اتوار، 29 اپریل، 2012

خوارج کےظہورکےاسباب


خوارج کےظہورکےاسباب
             خوارج کےظہورکی خبراللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےپہلےہی دیدی تھی گویا اس فتنے کابیج عہدرسالت ہی میں بودیاگیاتھا ، لیکن باضابطہ ایک جماعت کی شکل میں علی رضی اللہ عنہ کےعہدمیں وقوع پذیرہوا،شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےاس جانب اشارہ کیاہے کہ اس  بدعت کااظہاراللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیں کیاگیاتھاپھر اس کے حاملین اسےاپنےدلوں میں چھپائے رہےاوراس درمیان وقتافوقتااس کااظہارکرتےرہےیہاں تک کہ علی رضی اللہ عنہ کےعہدمیں باضابطہ ایک جماعت بنالی ۔(مجموع فتاوی ابن تیمیہ 28/490)
امام ابن کثیرنےعثما ن غنی رضی اللہ عنہ کےخلاف  بغاوت کرنےوالےبلوائیوں کو خوارج کانام دیاہے ۔( البدایہ والنھایہ  : 7/202) امام طحاوی نے بھی اسی کوذکر کیا ہے ۔  (  شرح العقيدة الطحاوية : ص472)
درحقیقت خارجیت کےجراثیم بادتوحیدمیں عہدرسالت میں ہی موجودتھےجوکہ توحید اوراتباع سنت کی تیزوتند آندھی  میں اثرپذیری سےمحروم رہا،پھرمسلمانوں کےباہمی انشقاق واختلاف نےاس بیج کی پیداواری کےلئے سینچائی کاکام دیااور بالآخر جنگ صفین کے بعدایک جماعت کی شکل اختیارکرلی ۔
              عراق میں کچھ ایسےافرادتھےجو عثمان رضی اللہ عنہ کے بعض قرابت داروں کے اخلاق واطواراورخصلتوں سے نالاں تھے، جس کی وجہ سےعثمان رضی اللہ عنہ پرطعن کیاکرتےتھے، یہ لوگ تلاوت قرآن اورجہدوعبادت میں ممتازتھے، اورساتھ ساتھ قرآنی آیات کی ایسی تاویلیں کرتےجوسراسرقرآنی  مفاہیم سےہٹ کرہوتیں ، جب عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی توان لوگو ں نےعلی رضی اللہ عنہ کےشانہ بشانہ لڑائیوں میں حصہ لیا۔ ان کابنیادی عقیدہ عثمان  رضی اللہ عنہ اورآپ کےمتبعین کی تکفیرتھا، نیزیہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کی امامت اورجنگ جمل میں آپ کے خلاف جنگ کرنےوالوں کی تکفیرکااعتقادبھی رکھتےتھےجنہوں نےعائشہ ، طلحہ اورزبیررضی اللہ عنہم کی قیادت میں عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین کوفی الفورسزا دینے کامطالبہ کیاتھا، اس جنگ میں علی رضی اللہ عنہ کوفتح ہوئی تھی ۔ پھرشام میں معاویہ رضی اللہ عنہ نےبھی خون عثمان کابدلہ لینےکامطالبہ کردیاجس کی بنیادپرجنگ صفین کامعرکہ پیش آیا، معاویہ رضی اللہ عنہ شام کےامیرتھےشہادت عثمان رضی اللہ عنہ کےبعد علی رضی اللہ عنہ نے جب  ان سے بیعت کامطالبہ کیاتوانہوں نے عذرپیش کردیاکہ  پہلےآپ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو فی الفور سزا دیں  اس کے بعدبیعت ہوگی ، علی رضی اللہ عنہ نے نامساعد حالات کے پیش نظراس مطالبہ کوماننے میں ترددکیا یہاں تک کہ دونوں کےدرمیان صفین جیسا معرکہ پیش آیاجوکئی مہینوں تک چلا، اس جنگ میں اہل شام کی شکست قریبی تھی  کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ  کے مشورہ پراہل شام نے قرآن مجید کو نیزہ پراٹھاکردہائی دی کہ ہم آپ کو کتاب اللہ کی طرف بلاتےہیں ۔(العواصم من القواصم للاما م ابن العربی : ص173)
اس کےبعدعلی رضی اللہ عنہ کی فوج کےاکثرلوگوں خصوصاقرّاء(جوبعدمیں خوارج ہوئے) نےہتھیارڈال دئے اورآیت کریمہ : {أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوْتُواْ نَصِيباً مِّنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَهُم مُّعْرِضُونَ}(آل عمران 23) (کیاآپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھاجنہیں اللہ کی کتاب کا ایک حصہ ملا،انہیں اللہ کی کتاب کی طرف بلایاجاتاہے ، تاکہ ان کےدرمیان فیصلہ کردے،پھران کی ایک جماعت اس سےاعراض کرتے ہوئےلوٹ جاتی ہے)سے استدلال کرتےہوئے جنگ سے اعراض کیا۔ پھرشامیوں نے علی رضی اللہ عنہ سےمراسلت کرکےجانبین سےایک ایک حکم متعین کرنے کا مطالبہ کیاجن کے ساتھ ایسے افرادہوں جنہوں نے اس جنگ میں حصہ نہیں لیاہے ، پھردونوں کے فیصلےکے بعدجوحق ہو اسےتسلیم کر لیاجائے، علی رضی اللہ عنہ نے اس تجویزکو تسلیم کرکے اس پرعمل درآمد کی کوشش کی جس کی مخالفت اس جماعت نے کیاجو بعدمیں خارجی ہوئی ۔ پھرعلی رضی اللہ عنہ نے اہل اعراق اور اہل شام کے مابین فیصلےکی جوتحریربھیجی اس میں اپنےلئے "امیرالمؤمنین "لکھاجس کو اہل شام نے ماننےسے انکارکردیااورصرف علی بن ابی طالب لکھنےکوکہا، علی رضی اللہ عنہ نے اسے بھی تسلیم کرلیاجس کی مخالفت بھی خوارج نےکی ۔(مجموع فتاوی ابن تیمیہ :13/32)
پھردونوں فریق اس بات پرمتفق ہوئے کہ دونوں حکم  اوران کے اصحاب چنددنوں کے بعدشام اورعراق کے درمیان ایک  متعین جگہ  پراکٹھےہوں گےاورفوجیں کوئی فیصلہ ہونےتک اپنےاپنےملک واپس چلی جائیں گی ، اس کے بعدمعاویہ اورعلی رضی اللہ عنہما واپس لوٹ گئے، اورخوارج جن کی تعدادآٹھ ہزاراورایک قول کےمطابق سات ہزار اورایک قول کےمطابق چھ ہزارتھی ان سےجداہوکر"حروراء" نامی جگہ پراکٹھےہوگئے، جس کی طرف منسوب کرکے ان کو "حروریہ " کہاجاتاہے ،ان کے لیڈران میں عبداللہ بن  کواء یشکری اورشبث تمیمی تھےجن کے پاس علی رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو ان سےمناظرہ کرنےکے لئے بھیجاجس سے بہت سارے لوگ واپس آگئے، پھرعلی رضی اللہ عنہ خودان کےپاس گئے جس سےکہ ان لوگوں نےآپ کی اطاعت کرلی اورآپ کےساتھ کوفہ واپس آگئے،جن میں مذکورہ دونوں لیڈران بھی تھےجنہوں نے یہ پرچارکرناشروع کردیاکہ وہ واپس اس لئے آئےہیں کیونکہ علی  رضی اللہ عنہ نے حکومت سے توبہ کرلی ہے ، جب یہ خبرعلی رضی اللہ عنہ کو ملی تو آپ نے خطبہ دیااوران کی اس بات کاردکیا ، اسی دوران مسجد کے ایک گوشےسے ان  لوگوں نے " لاحکم الاللہ " کانعرہ لگایا ، اس پرعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:" یہ جملہ تو صحیح ہے لیکن ان لوگوں نے باطل اور غلط مقصدکی خاطراسے استعمال کیاہے " پھرآپ نے ان لوگوں کوتین باتوں کی رخصت دی ، جومندرجہ ذیل  ہیں :
اول : انہیں مسجدوں میں آنےسے نہیں روکاجا‏ئےگا۔
دوم : ان کے حامیوں کو بھی مسجدوں میں آنےسے نہیں روکاجائےگا۔
سوم : جب تک فسادنہیں کریں گے ان سے جنگ کی ابتدانہیں کی جا‏ئےگی ۔
پھریہ لوگ آہستہ آہستہ کوفہ سےنکل گئے اورمدائن میں جاکرجمع ہوگئے ۔ علی رضی اللہ عنہ ان سے ان کی واپسی کے لئے مراسلت کرتےرہے اوریہ لوگ اپن موقف پر مصررہے ، ان کا مطالبہ تھا کہ جب تک آپ اپنے کفرکااقرار کرکےا س سے سےتوبہ نہ کرلیں واپس نہیں ہونگے ۔ اس کے بعدبھی آپ نےاپنا قاصدان کے پاس بھیجا جس کو یہ لوگ قتل کرنے پرآمادہ ہوگئے ۔
پھرخوارج  کی جماعت اپنے اس باطل عقیدے پرمتفق ہوگئی کہ جوشخص ان کے عقیدے  پرنہیں ہے وہ کافرہے اور ان کا خون مال اور اہل حلال ہے ۔ ان لوگوں نے اس پرعمل درآمدبھی شروع کردی، جومسلمان ان کے سامنےآئے انہیں قتل کردیا، عبداللہ بن خباب بن الارت جو بعض علاقوں  پر علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے گورنرتھے ان کو قتل کردیا او ران کی حاملہ باندی کا پیٹ چاک کردیا ، جب یہ خبر علی رضی اللہ عنہ کوملی تو آپ نے ان سے مقابلہ کرنے کے لئے کوچ کیا ، اور مقام نہروان میں ان سےجنگ کیا ، جس میں خوارج میں سے دس سےبھی  کم افرادبچےاورعلی رضی اللہ عنہ کی فوج میں سے دس سے کم ہی شہید ہوئے ۔
 (فتح الباری :  12 /283-284)

کوئی تبصرے نہیں: