اتوار، 14 اپریل، 2024

مسلمان سیویاں !

 

 مسلمان سیویاں  !


     سیوئی !  نام سن کر ہی لذت کا احساس ہو،لذیذو مقوی غذا  جو کبھی علاقائی ہواکر تی تھی اور اب تو بین الاقوامی حیثیت اختیار چکی ہے ،پہلے دادیوں ،نانیوں  کے ہاتھ سے بنتی تھی ،اور اسے پیرنے (سیوئی  بنانے والی  مشین چلانا ) کے لئے ہم جیسے گھرکےمستی خور لڑکوں  کو قربانی دینی پڑتی تھی ۔ اور اب  تو اس کی بڑی بڑی فیکٹریاں ہیں  ؟پہلے صرف خالص گیہوں کے آٹے کی بنتی تھی لیکن اب جدید تکنیک کے ساتھ ترقی کے اوج پر سوار ہوکر  مائدہ پر  اپنا قبضہ  جمالیاہے  ۔

گزرے وقتوں میں  مذہبی اعتبار سے سیویوں کی بڑی وقعت رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک  عجیب  سا سوال ہم شمالی ہندستان کے مسلمانوں  کے ذہن میں آتاتھا کہ ان سیویوں کی کچھ دینی حیثیت بھی ہے ؟ آخر اس کا جڑاؤ ہم مسلمانوں سے کیوں ہوگیا ؟ ۔ چلئے اس سوال کا جواب مکمل تو نہیں تھوڑا بہت  ڈھونڈھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

 میں یہاں رنگ برنگی  اور انواع اقسام کی  ساری سیویوں کی بات نہیں کروں گا  ، آج میری بات ان سیویوں سے متعلق ہے جنہوں  نےصدیوں سے  ہمارے ایک  دینی شعار کے نام کو اغواء  کرکے اس پراپنے نام کا سکہ جما لیاہے،  ٹھیک ویسے ہی جیسے یوگیوں اور بھوگیوں نے ہندستان میں اسلامی پہچان والے ناموں کو بدلنے  کی قسم کھارکھی ہے۔ ہوسکتاہے کچھ احباب کو میرے ان معنون سیویوں کی چاشنی پسند نہ آئے لیکن  اس کا  ایک خاص پس منظرہے ،اور میں نے یہ ٹھان رکھی ہے کہ انہیں اس دسترخوان پر لانا ہی پڑےگا ، ہم بھی تو اسے  بچپن سے کہتے ،سنتے اور  جھیلتے آرہے ہیں ۔

"عیدکا دن" یا "عید الفطر "کتنا پیارا نام ہے جو شریعت نے ہمیں دی ہے،یہاں سعودی عرب میں جوں ہی عیدکے چاند کا  دیدار ہوا "من العائدين" کی دعاء ہر زبان پر جاری ہوجاتی ہے ، جس سے ملو یا فون پر بات کرو علیک سلیک کے بعد یہی دعاء  کان سے ٹکراتی ہے۔ برا ہو ان سیویوں کا جنہوں نے  ایک وقت ہمارے کان کوعید الفطر کے  نام  سے  آشنائی  کو ترسادیاتھا،میں بات کررہاہوں شمالی ہندستان کے کچھ علاقوں کی جہاں بہت سارے لوگ بلکہ بعض علاقوں میں اکثر لوگ  عیدکا نام توجانتے ہی نہیں ان سے کہو عیدکے دن یہ کرنا ہے یا عید آنے والی ہے تو منہ تکتے رہ جاتےہیں ہاں جب  زبان پر "سیوئی  کادن"  آتاہے تو ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں ،شنیدکہ بہت سارے ڈراموں ، افسانوں اورناولوں میں یہ دن  اسی  نام سے جانا اور پہچانا جاتاہے ،بلکہ بعض مناسبات سے سیوئی  اور مسلمان کا ذکر لازم وملزوم  ہوتاہے ،جیسے سیوئی ہی مسلمانوں کا شعار اور ان  کی پہچان ہو، ٹھیک ویسے ہی جیسے : اگر مسلمان ہےتو گوشت  ضرور کھائےگا ۔ سچ پوچھئےتو گوشت ، کھجور اور سیویوں کی" مسلمانی" کردی گئی ہے ،  یہی نہیں ٹیلیویزن کے  بہت سارے  نشریات میں عید کی مناسبت سےخاص اسی ڈِش سے متعلق  پروگرام نشر کئے جاتے ہیں۔ جوں  جوں عید کا دن قریب ہوتاہے اس  کےلئے خصوصی طور پر پیالے چمچ اور دیگر اشیاء کی بے تحاشہ خرید وفروخت ہوتی ہے،رمضان اور عید میں بازار کی پچاس سے ستر فیصد رونق تو سیویوں سے ہی ہوتی ہے  ۔اس دن کا تصور سیویوں کے بغیر تو ناممکنات میں سے ہے ، اگر غلطی سے بھی  عید کے دن یا  اس کے ملحق ایام میں  زیارت وملاقات کے لئےآنے   والے کسی مہمان کو سیوئی  کے علاوہ کچھ اور  کھلادیاتو پھر آپ کی خیرنہیں ،بنیادی ڈش یہی ہے صرف اسی پر اکتفاء کیجئے تو  محبت ، دوستی اور رشتے داری میں چارچاند لگ جاتاہے اور اگر اس کے ساتھ کوئی دوسری ڈش پیش کیجئے تو یہ صرف مہمان نوازی کا لاحقہ ہے اور کچھ نہیں ۔

میں نے جب ہوش سنبھالا تو عید میں خوب سیویاں اڑائیں  اپنے گھر ، اِس گھر ،اُس گھر ،جہاں جاؤ رنگ برنگی ہاتھ کی، مشین کی، زردہ،فینی  ، دودھ والی   ، سادی اور لچھے دار ہر طرح کی سیویوں سے کام ودہن کو لذت آشنا کیا ،حالانکہ تعلیم یافتہ گھرانہ ہونے کی وجہ سے اپنے  گھر میں "سیوئی کا دن" والا نام ممنوع تھا، لیکن علاقے اور گاؤں اور معاشرے میں کس کو کون سمجھائے؟ ایک تو ان کی زبان پر "عیدکا دن "چڑھتاہی نہیں تھا اور دوسرے وہ  زچ ہوکر یہی کہتے :نیا نیا مولوی بنا ہےنا ۔۔۔۔۔  یہ آباء واجداد کی تقلید کا کرشمہ ہے جس نے انبیاء کرام علیھم السلام تک  کی  دعوت الی اللہ اور کلمۂ  توحید کو روکنےکی  ہمیشہ اور بھرپور کوششیں کی ۔ اہل تقلید جب اپنے جمود میں کتاب وسنت اور منہج سلف کو  ٹھکرائیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے،تقلید کےجمود کا شیوہ ہی ہزاروں  سال سے یہی رہاہے، اور"بازو والوں "کو  تو ویسے ہی "نذرونیاز" اور     " فاتحہ" کے ساتھ ساتھ"بدعت حسنہ " اور "ممانعت کہاں ہے "کا چسکا ہمیشہ  بھرپور اور بہت زورسے  لگا رہتا ہے۔

میں جب  تھوڑا بڑا ہوا اور عیدیں نانیہال میں گزرنے لگیں تو  سیویوں کے خلاف مہم چلانے والے نانا اور ماموں کےیہاںسیویو ں کو چھوڑکر انواع اقسام  کے حلویات ملتے تھے ، شب براءت کے کھانوں اور ان میں خصوصی  دعوتوں  ، ہر طرح کی منشیات ومخدرات، بیٹیوں بہنوں کی وراثت سے محرومی   اور فرض نمازوں کے بعد اجتماعی رسمی دعاء   وغیرہ کے خاتمے کے ساتھ ساتھ  سیویوں کے طلسم کو توڑنے کےلئے پورے گاؤں میں یہ ایک سلفی گھرانہ سینہ سپر تھا ، ان کو ہر طرح کی بدعات کےساتھ سیویوں کی  اس بدعت سے بھی نفرت تھی جس نے نام سے لے کھان پان تک میں  لوگوں کے اذہان وقلوب  پر  اپنا تسلط  جما رکھا تھا ، عید کے دن لوگ آتے اور ان کے گھروں سے سیویوں کو ترستے ہوئے انواع اقسام کی مٹھائیاں اور حلوے کھاکر جاتے ، بعد میں کیا کہتے تھے ہمیں پتہ نہیں، کچھ نہ کچھ تو کہتے ہی ہوں گے ۔ واللہ اعلم  ۔

ایک بار ہمارے ایک قریبی کو کچھ مجبوری پیش آئی عیدکے قریب  میرے بڑے بھائی کےپاس آکر کہنےلگے کہ دیکھئے نہ سیوئی تک خریدنے کےلئے پیسے نہیں ہیں!!!  ،یہ  جملہ اب  تک گھرمیں  لطیفہ  بنا رہاہے کہ :  دیکھئے  ان کو  گھر میں  اناج اور کپڑے کی فکر نہیں ہے، اور فکر ہے تو صرف عید کی سیوئی  کی !!!! ۔

کئی سالوں سے ہم لوگ گاؤں میں نہیں رہتے ،ایک بار  بچوں نے عید گاؤں میں ہی منانے کا مَن بنایا ، نمازعید کےبعد آس پڑوس سے سیویوں کے پیالے آنے شروع ہوگئے ، کسے منع کرتے گھر میں کھانے والے بھی زیادہ نہیں تھے ،اس لئے ان پیالوں کو آنے والے مہمانوں کے سامنے رکھنا شروع کردیا کیوں کہ جو بھی آتا کہتا : سیوئی کھلاؤ  ! ایک صاحب آئے اور کہنے لگے : سیوئی کھلاؤ! میں نے کہا: سیوئی نہیں کچھ  اور کھلاؤں گا ، عجیب نگاہوں سے دیکھنے لگے ،لگتاتھا کہ  اٹھ کر چلے نہ جائیں ، پھر چند کھجوریں اور گھر کے بنے حلویات ان کےسامنےرکھ دیا ، واضح طور پر ان کے چہرے سے سیوئی  کی طلب محسوس کی جاسکتی تھی ، پھر جب تک سیوئی  کا پیالہ  ان کے سامنے نہیں آیا انہیں  آسودگی نہیں ہوئی ۔

استاد محترم اور ہمارے مربی اور چھوٹے ماموں جان  شیخ احمد مجتبی مدنی حفظہ اللہ نےچند دلچسپ واقعات اور لطیفے  بیان فرمائے ہیں جن کی وجہ سے ہی انہوں نے اپنےگاؤں اور علاقے میں سیویوں کے خلاف مہم چھیڑی تھی وہ واقعات کچھ اس طرح ہیں  :

ان کی ایک پڑوسن نے ان سے کہا کہ لگتاہے کہ اس سال ہمارا روزہ قبول نہیں ہوگا تو انہوں  نے پوچھا کہ کیوں ؟ تو محترمہ نے فرمایا کہ سیویاں پیرنے (بنانے) کی مشین مل ہی نہیں رہی ہے۔

اور ایک  واقعہ  یہ ہواکہ عید گاہ سے لگے ہوئے ایک گھر والے کی عید نماز اس لیے چھوٹ گئی  کہ وہ سیویوں کے لیے دودھ تلاش کرنے کے چکر میں بہت دور نکل گیا تھا۔واپس آتے آتے نماز عید ختم ھوگئی تھی۔

شیخ نے ایک صاحب کو  اپنےیہاں  آنے کی دعوت دی تو فرمایا سیوئی کھلائیں گے تب آپ کےیہاں آونگا۔

 یہ بتاتاچلوں کہ تمام علاقوں میں عمومی طور پر عید کے دن نماز کے بعد لوگ گروہ بنا کر گاؤں میں لوگوں کے گھروں میں  ایک ایک کرکے جاتےہیں اور مقصد عید مِلَن کے ساتھ ساتھ سیوئی  کھانا ہی ہوتاہے ،  کچھ  بچے رشتے داروں کے یہاں عیدی لینے جاتے ہیں ، اس زیارت رائجہ  خاصہ وعامہ میں بچے ،بوڑھے ،جوان ،مرد عورتیں سب شامل ہوتےہیں، اور سب کا اپنے ہم مزاج احباب  کےساتھ الگ الگ گروپ ہوتاہے۔اور تو اور ہماری بستی میں پڑوس کےہندو حق سے سیوئی مانگتے ہیں  ،کسی وجہ  سے اگر  نہیں دیا یا  دینا بھول جا‏ؤ تو ناراض ہوجاتےہیں ، اس دن انہیں بھی سیوئی کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہئے ، کمال تو یہ ہے کہ سیوئی کے ساتھ کم سے کم شکر ضرور لیتےہیں ورنہ اس کے  ساتھ ڈرائی فروٹس وغیرہ بھی چاہئے، یہ بغیر پکائی ہوئی سیویوں کی بات ہے ورنہ عید کی نماز کے بعد وہ اپنے بچوں کو لےکر انہیں  دودھ والی سیوئی  کھلانے حاضر ہوجاتےہیں ، یہ اس وقت  بہت ہوتاتھا جب ہندو مسلم میں موجودہ نفرت بھرا ماحول نہیں تھا ، پھربھی  دیہی علاقوں  میں اس طرح کی محبت اب بھی   کچھ کچھ باقی ہے ۔

سیویوں سے متعلق  بعض علاقوں میں ایک نہایت ہی غلط عقیدہ پھیلا ہوا ہے کہ جس سال  کسی گھر میں کوئی فوت ہو تو ان کے یہاں سیویاں نہیں بنائی جاتیں اس عقیدے کے ساتھ کہ اگر  اس سال سیویاں بنائی گئیں تو سیویوں کی لڑیوں کی طرح گھریا خاندان میں موتوں کا سلسلہ شروع ہوجائےگا ۔جس سال میری والدہ ماجدہ  رحمھا اللہ رحمۃ واسعۃ کی وفات ہوئی اسی سال گاؤں میں بھی بعض گھرانوں میں  موت ہوئی تھی اور کچھ دنوں کے بعد عید الفطرآگئی، رمضان میں جب میں جامعہ سے گھر آیاتو پتہ چلا کہ فلاں فلاں گھر والے اس سال اپنے یہاں سیویاں نہیں بنارہے ہیں کہ کہیں  ان کے یہاں موتوں کا سلسلہ نہ شروع ہوجائے ،البتہ کچھ لوگ اس انتظار میں ہیں کہ ہمارےیہاں سیویاں بنتی ہیں یا نہیں  ؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ پڑھا لکھا گھرانہ ہے،اگر ان کے یہاں بنتی ہیں تو ہم بھی بنائیں گے ، پھر میں نے حالات کو دیکھتے ہوئے گھر میں سختی سے تاکید کی کہ  اورکبھی   سیویاں بنیں یا نہ بنیں لیکن اس سال ان کے علم میں لاکر ضرور بنائی جائیں تاکہ ان کے خرافاتی عقائد کو بدلنے میں  کچھ مدد مل سکے ۔واضح رہے کہ میرے گھر میں چونکہ سب لوگ  سیویوں کے بڑےشوقین ہیں اس لئے پہلے پورا رمضان اور  اب تو الا ماشاء اللہ   پورے سال   اس کا استعمال ہوتا ہی رہتاہے۔

سیوئی بہترین ، مقوی  اور لذیذ کھانوں میں سے  ایک ہے، اس کی  مختلف قسمیں  رب العزت کی بہترین  نعمتوں  کا مظہر ہیں  ، اس لئے ایک صحت مند زندگی کے لئے دیگر غذاؤں کی طرح اس کی بھی ضرورت ہے، وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ دیگر اشیاء کی طرح  اس کے اندربھی  تنوع پیدا ہوتاگیاہے، آپ بازار میں چلےجائیں اس کی دسیوں قسمیں ملیں گی ، اب تو تقریبا ہر  موسم میں مل جاتی ہیں ورنہ تیس پینتیس سال قبل تو صرف عید کے موقع سے ہی اس کا دیدار ہوتاتھا ،بہرحال علماء ودعاۃ اور طلباء علوم دینیہ کی کوششوں  اور ہر موسم میں اس کی موجودگی نے اس کی رسمیات وبدعات  کے اثرات کو ختم کرنے میں بڑا کردارکیاہے فالحمدللہ علی ذلک ۔ اس لئے آپ سب سیویوں کا خوب مزہ لیں اور سال بھرلیں ہاں ذرا  شوگر  والے احتیاط سے استعمال کریں ، یا  تو پھیکی یا پھر اسٹفیانا (Steviana ) سویٹنر(sweetener) ،کم کیلوریز (Calories ) اور شوگر فری والے اشیاء کے ساتھ  لیں ۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصرہو۔

(عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی /سعودی عرب )

29/9/1445 ھ/8/4/2024 ء

کوئی تبصرے نہیں: