بدھ، 20 دسمبر، 2023

ختنہ کا اسلامی تصوراور جسِم انسانی پر اس کے اثرات

ختنہ کا اسلامی تصوراور جسم انسانی  پر اس کے اثرات

      ڈاکٹراجئےکمار (بہارکے) معروف یورولوجسٹ Urologist (ماہرامراض تناسل بولی) ہیں جو یورولوجی سوسائٹی آف انڈیا اور انڈین میڈیکل  ایسوسیشن کےصدربھی رہ چکے ہیں ، انہوں نے اپنے  ایک انٹرویوں میں  مردوں  کے  ختنہ   circumcision  اور  اس سے ہونے والے فوائد اور موجودہ دور میں اس کی  ضرورت واہمیت  سے متعلق    مختصر لیکن جامع بات کی ہے ۔

مذکورہ انٹرویومیں ڈاکٹر موصوف نے  ختنہ کے جن فائدوں کا خصوصی طورپر  ذکرکیاہے وہ طب سے متعلق ہیں  ،انہوں نےاپنے تجربات کی بنیاد پر  واضح طورپرکہا کہ بسااوقات آدمی کے لئے کچھ ایسے طبی  حالات پیداہوجاتےہیں جن میں ختنہ ناگزیرہوجاتاہے۔ ڈاکٹرموصوف نے اس ضمن میں جن باتوں کی طرف رہنمائی کی  ان کا خلاصہ  کچھ یو  ں ہے :

بہت سارے بچوں میں ختنہ نہ کرنے کی وجہ سے  phimosis جسے عربی میں شَبَم   (یعنی چمڑی کا تنگ ہونا) کہتےہیں کی بیماری پائی گئی ہے،
جس کی وجہ سے کبھی کبھی  چمڑہ کے اندر گھاؤ یا پھر اس کے بندہوجانے یا بسا اوقات  پیشاب کرتے وقت  پیشاب کے قطرات کے اندر 
رہ جانے کی شکایت پائی جاتی ہے جو کسی  بڑی بیماری کا سبب بھی بن سکتےہیں ۔ اسی طرح بالغان کے  عضوتناسل کے چمڑے کےپھولنے اور پیشاب کا
 صحیح طریقہ  سے خارج نہ ہونے کی  پریشانی بھی درپیش ہوتی  ہے ۔خاص طور سے ان لوگوں کے اندر  جو ذیابیطس (شوگر)کی بیماری سے متاثر ہوتےہیں ،
 انفیکشن ،سوجن یا  سرخی  کی شکایت ہوجاتی ہے اور اس کے اندر سے چکنی رطوبت کا  اخراج بھی ہوتاہے جسے میڈیکل اصطلاح میں Esmegma کہا
جاتاہے، اگر ایسے لوگوں کو عضو تناسل میں ایک بار انفیکشن ہوگیا تو پھر وہ ختم نہیں ہوتاکیونکہ  ختنہ نہ کرانے کی صورت
 میں عضوتناسل کا اوپری حصہ  ہمیشہ ڈھکا رہتاہے جس سے  اس کے اندر ہوا کا گزرنہیں ہوپاتا، ایسی صورت میں  ایسے 
لوگوں کےلئے اطباء کی تخصیص کے مطابق ختنہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔
ڈاکٹر موصوف نےاپنی گفتگوکے درمیان جو  سب سے اہم بات بتائی وہ ہے ختنہ نہ کرانے کی صورت میں اگر عضوتناسل میں   Esmegma  اپنی جگہ بنالیتاہے
 تو دھیرے دھیرے  Penile cancer (عضوتناسل کا کینسر) کا سبب بن جاتاہے۔
ڈاکٹر موصوف نے یہ بھی بتایا کہ مسلم اور یہود قوم  میں  Penile cancer   کی شکایت نہیں ہوتی ،  جس کی وجہ یہ ہے  کہ ان دو مذاہب کے افراد  ختنہ کا اہتمام 
کرتے ہیں ، جبکہ  یہ معاملات    عام طور پر ہندؤوں کے اندر ملحوظ کئےگئے ہیں ، کیونکہ ان کے درمیان   کسی وجہ سے ختنہ سے دوری بنائی جاتی ہے ۔ ڈاکٹر کمار نے اس
 بات پر زور دیاکہ ختنہ کےلئے مذہب کو بیچ میں لانے سے پرہیزکرناچاہئے کیونکہ  ختنہ ایک   scientific (علمی وتجرباتی ) عمل ہے جس کا فائدہ واضح ہے ۔
حالانکہ ڈاکٹر صاحب نے لوگوں کو  مذہبی شعار  کی  بجائے  scientific  بنیادوں پر   ختنہ کرانے کا مشورہ دیا لیکن یہاں ایک بات واضح ہوکر آتی ہے کہ ختنہ کا  حکم  
اللہ تبارک وتعالی کا ایسا حکم ہے جو ہر فرد کے لئے دور رس اور  خصوصی فوائد کا حامل  ہے ۔

جیساکہ ڈاکٹرموصوف نے کہا بلا شبہ ختنہ     کا تصور اور اس پر عمل مذہب اسلام کے ساتھ بعض دیگر  قدیم مذاہب خصوصا یہودیت  میں  بھی پایاجاتاہے ، اور

 حالات  وتحقیقات نے انسان کے سامنے اس کے فوائد اور ضرورت کو  واضح کردیاہے ۔

      یہ   جان لینا چاہئے کہ ختنہ  کے طبی فوائد کے ساتھ ساتھ  اسلام اور یہودیت ہردومذاہب میں  اس کی شرعی حیثیت  بھی ہے ۔ اس کے علاوہ مسیحیت اور قدیم تمدن میں بھی اس کی حیثیت مسلم رہی ہے ۔یہودیت میں ولادت سے لے کرزیادہ سے زیادہ  سات دنوں  کے اندر ختنہ کردیاجاتاہے۔مسیحیت کے  عہدجدید میں  حالانکہ ختنہ کا مذہبی   تصور وتعامل  کے اعتبار سےکوئی شرعی   لزوم   نہیں رہا ہے  اس لئے کسی بھی گرجا یا مذہبی رہنما کی طرف سے  اپنے ماننے والوں کو اس کا پابندنہیں کیاجاتااور نہ ہی کرنے والوں کومنع کیاجاتاہے جو کسی  وجہ سے کرتےہیں ۔ حالانکہ عہد قدیم میں ان کے یہاں بعض کنیسہ  کی طرف سے مردوں کے لئے ختنہ ضروری قراددیاجاتا تھا ،بلکہ مسیحی لاہوت  کے نزدیک  کسی دور میں  ختنہ کا ایک ثقافتی پروگرام ہوا کرتاتھا۔ یہی وجہ ہےکہ آج کل مسیحی اکثریتی ممالک مثلا امریکہ ،فلپین، افریقہ ، شمالی امریکہ ، ایشیا اور مشرق وسطی  وغیرہ  میں مردوں کا ختنہ بڑے پیمانے پر رائج ہے، جبکہ مسیحی اکثریت والے یورپ ، لاتینی امریکہ اور  کیریبین (Caribbean  )  خطوں  کے مسیحیوں کے اندر اس کا رواج  بہت کم پایاجاتاہے،  البتہ ان کے یہاں ختنہ بطورنظافت کے ہے نہ کے بطور تطہیر۔(یہ معلومات  آزادویکیپیڈیا سے ماخوذہیں)۔

موضوع کی مناسبت سے ذیل کی سطور میں ہم مناسب سمجھتے ہیں  کہ   ختنہ کے اسلامی نظریہ اور اس کے احکام وفوائد سے متعلق 
مختصرگفتگوکی جائے ،کیونکہ برصغیرمیں  اسلامی تہذیب وثقافت  اور اس کے  احکام ونظام پر جو اعتراضات کئے
 جاتے ہیں  ان میں سے ایک مسلمانوں کا ختنہ
 کرانا  بھی ہے ، یہاں تک کہ بعض نفرت  پرست اور عداوت پسند افراد
کا ذہن اس معاملے میں اتنا مسموم ہوچکاہے کہ مسلمانوں کو اسی واسطے سے کٹوا جیسے الفاظ سے گالی دیتےہیں یہی نہیں
 ہندستان کے ایوان بالا تک میں اس لفظ کے ذریعہ  ذہنی دیوالیہ پن کاثبوت دیاگیا، چنانچہ ہر مسلمان کو  اس فطرتی شعار اور
 اس کے فوائد سے واقفیت ضروری ہے ۔
ختنہ کا اسلامی نظام واحکام :
اسلامی شریعت کے اندر ختنہ کو ایک فطرتی عمل قراردیاگیاہے ،  جسے سنن الفطرۃ  کا نام دیا جاتاہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ 
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" الفطرة خمس: الختان، والاستحداد، ونتف الإبط، وقص الشارب، 
وتقليم الأظفار"۔ "پانچ چیزیں فطرت سے ہیں، ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال بنانا، بغل کے بال صاف کرنا، مونچھ چھوٹی کرانا اور ناخن کاٹنا"۔ 
(صحیح البخاری/5889 ،  6297 وصحیح مسلم/257)۔ 
یہاں فطرت کا معنی ذکر کردینا مناسب ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ   شریعت میں ختنہ کے فطرتی ہونے کا کیامطلب ہے ؟ 
فطرت کا معنی خلقت جبلت اور ساخت ہے  ، نیز فطرت کا معنیٰ:طبعی حالت، دین، سنت، طریقہ، پیدائش اور وہ صفات  جس پر ہر موجود اپنی خلقت کے 
وقت ہوکا بھی ہے ۔ اسی طرح  امام ابن القیم ، امام ابن کثیر  اور امام شوکانی  وغیرہ نے فطرت کا معنی دین اسلام سے لیاہے، اوراکثر شارحین حدیث کے
 نزدنیک  مذکورہ حدیث  اور اس جیسی دیگر احادیث میں وارد فطرت سے مراد سنت ہے، جیسا کہ امام نووی نےصحیح مسلم کی شرح میں بیان کیاہے۔
  اسی طرح امام بیضاوی  نے بیان کیاہے کہ اس فطرت سے مراد سنت انبیاء سے جن کا کرنا تمام سابقہ شریعتوں میں  مشروع رہاہے ۔
(مزیدتفصیلات تفسیر  کی کتابوں میں شرح وبسط کےساتھ مذکورہیں ۔)
ختنہ کیاہے: 
ختنہ کہتےہیں: مرد کے آلہ تناسل کےگول دائری حصےکے اوپرکےزائدچمڑے کو کاٹنا۔ اورعورتوں کی اندام نہانی (vagina)  میں ایک مخصوص اوراہم جنسی  عضو 
(clitoris)کےظاہری حصےکو کاٹنا۔ مرد کے ختنے کو عربی میں إعذار  اور عورت کے ختنے کو خفض   کہاجاتاہے۔ 
عرب میں عام طورپر  ختنہ  کرانے کو "تطہیر " اور برصغیرمیں "سنت کرانا " بولاجاتاہے۔

بعض وحشی ممالک میں ختنہ کے نام پر  عضوتناسل کے  تمام چمڑوں کو چھیل دیاجاتاہے جو کہ سراسر خلاف سنت اور مختون کو تکلیف میں مبتلا کرنا ہے جبکہ شرعی

ختنہ صرف عضوتناسل کے اوپری حصے کے گول دائرے کے گرد  زائد چمڑے کوکاٹناہے ۔

ختنہ کب سے ہے:
روایتوں میں آتاہے کہ  ابراہیم علیہ السلام نے  کافی عمر گزرجانے کے بعد اسی (80) سال کی عمرمیں اپنا ختنہ کیاتھا،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"  اخْتَتَنَ إِبْرَاهِيمُ بَعْدَ ثَمَانِينَ سَنَةً، وَاخْتَتَنَ بِالْقَدُومِ"ابراہیم علیہ السلام نے اسی سال 
کی عمر میں ختنہ کرایا اور آپ نےبَسُولا  یا کلہاڑی سے ختنہ کیا"۔(صحیح البخاري /6298 وصحیح مسلم/2370)۔ 

قدوم کے کئی معانی بیان کئے گئےہیں,ایک قول کےمطابق  قدوم  شام یا سراۃ میں ایک جگہ کا نام ہےلیکن راجح قول کے مطابق بڑھئی کے لکڑی  کاٹنے کے آلہ کو  قدوم کہتےہیں ، جسے حافظ ابن حجرنے ابویعلی وغیرہ کی روایت سے استدلال کرتےہوئے راجح قراردیاہے، جس کے الفاظ ہیں :" أمِرَ إبراهيمُ فاختتنَ بقَدُوم فاشتدَّ عليه؛ فأوحى الله تعالى إليه: عجلتَ قبل أن نأمرَك بآلته قال: ياربّ كرهتُ أن أؤخّرأمرَكَ"۔ "ابراہیم علیہ السلام کو  ختنہ کا حکم دیاگيا تو انہوں نے بسولا سے اپنا ختنہ کرلیا،جس سے ان کو کافی تکلیف پہنچی  تو اللہ تعالی نے وحی کی کہ تم نے جلدبازی سےکام لیاہے  قبل اس کے کہ میں تجھے کسی ہتھیار کے بارے میں بتاؤں(   تم نے اپنا ختنہ کرلیا)۔ تو انہوں نے کہا کہ : اے  رب  ! تیرے حکم کو  مؤخر کرنا مجھے پسند نہیں تھا"۔ (دیکھئے:فتح الباری:6/390)۔

بعض مقطوع روایتوں میں آتاہے کہ ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے فردہیں جنہوں نے اپنا ختنہ کیا ، اسی طرح   ابن ابی الدنیا  ،ابن ابی عاصم اور  اورابن عساکرکی روایتوں میں بھی  ہے جن  کی تخریج علامہ البانی نے صحیحہ (725)کے اندر کیاہے اورحسن قراردیاہے۔(نیز دیکھئے:  التَّحبيرلإيضَاح مَعَاني التَّيسيرلمحمد بن اسماعیل الصنعانی:4/ 632)۔ نیز یہ بھی بیان کیاجاتاہے کہ  یہ ان آزمائشوں میں  سے ایک  تھا جن میں ابراہیم علیہ السلام کو مبتلا کیاگیاتھا  اور انہوں نے انہیں پورابھی کیاتھا،جس کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے فرمان میں کیاہے :( وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ) ۔(جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کئی باتوں سے آزمایا  اور انہوں نے سب کو پورا کردیا)۔  )البقرة/124)۔

امام بیھقی نے یہ بھی ذکرکیاہے کہ  اسماعیل علیہ السلام کا ختنہ تیرہ سال کی عمرمیں اور اسحاق علیہ السلام کا ختنہ  سات  دن میں ہواتھا۔ (السنن الکبری للبیھقی :17/ 513)۔ امام ابن القیم نے ذکرکیاہے کہ  ابراہیم علیہ السلام کے بعد بھی انبیاء کرام میں ختنہ جاری رہا یہاں تک کہ  عیسی علیہ السلام کا ختنہ بھی ہواتھا۔(دیکھئے:تحفۃ المودود/158) ۔

 اسلام میں ختنہ کاحکم : 

ختنہ کے حکم کے سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف پایاجاتاہے: شافعیہ  اور  حنابلہ  کے نزدیک  مردوں کاختنہ واجب ہے ،اسی قول کو امام ابن تیمیہ اورعلامہ ابن العثیمن  رحمھما اللہ نے اختیارکیاہے اور اسی کے مطابق سعودی عرب کی دائمی کمیٹی برائے فتاوی نے بھی اپنا   فتوی جاری  کیاہے ۔

جبکہ عورتوں کے حق میں ختنہ کی استحبابی صورت ہے جس کے قائلین حنفیہ اور مالکیہ ہیں  اور شوافع   وحنابلہ کا ایک قول بھی یہی ہے جسے امام شوکانی  ، ابن باز اور ابن العثیمین وغیرہم رحمھم اللہ نے اختیارکیاہے۔

 ختنہ کی مشروعیت کی حکمت :

خاص طور سے مردوں کے لئے ختنہ کی مشروعیت کی حکمت واضح اور مبرہن ہے کیونکہ پیشاب کے قطرات سے طہارت وپاکیزگی بغیرختنہ کےبہت ہی مشکل امرہے، کیونکہ ایسی صورت میں پیشاب کے قطرات چمڑوں کی تہہ میں جمع رہتے ہیں جو بدن اور کپڑادونوں  کی نجاست کا سبب ہیں ، یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ختنہ کے معاملے میں سختی برتاکرتے تھے یہاں تک روایت کی جاتی ہے کہ وہ کہاکرتےتھے کہ :"جس کا ختنہ نہیں  ہوا اس کا حج اور اس کی نمازمقبول نہیں" ۔(دیکھئے:المغنی لابن قدامہ:1/115)۔

اور عورتوں کےختنہ کی حکمت کےبارے میں کہاجاتاہے کہ  اس سے ان کے اندر کی شہوت کومعتدل کرنے میں مدد ملتی ہے ،  اس لئے کہ  غیرمختون  رہنے کی صورت میں  شہوت سے مغلوبیت کا شکا رہوجاتی ہیں ۔(دیکھئے : مجموع فتاوی الامام ابن تیمیہ :21/114)۔

صحت وطب کے اعتبار سے ختنہ کے فوائد:

جیساکہ مذکورہ سطور  میں صحت اور طب کے اعتبار سے ختنہ کےفوائد اور نہ کرانے کے نقصانات کے بارے میں ڈاکٹر اجئے کمار کی  باتیں گزریں ، ذیل میں ہم ان فوائد اور مزید فائدوں کا بالاختصار ذکر کردینا مناسب  سمجھتےہیں :

1 - ختنہ  نظافت اورپاکیزگی اختیار کرنے میں سہولت وآسانی کا سبب ہے۔

2 -  ختنہ کی صورت میں طہارت کی سہولت   کی وجہ سے آلہ تناسل میں انفیکشن سے بچاؤ ہوتاہے ۔

3 - پیشاب کی نلی میں انفیکشن  کے خطرہ میں کمی آتی ہے ۔متعددتحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ غیر ختنہ شدہ بچوں میں پیشاب کے
 نظام اور پیشاب کی نالی کا انفیکشن بہتعام ہے، اور کم عمری میں بچے کو شدید انفیکشن  کی وجہ سے  اس کے لئےگردے کے مسائل سمیت 
کئی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہےاور اگر انفیکشن زیادہ بڑھ جاتاہے تو مثانہ  کے اندر بھی  انفیکشن کا خطرہ رہتاہے ،جس سے پیشاب  کے
 مسائل بھی پیدا ہوسکتےہیں ۔

4 - ختنہ آلہ تناسل سے متعلق عمومی امراض سے بچاؤ   کا ذریعہ ہے جن میں  چمڑے میں کسی بھی طرح کے  مضر رطوبت کا  اخراج نیز اس میں سختی اور تناؤ  

بھی شامل ہیں  ۔

5 - ختنہ ایک بڑی بیماری  Penile cancer (عضوتناسل کا کینسر) سے بچاؤ ہے ۔

6 -  ختنہ آلہ تناسل میں خون جمنے کے عوارض سے بچاؤ ہے ۔

7 - ختنہ  جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن سےبچاؤ ہے ، کیونکہ ختنہ نہ ہونے کے سبب  عضوتناسل کے گردموجود اضافی جلد  بیکٹیریا (Bacteria)
 اور مختلف جراثیم  (Microorganism /  Germs) کے نشو ونما اور ان کی افزائش کا سبب بنتاہے جن کا  جنسی ملاپ (Sexual intercourse) 
کے وقت اپنے ساتھی کے اندر منتقل ہونے کا زیادہ خطرہ رہتاہے، کیونکہ مطالعات سے معلوم ہوا ہے کہ غیر ختنہ شدہ مردوں سے جنسی طور پر منتقل
 ہونے والی بیماریاں بہت حدتک  پھیلتی ہیں۔

8 - چونکہ حشفہ  (Glans penis  ) کے اردگرد اضافی چمڑے کی موجودگی اس کی صفائی اور نظافت  کے اہتمام کو کم کردیتی ہے نیز اس کی وجہ سے اس میں بیکٹیریا یا دیگر جراثیم  اور رطوبتیں  اس کے خلیات ( cells ) اور مردہ جلد کے اندر  جمع ہوتی ہیں ،اس لئے اس کے اندر بدبو وغیرہ  کاپیدا ہونا  بدیہی ہے  جس کا امکان  ختنہ کی وجہ سے   ختم ہوجاتاہے ۔

9 - عدم تطہیر کے سبب  آلہ تناسل میں پیداہونےوالے جراثیم اور بیکٹیریا  کی وجہ سے جنسی فعل کے بعد  ساتھی کے رحم کے اندر بھی کینسریا دیگر موذی امراض کے جنم لینے  کا امکان رہتاہے ،اس لئے ختنہ مستقبل میں   اس طرح کی  کسی بھی بیماری سے بچاؤکا ذریعہ ہے۔ اس طرح ختنہ نہ یہ کہ  خود آدمی کے لئے  مختلف بیماریوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے بلکہ اس کے  ساتھ  جنسی تعلقات  قائم کرنے والے  پارٹنرکے لئے  بھی احتیاطی بچاؤ کا سبب ہے ۔

10 -  جیساکہ ذکرکیاگیا ختنہ مختلف پھیلنے والی  جنسی بیماریوں سے بچاؤ کا ایک بہترین اوراحتیاطی  ذریعہ ہے جیسے  ہرپس    (Herpes) ، آتشک     (Syphilis) ، فنگس ( Fungus / Candida)  ، سوزاک ( (Gonorrhea ،گومڑی یا مَسّے ( (warts  اور  اَلسر  (Chancroid ) وغیرہ ۔

11- جدید تحقیقات سے یہ بھی پتہ  چلا ہے کہ  غیرختنہ شدہ افراد کے مقابلے میں  ختنہ شدہ افراد کے اندر ایڈز  (HIV/AIDS) جیسی مہلک بیماری کا خطرہ کم ہوتاہے ، اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ  مختون آدمی ایڈزکے خطرات سے کلی طور پر محفوظ ہوتاہے ، کیونکہ زنا ولواطت  اور اس بیماری میں مبتلا کسی فرد سے جنسی تعلقات ایڈزکے پھیلاؤ کے بنیادی اسباب میں سے ہیں  جس سے ختنہ شدہ اورغیر ختنہ شدہ افراد یکساں متاثر ہوسکتے ہیں ۔ یہاں  زنا ولواطت  سے متعلق اسلام  کے سخت نظام وقانون کے فلسفہ ،  حکمت اور اس  کی اہمیت  وضرورت کا پتا چلتاہے ۔

12 - ختنہ ایک فطری عمل ہے جس کا نہ کرانا فطرت کے خلاف جاناہے۔

13 -  ایک مؤمن کے لئے ختنہ کرانےکا سب سے بڑافائدہ  اللہ کی رضا وخوشنودی کا حصول ہے کیونکہ ایسی صورت میں   اللہ تبارک وتعالی  کے حکم کی فرمانبردای  اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت  واتباع   بجا لاتاہے۔

ایک اعتراض :

بعض حلقوں  کی طرف سے یہ  اعتراض کیاجاتاہے کہ جب ختنہ کرانا ہی تھا تو اللہ تعالی نے ختنہ کے ساتھ ہی انسان کو کیوں  نہیں پیدا کیا ؟

اس طرح کے اعتراضات  یا تو عناد پر ست عناصر  کی طرف سے وارد ہوتےہیں یا اللہ کے فرمان واحکام  کی حکمت سے نابلدی کی بنیاد پر ۔ ایک مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کا جوبھی حکم ہوتاہےوہ بلا وجہ نہیں ہوتا ،  اس کے اندر کوئی نہ کوئی حکمت ضرورہوتی ہے خواہ اس کا ادراک ہمیں ہو سکے یا نہیں ۔ چنانچہ کسی بھی حکم الہی پر اگر کوئی شرعی عذر نہ ہوتو  ایک مسلمان  خندہ پیشانی کے ساتھ بلاچوں وچرا عمل کرتاہے، اور یہ اس کے اوپر واجب وفرض  ہے،اور پھر اس کے بعد حسب احوال  وضرورت  اس کے مالہ وماعلیہ پر بحث  اس فن کے اصحاب اختصاص پر چھوڑدیتاہے ،ختنہ بھی انہیں احکام میں سے ہے حالانکہ اس کے فوائد اور اہمیت  و ضرورت کا بیان اور ادراک زمانہ قدیم سے رہا ہے ،خاص  طور سے موجودہ طبی تحقیقات نے اسے بحسن وخوبی اور مضبوطی کے ساتھ  واضح کیا ہے ۔ 

اطباء نے اس بات کی پوری طرح سے وضاحت کی ہے کہ وہ چمڑا جس کو بچے کی ولادت کے بعد زائل کیاجاتاہے جب  بچہ  ماں کے پیٹ میں ہوتاہے تو بحالت جنین اس   کا ہونا نہایت ہی ضروری ہے،کیونکہ عضو تناسل  جسم کا نہایت ہی حساس عضو ہوتاہے اور خاص طور سے اس کا اوپری حصہ  ،اورچونکہ ماں کے پیٹ میں بچہ حرکت بھی کرتاہے، اور اس کےاندراعصابی تناؤ  بھی ہوتاہے حالانکہ  اس کا اعصابی نظام ابھی تک تشکیل اور تعمیر کے مرحلے سے گزررہاہوتاہے ، اور ایک نامکمل نظام کا  یہ تناؤ اس کی نشوونما میں رکاوٹ اور ناپختگی کا سبب بھی بنتاہے۔ لہذا اس عضو کی تخلیق اور اعصابی نظام کوکنٹرول کرنےکےلئےاس جلد کی موجودگی نہایت ہی ضروری ہے، جو اس کےلئےمحافظ (Protector )  کی حیثیت رکھتاہے ورنہ بصورت دیگر نقصان کا قوی  امکان ہے ،پھر وہی بچہ جب پیداہوجاتاہے تو اس زائد چمڑے کی کوئی ضرورت  باقی نہیں  رہتی  بلکہ اس کو ویسے ہی چھوڑدینے سے بےشمار نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے ۔  چنانچہ  بچے کا اس زائد چمڑے کے ساتھ ماں کے رحم میں پلنا اس  کے تحفظ اوربچاؤ ( Safety / Protection ) کے لئے نہایت ہی ضروری اور  ایک اہم وجہ  ہے ۔

عورتوں کا ختنہ :

نسوانی ختنہ جسےFGM ((Female Genital Mutilation  کہاجاتاہے جوعورت کے  اندام نہانی میں ظاہری   جنسی عضوکے بالائی حصے کوکاٹنے کا 
عمل ہےاورزمانہ قدیم سے دنیا کے مختلف حصوں میں روبہ عمل رہاہے۔ واضح رہے کہ  مختلف نسلی گروہوں میں اختتان اناث کے مختلف طریقےرائج 
رہے  ہیں لیکن عمومی طریقہ کے مطابق عورتوں کے جنسی اعضاء میں ایک مخصوص اوراہم جنسی  عضوجسے عربی میں بظر اور انگش میں   clitoris 
کہاجاتاہےکے اوپری حصےکو کاٹاجاتا ہےجس میں بظر اور داخلی لیبیہ کو جزوی یا کلی طور پر کاٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے۔
یوں تو عورتوں کا ختنہ رواج اور حکم کے اعتبار سے اتنا اہم اورعام نہیں ہے بلکہ برصغیر اور آس پاس کے مناطق میں  فی زمانہ معدوم العمل ہے ، البتہ
 شاذو نادر کہیں کہیں مشاہدہ  میں آجاتاہے ۔ حالانکہ گرم علاقوں  میں یہ عمل اب بھی  موجودہے،خاص طورسے   افریقی ممالک جیسے صومالیہ(Somalia)  ،
گنی  (Guinea ) ، مصر (Egypt ) ، اریٹریا (Eritrea ) ، مالی(Mali) ، سرالیون  ( Sierra Leone ) ، سوڈان ( Sudan )  ،
 گیمبیا(Gambia)  ، برکینافاسو(Burkina Faso )  ، حبشہ(Abyssinia / Ethiopia ) ، موریطانیہ(Mauritania) ،
  لائبیریا (Liberia)  اور گنی بساو (Guinea-Bissau  ) میں یہ عمل   عام  ہے ۔  اورافریقہ سے باہر یمن ، عراق کے کرد علاقوں اورجنوبی امریکہ
 کے بعض قبائل  میں بھی یہ عمل کچھ حد تک موجود ہے۔ اسی طرح ہندستانی میں  بوہرہ کمیونیٹی کے اندر یہ عمل  پایاجاتاہے۔ ایک اندازے کے مطابق
   (سنہ 2013 ء کے اعداد وشمارکے حساب سے ) دنیا بھرمیں  اس عمل سے گزرے والی خواتین کی تعدادتقریبا  ستر کروڑ  تھی ۔
بعض ممالک ایسے ہیں جہاں مختلف تنظیمیں( جن میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی  بھی  شامل ہے۔)  اس عمل کو روکنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے اس 
میں بہت حدتک  کمی آئی ہے ۔
عورتوں کے ختنہ کے سلسلے میں بحث اور اس کے  فوائد اورنقصان  ایک طویل گفتگو کی متقاضی ہے ،البتہ اتنا تو ہے کہ تقریبا آدھی دنیامیں عہدقدیم سے  اس عمل کورواج
 حاصل رہاہے۔(ساری معلومات  ویکیپیڈیا سے ماخوذہیں)۔
بعض  ممالک میں عورتوں کے ختنہ  سے ہونے والے بعض  نقصانات کو جس کا مشاہدہ   بھی کیاگیاہے بڑے  شدومدسے اٹھایاجاتاہے ،  اور کہیں کہیں تو اس کو مسلمانوں کا 
ذمہ دار مان کر اسلام پر اعتراض کیاجاتاہے ، جبکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام میں  اس کو واجبی عمل نہیں ماناگیاہے، بلکہ ضرورت اور حالات کو دیکھتےہوئے استحبابی
 صورت قراردیاگیاہے(حالانکہ بعض فقہاء اس کے وجوب کی طرف گئےہیں )، اور دوسری بات یہ کہ یہ عمل اسلام کی آمد سے صدیوں پہلے سے دنیا کے اکثر حصوں
 میں رائج تھا ، جس سے اسلام نے منع نہیں کیا ،بلکہ  اسے غیراجباری حیثیت میں  باقی رکھا ،یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اس پر عامل بھی نہیں ہے ،ہاں اگر کہیں
 اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے  اور اس پر عمل ناگزیر ہوتاہےتواسے عمل میں لایاجاتاہے ۔ اب یہ کام اطباء کا ہے کہ  وہ ایمانداری کے ساتھ  دنیا کے سامنے واضح 
کریں کہ کن حالات میں اس عمل سے خطرہ یا کسی طرح کا نقصان  پہنچنے کا اندیشہ ہے،صرف اس وجہ سے کہ کسی مذہب میں اس پر 
عمل جائزہے واویلہ غیراخلاقی اور ذہنی پسماندگی کی دلیل ہے ۔
اللہ رب العزت ہمیں ہرطرح کےخیروبھلائی والے عمل کی توفیق دے اور ہرطرح کے دینی اور معاشرتی نقصانات اور برائیوں سے حفظ و امان میں رکھے۔
 وصلی اللہ علی  خیرخلقہ وسلم۔ 
*******