اتوار، 14 اپریل، 2024

مسلمان سیویاں !

 

 مسلمان سیویاں  !


     سیوئی !  نام سن کر ہی لذت کا احساس ہو،لذیذو مقوی غذا  جو کبھی علاقائی ہواکر تی تھی اور اب تو بین الاقوامی حیثیت اختیار چکی ہے ،پہلے دادیوں ،نانیوں  کے ہاتھ سے بنتی تھی ،اور اسے پیرنے (سیوئی  بنانے والی  مشین چلانا ) کے لئے ہم جیسے گھرکےمستی خور لڑکوں  کو قربانی دینی پڑتی تھی ۔ اور اب  تو اس کی بڑی بڑی فیکٹریاں ہیں  ؟پہلے صرف خالص گیہوں کے آٹے کی بنتی تھی لیکن اب جدید تکنیک کے ساتھ ترقی کے اوج پر سوار ہوکر  مائدہ پر  اپنا قبضہ  جمالیاہے  ۔

گزرے وقتوں میں  مذہبی اعتبار سے سیویوں کی بڑی وقعت رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک  عجیب  سا سوال ہم شمالی ہندستان کے مسلمانوں  کے ذہن میں آتاتھا کہ ان سیویوں کی کچھ دینی حیثیت بھی ہے ؟ آخر اس کا جڑاؤ ہم مسلمانوں سے کیوں ہوگیا ؟ ۔ چلئے اس سوال کا جواب مکمل تو نہیں تھوڑا بہت  ڈھونڈھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

 میں یہاں رنگ برنگی  اور انواع اقسام کی  ساری سیویوں کی بات نہیں کروں گا  ، آج میری بات ان سیویوں سے متعلق ہے جنہوں  نےصدیوں سے  ہمارے ایک  دینی شعار کے نام کو اغواء  کرکے اس پراپنے نام کا سکہ جما لیاہے،  ٹھیک ویسے ہی جیسے یوگیوں اور بھوگیوں نے ہندستان میں اسلامی پہچان والے ناموں کو بدلنے  کی قسم کھارکھی ہے۔ ہوسکتاہے کچھ احباب کو میرے ان معنون سیویوں کی چاشنی پسند نہ آئے لیکن  اس کا  ایک خاص پس منظرہے ،اور میں نے یہ ٹھان رکھی ہے کہ انہیں اس دسترخوان پر لانا ہی پڑےگا ، ہم بھی تو اسے  بچپن سے کہتے ،سنتے اور  جھیلتے آرہے ہیں ۔

"عیدکا دن" یا "عید الفطر "کتنا پیارا نام ہے جو شریعت نے ہمیں دی ہے،یہاں سعودی عرب میں جوں ہی عیدکے چاند کا  دیدار ہوا "من العائدين" کی دعاء ہر زبان پر جاری ہوجاتی ہے ، جس سے ملو یا فون پر بات کرو علیک سلیک کے بعد یہی دعاء  کان سے ٹکراتی ہے۔ برا ہو ان سیویوں کا جنہوں نے  ایک وقت ہمارے کان کوعید الفطر کے  نام  سے  آشنائی  کو ترسادیاتھا،میں بات کررہاہوں شمالی ہندستان کے کچھ علاقوں کی جہاں بہت سارے لوگ بلکہ بعض علاقوں میں اکثر لوگ  عیدکا نام توجانتے ہی نہیں ان سے کہو عیدکے دن یہ کرنا ہے یا عید آنے والی ہے تو منہ تکتے رہ جاتےہیں ہاں جب  زبان پر "سیوئی  کادن"  آتاہے تو ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں ،شنیدکہ بہت سارے ڈراموں ، افسانوں اورناولوں میں یہ دن  اسی  نام سے جانا اور پہچانا جاتاہے ،بلکہ بعض مناسبات سے سیوئی  اور مسلمان کا ذکر لازم وملزوم  ہوتاہے ،جیسے سیوئی ہی مسلمانوں کا شعار اور ان  کی پہچان ہو، ٹھیک ویسے ہی جیسے : اگر مسلمان ہےتو گوشت  ضرور کھائےگا ۔ سچ پوچھئےتو گوشت ، کھجور اور سیویوں کی" مسلمانی" کردی گئی ہے ،  یہی نہیں ٹیلیویزن کے  بہت سارے  نشریات میں عید کی مناسبت سےخاص اسی ڈِش سے متعلق  پروگرام نشر کئے جاتے ہیں۔ جوں  جوں عید کا دن قریب ہوتاہے اس  کےلئے خصوصی طور پر پیالے چمچ اور دیگر اشیاء کی بے تحاشہ خرید وفروخت ہوتی ہے،رمضان اور عید میں بازار کی پچاس سے ستر فیصد رونق تو سیویوں سے ہی ہوتی ہے  ۔اس دن کا تصور سیویوں کے بغیر تو ناممکنات میں سے ہے ، اگر غلطی سے بھی  عید کے دن یا  اس کے ملحق ایام میں  زیارت وملاقات کے لئےآنے   والے کسی مہمان کو سیوئی  کے علاوہ کچھ اور  کھلادیاتو پھر آپ کی خیرنہیں ،بنیادی ڈش یہی ہے صرف اسی پر اکتفاء کیجئے تو  محبت ، دوستی اور رشتے داری میں چارچاند لگ جاتاہے اور اگر اس کے ساتھ کوئی دوسری ڈش پیش کیجئے تو یہ صرف مہمان نوازی کا لاحقہ ہے اور کچھ نہیں ۔

میں نے جب ہوش سنبھالا تو عید میں خوب سیویاں اڑائیں  اپنے گھر ، اِس گھر ،اُس گھر ،جہاں جاؤ رنگ برنگی ہاتھ کی، مشین کی، زردہ،فینی  ، دودھ والی   ، سادی اور لچھے دار ہر طرح کی سیویوں سے کام ودہن کو لذت آشنا کیا ،حالانکہ تعلیم یافتہ گھرانہ ہونے کی وجہ سے اپنے  گھر میں "سیوئی کا دن" والا نام ممنوع تھا، لیکن علاقے اور گاؤں اور معاشرے میں کس کو کون سمجھائے؟ ایک تو ان کی زبان پر "عیدکا دن "چڑھتاہی نہیں تھا اور دوسرے وہ  زچ ہوکر یہی کہتے :نیا نیا مولوی بنا ہےنا ۔۔۔۔۔  یہ آباء واجداد کی تقلید کا کرشمہ ہے جس نے انبیاء کرام علیھم السلام تک  کی  دعوت الی اللہ اور کلمۂ  توحید کو روکنےکی  ہمیشہ اور بھرپور کوششیں کی ۔ اہل تقلید جب اپنے جمود میں کتاب وسنت اور منہج سلف کو  ٹھکرائیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے،تقلید کےجمود کا شیوہ ہی ہزاروں  سال سے یہی رہاہے، اور"بازو والوں "کو  تو ویسے ہی "نذرونیاز" اور     " فاتحہ" کے ساتھ ساتھ"بدعت حسنہ " اور "ممانعت کہاں ہے "کا چسکا ہمیشہ  بھرپور اور بہت زورسے  لگا رہتا ہے۔

میں جب  تھوڑا بڑا ہوا اور عیدیں نانیہال میں گزرنے لگیں تو  سیویوں کے خلاف مہم چلانے والے نانا اور ماموں کےیہاںسیویو ں کو چھوڑکر انواع اقسام  کے حلویات ملتے تھے ، شب براءت کے کھانوں اور ان میں خصوصی  دعوتوں  ، ہر طرح کی منشیات ومخدرات، بیٹیوں بہنوں کی وراثت سے محرومی   اور فرض نمازوں کے بعد اجتماعی رسمی دعاء   وغیرہ کے خاتمے کے ساتھ ساتھ  سیویوں کے طلسم کو توڑنے کےلئے پورے گاؤں میں یہ ایک سلفی گھرانہ سینہ سپر تھا ، ان کو ہر طرح کی بدعات کےساتھ سیویوں کی  اس بدعت سے بھی نفرت تھی جس نے نام سے لے کھان پان تک میں  لوگوں کے اذہان وقلوب  پر  اپنا تسلط  جما رکھا تھا ، عید کے دن لوگ آتے اور ان کے گھروں سے سیویوں کو ترستے ہوئے انواع اقسام کی مٹھائیاں اور حلوے کھاکر جاتے ، بعد میں کیا کہتے تھے ہمیں پتہ نہیں، کچھ نہ کچھ تو کہتے ہی ہوں گے ۔ واللہ اعلم  ۔

ایک بار ہمارے ایک قریبی کو کچھ مجبوری پیش آئی عیدکے قریب  میرے بڑے بھائی کےپاس آکر کہنےلگے کہ دیکھئے نہ سیوئی تک خریدنے کےلئے پیسے نہیں ہیں!!!  ،یہ  جملہ اب  تک گھرمیں  لطیفہ  بنا رہاہے کہ :  دیکھئے  ان کو  گھر میں  اناج اور کپڑے کی فکر نہیں ہے، اور فکر ہے تو صرف عید کی سیوئی  کی !!!! ۔

کئی سالوں سے ہم لوگ گاؤں میں نہیں رہتے ،ایک بار  بچوں نے عید گاؤں میں ہی منانے کا مَن بنایا ، نمازعید کےبعد آس پڑوس سے سیویوں کے پیالے آنے شروع ہوگئے ، کسے منع کرتے گھر میں کھانے والے بھی زیادہ نہیں تھے ،اس لئے ان پیالوں کو آنے والے مہمانوں کے سامنے رکھنا شروع کردیا کیوں کہ جو بھی آتا کہتا : سیوئی کھلاؤ  ! ایک صاحب آئے اور کہنے لگے : سیوئی کھلاؤ! میں نے کہا: سیوئی نہیں کچھ  اور کھلاؤں گا ، عجیب نگاہوں سے دیکھنے لگے ،لگتاتھا کہ  اٹھ کر چلے نہ جائیں ، پھر چند کھجوریں اور گھر کے بنے حلویات ان کےسامنےرکھ دیا ، واضح طور پر ان کے چہرے سے سیوئی  کی طلب محسوس کی جاسکتی تھی ، پھر جب تک سیوئی  کا پیالہ  ان کے سامنے نہیں آیا انہیں  آسودگی نہیں ہوئی ۔

استاد محترم اور ہمارے مربی اور چھوٹے ماموں جان  شیخ احمد مجتبی مدنی حفظہ اللہ نےچند دلچسپ واقعات اور لطیفے  بیان فرمائے ہیں جن کی وجہ سے ہی انہوں نے اپنےگاؤں اور علاقے میں سیویوں کے خلاف مہم چھیڑی تھی وہ واقعات کچھ اس طرح ہیں  :

ان کی ایک پڑوسن نے ان سے کہا کہ لگتاہے کہ اس سال ہمارا روزہ قبول نہیں ہوگا تو انہوں  نے پوچھا کہ کیوں ؟ تو محترمہ نے فرمایا کہ سیویاں پیرنے (بنانے) کی مشین مل ہی نہیں رہی ہے۔

اور ایک  واقعہ  یہ ہواکہ عید گاہ سے لگے ہوئے ایک گھر والے کی عید نماز اس لیے چھوٹ گئی  کہ وہ سیویوں کے لیے دودھ تلاش کرنے کے چکر میں بہت دور نکل گیا تھا۔واپس آتے آتے نماز عید ختم ھوگئی تھی۔

شیخ نے ایک صاحب کو  اپنےیہاں  آنے کی دعوت دی تو فرمایا سیوئی کھلائیں گے تب آپ کےیہاں آونگا۔

 یہ بتاتاچلوں کہ تمام علاقوں میں عمومی طور پر عید کے دن نماز کے بعد لوگ گروہ بنا کر گاؤں میں لوگوں کے گھروں میں  ایک ایک کرکے جاتےہیں اور مقصد عید مِلَن کے ساتھ ساتھ سیوئی  کھانا ہی ہوتاہے ،  کچھ  بچے رشتے داروں کے یہاں عیدی لینے جاتے ہیں ، اس زیارت رائجہ  خاصہ وعامہ میں بچے ،بوڑھے ،جوان ،مرد عورتیں سب شامل ہوتےہیں، اور سب کا اپنے ہم مزاج احباب  کےساتھ الگ الگ گروپ ہوتاہے۔اور تو اور ہماری بستی میں پڑوس کےہندو حق سے سیوئی مانگتے ہیں  ،کسی وجہ  سے اگر  نہیں دیا یا  دینا بھول جا‏ؤ تو ناراض ہوجاتےہیں ، اس دن انہیں بھی سیوئی کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہئے ، کمال تو یہ ہے کہ سیوئی کے ساتھ کم سے کم شکر ضرور لیتےہیں ورنہ اس کے  ساتھ ڈرائی فروٹس وغیرہ بھی چاہئے، یہ بغیر پکائی ہوئی سیویوں کی بات ہے ورنہ عید کی نماز کے بعد وہ اپنے بچوں کو لےکر انہیں  دودھ والی سیوئی  کھلانے حاضر ہوجاتےہیں ، یہ اس وقت  بہت ہوتاتھا جب ہندو مسلم میں موجودہ نفرت بھرا ماحول نہیں تھا ، پھربھی  دیہی علاقوں  میں اس طرح کی محبت اب بھی   کچھ کچھ باقی ہے ۔

سیویوں سے متعلق  بعض علاقوں میں ایک نہایت ہی غلط عقیدہ پھیلا ہوا ہے کہ جس سال  کسی گھر میں کوئی فوت ہو تو ان کے یہاں سیویاں نہیں بنائی جاتیں اس عقیدے کے ساتھ کہ اگر  اس سال سیویاں بنائی گئیں تو سیویوں کی لڑیوں کی طرح گھریا خاندان میں موتوں کا سلسلہ شروع ہوجائےگا ۔جس سال میری والدہ ماجدہ  رحمھا اللہ رحمۃ واسعۃ کی وفات ہوئی اسی سال گاؤں میں بھی بعض گھرانوں میں  موت ہوئی تھی اور کچھ دنوں کے بعد عید الفطرآگئی، رمضان میں جب میں جامعہ سے گھر آیاتو پتہ چلا کہ فلاں فلاں گھر والے اس سال اپنے یہاں سیویاں نہیں بنارہے ہیں کہ کہیں  ان کے یہاں موتوں کا سلسلہ نہ شروع ہوجائے ،البتہ کچھ لوگ اس انتظار میں ہیں کہ ہمارےیہاں سیویاں بنتی ہیں یا نہیں  ؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ پڑھا لکھا گھرانہ ہے،اگر ان کے یہاں بنتی ہیں تو ہم بھی بنائیں گے ، پھر میں نے حالات کو دیکھتے ہوئے گھر میں سختی سے تاکید کی کہ  اورکبھی   سیویاں بنیں یا نہ بنیں لیکن اس سال ان کے علم میں لاکر ضرور بنائی جائیں تاکہ ان کے خرافاتی عقائد کو بدلنے میں  کچھ مدد مل سکے ۔واضح رہے کہ میرے گھر میں چونکہ سب لوگ  سیویوں کے بڑےشوقین ہیں اس لئے پہلے پورا رمضان اور  اب تو الا ماشاء اللہ   پورے سال   اس کا استعمال ہوتا ہی رہتاہے۔

سیوئی بہترین ، مقوی  اور لذیذ کھانوں میں سے  ایک ہے، اس کی  مختلف قسمیں  رب العزت کی بہترین  نعمتوں  کا مظہر ہیں  ، اس لئے ایک صحت مند زندگی کے لئے دیگر غذاؤں کی طرح اس کی بھی ضرورت ہے، وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ دیگر اشیاء کی طرح  اس کے اندربھی  تنوع پیدا ہوتاگیاہے، آپ بازار میں چلےجائیں اس کی دسیوں قسمیں ملیں گی ، اب تو تقریبا ہر  موسم میں مل جاتی ہیں ورنہ تیس پینتیس سال قبل تو صرف عید کے موقع سے ہی اس کا دیدار ہوتاتھا ،بہرحال علماء ودعاۃ اور طلباء علوم دینیہ کی کوششوں  اور ہر موسم میں اس کی موجودگی نے اس کی رسمیات وبدعات  کے اثرات کو ختم کرنے میں بڑا کردارکیاہے فالحمدللہ علی ذلک ۔ اس لئے آپ سب سیویوں کا خوب مزہ لیں اور سال بھرلیں ہاں ذرا  شوگر  والے احتیاط سے استعمال کریں ، یا  تو پھیکی یا پھر اسٹفیانا (Steviana ) سویٹنر(sweetener) ،کم کیلوریز (Calories ) اور شوگر فری والے اشیاء کے ساتھ  لیں ۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصرہو۔

(عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی /سعودی عرب )

29/9/1445 ھ/8/4/2024 ء

میں اور میرا فطرانہ

                 میں اور میرا  فطرانہ

                                        (عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی /سعودی عرب)                                    

      صدقۃ الفطر جسے ہمارے علاقےکی عام زبان میں فطرہ یا فطرانہ کہاجاتاہے ، ہے تو نہایت ہی عظیم اور مہتم بالشان  عبادت جو اپنے اندر مختلف شرعی اور سماجی مقاصد رکھتاہے، خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طھرۃ  للصائم اور طعمۃ للمساکین کہہ کر اس کے بڑے مقاصد کی وضاحت کردی ہے ۔ پھر اس کے اخراج اور تقسیم  میں حکمت و اجتماعیت اور تعاون وجذبات کا اپنا ایک الگ مقام اور فلسفہ ہے  ، اس کے باوجود بسا اوقات بلکہ کئی سالوں سے مسلسل اختلاف  ونظریات کا مشق ستم بنتا آرہاہے، میں کئی ماہ سے سوچ رہاتھا کہ اس پر کچھ لکھوں ،حالانکہ اس کے احکام اور فضائل سے متعلق  ایک متوسط حجم کا مضمون  چند سالوں پہلے قلمبند کرچکاہوں جو مختلف سوشل سائٹس پر اورمجلات میں منشور ومطبوع ہے ۔لیکن آج میں اس سے متعلق اپنی زندگی کا تجربہ بیان کرنا چاہتاہو ں تاکہ قاری کو  ان کی اپنی زندگی میں اس کے ساتھ  کے سفر کی یاد دلا سکوں اور شاید اس سے اصحاب فکرونظر کونقطئہ اجتہاد مل سکے ۔ والله هو الهادي إلى سواءالسبيل ۔

میری پیدائش ایک ہندو اکثریت بستی میں ہوئی ہے،   جہاں ہندوانہ رسم ورواج نے بہت سارے دینی شعار کا بنٹا دھار کررکھاتھا ، کہنے کو تو اس بستی میں کچھ مسلمان بستے تھے لیکن دین کے نام پر زیروبٹا سناٹاتھا ،البتہ والدہ ماجدہ  رحمہا اللہ ایک بڑے سلفی گھرانے کی پروردہ تھیں اس لئے گھر خاندان میں  دینی   مزاج کو رواج دینے کی بڑی کوششیں کیں ۔ ان سے پہلے ہماری دادی جان رحمھا اللہ نے بھی جو اہلحدیث خاندان سے تھیں  بہت سارے شرکیہ  رسوم واعمال  کو ختم کرکے دین  وشریعت کے پود لگانے میں سنت ابراہیمی کو زندہ کیا جس کا بیان ایک  الگ  تحریر کا متقاضی ہے ۔

میں نے جب سے کچھ سوچنا اور سمجھنا شروع کیا یا یہ کہہ لیں کہ کچھ سدھ بُدھ ہوئی اس وقت  پایا کہ میری بستی میں کوئی مسجد نہیں تھی اور نہ ہی جمعہ وجماعت کا کوئی تصور تھا ، البتہ عیدین کی نماز جماعت کے ساتھ گاؤں سے باہرکسی ہندو کے کھلیان میں  ادا کی جاتی تھی  ،اور اس کی ذمہ داری  ہمارے بڑے والد صاحب نبھاتےتھے جو مسلکا بریلوی تھے ،یہی وجہ تھی کہ  والدہ ماجدہ اور ان کی اولاد کوچھوڑ کر سارا خاندان اور گاؤں کے سارے افراد  انہیں کی پیروی کرتےہوئے مختلف شرکیہ عقائد اور دین وشریعت میں تعامل واتباع میں حددرجہ تساہل کے شکار تھے ،ایسے حالات میں میں نے دیکھا کہ والد ہ رحمھا اللہ عیدکی نماز سے قبل یا ایک روز قبل ہی فطرانہ  کا غلہ  نکال کر رکھ دیتیں، (مجھے یہ یاد نہیں کہ والد صاحب اور بڑے بھائی  الگ سے کوئی نقدی بطور فطرانہ نکالتےتھے یا نہیں )  ۔   اور جاہلانہ رسم ورواج کا اتنا زیادہ غلبہ تھا کہ کوئی عید سے قبل لینے نہیں آتا اور جہاں تک مجھے یاد ہے عید کی نماز کے بعد کئی لوگ  جن میں زیادہ ترعورتیں ہوتیں  آتے اور امی جان کے ہاتھوں سے لے کرجاتے ، اور باقی گاؤں کے افراد جب عیدگاہ میں نماز عید کے لئے اکٹھے ہوتے توفطرانہ کتنا ہوا پوچھ کر نقد کی شکل میں  کسی ذمہ دار کو ادا کرتے اور پھراسے عیدبعد آنے والےغریبوں اور مکاتب ومدارس کےلئے چندہ کرنے والوں  کے درمیان تقسیم کردیا جاتا۔ ہم چونکہ چھوٹے تھے اس لئے ہمیں  اس کی فکر ہی نہیں ہوتی تھی کہ ہمارا فطرانہ کون اور کتنا اور کیا ادا کررہاہے ،اور ظاہر سی بات ہے کہ والدین ہی نکالتےہوں گے ۔

پھر وہ وقت آیا کہ دینی تعلیم کے لئے والدین نے نانا جان مولانا نذیرعالم رحمہ اللہ  (شاگردرشید مولانا منیر خان بنارسی رحمہ اللہ   اور والد ماجد شیخ احمد مجتبی مدنی اور مولانا محمد مصطفی  کمال شمسی حفظھما اللہ ) کے پاس بھیج دیا اور پھر ایسا ہوتاکہ کبھی عید ان کےپاس گزرتی اور کبھی والدین کے پاس چلا جاتالیکن افسوس کے مجھے اس وقت بھی اس کا شعور نہیں تھا کہ میرا فطرانہ کون ، کیسے ،کتنا اور کہاں نکالتاہے ، لیکن ظاہر سی بات ہے کہ یاتو نانا جان ،یا  بڑے ماموں جان  یا پھر والدین ہی نکالتے ہوں گے ، پھر نانا اور ماموں نے چندسالوں کے بعد مدرسہ سلفیہ منظر العلوم بلیرامپور مرجدوا مغربی چمپارن میں داخلہ کرادیا اور حسب سابق کبھی عید نانیہال میں اور کبھی گھر پر والدین کے پاس گزرتی اورمجھے  میرے فطرانےسے لاعلمی  ولاشعوری  کا وہی حال رہا ، لیکن اتنا ضرورہے کہ توحید و سنت کی اہمیت اور شرک کی قباحت کا شعور آنے لگا تھا اور بڑے والد جو بریلوی تھے ان کی دین وشریعت کے معاملے میں  مخالفت شروع ہوگئی تھی ، پھرجامعہ سلفیہ بنارس کا دور آیا اور فراغت کے بعدتعلیم وتعلم سےجڑا،اور چونکہ پورے شمالی ہندوستان میں احناف کے زیر اثر فطرانہ میں  نقدی نکالے جانے  کےجوازکا فتوی ہےاور ہمیشہ سے یہی معمول بہ   رہاہے، بلکہ بڑے بڑے علماء اہلحدیث بھی  اس کے قائل رہے ہیں اس لئے غلہ کی جگہ پر  نقدی ہی مناسب اور انسب سمجھا جاتاتھا چنانچہ  سالوں تک  ہمارا عمل بھی یہی رہا۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ میری بستی میں  اس وقت  تک دوتین مسجدیں بن گئیں تھیں اور دین کا تھوڑا مزاج پیدا ہوگیاتھا لیکن فطرانے کا حال ومآل  وہی رہا ۔ بار بار سمجھانے اورنصیحت کے بعد بھی آج تک  یہی حالت ہے کہ عید کی نماز سے قبل   جو اب مسجد میں ہوتی ہے آکر لوگ پوچھتے ہیں کہ مولانا صاحب فطرانہ کتنا ہے ؟،جب ان کو سمجھایا جاتاہے تو ان میں سےبعض کہتے ہیں کہ میں نے کچھ فطرانہ اپنے فلاں محتاج  رشتے دار یا تعلق والے کو ایک دوروزپہلے ہی بھیج دیاہے اور کنفرم ہونے کےبعدکہ کتنا نکلےگا   باقی یہاں ادا کردوں گا  ۔   

 یوں تو کئی سالوں سے ہم لوگ گاؤں میں نہیں رہتے ہیں اور کبھی اتفاق سے وہاں جانا پڑجائےتو عیدسے قبل ایک تو کوئی فطرانہ لینے کوتیار نہیں ہوتا اور نہ کوئی آتاہے ،الا ماشاء اللہ  البتہ عیدکی نماز کے بعد بہت سارے ملتے ہیں جو غلہ تو لینا ہی نہیں چاہتےسب کونقدی چاہئےجن میں کچھ بیٹی ،بہن  کی شادی ،کچھ فقروفاقہ اور کچھ مدرسہ کے نام پرچندہ کا حوالہ دیتےہیں ۔ یہ ہمارے ہندستانی ماحول کا ایک تاریک پہلو ہے ،مصیبت یہ ہے کہ بھکاری کو کم پیسے دو تو ناک بھؤوں چڑھاتاہے اور اس کا وضع قطع اور رویہ دیکھو توزیادہ دینے کا مَن نہیں کرتا،اور تو اور  بسا اوقات یہ بھی دیکھنے کو ملتاہے کہ بعض  صدقات وخیرات کا مستحق اگر اسے بتادیاجائے کہ یہ صدقہ اور زکاۃ کا مال ہے تو  عجیب طرح سے یاتو انکار کردیتاہے یا اس کےرویہ میں واضح تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے ، اور لطیفہ تویہ ہے کہ اگر اسی پیسے کو مدد کہہ کردیا جائے تو بخوشی قبول کرلیتےہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے علاقےمیں عام صدقات وخیرات کے ساتھ ساتھ  فطرانہ بھی   عمومی طور پر ظلم کا شکار ہوتارہاہے ۔

خیر وقت گزرتا گیا اور اللہ کے فضل سے سعودی عرب میں دعوتی کام سے جڑگیا لیکن میرے فطرانے کا ستم یہاں بھی جاری رہا،بیوی بچے چونکہ ہندستان میں بھائی کی نگرانی میں رہتے تھے تو جوبھی ان کے  فطرانے کی صورت ہوتی وہی وکیل ہوتے اور اپنے حساب  سے تقسیم کرتے ، البتہ میرا معاملہ دیگرگوں ہوجاتا۔سعودی عرب میں  پہلا سال تھا سوچا کہ اپنا فطرانہ سعودی عرب میں ہی نکالتاہوں ، پھر سوچنے لگا کہ اس کی صورت کیاہوگی؟ ،یہاں کے علماء متبعین  کافتوی نقدی کے عدم جواز کاہے اور ہم جس علاقےمیں ہیں  وہاں کوئی حقیقی محتاج عید سے قبل دیکھنے کو نہیں ملتا جو غلہ لے سکے،یہ مسئلہ صرف ہم کامگاروں کے ساتھ ہے ،کیونکہ سعودی یہاں کے باشندے ہیں انہیں معلوم ہوتاہے کہ کون  کہاں ہے اور کتنا ضرورت مند ہے ؟،انتظار کرتارہ گیا کہ کوئی ملے تو فطرانے کی کوئی ترتیب کرتاہوں لیکن کوئی ملا ہی نہیں ، جواجانب تھے سب کمانے کھانے والے ایسی صورت میں اگر غلہ نکالتاتو پھر اسےبعد میں خود ہی کھانا پڑتایا پھر کھانا بنا کر ہمارے پروگرام میں آنے والوں کو کھلانا پڑتا ، (سعودی عرب میں نسبتابڑےشہروں میں شاید حالات کچھ اور ہیں جہاں محتاج آسانی مل جاتے ہیں ،لیکن چھوٹے قصبوں کاحال کچھ اور ہے جہاں سعودیوں سے زیاد اجنبی کام گار نظرآتےہیں) اسی ادھیڑبن میں عیدکی نمازکا وقت ہوگیا تو عید میں نکلنے سے قبل نقدی نکال کرجیب میں رکھ لیا کہ شاید کوئی مل جائے اور اسے دے کر فرض کی ادائیگی کرلوں گا  ، ابتدائے رمضان میں سڑکوں پر کچھ سیاہ فام عورتیں نظر آئی تھیں ، سوچا وہ مل جائیں تو انہیں کو دے دوں لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! کوئی ملا نہیں  اور شیخ ریال  صاحب  جیب میں ہی آرام سے  پڑے  صدقات وخیرات کے کسی مستحق کا   انتظار کرتےرہ گئے  ۔ اسی افسوس میں رہا  کہ میرا فطرانہ کس ظلم کا شکار ہورہاہے، اب سوائے ہندوستان بھیجنے کے یا  بعد میں اگر کوئی محتاج یہی مل جائے تو اسے دینے کے کوئی چارہ نہیں۔

 ایک بار عیدکی نمازکے بعد کچھ دوست و احباب عید گاہ میں ملے ہمیں اپنی رہائش پرلےگئے ، عید کا دن ہونے کی وجہ سے  ان کےپاس ڈھیروں افراد آئے ہوئے تھے جو سب کے سب عمال  اور ورکشاپ  والے تھے  میں نے ان کے سامنے فطرانے کا تذکرہ کیا لیکن یہ سن کر افسوس اورتعجب بھی ہوا کہ ایک آدھ کو چھوڑکر(جنہوں نے کہاکہ انڈیامیں گھرپر اپنی طرف سے نکالنے کو بول دیاہے)  سب نے کہاکہ ہم تو فطرانہ نکالتےہی نہیں کیوں کہ ہمیں یہاں پتہ ہی نہیں چلتاکہ کتنا نکالنا ہے اور کسے دینا ہے ،یہاں ہمیں کوئی لینے والابھی تو نہیں ملتایہ  اور یہ حق ہے کہ بہت سارے لوگ جودور دراز مزرعوں یا بکریوں   میں رہتے ہیں جو ہفتوں ، مہینوں کسی سے ملنے کو ترس جاتے ہیں،ایسے حالات میں  یہ سن کرمیں یہ سوچنے لگاکہ اس پرابلم کا صرف میں ہی شکار نہیں ہوں بلکہ ایک معتدبہ تعداد ہمارے سامنے ہی موجود  ہے، اور نہ جانے کتنے اور ہوں ۔ پھر جب میں نے ان کے سامنے  صدقۃ الفطر کی اہمیت وفضیلت اور ضرورت بیان کی تو  سب نے نقدی نکال کر میرے ہاتھ  پر رکھ دیا کہ جہالت ومجبوری  میں  ہم نے فطرانہ نہیں نکالا ہے، اب یہ  پیسے ہیں  آپ  ہی کوئی ترکیب نکالئے۔ پھر میں نے ان کو تاکید کی کہ چلوجوہوا سوہوا  اب  اپنی اس نادانی سے توبہ کرو  اور ہم سب عہد کریں  کہ اگلے سال سے اپنا فطرانہ  اپنے بال بچوں اور ماں باپ کےساتھ اپنے ملک  میں نکلوائیں گے ۔اس کے بعد میں نے بھی گھر پر ہر عیدسے پہلے تاکید کرنی شروع کردی کہ  اپنے ساتھ میرا بھی نکالا کریں اور مستحق تک پہونچادیا کریں ۔

ایک سال عید کی شام کو بازار میں جانے کا اتفاق ہوا  دیکھا کچھ  مزدور قسم کے اجنبی(جن کی تعداد  تین چار کی رہی ہوگی )   ایک بڑے  کِرانہ کی دکان پر جسے یہاں بقالہ کہاجاتاہے کھڑے ہیں  اور ڈھیروں سعودی آرہےہیں اور بقالہ سے چاول کی بوریا خرید کر ان میں سے کسی کو دے کر چلے جارہےہیں ، یہ مزدور ان چاولوں کی بوریوں کو وہی پر ایک جانب اکٹھا کر رہے ہیں اور پھر انہیں اسی بقالہ میں بیچ دے رہے ہیں شاید ایک دو بوری وہ اپنے روم پر لےگئے ہوں گے ، یہ منظر دیکھ کر عجیب سا لگا ،سوچتا ہوں کہ وہ اس کے کتنے مستحق تھے کیا زکاۃ فطرکی اس طرح ادائیگی  مناسب ہے ؟، یہ   ایک فریضہ کی ادائیگی کی صرف  رسم پوری کرنی  نہیں ہے ؟ کیا یہاں ان لوگوں کی بات صحیح نہیں ہوسکتی جو انہیں حالات کے پیش نظر نقدی ادائیگی کی حکمت ، فوائد اور ضرورت کی بات کرتے ہیں ؟ ضروری نہیں کہ  ہر ایک کا رجحان اسی جانب ہو ،لیکن اس طرح کے حالات آدمی کو کچھ سوچنے پر مجبور ضرور کرتے ہیں ۔

ایک بار توحد ہی ہوگئی ایک دوست دوکاندار کی ملابس رجالی (مردوں کےاستعمال کی اشیاء ) کی دکان  پر  عید سے ایک روز قبل گیا ، (اس وقت سعودی عرب میں  بالکل نیا نیا تھا اور اب تک لباس ِہند سے باہر نہیں  نکلا تھا۔)،اسی دوران ایک آدمی آیا کچھ سامان خریدا اور اسے پیسے دے کر کچھ کہتے ہوئے چلاگیا البتہ میں نے اتنا سنا  کہ وہ کہہ رہاہے: آج شام کو ہی  دےدینا  !  استفسار پر اس دوست نے  ہنستے ہوئے کہاکہ اس نے کچھ پیسے تمہارے لئے دئے ہیں اورتاکید کرکےگیا ہے کہ اس قیمت  کے کچھ سامان کپڑے وغیرہ  آج شام کو ہی تم کو دےدوں  اور میں جانتاہوں کہ یہ فطرانے کاہے اوریہ تمہارے لئے جائز نہیں ہے، بہتر ہے کہ اس مبلغ کو اپنے ملک میں کسی محتاج کو دیدو،پھر ہم نے ایسا ہی کیا۔

پھر سوچتاہوں کہ میرے ساتھ فطرانے کایہ کیسا کھیل رہاہے خود نکالتاہوں تو وقت پر کوئی لینے والا نہیں ملتا، اور کوئی دوسرا زبردستی دے جاتاہے اور الحمد للہ  میں اس کا مستحق نہیں ، اس بے بسی اورغصے کے امتزاج کو کیا نام دوں ؟ فاعتبروا ياأولي الأبصار!!!!۔

 ایک بڑا مسئلہ میرے سامنے  نقدی اورغلہ کا تھا اورچونکہ ہمارے علاقے میں نناوے فیصدلوگ نقدی کے ہی قائل وفاعل رہے ہیں اس لئےزمانے تک  وہی چلتارہا، ماحول کا ستم ہےکہ عید سے قبل الا ماشاء اللہ  سارے محتاجین کو نقدی چاہئے، کہتے ہیں غلہ لے کرکیاکروں گا  پیسوں کی ضرورت ہے  ؟ اگر  غلہ لیا تو اسے اونے پونے داموں میں بیچنا پڑےگا!۔(اورجیساکہ ہمارے یہاں معروف ہےکہ جب آپ کوئی چیز خریدیں گے تو پوری قیمت دینی پڑےگی اور اگر وہی چیز یا اسی طرح کی کوئی دوسری چیز کسی دکان میں بیچنے جائیں گے تو تقریبا آدھی قیمت ملےگی ۔)

  ایسے ماحول میں  اگر غلہ نکال  دیا تو پھر عید سے قبل تقسیم نہایت ہی مشکل ہوتاہے اس کے لئے لمبا انتظار کرنا پڑتاہے کہ شاید کوئی مل جائے۔ یہ کوئی خیالی باتیں نہیں ہیں  ، ان سے بارہا واسطہ پڑتا رہاہے ۔حالانکہ یہ نہیں کہاجاسکتاکہ ہر جگہ حالات ایسے ہی ہوں ۔ہاں جن علاقوں اور بستیوں میں جہاں اس کےلئے باضابطہ انتظام   ہو یا پھر بیت المال ہو اور جمع وتقسیم کا نظم  ہو جہاں سے ایسے امور کو ایمانداری اورمکمل ذمہ داری کے ساتھ انجام دیاجاتاہو جو کہ شریعت میں مطلوب بھی ہے تو پھر اس سے بہتر کچھ اور نہیں ہوسکتا، لیکن بہت سارے علاقے جہاں مسلمان کم ہیں یا غیر منظم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں  اس طرح کا انتظام  محال ہوتاہے ۔

کہتے ہیں کہ کوشش کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی ، ابتداء سے ہی نقدی کے جوازکی طرف رجحان کے باوجود  کوشش رہی کہ پہلے سنت کے مطابق غلہ  نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ فطرانے میں غلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور نقدی میں جوازکا رجحان اس میں علماء کے مابین اختلاف کی وجہ سے ہی ہے، تو کیوں نہ پہلے غیر اختلافی صورت کواختیار کرنے کی کوشش کرلی  جائے ، چنانچہ جب بچے دہلی میں آکر رہنے لگے تومیں نے اہلیہ کو  تاکید کی کہ کسی محتاج کو  تلاش کریں  اور عید سے ایک دوروز قبل  اس تک پہونچانے کی کوشش کریں ، چنانچہ وہ اپنی ایک سہیلی کےتعاون  سے کچھ محتاج گھرانے کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئیں اور اب بحمد اللہ ہر سال  غلہ خرید کر ان میں سے کسی  کے گھرپہنچوا دیتی ہیں ، اور چونکہ مجھے اپنے مقرعمل کے حالات کی وجہ سے یہاں فطرانہ نکالنے میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے اس لئے بچوں کے ساتھ ہی نکلوا دیتاہوں ۔فللہ الحمد۔  

 ایک اہم مسئلہ میرے سامنے یہ آیا کہ سعودی عرب میں رہتے ہوئے اگر فطرانہ ہندستان میں نکلواتے ہیں توکس عید کا اعتبار کیا جائے ؟ دنیا میں تو کئی عیدیں ہیں،کیونکہ چاند ماموں تو ایک ساتھ سب کے یہاں نکلتے ہیں نہیں اور ہماری ضد ہے کہ ہم عید تبھی منائیں گے جب وہ خودہمارے گھر آکر  ہمیں عیدی دیں  ۔سعودی والوں پر زیادہ مہربان ہیں تو پہلے انہیں کو ترجیح دیتےہیں اور ہندستان والوں سے ایک دن صبر کراتےہیں ۔اس سلسلے میں بارہا لوگوں کا استفسار بھی آیاہے، اور  ظاہر سی بات ہے کہ فطرانے کے وقت کے سلسلے میں عیدگاہ کےلئے نکلنے کا اعتبار صاحب فطرانہ کا ہی ہوگا نہ کہ جہاں نکالا جارہاہے وہاں کا ،لہذا گھروالے دوچار روز قبل بھی نکال دیں تو کوئی حرج نہیں بلکہ یہی انسب  اور احوط ہے ۔

اللہ تعالی آسانی فرمائے فطرانے کو قبول فرمائے  اور ہمارے تمام نیک اعمال کو رفع درجات و مغفرت کاذریعہ اورگناہوں کے لئے کفارہ بنائے ۔آمین یارب العالمین  وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم ۔

   24/9/1445ھ

 

***************

جمعرات، 29 فروری، 2024

نعمتِ خاص ہے اللہ رے قسمت میری

                       نعمتِ خاص ہے اللہ رے قسمت میری

 

  لكَ الحــــمدُ حــــمداً نستلذُّ به ذكــــــــراً       وإن كــنـتُ لا أحــــصي ثـنــــــاءً ولا شكـــــــــــــرا

             لكَ الحـــــمدُ حــــمداً طـيــباً يمــلأ السـما      وأقــــطارهـــــا والأرضَ والــبـــــــــرَّ والبـحــــــــــرا   

             لَك الحـــــمد مقــــــرونا بشكــرك دائـــــما        لَك الحمد في الأولى لك الحـمد في الأخرى

(میرے مولی! تیری ایسی حمدوتعریف ہے کہ جس سےہم  ذکر میں  لذت  پاتےہیں،گرچہ میں تیری ثنا ء اورتیرے شکر  کا احصاء نہیں کرسکتا ۔تیرے لئے ایسی بہترین اورپاک  حمد ہے جوآسمان کے تمام گوشوں کو اور زمین کی تری وخشکی(سارے خطوں) کو  بھردے۔شکر کے ساتھ تیری  دائمی حمدو تعریف ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تیری  ہی حمد وتعریف ہے)۔

جہاں مل گیاہے زماں مل گیاہے       مجھے بھی بلند آسماں مل گیاہے۔

 میری منجھلی   لخت جگر  عفراء بتول  سنابلینے کلیہ عائشہ صدیقہ للبنات  جوگابائی نئی دہلی سے  آج  فضیلت کی سند حاصل کرلی ہے ،یہ اللہ رب العزت کا  اپنے اس بندے کے اوپر اس کے جملہ احسانات واکرام  میں سے ایک ہے ،جس کے حصول پر کسی بھی  شخص کا خوش ہونا فطری ہے،چنانچہ اس نعمتِ خاص کے حصول پر  اہل خانہ کے ساتھ میرا دل بھی  خوشی سے بلیوں اچھل رہاہے: (رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ) (اے میرے رب ! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر بطورانعام کی ہیں اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے توراضی  رہےاور مجھے اپنی رحمت سے اپنےنیک بندوں میں شامل کر لے)۔

ماں باپ کے لئے  ان کی اولاد میں بیٹیاں خاص طور سے ہمیشہ ناتواں رہتی ہیں ، ان پر ادنی ذمہ داری کا بوجھ بھی ان کے لئے فکر کا سامان ہوتاہے گرچہ وہ  گھراور خاندان کی ذمہ داری کا نباہ مردوں سے زیادہ  اوراچھا کرتی ہیں ،پھرجب وہی بیٹیاں   مکلف کی گئی  کسی ذمہ داری کو اچھی طرح سے  ادا کرلیتی ہیں  تو ان کی خوشی کاٹھکانہ نہیں ہوتا ۔

سال رواں  کی ابتداء  میں میری بیٹی عفراء بتول کو  کلیہ کی طالبات  کی  نہایت ہی فعال تنظیم   ندوۃ الطالبات کی  امانت ونظامت  کی  ذمہ داری دی گئی تو اس کی والدہ نے بہت زیاد ہ تشویش کا اظہارکیا  ،لیکن چونکہ میں  خودجامعہ سلفیہ بنارس میں اپنی طالب علمی کے زمانہ میں اور مختلف اداروں میں وظیفہ کے دورمیں کئی سالوں تک  اس قسم  کی ذمہ داری کامیابی کے ساتھ نبھاچکا ہو ں تو انہیں میں نے اس کی افادیت اور ضرورت کا حوالہ دے کر  مطمئن کردیا ۔لیکن دوران سال میرے ایک عزیزکے ساتھ   ایسا حادثہ پیش آیا جس نے ان کے خدشات میں مزید  اضافہ کردیا ، اور ا‎س تشویش کا اظہار انہوں نے کئی بار کیا۔ ہمارے عزیز ہندوستان کے ایک بڑے دینی ادارے میں بعینہ اسی ذمہ داری کے مکلف تھے ، وہاں کے کسی استاد کے ناروا اور غیر اخلاقی رویہ کی وجہ سے طلبہ میں اشتعال پیداہوگیا ،اور اس معاملے میں عزیز موصوف   کی کوئی غلطی نہ ہونے اور بار بار اپنی صفائی پیش کرنے کے باوجود بادشاہ سلامت  کی  خودرائی   اور   لگاؤ بجھاؤ قسم کے لوگوں  کے ذریعہ ساری ذمہ داری ان پر ڈال   کر انہیں ایسے موڑپرلاکرکھڑا کردیا گیا جہاں سے اَن چاہےمنزل کی تلاش میں دوسراراستہ اختیار کرنے پر مجبور  ہونا پڑا ،یہ کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں تھی    ،اس حادثہ نے  بہت سارے لوگوں کےقلوب واذہان پر بڑا  اوربرا اثر چھوڑا ،جسےسن کر اوردیکھ کرعلاقےکے  بہت سارے لوگ دین ومنہج  سے بیزار ہوگئے اور مستقبل میں اپنے بچوں کو کسی دینی ادارہ میں  ڈالنے کی بجائے  صرف اور صرف عصری تعلیم کی ترجیح کی بات  کرنے لگے۔ واللہ المستعان ۔یہ سب باتیں سن کرکسی بھی شخص خاص طور سے اپنوں کا تشویش میں مبتلاءہونا بدیہی ہے۔

خیر اللہ کے فضل وکرم  اور کلیہ صدیقہ جوگابائی دہلی کے ذمہ داران  اور معلمین ومعلمات کے حسن انتظام  اور عنایتوں سے ہماری بچی بحمداللہ خیر وخوبی کے ساتھ کامیاب ہوکر نکلی ہے ۔ ہم اس کے لئے یہی نصیحت کرتے ہیں کہ :

  تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا       ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

سيروا إلى العلياء واقتادوا المنى       وامضوا إلى الإبداعِ دون توقف

(بلندیوں کی طرف بڑھیں ، آرزؤوں کو مہمیزدیں ، اور بغیر رکے تخلیقی صلاحیتوں کوپروان چڑھانے  کی کوشش میں  آگے بڑھتےرہیں )۔

اللہ رب العزت کے شکر وحمد کے بعد میں ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتاہوں جنہوں نے کسی بھی طور پر میری بچی
 کی کامیابی اور تعلیم وتربیت میں حصہ لیاہے، خصوصا أم عفراء  کا جن کی کوششوں ،محنتوں اور قربانیوں کی بدولت
 خوشی ومسرت کا یہ دن آیا ہے،درحقیقت عفراء  اور اس کی بہنوں کی کامیابی میں انہیں کی پوری محنت ولگن ہے ۔ فجزاھا
 اللہ خیرا في الدنیا والآخرۃ ومتعھا بالصحة والعافية۔
اس کی بڑی بہن عزیزہ زھراء بتول سنابلی  بھی خصوصی شکریہ کی مستحق ہے جوگزشتہ سال ہی مذکورہ کلیہ سےفراغت 
پاکراب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں زیرتعلیم ہے جس نےہرموڑ پر اس کی علمی رہنمائی کی ہے۔يوفقها الله لكل مايحبه
 ويرضاه ويحفظها ويرزقنا صلاحهاوبرها۔  
 کلیہ کے ذمہ داران ، اساتذہ اور معلمات کا  بھی  بہت بہت شکریہ جن کی بہترین تربیت اور محنت سے قوم کی بچیاں
 دینی تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ ہوکر خاندان اور قوم کی دینی خدمت کی اہل بنتی ہیں :۔

نَوالٌ جَزيلٌ يَنهِر الشكرَ وَالحَمدا          وَصُنعٌ جَميلٌ يوجِب النُصحَ وَالودّا

(ایک عظیم عطیہ  جو شکر اور تعریف سے شرابور ہے، اور نہایت ہی عمدہ کارکردگی  جو نصح  اور محبت کو مستلزم  ہے)۔

فجزاھم اللہ خیرا فی الدنیا والآخرۃ۔وصلی اللہ علی خیرخلقہ محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم۔

                                   

                                        (عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی )

                                                                       سعودی عرب

                                        17/8/1445ھ  موافق: 27/2/2024ء

 

qqqqqqqqqqqqqqq