اتوار، 14 اپریل، 2024

میں اور میرا فطرانہ

                 میں اور میرا  فطرانہ

                                        (عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی /سعودی عرب)                                    

      صدقۃ الفطر جسے ہمارے علاقےکی عام زبان میں فطرہ یا فطرانہ کہاجاتاہے ، ہے تو نہایت ہی عظیم اور مہتم بالشان  عبادت جو اپنے اندر مختلف شرعی اور سماجی مقاصد رکھتاہے، خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طھرۃ  للصائم اور طعمۃ للمساکین کہہ کر اس کے بڑے مقاصد کی وضاحت کردی ہے ۔ پھر اس کے اخراج اور تقسیم  میں حکمت و اجتماعیت اور تعاون وجذبات کا اپنا ایک الگ مقام اور فلسفہ ہے  ، اس کے باوجود بسا اوقات بلکہ کئی سالوں سے مسلسل اختلاف  ونظریات کا مشق ستم بنتا آرہاہے، میں کئی ماہ سے سوچ رہاتھا کہ اس پر کچھ لکھوں ،حالانکہ اس کے احکام اور فضائل سے متعلق  ایک متوسط حجم کا مضمون  چند سالوں پہلے قلمبند کرچکاہوں جو مختلف سوشل سائٹس پر اورمجلات میں منشور ومطبوع ہے ۔لیکن آج میں اس سے متعلق اپنی زندگی کا تجربہ بیان کرنا چاہتاہو ں تاکہ قاری کو  ان کی اپنی زندگی میں اس کے ساتھ  کے سفر کی یاد دلا سکوں اور شاید اس سے اصحاب فکرونظر کونقطئہ اجتہاد مل سکے ۔ والله هو الهادي إلى سواءالسبيل ۔

میری پیدائش ایک ہندو اکثریت بستی میں ہوئی ہے،   جہاں ہندوانہ رسم ورواج نے بہت سارے دینی شعار کا بنٹا دھار کررکھاتھا ، کہنے کو تو اس بستی میں کچھ مسلمان بستے تھے لیکن دین کے نام پر زیروبٹا سناٹاتھا ،البتہ والدہ ماجدہ  رحمہا اللہ ایک بڑے سلفی گھرانے کی پروردہ تھیں اس لئے گھر خاندان میں  دینی   مزاج کو رواج دینے کی بڑی کوششیں کیں ۔ ان سے پہلے ہماری دادی جان رحمھا اللہ نے بھی جو اہلحدیث خاندان سے تھیں  بہت سارے شرکیہ  رسوم واعمال  کو ختم کرکے دین  وشریعت کے پود لگانے میں سنت ابراہیمی کو زندہ کیا جس کا بیان ایک  الگ  تحریر کا متقاضی ہے ۔

میں نے جب سے کچھ سوچنا اور سمجھنا شروع کیا یا یہ کہہ لیں کہ کچھ سدھ بُدھ ہوئی اس وقت  پایا کہ میری بستی میں کوئی مسجد نہیں تھی اور نہ ہی جمعہ وجماعت کا کوئی تصور تھا ، البتہ عیدین کی نماز جماعت کے ساتھ گاؤں سے باہرکسی ہندو کے کھلیان میں  ادا کی جاتی تھی  ،اور اس کی ذمہ داری  ہمارے بڑے والد صاحب نبھاتےتھے جو مسلکا بریلوی تھے ،یہی وجہ تھی کہ  والدہ ماجدہ اور ان کی اولاد کوچھوڑ کر سارا خاندان اور گاؤں کے سارے افراد  انہیں کی پیروی کرتےہوئے مختلف شرکیہ عقائد اور دین وشریعت میں تعامل واتباع میں حددرجہ تساہل کے شکار تھے ،ایسے حالات میں میں نے دیکھا کہ والد ہ رحمھا اللہ عیدکی نماز سے قبل یا ایک روز قبل ہی فطرانہ  کا غلہ  نکال کر رکھ دیتیں، (مجھے یہ یاد نہیں کہ والد صاحب اور بڑے بھائی  الگ سے کوئی نقدی بطور فطرانہ نکالتےتھے یا نہیں )  ۔   اور جاہلانہ رسم ورواج کا اتنا زیادہ غلبہ تھا کہ کوئی عید سے قبل لینے نہیں آتا اور جہاں تک مجھے یاد ہے عید کی نماز کے بعد کئی لوگ  جن میں زیادہ ترعورتیں ہوتیں  آتے اور امی جان کے ہاتھوں سے لے کرجاتے ، اور باقی گاؤں کے افراد جب عیدگاہ میں نماز عید کے لئے اکٹھے ہوتے توفطرانہ کتنا ہوا پوچھ کر نقد کی شکل میں  کسی ذمہ دار کو ادا کرتے اور پھراسے عیدبعد آنے والےغریبوں اور مکاتب ومدارس کےلئے چندہ کرنے والوں  کے درمیان تقسیم کردیا جاتا۔ ہم چونکہ چھوٹے تھے اس لئے ہمیں  اس کی فکر ہی نہیں ہوتی تھی کہ ہمارا فطرانہ کون اور کتنا اور کیا ادا کررہاہے ،اور ظاہر سی بات ہے کہ والدین ہی نکالتےہوں گے ۔

پھر وہ وقت آیا کہ دینی تعلیم کے لئے والدین نے نانا جان مولانا نذیرعالم رحمہ اللہ  (شاگردرشید مولانا منیر خان بنارسی رحمہ اللہ   اور والد ماجد شیخ احمد مجتبی مدنی اور مولانا محمد مصطفی  کمال شمسی حفظھما اللہ ) کے پاس بھیج دیا اور پھر ایسا ہوتاکہ کبھی عید ان کےپاس گزرتی اور کبھی والدین کے پاس چلا جاتالیکن افسوس کے مجھے اس وقت بھی اس کا شعور نہیں تھا کہ میرا فطرانہ کون ، کیسے ،کتنا اور کہاں نکالتاہے ، لیکن ظاہر سی بات ہے کہ یاتو نانا جان ،یا  بڑے ماموں جان  یا پھر والدین ہی نکالتے ہوں گے ، پھر نانا اور ماموں نے چندسالوں کے بعد مدرسہ سلفیہ منظر العلوم بلیرامپور مرجدوا مغربی چمپارن میں داخلہ کرادیا اور حسب سابق کبھی عید نانیہال میں اور کبھی گھر پر والدین کے پاس گزرتی اورمجھے  میرے فطرانےسے لاعلمی  ولاشعوری  کا وہی حال رہا ، لیکن اتنا ضرورہے کہ توحید و سنت کی اہمیت اور شرک کی قباحت کا شعور آنے لگا تھا اور بڑے والد جو بریلوی تھے ان کی دین وشریعت کے معاملے میں  مخالفت شروع ہوگئی تھی ، پھرجامعہ سلفیہ بنارس کا دور آیا اور فراغت کے بعدتعلیم وتعلم سےجڑا،اور چونکہ پورے شمالی ہندوستان میں احناف کے زیر اثر فطرانہ میں  نقدی نکالے جانے  کےجوازکا فتوی ہےاور ہمیشہ سے یہی معمول بہ   رہاہے، بلکہ بڑے بڑے علماء اہلحدیث بھی  اس کے قائل رہے ہیں اس لئے غلہ کی جگہ پر  نقدی ہی مناسب اور انسب سمجھا جاتاتھا چنانچہ  سالوں تک  ہمارا عمل بھی یہی رہا۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ میری بستی میں  اس وقت  تک دوتین مسجدیں بن گئیں تھیں اور دین کا تھوڑا مزاج پیدا ہوگیاتھا لیکن فطرانے کا حال ومآل  وہی رہا ۔ بار بار سمجھانے اورنصیحت کے بعد بھی آج تک  یہی حالت ہے کہ عید کی نماز سے قبل   جو اب مسجد میں ہوتی ہے آکر لوگ پوچھتے ہیں کہ مولانا صاحب فطرانہ کتنا ہے ؟،جب ان کو سمجھایا جاتاہے تو ان میں سےبعض کہتے ہیں کہ میں نے کچھ فطرانہ اپنے فلاں محتاج  رشتے دار یا تعلق والے کو ایک دوروزپہلے ہی بھیج دیاہے اور کنفرم ہونے کےبعدکہ کتنا نکلےگا   باقی یہاں ادا کردوں گا  ۔   

 یوں تو کئی سالوں سے ہم لوگ گاؤں میں نہیں رہتے ہیں اور کبھی اتفاق سے وہاں جانا پڑجائےتو عیدسے قبل ایک تو کوئی فطرانہ لینے کوتیار نہیں ہوتا اور نہ کوئی آتاہے ،الا ماشاء اللہ  البتہ عیدکی نماز کے بعد بہت سارے ملتے ہیں جو غلہ تو لینا ہی نہیں چاہتےسب کونقدی چاہئےجن میں کچھ بیٹی ،بہن  کی شادی ،کچھ فقروفاقہ اور کچھ مدرسہ کے نام پرچندہ کا حوالہ دیتےہیں ۔ یہ ہمارے ہندستانی ماحول کا ایک تاریک پہلو ہے ،مصیبت یہ ہے کہ بھکاری کو کم پیسے دو تو ناک بھؤوں چڑھاتاہے اور اس کا وضع قطع اور رویہ دیکھو توزیادہ دینے کا مَن نہیں کرتا،اور تو اور  بسا اوقات یہ بھی دیکھنے کو ملتاہے کہ بعض  صدقات وخیرات کا مستحق اگر اسے بتادیاجائے کہ یہ صدقہ اور زکاۃ کا مال ہے تو  عجیب طرح سے یاتو انکار کردیتاہے یا اس کےرویہ میں واضح تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے ، اور لطیفہ تویہ ہے کہ اگر اسی پیسے کو مدد کہہ کردیا جائے تو بخوشی قبول کرلیتےہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے علاقےمیں عام صدقات وخیرات کے ساتھ ساتھ  فطرانہ بھی   عمومی طور پر ظلم کا شکار ہوتارہاہے ۔

خیر وقت گزرتا گیا اور اللہ کے فضل سے سعودی عرب میں دعوتی کام سے جڑگیا لیکن میرے فطرانے کا ستم یہاں بھی جاری رہا،بیوی بچے چونکہ ہندستان میں بھائی کی نگرانی میں رہتے تھے تو جوبھی ان کے  فطرانے کی صورت ہوتی وہی وکیل ہوتے اور اپنے حساب  سے تقسیم کرتے ، البتہ میرا معاملہ دیگرگوں ہوجاتا۔سعودی عرب میں  پہلا سال تھا سوچا کہ اپنا فطرانہ سعودی عرب میں ہی نکالتاہوں ، پھر سوچنے لگا کہ اس کی صورت کیاہوگی؟ ،یہاں کے علماء متبعین  کافتوی نقدی کے عدم جواز کاہے اور ہم جس علاقےمیں ہیں  وہاں کوئی حقیقی محتاج عید سے قبل دیکھنے کو نہیں ملتا جو غلہ لے سکے،یہ مسئلہ صرف ہم کامگاروں کے ساتھ ہے ،کیونکہ سعودی یہاں کے باشندے ہیں انہیں معلوم ہوتاہے کہ کون  کہاں ہے اور کتنا ضرورت مند ہے ؟،انتظار کرتارہ گیا کہ کوئی ملے تو فطرانے کی کوئی ترتیب کرتاہوں لیکن کوئی ملا ہی نہیں ، جواجانب تھے سب کمانے کھانے والے ایسی صورت میں اگر غلہ نکالتاتو پھر اسےبعد میں خود ہی کھانا پڑتایا پھر کھانا بنا کر ہمارے پروگرام میں آنے والوں کو کھلانا پڑتا ، (سعودی عرب میں نسبتابڑےشہروں میں شاید حالات کچھ اور ہیں جہاں محتاج آسانی مل جاتے ہیں ،لیکن چھوٹے قصبوں کاحال کچھ اور ہے جہاں سعودیوں سے زیاد اجنبی کام گار نظرآتےہیں) اسی ادھیڑبن میں عیدکی نمازکا وقت ہوگیا تو عید میں نکلنے سے قبل نقدی نکال کرجیب میں رکھ لیا کہ شاید کوئی مل جائے اور اسے دے کر فرض کی ادائیگی کرلوں گا  ، ابتدائے رمضان میں سڑکوں پر کچھ سیاہ فام عورتیں نظر آئی تھیں ، سوچا وہ مل جائیں تو انہیں کو دے دوں لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! کوئی ملا نہیں  اور شیخ ریال  صاحب  جیب میں ہی آرام سے  پڑے  صدقات وخیرات کے کسی مستحق کا   انتظار کرتےرہ گئے  ۔ اسی افسوس میں رہا  کہ میرا فطرانہ کس ظلم کا شکار ہورہاہے، اب سوائے ہندوستان بھیجنے کے یا  بعد میں اگر کوئی محتاج یہی مل جائے تو اسے دینے کے کوئی چارہ نہیں۔

 ایک بار عیدکی نمازکے بعد کچھ دوست و احباب عید گاہ میں ملے ہمیں اپنی رہائش پرلےگئے ، عید کا دن ہونے کی وجہ سے  ان کےپاس ڈھیروں افراد آئے ہوئے تھے جو سب کے سب عمال  اور ورکشاپ  والے تھے  میں نے ان کے سامنے فطرانے کا تذکرہ کیا لیکن یہ سن کر افسوس اورتعجب بھی ہوا کہ ایک آدھ کو چھوڑکر(جنہوں نے کہاکہ انڈیامیں گھرپر اپنی طرف سے نکالنے کو بول دیاہے)  سب نے کہاکہ ہم تو فطرانہ نکالتےہی نہیں کیوں کہ ہمیں یہاں پتہ ہی نہیں چلتاکہ کتنا نکالنا ہے اور کسے دینا ہے ،یہاں ہمیں کوئی لینے والابھی تو نہیں ملتایہ  اور یہ حق ہے کہ بہت سارے لوگ جودور دراز مزرعوں یا بکریوں   میں رہتے ہیں جو ہفتوں ، مہینوں کسی سے ملنے کو ترس جاتے ہیں،ایسے حالات میں  یہ سن کرمیں یہ سوچنے لگاکہ اس پرابلم کا صرف میں ہی شکار نہیں ہوں بلکہ ایک معتدبہ تعداد ہمارے سامنے ہی موجود  ہے، اور نہ جانے کتنے اور ہوں ۔ پھر جب میں نے ان کے سامنے  صدقۃ الفطر کی اہمیت وفضیلت اور ضرورت بیان کی تو  سب نے نقدی نکال کر میرے ہاتھ  پر رکھ دیا کہ جہالت ومجبوری  میں  ہم نے فطرانہ نہیں نکالا ہے، اب یہ  پیسے ہیں  آپ  ہی کوئی ترکیب نکالئے۔ پھر میں نے ان کو تاکید کی کہ چلوجوہوا سوہوا  اب  اپنی اس نادانی سے توبہ کرو  اور ہم سب عہد کریں  کہ اگلے سال سے اپنا فطرانہ  اپنے بال بچوں اور ماں باپ کےساتھ اپنے ملک  میں نکلوائیں گے ۔اس کے بعد میں نے بھی گھر پر ہر عیدسے پہلے تاکید کرنی شروع کردی کہ  اپنے ساتھ میرا بھی نکالا کریں اور مستحق تک پہونچادیا کریں ۔

ایک سال عید کی شام کو بازار میں جانے کا اتفاق ہوا  دیکھا کچھ  مزدور قسم کے اجنبی(جن کی تعداد  تین چار کی رہی ہوگی )   ایک بڑے  کِرانہ کی دکان پر جسے یہاں بقالہ کہاجاتاہے کھڑے ہیں  اور ڈھیروں سعودی آرہےہیں اور بقالہ سے چاول کی بوریا خرید کر ان میں سے کسی کو دے کر چلے جارہےہیں ، یہ مزدور ان چاولوں کی بوریوں کو وہی پر ایک جانب اکٹھا کر رہے ہیں اور پھر انہیں اسی بقالہ میں بیچ دے رہے ہیں شاید ایک دو بوری وہ اپنے روم پر لےگئے ہوں گے ، یہ منظر دیکھ کر عجیب سا لگا ،سوچتا ہوں کہ وہ اس کے کتنے مستحق تھے کیا زکاۃ فطرکی اس طرح ادائیگی  مناسب ہے ؟، یہ   ایک فریضہ کی ادائیگی کی صرف  رسم پوری کرنی  نہیں ہے ؟ کیا یہاں ان لوگوں کی بات صحیح نہیں ہوسکتی جو انہیں حالات کے پیش نظر نقدی ادائیگی کی حکمت ، فوائد اور ضرورت کی بات کرتے ہیں ؟ ضروری نہیں کہ  ہر ایک کا رجحان اسی جانب ہو ،لیکن اس طرح کے حالات آدمی کو کچھ سوچنے پر مجبور ضرور کرتے ہیں ۔

ایک بار توحد ہی ہوگئی ایک دوست دوکاندار کی ملابس رجالی (مردوں کےاستعمال کی اشیاء ) کی دکان  پر  عید سے ایک روز قبل گیا ، (اس وقت سعودی عرب میں  بالکل نیا نیا تھا اور اب تک لباس ِہند سے باہر نہیں  نکلا تھا۔)،اسی دوران ایک آدمی آیا کچھ سامان خریدا اور اسے پیسے دے کر کچھ کہتے ہوئے چلاگیا البتہ میں نے اتنا سنا  کہ وہ کہہ رہاہے: آج شام کو ہی  دےدینا  !  استفسار پر اس دوست نے  ہنستے ہوئے کہاکہ اس نے کچھ پیسے تمہارے لئے دئے ہیں اورتاکید کرکےگیا ہے کہ اس قیمت  کے کچھ سامان کپڑے وغیرہ  آج شام کو ہی تم کو دےدوں  اور میں جانتاہوں کہ یہ فطرانے کاہے اوریہ تمہارے لئے جائز نہیں ہے، بہتر ہے کہ اس مبلغ کو اپنے ملک میں کسی محتاج کو دیدو،پھر ہم نے ایسا ہی کیا۔

پھر سوچتاہوں کہ میرے ساتھ فطرانے کایہ کیسا کھیل رہاہے خود نکالتاہوں تو وقت پر کوئی لینے والا نہیں ملتا، اور کوئی دوسرا زبردستی دے جاتاہے اور الحمد للہ  میں اس کا مستحق نہیں ، اس بے بسی اورغصے کے امتزاج کو کیا نام دوں ؟ فاعتبروا ياأولي الأبصار!!!!۔

 ایک بڑا مسئلہ میرے سامنے  نقدی اورغلہ کا تھا اورچونکہ ہمارے علاقے میں نناوے فیصدلوگ نقدی کے ہی قائل وفاعل رہے ہیں اس لئےزمانے تک  وہی چلتارہا، ماحول کا ستم ہےکہ عید سے قبل الا ماشاء اللہ  سارے محتاجین کو نقدی چاہئے، کہتے ہیں غلہ لے کرکیاکروں گا  پیسوں کی ضرورت ہے  ؟ اگر  غلہ لیا تو اسے اونے پونے داموں میں بیچنا پڑےگا!۔(اورجیساکہ ہمارے یہاں معروف ہےکہ جب آپ کوئی چیز خریدیں گے تو پوری قیمت دینی پڑےگی اور اگر وہی چیز یا اسی طرح کی کوئی دوسری چیز کسی دکان میں بیچنے جائیں گے تو تقریبا آدھی قیمت ملےگی ۔)

  ایسے ماحول میں  اگر غلہ نکال  دیا تو پھر عید سے قبل تقسیم نہایت ہی مشکل ہوتاہے اس کے لئے لمبا انتظار کرنا پڑتاہے کہ شاید کوئی مل جائے۔ یہ کوئی خیالی باتیں نہیں ہیں  ، ان سے بارہا واسطہ پڑتا رہاہے ۔حالانکہ یہ نہیں کہاجاسکتاکہ ہر جگہ حالات ایسے ہی ہوں ۔ہاں جن علاقوں اور بستیوں میں جہاں اس کےلئے باضابطہ انتظام   ہو یا پھر بیت المال ہو اور جمع وتقسیم کا نظم  ہو جہاں سے ایسے امور کو ایمانداری اورمکمل ذمہ داری کے ساتھ انجام دیاجاتاہو جو کہ شریعت میں مطلوب بھی ہے تو پھر اس سے بہتر کچھ اور نہیں ہوسکتا، لیکن بہت سارے علاقے جہاں مسلمان کم ہیں یا غیر منظم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں  اس طرح کا انتظام  محال ہوتاہے ۔

کہتے ہیں کہ کوشش کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی ، ابتداء سے ہی نقدی کے جوازکی طرف رجحان کے باوجود  کوشش رہی کہ پہلے سنت کے مطابق غلہ  نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ فطرانے میں غلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور نقدی میں جوازکا رجحان اس میں علماء کے مابین اختلاف کی وجہ سے ہی ہے، تو کیوں نہ پہلے غیر اختلافی صورت کواختیار کرنے کی کوشش کرلی  جائے ، چنانچہ جب بچے دہلی میں آکر رہنے لگے تومیں نے اہلیہ کو  تاکید کی کہ کسی محتاج کو  تلاش کریں  اور عید سے ایک دوروز قبل  اس تک پہونچانے کی کوشش کریں ، چنانچہ وہ اپنی ایک سہیلی کےتعاون  سے کچھ محتاج گھرانے کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئیں اور اب بحمد اللہ ہر سال  غلہ خرید کر ان میں سے کسی  کے گھرپہنچوا دیتی ہیں ، اور چونکہ مجھے اپنے مقرعمل کے حالات کی وجہ سے یہاں فطرانہ نکالنے میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے اس لئے بچوں کے ساتھ ہی نکلوا دیتاہوں ۔فللہ الحمد۔  

 ایک اہم مسئلہ میرے سامنے یہ آیا کہ سعودی عرب میں رہتے ہوئے اگر فطرانہ ہندستان میں نکلواتے ہیں توکس عید کا اعتبار کیا جائے ؟ دنیا میں تو کئی عیدیں ہیں،کیونکہ چاند ماموں تو ایک ساتھ سب کے یہاں نکلتے ہیں نہیں اور ہماری ضد ہے کہ ہم عید تبھی منائیں گے جب وہ خودہمارے گھر آکر  ہمیں عیدی دیں  ۔سعودی والوں پر زیادہ مہربان ہیں تو پہلے انہیں کو ترجیح دیتےہیں اور ہندستان والوں سے ایک دن صبر کراتےہیں ۔اس سلسلے میں بارہا لوگوں کا استفسار بھی آیاہے، اور  ظاہر سی بات ہے کہ فطرانے کے وقت کے سلسلے میں عیدگاہ کےلئے نکلنے کا اعتبار صاحب فطرانہ کا ہی ہوگا نہ کہ جہاں نکالا جارہاہے وہاں کا ،لہذا گھروالے دوچار روز قبل بھی نکال دیں تو کوئی حرج نہیں بلکہ یہی انسب  اور احوط ہے ۔

اللہ تعالی آسانی فرمائے فطرانے کو قبول فرمائے  اور ہمارے تمام نیک اعمال کو رفع درجات و مغفرت کاذریعہ اورگناہوں کے لئے کفارہ بنائے ۔آمین یارب العالمین  وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم ۔

   24/9/1445ھ

 

***************

کوئی تبصرے نہیں: