پیر، 30 اپریل، 2012

خوارج سے عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہماکا مناظرہ


خوارج  سے عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہماکا مناظرہ
            صفین کےمعرکہ سے کوفہ واپسی کےدوران خوارج کی  ایک بڑی جماعت کوفہ سے چند میل کی دوری پر  علی رضی  کی فوج سے الگ ہوگئی، جن کی تعدادکا اندازہ بعض روایتوں کے مطابق  بارہ ہزارسے کیاگیاہے (تاريخ بغداد: 1/160) اورایک روایت کےمطابق  چھ ہزار (خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب / النسائي : ص200) ایک روایت کے مطابق آٹھ ہزار  (البداية والنهاية : 7 /280، 281)اورایک روایت کے مطابق چودہ ہزارتھی ۔
 (مصنف عبد الرزاق   :  10   /157-160)
خوارج کی اس بڑی تعداد کے نکلنے سے علی  رضی اللہ عنہ کی فوج میں اضطراب پیدا ہوگیااورعلی رضی اللہ عنہ بقایا فوج کے ساتھ کوفہ میں داخل ہوئے اورخوارج کے معاملات میں الجھےرہے ، خاص طورسے جب آپ کویہ پتہ چلاکہ ان لوگوں خود کو منظم کرنا شروع کردیاہے ، اورانہوں نے نمازاورلڑائی کے لئے امیر متعین کرلیاہے اوریہ اعلان کردیا ہے کہ بیعت صرف اللہ کے لئے ہونی چاہئےاورامربالمعروف اور نہی عن المنکراداکرنی چاہئے ، ان کے ان نظریات نے ان کو عملی طورپر مسلمانوں کی جماعت سے الگ کردیا۔(فكر الخوارج والشيعة في ميزان أهل السنة والجماعة/ د. علي محمد الصلابي: ص22)
أمیرالمؤمنین علی رضی اللہ عنہ  نےان کو جماعۃ المسلمین میں واپس لانے کی کوشش و چاہت  میں عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہماکو ان کے پاس مناظرہ کے لئے بھیجا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ان کے پاس دوپہرمیں پہنچے ، ان سے سلام کیا تو وہ گویا ہوئے کہ آپ کس مقصدکے تحت آئے ہیں ؟ توآپ نے کہا:"میں تمہارےپاس اللہ  کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اورآپ کےدامادکی طرف سےآیاہوں جن  کی موجودگی میں قرآن کانزول ہوااوروہ قرآن کے مفاہیم کوتم سےزیادہ  سمجھتے اور جانتےہیں ، ان میں کوئی بھی تمہارےساتھ نہیں ہے ، اورمیں تم کو ان کی باتیں پہنچاؤں گااورتم جو کہوگےان تک پہنچاؤں گا، اب تم بتاؤاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اورآپ کے چچازادکے خلاف  تمہاراکیااعتراض ہے ؟ " انہوں نے کہا: تین  اعتراضات  ہیں  :
اول : انہوں نے اللہ کے معاملےمیں لوگوں کو حکم بناکر کفرکاارتکاب کیاہے ، جبکہ اللہ  تعالی کا فرمان ہے :{إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ} [الأنعام: 57] (حکم صرف اللہ کے لئے ہے)  لہذا اللہ کے فیصلےمیں لوگوں کاکیادخل ؟
دوم : انہوں نے لڑائی کی اوراس لڑائی میں کسی کو نہ قیدکیااورنہ ہی مال غنیمت اکٹھا کیا، جبکہ اگر(ان کےمخالف ) کافرتھےتوان کو قیدکرنا چاہئے تھا ، اوراگرمؤمن تھےتو ان  سے ان کی لڑائی جائزنہیں تھی ۔
سوم  :انہوں نےاپنےنام کے سامنے سے "أمیرالمؤمنین " کا لفظ مٹادیا لہذاوہ کافروں کے  امیرہیں ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے ان سے پوچھا کہ اورکچھ یا صرف اتناہی ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہمارےلئے اتنا ہی کافی ہے ۔ پھرآپ نے ان سے کہاکہ :"اگرمیں تمہارے اعتراضات کااللہ کی کتاب اوراس کے نبی کی سنت سےجواب دوں توکیا تم اسے قبول کروگے؟  " تو انہوں نے کہاکہ ہاں ۔
عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کے ان کے اعتراضات کاجواب دیناشروع کیا اورفرمایا کہ :" اللہ کے حکم میں لوگوں کو حکم بنانےکی جہاں تک بات ہے تو میں تمہیں اللہ کافرمان پڑھ کرسناتاہوں جس  میں اللہ تعالی نے ایک چوتھائی درہم کی قیمت میں لوگوں کوحکم بنایاہے ، اورانہیں حکم دیا ہے کہ وہ اس میں فیصلہ کریں ، ارشادفرماتا ہے:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لاَ تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ} (المائدة: 95) (اے ایمان والو! حالت احرام میں وحشی جانوروں کا شکارمت کرواورجس نے جان بوجھ کراس کوقتل کردیا تواس پرفدیہ واجب ہے جوکہ قتل کئے گئے جانورکےمساوی ہوگاجس کا فیصلہ تم میں سے دومعتبرشخص کریں گے) اب میں تم سے اللہ کی قسم دےکرپوچھتاہوں کہ  لوگوں کا خرگوش وغیرہ کے شکارمیں فیصلہ کرنا ا‌فضل ہے یا لوگوں کے خون کو بچانے اوران کی خیروبھلائی میں فیصلہ کرنا ؟ جبکہ تمہیں معلوم ہے کہ اگراللہ تعالی چاہتاتوخود فیصلہ کردیتا او رلوگوں کو اس کاذمہ دارنہیں بناتا ۔ تو ان لوگوں نے کہاکہ : یہ زیادہ بہترہے ۔
پھرآپ نے کہا کہ :اسی طرح  اللہ تعالی عورت اوراس کے شوہر کےبارےمیں  ارشاد فرماتاہے : {وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلاَحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا}(النساء: 35)(اگرتمہیں میاں بیوی کی آپسی رنجش کا ڈرہے توایک منصف مردکے گھروالوں میں سے ایک عورت کے گھروالوں میں سے مقررکردو،اگریہ دونوں صلح کراناچاہیں گےتواللہ دونوں میں ملاپ کرادےگا) میں تمہیں اللہ کی قسم دےکرپوچھتا ہوں :"لوگوں کی بھلائی کے لئے اوران کی حفاظت کی خاطرلوگوں  کے درمیان فیصلہ کرناافضل ہے یاایک عورت کی شرم گاہ کے بارےمیں ؟ " ۔
پھرآپ نے ان کے دوسرے اعتراض کاجواب دیتےہوئے فرمایا : "تم لوگ کہتے ہوکہ  علی رضی اللہ عنہ نے لڑائی تو کیا لیکن نہ تو لوگوں کو قید کیا اورنہ ہی ان کے مال  پرقبضہ کیا، تومیں پوچھتاہوں کہ کیاتم اپنی ماں عائشہ رضی اللہ عنہاکو گرفتارکرکے ان کے ساتھ وہی سلوک کرسکتےہوجودوسری عورتوں کے ساتھ کیاجاتاہے ،جب کہ وہ تمہاری ماں ہیں ؟اگرتم انہیں قیدکرکےدوسری عورتوں جیساسلوک کرنے کو جائز سمجھتےہو تو تم کافرہو‏ئے اور اگرتم کہتے ہو کہ وہ تمہاری ماں نہیں ہیں تو بھی تم کافر ہوئے ، کیونکہ اللہ تعالی کاارشادہے : {النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ} (الأحزاب: 6) اس طرح تم دوہری گمراہی کے پیچ وخم میں پھنسےہوئے ہو ، اگراس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے توبتاؤ" ۔ 
ان کے تیسرے اعتراض کاجواب دیتےہو‏ئے آپ نے فرمایا:"تم کہتے ہو کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے نام کے سامنے سے " أمیرالمؤمنین " کا لفظ کیوں مٹادیاتو تمہیں بتادوں  اورتم نے سناہوگا کہ حدیبیہ کے دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین سے صلح کیااور علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ  لکھو:" یہ وہ عہدنامہ ہے جس پرمحمدرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )نے اتفاق کیاہے "تو مشرکین نے کہا :اللہ کی قسم ہرگزنہیں  اگرہم جانتے کہ تم اللہ کے رسول ہو تو تمہاری  اطاعت کرتے ، اس کی جگہ محمدبن عبداللہ لکھو۔ اس کے بعدآپ نے علی رضی اللہ عنہ  سے اسے مٹاکر محمدبن عبداللہ لکھنےکو کہا  ۔ اللہ کی قسم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم علی  رضی اللہ عنہ سے بہترہیں  اورآپ نے خوداپنے دست مبارک سے لفظ "رسول اللہ "مٹادیا، اورآپ کے اس مٹانے سے آپ کی نبوت نہیں مٹ گئی " ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس جواب سے دوہزار خارجی تائب ہوگئے او ر باقی  اپنی گمراہی پرقائم کوفہ سے نکل گئے  او ر اسی پر ہلاک ہو ئے جن کو انصاراور مہاجرین نے قتل کیا ۔( خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب: ص200)

کوئی تبصرے نہیں: