پیر، 30 اپریل، 2012

جنگ نہروان


جنگ نہروان  (سنہ   38 ھ  )
            علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے لئے یہ شرطیں رکھی تھیں کہ وہ خون نہیں  بہائیں گے، نہ  لوٹ مارکریں گے اورنہ ہی دہشت پھیلائیں گے اوراگروہ ایساکریں گے تو ان سے جہادکیاجائےگا۔ مگرجیساکہ ان کایہ نظریہ تھاکہ جوکو‏ئی ان کی مخالفت کرےگاوہ کافرہے اوراس کاخون اورمال حلال ہے ،اس لئے انہوں ناحق خون بہانا شروع کر دیا  اورحرام  چیزوں کاارتکاب کرنے لگے؛ یہاں تک کہ علی رضی اللہ عنہ کے گورنر عبداللہ بن خباب بن الارت کو شہیدکردیا اوران کی حاملہ   باندی  کاپیٹ چاک کرکے بچہ کو نکال کراسے ذبح کردیا ۔ ( مصنف ابن أبی شیبہ:/732، 733، تاريخ الأمم والملوك : 3/118،  تاريخ بغداد : 1/94)
            خوارج کے ان  بھیانک جرائم کے باوجود علی رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑائی میں پہل نہیں کیابلکہ اپنا قاصد قاتلین کو ان کے سپردکرنے کے لئے بھیجاتاکہ ان کو ان کے  کئے کی سزادی جا سکے ، لیکن ان لوگوں نے نہایت ہی عناد اور سرکشی  سے جواب دیا کہ ہم آپ کی بات کیسے مان سکتے ہیں جبکہ ہم سب نے مل کرقتل کیاہے ،یایہ جواب دیاکہ تم سب نے قتل کیاہے۔( مصنف ابن ابی شیبہ : 8/737) پھرعلی رضی اللہ عنہ اہل شام سے لڑائی کے لئے تیارکی گئی فوج لیکر محرم سنہ 38 ھ میں چلے ، آپ کی فوج دریائےنہروان کے مغربی جانب رکی جب کہ خوارج کی جماعت  شہر نہروان کے مقابل مشرقی جانب ۔( فكر الخوارج والشيعۃ لدكتور الصلابي:  ص33)
علی رضی اللہ عنہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ خوارج وہی جماعت ہے جن کے دین سے نکل جانے کی پیشن گوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاتھا، اسی لئے دوران سفرآپ اپنی فوج کوان سے لڑنے پرابھارتے رہے ۔
دونوں فوجوں کے درمیان  نہرنہروان فاصل تھا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو لڑائی کی ابتداء کرنے سے منع کردیا تاآنکہ خوارج نہرپارکرکے مغربی جانب نہ آجائیں ، اس کے بعدانہوں نے براءبن عازب رضی اللہ عنہ کو قاصدبنا کر بھیجا  (السنن الكبرى للبیہقی:  8/179) ان  کے بعدبھی  قاصدبھیجتےرہے یہاں تک ان لوگوں نے قاصدکو قتل کردیا اورنہر پارکرگئے۔
جب خوارج جرم کے اس حدکو پارکرگئے اورمصالحت کی ساری راہیں بندکردیں  اور عنادوتکبرسے حق کی طرف لوٹنے سے انکارکردیااورلڑائی پرآمادہ ہوگئےتو امیر المؤمنینعلی رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو تیارکیااوران کی ترتیب کچھ یوں رکھی : میمنہ پرحجربن عدی کو اورمیسرہ پرشبث بن ربعی اورمعقل بن قیس الریاحی کو سواروں  پرابوایوب انصاری اورپیدل پرابوقتادہ انصاری کو، اوراہل مدینہ – جن کی تعداد سات سوتھی- کاامیرقیس بنی سعدبن عبادہ کوبنایا، اورابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کوامان کاپرچم اٹھانے کا حکم دیااور یہ اعلان کرنےکاحکم دیاکہ جواس جھنڈے کے نیچےآجائے وہ امن یافتہ ہے ، اورجوکوفہ اورمدائن چلاجا‏ئے وہ بھی مامون ہے ، ہم توصرف  ان لوگوں کوچاہتے ہیں جنہوں نے ہمارے بھائیوں کو قتل کیاہے ۔ اس اعلان سے بہت سارےلوگ واپس ہوگئے اورعبداللہ بن وھب راسبی کے ساتھ ہزاریا ہزارسےکم ہی بچے۔ ( فكر الخوارج والشيعة في ميزان أهل السنة والجماعة  للدكتور الصلابي: ص34)  
پھرخوارج نے " لاحکم الاللہ الرواح الرواح الی الجنۃ  " کانعرہ لگاتے ہو‏ئے علی  کی فوج کی طرف  پیش قدمی شروع کر دی اورایک خون ریزجنگ کےبعدتقریباسارے خوارج مارےگئے اورمسعودی کےبقول ان میں سے دس سے کم ہی بچے جوزبردست ہزیمت  کے بعد میدان چھوڑکر بھاگ نکلے۔ (فكر الخوارج والشيعة في ميزان أهل السنة والجماعة  للدكتور الصلابي:ص34)اورعلی رضی اللہ  عنہ کی فوج میں سے صرف دوآدمی شہیدہوئے ۔(صحيح مسلم : 1773)
اورایک روایت کے مطابق بارہ یاتیرہ آدمی . (مصنف ابن ابی شیبہ:  5/311)
اورایک قول کےمطابق صرف نو افراد قتل کئے گئے ۔ (تاريخ بغداد : 1/83)
علی رضی اللہ عنہ شروع ہی سے ہاتھ کٹےہوئے ذوالثدیہ کا تذکر ہ کرتے اوراس کے اوصاف بیان کرتے کیو نکہ یہ خوارج کی علامتوں میں سےایک تھا، معرکہ ختم ہونے کے بعدانہوں نے اسے تلاش کرنےکاحکم دیا بہت تلاش  کے بعدمقتولین کی لاشوں کے نیچے چھپاہواملا، جس  پر علی رضی اللہ عنہ اورآپ کے اصحاب نے اللہ کا شکرادا کیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:  : 15 /317-  319  نیزدیکھئے : مسنداحمد:635)
نہروان میں ہزیمت کے دوماہ بعدانہوں نے نئے سرےسےسراٹھایا اورخراسان کے دسکرہ نامی جگہ  میں ربیع الثانی سنہ 38 ھ میں اشرس بن عوف شیبانی کی قیادت میں علی رضی اللہ عنہ کی فوج سے دوبارہ قتال کیاجہاں انہیں پھرسے شکست ہوئی   ۔
دسکرہ میں ہزیمت اٹھانے کے بعداگلےماہ حمادی الاولی سنہ38 ھ میں فارس کے ماسبذان میں ہلال بن علفہ اوراس کے بھائی مجالد کی قیادت میں تیسری بار علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی کی ۔
ماسبذان میں شکست کے بعد اشہب بن بشر بجلی کی قیادت میں اسی سال دریائے دجلہ کے قریب  جرجرایامیں لڑائی کی ۔اوررمضان سنہ 38 ھ میں  بنوسعدتمیم کے ابومریم کی قیادت میں کوفہ پرچڑھائی کی جہاں علی رضی اللہ عنہ کی فوج سے مقابلہ ہو ا جس میں انہیں پھر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
اورعلی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کےلئے چھوڑدیا تب خوارج کی بغاوت اہل شام کے خلاف شروع ہوگئی، اورپہلی لڑائی میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج نے اہل کو فہ کی مددسے ان کو شکست دیدیا ۔
سنہ 41 ھ میں سہم بن غالب تمیمی اور خطیم باہلی نے بنوامیہ کے خلاف ان کی داخلی سازشوں کی قیادت کی یہاں تک کہ  پانچ سال بعدسنہ 46 ھ میں  زیادبن ابیہ نےبصرہ کے قریب ان کا قصہ تمام کیا۔
(تيارات الفكر الإسلامي لدكتور محمد عمارة: ص27، 28)
اس کے بعدبھی اموی حکومت کے خلاف ان کی سازشیں  جاری رہیں آخر شوال سنہ 64 ھ  میں  انہوں نے نافع بن ازرق کی قیادت میں  سب سے بڑی بغاوت کی   اور سنہ 76 – 77 ھ میں انہوں نے شبیب بن یزید بن نعیم کی قیادت میں  حجاج بن یوسف ثقفی کو کئی شکستیں دیں ، اس بعد بھی  اموی خلافت کے خلا ف ان کی بغاوتیں جاری رہیں ۔ یہاں پر یہ بتاتے چلیں کہ   انکی یہ بغاوتیں کوئی  طویل اورمستقل حکومت قائم کرنےمیں کامیاب تو نہ ہو سکیں   لیکن اموی خلافت کو مشکلات میں ڈالتی رہیں یہاں تک کہ سنہ 132 ھ میں عباسیوں کی  بغاوت میں متزلزل ہوگئی اور ان سے خلافت عباسیوں میں منتقل ہوگئی ۔
(تيارات الفكر الإسلامي للدكتورمحمد عمارة: ص27، 28)

علی رضی اللہ عنہ کابقیہ خوارج سے مناظرہ


علی رضی اللہ عنہ کابقیہ خوارج سے مناظرہ
             عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے خوارج سے مناظرہ اوران میں سے دوہزار کے رجوع کے بعدعلی رضی اللہ عنہ  ان کے پاس بنفس نفیس گئے اوران سے بات کی  تو وہ  کوفہ واپس ہو‏ئے وہ یہ سمجھتے رہے کہ  علی رضی اللہ عنہ نے تحکیم سے رجوع  او راپنے ( ان کے بزعم ) گناہوں سے توبہ کرلیاہے  ۔ وہ اپنے اس سوچ کو لوگوں میں پھیلانے لگے ، اشعث بن قیس کندی  نے علی  رضی اللہ عنہ کو بتایاکہ لوگ  یہ کہتے پھررہے ہیں کہ آپ نے اپنے کفرسے رجوع کرلیاہے ۔
دوسرےدن جمعہ کادن تھا آپ منبرپرچڑھے اوراللہ کی حمدو تعریف کے بعدخطبہ دیتے  ہوئے ان کے افکاراور عقائد کو ذکر کیا او ر ان کے معاملے کی برائی کو بیان کیا، جب منبرسے اترےتو ان لوگوں  نے مسجدکے ایک گوشےسے "لاحکم الاللہ " کی آواز لگائی  ، اس  پرعلی  رضی اللہ عنہ  نے کہا:" تم لوگوں کے بارےمیں اللہ کے حکم کا انتظارکروں گا پھران کو خاموش رہنےکااشارہ کیا، آپ منبرپرہی تھے کہ  ان میں سے ایک آدمی اپنے کانوں میں انگلی رکھ کر آیا۔(مصنف ابن ابی شیبہ: 1/733، 734، تاريخ الأمم والملوك للطبري: 3/114)اورکہنےلگا: {لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ}(الزمر: 65)اس پرعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: {فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلاَ يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لاَ يُوقِنُونَ} (الروم :60).
پھرآپ نے ان کو وہ تین  اختیارات دئے جن کاذکرفتح  الباری کے حوالےسے  کیا گیا ۔ ( تاريخ الأمم والملوك للطبري:  3/114)

خوارج سے عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہماکا مناظرہ


خوارج  سے عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہماکا مناظرہ
            صفین کےمعرکہ سے کوفہ واپسی کےدوران خوارج کی  ایک بڑی جماعت کوفہ سے چند میل کی دوری پر  علی رضی  کی فوج سے الگ ہوگئی، جن کی تعدادکا اندازہ بعض روایتوں کے مطابق  بارہ ہزارسے کیاگیاہے (تاريخ بغداد: 1/160) اورایک روایت کےمطابق  چھ ہزار (خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب / النسائي : ص200) ایک روایت کے مطابق آٹھ ہزار  (البداية والنهاية : 7 /280، 281)اورایک روایت کے مطابق چودہ ہزارتھی ۔
 (مصنف عبد الرزاق   :  10   /157-160)
خوارج کی اس بڑی تعداد کے نکلنے سے علی  رضی اللہ عنہ کی فوج میں اضطراب پیدا ہوگیااورعلی رضی اللہ عنہ بقایا فوج کے ساتھ کوفہ میں داخل ہوئے اورخوارج کے معاملات میں الجھےرہے ، خاص طورسے جب آپ کویہ پتہ چلاکہ ان لوگوں خود کو منظم کرنا شروع کردیاہے ، اورانہوں نے نمازاورلڑائی کے لئے امیر متعین کرلیاہے اوریہ اعلان کردیا ہے کہ بیعت صرف اللہ کے لئے ہونی چاہئےاورامربالمعروف اور نہی عن المنکراداکرنی چاہئے ، ان کے ان نظریات نے ان کو عملی طورپر مسلمانوں کی جماعت سے الگ کردیا۔(فكر الخوارج والشيعة في ميزان أهل السنة والجماعة/ د. علي محمد الصلابي: ص22)
أمیرالمؤمنین علی رضی اللہ عنہ  نےان کو جماعۃ المسلمین میں واپس لانے کی کوشش و چاہت  میں عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہماکو ان کے پاس مناظرہ کے لئے بھیجا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ان کے پاس دوپہرمیں پہنچے ، ان سے سلام کیا تو وہ گویا ہوئے کہ آپ کس مقصدکے تحت آئے ہیں ؟ توآپ نے کہا:"میں تمہارےپاس اللہ  کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اورآپ کےدامادکی طرف سےآیاہوں جن  کی موجودگی میں قرآن کانزول ہوااوروہ قرآن کے مفاہیم کوتم سےزیادہ  سمجھتے اور جانتےہیں ، ان میں کوئی بھی تمہارےساتھ نہیں ہے ، اورمیں تم کو ان کی باتیں پہنچاؤں گااورتم جو کہوگےان تک پہنچاؤں گا، اب تم بتاؤاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اورآپ کے چچازادکے خلاف  تمہاراکیااعتراض ہے ؟ " انہوں نے کہا: تین  اعتراضات  ہیں  :
اول : انہوں نے اللہ کے معاملےمیں لوگوں کو حکم بناکر کفرکاارتکاب کیاہے ، جبکہ اللہ  تعالی کا فرمان ہے :{إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ} [الأنعام: 57] (حکم صرف اللہ کے لئے ہے)  لہذا اللہ کے فیصلےمیں لوگوں کاکیادخل ؟
دوم : انہوں نے لڑائی کی اوراس لڑائی میں کسی کو نہ قیدکیااورنہ ہی مال غنیمت اکٹھا کیا، جبکہ اگر(ان کےمخالف ) کافرتھےتوان کو قیدکرنا چاہئے تھا ، اوراگرمؤمن تھےتو ان  سے ان کی لڑائی جائزنہیں تھی ۔
سوم  :انہوں نےاپنےنام کے سامنے سے "أمیرالمؤمنین " کا لفظ مٹادیا لہذاوہ کافروں کے  امیرہیں ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے ان سے پوچھا کہ اورکچھ یا صرف اتناہی ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہمارےلئے اتنا ہی کافی ہے ۔ پھرآپ نے ان سے کہاکہ :"اگرمیں تمہارے اعتراضات کااللہ کی کتاب اوراس کے نبی کی سنت سےجواب دوں توکیا تم اسے قبول کروگے؟  " تو انہوں نے کہاکہ ہاں ۔
عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کے ان کے اعتراضات کاجواب دیناشروع کیا اورفرمایا کہ :" اللہ کے حکم میں لوگوں کو حکم بنانےکی جہاں تک بات ہے تو میں تمہیں اللہ کافرمان پڑھ کرسناتاہوں جس  میں اللہ تعالی نے ایک چوتھائی درہم کی قیمت میں لوگوں کوحکم بنایاہے ، اورانہیں حکم دیا ہے کہ وہ اس میں فیصلہ کریں ، ارشادفرماتا ہے:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لاَ تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ} (المائدة: 95) (اے ایمان والو! حالت احرام میں وحشی جانوروں کا شکارمت کرواورجس نے جان بوجھ کراس کوقتل کردیا تواس پرفدیہ واجب ہے جوکہ قتل کئے گئے جانورکےمساوی ہوگاجس کا فیصلہ تم میں سے دومعتبرشخص کریں گے) اب میں تم سے اللہ کی قسم دےکرپوچھتاہوں کہ  لوگوں کا خرگوش وغیرہ کے شکارمیں فیصلہ کرنا ا‌فضل ہے یا لوگوں کے خون کو بچانے اوران کی خیروبھلائی میں فیصلہ کرنا ؟ جبکہ تمہیں معلوم ہے کہ اگراللہ تعالی چاہتاتوخود فیصلہ کردیتا او رلوگوں کو اس کاذمہ دارنہیں بناتا ۔ تو ان لوگوں نے کہاکہ : یہ زیادہ بہترہے ۔
پھرآپ نے کہا کہ :اسی طرح  اللہ تعالی عورت اوراس کے شوہر کےبارےمیں  ارشاد فرماتاہے : {وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلاَحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا}(النساء: 35)(اگرتمہیں میاں بیوی کی آپسی رنجش کا ڈرہے توایک منصف مردکے گھروالوں میں سے ایک عورت کے گھروالوں میں سے مقررکردو،اگریہ دونوں صلح کراناچاہیں گےتواللہ دونوں میں ملاپ کرادےگا) میں تمہیں اللہ کی قسم دےکرپوچھتا ہوں :"لوگوں کی بھلائی کے لئے اوران کی حفاظت کی خاطرلوگوں  کے درمیان فیصلہ کرناافضل ہے یاایک عورت کی شرم گاہ کے بارےمیں ؟ " ۔
پھرآپ نے ان کے دوسرے اعتراض کاجواب دیتےہوئے فرمایا : "تم لوگ کہتے ہوکہ  علی رضی اللہ عنہ نے لڑائی تو کیا لیکن نہ تو لوگوں کو قید کیا اورنہ ہی ان کے مال  پرقبضہ کیا، تومیں پوچھتاہوں کہ کیاتم اپنی ماں عائشہ رضی اللہ عنہاکو گرفتارکرکے ان کے ساتھ وہی سلوک کرسکتےہوجودوسری عورتوں کے ساتھ کیاجاتاہے ،جب کہ وہ تمہاری ماں ہیں ؟اگرتم انہیں قیدکرکےدوسری عورتوں جیساسلوک کرنے کو جائز سمجھتےہو تو تم کافرہو‏ئے اور اگرتم کہتے ہو کہ وہ تمہاری ماں نہیں ہیں تو بھی تم کافر ہوئے ، کیونکہ اللہ تعالی کاارشادہے : {النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ} (الأحزاب: 6) اس طرح تم دوہری گمراہی کے پیچ وخم میں پھنسےہوئے ہو ، اگراس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے توبتاؤ" ۔ 
ان کے تیسرے اعتراض کاجواب دیتےہو‏ئے آپ نے فرمایا:"تم کہتے ہو کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے نام کے سامنے سے " أمیرالمؤمنین " کا لفظ کیوں مٹادیاتو تمہیں بتادوں  اورتم نے سناہوگا کہ حدیبیہ کے دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین سے صلح کیااور علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ  لکھو:" یہ وہ عہدنامہ ہے جس پرمحمدرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )نے اتفاق کیاہے "تو مشرکین نے کہا :اللہ کی قسم ہرگزنہیں  اگرہم جانتے کہ تم اللہ کے رسول ہو تو تمہاری  اطاعت کرتے ، اس کی جگہ محمدبن عبداللہ لکھو۔ اس کے بعدآپ نے علی رضی اللہ عنہ  سے اسے مٹاکر محمدبن عبداللہ لکھنےکو کہا  ۔ اللہ کی قسم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم علی  رضی اللہ عنہ سے بہترہیں  اورآپ نے خوداپنے دست مبارک سے لفظ "رسول اللہ "مٹادیا، اورآپ کے اس مٹانے سے آپ کی نبوت نہیں مٹ گئی " ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس جواب سے دوہزار خارجی تائب ہوگئے او ر باقی  اپنی گمراہی پرقائم کوفہ سے نکل گئے  او ر اسی پر ہلاک ہو ئے جن کو انصاراور مہاجرین نے قتل کیا ۔( خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب: ص200)

اتوار، 29 اپریل، 2012

خوارج کےظہورکےاسباب


خوارج کےظہورکےاسباب
             خوارج کےظہورکی خبراللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےپہلےہی دیدی تھی گویا اس فتنے کابیج عہدرسالت ہی میں بودیاگیاتھا ، لیکن باضابطہ ایک جماعت کی شکل میں علی رضی اللہ عنہ کےعہدمیں وقوع پذیرہوا،شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےاس جانب اشارہ کیاہے کہ اس  بدعت کااظہاراللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیں کیاگیاتھاپھر اس کے حاملین اسےاپنےدلوں میں چھپائے رہےاوراس درمیان وقتافوقتااس کااظہارکرتےرہےیہاں تک کہ علی رضی اللہ عنہ کےعہدمیں باضابطہ ایک جماعت بنالی ۔(مجموع فتاوی ابن تیمیہ 28/490)
امام ابن کثیرنےعثما ن غنی رضی اللہ عنہ کےخلاف  بغاوت کرنےوالےبلوائیوں کو خوارج کانام دیاہے ۔( البدایہ والنھایہ  : 7/202) امام طحاوی نے بھی اسی کوذکر کیا ہے ۔  (  شرح العقيدة الطحاوية : ص472)
درحقیقت خارجیت کےجراثیم بادتوحیدمیں عہدرسالت میں ہی موجودتھےجوکہ توحید اوراتباع سنت کی تیزوتند آندھی  میں اثرپذیری سےمحروم رہا،پھرمسلمانوں کےباہمی انشقاق واختلاف نےاس بیج کی پیداواری کےلئے سینچائی کاکام دیااور بالآخر جنگ صفین کے بعدایک جماعت کی شکل اختیارکرلی ۔
              عراق میں کچھ ایسےافرادتھےجو عثمان رضی اللہ عنہ کے بعض قرابت داروں کے اخلاق واطواراورخصلتوں سے نالاں تھے، جس کی وجہ سےعثمان رضی اللہ عنہ پرطعن کیاکرتےتھے، یہ لوگ تلاوت قرآن اورجہدوعبادت میں ممتازتھے، اورساتھ ساتھ قرآنی آیات کی ایسی تاویلیں کرتےجوسراسرقرآنی  مفاہیم سےہٹ کرہوتیں ، جب عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی توان لوگو ں نےعلی رضی اللہ عنہ کےشانہ بشانہ لڑائیوں میں حصہ لیا۔ ان کابنیادی عقیدہ عثمان  رضی اللہ عنہ اورآپ کےمتبعین کی تکفیرتھا، نیزیہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کی امامت اورجنگ جمل میں آپ کے خلاف جنگ کرنےوالوں کی تکفیرکااعتقادبھی رکھتےتھےجنہوں نےعائشہ ، طلحہ اورزبیررضی اللہ عنہم کی قیادت میں عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین کوفی الفورسزا دینے کامطالبہ کیاتھا، اس جنگ میں علی رضی اللہ عنہ کوفتح ہوئی تھی ۔ پھرشام میں معاویہ رضی اللہ عنہ نےبھی خون عثمان کابدلہ لینےکامطالبہ کردیاجس کی بنیادپرجنگ صفین کامعرکہ پیش آیا، معاویہ رضی اللہ عنہ شام کےامیرتھےشہادت عثمان رضی اللہ عنہ کےبعد علی رضی اللہ عنہ نے جب  ان سے بیعت کامطالبہ کیاتوانہوں نے عذرپیش کردیاکہ  پہلےآپ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو فی الفور سزا دیں  اس کے بعدبیعت ہوگی ، علی رضی اللہ عنہ نے نامساعد حالات کے پیش نظراس مطالبہ کوماننے میں ترددکیا یہاں تک کہ دونوں کےدرمیان صفین جیسا معرکہ پیش آیاجوکئی مہینوں تک چلا، اس جنگ میں اہل شام کی شکست قریبی تھی  کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ  کے مشورہ پراہل شام نے قرآن مجید کو نیزہ پراٹھاکردہائی دی کہ ہم آپ کو کتاب اللہ کی طرف بلاتےہیں ۔(العواصم من القواصم للاما م ابن العربی : ص173)
اس کےبعدعلی رضی اللہ عنہ کی فوج کےاکثرلوگوں خصوصاقرّاء(جوبعدمیں خوارج ہوئے) نےہتھیارڈال دئے اورآیت کریمہ : {أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوْتُواْ نَصِيباً مِّنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَهُم مُّعْرِضُونَ}(آل عمران 23) (کیاآپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھاجنہیں اللہ کی کتاب کا ایک حصہ ملا،انہیں اللہ کی کتاب کی طرف بلایاجاتاہے ، تاکہ ان کےدرمیان فیصلہ کردے،پھران کی ایک جماعت اس سےاعراض کرتے ہوئےلوٹ جاتی ہے)سے استدلال کرتےہوئے جنگ سے اعراض کیا۔ پھرشامیوں نے علی رضی اللہ عنہ سےمراسلت کرکےجانبین سےایک ایک حکم متعین کرنے کا مطالبہ کیاجن کے ساتھ ایسے افرادہوں جنہوں نے اس جنگ میں حصہ نہیں لیاہے ، پھردونوں کے فیصلےکے بعدجوحق ہو اسےتسلیم کر لیاجائے، علی رضی اللہ عنہ نے اس تجویزکو تسلیم کرکے اس پرعمل درآمد کی کوشش کی جس کی مخالفت اس جماعت نے کیاجو بعدمیں خارجی ہوئی ۔ پھرعلی رضی اللہ عنہ نے اہل اعراق اور اہل شام کے مابین فیصلےکی جوتحریربھیجی اس میں اپنےلئے "امیرالمؤمنین "لکھاجس کو اہل شام نے ماننےسے انکارکردیااورصرف علی بن ابی طالب لکھنےکوکہا، علی رضی اللہ عنہ نے اسے بھی تسلیم کرلیاجس کی مخالفت بھی خوارج نےکی ۔(مجموع فتاوی ابن تیمیہ :13/32)
پھردونوں فریق اس بات پرمتفق ہوئے کہ دونوں حکم  اوران کے اصحاب چنددنوں کے بعدشام اورعراق کے درمیان ایک  متعین جگہ  پراکٹھےہوں گےاورفوجیں کوئی فیصلہ ہونےتک اپنےاپنےملک واپس چلی جائیں گی ، اس کے بعدمعاویہ اورعلی رضی اللہ عنہما واپس لوٹ گئے، اورخوارج جن کی تعدادآٹھ ہزاراورایک قول کےمطابق سات ہزار اورایک قول کےمطابق چھ ہزارتھی ان سےجداہوکر"حروراء" نامی جگہ پراکٹھےہوگئے، جس کی طرف منسوب کرکے ان کو "حروریہ " کہاجاتاہے ،ان کے لیڈران میں عبداللہ بن  کواء یشکری اورشبث تمیمی تھےجن کے پاس علی رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو ان سےمناظرہ کرنےکے لئے بھیجاجس سے بہت سارے لوگ واپس آگئے، پھرعلی رضی اللہ عنہ خودان کےپاس گئے جس سےکہ ان لوگوں نےآپ کی اطاعت کرلی اورآپ کےساتھ کوفہ واپس آگئے،جن میں مذکورہ دونوں لیڈران بھی تھےجنہوں نے یہ پرچارکرناشروع کردیاکہ وہ واپس اس لئے آئےہیں کیونکہ علی  رضی اللہ عنہ نے حکومت سے توبہ کرلی ہے ، جب یہ خبرعلی رضی اللہ عنہ کو ملی تو آپ نے خطبہ دیااوران کی اس بات کاردکیا ، اسی دوران مسجد کے ایک گوشےسے ان  لوگوں نے " لاحکم الاللہ " کانعرہ لگایا ، اس پرعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:" یہ جملہ تو صحیح ہے لیکن ان لوگوں نے باطل اور غلط مقصدکی خاطراسے استعمال کیاہے " پھرآپ نے ان لوگوں کوتین باتوں کی رخصت دی ، جومندرجہ ذیل  ہیں :
اول : انہیں مسجدوں میں آنےسے نہیں روکاجا‏ئےگا۔
دوم : ان کے حامیوں کو بھی مسجدوں میں آنےسے نہیں روکاجائےگا۔
سوم : جب تک فسادنہیں کریں گے ان سے جنگ کی ابتدانہیں کی جا‏ئےگی ۔
پھریہ لوگ آہستہ آہستہ کوفہ سےنکل گئے اورمدائن میں جاکرجمع ہوگئے ۔ علی رضی اللہ عنہ ان سے ان کی واپسی کے لئے مراسلت کرتےرہے اوریہ لوگ اپن موقف پر مصررہے ، ان کا مطالبہ تھا کہ جب تک آپ اپنے کفرکااقرار کرکےا س سے سےتوبہ نہ کرلیں واپس نہیں ہونگے ۔ اس کے بعدبھی آپ نےاپنا قاصدان کے پاس بھیجا جس کو یہ لوگ قتل کرنے پرآمادہ ہوگئے ۔
پھرخوارج  کی جماعت اپنے اس باطل عقیدے پرمتفق ہوگئی کہ جوشخص ان کے عقیدے  پرنہیں ہے وہ کافرہے اور ان کا خون مال اور اہل حلال ہے ۔ ان لوگوں نے اس پرعمل درآمدبھی شروع کردی، جومسلمان ان کے سامنےآئے انہیں قتل کردیا، عبداللہ بن خباب بن الارت جو بعض علاقوں  پر علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے گورنرتھے ان کو قتل کردیا او ران کی حاملہ باندی کا پیٹ چاک کردیا ، جب یہ خبر علی رضی اللہ عنہ کوملی تو آپ نے ان سے مقابلہ کرنے کے لئے کوچ کیا ، اور مقام نہروان میں ان سےجنگ کیا ، جس میں خوارج میں سے دس سےبھی  کم افرادبچےاورعلی رضی اللہ عنہ کی فوج میں سے دس سے کم ہی شہید ہوئے ۔
 (فتح الباری :  12 /283-284)

خوارج :عقائد و افکار


خوارج  کی تعریف
               شروع اسلام میں اعتقادی اعتبارسےپیداہونےوالےبڑےفرقوں میں خوارج کانام سب سےاول ہے ،یہ فرقہ اس وقت پیداہواجب اسلامی صف میں بعض  درآمدفتنوں کےسبب گروہی اختلاف  کی بنیادپڑرہی تھی ، پھرآہستہ آہستہ اس فرقے نےایک انقلاب کی شکل اختیارکرلی اوربہت بڑی سیاسی انقلاب کا داعی اوراس کی شناخت  بن گیا ۔   ذیل کی سطور میں ہم اس فرقے کےتعارف ،عقائد،اسباب ، اختلاف ، انجام وغیرہ  سےمتعلق چندباتیں لکھتے ہیں  :
خوارج  کی لغوی  تعریف : خوارج خارج کی جمع ہےجوخروج سےمشتق ہے ،کیونکہ ان کایہ نام ان کےخروج کی وجہ سےپڑاہے ، چاہےدین سےنکل جانےکی وجہ سےیا علی رضی اللہ عنہ کےخلاف خروج کی وجہ سےخواہ مسلمانوں کے خلاف خروج کی وجہ سے (دیکھئے :تہذیب اللغۃ  :7/50،تاج العروس :2/30 ،اورفرق معاصرہ :1/66)
خوارج کی اصطلاحی تعریف :   خوارج کی تعریف  کے سلسلےمیں علماءنےکئی باتیں لکھی  ہیں   :
1 –  امام شہرستانی لکھتے ہیں :" كل من خرج على الإمام الحق الذي اتفقت الجماعة عليه يسمى خارجياً، سواء كان الخروج في أيام الصحابةعلى الأئمةالراشدين أوكان بعدهم على التابعين لهم بإحسان والأئمة في كل زمان"(الملل النحل : 1/132)" ہروہ شخص جواہل سنت  والجماعۃ کےمتفقہ امام کےخلاف خروج کرےاسے خارجی کہاجاتا ہے،یہ خروج صحابہ کرام کےزمانےمیں خلفاء راشدین  کےخلاف ہو،ان کےبعد تابعین کےخلاف ہوخواہ ہرزمانےمیں ائمہ کےخلاف " ۔
امام ابن حزم نےبھی تقریبااسی سےملتی جلتی تعریف کی ہے ۔ (دیکھئے : الفصل فی الملل والنحل :2/113)
2 – امام ابوالحسن اشعری نےخوارج کااطلاق ان لوگوں پرکیاہے جنہوں نےعلی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ کے خلاف  خروج کیاتھا ۔(المقالات : 1/207)
3 – بعض اباضی علماءنے  اس جماعت کوخاص ماناہے جس نےتابعین اوراتباع تابعین کےزمانےمیں خروج کیاتھا، جس کاسرگروہ نافع بن ازرق تھا  ۔ یہ تعریف ابواسحاق اطفیش کی ہے ، حالانکہ خودبعض اباضی علماءنےاس تعریف کورد کردیاہے ۔
                                                                          (فرق معاصرہ :1/67)
وجہ تسمیہ اوردوسرےنام
              ان کااصل نام خوارج ہی ہے اوریہ نام جیساکہ بیان کیاگیا ان کےدین یاجماعت سے نکلنے یا علی رضی اللہ عنہ کےخلاف خروج کرنےکی وجہ سےپڑا ۔ اس نام کےعلاوہ ان کے دیگرمختلف نام بھی ہیں جن میں سےچندمندرجہ  ذیل ہیں :
(1) حروریہ : کوفہ سےتقریبادومیل کی دوری پرحروراء نام کی ایک جگہ ہے ، پہلی باراس جماعت نےتحکیم کےبعد علی رضی اللہ عنہ سےبغاوت کرکےاوران کے خلاف خروج کرکےاسی جگہ اجتماع کیا، جس کی وجہ سےان کانام حروریہ   پڑا۔ (دیکھئے: فتح الباری :12/234 ، الفرق بین الفرق :ص 80 ، ومراصدالاطلاع :1/394) اورمبرد کے بقول :علی  رضی اللہ عنہ جب خوارج سےمناظرہ کرکےواپس لوٹےتوان کےساتھ خوارج کےکچھ لوگ بھی تھے،آپ نےان سےپوچھاکہ:" ہم لوگ تمہیں کس نام سےپکاریں ؟" پھرخودہی کہاکہ : "تم لوگ چونکہ حروراء میں اکٹھاہو‏ئے ہواس لئے حروریہ ہو"۔(الکامل فی اللغۃ والادب :2/136)
یہ نام عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول "أحرورية أنت"() رواه مسلم : 335 ) میں بھی واردہے جوکہ آپ نے ایک عورت  کواس وقت کہی تھی جب اس نے  حائضہ کے لئے نمازکے علاوہ روزےکی قضاءکے وجوب پراعتراض کیاتھا۔
                                                       (فرق معاصرة لغالب عواجي : 1/230)
 اسی طرح یہ نام صحیحین کی روایت میں واردہے ، مصعب  سے روایت ہے فرماتےہیں کہ میں نے ابی بن کعب سے {قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا}(سورہ کہف: 103)کی تفسیرمیں پوچھاکہ اس سے حروریہ تونہیں مرادہیں ؟توانہوں نے فرمایا نہیں اس سے یہوداورنصاری مرادہیں ، یہودنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا، اورنصاری نے جنت کو اورکہاکہ جنت میں نہ کھاناہوگااورنہ ہی پانی ، اورحروریہ وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہدکے بعداسے توڑدیا، اورسعد رضی اللہ عنہ ان کو فاسقین کا نام دیتے تھے۔
)                                                                      رواه البخاري  :4728(
 (2) محکمہ   : ان کانام محکمہ یاتوان کےدونوںحکم کے فیصلےسےانکارکی وجہ سے پڑایاان کےباربار"لاحکم الا للہ "کہنےکی وجہ سے ،کیونکہ انہوں نےمتعین کئےگئے دونوں حکم کےفیصلےکےانکار کےبعد"لاحکم الا للہ " کا نعرہ لگانا شروع کردیا تھا ۔
 بلا شبہ مذکورہ کلمہ ہراعتبارسےدرست ہے ، لیکن اس  کا استعمال غلط افکارونظریات کے تئیں پیش کیاگیاتھا، اسی وجہ سے علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:" کلمة حق ارید بھاالباطل" " حق گوئی لیکن غلط مقصدومطلب  برآری کےلئے استعمال کیاگیا"۔ (مقالات الاسلامیین :1/206-207) ، فرق  معاصرہ :1/69 ، الخوارج للدکتورمصطفی حکمی :ص 26) 
(3) مارقہ : خوارج کایہ نا م صحیحین میں واردان سےمتعلق حدیث نبوی میں وارد ہونےکی وجہ سےپڑاجس میں ہے کہ :"يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية"( متفق علیہ ) " یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم  سےنکل جاتاہے "۔
           (فرق معاصرہ :1/69، الخوارج /ناصربن عبداللہ سعوی : ص26-27)
(4) شراۃ  :خوارج کہاکرتےتھے:" شريناأنفسنافي طاعة الله ""یعنی ہم نےاللہ کی اطاعت میں (جنت کےبدلے) خودکوبیچ دیاہے " اس قول سےان کا نام  " شراۃ " پڑا۔ (فرق معاصرہ : 1/69 ،الخوارج  /ناصرسعوی : ص27)
(5) نواصب :علی رضی اللہ عنہ سےحددرجہ دشمنی رکھنےکی وجہ سے ان کانام نواصب  پڑا،کیونکہ عربی میں کہتےہیں " نصب  لہ العداء" "یعنی اس سےدشمنی قائم کی "  ۔ (فرق معاصرہ : 1/69)
(6) اہل نہروان : اس نام کی وجہ یہ ہے کہ جب ان لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ سے مفارقت اختیارکرکے مسلمانوں  کے خلاف جنگ کااعلان کیا تو علی رضی اللہ عنہ نے ان سےمقام نہروان میں جہادکیا، اس لئے نہروان کی طرف نسبت کرکےان کواہل نہروان کہاجاتاہے ۔
             (مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ 7/481 ،الخوارج /سعوی  : ص27)
(7)  مکفرہ  : یہ نام اس لئے پڑا کہ یہ کبیرہ گناہوں کے مرتکبین اوراپنے مخالف مسلمانوں کی تکفیرکرتے ہیں ۔ ( الخوارج أول الفرق في تاريخ الإسلام لناصر بن عبد الكريم العقل : ص30 )
(9)  سبئیہ  : یہ نام اس لئے پڑاکیونکہ  یہ فرقہ ابن سبأ یہودی کے اسلام کے خلاف بھڑکائی ہوئی آگ  کے سبب معرض وجودمیں آیا۔( الخوارج أول الفرق في تاريخ الإسلام لناصر بن عبد الكريم العقل : ص30)
(10)  شکاکیہ : شک سے مشتق ہے جب ان لوگوں نے تحکیم کا انکارکیااس وقت علی رضی اللہ عنہ سے کہا:آپ نے اپنامعاملہ مشکوک کرلیا اورخوداپنےدشمن کوحکم بنالیا ، تو ان کانام شکاکیہ پڑا۔(الصحابة بين الفرقة والفرق لأسماءالسويلم: ص402)
 
خوارج کے یہ سارےنام اورالقاب ہیں ، ان میں صرف مارقہ(دین سے نکلنے والی جماعت) پران کو اعتراض ہے ، کیونکہ وہ خودکو حق پرکہتے ہیں ۔  
(الخوارج تاريخهم وآراؤهم الاعتقادية وموقف الإسلام منها لغالب عواجي: ص35)

اتوار، 15 اپریل، 2012

اختلاف وطائفیت کارمز


       الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده , و بعد :  
            اسلامی فرق کاتعارف یاان سے متعلق کسی بھی بحث کامقصددرحقیقت حق وباطل کی تمییزہوتاہے ، اوران اسالیب وطرق کی  توضیح ہوتی ہے جن کی  بنیادپرباطل فکرونظریات  کی بنیادپڑتی  ہے ،جومروروقت کے ساتھ خوشنمامحل کا منظرپیش کرتا ہے ،اوران کے قدم اتنے مضبوط ہوچکے ہوتے ہیں کہ ان کواکھاڑناکارے مشکل بن جاتاہے ، یہی وجہ ہے کہ ان باطل عقائد ونظریات کے حاملین  کی سوچ وفکراپنے مزعوم کی تصدیق اورتحسین میں صرف ہوتی ہے جس کے پردےمیں حق کی حقانیت اور سچائی  کوچھپانے کی کوششیں کی جاتی ہیں ، پھر اتباع وتقلیدکی ایک نہایت ہی غلط رسم کی داغ بیل پڑجاتی ہے ، اوراس تقلیدی  یگانگت کے اندربھی  اختلاف وانتشارکا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتاہے، جسے ہم نے اپنی سنہری تاریخ کے صفحات میں بارہاملاحظہ کیاہے ،اگرکوئی کہتاہے کہ فکری تنوع سے استخراج و استنباط اورتحقیق وبحث کا دروازہ کھلتاہے ، توہم کہتےہیں کہ بلاشبہ فکری تنوع  مذکورہ مقاصدکے لئے ایک جزوی ذریعہ ہے بلکہ ایک کامیاب ترین وسیلہ ہے لیکن اگریہ تنوع اصولی دائرہ میں ہوتو ! اور اگریہی تنوع شرعی اصول ومبادی سے ہٹ کرہواورعقائدواعمال میں بگاڑاورفساد کا ذریعہ بن جا‏ئےتوامت مرحومہ کے لئے عذاب اورانتشاراورطائفیت کا رمزبن جاتا ہے ، خوارج کے وجودسے لیکرعصر حاضرتک    کتنے فرقوں نے جنم لیااورامت کوکن کن  پریشانیوں سے دوچارہوناپڑا؟یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
          اپنی فکری   اورتحزیبی   مقصدبرآری کے لئے جن دلائل کاسہارالیاجاتاہے وہ زیادہ ترتاویلی اورغیرمناسب ہوتےہیں اوراگردلائل مضبوط بھی ہوں تومقصدکے اندرکھوٹ ہوتاہے ، مثلا: خوارج نے مسئلۂ تحکیم کے موقع سے علی اورمعاویہ رضی اللہ عنہماسے دوری اختیارکرتےوقت جودلیل دی تھی وہ اپنے آپ میں نہایت ہی مناسب اورمضبوط تھی ،ظاہرہے کہ شرعی امور میں اللہ کے حکم اورفیصلہ کےسوا اور کسی کے حکم کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ان کی دلیل سننے کے بعدکہاتھا کہ :"بات حق ہے مگرغلط مقصدبرآری کے لئے استعمال کی گئی ہے "اوروہ غلط مقصد اس کےعلاوہ کچھ نہیں تھاکہ امت کا شیرازہ منتشرہو اور خلیفۂ وقت کے امرکوکمزورکردیاجائے ،یہاں پریہ بات بھی قابل غورہے کہ مذکورہ طائفہ کوئی ظاہری بددینیت پرنہیں تھابلکہ  ان کا ظاہری وضع  نہایت ہی شفاف تھا، اوراگرکہیں کمی تھی توصرف یہ کہ اپنے ظاہری تدین کے باوجودقرآنی تعلیمات  اور اس کے فیوض سے محروم تھے ، اسی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا:"یمرقون من الدین مروق السھم من الرمیة "" یہ دین سے   ایسے  نکل جائیں گے جیسے تیر شکارکے جسم سے نکل جاتاہے " ۔
یہی حال دین میں پیداشدہ تمام فرقوں کاہے ، ان کے استدلال اور وضع قطع سے لوگوں  کا دھوکا کھانا بدیہی ہے ۔ یہاں یہ بھی بتاتےچلیں کہ نامناسب تشاجرات اور مناظرات نے ان باطل عقائدکے حاملین اوران کے افکارکواورجلا بخشاہے ، ان کا تقریبا ہرمتبع صرف اس امرپردھیان دیتاہے کہ میراامیر یامناظرمخالف پرکس حد تک غالب رہتاہے ۔اگروہ صرف اس بات پہ اپنے ذہن کو مرکوزرکھتاکہ حق اور دلائل حق کہاں سے ملیں تو اس کے لئے راہ صواب ضرورواضح اورمزین ہوکرسامنے آتااور پھر ذہنی اورفکری بھٹکاؤسے محفوظ رہتااوراس کے لئے تحزب اورفرقہ بندی کوئی بات نہیں رہ جاتی ،یہی مقصودآیت کریمہ:{وأن هذاصراطي مستقيماً فاتبعوه ولاتتبعوا السبل  فتفرق بكم عن سبيله}(الانعام :153) (یہ دین میراراستہ ہے جو مستقیم  ہے ، اسی پہ چلواوردوسری راہوں پرمت چلو کیونکہ وہ تمہیں اللہ  کے راستے یعنی اس کے دین سے الگ کردیں گی) کا ہے ۔
          خوارج ایک ایسا فرقہ ہے جسےدین میں ظاہری دینداری سے مزین لوگوں نے ایجاد کیا، اوریہ وہ زمانہ تھاجوصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا تھااوران کووہ روایتیں ازبر تھیں جوان کی شرست  کی وضاحت کے لئے کافی تھیں ،لیکن اس کے باوجوداس گروہ نے اسلامی  تعلیمات کے اندرکاری ضرب لگانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ، اور اپنے مفادکے لئے حتی الوسع متوفروسائل کوبروئے کارلائے ،جس کے نتیجے میں اسلامی صف میں جواتحاداوراتفاق مطلوب تھا بکھرتاہوانظرآنے لگا۔
         یہ فرقہ اپنے غیرمعمولی تدین کے باوجوداپنے عقائدکے اعتبارسے بھٹکاہواہے ،  ولی الامرکی اطاعت سے نکلنا، صحابۂکرام رضی اللہ عنہم کوسب وشتم کرنا، مرتکب کبیرہ کی تکفیر، حجیت سنت کا انکاراورصفات باری تعالی کی تاویل وتعطیل یہ ایسےعقائد ہیں جوکسی بھی فرقہ کی گمراہی کے لئے کافی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ تمام صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم نے ان سے دوری اختیارکی اوران سےقتال کرنے میں  پس وپیش سے کام نہیں لیا ۔
       قابل ذکربات یہ ہے کہ یہ روایت حدیث میں ثقہ ترین لوگوں میں سے تھے ان کی بعض روایتیں  صحیح ترین  سندوں میں شمارکی جاتی ہیں ، جیساکہ خطیب بغدادی نے امام ابوداؤدکا قول نقل کیاہے کہ :" بدعت پرستوں میں سےخوارج کی روایتوں سے زیادہ صحیح رمایتیں کسی کی نہیں ہوتیں " اور شیخ الاسلام  ابن تیمیہ کےبقول :"خوارج جان بوجھ جھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں تھے یہاں تک کہاجاتاہے کہ ان کی حدیثیں صحیح ترین ہواکرتی تھیں  لیکن یہ جہالت کی  وجہ ہے اپنی بدعت میں گمراہ ہوگئے ، اوران کی بدعت الحادوزندقیت کی بنیادپرنہیں تھی بلکہ قرآن کریم کے فہم سے جہالت  وگمراہی کی بنیاد پر تھی "۔(منہاج السنہ النبویہ  :1/68) ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جھوٹ جوکبیرہ گناہوں میں سے ہے ان کے نزدیک نہ یہ کہ اس کا مرتکب آثم ہے بلکہ اس کے اوپرکفرکا اطلاق ہوتاہے ۔ معلوم ہواکہ  روایت حدیث میں اپنی ثقاہت کے باوجود تاویلی اورتخریبی فکروعمل کااثران کی گمراہیت کاسبب بناجس کی پیشن گوئی پہلےہی کی جاچکی تھی : "یقرءون القرآن لایجاوزحناجرھم " "یہ قرآن کریم کی تلاوت تو کریں گے لیکن  ان کے حلق سے نیچے نہیں اترےگا" ۔
       بسااوقات ایسابھی ہوتاہے کہ پیداشدہ گروہ فکری تنوع کے کی وجہ سے گروہ درگروہ منقسم ہوتاجاتاہے،اورآپسی اختلاف کاپیش خیمہ بن جاتاہے ،اورہرگروہ خودکوبرحق ثابت کرنے کی جی توڑکوشش میں لگ جاتاہے اورکتاب وسنت کاوہ ایک راستہ جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کودکھایاتھا کہیں دورجاپڑتاہے،جبکہ مذکورہ صحیح راستہ ہراعتبارسے واضح اورروشن ہے جس کےاندرکوئی غموض اورپیچیدگی نہیں ہے ، اورتعجب خیزبات تویہ ہے کہ بعض مکتبۂ فکرکی جانب سے نہایت ہی دریدہ دہنی کے ساتھ یہ کہاجاتاہے کہ قرآن وسنت کی باریکیاں ہماری سمجھ سے بالاترہیں اس لئے کسی نہ کسی مکتب فکرسےجڑناہمارے لئےواجب ہے،ورنہ دین پرعمل کرنا ہمارے لئےصعب اورمشکل ہوجائےگا۔ان کےلئے علماءکےپیچ درپیچ مسائل توواضح اوران پرعمل درآمدسہل ہےلیکن قرآن سنت کی واضح باتیں مشکل اورروشن راہ کانٹوں بھری ہے ۔ جبکہ اللہ تعالی کا ارشادہے : {وأنزلناإليك الذكرلتبين للناس مانزّل إليهم ولعلهم يتفكرون} (النحل :44) (یہ ذکر (کتاب)ہم نے آپ کی طرف اتاراہے تاکہ لوگوں کی طرف نازل کی گئی چیز کو آپ کھول کربیان فرمادیں ،شایدکہ وہ غوروفکرکریں )
 نیزارشادفرماتاہے:{ونزّلنا عليك الكتاب تبياناًلكل شيئ وهدى ورحمة وبشرى للمسلمين }(النحل :89) (اورہم نے آپ پریہ کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ہرچیزکاشافی بیان ہےاورہدایت اوررحمت اورخوشخبری ہے مسلمانوں کے لئے)
اوراللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:"فقد تركتكم على البيضاء، ليلهاكنهارها،لايزيغ عنها بعدي إلا هالك"(احمد:16812) "میں تم لوگوں کوواضح ترین راہ پرچھوڑےجارہاہوں ،جس کی راتیں بھی اس کے دن کی طرح روشن ہیں ، میرےبعداس راہ سے ہلاک ہونےوالاہی الگ ہوسکتاہے" ۔
یہ روایت آگےچل کردین سے بھٹکےگروہوں کےلئے پیش خیمہ ثابت ہوئی کیونکہ جب جب کوئی طبقہ یاگروہ اس روشن اورجلی جادۂ حق سےبھٹکنے کا مرتکب ہوا دین حق سے دورہوتا چلا گیا اورطائفیت واختلاف کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔