ہفتہ، 12 مئی، 2012

خوارج کے عقائد


خوارج کے عقائد
          مذہب خوارج کی بنیادچندفاسدعقائدپرہے ‏،گرچہ ابتداءمیں انہوں نے اپنےزعم کے مطابق اس کی بنیادحق پررکھی تھی ،اوراس کابنیادی سبب   قرآن فہمی سے ناواقفیت اورسوءفہم تھا، شیخ الاسلام  ابن تیمیہ کےبقول :"خوارج جان بوجھ جھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں تھے یہاں تک کہاجاتاہے کہ ان کی حدیثیں صحیح ترین ہواکرتیں تھیں  لیکن یہ جہالت کی  وجہ ہے اپنی بدعت میں گمراہ ہوگئے ، اوران کی بدعت الحادوزندقیت کی بنیادپرنہیں تھی قرآن کریم کے فہم سے جہالت  وگمراہی کی بنیاد پر تھی "۔(منہاج السنہ النبویہ  :1/68) ۔
ذیل میں خوارج کے باطل عقائدمیں سے چند کاخلاصہ پیش کیاجارہاہے   :
1-  مرتکب کبیرہ کی تکفیر : خوارج کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والا مطلق کافرہوتاہے جو ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہےگا، کیونکہ ایمان ان کے نزدیک ایسی حقیقت ہے جس کی تقسیم وتجزء نہیں ہو سکتی ، لہذاجب اس کا کچھ حصہ زا‏ئل ہوگیاتو پوراکاپوراختم ہوگیا،شیخ الاسلام ابن تیمیہ کےبقول :"خوارج ، مرجئہ ،معتزلہ اورجہمیہ وغیرہ  جیسےفرقوں کاایمان سےمتعلق  اصلی نزاع یہ ہے کہ ان کے نزدیک ایمان ایک (منجمد) چیز ہے اگراس میں کچھ بھی زائل ہوگیا توپوراکا پورا بربادہوگيا،اوراگرتھوڑابھی ثابت ہوگیاتوپوراکاپوراثابت ہوگيا۔۔۔"
                                                                (مجموع فتاوی ابن تیمیہ :7/510)
2 - ان کے مخالف تمام مسلمان مشرک ہیں : خوارج میں سے ایک غالی فرقہ ازارقہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ  ان کے مخالف تمام مسلمان مشرک ہیں  ،جوان کی دعوت قبول نہیں کریگااوران کے مذہب کو نہیں اپنائےگااس کا خون ، اس کی عورت ،اس کی اولاد حلال ہیں ، ان لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کو کافراور ان کے قاتل  عبدالرحمن بن ملجم کو بہادرشہید گرداناہے (إسلام بلا مذاهب للدكتور مصطفى الشكعة : ص133)
3 -  جب لوگ واپس میں انصاف قائم کرسکتےہوں تو امام کی ضرورت باقی نہیں رہتی  : خارجی فرقہ نجدات کے بقول  جب لوگ واپس میں انصاف قائم کرسکتےہوں تو امام کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، اوراگروہ سمجھتےہیں کہ امام کے بغیر انصاف  نہیں ہوسکتا ہے اوروہ امام بنالیتےہیں تو یہ جائزہے ۔ چنانچہ ان کے نزدیک امام کا انتخاب شریعت کے واجب کرنےکی وجہ سے واجب نہیں ہے ، بلکہ جائزہے اور اگرواجب ہے تو مصلحت و ضرورت کے تقاضے کی بنیادپر۔( تاريخ المذاهب الإسلاميۃ  لأبي زهرة:      )
4 – خلافت کسی خاص قوم میں منحصرنہیں ہے  : یہ کہتے ہیں کہ خلافت کسی خاص قوم میں منحصرنہیں ہے بلکہ ہر مسلمان  جس کے اندرایمان ، علم اوراستقامت کی شرطیں پائی جائیں  اس کااہل ہے ، اگراس سے بیعت کی جاتی ہے ۔( إسلام بلا مذاهب للدكتور مصطفى الشكعة :  ص130) اسی بناپر ان لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ سے جدال کیا،ائمہ مسلمین کے خلاف بغاوت کی،خونریز ی کی،مسلمانو ں کاقتل عام کیا اور مسلمانوں  کی طاقت کو کمزورکرنےکی کوششیں کیں یہاں تک کہ  اعداء اسلام ہرچہارجانب سے مسلمانوں پر پل پڑے۔
ان کے اس  نظریہ سے صاف ظاہرہے کہ خلافت کے لئے قریشی نسب کےاشتراط کے   جمہورکے  اجماع کے خلاف ان  کا عقیدہ ہے ۔(مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين/أبو الحسن الأشعري:1/204،الفصل في الملل والأهواء والنحل /ابن حزم:4/89، فكر الخوارج والشيعة /د.الصلابي:ص55، 56)
5 –  ائمہ جورکے خلاف بغاوت  :   ظالم ، فاسق اورکمزورائمہ کے خلاف خروج و بغاوت  کے وجوب پرتمام خوارج کا اجماع ہے ، کہتے ہیں کہ مذکورہ ائمہ کے خلاف اگرچالیس افرادہوجاتےہیں تو ان کے اوپربغاوت اور ان کے خلاف خروج ان پر واجب  ہوجاتی ہے ، اوراس حدکو "حدالشراء" کانام دیتےہیں ، جس کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ انہوں نے اپنی جانوں کے بدلے جنت خریدلیاہے، ان کے نزدیک  ایسی  صورت میں چپ بیٹھناجائزنہیں ہے الا یہ کہ انکی تعداد تین سے کم ہو۔ (تيارات الفكرالإسلامي/د.محمدعمارة:ص22,مقالات الإسلاميين/الأشعري :1/32)
6 – ابوبکروعمررضی اللہ عنہما کی امامت کا اثبات  اورعثما ن وعلی رضی اللہ عنہما کی تکفیریہ لوگ ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما کی امامت وخلافت کو صحیح مانتے ہیں جبکہ عثمان وعلی رضی اللہ عنہماکی خلافت کو غیرصحیح  یہاں تک کہ ان لوگوں ان دونوں خلفاء کے ساتھ ساتھ  طلحہ،زبیر،معاویہ ،عمروبن العاص،ابوموسی اشعری،عبداللہ بن عباس  اور اصحاب جمل وصفین کی  تکفیرکی ہے ۔( عقيدة أهل السنۃوالجماعۃ في الصحابۃ الكرام/ د. ناصر علي عائض حسن الشيخ: /1157،فكر الخوارج والشيعة /د.الصلابي: ص61، مقالات الإسلاميين/ الأشعري: 1/204)
7 –  سنت کی حجیت کاانکار : قرآن کریم پرغایت درجہ تمسک کے باوجود ان کے یہاں سنت کی حجیت میں تمہل  پایا جاتاہے ، یہاں تک کہ ان کے نزدیک  ظاہرقرآن سے مخالفت  کی وجہ سے متواترروایتیں بھی ناقابل احتجاج ہیں ، یہ سنت کا اتناہی حصہ لیتےہیں جومجمل ہو اورقرآن نے اس کی تفسیرکی ہو ۔
                                         ( دیکھئے : مجموع فتاوی ابن تیمیہ :13/48،49) ۔
8 –  صفات باری تعالی میں معتزلہ کی موافقت  : صفات باری تعالی میں ان کا موقف کچھ حدتک معتزلہ سے ملتاجلتا ہے ، لہذامن جملہ یہ نفاۃ معطلہ میں سے ہیں  کیونکہ یہ  قیامت کے روزرؤیت باری تعالی کے منکرہیں نیزخلق قرآن کے قائل بھی ، بقول  امام ابوالحسن اشعری  :"خوارج تمام کے تمام خلق قرآن کےقائل ہیں "۔
                                                ( دیکھئے: مقالات  الاسلامیین :ص 203)

کوئی تبصرے نہیں: