پیر، 30 اپریل، 2012

جنگ نہروان


جنگ نہروان  (سنہ   38 ھ  )
            علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے لئے یہ شرطیں رکھی تھیں کہ وہ خون نہیں  بہائیں گے، نہ  لوٹ مارکریں گے اورنہ ہی دہشت پھیلائیں گے اوراگروہ ایساکریں گے تو ان سے جہادکیاجائےگا۔ مگرجیساکہ ان کایہ نظریہ تھاکہ جوکو‏ئی ان کی مخالفت کرےگاوہ کافرہے اوراس کاخون اورمال حلال ہے ،اس لئے انہوں ناحق خون بہانا شروع کر دیا  اورحرام  چیزوں کاارتکاب کرنے لگے؛ یہاں تک کہ علی رضی اللہ عنہ کے گورنر عبداللہ بن خباب بن الارت کو شہیدکردیا اوران کی حاملہ   باندی  کاپیٹ چاک کرکے بچہ کو نکال کراسے ذبح کردیا ۔ ( مصنف ابن أبی شیبہ:/732، 733، تاريخ الأمم والملوك : 3/118،  تاريخ بغداد : 1/94)
            خوارج کے ان  بھیانک جرائم کے باوجود علی رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑائی میں پہل نہیں کیابلکہ اپنا قاصد قاتلین کو ان کے سپردکرنے کے لئے بھیجاتاکہ ان کو ان کے  کئے کی سزادی جا سکے ، لیکن ان لوگوں نے نہایت ہی عناد اور سرکشی  سے جواب دیا کہ ہم آپ کی بات کیسے مان سکتے ہیں جبکہ ہم سب نے مل کرقتل کیاہے ،یایہ جواب دیاکہ تم سب نے قتل کیاہے۔( مصنف ابن ابی شیبہ : 8/737) پھرعلی رضی اللہ عنہ اہل شام سے لڑائی کے لئے تیارکی گئی فوج لیکر محرم سنہ 38 ھ میں چلے ، آپ کی فوج دریائےنہروان کے مغربی جانب رکی جب کہ خوارج کی جماعت  شہر نہروان کے مقابل مشرقی جانب ۔( فكر الخوارج والشيعۃ لدكتور الصلابي:  ص33)
علی رضی اللہ عنہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ خوارج وہی جماعت ہے جن کے دین سے نکل جانے کی پیشن گوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاتھا، اسی لئے دوران سفرآپ اپنی فوج کوان سے لڑنے پرابھارتے رہے ۔
دونوں فوجوں کے درمیان  نہرنہروان فاصل تھا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو لڑائی کی ابتداء کرنے سے منع کردیا تاآنکہ خوارج نہرپارکرکے مغربی جانب نہ آجائیں ، اس کے بعدانہوں نے براءبن عازب رضی اللہ عنہ کو قاصدبنا کر بھیجا  (السنن الكبرى للبیہقی:  8/179) ان  کے بعدبھی  قاصدبھیجتےرہے یہاں تک ان لوگوں نے قاصدکو قتل کردیا اورنہر پارکرگئے۔
جب خوارج جرم کے اس حدکو پارکرگئے اورمصالحت کی ساری راہیں بندکردیں  اور عنادوتکبرسے حق کی طرف لوٹنے سے انکارکردیااورلڑائی پرآمادہ ہوگئےتو امیر المؤمنینعلی رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو تیارکیااوران کی ترتیب کچھ یوں رکھی : میمنہ پرحجربن عدی کو اورمیسرہ پرشبث بن ربعی اورمعقل بن قیس الریاحی کو سواروں  پرابوایوب انصاری اورپیدل پرابوقتادہ انصاری کو، اوراہل مدینہ – جن کی تعداد سات سوتھی- کاامیرقیس بنی سعدبن عبادہ کوبنایا، اورابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کوامان کاپرچم اٹھانے کا حکم دیااور یہ اعلان کرنےکاحکم دیاکہ جواس جھنڈے کے نیچےآجائے وہ امن یافتہ ہے ، اورجوکوفہ اورمدائن چلاجا‏ئے وہ بھی مامون ہے ، ہم توصرف  ان لوگوں کوچاہتے ہیں جنہوں نے ہمارے بھائیوں کو قتل کیاہے ۔ اس اعلان سے بہت سارےلوگ واپس ہوگئے اورعبداللہ بن وھب راسبی کے ساتھ ہزاریا ہزارسےکم ہی بچے۔ ( فكر الخوارج والشيعة في ميزان أهل السنة والجماعة  للدكتور الصلابي: ص34)  
پھرخوارج نے " لاحکم الاللہ الرواح الرواح الی الجنۃ  " کانعرہ لگاتے ہو‏ئے علی  کی فوج کی طرف  پیش قدمی شروع کر دی اورایک خون ریزجنگ کےبعدتقریباسارے خوارج مارےگئے اورمسعودی کےبقول ان میں سے دس سے کم ہی بچے جوزبردست ہزیمت  کے بعد میدان چھوڑکر بھاگ نکلے۔ (فكر الخوارج والشيعة في ميزان أهل السنة والجماعة  للدكتور الصلابي:ص34)اورعلی رضی اللہ  عنہ کی فوج میں سے صرف دوآدمی شہیدہوئے ۔(صحيح مسلم : 1773)
اورایک روایت کے مطابق بارہ یاتیرہ آدمی . (مصنف ابن ابی شیبہ:  5/311)
اورایک قول کےمطابق صرف نو افراد قتل کئے گئے ۔ (تاريخ بغداد : 1/83)
علی رضی اللہ عنہ شروع ہی سے ہاتھ کٹےہوئے ذوالثدیہ کا تذکر ہ کرتے اوراس کے اوصاف بیان کرتے کیو نکہ یہ خوارج کی علامتوں میں سےایک تھا، معرکہ ختم ہونے کے بعدانہوں نے اسے تلاش کرنےکاحکم دیا بہت تلاش  کے بعدمقتولین کی لاشوں کے نیچے چھپاہواملا، جس  پر علی رضی اللہ عنہ اورآپ کے اصحاب نے اللہ کا شکرادا کیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:  : 15 /317-  319  نیزدیکھئے : مسنداحمد:635)
نہروان میں ہزیمت کے دوماہ بعدانہوں نے نئے سرےسےسراٹھایا اورخراسان کے دسکرہ نامی جگہ  میں ربیع الثانی سنہ 38 ھ میں اشرس بن عوف شیبانی کی قیادت میں علی رضی اللہ عنہ کی فوج سے دوبارہ قتال کیاجہاں انہیں پھرسے شکست ہوئی   ۔
دسکرہ میں ہزیمت اٹھانے کے بعداگلےماہ حمادی الاولی سنہ38 ھ میں فارس کے ماسبذان میں ہلال بن علفہ اوراس کے بھائی مجالد کی قیادت میں تیسری بار علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی کی ۔
ماسبذان میں شکست کے بعد اشہب بن بشر بجلی کی قیادت میں اسی سال دریائے دجلہ کے قریب  جرجرایامیں لڑائی کی ۔اوررمضان سنہ 38 ھ میں  بنوسعدتمیم کے ابومریم کی قیادت میں کوفہ پرچڑھائی کی جہاں علی رضی اللہ عنہ کی فوج سے مقابلہ ہو ا جس میں انہیں پھر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
اورعلی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کےلئے چھوڑدیا تب خوارج کی بغاوت اہل شام کے خلاف شروع ہوگئی، اورپہلی لڑائی میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج نے اہل کو فہ کی مددسے ان کو شکست دیدیا ۔
سنہ 41 ھ میں سہم بن غالب تمیمی اور خطیم باہلی نے بنوامیہ کے خلاف ان کی داخلی سازشوں کی قیادت کی یہاں تک کہ  پانچ سال بعدسنہ 46 ھ میں  زیادبن ابیہ نےبصرہ کے قریب ان کا قصہ تمام کیا۔
(تيارات الفكر الإسلامي لدكتور محمد عمارة: ص27، 28)
اس کے بعدبھی اموی حکومت کے خلاف ان کی سازشیں  جاری رہیں آخر شوال سنہ 64 ھ  میں  انہوں نے نافع بن ازرق کی قیادت میں  سب سے بڑی بغاوت کی   اور سنہ 76 – 77 ھ میں انہوں نے شبیب بن یزید بن نعیم کی قیادت میں  حجاج بن یوسف ثقفی کو کئی شکستیں دیں ، اس بعد بھی  اموی خلافت کے خلا ف ان کی بغاوتیں جاری رہیں ۔ یہاں پر یہ بتاتے چلیں کہ   انکی یہ بغاوتیں کوئی  طویل اورمستقل حکومت قائم کرنےمیں کامیاب تو نہ ہو سکیں   لیکن اموی خلافت کو مشکلات میں ڈالتی رہیں یہاں تک کہ سنہ 132 ھ میں عباسیوں کی  بغاوت میں متزلزل ہوگئی اور ان سے خلافت عباسیوں میں منتقل ہوگئی ۔
(تيارات الفكر الإسلامي للدكتورمحمد عمارة: ص27، 28)

کوئی تبصرے نہیں: