی صفت حسنہ کے بارے میں چندکلمات پیش کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ اس کی اہمیت اور فوائد سے مستفید ہوسکیں ۔
:شکرکا مطلب ہوتا ہے نعمت کا عرفان ، اس کا اظہار اور اسے عطاکرنے والے کی تعریف۔شکرکا معنی 
: شکر کی کئی تعریفیں کی جاتی ہیں : شکرکی تعریف
1-  احسان کا عرفان اور اس کا بیان   ۔
2 -   انعام کرنے والے کے انعام کاخندہ پیشانی کے ساتھ اعتراف کرنا۔
3-امام ابن القیم نے شکر کی تعریف  ایسے کی ہے : " اللہ کی نعمت کے اثرکا   اس کےبندے کی زبان پر تعریف اور اعتراف کے ذریعہ ، اور اس کے  دل کے دل پرمحبت وشہادت کے ذریعہ اور اس کے جوارح اور اعضاء پر طاعت وفرمانبرادری کے ذریعہ  ظہور" (مدارج السالكين :2/ 244)۔
شکرکی قسمیں :     شکر دو طرح کا ہے ایک    اللہ تعالی کا شکر  اور دوسرا بندوں کا شکر، بندوں میں جس نے بھی آدمی کے ساتھ خیرکا معاملہ کیاہو اس کا شکریہ ادا کرنا    مشروع ہے ،  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"لا يَشْكُرُ اللَّهَ مَنْ لا يَشْكُرُ النَّاسَ" "جو لوگوں کا شکریہ ادا نہ کرے اس نے اللہ کا شکرنہیں کیا" (سنن ابی داود/4811، علامہ البانی نے اسے صحیح قراردیاہے)۔
اللہ تعالی فرماتاہے : ( وَوَصَّيْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ ) (سورۃ لقمان /14)  (ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے ، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھاکراسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے ، کہ تو مییری اور اپنے ماں باپ کی شکرگزاری کرو تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کرآناہے)۔ارکان شکرکےارکان :شکرکی مذکورہ تعریف کی بنیادپر پتہ چلا کہ شکر کے تین ارکان ہیں :
1 -  دل سے اللہ کی نعمت کا اعتراف واقرار، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیں بارش ہوئی  تو آپ نے فرمایا:" أصبح من الناس شاكر ومنهم كافر، قالوا: هذه رحمة الله. وقال بعضهم: لقد صدق نوء كذا وكذا"    " کچھ لوگوں نے شکر کی حالت میں صبح کیا اور کچھ نے کفرکی حالت میں ، (جنہوں نے شکر کی حالت میں صبح کیا انہوں نے) کہا: یہ اللہ کی رحمت ہے اور ان میں سے کچھ (جنہوں نے کفرکی حالت میں صبح کیا) نے کہا: فلاں نچھتر(یاستارے) کی وجہ سے بارش ہوئی"۔(صحیح مسلم/73)۔
2 – اس نعمت کوبیان کرنا اور انعام کرنے والےکی ثناءخوانی ، اللہ تعالی فرماتاہے: (وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ) (سورۃ الضحی /11)۔ (اپنے رب نعمت کو بیان کرتارہ)۔
3 – اس نعمت کو انعام کرنے والے کی اطاعت وفرمانبرداری میں صرف کرنا، جیساکہ  داود علیہ السلام کی آل کو  اللہ تعالی نے جو مختلف نعمتیں عطاکررکھی تھیں اس پر انہیں حکم دیتےہوئے ارشاد فرماتاہے: (اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا) (سورۃ  السبإ /13) (آل داود اس  کے شکریہ میں نیک عمل کرو)۔  اس آیت کریمہ کے اندراللہ تعالی نے آل داود کو اپنی طرف سے عطاکردہ نعمتوں پر اطاعت وفرمانبرداری کے ذریعہ شکر بجالانے کاحکم دیاہے ۔
 شکراور حمد میں فرق :  بعض  علماء نے  حمد اور شکردونوں  کو ایک  معنی میں شمار کیاہے لیکن بعض نے دونو ں کے اندر کچھ فرق لکھاہے جیسے:
1 –شکر کا تعلق اعضاء و جوارح  اور عمل سے ہے ، جبکہ حمد کا تعلق جوارح سے نہیں ہے بلکہ صرف زبان اور دل سے ہے ، اسی لئے سجود الشکر کہاجاتاہے  سجود الحمد نہیں کہاجاتا۔ ابن الملقن کے بقول :" شکر حمد سے عام ہے  اس کا تعلق زبان اور اعضاء سے ہے جبکہ حمد کا تعلق صرف زبان سے ہے "۔
2 – شکرکا نقیض  کفریا کفران ہے, اور حمد کا نقیض ذم ہے ۔
3-  وقوع کے اعتبار سے حمد شکر سے عام ہے کیونکہ حمدکا وقوع لازم ومتعدی دونوں صفات پر ہوتاہے، صفات لازمہ کی مثال : (الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)  (سورۃ الفاطر/1)  (اس اللہ کے لئے تمام تعریفیں سزاوارہیں جو (ابتداء) آسمانوں اور زمینوں کا پیداکرنے والااور دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتوں کو اپنا قاصد بنانے والاہے ۔ مخلوق میں جو چاہے زیادتی کرتاہے ۔ اللہ تعالی یقینا ہر چیز پرقادرہے) ۔

 اور متعدیہ کی مثال : (الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْآخِرَةِ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ) (سورۃ  السبإ/1)  ( اس اللہ کے لئے تمام تعریفیں ہیں جس کی ملکیت میں وہ سب کچھ ہے جو آسمان اور زمین میں ہے ، آخرت میں بھی تعریف اسی کے لئے ہے ، وہ بڑی حکمتوں والااور پورا خبردارہے)۔
اور شکرکا وقوع صرف صفات متعدیہ پر ہوتاہے، جیسے کہاجاتاہے :" میں نے اس کے فضل اور کرم کی وجہ سے اس کا شکریہ اداکیا"۔
4-  ابن العراقی سے منقول ہے :  حمد صرف علم کی بنیاد پرہی ہوتاہے جبکہ شکر بسا اوقات ظن کی بناپر بھی ہوتاہے۔(تفصیل کے لئے دیکھئے: التحبیر شرح التحریر للمرداوی :1/47-49 /باختصار)۔
5 -  امام ابن القیم رحمہ اللہ  حمد وشکر کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں : "الحمد أخص من الشكر موردًا، وأعم منه متعلقًا، فمورد الحمد اللسان فقط، ومتعلقه النعمة وغيرها، ومورد الشكر اللسان والجنان والأركان، ومتعلقه النعمة، والفرق بينهما: أن الشكر أعم من جهة أنواعه وأسبابه، وأخص من جهة متعلقاته، والحمد أعم من جهة المتعلقات، وأخص من جهة الأسباب"۔ " حمدمورد کے اعتبارسے شکر سے خاص ہے اور نعمت کے اعتبارسے عام ، اور دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ  شکراپنے انواع اور اسباب کے اعتبار سے عام اور اپنے متعلقات کے اعتبارسے  خاص ہے، اور حمد متعلقات کے اعتبار سے عام اور اسباب کے اعتبارسے خاص ہے "۔(مدارج السالكين، 2/ 246)
شکرکے ذرا‏ئع : شکرکے چند ذرا‏ئع  ہیں  :
*  خیرو انعام کرنے والے کی محبت کے ساتھ ساتھ نعمت کا اعتراف ۔
*  اللہ کی ثناء کے ساتھ ساتھ تحدیث نعمت ۔
*  نعمت کو اللہ کی طاعت  اوراس کی رضاکے لئےخرچ کرنا اور معصیت وگناہ کے کاموں میں  خرچ کرنے سے پرہیز کرنا ۔

شکر اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے : قرآن مجید میں کئی مقامات پر  اللہ تعالی نے اپنے لئے"شاکر " اور "شکور" جیسے صفات کا ذکرکیاہے ، فرماتاہے: ( إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ) (سورۃ البقرۃ/158)  (صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ، اس لئے بیت اللہ کا حج اور عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کرلینے میں بھی کوئی گناہ نہیں ۔ اپنی خوشی سے کرنے والوں کا اللہ قدردان ہے اور انہیں خوب جاننے والاہے )۔
ایک جگہ فرماتاہے: (إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ) (سورۃ الشوری/23) (بے شک اللہ تعالی بہت بخشنے والا (اور ) بہت قدردان ہے)۔
دوسری جگہ فرماتاہے: (وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ) (سورۃ التغابن/17) (اللہ بڑا قدردان اور بہت بردبارہے)۔
 اسی طرح حدیث میں بھی اللہ کے لئے شکر کی صفت کا استعمال ہواہے  ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" " بينا رجل يمشي فاشتد عليه العطش، فنزل بئرا فشرب منها، ثم خرج، فإذا هو بكلب يلهث ياكل الثرى من العطش، فقال: لقد بلغ هذا مثل الذي بلغ بي، فملا خفه، ثم امسكه بفيه، ثم رقي، فسقى الكلب، فشكر الله له، فغفر له، قالوا: يا رسول الله، وإن لنا في البهائم اجرا، قال: في كل كبد رطبة اجر" "ایک شخص جا رہا تھا کہ اسے سخت پیاس لگی، اس نے ایک کنویں میں اتر کر پانی پیا۔ پھر باہر آیا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہا ہے۔ اس نے اپنے دل میں کہا، یہ بھی اس وقت ایسی ہی پیاس میں مبتلا ہے جیسے ابھی مجھے لگی ہوئی تھی۔ چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے چمڑے کے موزے کو پانی سے بھر کر اسے اپنے منہ سے پکڑے ہوئے اوپر آیا، اور کتے کو پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس کام کو قبول کیا اور اس کی مغفرت فرمائی"۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا ہمیں چوپاؤں پر بھی اجر ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" ہر جاندار میں ثواب ہے"۔  (صحیح بخاری/2363، صحیح مسلم/2244)۔
اللہ تعالی کاشکر کرنے کا مطلب :اللہ تعالی کا  " شاکر"  اور"  شکور" ہونے کا مطلب ہے " بہترین بدلہ دینے والا ،  ثناء جمیل کرنے والا ، اس کی قدرکرنے والا ،  اسی طرح  بند ے کا تھوڑا  عمل  بھی  اس کے نزدیک بڑھتارہتاہے اور اسے اس کا کئی گنا زیادہ اجر دیتاہے ۔ اسی طرح اللہ کا بندے کا شکر کرنے کا مطلب ہوتاہے کہ وہ اس کی مغفرت فرماتاہے ۔ اور جب کسی کے لئے  کہاجاتاہے " شكر الله سعيه " تو اس کا مطلب ہوتاہے " اللہ تعالی اس کو اس کا بہترین بدلہ دے"(دیکھئے : لسان العرب اور لغۃ کی دیگر کتابیں )۔
انبیاء کرام اور شکر : شکرکرنا انبیاء کرام علیھم السلام کی صفات میں سے ہے ، نوح علیہ  السلام کے سلسلےمیں اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے : ( ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا ) (سورۃ الاسراء/3)  (اے ان لوگوں کی اولاد ! جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ  سوارکردیاتھا ، وہ ہمارابڑاہی شکرگزاربندہ تھا)۔
ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرماتاہے : ( إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ * شَاكِرًا لِّأَنْعُمِهِ ۚ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )  (سورۃ النحل /120- 121)  (بے شک ابراہیم پیشوااور قائد اوراللہ تعالی کے مخلص مطیع وفرمانبردارتھے ۔ وہ مشرکوں میں سے نہ تھے ۔ اللہ کی نعمتوں کے شکرگزارتھے ، اللہ نے انہیں اپنابرگزیدہ کر لیاتھا ، اورانہیں صراط مستقم پر گامزن کردیاتھا)۔  
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم   قیام اللیل اس قدرطویل کرتے کہ آپ کے قدم کے اندر ورم آجاتا، جب آپ سے اس  کے بارے میں پوچھا جاتاتو فرماتے:" أفلا أكون عبدا شكورا؟ " "کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں ؟" (صحیح بخاری/4837، صحیح مسلم/28199) ۔

شکر کا حکم : اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو مختلف مقامات پر شکر کرنے کا حکم دیاہے، ارشاد فرماتاہے:( فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ ) (سورۃ البقرہ/152)  (تم میراذکرکرومیں بھی تمہیں یادکروں گا ، میری شکرگزاری کرو اور ناشکری سے بچو)۔
نیزفرماتاہے: (أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ ) (سورۃ لقمان /14)  (کہ تو مییری اور اپنے ماں باپ کی شکرگزاری کرو تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کرآناہے)۔ 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرماتاہے : ( وَلَقَدْ أُوْحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الذين مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الخاسرين . بَلِ الله فاعبد وَكُن مِّنَ الشاكرين ) (سورۃ الزمر/65-66)  (تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے تمام نبیوں کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگرتونے شرک کیاتو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہوجائےگااور بالیقین تونقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائےگا ۔ بلکہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور شکر کرنے والوں میں سے ہوجا)۔ 
موسی علیہ السلام کو کو حکم دیتے ہوئے فرماتاہے :( يَا مُوسَىٰ إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالَاتِي وَبِكَلَامِي فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ ) (سورۃ الاعراف/144)  ( اے موسی ! میں نے پیغمبری اور اپنی ہم کلامی کے ذریعہ تم کو دیگر لوگوں پر امتیازدے رکھا ہے ، تو جوکچھ بھی میں نے تم کو عطاکیاہے اس کو لواور شکرکرو)۔

داود علیہ السلام کی اولاد کو شکر کرنے کا حکم دیتے ہو‏ئے فرماتاہے : (اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا) (سورۃ  السبإ /13) (آل داود اس  کے شکریہ میں نیک عمل کرو)۔ 
اورمومنوں کا اس کا کو حکم دیتے ہوئے فرماتاہے: ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ) (سورۃ البقرہ/172)  (اے ایمان والو! جوپاکیزہ روزی ہم نے تم کودے رکھی ہے انہیں کھا‏ؤپیواور اللہ کا شکرکرو، اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے ہو)۔
شکرکی اہمیت  اور اس کے فوائد وثمرات :
شکرکرنا مؤمنوں کی خاصیت ہے:صحیح مسلم کے اندر صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ؛ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ" " مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ اس کا سارا معاملہ خیرکاہے ، اور یہ صرف ایک مؤمن کا ہی خاصا ہے ، اگر اسے خوشی پہنچتی ہے تو وہ شکرکرتاہے تو یہ اس کے لئے خیرہے ، اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتاہے تو یہ اس کے لئے خیرہے"۔(صحیح مسلم/2999)۔
شکر کرنااللہ کو پسندہے : اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے:( وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ  )  (سورۃ الزمر/7)  (اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لئے پسند کرےگا)۔
شکرکرنے سے اللہ کی رضامندی حاصل ہوتی ہے:انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"إنَّ اللَّهَ لَيَرْضَى عَنِ العَبْدِ أَنْ يَأْكُلَ الأكْلَةَ فَيَحْمَدَهُ عَلَيْهَا، أَوْ يَشْرَبَ الشَّرْبَةَ فَيَحْمَدَهُ عَلَيْهَا" (صحیح مسلم/2734) "اللہ تعالی اس بندے سے راضی ہوتاہے جو کچھ کھاتاہے تو اس پر اس کی تعریف کرتاہے ، یا کچھ پیتاہےتو اس پراس کی تعریف کرتاہے"۔
شکرعذاب سے بچاؤ ہے : اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے: ( مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآَمَنْتُمْ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا) (سورۃالنساء/147)  (اگرتم شکرگزاری کرتے رہو اور باایمان رہوتو تمہیں عذاب ےکرکیاکرےگا ، اللہ تعالی (تمہارے تھوڑے عمل کابھی) بہت قدرکرنے والا اور(تمہاری نیتوں کا)  پورا علم رکھنے والاہے) ۔
امام قتادہ اس کی تفسیرکرتے ہوئے فرماتےہیں : "إن الله جل ثناؤه لا يعذِّب شاكرًا ولا مؤمنًا" " اللہ تعالی کسی شکرگزاربندے اور مومن کو عذاب نہیں دےگا"  (تفسير الطبري: 9/342)
امام حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے :" إن الله ليُمَتَّعُ بالنعمة ما شاء، فإذا لم يشكر عليها قلبها عذابا"" اللہ تعالی جسے چاہتاہے اپنی نعمت عطاکرتاہے ، چنانچہ جب وہ اس پر شکر نہیں کرتاتو اسے عذاب  او رسزامیں بدل دیتاہے"۔
 اسی وجہ سے سلف شکرکو "حافظ " یعنی "حفاظت کا ذریعہ" اور"جالب" یعنی "نعمتوں کو لانے والا" کہاکرتےتھے ، کیونکہ جو نعمتیں موجود ہوتی ہیں شکرکرنے سے اس کی حفاظت ہوتی ہے ، جو نہیں ہوتی ہیں شکر سے وہ پائی جاسکتی ہیں ۔(دیکھئے: عدة الصابرين وذخيرة الشاكرين /ص100) ۔
شکرسے نعمتوں میں اضافہ ہوتاہے: اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے: ( إِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ ) (سورۃ ابراھیم/7)  (جب تمہارے پروردگارنے تمہیں آگاہ کردیاکہ اگر تم شکرگزاری کروگے تو بےشک تمہیں زیادہ دوں گا ، اور اگر ناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے )۔  
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا اثرہے انہوں نے ھمدان کے ایک آدمی سے کہا: " إِنَّ النِّعْمَةَ مَوْصُولَةٌ بِالشُّكْرِ، وَالشُّكْرُ مُتَعَلِّقٌ بِالْمَزِيدِ، وَهُمَا مَقْرُونَانِ فِي قَرْنٍ، وَلَنْ يَنْقَطِعَ الْمَزِيدُ مِنَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى يَنْقَطِعَ الشُّكْرُ مِنَ الْعَبْد"  ۔ " نعمت شکر سے ملتی ہے  اور شکر مزید سے متعلق ہے اور وہ (نعمت اور شکر ) دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ،  اللہ رب العزت کی طرف مزید (نعمتیں ) اس وقت تک نہیں بند نہیں ہوتیں جب تک کہ بندہ کی طرف سے شکر نہ بند ہوجائے"۔(البیہقی شعب الایمان :6/296 /رقم 4214 ،کتاب الشکر لابن ابی الدنیا/ 18  ، عدة الصابرين وذخيرة الشاكرين  لابن القیم: ص100) ۔
 شکرکا فائدہ خود انسان اور اس کے معاشرے  کو پہونچتاہے : اللہ تعالی لقمان علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرماتاہے :(وَلَقَدْ آَتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ وَمَنْ يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ)  ( سورۃ لقمان/12)  (ہم نے یقینا لقمان کو حکمت دی تھی کہ تو اللہ کا شکر اداکر۔ ہر شکر کرنے والا اپنے ہی نفع کے لئے شکر کرتاہے جوبھی ناشکری کرے وہ جان لے کہ اللہ تعالی بے نیاز اور تعریفوں والاہے)۔
شکرگزار کا ثواب صبرکرنے والے روزہ دار کی طرح  ہوتاہے:ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" الطاعمُ الشَّاكرُ بمنزلةِ الصائمِ الصابر" " کھاکر شکر کرنے والا صبر کرنے والے روزہ دارکی طرح ہے " ۔ (صحیح بخاری/5461 –تعلیقا ، سنن الترمذی /2486 ، سنن ابن ماجہ/1764، مسند احمد/7793 ، علامہ البانی نے اسے صحیح قراردیاہے)۔
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے آدمی کو جو کچھ بھی  کھاکراللہ رب العزت کی تعریف وحمد اور شکر اداکرتاہےصابرروزہ دارکے مقام پہ رکھاہے، یعنی ان میں سے ہرایک  اجر کا مستحق ہے ۔ یہاں "منزلۃ " سے مراد یہ ہے کہ دونوں اللہ کی اطاعت میں ہیں ۔ اور ایک معنی یہ بھی بیان کیاجاتاہے کہ دونوں اجر میں برابرہیں ۔

آخرت میں شکرکا بہترین بدلہ ہے : اللہ تعالی فرماتاہے : ( وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ  )  (آل عمران/145)  (ہم شکرکرنے والوں کو بہت جلد نیک بدلہ دیں گے)۔ 
نیزفرماتاہے: ( وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ ) (آل عمران/144) (عنقریب اللہ تعالی شکرگزاروں کو نیک بدلہ دےگا)۔
شکر گزاری کا بدلہ جنت میں ایک گھرہے:  ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
"إذا ماتَ ولَدُ العبدِ قالَ اللَّهُ لملائِكتِهِ قبضتم ولدَ عبدي فيقولونَ نعم فيقولُ قبضتُم ثمرةَ فؤادِهِ فيقولونَ نعم فيقولُ ماذا قالَ عبدي فيقولونَ حمِدَكَ واسترجعَ فيقولُ اللَّهُ ابنوا لعبدي بيتًا في الجنَّةِ وسمُّوهُ بيتَ الحمْدِ " " جب بندے کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے: تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کر لی؟ تو وہ کہتے ہیں: ہاں، پھر فرماتا ہے: تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا؟ وہ کہتے ہیں: ہاں۔ تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے: میرے بندے نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں: اس نے تیری حمد بیان کی اور(إنا لله وإنا إليه راجعون)  پڑھا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو" ۔ (سنن الترمذی /1021 ،مسنداحمد:4/415 ، بعض محدثین نے اس کی سند کو ضعیف قراردیاہے لیکن علامہ البانی نے صحیح سنن الترمذی/1021  اور سلسلہ صحیحہ 1408 کے اندر شواہدکی بنیاد پر حسن  قراردیاہے)۔
شکرکیسے اداکریں ؟   شکر یہ ادا کرنے کے بہت سارے طریقے ہیں جن میں چندکا ذکر درج ذیل ہے :
-  جس نے بھلائی کی اس  کا زبانی شکریہ ادا کرکےاور اس کے لئے دعاء کرکے : عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" مَنْ صَنَعَ إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُونَهُ فَادْعُوا لَهُ حَتَّى تَرَوْا أَنَّكُمْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ" ۔ " جو تمہارے ساتھ بھلائی کرے تم اس کا بدلہ دو، اگر تم بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ پاؤ تو اس کے حق میں اس وقت تک دعا کرتے رہو جب تک کہ تم یہ نہ سمجھ لو کہ تم اسے بدلہ دے چکے"۔ (ابوداود/1672، سنن النسائی /2568، مسنداحمد:2/68، ابن حبان/3408 الحاکم:1/572، علامہ البانی نے اس کی تصحیح کی ہے )۔

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :: " من أعطي عطاء فوجد فليجز به، فإن لم يجد فليثن، فإن من أثنى فقد شكر، ومن كتم فقد كفر" " جس کو کوئی چیز دی جائے پھر وہ بھی دینے کے لیے کچھ پا جائے تو چاہیئے کہ اس کا بدلہ دے، اور اگر بدلہ کے لیے کچھ نہ پائے تو اس کی تعریف کرے، اس لیے کہ جس نے اس کی تعریف کی تو گویا اس نے اس کا شکر ادا کر دیا، اور جس نے (احسان کو)  چھپایا  تو اس نے اس کی ناشکری کی۔  " (سنن ابی داود/4813، سنن الترمذی /2034 علامہ البانی نے اس کی سند کو حسن قراردیاہے)۔
اوراسامہ ابن زید کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "من صنع إليه معروف فقال لفاعله: جزاك الله خيرا فقد أبلغ في الثناء"۔" جس شخص کے ساتھ کوئی بھلائی کی گئی اور اس نے بھلائی کرنے والے سے "جزاك الله خيراً"  "اللہ تعالیٰ تم کو بہتر بدلہ دے کہا، اس نے اس کی پوری پوری تعریف کر دی" ۔ (سنن الترمذی /2035، سنن الکبری للنسائی /10008، ابن حبان/3413 ، علامہ البانی نے اس کی سند کو صحیح قراردیاہے ) ۔

-  اللہ کی نعمتوں میں غوروفکرکرکے:  اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے: ( وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالأبْصَارَ وَالأفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ) (سورۃ النحل/78) (اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں  سے نکالاہے ، اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتےتھے، اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائےکہ تم شکرگزاری کرو)۔  
اللہ سے تقوی اختیار کرکے اور اس کی اطاعت کرکے : اللہ تعالی فرماتاہے:( وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ) (سورۃ آل عمران /123)  (جنگ بدرمیں اللہ تعالی نے عین اس وقت تمہاری مدد فرمائی تھی جب تم نہایت گری ہوئی حالت میں تھےاس لئے اللہ ہی ڈروتاکہ تمہیں شکرگزاری کی توفیق ہو)  
ابن اسحاق اس معنی بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں :" أي: فاتقوني؛ فإنه شكر نعمتي" "یعنی : مجھ سے ڈروکیونکہ یہی میری نعمت کا شکریہ ادا کرناہے"(السیرۃ:3/113)۔  
-  اللہ کی تقسیم پر قناعت ورضا مندی کے ذریعہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "كن قنعا تكن أشكر الناس"" قانع بن جاؤ، لوگوں میں سب سے زیادہ شکر کرنے والے ہو جاؤ گے"(سنن ابن ماجہ /4217 ، علامہ البانی نے سلسلہ صحیحہ/930 کے اندر شواہد کی بنیاد پر حسن قراودیا ہے )۔  
سجدہ شکر کے ذریعہ : ابو بکرہ نفیع بن الحارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :  "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا جاءه أمر بشر به خر ساجدا؛ شاكرا لله" " اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی خوشی کی بات آتی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی خوشخبری سنائی جاتی تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے" (ابو داود/2774،ترمذی /1548، ابن ماجہ/1394، علامہ البانی نے اسے صحیح قراردیاہے)۔
نعمت کا اظہار کرکے : عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" إنَّ اللَّهَ يُحبَّ أن يَرى أثرَ نعمتِه علَى عبدِه" " اللہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھنا پسند کرتا ہے" (سنن الترمذی /2819 علامہ البانی نے اسے صحیح سنن الترمذی کے اندر "حسن صحیح "قراردیاہے
مالک بن نضلۃ الجشمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک معمولی کپڑے میں آیا تو آپ نے فرمایا "کیا تم مالدار ہو؟"  میں نے عرض کیا: جی ہاں مالدار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"کس قسم کا مال ہے؟" تو انہوں نے کہا: اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام (ہر طرح کے مال سے) اللہ نے مجھے نوازرکھا ہے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" فإذا آتاك الله مالا، فلير اثر نعمة الله عليك وكرامته" "جب اللہ نے تمہیں مال و دولت دیا ہے تو اللہ کی نعمت اور اس کے اعزاز کا اثر تمہارے اوپر نظر آنا چاہیئے"۔ ( سنن ابی داود/4063، سنن کبری للنسائی /5225 ، مسند احمد:3/473، 4/137، علامہ البانی نے اس  کی سند کو صحیح قراردیاہے)۔
نعمتوں کو معصیت اورگناہوں میں نہ استعمال کرکے: شکر کا تقاضہ یہ ہے کہ جب اللہ رب العزت نے کسی کو مال ودولت  یا کسی نعمت سے نوازرکھاہے تو اس کا استعمال ناجائز اور حرام چیزوں میں نہ استعمال کرے ،  اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ رب العزت اپنی ان نعمتوں کو بارے میں اس سے سوال کرنے والاہے کہ اس نے انہیں کہاں سے حاصل کیااور کہاں خرچ کیا؟۔
شکرکے لئے خصوصی دعائیں : انسان کے اندر شکر کی صفت پیدا ہو اور وہ ایک شاکر بندہ بنے اس کے لئے کوشش کے ساتھ ساتھ شریعت میں بہت  ساری دعا‏ؤں کی طرف رہنمائی  کی گئی ہے ، جن میں سےچند کا ذکر ذیل میں کیا جارہاہے:
معاذ بن جبل رضی اللہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے  ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:" يَا مُعَاذُ واللَّهِ إِنِّي لأُحِبُّكَ، ثُمَّ أُوصِيكَ يَا مُعاذُ لاَ تَدَعنَّ في دُبُرِ كُلِّ صلاةٍ تَقُولُاللَّهُم أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ، وحُسنِ عِبَادتِك  " " اے معاذ! اللہ کی قسم ، میں تم سے محبت کرتا ہوں، اے معاذ! پھر میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں: ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنا کبھی نہ چھوڑنا"اللهم أعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك" "اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اور اپنی بہترین عبادت کے سلسلہ میں میری مدد فرما"۔ (سنن ابی داود /1522،سنن النسائی/1303 ، مسنداحمد:3/53 ،  علامہ البانی نے صحیح سنن ابی داود میں صحیح قراردیاہے)۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء کیاکرتےتھے: " رَبِّ أعِنِّي، ولا تُعِنْ علَيَّ، وانصُرْني، ولا تَنصُرْ علَيَّ، وامكُرْ لي، ولا تَمكُرْ علَيَّ، واهدِني، ويَسِّرِ الهُدى إليَّ، وانصُرْني على مَن بَغى علَيَّ، رَبِّ اجعَلْني لكَ شَكَّارًا، لكَ ذَكَّارًا، لكَ رَهَّابًا، لكَ مِطواعًا، إليكَ مُخبِتًا، لكَ أوَّاهًا مُنيبًا، رَبِّ تَقَبَّلْ تَوبَتي، واغسِلْ حَوبَتي، وأجِبْ دَعوَتي، وثَبِّتْ حُجَّتي، واهْدِ قَلبي، وسَدِّدْ لِساني، واسلُلْ سَخيمةَ قَلبي"  " اے میرے رب! میری مدد فرما، اور میرے مخالف کی مدد مت کر، اور میری تائید فرما، اور میرے مخالف کی تائید مت کر، اور میرے لیے تدبیر فرما، میرے خلاف کسی کی سازش کامیاب نہ ہونے دے، اور مجھے ہدایت فرما، اور ہدایت کو میرے لیے آسان کر دے، اور اس شخص کے مقابلہ میں میری مدد فرما جو مجھ پر ظلم کرے، اے اللہ! مجھے اپنا شکر گزار اور ذکر کرنے والا، ڈرنے والا، اور اپنا مطیع فرماں بردار، رونے اور گڑگڑانے والا، رجوع کرنے والا بندہ بنا لے، اے اللہ میری توبہ قبول فرما، میرے گناہ دھو دے، میری دعا قبول فرما، میرے دل کو صحیح راستے پر لگا، میری زبان کو مضبوط اور درست کر دے، میری دلیل و حجت کو مضبوط فرما، اور میرے دل سے بغض و عناد ختم کر دے" ۔(سنن ابی داود/1510، سنن الترمذی /3551، السنن الکبری للنسائی/10443، سنن ابن ماجہ/3830 ، مسند احمد/1997، علامہ البانی نے اسے صحیح قراردیاہے)۔
اسی طرح اللہ رب العزت نے اپنے انبیاء ورسل  علیھم السلام اور مومن بندوں سے شکر کی توفیق کی دعاء کرنے کا مطالبہ کیاہے ، اللہ تعالی سلیمان علیہ السلام  کے سلسلے میں فرماتاہے :( رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ) (سورۃ النمل/19)  ( اے رب تم مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر بجالاؤں جو تونے مجھ پر انعام کیاہے اور میرے ماں باپ پراور میں  نیک اعمال کرتارہوں جس سے تو راضی ہوجائے)۔
چھوٹی بڑی ہر نعمت پر شکر ادا کرنا چاہئے :  نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" مَن لا يشكرُ القَليلَ لا يَشكرُ الكثيرَ "(مسند احمد:5/244 ، مسند البزار/3282 ، المعجم الکبیرللطبرانی :21/84، صحیح الجامع /3014 کے اندر علامہ البانی نے اسے حسن قراردیاہے)۔
کم بندے ہی شکر گزارہوتے ہیں  : اللہ تعالی فرماتاہے :(وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ) (سورۃ السبا/13)  (میرے بندوں میں شکرگزارکم ہی ہوتے ہیں )۔
شیطان  اور بندے کا شکر: شیطان شکر کے مرتبہ اور اس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے  ، اس لئے بندوں کو شکر سے روکنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑتا، اسی وجہ سے جب وہ اللہ کے یہاں سے دھتکارہ گیا تو اللہ سے یہ وعدہ کیاکہ انہیں شکرگزاری سے روکےگا ، اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتاہے :( قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ * ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ)  (سورۃ الاعراف/16-17) (تم نے جو مجھے گمراہ کیاہے اس کی سبب میں ان کے لئے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا ۔ پھر ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے (ان کو گمراہ کرنے کے لئے)  ان پر حملہ کروں گا ، اورآپ ان میں سے اکثرکو شکرگزار نہ پائیں گے)۔
اللہ رب العزت سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں اپنے شکرگزار بندوں میں شامل کرے اور اپنی نعمتوں اور فضل سے سرفرازکرتارہے۔ وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم  ۔

******




1 تبصرہ:

گمنام کہا...

▷ Play Casino Site | LuckyClub Live
Lucky Club Casino is one of the UK's biggest and most trusted online gambling sites. All you have to do is sign up for a new luckyclub.live account and start playing.