پیر، 17 جنوری، 2022

قیامت کی نشانیاں

 

قیامت کی نشانیاں

(عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی/سعودی عرب)

             قیامت ایک لاانکارحقیقت اورایمان  کی چھ  بنیادوں میں سے ایک  ہے ، جس  پرایمان لائے بغیر ایک مومن کا ایمان مکمل نہیں ہوتا ، قیامت کے وقوع کے لئے اللہ تبارک وتعالی نے کوئی وقت متعین نہیں رکھا ، یہ علم غیبیات میں سے ہے جو صرف اسی کو معلوم ہے کہ اس کا وقوع کب ہوگا ،  اس کا علم اس نے  نہ کسی مقرب فرشتے کو دیا ہے اور نہ ہی کسی نبی یا فردبشر کو ، ارشاد فرماتاہے : ( يَسْأَلونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلا هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لا تَأْتِيكُمْ إِلا بَغْتَةً يَسْأَلونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ ) (یہ لوگ آپ سے قیامت  کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا  آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے ، اس کے وقت پر اس کو سوائے اللہ کے کوئی ظاہر نہ کرے گا، آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری (حادثہ) ہوگا  ،وہ تم پر محض اچانک آپڑے گی۔ وہ آپ  سے اس طرح پوچھتے ہیں جیسے گویا آپ اس کی تحقیقات کرچکے ہیں  آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم خاص اللہ ہی کے پاس ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے)۔( الأعراف /187)۔

اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتاہے : ( يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيباً ) لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے ! کہ اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے، آپ کو کیا خبر ممکن ہے قیامت بالکل ہی قریب ہو"۔ ( الأحزاب/63)۔

نیز فرمایا: ( يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَـاهَا* فِيمَ أَنتَ مِن ذِكْرَاهَا * إِلَى رَبّكَ مُنتَهاهَا * إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرُ مَن يَخْشاهَا) (لوگ آپ سے قیامت کے واقع ہونے کا وقت دریافت کرتے ہیں  آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا تعلق ؟ اس کے علم کی انتہا تو اللہ کی جانب ہے۔ آپ تو صرف اس سے ڈرتے رہنے والوں کو آگاہ کرنے والے ہیں جس روز یہ اسے دیکھ لیں گے تو ایسا معلوم ہوگا کہ صرف دن کا آخری حصہ یا اول حصہ ہی (دنیا میں) رہے ہیں ) (النازعات /42-45 )۔

اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ( إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأرْحَامِ) بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے) ۔ ( لقمان /34)۔

اور صحیح مسلم کے اندر جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں :کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، وفات سے ایک مہینہ پہلے فرماتے ہوئےسنا : " تسألوني عن الساعة ، وإنما علمها عند الله ، وأقسم بالله ما على الأرض من نفس منفوسة تأتي عليها مائة سنة " "تم مجھ سے قیامت کے بارے میں  پوچھتے ہو قیامت کا علم تو اللہ کو ہے اور میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ روئے زمین پر کوئی جان نہیں جس پر(آج کی تاریخ سے )  سو برس تمام ہوں اور وہ زندہ رہے"( صحیح مسلم/2538

 لہذا جب بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال ہوتا آپ اس سے اپنی لاعلمی کا اظہارکرتے، البتہ  اللہ رب العزت نے آپ کو  اس کی کچھ علامتیں بتادی تھیں   جنہیں آپ وقتا فوقتا لوگوں کو بتایا کرتے  ، جس کا مقصد آپ کی  نبوت کی تاکید وتائید اور  اس  کے لئے دلیل  اور علامات فراہم کرنا  ہے ، کیوں کہ یہ امور ان غیبیات میں سے ہیں جن کی معرفت ایک نبی کو ہی ہوسکتی ہے جس سے اللہ رب العزت نے ان کو باخبرکیا ہو ۔ اور دوسرا  مقصدان علامتوں کی وجہ سے ہم یہ سمجھ لیں کہ قیامت نہایت ہی قریب ہے اور ہمیں نیک اعمال کے ساتھ اپنے رب سے ملاقات کے لئے تیار ہوجانا چاہئے ۔

 جب جبریل علیہ السلام نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے دریافت کیاتو آپ نے فرمایا :  "ما المَسْئُولُ عَنْهَا بأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ" "جس سے پوچھا جارہاہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ علم نہیں رکھتا"۔

پھرجب اس کی نشانیوں کے بارے میں سوال کیاگیاتوفرمایا:"أن تلدالامة ربتها،وان ترى الحفاة العراة العالة رعاء الشاء، يتطاولون في البنيان"  " ایک نشانی یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی۔ دوسری نشانی یہ ہے کہ ننگوں کو جن کے پاؤں میں جوتا نہ تھا، تن پہ کپڑا نہ تھا، کنگال تھے ان کو دیکھوگے کہ وہ   بڑی بڑی عمارتیں بنا رہے ہیں(صحیح مسلم/ 8 ،سنن ابی داود/4695، سنن الترمذی /2610،سنن النسائی /4993 ،مسند احمد: 1/52 عن عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ  ، اسی معنی کی روایت صحیح بخاری /50،4777  صحیح مسلم / 9،10 اور سنن ابن ماجہ /64 ، 4044  وغیرہ کے اندر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

قیامت کی نشانیوں پر یقین ایمان کا جزو ہے :  ہر علامت اور خبرجس کے وقوع سے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے اور وہ صحیح سندسے ہم تک پہنچی ہو اس پر یقین ہمارے ایمان کا حصہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی کا مقتضی ہے ، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے : (وما ينطق عن الهوى. إن هو إلا وحيٌ يُوحى) ( اور وہ اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے ہیں، وہ تو وحی ہوتی ہے جو آپ کی طرف اتاری گئی ہوتی ہے  )۔(النجم/3-4) نیزایک دوسری جگہ ارشادفرماتاہے: (وَما آتاكُمُ الرَّسولُ فَخُذُوهُ وَما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا) (تمہیں جو کچھ رسول دیں لےلو اور جس سے رواکں رک جاؤ) (الحشر/7)۔

چنانچہ ہر وہ خبرجو صحیح سند کے ساتھ ہم تک پہنچی ہو اس پر ایمان لانا واجب ہے ، ہماری عقل اس کا ادراک کرے یا نہ کرے ، حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: "لقد خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم خطبة ما ترك فيها شيئاً إلى قيام الساعة إلا ذكره، عَلِمَهُ مَنْ عَلِمَه وَجَهِلَهُ مَنْ جَهِلَهُ، إن كنت لأرى الشئ قد نسيت فأعرفه كما يعرف الرجلُ الرجلَ إذا غاب عنه فَرآه فعرفه"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ دیا اور قیامت تک کوئی (دینی) چیز ایسی نہیں چھوڑی جس کا بیان نہ کیا ہو، جسے یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا، جب میں ان کی کوئی چیز دیکھتا ہوں جسے میں بھول چکا ہوں تو اس طرح اسے پہچان لیتا ہوں جس طرح وہ شخص جس کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو کہ جب وہ اسے دیکھتا ہے تو فوراً پہچان لیتا ہے"۔(صحیح البخاری/6604، صحیح مسلم/2891، سنن ابی داود/4240 )۔ اسی طرح عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : "قام فينا النبي صلى الله عليه وسلم مقاماً، فأخبرنا عن بدء الخلق حتى دخل أهل الجنة منازلهم وأهل النار منازلهم، حَفِظَ ذلك مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ"۔  ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر ہمیں وعظ فرمایا اور ابتدائے خلق کے بارے میں ہمیں خبر دی۔ یہاں تک کہ جب جنت والے اپنی منزلوں میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں کو پہنچ جائیں گے (وہاں تک ساری تفصیل کو آپ نے بیان فرمادیا) جسے اس حدیث کو یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا(صحیح بخاری/3192

اس معنی کی اور بھی کئی روایتیں ہیں ۔

قیامت کی  نشانیوں کی قسمیں

           یوں تو قیامت کی بیشمار نشانیاں ہیں، جن میں سے کچھ کا وقوع ہوچکاہے اور کچھ  جلد یا بدیرواقع ہونے والی ہیں ، ان علامات ونشانیوں سے متعلق روایتوں کو  محدثین نے  اپنی کتابوں کے اندر فتن ، ملاحم، دلائل النبوۃ  اور علامات الساعۃ  وغیرہ کے ابواب کے تحت  ذکر کیاہے ۔  نیز کچھ راویتیں  کسی فقہی مسئلہ کے استنباط کے ضمن میں بھی مذکورہیں۔

        قیامت کی  نشانیوں کی بنیادی طورپردوقسمیں ہیں علامات کبری(بڑی نشانیاں) اورعلامات صغری (چھوٹی نشانیاں)۔

 علامات کبری :  وہ نشانیاں ہیں  جو غیرمتوقع ، خلاف عادت  اور قیامت سے قریب تر زمانے میں ظاہر ہوں گی ، یعنی ان کے ظہور کے بعد قیامت کے واقع ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی ، اور یہ نشانیاں بھی ایک کے بعدایک لگاتارظاہر ہوں گی ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:" خُروجُ الآياتِ بعضُها على إِثْرِ بعضٍ ، يَتَتَابَعْنَ كما تَتَابَعُ الخَرَزُ في النِّظامِ" " نشانیاں ایک کے بعدایک اس طرح ظاہرہوں گی جیسے دھاگوں میں ایک کےبعد ایک موتی پروئےجاتے ہیں"( المجالسۃ للدینوری/2156، المعجم الاوسط للطبرانی /4271 ، ابن حبان/3833 ، علامہ البانی نے صحیح الجامع /3227 کے اندر اسے صحیح قراردیاہے) ۔

علامات صغری :  قیامت سے قبل کی وہ  چھوٹی علامتیں  ہیں جن کی تعدادبے شمار ہیں یہ علامتیں بعثت نبوی سے لے کرقیامت کے وقوع کے قبل تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کا ذکر نصوص میں جگہ بجگہ موجودہے ، انہیں ہم تین قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں   :

1 - جن کا  وقوع ہوچکا ہے، ن میں وہ علامتیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیں اورآپ کے بعدظاہرہوئیں ، نیز ان میں کچھ ایسی علامتیں ہیں جو باربار واقع ہوتی ہیں (  جوبروقت جاری ہیں  اور جن کا وقوع  باقی ہے) ۔

2 - ان میں کچھ علامتیں ایسی ہیں جو کسی زمانے کے ساتھ خاص اور مرتبط ہیں اور کچھ جو کسی وقت اور زمانےکے ساتھ مرتبط نہیں ہیں ، واضح رہے کہ قیامت کی چھوٹی نشانیوں کے ظہورکے بعد بھی بندے کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا رہتاہے ، جب کہ  سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہوجاتاہے۔

اسی طرح کچھ علماء نے ان نشانیوں کو مندرجہ ذیل  تین اقسام پر تقسیم کیاہے :

اول : وہ علامتیں جن کا ظہور جس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے ہوچکاہے ۔

دوم : وہ علامتیں جن کے مبادی شروع ہوچکے ہیں جو لگاتار جاری ہیں اور  ان میں اضافہ بھی  ہورہاہے ۔

سوم : وہ علامتیں جن کا ظہور اب تک نہیں ہواہے ،  اور علامات  کبری ہیں ۔

علامات کبری کی قسمیں  :ظہورورؤیت کے اعتبارسے بعض علماء نے ان علامات (علامات کبری)  کی دوقسمیں قراردی ہے    :

پہلی : وہ علامتیں  جنہیں مومنین بھی دیکھیں گے ،جیسے : ظہورالدجال ، نزول عیسی علیہ السلام ،خروج یاجوج وماجوج،سورج کا مغرب سے طلوع ہونا،خروج الدابۃاور دخان) یعنی دھواں کا نکلنا(۔

دوسری : وہ علامتیں جنہیں صرف کفارہی دیکھیں گے،جیسے:مشرق ومغرب اورجزیرۃ العرب میں زمین کا دھنسنا، اور یمن سے آگ کا نکل کر لوگوں کو میدان محشرمیں لےجانا۔

علامات کبری یعنی قیامت کی بڑی نشانیاں

            علامات  القیامۃ الکبری یعنی قیامت کی بڑی نشانیاں  دس ہیں جن کا ذکر احادیث میں مذکورہے ،  یہاں یہ واضح رہے کہ ان علامات کی باعتباروقت وزمانہ ترتیب  کیا ہوگی اس  کے بارے میں علماء کی مختلف آراء ہیں ، یہ اس لئے کہ کوئی ایسی نص صریح نہیں ہے جوان کی بیان وصراحت  کے ساتھ ترتیب کے لئے قاطع ہو، کیونکہ ہر روایت کے اندر مختلف ترتیب کاذکر ہے ، خود ان علامات سے متعلق حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی روایت میں ترتیب میں فرق ہے ۔  اس سلسلے میں  فتح الباری للحافظ ابن حجر ، تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ، التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة  للامام القرطبی  (متوفی 671ھ)  کا مطالعہ مفیدہے ۔ 

وہ دس نشانیاں مندرجہ ذیل ہیں :

1 - دجال کا ظاہر ہونا : بنوآدم میں سے ایک آدمی ہوگا جو رب العالمین ہونے کا دعوی کرےگا ، اسے اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے لوگوں کے ایمان  کی آزمائش کی خاطربعض خرق عادت قدرت ملی ہوگی  ، اس کے بایاں آنکھ کے  کاناہونے کی وجہ سے اس کا نام "المسیح الدجال"  ہوگا ،  انس بن مالک رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: (الدَّجَّالُ مَمْسُوحُ العَيْنِ مَكْتُوبٌ بيْنَ عَيْنَيْهِ كافِرٌ، ثُمَّ تَهَجَّاها ك ف ر يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُسْلِمٍ"" دجال کی ایک آنکھ اندھی ہے (اسی واسطے اس کو مسیح کہتے ہیں) اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہے پھر اس کے ہجے کئے یعنی (ک)،(ف)  اور(ر)  ہر مسلمان اس کو پڑھ لے گا" (صحیح مسلم/2933  ، اس معنی کی  اور دجال سے متعلق مختلف روایتیں عبداللہ بن عباس  ،  ابوہریرہ ،  حذیفہ بن الیمان اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے صحیح بخاری ،سنن ابی داود اور حدیث کی دیگر کتابوں میں مذکورہے) ۔

دجال کو عیسی علیہ السلام قتل کریں گے ۔

2 - عیسی علیہ السلام کا نزول : قرآن وسنت کے بےشمار نصوص اوراجماع امت سے نزول عیسی علیہ السلام کا ثبوت  ملتاہے ،  جو تواتر کے ساتھ ہم تک مروی ہیں ۔اللہ تعالی ارشادفرماتاہے : (وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا) (النساء/159) (اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لا چکے ۔اور قیامت کے دن آپ ان پر گواہ ہونگے) ۔

 بعض مفسرین کے نزدیک ہر عیسائی موت کے وقت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آتا ہے۔

اکثر مفسرین اور سلف کے مطابق جب عیسی علیہ السلام کا دوبارہ دنیا میں نزول ہوگا اور وہ دجال کو قتل کر کے اسلام کا بول بالا کریں گے تو اس وقت جتنے یہودی اور عیسائی ہونگے ان کو بھی قتل کر ڈالیں گے اور روئے زمین پر مسلمان کے سوا کوئی اور باقی نہ بچے گا  ، چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"  وَالَّذِي نَفْسِي بيَدِهِ، لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الجِزْيَةَ، وَيَفِيضَ المَالُ حتَّى لا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ، حتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَما فِيهَا. ثُمَّ يقولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاقْرَؤُوا إنْ شِئْتُمْ: {وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا} (النساء: 159). " " (اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم (عیسیٰ علیہ السلام) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا  اس وقت کا ایک سجدہ دنیاومافیھاسے بڑھ کر ہو گا۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو (اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسیٰ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے) ۔ " ( صحیح بخاری/3448  ،اور صحیح مسلم کی روایت میں تاکیدی الفاظ کے ساتھ مروی ہے : "والله لينزلن ابن مريم حكماً عادلاً فليكسرن الصليب " " اللہ کی قسم! مریم علیہما السلام کے بیٹے (آسمان سے)  ضروراتریں گے اور وہ حاکم ہوں گے، عدل کریں گے، تو صلیب کو توڑ ڈالیں گے "( صحیح  مسلم /155) ۔

       عیسی علیہ السلام کا نزول  آخری زمانے میں  قیامت سے قبل دمشق میں ہوگا ، اور وہاں سے وہ فلسطین جائیں گے( بعض جید روایتوں میں ہے کہ  اس وقت ان کا امیر امام مہدی ہوں گے(دیکھئے: مسنداحمد:3/345، مسندابویعلی :4/59 رقم/2078، المعجم الاوسط للطبرانی :9/39،علامہ البانی نے اس کی سندکو جیداور روات کو ثقہ قراردیاہے ،دیکھئے:سلسلۃ الاحادث الصحیحۃ /2236

جب عیسی علیہ السلام وہاں پہنچیں گے اس وقت مسلمان صفیں باندھ چکے ہوں گے اور نماز کے لئےاقامت کہی جاچکی ہوگی ، امام مہدی یا مسلمانوں کا امیروامام  ان سے امامت کےلئے کہیں گے لیکن  وہ یہ کہہ کر انکار کردیں گے کہ اقامت آپ کے لئے کہی گئی ہے ، پھر اس کے بعد قیادت عیسی علیہ السلام  کے ہاتھ میں آجائےگی۔(دیکھئے:صحیح مسلم /156 ،2897)  ۔

ایک وضاحت : صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ:" فينزل عيسى ابن مريم صلى الله عليه وسلم فأمهم" عیسی علیہ السلام  علیہ السلام اتریں گےاور ان کی امامت کریں گے(دیکھئے : صحیح مسلم /2897

اس سے مراد  عیسی علیہ السلام کا اس نماز کی امامت نہیں ہے ، کیونکہ نمازکی امامت  اس امت کا فردکرےگا،  جیسا کہ ڈھیروں صحیح اور متواتر روایتوں سے ثابت ہے ، جیساکہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے : فينزل عيسى ابن مريم عليه السلام، فيقول أميرهم: تعال صل لنا، فيقول: لا، إن بعضكم على بعض أمراء، تكرمة الله هذه الأمة " " پھر عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے اور اس گروہ کا امام (عیسیٰ علیہ السلام سے) کہے گا، آیئے نماز پڑھایئے وہ کہیں گے نہیں، تم میں سے ایک دوسروں پر حاکم رہیں۔ یہ وہ بزرگی ہے جو اللہ تعالیٰ اس امت کو عنایت فرمائے گا "( دیکھئے:صحیح  مسلم/155،156

 اورجہاں تک  صحیح مسلم کی مذکورہ  روایت کی بات ہے تو اس سے مرادیہ ہےکہ وہ ان میں اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلے کریں گے اور ان میں  قرآن کے احکام لاگوکریں گے۔ اس کی تائید میں امام مسلم نے  ابن ابی ذئب  کا قول نقل کیاہے : عیسیٰ علیہ السلام تمہارے رب  کی کتاب اور تمہارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے امامت کریں گے۔(دیکھئے : صحیح مسلم/155

         عیسی علیہ السلام دجال کو قتل کریں گے اور چالیس سال تک زندہ رہیں گے ، پھر ان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان کی جنازہ پڑھیں گے(دیکھئے: سنن ابی داود/4324، مسنداحمد:2/406، صحیح ابن حبان:15/233،  مستدرک الحاکم:2/651 ، امام ابو داودنے اس روایت پر سکوت اختیارکیاہے ، امام حاکم نے صحیح قراردیاہے او رامام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ،علامہ البانی نے صحیح سنن ابی داودکے اندر صحیح قراردیاہے) ۔

3 - یاجوج ماجوج کا خروج : سورہ کہف میں یاجوج ماجوج کا قصہ مذکورہے ، یاجوج ماجوج دوبڑے قبیلوں کا نام ہے ، ان کے فتنہ وفساد کی وجہ سے ذوالقرنین نے انہیں دیوار میں چنوادیا ، یہ لوگ آخری زمانے میں اس دیوار سے نکلیں گے جو قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے ۔

4 - سورج کا مغرب سے نکلنا: خلاف عادت قیامت سے قبل سورج مغرب سے نکلےگا ، جو کہ قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے ۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" لا تقوم الساعة حتى تطلع الشمس من مغربها، فإذا طلعت فرآها الناس آمنوا أجمعون، فذاك حين : ( لا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا) (الانعام/158 ) "قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک سورج مغرب سے نہ نکلے گا۔ جب سورج مغرب سے نکلے گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے، یہی وہ وقت ہو گا جب : ( کسی کو اس کا ایمان نفع نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہو گا یا جس نے ایمان کے بعد عمل خیر نہ کیا ہو) " (صحیح بخاری/6506، صحیح مسلم/157

5- دابۃ الارض (زمین کےجانور ) کا نکلنا : یہ بھی قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے ، اس کے سلسلےمیں اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے: (وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ) (جب ان کے اوپر عذاب کا وعدہ ثابت ہوجائے گا،  ہم زمین سے ان کے لئے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرتا ہوگا  کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے)۔(النمل/82)۔

6- دخان : قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک دھنواں کا نکلناہے جو روئےزمین پر پورب سے پچھم تک پھیل جائےگااورچالیس دنوں تک رہے گا، اللہ تعالی اس کے سلسلےمیں ارشاد فرماتاہے : (فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ) (آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا) (الدخان/10)۔

7 – مشرق میں زمین کا دھنسنا ۔

8 – مغرب میں زمین کا دھنسنا۔

9- جزیرۃ العرب میں زمین کا دھنسنا۔

ان تینوں دھنساؤوں  کو  خسوف ثلاثہ کہتے ہیں ،حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی کہ  قیامت سے قبل پورب ، پچھم اور جزیرہ عرب میں زمین دھنسے گی ۔ فرمایا:"خَسْفٌ بالمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بالمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ في جَزِيرَةِ العَرَبِ" ۔  "قیامت نہ ہو گی جب تک دس نشانیاں نہ ہوں گی ایک مشرق میں زمین کا دھنسنا  ، دوسری مغرب میں زمین کا دھنسنا  ، تیسری جزیرہ عرب میں زمین کا دھنسنا"( صحیح مسلم/2901 ) ۔ 

10- آگ کا نکلنا : یہ آگ یمن میں عدن کے ایک گوشے  سے نکل کر لوگوں کو ہانک کر شام لے جائےگی جہاں میدان محشر ہوگا۔

       مذکورہ دس علامتوں کا ذکر صحیح مسلم کے اندر حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے(دیکھئے : مسلم /2901

مہدی علیہ السلام کا ظہور

        مہدی علیہ السلام کے ظہورکوعلامات کبری یا علامات صغری میں شمارکیاجائے؟ اس سلسلےمیں واضح نص نہ ہونے کی وجہ سے علماء کے مابین اختلاف ہے ،بعض نے علامت کبری میں شمارکیاہے اور بعض نے علامات صغری میں ۔

         امام مہدی کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا وہ اہل بیت میں سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ذریت میں سے ہوں گے  ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (لا تنقضي الأيامُ ولا يذهبُ الدهرُ حتى يملكَ العربَ رجلٌ من أهلِ بيتي اسمُهُ يُواطئُ اسمي" "دنیا نہیں جائے گی یا ختم نہیں ہو گی تاآنکہ عربوں کا مالک ایک ایسا شخص ہو جائے جو میرے اہل بیت میں سے ہو گا اس کا نام میرے نام کے موافق ہو گا "( سنن ابی داود/4282،سنن ترمذی /2230، مسنداحمد:6/139 علامہ البانی نے صحیح سنن ابی داودکے اندر اس کی تصحیح کی ہے) ۔

‏‏‏‏ ابونضرہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ  جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، انہوں نے کہا:: يوشك أهل العراق أن لا يجبى إليهم قفيز ولا درهم، قلنا: من أين ذاك؟ قال: من قبل العجم يمنعون ذاك، ثم قال: يوشك أهل الشام أن لا يجبى إليهم دينار ولا مدي، قلنا: من أين ذاك؟ قال: من قبل الروم ثم سكت هنية، ثم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يكون في آخر امتي خليفة يحثي المال حثيا لا يعده عددا "، قال: قلت لابي نضرة، وابي العلاء: أتريان أنه عمر بن عبد العزيز؟، فقالا: لا" ۔"قریب ہے عراق والوں کے قفیزاور درہم نہ آئیں۔ ہم نے کہا: کس سبب سے؟ انہوں نے کہا: عجم کے لوگ اس کو روک لیں گے۔ پھر کہا: قریب ہے کہ شام والوں کے پاس دینار اور مدی(قفیز اورمدي :  ناپنے کا  پیمانہ ہیں جن کا استعمال عہد اسلامی میں ہوتاتھا ۔) نہ آئےہم نے کہا: کس سبب سے؟ انہوں نے کہا: روم والے لوگ روک لیں گے۔ پھر تھوڑی دیر چپ ہو رہے، بعد اس کے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"میری اخیر امت میں ایک خلیفہ ہو گا جو لپ بھر بھر کر(لوگوں کو)  مال دے گااور اس کو شمار نہ کرے گا۔"  جریر نے کہا: میں نے ابونضرہ اور ابوالعلاء سے پوچھا: کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ہے۔ انہوں نے کہا: نہیں ۔(بلکہ  یہ امام مہدی ہیں جو امت کے اخیر زمانے میں پیدا ہوں گے۔ عمر بن عبدالعزیز تو اوائل میں تھے) ۔ (دیکھئے:صحیح مسلم /2913) ۔  

قیامت کی چھوٹی نشانیاں

          علامات   القیامۃالصغری یعنی   قیامت کی چھوٹی نشانیاں بے شمارہیں جن کا ذکروبیان احادیث کی کتابوں میں مختلف اسلوب وانداز میں موجود ہیں ،   ان سب کو دلائل اورمصادرکے ساتھ بیان کرنےکے لئے ایک مستقل  کتاب کی درکارہوگی  ، سردست ان  میں سے  کچھ کا ذکر  ذیل میں کیاجارہاں ہے  :

 بعثت نبوی، وفات نبوی،شق القمر، صحابہ کرام کی وفات،بیت المقدس کی فتح ،فتنوں کا بکثرت ظہور،خوارج کا ظہور،جنگ صفین ،جھوٹے مدعیان نبوت کا نکلنا ،خوشحالی اور عیش پرستی کا عام ہو جانا،حجاز سے آگ کا نکلنا،ترکوں کی جنگ، لوگوں پر کوڑے برسانے والے ظالموں کا ظہور ،قتل و خونریزی کی کثرت، امانت کا دلوں سے اٹھ جانا، گزشتہ اقوام کی اندھی تقلید، باندی کا آقا جننا ،بے حیائی اور عریانیت کا عام ہونا،کم حیثیت اور چرواہوں دیہاتیوں کا اونچی اونچی عمارتیں بنوانا ،خاص اور بڑے لوگوں کی بندگی، تجارت کا خوب زیادہ عام ہو جانا، شوہر کی تجارت میں بیوی کا شریک ہونا، بعض تاجروں کا پوری منڈی پر قابض ہونا ،جھوٹی گواہی دینا، حق کی گواہی کا چھپانا، جہالت کا عام ہونا ،بخل کا عام ہونا ،قطع رحمی، پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی، فحش عام ہونا، امانت دار کا خیانت کرنا اور خائن کا امانت داری کرنا ،پہاڑی بکروں کا ہلاک ہونا ،حلال و حرام مال کی تمیز کا ختم ہو جانا ،مال غنیمت کو دولت سمجھا جانے لگنا ،امانت کے مال کو غنیمت کا مال سمجھنا ، زکوۃ کو خراج اور ٹیکس کی طرح بوجھ سمجھنا ،دنیوی مفادات کے لیے علم حاصل کرنا ،بیوی کی فرماں برداری اور ماں کی نافرمانی، دوستوں سے قربت اور والدین سے دوری، مسجدوں میں شور و غل، قبیلوں پر فاسقوں کی سرداری قائم ہو جانا ،سب سے گھٹیا اور ذلیل شخص کا قوم کا لیڈر اور رہنما بننا، لوگوں کے ڈر کی وجہ سے ان کی عزت کرنا،آزاد کو (غلامی کے لیے) حلال سمجھنا،مردوں کے لیے ریشم  کوحلال سمجھا جانے لگنا،گانے بجانے کے آلات کا جائز سمجھا جانے لگنا،لوگوں کا موت کی تمنا کرنے لگنا،ایسا زمانہ آنا جس میں آدمی کا صبح مومن رہنا اور شام تک کافر ہو جانا،مساجد کی حد سے زیادہ ظاہری زیبائش و آرائش کا ہونا،گھروں کو خوب شاندار بنوانا،قیامت کے قریب بہت زیادہ بجلی گرنا،تحریر و کتابت کا خوب زیادہ عام ہو جانا،محض چرب زبانی اور فخریہ کلام سے مال کمانا،قرآن کے سوا دیگر کتابوں کا خوب عام ہو جانا،قاریوں کی کثرت اور علما و فقہا کی قلت،کم علم والوں کے پاس علم حاصل کرنا،اچانک موت کا خوب ہونا، سو سال کے اندر اس وقت(جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا)  موجود سارے لوگوں کا مرجانا ، بیوقوف لوگوں کا حاکم بن جانا،زمانہ کا قریب ہو جانا (دن و سال تیزی سے گزرتا محسوس ہونا)،رویبضہ کا بات کرنا(رویبضہ کہتےہیں :حقیر اور کمینہ آدمی، جو لوگوں کے عام انتظام میں مداخلت کرے گا)،آزادکردہ گلام جہجاہ (یا جہجل )کے ہاتھ میں اقتدارآنا،نسلی کمینے شخص کا دنیا کا سب سے نیک بخت انسان بن جانا،مساجد کو راستہ اور گزرگاہ بنا لینا،مہر کا بہت زیادہ پھر بہت کم ہو جانا،قریب قریب بازار بن جانا،دیگر اقوام کا مسلم قوم پر غالب آ جانا،نماز کی امامت کے لیے لوگوں کا آپس میں جھگڑنا،مومن شخص کے خواب کا سچ ہونا،جھوٹ کا عام ہونا،لوگوں میں دھوکا دہی اور چالاکی کا عام ہونا،زلزلہ کی کثرت،عورتوں کی کثرت،مردوں کی قلت،عورتوں کے ساتھ کھلم کھلا فحش و بدکاری،قرآن پر اجرت کا لیا جانا،لوگوں میں موٹاپا زیادہ ہونا،ایسے لوگوں کا ہونا جو خود گواہی دیں گے لیکن دوسروں کی گواہی قبول نہیں کریں گے،ایسے لوگوں کا ہونا جو دوسروں کو کسی کام سے روکیں گے اور خود وہی کام کریں گے،طاقتور کا کمزور پر ظلم کرنا،اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کا نہ ہونا،رومیوں کی کثرت اور عربوں کی قلت ہونا،نئی نئی سواریوں کا آنا،زمین سے طرح طرح کے خزانے اور معدنیات کا نکلنا،زمین کا دھنسنا،ایسا فتنہ پیش آنا جس سے عربوں کا صفایا ہو جائے،لوگوں میں مال کی بہتات ہونا ،تہمت و بہتان کو جائز سمجھا جانے لگنا ،ایسا زمانہ آ جانا جس میں فسق و فجور یا عاجز رہنے میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا پڑے۔قرآن کو مزمار بنانا(یعنی قرآن کی تلاوت کرتے وقت خوب اوربتکلف غنائیت  اختیارکرنا)،قرآن کا دلوں اور مصاحف سے اٹھ جانا ، حج وعمرہ کا معطل ہوجانا، ذوالخلصہ نامی بت کے گرد قبیلہ دوس کی عورتوں کا رقص کرنا۔ وغیرہ ۔

 

+++++++++++++