منگل، 28 دسمبر، 2010

کیا تمباکو نوشی مکروہ ہے ؟

  مکروہ مندوب کی ضدہے، جس کی مختلف الفاظ میں تعریف کی گئی ہے :
ا – جس کے چھوڑنے والے کی تعریف کی گئی ہو اور کرنے والے کی مذمت نہ کی گئی ہو ۔
2 – بغیر وعید کے جس کا چھوڑنا کرنے سے راجح ہو ۔
3 – جس کا چھوڑنا اس کے کرنے سے بہتر ہو ۔
تینوں تعریفیں ہم معنی ہیں اورمکروہ کااطلاق کبھی حرام پر بھی ہوتاہےاس طرح مکروہ کی دو قسمیں ہوئیں :
مکروہ تنزیہی  (2) مکروہ تحریمی (  دیکھۓ : البلبل فى اصول الفقه مختصر روضة الناظر لابن قدامة  اور اصول الفقہ کی دیگرکتابیں ۔)
        موجودہ مسلم معاشرے ميں خاص طور سے برّصغير میں ايسے فقہ کے دعويدارکـثرت سے پائےجاتےہيں جوبيڑی ، سگريٹ، زردہ اور تمباکو وغيرہ کويہ کـہـ  کر کہ يہ حرام نہيں بلکہ مکروہ ہيں اپنے لئےجائز و مباح کرنے کی کوشش کرتے ہيں، ان لوگوں نے اس کی کراہت و اباحت کےجودلائل دئے ہیں وہ محلِّ نظرہیں ، ذیل میں ہم ان کے دلائل میں سے چند کا ذکر کرکے  ان کاجائزہ لیتے ہیں ، اس وضاحت کےساتھـ کہ یہ دلائل ماضی میں بھی دۓجاتے رہے ہیں، جن پرعلماءنےبہت کچھـ لکھاہے، اوریہ دلائل اس وقت کےہیں جب علمِ طب نے تمباکو کےموجودہ نقصانات کو واضح نہیں کیا تھا :
1 – کہتےہیں کہ ادلّـــۂ اصلــیہ ( یعنی قرآن ، سنت ، اجماع اور قیاس ) میں سے کسی میں بھی تمباکو کی حرمت پرکوئی دلیل  ثابت  نہیں ہے ۔
مذکورہ دلیل کابطلان پیش کئے گئےحرمت کےدلائل سےثابت ہوچکاہےکیونکہ تمباکو کے دینی، نسلی ، بدنی اورمالی نقصانات  کا کوئی بھی فردمنکر نہیں ہو سکتا،نیزعلتِ سُکرونشہ اس کی حرمت کی سب سے بڑی دلیل ہے یہی وجہ ہےکہ محدّثین اورعصرِحاضر کےجیّد اورمعتبر علماۓ کرام نے اسےمطلقاًحرام قراردیاہے ۔
2 - کہتے ہیں کہ شریعت کا قاعدہ ہے کہ : " أصل الأشياء إباحتها "  یعنی( شریعت میں ) اشیاء کی اصل اس کا مباح وحلال ہوناہے " لہذا تمباکو وغیرہ بھی اپنی اصل یعنی حلت واباحت پرباقی ہے  ۔
     بلاشبہ مذکورہ قاعدہ اپنی جگہ پردرست ہے ، لیکن یہ قاعدہ اسی وقت لاگو ہوتاہے جب کسی چیزکی حرمت ادلّۂ شرعیہ سےثابت نہ ہو جبکہ تمباکو وغیرہ کے اندر وہ تمام  علتیں موجود ہیں جو انہیں حرام قرار دیتی ہیں جن کا بیان گزر چکاہے اور جن کو ان شاء اللہ علمائے کرام کےفتاوی کے  اندر ذکر کیا جائیگا ۔
3 - کچھـ حضرات کہتے ہیں کہ نفع آورچیزوں کا استعمال شرعاجائز اور ضرر رساں چیزوں کاحرام ہے ، اورسگریٹ  نوشی نفع بخش ہے ، نقصان دہ نہیں اس لئے یہ اپنی اصل یعنی اباحت  پر باقی ہے اوراسے حرام قرار دینے کے لۓ معتبر شرعی دلیل کی ضرورت ہوگي  ۔
ہم کہتےہیں کہ مذکورہ استدلال ان کےخلاف ہےنہ کہ ان کےحق میں، کیونکہ تمباکووغیرہ کےنقصانات بلاکسی شک وشبہ کے ثابت  شدہ ہیں جن کابیان ہم نےپہلے ہی کردیا ہے ، اگر تھوڑی دیر کے لۓ  یہ مان بھی لیاجائےکہ تمباکو کے استعمال سے چند لمحوں کاذہنی وجسمانی سکون  ملتاہے پھر بھی  اسے مباح وحلال قرار نہیں دیا جاسکتا ، کیونکہ چندلمحوں کاذہنی وجسمانی سکون  ملنا کسی حرام چیزکوحلال کرنےکےلۓدلیل نہیں ہے، اگر یہ بات ہوتی توشراب، جوا ، سود اوراس طرح کی بہت ساری چیزوں کوحلال کرناپڑیگا ، کیونکہ ان کےاندرنقصانات کےساتھـ ساتھـ بہت سارےفوائد اورسکون کاسامان بھی ہیں ، شراب اور جوا کے سلسلے میں خود اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا} (البقرة 219) ( یہ لوگ آپ سے شراب اور جوۓ کےبارے میں سوال کرتے ہیں، کـہـ دیجۓ کہ ان کے اندربہت بڑا گناہ ہےاوران کے اندر لوگوں کے لۓ نفع بھی ہے ، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ ہے )  امام ابن کثیر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :"أمّاإثمهمافهو فى الدين, وأماالمنافع فدنيوية,من حيث إن  فيها نفعاً لبدن , وتهضيم الطعام , و إخراج  الفضلات , و تشحيذ بعض الأذهان , و لذة الشدة المطربة التى فيها , وكذا بيعها والانتفاع بثمنها. وما كان يقمشه بعضهم من الميسر فينفقه على نفسه أو عياله.ولكن هذه المصالح لاتوازى مضرته ومفسدته الراجحة ,لتعلقها بالعقل والدين " (  دیکھۓ : المصباح المنير فى تهذيب تفسير ابن كثير (ص 159))
یعنی"  شراب اورجوےکاگناہ دین میں ہےاور منافع  دنیاوی  ہیں اس اعتبار سےکہ اس کےاندر جسم ، غذا کو ہضم کرنے ، فضلات کو خارج  کرنے،بعض ذھنوں کوتیزکرنےاور اس کے اندر پاۓجانے والے طرب و سرور کی لذت کو محسوس کرنے میں نفع ہے ، اسی طرح اسے  بیچ کر اس کی قیـمت سےفائدہ اٹھایا جا تاہے ۔ اور جُوے  سے مال حاصل کرکے بعض لوگ اسے اپنے یابال بچوں پر خرچ کرتے ہیں ، لیکن یہ مصلحت اور فائدے ان  کے  بڑے  بڑے واضح  نقصانات اور مفاسدکے برابر نہیں ہو سکتے، کیونکہ ان کا تعلق دین اور عقل سے ہے "
    معلوم ہواکہ حلت وحرمت کا انحصارصرف چندظاہری  نفع و نقصان پر  نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق اللہ تبارک و تعالی کے امرونہی سےہے ، بسا اوقات کسی چیز کی حلت وحرمت میں نفع و نقصان سے قطع  نظر اللہ تبارک وتعالی کی کچھـ اورہی حکمت ہوتی ہے مثلاً  :
٭ وہ محرمات کے ذریعہ بندوں کی آزمائش کرتاہے اوردیکھنا چاہتاہےکہ کون ان سےبچتاہے اورکون ان کا ارتکاب کرتاہے  ـ
٭   امتحان ہی جنّتی اور جہنّمی میں فرق کرتا ہے کہ ، جہنّمی لوگ دنیاوی زندگی کی لذت میں غرق ہوکررہ گۓ تھےجبکہ جنّتی لوگوں نےدنیاوی زندگی میں نفسانی خواہشات کا مقابلہ کرتےہوۓمصیبتوں اورسختیوں پرصبرکیا، اور اگر اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے یہ آزمائش نہ ہوتی تو پھر فرمانبردار اور نافرمان بندوں میں فرق کـیسے ظاہرہوتا؟
٭ صاحب ایمان اللہ تبارک و تعالی کی طرف سےعائد کردہ پابندیوں کی طرف  ہمیشہ اجروثواب کی نیّت سےدیکھتا ہے ، اور منافق ہمیشہ دُکھـ درد ، تکلیف  اور محرومی کی نگاہ سے ، اوریہیں پرصحیح مومن اور منافق کی پہچان ہوتی  ہے ۔)  دیکھۓ :  محرمات استھان بھا بعض الناس للشیخ المنجد (ص 10 –  11 ) مختصراً  ۔ )
اگربفرض محال تمباکو وغیرہ کو مکروہ مان بھی لیں تو یہ حرمت کے مختلف اور مضبوط دلائل کی بنا پر مکروہ تحریمی ہوگا نہ کہ تنزیہی ، یہاں پریہ نکتہ قابل ذکر ہےکہ شریعت کا  ایک متعیّن قاعدہ ہےکہ صغیرہ گناہوں  پر اصرار اور مداومت  انہیں کبائر سے قریب کردیتی ہے یہاں بھی اسی طرح یہ خوف ہے کہ مکروہ پراصرار ومداومت  اسے حرام سے قریب کردے ۔ 
          

پیر، 5 اپریل، 2010

سگریٹ نوشی اورتمباکوخوری کی حرمت کے چند دلائل




1 – اللہ کےرسول صلی اللہ عليہ وسلمنےارشاد فرمايا:" كل مسكرخمروكل مسكرحرام "( مسلم 3/1587 ) "ہرنشہ آورچيزشراب ہے(يعنی شراب کےحکم ميں ہے) اورہرنشہ آورچيزحرام ہے "

مذکورہ حديث نبوی ميں ايک قاعدہ کُلّيہ بيان کردياگياہے،جس کی رو سے ہر وہ شئ جس کے اندرنشہ ہو ياجوعقل ميں خرابی ونشہ کا سبب بنے حرام ہے،اس کانام چرس،گانجہ، بھنگ ، افيون، ہيروئن، کوکن،نشہ آور انجکشن، زردہ، تمباکو، بيڑی، سگريٹ ، گٹُکھاياکچھـ بھی رکھـ ليں ، کيوںکہ ان تمام کے اندرنشہ ہے ۔

بعض حضرات کويہ کہتے ہوئے سناجاتاہے کہ ايک عادی آدمی بيڑی اور سگريٹ وغيرہ کےاستعمال سےاپنے اندرسکون محسوس کرتاہے ، نہ کہ نشہ؟ تويہ اس کی سمجھـ کا پھير اورعقل کی کوتاہی ہے ، اگرآدمی اللہ رب العزت کی دی ہوئی " نعمتِ عُظمی " يعنی عقل و فکر کا صحيح استعمال کرے تو اتنی سطحی بات سوچنے سے بھی احتراز کريگا ، ايک عادی شرابی اگرايک متعيّنہ مقدار يا اس سے کم شراب کا استعمال کرتا ہے تواسے سکون ہی ملتاہے،نشہ نہيں ہوتا ، تو کيا ايسےشخص کے لئے شراب حلال ہے ؟

اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم نے واضح طور پر ارشاد فرمايا ہے : "ماأسكر كثيره فقليله حرام "



) أبوداؤد رقم ( 3681) صحيح سنن أبى داود رقم (3128) "جس(نشہ آور) چيز کی زيادہ مقدارنشہ دے اس کی تھوڑی مقداربھی حرام ہے"

عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےکہ : اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلمنے ارشاد فرمايا: " كل مسكرحرام وما أسكر منه الفرق فملأ الكف منه حرام"( أبوداؤد رقم ( 3687 ) ترمذى رقم ( 1866 ) وأحمد ( 6 /71, 131 )

" ہرنشہ آور شئ حرام ہے اورجوچيز ايک پيالہ کی مقدار ميں نشہ ديتی ہو اس کا ايک چلو بھی حرام ہے "

يہاں پرايک روايت بيان کردينا زيادہ مناسب ہےجس کے اندر کبھی کبھار نشہ کرنےوالے کے لیے وعيدشديد سنائی گئی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم نےارشادفرمايا : "من شرب الخمروسكرلم تقبل له صلاةٌ أربعينَ صباحاً فإن مات دخل النّار, فإن تاب تاب الله عليه و إن عاد فشرب و سكر لم تقبل له صلاةٌ أربعينَ صباحاً , فإن مات دخل النّار , فإن تاب تاب الله عليه, وإن عادكان حقاً على الله أن يسقيه من ردغــةالخبال يوم القيامة "قالوا: يا رسول الله !وما ردغــة الخبال ؟قال :" عصارة أهل النار "

( ابن ماجة رقم (3377 ) صحيح الجامع الصغير للعلاّمة الألبانى رقم ( 6313 ) اس معنی کی روایت جابر رضی اللہ عنہ سے مختصراً صحیح مسلم کے اندرہے ،

دیکھۓ : ( 3/1587) .)

" جس نے شراب پی اور اسے نشہ آگيا اس کی چاليس دن کی نماز قبول نہيں ہوگی ، اگر مرگيا توجہنّم ميں داخل ہوگا، اوراگر(مرنے سے پہلے) سچّی توبہ کرلی تو اس کی توبہ اللہ رب العزّت قبول فرما ليگا اور اگراس نےدوبارہ شراب پی اوراسےنشہ آگيااس کی چاليس دن کی نماز قبول نہيں ہوگی ، اگر مرگيا تو واصلِ جہنّم ہوگا، اوراگر (مرنے سے پہلے) سچّی توبہ کرلی تواس کی توبہ اللہ رب العزت قبول فرماليگا اور اگراس نے پھر دوبارہ يہی کيا تو اللہ تعالی کےذمّے يہ برحق وعدہ ہےکہ اسے " ردغة الخبال " سے پلائےگا ، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کيا : اے اللہ کےرسول ! " ردغة الخبال " کياہے؟ آپنےفرمايا:"وہ جہنـميوں کےجسم سےخارج ہونے والا گندہ مواد ( خون، پسينہ،پيپ وغيرہ ) ہے "

اگر کبھی کبھارنشہ کرنے کايہ انجام ہے توبرابر نشہ کےعادی افرادکا انجام کيا ہوسکتاہے؟ سمجھنا چنداں مشکل نہيں !

2 ــ انسانی زندگی اللہ تعالی کاعطيہ اوراس کی نعمت ہےجس کی قدروقـيـمت ہر فردبشر پرعياں ہےاوراس کی حفاظت ہرہوشمند آدمی پرواجب ہے،اگر وہ اس کی ناقدری کرتےہوئےاسےضائع کرتاہے يااس کی حفاظت سے روگردانی کرتاہے تو يہ اس نعمت کےساتھـ ناانصافی اوراللہ تعالی سےبغاوت ہے ، کيونکہ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کاحکم دينے کےساتھـ ساتھـ اس کے زياں پر وعيد شديد سنائی ہے ،ارشاد فرماتاہے:{ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيماً وَ مَن يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَاناً وَ ظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَاراً وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللّهِ يَسِيراً} (النساء 29 ـ30) ( اپنےآپ کوقتل نہ کرو يقينًا اللہ تعالی تم پر نہايت مہربان ہےاورجوشخص يہ( نافرمانياں ) سرکشی اورظلم سےکرےگا تو عنقريب ہم اس کوآگ ميں داخل کريں گے اور يہ اللہ پرآسان ہے) ۔

ايک دوسری جگہ ارشاد فرماتاہے :{لاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} (البقرة 195) ( ا پنے آپ کو ہلاکت ميں مت ڈالو ) ۔

ابوھريرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا :" من تردى من جبل فقتل نفسه فهوفى نارجهنّم يتردى فيه خالداًمخلداًفيهاأبداًومن تحسى سمّاًفقتل نفسه فسمّه فى يده يتحسّاه فى نارجهنّم خالداً مخلداً فيهاأبداً و من قتل نفسه بحديدة فحديدته فى يده يجأبهافى بطنه فى نارجهنّم خالداً مخلداً فيها أبداً "

( مسلم, الإيمان ( 175 / 109) "جس کسی نےپہاڑسےکود کر اپنی جان ديدی وہ جہنّم کی آگ ميں ہوگا اس کے اندرہميشہ اپنےآپ کوگراتا رہيگا ، اورجس نےزہرکا گھونٹ ليکر خودکشی کی اس کا زہر جہنّم ميں اس کےہاتھـ ميں ہوگا اوروہ ہميشہ اس سےگھونٹ ليتارہيگا ،اورجس نےدھاردار آلہ سے خود کوہلاک کيا تو اس کا آلہ جھنّم ميں اس کےہاتھـ ميں ہوگا اور وہ ہميشہ اس سے اپنے پيٹ ميں مارتارہيگا "

مذکورہ نصوصِ قرآن وسنت کے اندرواضح طور پر بيان کردياگياہےکہ کسی بھی چيز کواستعمال کرکےاپنےآپ کوہلاک کرنااللہ تعالی کے نزديک مبغوض اور ناپسنديدہ عمل ہے،جس کےارتکاب پرسخت وعيد سنائی گئی ہے ، اسی لئے اللہ تعالی نے انہيں اشياء کوکھانے پينے کاحکم دياہے جو پاک اورطيّب و طاہر ہونے کے ساتھـ ساتھـ انسانی جسم واعضاءکے لئے صحت بخش اورمفيدہوں ، ارشاد فرماتاہے : { يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ } (المائدة 4) ( ( اے محمد صلی اللہ عليہ وسلم ) يہ لوگ آپ سےدريافت کرتےہيں کہ کياکچھـ ان کےلئےحلال ہے ؟ توآپ کــَہ ديجئے کہ تمام پاک چيزيں تمہارےلئے حلال کی گئی ہيں "

ايک دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے : { يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِي الأَرْضِ حَلاَلاًطَيِّباً } (البقرة 168) ( لوگو ! زمين ميں جتنی بھی حلال اور پاکيزہ چيزيں ہيں انہيں کھاؤ) اورايک مقام پر نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کا وصف بيان کرتے ہوئے فرماتاہے: {يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ} ( الأعراف 157) ( وہ ان کو نيک باتوں کا حکم فرماتےہيں اوربری باتوں سے منع فرماتے ہيں، اور پاکيزہ چيزوں کوحلال بتاتے، ہيں اورگندی چيزوں کو ان پر حرام فرماتےہيں ) ابوھريرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا : " إن الله تعالى طيب لايقبل إلاّ طيباً , وإن الله أمر المؤمنين بما أمربه المرسلين فقال تعالى: {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحاً} (المؤمنون 51) وقال تعالى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ } (البقرة 172) ثم ذكرالرجل أشعث أغبر يمد يديه إلى السماء , يارب! يارب! ومطعمه حرام و مشـربه حـرام وملـبسـه حـرام و غذى بالحـرام فأنى يستجاب له"

( مسلم رقم (1015) ۔

" اللہ تعالی پاک ہے اورصرف پاک ہی کوپسندکرتا ہے،اس نےجن چيزوں کا حکم انبياء کرام(عليھم السلام) کوديا انہيں چيزوں کاحکم مومنوں کو بھی ديا، فرمايا: ( اے رسولو ! تم لوگ پاک چيزوں ميں سے کھا ؤ اور نيک اعمال انجام دو) اور(مومنوں کو حکم ديتے ہوئے ) فرمايا:(مومنو! جوکچھـ ميں نےتم کو دياہے ان میں سے پاک چيزيں کھاؤ ) پھرآپ صلی اللہ عليہ وسلم نے ايسےآدمی کاذکرکياجو لمبے سفرپرہوتاہے پراگندہ بال اور گردآلودہوتاہے پھرآسمان کی طرف ہاتھـ اٹھا کردعاء کرتاہے: يارب ! يارب ! جبکہ اس کاکھاناحرام ہے، پيناحرام ہے ، پہننا حرام ہے،اوراس کی پرورش حرام ميں ہوئی ہےتو پھراس کی دعاء کہاں قبول کی جائےگی) ۔

بيڑی،سگريٹ ، تمباکو، ہيروئن، کوکن،افيون،گانجہ،چرس اوران جيسی ديگر اشياء کيا انہيں چيزوں ميں سے نہيں جن سے انسانی جان کازياں ہوتاہے؟

يہ چيزاتنی واضح ہےکہ ہرخاص و عام اس کی مضرّت رسانی سے واقف ہے، اس کے باوجود ان کا استعمال کرکے اپنی جان کو ہلاکت ميں ڈالنا خودکشی اور ناقابل معافی جرم ہے ۔

3 ــ اللہ رب العزت نے اپنی پياری مخلوق انسان کو جومال و دولت اور زر و جواہرات عطا کياہے وہ يوں ہی بلافا‏ئدہ ضائع کرنے کے لئے نہيں بلکہ ان کو مناسب جگہوں ميں خرچ کرنےکے لئےدياہے،جن کی وضاحت مکمّل ومفصّل طريقے سے قرآن و سنّت ميں کردی گئی ہے، يہی وجہ ہےکہ بروزِقيامت اللہ تبارک و تعالی ہر آدمی سے اپنی دی ہوئی مال ودولت کے بارے ميں سوال کريگا: "من أين اكتسبه وفيم أنفقه"( ترمذى , صفة القيامة رقم (2417) دارمى (1 / 131 ) شیخ الباني نے سلسلہ صحيحہ رقم (946) میں اس کوصحیح قراردیا ہے .)

" اس نے اس کو کہاں سے کمايا اورکن چيزوں ميں خرچ کيا ؟ " سگريٹ نوشی اور ديگرنشہ آور اشياء کی خريد و فروخت ميں استعمال شدہ دولت بھی اسے غير ضروری اورحرام جگہوں ميں خرچ کرناہے ، جب اللہ تعالی بروزِمحشرسگریٹ نوشوں اور ديگرنشہ آور چيزوں کے استعمال کرنے والوں سے سوال کرےگا کہ انہوں نے اپنی مال ودولت کا ايک بڑا حصّہ کہاں خرچ کيا ؟ توکيا وہ اللہ تعالی کے سامنےيہ کــَہـ سکتے ہیں کہ حلال و مباح اشياء کی خريداری ميں صرف کياہے، جوان کے اورمعاشرے کےلئے نفع بخش تھا؟ دنياکے چند لمحوں کی آسودگی ( اوروہ بھی سراسرنقصان دہ ) حاصل کر کے اپنی آخرت خراب کرنا کہاں کی دانشمندی ہے ؟

واضح رہے کہ اللہ تعالی کی دی ہوئی دولت کوحرام کاموں ميں خرچ کرنا شريعت کی نگاہ ميں " تبذير" کہلاتاہے ، اسے خرچ کرنے کےچند اصول کو بيان کرتےہوئے اللہ تعالی ارشادفرماتاہے:{ وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيراً إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَ كَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً} ( الإسراء26ـ 27)

(رشتہ داروں کااورمسکينوں اور مسافروں کاحق ادا کرتے رہو اور اسراف اوربيجا خرچ سے بچو بيجاخرچ کرنے والے شيطان کے بھائی ہيں اورشيطان اپنے پروردگارکا بڑا ہی ناشکراہے ) ۔

عبداللہ بن مسعود اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما " تبذير" کی تعريف کرتے ہوئے فرماتے ہيں :"التبذير: الإنفاق فى غيرحق "

" تبذير : ناجائز امور ميں خرچ کرنےکا نام ہے" مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہيں :

" لوأنفق الرجل ماله كله فى حق ماكان مُبذرًاولوأنفق مُدّاً فى غيرحق كان مُبذراً " " اگرآدمی اپنی پوری دولت حق کی راہ ميں صرف کرديتاہے تو مبذرنہيں کہلائےگا اور ايک مُدّ بھي ناجائز اور ناحق کاموں ميں خرچ کرتاہے تو وہ مبذرہے" امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہيں : " التبذير: إنفاق المال فى غيرحقه " ناحق کاموں میں دولت کو خرچ کردينا تبذيرکہلاتاہے"

امام مالک رحمہ اللہ فرماتےہيں : " التبذير:هو أخذ المال من حقه ووضعه فى غيرحقه " " مال کو اس کےجائز مقام سے ليکر ناجائز جگہ ميں خرچ کردينے کا نام تبذيرہے " امام زجاج رحمہ اللہ فرماتے ہيں : "التبذير:النفقة فى غيرطاعة الله " " اللہ کی اطاعـت کے علاوہ ميں مال خرچ کرنا تبذيرہے "

(دیکھئے : تفسیرابن کثیر(5/66) زاد المسير لإبن الجوزى ( 5/27ـ 28) و الجامع لأحكام القرآن للقرطبى (10/247) ۔

علمائےکرام کی مذکورہ توضيحات سے واضح ہوجاتاہےکہ مال ودولت کو کسی بھی ناجائز اورناحق امرميں خرچ کرنا تبذيراوراسراف کہلاتاہے،جو اللہ تعالی کے نزديک مبغوض وناپسنديدہ اورشيطانی عمل ہے، اور بيڑی، سگريٹ، تمباکواوران جيسی ديگر اشياء میں مال کوخرچ کرنا بھی اسی ميں داخل ہے۔ 4 ـــ مخدّرات ومنشّيات کامضّرصحت ہوناان کی حرمت کے لئےعلّت اورسبب

ہے، اللہ رب العزت نے انہيں چيزوں کوحلال قرارديا ہے جو انسان کےجسم و دماغ کے لئے نفع بخش ہوں اور ان کے نمو اورسالميت کاسبب بنیں،ياجس کامصلحت متقاضی ہواورہراس چیزکوحرام قراردياہےجو صحت وعقل کے لئے مضرّ اوران کی تباہی کا سامان بنے ، موجودہ طبّی تحقيقات نےبيڑی،سگريٹ اورتمباکووغيرہ کے نقصانات اورتباہ کاريوں کو واضح کردياہے، جن ميں سےچند مندرجہ ذيل ہيں :

1- ان کے استعمال سے نظامِ ہضم بےاعتدالی کاشکار ہوجاتاہے،اور گيسٹک جيسی بيماری وجودميں آتی ہے ۔

2- ان کااستعمال دل کےنظامِ عمل پراثر اندازہو کراس کےاندربےترتيبی پيدا کر ديتاہے جس کی وجہ سے بلڈپريشر اوردل کےمختلف امراض جنم ليتے ہيں اور نتيجتا ہارٹ اٹيک کاخميازہ بھگتنا پڑتاہے ۔

سائنس دانوں کےمطابق سگریٹ پینے سےخون میں لوتھڑا بننےکاامکان بڑھ جاتاہےجس سے ہارٹ اٹیک یافالج ہونے سے زندگی ختم ہونےکاخطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔

3 - ہونے والے بچےّپراس کانہايت ہی برا اثر پڑتاہے،بچہ جسمانی اور دماغی اعتبارسےغيرمستحکم ہوتاہے ،حمل کے دوران سگریٹ نوشی سے جنین کے نمو میں کمی آجاتی ہے، اور ولادت کےدوران اس کے مرنے کے زیادہ چانسز ہوتے ہیں ، ایک رپورٹ میں کہا گیاہےکہ ترقی پذیر ممالک میں کہیں زیادہ عورتیں اوربچّے اپنےگھروں میں اسموکنگ کےمنفی اثرات کاشکارہوتےہیں اور بہت ساری عورتوں نےاس کاتجربہ کیاہےجس سےان کےاوران کےہونےوالے بچوں کا کینسر، دل کی بیماری اوردیگربیماریوں میں مبتلاہونے کا احتمال بڑھ جاتاہے،اور یہ تجربہ نوملکوں کےدس مقامات پرکۓگۓہیں جن میں ارجنٹینا، اوروگوای ، اکواڈور، برازیل ،جیوتیمالا( لاطینی امریکہ ) زامبیا،کونگو (افریقہ) بھارت (دوجگہوں پر) اورپاکستان شامل ہیں ۔

4 ـ گلے اور خون کی مختلف بيمارياں جنم ليتی ہيں، اور ان حسّاس مقامات ميں تھوڑاسا انفکشن بھی کينسر( Cancer) جيسے موذی مرض کا سبب بنتا ہے، بلکہ نوّےفيصدسےزائد کينسرميں مبتلاافراد انہيں نشہ آوراشياءکےدستِ برد کا شکارہيں، ((1974 میں جینوامیں ایک کانفرنس ہوئی تھی جس میں عالمی صحت کے اداروں اور طب وصحت کے ماہرین کی ایک معتدبہ تعداد نے شرکت کی تھی، کانفرنس اس نتیجے پرپہنچی کہ زیادہ ترپھیپھڑے،گلے ، زبان، پٹھوں اورمثانہ وغیرہ کے کینسر اور پٹھوں اور پھیپھڑوں میں ورم اور سوزش ( T.B.) اوردمہ کا سبب اسموکنگ ہی ہے ,برطانیہ کے ایک طبّی کالج کی رپورٹ کےمطابق ( 27500 ) برطانوی سالانہ اسموکنگ کےشکارہوتے ہیں جن کی عمر 34سے65 سال کےدرمیان ہوتی ہے،اور( 80) اسّی کی دہائی میں تقریباً (155) ہزار برطانوی اسی کی وجہ سےموت کےشکارہوئے ہیں ۔

4 /فروری 2008 ء کو دنیا بھر میں عالمی سرطان دن منایا گیا اس موقع سے اقوامِ متحدہ کے ادارہٴ " صحت "نےجورپورٹ پیش کی اس کے مطابق سگریٹ نوشی کوکینسرکابنیادی سبب قرار دیا گیا ، تنظیم کے مطابق سگریٹ نوشی کاموجودہ طریقہ جاری رہاتواس صدی کے پہلے 25 سال میں اس سے 15کروڑ افرادکی اموات کاخدشہ ہے ۔

5 ـ جسمانی نظام تباہ و بربادہوجاتاہے ، اورچہرے کی رنگت وہيئت ماند پڑجاتی ہے ،يہی وجہ ہےکہ زيادہ ترنشہ خوروں کاجسم بدہيئت اور چہرہبےنورہوجاتاہے ۔

6 ـ تمباکو کے اندر موجود زہريلے مواد ميں سب سے مشہور اورضرر رساں " نيکوٹين " ( Nicotine ) ہوتاہے، بعض اطبّاء کاکہناہےکہ ايک سگريٹ میں اس کااتنامادّہ پاياجاتاہےکہ اگرانجکشن کےذريعہ آدمی کے نس ( رگ ) ميں داخل کردياجائےتواس کی موت کے لئے کافی ہے ، اوريہ بات مشہور ہےکہ " نيکوٹين "جيسے زہريلےمادّے کی دوبونداگرکسی کـُتّے کےمنہ ميں ڈال دی جائے تو وہ فوراً مرجائےگااور اس کےپانچ قطرےايک اونٹ کوقتل کرنے کے لئے کافی ہیں ۔

7 – اس سے دماغ پرکافی اثرپڑتا ہے نیز بالوں کےجھڑنے اورگنجے پن کا خطرہ بڑھادیتاہے، سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق سگریٹ پینے سےکچھ لوگوں کے گنجا ہو جانے کاخطرہ بڑھ جاتاہے ، تحقیق کاروں کاکہناہےکہ وہ ایشیائی مردجو سگریٹ نوشی نہ کرتے ہوں،مغربی مردوں کی نسبت ان کے گنجا ہوجانےکاامکان کم ہوتاہےلیکن یہی اگر ایشیائی مرد سگریٹ نوش ہوں تو زیادہ امکان ہے کہ وہ گنجے ہو جائیں گے.

یہ تحقیق" آرچیوزآف ڈرماٹولوجی"(Archives of Dermatology) (امریکن میڈیکل ایسوسیشن سےشائع ہونےوالا معروف ماہنامہ طبّی میگزین ) میں شائع ہوئی ہے اور اس میں اوسطاً 65 برس کی عمر کے سات سو چالیس تائیوانی مردوں نےحصہ لیاہے ، اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کوئی مرد روزانہ بیس سگریٹ پیئے تواس کےگنجا ہونے کا امکان بڑھ جاتاہے سائنس دانوں کاخیال ہے کہ سگریٹ نوشی سے بال پیدا کرنے والے خلیوںکونقصان پہنچتاہے .

8 ـ صحت کے عالمی ادارہ ( W.H.O. ) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انتباہ کیا ہےکہ تمباکوکے بڑھتے استعمال پر اگر روک نہیں لگی تواکیسویں صدی میں اس کےخطرناک نتائج سامنےآسکتےہیں، اگراس کااستعمال اسی طرح سے ہوتا رہا تو اکیسویں صدی میں اس کےچلتے ایک ارب جانیں جاسکتی ہیں ، واضح رہےکہ بیسویں صدی میں اس سے دس کروڑ لوگ موت کےمنہ میں جاچکے ہیں ۔

9 ـ سگریٹ کے دھوئیں کے اندر ایک مادہ " پولی سائکلک ایرومیٹک ہائیڈرو کاربنس "

( Polycyclic Aromatic Hydrocarbons) نامی ہوتاہےجوبعض کیـمیائی تعمّلات کے ذریعہ ٹیومر بننےکاسبب بنتاہے جس سے کینسر جیساموذی مرض جنم لیتاہے ، معلوم ہوا کہ ‎سگریٹ صرف پینے والوں ہی کےلۓنقصان دہ نہیں ہےبلکہ اس سے نکلنے والا دھواں دوسروں کےلۓ بھی حد درجہ نقصان دہ ہے (اس موضوع پر ماہنامہ محدث بنارس ( فروری 2008 ء ) میں ایک نہایت ہی قیـمتی اورمعلوماتی مضمون شائع ہوچکاہے ۔) ۔

10– اب تک کی تحقیق کےمطابق تمباکوکے اندر چھـ ہزار( 6000 ) سے زائد نقصان دہ مادّے پاۓ جاتےہیں جن میں سے (43) کینسرکاسبب بنتے ہیں ۔

11 - انگلینڈ سےشائع ہونے والے ایک معروف طبّی میگزین " لینسٹ " (Lancet) کے اندر یہ وضاحت کی گئی ہےکہ اسموکنگ کوئی لت اور عادت نہیں، بلکہ بجائےخودایک بیماری ہےجس کے اندرخاندان کے بیشتر افراد مبتلا ہوتے ہیں، اوریہ ایک ایساعمل ہے جو انسان کی کرامت وعزت کو پامال کر دیتاہےاورعام موت اورٹریفک حادثات کےمقابلےاسموکنگ کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد کئی گنازیادہ ہوتی ہے ۔

12- " ٹورنٹو" (Toronto ) میں ایک عالمی کانفرنس میں یہ تحقیق پیش کی گئی کہ دوسروں کی اسموکنگ سے "آسٹیوپوروسس"جیسی بیماری ہو سکتی ہے، اس بیماری سے ہڈیاں کمزورہوجاتی ہیں اوران کےجلدی ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہوجاتاہے ۔

13 – "برٹش میڈیکل جرنل" میں چھپنے والی ایک تحقیق کےمطابق وہ افراد جو تمباکونوشی نہیں کرتےاورتمباکو نوشی کرنےوالوں کےساتھـ رہتے ہیں ان میں موت کا خطرہ پندرہ فیصد (٪ 15) بڑھ جاتاہے ۔

14- "برٹش جرنل آف اوپھتھلمالوجی " (British Journal of - ( Ophthalmology (آنکھ اوراس سے متعلق امور پر برطانیہ سے شائع ہونے والا ایک معروف طبیّ میگزین ۔) کے مطابق سگریٹ کا دھواں آدمی کی نظرپر اثرانداز ہوکر نظرخراب ہونے کاخطرہ بڑھادیتاہے ۔

1 – جدید طبّی تحقیق کے مطابق سر میں مسلسل درد کی ایک اہم وجہ سگریٹ نوشی بھی ہوسکتی ہے ۔

نیوزی لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق کےدوران سردرد اورسگریٹ نوشی کےعمل کےدرمیان گہرا تعلق دیکھاگیاہے ، ماہرین نے اپنی تحقیق میں(980 ) مردوں اورعورتوں کوشامل کیاجنہوں نےبتایاکہ انہیں11 سے13 سال کی عمر میں سردرد شروع ہوا اوروہ اسی عمرسےسگریٹ نوشی بھی کررہے ہیں ۔

گزشتہ 15 سال سےسگریٹ نوشی کرنے والے ایک گروپ میں شامل افرادنےکہاکہ انہیں علم ہے کہ جب وہ زیادہ سگریٹ نوشی کرتے ہیں توسردردبڑھ جاتاہے .

مذکورہ بالاسطورسے يہ بات بالکل عياں ہوگئی کہ يہ اشياء انسان کے لئےسمِّ قاتل ہيں، اگرکوئی شخص ان کے نقصانات کوجانتے ہوئے ان کا استعمال کرتاہے تويہ خود کشی کے زمرےميں آتا ہے ، اور خود کشی کی جو سزا شریعت میں متعیّن کی گئی ہے وہ ہرمسلمان کےلۓ ظاہر و باہرہے ۔

یہاں پریہ واضح رہےکہ اگريہ جانتےہوئے کہ فلاں شئ حلال ہوتےہوئے بھی کسی وجہ سے اس کی موت کاسبب بن سکتاہے ، اس کااستعمال کرتاہے تويہ بھی خودکشی اوراپنےآپ کوہلاکت ميں ڈالنے کے زمرےمیں آتاہےجوشريعت کی نگاہ ميں سراسرحرام اور ناقابل معافی جرم ہے، جبکہ تمباکو اوراس جيسی دوسری اشياء حرام ہونے کے ساتھـ ساتھـ خطرناک اور ہلاکت خيز بھی ہيں۔ غورکيجئےاورسمجھئے!!!

5 ـ نعمان بن بشيررضی اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ : ميں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : " إنّ الحلال بيّن وإن الحرام بيّن و بينهما أمورمشتبهات لايعلمهنّ كثيرمن الناس فمن اتّقى الشبهات فقد استبرأ لدينه وعرضه و من وقع في الشبهات وقع في الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه , ألا و إن لكل ملك حمىً ألا وإن حمى الله محارمه , ألا و إن في الجسد مضغة إذاصلحت صلح الجسدكله وإذافسدت فسدالجسدكله ألا وهي القلب "( البخارى رقم (52) و مسلم رقم ( 1599)) " یقينًاحلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درميان شبہے والی چيزيں ہيں جـنکو بہت سے لوگ نہيں جانتے، توجوشخص شبہےکی چيزوں سےبچاتواس نےاپنےدين کو بھی پاک کيا اوراپنی آبروکوبھی اورجو شبہے والی چيزوں ميں پڑاوہ حرام ميں پڑگيا،اس کی مثال اس چرواہے کی ہےجومنع کی گئی چراگاہ کےچاروں طرف اپنےجانورچَراتاہے اور ہر وقت يہ خوف رہتاہےکہ کوئی جانوراس چراگاہ ميں گھُس کرچَرنے نہ لگ جائے۔خبردار! ہربادشاہ کی(چراگاہ کی) ايک حدمقررہے اوراللہ تعالی کی حد حرام چيزيں ہيں جان لوکہ جسم کے اندر ايک گوشت کا لوتھڑاہےجب وہ ٹھيک رہتاہے تو سارا جسم ٹھيک رہتاہےاورجب وہ خراب ہوجاتاہے توساراجسم خراب ہوجاتاہے اور وہ (لوتھڑا) دل ہے"

يہ روايت اسلام کی ان بنيادی روايتوں ميں سےايک ہےجن پر اسلام کا مدارہے ، علماء کی ايک جماعت کا کہناہےکہ يہ روايت ثلُث اسلام (ایک تہائی اسلام ) ہے کيونکہ اس کے اندر عظيم فوائد اور زندگی کی صالحيت کی مکمّل وضاحت موجودہے،علاء رحمہ اللہ فرماتے ہيں : " اس روايت کی عظمت کاسبب يہ ہے کہ اس کےاندراللہ کےرسول صلی اللہ عليہ وسلم نےکھانے، پينے اور پہننے وغيرہ جيسے امورکے اصلاح کی وضاحت فرمادی ہے" (دیکھۓ : شرح مسلم للإمام النووى (6/32))

مذکورہ بالاروايت کےاندرتمام اسلامی امورسےمتعلق ايک وضاحت موجود ہےکہ دنيا کی تمام اشياء کھانے، پينے اور پہننے سےمتعلق ہوں ياديگر امورسے متعلق اللہ تعالی نےان کی حلت وحرمت کی تعيين کردی ہے ۔

يہاں پراسموکنگ کےعادی افرادکے لئےلمحئہ فکريہ ہے ، اگروہ کہتے ہيں کہ يہ حلال ہے تو يہ ايک قبيح ، ضرررساں اور قاتلِ انسانيت شئے کوجس کے نقصانات واضح ہيں ، حلال قرار ديکرشريعت مطھّرہ پر اتہام باندھنا اور اس پراپنےمَن کی تھوپنے کے مترادف ہے ۔

مذکورہ اشياء کی حرمت ميں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہ ہوتے ہو‏ئے بھی بفرض محال انہيں تيسری قسم يعنی " مشتبھات" ميں سے مان ليتے ہيں تو بھی ان کی حرمت ميں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہيں ہے ، امام نووی رحمہ اللہ "مشتبھات " کی تعريف کرتے ہوئے فرماتے ہيں :

" أماالمشتبهات ، فمعناه: أنها ليست بواضحة الحل ولاالحرمة فلهذالايعرفها كثيرمن الناس و لايعلمون حكمها و أما العلماء فيعرفون حكمها بنص أو قياس أو استصحاب أو غيرذلك فإذا تردد الشئي بين الحل والحرمة ولم يكن فيه نص و لااجماع اجتهد فيه المجتهد فألحقه بأحدهما بالدليل الشرعى"( شرح مسلم للنووى ( 6/32))

"مشتبھات کامطلب يہ ہےکہ جن کی حلت وحرمت واضح نہ ہوجس کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کو ان کی حقيقت وحکم کاپتہ نہ ہو، ليکن علمائےکرام کو کسی نص،قياس يااستصحاب (استصحاب کہتےہیں : (کسی چیزپرماضی میں اس کی عدمِ وجودکی وجہ سےکسی تبدیلی کےنہ پاۓ جانےکی بناء پر ثبوت ونفی کاحکم لگانا) بالفاظِ دیگر: (جب تک کسی چیزمیں کوئی شرعی تبدیلی واقع نہ ہواس کواس کےسابق حکم پربرقراررکھنا ) ) وغيرہ سے ان کاحکم معلوم ہو،لہذاجب کو‏ئی چيزحلّت وحرمت کے مابين متردّد ہواوراس میں نص يااجماع مفقودہوتومجتھد اس میں اجتھادکرکے اسےکسی ايک (حکم)سے ملاديگا "

شیخ صالح الفوزان سگریٹ کے مشتبہات میں سے ہونے سے متعلق ایک سوال کاجواب دیتےہوۓ فرماتے ہیں :" مشتبہ امورجن سے (شریعت) میں بچنا مطلوب ہے سے متعلق وارد دلائل کے پیشِ نظر اس میں اہلِ علم کا اختلاف ہے ،کہ وہ حلال ہیں یاحرام ؟ اور ان میں کوئی بھی قول ایک دوسرے سے راجح نہیں ہے ، لہذا احتیاط کےطور پر انہیں چھوڑ دینا آدمی کےدین وعزت کےلۓزیادہ مناسب ہے ، اورجہاں تک سگریٹ کی بات ہے تو یہ بلاشبہ حرام ہے کیونکہ اس کے اندر بہت زیادہ نقصان ہے اور اس کے اندر کوئی نفع نہیں ہے اورجولوگ اس کےحرام نہ ہونے کے قائل ہیں ان کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ہےکہ کہا جاۓکہ یہ مختلف فیہ مسئلہ ہے ، بلکہ واضح دلیل ان کے پاس ہے جوتحریم کے قائل ہیں، لہذا (سگریٹ) مشتبہات میں سےنہیں بلکہ محرمات میں سے ہے، اس لۓایک مسلمان پراس کوچھوڑنا لازم ہے، اور(واضح رہے کہ) ہر ایک اختلاف کی طرف نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس اختلاف کی طرف دیکھا جاتا ہے جس کے لۓ شریعت میں کوئی وجہ ہوتی ہے ، واللہ اعلم " (ویب : نداء الایمان ( فتوی نمبر 18948 )

اس ضمن میں علمائےکرام کے اجتھاد اور شرعی دلائل کی بنياد پر ان کے فتاوی کوہم ان شاءاللہ دوسرے باب میں نقل کريں گےجن سے مذکورہ اشياء اوران سے متعلق دوسرےامورکا حکم ظاہروباہرہوجائيگا ۔

6 ــ سگريٹ نوش اور تمباکوخورافراد کا يہ عمل عقل وفطرت کےخلاف ايک ايسا عمل ہے جس کی قباحت پر وہ خودغور کریں توان کا دل اس سے خود متنفّرہوجائےگاايک مسلمان کواگرراستےميں کھانےپينے کی اشياء پڑی ہوئی مل جائيں تووہ فورًاانہيں محفوظ مقام پررکھنے کی کوشش کريگا تاکہ پاؤں سےکچل کراس رزق اورپاک وطاہرچيزکی بےحرمتی نہ ہو اور اگر اسے راستے سےنہيں بھی ہٹاتاہے تو بھی اپنا پاؤں اس سےبچاکرچلےگا ، اسی طرح کسی بھی پاک و حلال چيزکو آدمی حمام وغيرہ میں بيٹھـ کر کھانے کا تصوّربھی نہيں کرسکتاہے اوريہ صرف اس وجہ سے ہے کہ اللہ رب العزت نے فطری طورپرانسان کے دل ميں ان حلال و پاک اشياء اور نعمتِ الہی کی عزت وحرمت اورعظمت ڈال دی ہے، اس کے برخلاف سگريٹ، تمباکواوراس قبيل کی ساری چيزوں کامحل و مقام ليٹرن وحمّام ہوتاہے زيادہ تر لوگوں کوديکھا جاتاہےکہ وہ ان کا استعمال اکثر حمّام میں قضا‏ئے حاجت سے پہلے يا ساتھـ ہی ميں کرتے ہيں اور استعمال کےبعد بچےہوئے حصہ کوگندی جگہوں کی نظر کرتے ہيں نيز راہ چلتے استعمال کےبعد اوّل تواستعمال کرنےوالاخود ہی اسےاپنےپاؤں سےکچل ڈالتا ہےاورپھرراہ چلتےجتنےلوگ گزرتےہيں سب کے پاؤں تلے آکراپنےاستعمال کرنے والے کےلئےغيراخلاقی اورغيرفطری وانسانی عمل کااشتہاربن جاتاہے ۔

معلوم ہوا کہ ان کا استعمال کرنے والا خودانہيں غيراخلاقی اورغير انسانی عمل تصوّرکرتاہےجسےغيرشعوری طورپرتسليم بھی کررہاہے اور پھربھی ان کے استعمال پرمُصرہے ؟؟؟؟؟

7 ــ سگريٹ نوشی ايک موذی عمل بھی ہے جس سے دوسروں کو کافی تکليف پہنچتی ہے،خاص طورسےان فرشتوں کوجوانسان کےساتھـ ہميشہ لگے رہتے ہيں جن کے سلسلے میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :{وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ كِرَاماً كَاتِبِينَ } (الإنفطار10ـ11) ( يقينًا تم پر نگہبان عزت والے لکھنے والے مقرر ہيں )

واضح رہے کہ ان فرشتوں کو بعض ان چيزوں کی بو سے بھی تکليف پہنچتی ہے جو حلال ہيں ، مثلا : لہسن اور پياز وغيرہ ، جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہيں کہ : اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا : " من أكل ثؤما أو بصلا ً فليعتزلنا أو فليعتزل مسجدنا " (البخارى رقم ( 5452 ) (10/721) .) "جو لہسن ياپياز کھایا ہو اسے ہم سے یاہماری مسجد سے دور رہنا چاہئے " صحیح مسلم کی روایت میں ہے: " من أكل البصل و الثؤم و الكراث فلايقربن مسجدنا , فإن الملائكة تتأذى مما يتأذى منه بنو آدم"( مسلم (1/394 رقم 3 ) ) "جس شخص نے پیاز، لہسن اورگندنا (ایک بدبودار سبزی جس کی بعض قسمیں پیازاور بعض لہسن سے مشابہ ہوتی ہیں یاسوسن یاچمیلی کی اقسام سے ایک نہایت ہی بدبودار لمبی شاخوں والا پودا،دیکھئے: لسان العرب (2/80 ) مختار الصّحاح للرازی ( ص 360 ) القاموس المحیط (ص 223) والمعجم الوسیط (ص 782) ) کھایاہو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ جن چیزوں سےانسان تکلیف محسوس کرتاہےانہیں بدبودار چیزوں سے فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے "

لہسن اورپیازوغیرہ کی بوسے،جن کا حلال اورفائدہ مندغذاؤں میں شمار ہوتاہے، فرشتوں کوتکلیف پہنچتی ہے توبیڑی ، سگریٹ اورتمباکو وغیرہ جو حرام اورضرر رساں بھی ہیں، کی بدبوسے انہیں کتنی تکلیف ہوتی ہوگی ؟

مذکورہ چیزوں کی بدبو سے عام آدمی کو بھی کافی تکلیف ہوتی ہے جو کہ اسلامی مزاج اورتعلیمات کے یکسر خلاف ہے ، کیونکہ ایک مسلمان صحیح مسلمان اس وقت ہوسکتا ہے جب اس کی تکلیف سے عام مسلمان محفوظ ہوں، اللہ تعالی ارشادفرماتاہے :{وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناً} (الأحزاب 58) ( اورجو لوگ مومن مرد اورمومن عورتوں کو ان سے بغیرکسی جرم کےسرزد ہوئے ایذاء دیں وہ (بڑےہی) بہتان اورصریح گناہ کا بوجھـ اٹھاتے ہیں )

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ، اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا :"المسلم من سلم المسلمون من لسانه و يده " (( البخارى (11/316) و مسلم (1/65) رقم 40)) " صحیح مسلمان وہ ہے جس کے زبان و ہاتھـ سے مسلمان محفوظ رہیں " اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : " لا ضرر و لا ضرار "( أحمد ( 5 / 326 ) و ابن ماجة رقم (2340) شیخ البانی رحمہ اللہ نےاس کی تصحیح کی ہے ، دیکھئے : إرواء الغليل ( 3 / 408 ) ۔

" نہ نقصان پہونچائے اور نہ ہی بدلے میں نقصان پہونچایاجائے "

بہت سارے تمباکو خور اور سگریٹ نوش اکـثر انہیں استعمال کرنےکے بعد ان کی بدبو کو زائل کۓ بغیرہی نماز کےلۓ مسجد میں چلے جاتے ہیں جس سے نمازیوں کو کافی تکلیف ہوتی ہے ، اس کے علاوہ اس کے دھوئیں سے پھیلنے والی کینسر کی بیماری کابھی خدشہ ہے، اوریہ دوسروں کوتکیف دیناہے جیسا کہ پہلے ذکرکیا گیا ۔

8 – سگریٹ نوشی کافروں خصوصایہودیوں کےتعاون اوران کی مدد کا ایک اہم ذریعہ ہے ،ایک رپورٹ کےمطابق پوری دنیاکی کل آبادی (5 ۔ 6) بلین ہےجس میں مسلم دنیا کی آبادی( 5 ۔1) بلین ہےجن میں کل سگریٹ پینے والوں کی تعداد ) 15۔ 1 ) بلین ہے اور ان میں کل مسلم اسموکر دنیابھر میں (400 ) ملین ہیں۔دنیا میں سگریٹ بنانے والی سب سےبڑی یہودی کمپنی کا نام فلپ مورس ہے اور فلپ مورس کے منافع کا (12% ) فیصدحصہ اسرائیل کوجاتاہے ، فلپ مورس کی فروخت روزانہ مسلم دنیا میں (800 ) ملین ڈالرز ہیں اور (800 ( ملین ڈالرز کا )10٪ ) فیصد منافع ( 80 ) ملین ڈالرز بنتاہے ، اس طرح مسلم سگریٹ نوشوں سے حاصل شدہ منافع ( 6۔ 9 ) ملین ڈالرز روزانہ اسرائیل کوپہنچتے ہیں ۔



اتوار، 4 اپریل، 2010

ذراتلخ مگرسچ

 تمباکوخور اورسگريٹ نوش حضرات اكثریہ کہتے ہوئے ملتے ہيں کہ : " ميں نے فلاں مولوی صاحب يافلاں شيخ صاحب کو استعمال کرتے ہو‏ئے ديکھا ہے ، اگريہ چيز حرام ہوتی تو يہ حضرات ان کا استعمال کيوں کرتے ؟ " يہاں پر ميں ان حضرات کو مندرجہ ذيل چند باتوں کی طرف متوجّہ کرنا چاہوں گا :
(1) شريعت اوراس کے تمام امورواحکام اللہ تبارک وتعالی کےنازل کردہ ہيں، جنہيں خاتم النبيين محمدصلی اللہ عليہ وسلم نے پوری امانت و ديانت اور تفصيل و وضاحت کےساتھـ قولاًوعملاًپوری دنياکے لئےبيان فرمادياہے،جنکی عملی تفسير وتعبيرصحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آنے والی نسلوں کے سامنے پيش کيااورجن کی پوری تشريح وتفصيل ائمہ محدّثين اورفقہاء کی کتابوں ميں موجودہے،ظاہر ہے کہ شريعت چند مولويوں اورشيخوں کےخود ساختہ عمل اور طرزِعمل کا نام نہيں ہے، اگر ان چند مولويوں کےطرزِعمل کو ہی شريعت مان ليا جا‏ئے تو پھر ان ميں اوربنو اسرائيل ميں کيا فرق رہ جائےگا،جنہوں نےاپنےعلماء کو ہي اصل شارع مان کراپنے رب اوراس کے نبی کی تعليمات سے روگردانی کرليا تھا ؟ اللہ
تعالی کا ارشاد ہے : {اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ }( التوبة 31) (ان لوگوں نے اپنےعلماء کو اللہ کے سوا رب مان ليا اورمريم کےبيٹے مسيح کورب بناليا) عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نےکہا : " انہوں نےان (علماء) کومعبود تو نہيں بنايا تھا؟ " تو اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : " ہاں ليکن انہوں نے ان کے لئے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرديا تھااور ان لوگوں نے اس ميں ان کی اتّباع کی يہی ان کی عبادت ہے "(تفسیرابن کثیر، دیکھۓ: المصباح المنیر( ص 563 – 564 ) ) ۔
(2) اسے عقل کی خرابی کہيں ياخواہشات کی غلامی کہ ايسےحضرات مذکورہ قسم کےمولويوں کےبرےاورغلط اعمال کو آئيڈيل اورقابلِ تقليد بناتےہيں اور اچھےعلماءکے نيک اوراچھےاعمال جوکتاب وسنت کےمطابق ہوتے ہيں ان سے روگردانی کرتےہيں،بلاشبہ علماءان لوگوں کے لئےجو کتاب و سنت کے علوم سے نابلد ہوتے ہيں قابلِ اتّباع ہيں ، دين کی معرفت، حلال وحرام کی تمیيز ، عبادات کی صحيح ادائیگی اوردين کے ديگر امور ميں عام آدمی علماء کا محتاج ہوتاہے ، ليکن علماء کی اس حيثيت سے پہلوتہی کرکےچند خودساختہ طرزِ عمل والےمولويوں کےکسی عمل کوگلے لگانا شريعت کے مزاج کے يکسرخلاف ہے ۔
(3) بلاشبہ انسان خطاکارہوتاہےخطائيں کرنا اس کی فطرت ميں داخل ہے ليکن شريعت کاتقاضہ يہ ہےکہ آدمی کواپنی غلطی کااحساس ہو اوراسے اس پرندامت ہو، پھراس گناہ سے توبہ کرکےاس سےمستقبل ميں بچنےکاعزم کرے يہی تقوی اورخوفِ الہی سے معموردل کاشيوہ ہے،اسکےباوجود ہرمعاشرے ميں چند نام نہادمولوی ايسے مل جاتےہيں جنہوں نے شريعت مخالف امورکو انجام دينااپناشيوہ بنالياہے، ايسےنام نہادمولويوں ميں آپ کوجھوٹا،مکّار، فريب کار،دغاباز،بےنمازی، حرام خور، پڑوسيوں کےحقوق مارنےوالے، والدين کی نافرمانی کرنےوالےاورتجارت ميں بےايمانی کرنےوالےيہاں تک کہ زنااورلواطت جيسے قبيح اورناقابل معافی جرم وگناہ کا ارتکاب کرنےوالےبھی مل جائيں گے توکياان نام نہاد مولويوں کےکرنے سے يہ سارےکام جائزومباح ہوجائيں گے ؟ ہمارے لئےتو دليلِ راہ کتاب وسنت ہے، آئيڈيل ونمونہ نبی آخر الزماں محمدصلی اللہ عليہ وسلم ہيں اور مشعل راہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور ان کا تقوی اورخوفِ الہی ہےنہ کہ ان " تقوی خور"مولويوں کاطرزِعمل!!
(4) جوعلماء اس بری لت کےشکارہیں وہ اس بات کادعوی ہرگزنہیں کرتےکہ وہ معصوم عن الخطاء ہیں،ان میں سےاکـثرجوانی یابچپن ہی میں اس کےشکار ہوۓ پھران کی قوّت ارادی اتنی کمزور پڑگئی کہ اس سےبچناان کےلۓ مشکل ہوگیا(اس میں کہیں نہ کہیں ایمان کی کمزوری جھلکتی ہے) ٹھیک اسی طرح جس طرح بہت سارےڈاکٹراوراطبّاء سگریٹ وتمباکوکے خطرناک اوربھیانک انجام اوران کےنقصانات کایقین کامل رکھتے ہوۓ بھی اس لَت کے شکار ہیں، توکیا ان ڈاکٹروں کے استعمال کرنےسے ان کےنقصانات ختم ہوجاتے ہیں ؟
يہاں پر ميں نہايت ہی معذرت کے ساتھـ مخاطب ہوں ان بھائيوں سے جن کو اللہ رب العزت نے علم دينی و شرعی جيسی لازوال اور بےبہا نعمت سےنوازا ہے،جوانبياء کرام عليھم السلام کےوارث اوردعوت وارشاد کے پيکرہيں، جن کو خالق کون ومکاں نے خشيّت وتقوی کے اعلی مقام پر فائز کيا ہے : {َ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاء} (الفاطر28) ان کے اوپر لازم ہے کہ وہ اپنے تمام اعمال کوکتاب وسنت کے تابع کريں، اور اتباعِ ہوی وہوس کو پسِ پشت ڈال کران تمام برے اعمال سے توبہ کريں جو شعوری ياغيرشعوری طورپران کی زندگی ميں در آتے ہيں ، ايسا نہ ہوکہ ان کے بعض غلط حرکات کوعام آدمی صحيح اورعينِ شريعت سمجھـ کر ان پرعمل کرنے لگ جا‎ۓ ، علماء کو تو بعض اوقات ان جائزکاموں کوبھی چھوڑنا پڑتاہےجوبسااوقات لوگوں کی نگاہ ميں ان کی جلالت ومنصب اورتقوی ومروءت کے خلاف معلوم ہوتے ہيں ، يا جس سے کسی غلط فہمی کی بنيادپرکسی شرّکادروازہ واہونے کا خطرہ ہو ، کيوںکہ دفعِ مضرّت جلبِ منفعت سے اولی وبہترہے ۔

چندحقائق

 انسا ن جب اپنےنفس کاغلام اورخواہشات کاپيروکاربن جاتا ہےتو اپنے ہراچھے برے عمل کےلئےحيلوں بہانوں اوردليلوں کی ايک اونچی ديوار کھڑی کرليتاہے اوراللہ کی حدوودسے تجاوزکرنےميں کوئی عارمحسوس نہيں کرتا اوربسااوقات اپنے برےاورغلط عمل کے لئے ايسی بھونڈی اورلَچَر دليليں پيش کرتاہےکہ عقل وخردانہيں کبھی قبول نہ کرسکے،يہاں تک کہ کـفروشرک جيسے گناہِ عظيم کا ارتکاب کرنےوالے بھی اپنےعمل کے لئے دلائل رکھتے ہيں وہ دلائل عقل وخرد سے کتنے ہی بعيد کيوں نہ ہوں، کيوںکہ شيطان انہیں ان کے سامنے مضبوط اورمزيّن کرکے پيش کرتاہے ، اورصحيح دليلوں اورحقائق پرپردہ ڈال کر انہيں حقيقت سےاندھا کرديتاہے، ايک ايمان کےداعويدار شرابی کو ميں نے يہ کہتےہوئے سناکہ :" شراب پينابری بات نہيں ہے برا تو يہ ہےکہ زیادہ پی لی جائے " ۔
ايک کافرکو اسلام کی دعوت ديتے ہوئےميں نےشرک کےمضرّات ونقصانات اور اس کا حکم بيان کرتے ہوئے نصيحت کی کہ کيسے تم اللہ رب العزت وحدہ لاشريک لہ،جو ہمارا اورساری دنيا کاخالق مالک اوررازق ہےجس کی يکتائی کی گواہی دنيا کا ذرّہ ذرّہ ديتاہے، کوچھوڑ کر پتھر، درخت، مورتی اور ديگر چيزوں کي عبادت کرتےہو،جوکہ خودمخلوق اورمحتاج ہيں اورنفع اورنقصان کا اد نی اختيارنہيں رکھتے ؟ وہ تو خوداپنے نقصانات کاازالہ نہيں کرسکتےتو تمہاری کيامدد کرسکتے ہيں۔۔۔؟
ہماری اس لمبی نصيحت کے بعد اس شخص کا جواب تھا : " ہم ان بےجان چيزوں کی عبادت ہرگزنہيں کرتے بلکہ ہم توصرف ايک ذات کی پوجاوعبادت کرتےہيں( حالانکہ خود ان کا عمل وعقیدہ ان کے قول کے خلاف ہے رشی مُنیوں کو یہ مشکل کُشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں تضاد بیانی تو کسی بھی باطل کاطرّہ امتیاز ہے ۔) جوہمارا اوران بےجان چيزوں کاخالق ہے ، ليکن چونکہ ہمارا رب غيرمرئی ہے ،ہم نےياکسی نےبھی اسکوديکھانہيں ہے،صرف سناہے يافطرت کی آوازسے پہچاناہے،اورکسی بھی اَن ديکھےشئ کی عبادت ميں وہ روح پيدا نہيں ہوسکتی جس کا نفس مطالبہ کرتاہے ، اس لئے ہم ان بےجان چيزوں کو علامت بناکر اورمختلف نام ديکر اس کی پوجا کرتے ہيں، تاکہ ہماری عبادتوں کےاندرزيادہ سے زيادہ عقيدت اور روحانيت پيداہو" !
سچ ہے اللہ تعالی جسے ہدايت ديناچاہےصحيح سوچ وفکر سے نواز کر راہِ مستقيم پرگامزن کرديتاہے اور جسےضلالت وگمراہی کے عميق گارميں دھکيل دے اسے دنياکی کوئی طاقت اس سے نہيں نکال سکتی،کـتنی کمزور اور لايعنی سی بات کو شيطان نےلوگوں کےسامنے مزيّن اورمضبوط بناکرپيش کردياہے ، وہ ذات جو ہماری شہ رگ سے بھی زيادہ قريب ہے، اسے فطری طور پر پہچاننے کے باوجود مشرک اس کے لئے علامت اور ذريعہ بنانے پر تُلا ہوا ہے؟؟؟؟ ۔
یہ توصرف ایک مثال ہےورنہ اس قسم کے ہزاروں بےسرپیرکے دلائل ان کے پاس موجودہوتےہیں ۔
آمدم برسرمطلب! سگريٹ نوش اورتمباکوخورحضرات بھی اپنے ساتھـ نہايت ہی بھونڈی دليلیں رکھتے، ہيں اوران تمام دلائل سےنگاہيں چُرا ليتے ہيں، جوکتاب وسنت کےاندربيان شدہ ہيں اورجنہيں علمائےکرام نےپوری تفصيل کے ساتھـ بيان کردياہے، کيونکہ يہ دلائل ان کے دل،ان کی طبيعت، خواہشات اور مادّيت پرستی سےمطابقت نہيں رکھتے، لہذا يہ شريعت کواپنے تابع بنانےکے لئے مَن گھڑت دلائل کواوچھےہتھکنڈےکے طورپر استعمال کرتے ہيں، جبکہ نفس و طبيعت اورخواہشات کواسلامی احکام و امور کے تابع بناناہی اصل اسلام و ايمان اورذريعہ نجات وکاميابی ہے،اللہ کےرسول صلی اللہ عليہ وسلم نےارشادفرمايا : " لا يؤمن أحدكم حتى يكون هواه تبعاً لماجئت به"( رواه البغوى فى شرح السنة(1/213) والنووى فى الأربعين(41) بسندصحيح ) "تم ميں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک کامل مومن نہيں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات ميری لائی ہوئی شريعت کے تابع نہ ہوجائیں "


کتاب : سگریٹ نوشی کی دینی وشرعی حیثیت سےماخوذ



تقديم

الحمدلله ربّ العالمين,والصَّلاة والسَّلام على عبده ورسوله محمّد,أفضل الرسل,وخاتم النبيّين, وعلى آله وصحبه ومن اهتدى بهديه واقتفى أثره إلى يوم الدِّين، وبعد :
اسلام ايک فطری دين ہے،جس کے اندرانسانی فطرت وعقل اور جسم وجاں کی مکمّل رعايت کےساتھـ زندگی ميں پيش آمدہ مسائل کی سادہ اور آسان سی توضيح وتشريح موجودہے،بلکہ دين کی تکميل ہی تمام امورو نواہی اور احکام وشرائع کی تکميل تعيين اورتشريح کےساتھـ ہوئی ہے ، چنانچہ اللہ تعالی نے اسے نعمت سے تعبير کرتے ہوئے اس کوگلےلگانے والوں کے لئے اپنی رضامندی کااظہارکياہے،ارشادفرماتاہے: {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينا}(المائدہ 3)(آج میں نےتمہارےلئے تمہارےدين کومکمّل کرديااورتمہارے اوپراپنی نعمت کااتمام کرديا، اور تمہارے لئے ميں نےاسلام کو بطوردين کے پسند کرليا ) ۔
اسلام کے تمام احکام و شرائع میں خوردونوش کے مسائل کو کافی اہميت دی گئی ہے ، کھانے پينے کے آداب ، حرام وحلال کی پوری تفصيل ، انہيں حاصل کرنے کے جائز وناجائز وسائل وذرائع کا بيان اورخرچ کرنے کی راہيں، ان تمام چيزوں کابيان اوران کی پوری تفصيل قرآن وسنت اور کتب فقہ ميں بھری پڑی ہيں ۔
حلال وحرام کی پوری تفصيل کےسا تھـ ساتھـ اللہ رب العزت نےان اشياء کے لئے ايک اصول بھی بنادياہے،جو مرورِزمانہ کے ساتھـ وجود ميں آتی رہتی ہيں، ارشاد فرماتاہے:{وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ }( الأعراف 157 ) ( ( محمد صلی اللہ عليہ وسلم ) ان کے لئے پاکيزہ صاف ستھری چيزيں حلال بتاتے ہيں اورگندی ناپاک چيزيں حرام بتاتے ہيں ) اور ظاہر ہے کہ يہ قاعدہ کلّيہ قيامت تک کےلئے ،ہرزمانہ میں دنياکےتمام گوشے اورخطّےکے لئےہے لہذادنياکے کسی بھی خطّے اورزمانےميں پائی جانے والی کوئی بھی چيز شريعت کے متعيّن اس اصول سےخارج نہيں ہے ، انہيں اشياء ميں سے ايک تمباکو اور اس سے مشتق ديگر اشياء مثلا : سگريٹ، بيڑی،چيلم ،زردہ،کھينی،ہيروئن، افيون، بھنگ،گانجہ،ڈرگس اور نشہ آورانجکشن وغيرہ بھی ہيں،جنہيں قرآن وسنت کےنصوص اورشريعت کےتمام اصول وقواعد کے پيشِ نظرعلماۓ کرام حرام قرار دتیےہيں،کيونکہ يہ حرام اشياءاللہ کی حدودہيں جن کی پاسداری ہرمومن پرفرض ہے ، ارشاد فرماتاہے : { وَمَن يَعْصِ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَاراً خَالِداً فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ }(النساء 14) (اورجواللہ اوراسکے رسول کی نافرمانی کرےگااوراس کی مقرّرکردہ حدوں سے آگے نکلےگا، اسے جھنّم کی آگ ميں ڈال ديگا جس ميں وہ ہميشہ رہيگا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہوگا ) ۔