ایک
رافضی سے امام جعفرصادق کا مناظرہ
ترجمہ و پیشکش
عبدالعلیم
بن عبدالحفیظ سلفی
امام جعفر الصادق بن محمد بن علی زین
العابدین بن حسین بن علی رحمھم اللہ ورضی عنمھم
ائمئہ اسلام میں سے ایک ہیں علم ،حلم، تدین ، تزکیہ اورتقوی وپرہیزگاری میں ممتازتھے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی آل واولاد اور نسل میں ہونی چاہئے - قول
وفعل ہر اعتبار سے صدق وصفا میں ممتاز تھے اسی وجہ سے ان کا لقب الصادق پڑگیا ،
اور دنیا انہیں جعفرالصادق کے نام سےجاننے لگی ۔
ان کی والدہ اور نانی دونوں ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کی آل میں سےتھیں گویا
دادیہالی رشتےسے علی بن ابی طالب اور
نانیہالی رشتےسے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہم
کی آل سے ہیں ۔ مدینہ منورہ میں ان کی ولادت سنہ 80 ہجری اور وفات سنہ 148 ہجری میں 68 سال کی عمر
میں ہوئی ۔
امام
جعفر صادق رحمہ اللہ علم وتدین کے امتیاز کے ساتھ حاضر جوابی میں بھی معروف تھے ، آپ کی
حاضرجوابی کے بہت سارے واقعات آپ سے متعلق کتب میں مذکورہیں انہیں میں سے ایک زیرنظر مناظرہ ہے جو ایک رافضی کے سوالات کے جواب میں واقع ہواہے
، اس مناظرہ سے جہاں آپ کی حاضرجوابی اور
علم وتقوی کا پتاچلتاہے وہی خلفاء
راشدین خصوصا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہم
سے آپ کی محبت ، ان کی تکریم اور
ان کے سلسلے میں خیر وبھلائی اور اور ان کے مقام ومرتبہ کے اعتراف کا پتا چلتاہے ۔ نیز اس کے اندر شیخین رضی اللہ عنہما سے متعلق شیعہ کےغلط اور گندے عقائد کا مکمل اور کھلا رد بھی ہےجو شیخین کریمین ابوبکر وعمررضی اللہ
عنھا پر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو فضیلت دیتےہیں اور اس کی آڑمیں اپنے غلط
عقائد کو رواج دیتےہیں ۔ واضح رہے کہ بلاشک وشبہ
علی رضی اللہ عنہ کی فضیلتیں اور
مقام ومرتبہ اپنی جگہ مسلم ہے جس پر ایمان
اوریقین ہر مسلمان پر واجب ہے ، اور یہ
بھی مبنی برحقیقت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی فضائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ ان
سے افضل نفوس پر فوقیت نہ دی جائے،اور اس سے ان کی فضیلت اور قدرومقام میں
کبھی کوئی نقص نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ
اہل بیت میں سب سے معروف شخصیتوں میں سے ایک امام جعفر صادق رحمہ اللہ اس معاملے کو بہت اچھی طرح جانتےتھے اور زیرنظر
مناظرہ کے اندر انہوں نے اسی چیز کو نہایت ہی مدلل اور مضبوط انداز میں پیش کیاہے ۔
زیرنظر
مناظرہ کی نسبت امام جعفر صادق کی طرف برکلمان نے
تاریخ الادب العربی اور دکتورفؤاد
سزکین نے تاریخ
التراث العربی (3/271) کے اندر کی ہے۔ نیز دکتورعلی عبدالعزیز الشبل کی مکمل تحقیق
اورتعلیق کے ساتھ یہ مناظرہ اہل علم کے درمیان متداول ہے، جس میں انہوں نے اس
کےنسخوں اور اسناد کا ذکرکیاہے ، دکتور
علی الشبل والی تحقیق کا اردو ترجمہ بھی پاکستان سےمطبوع ہے ۔ فجزاہ اللہ خیرا عن
الاسلام والمسلمین۔ وہی
شیعوں نے اس مناظرہ کا کلی طورپر انکارکیاہے اور اسےمنگھڑت اورمکذوب ثابت کرنے
کےلئے اپنا پورا زور لگایاہے۔
مناظرہ :
ذیل میں ہم مناظرہ کو سوال وجواب کی شکل میں
پیش کررہےہیں تاکہ عام قاری کو سمجھنے میں آسانی ہو:
روافض
میں سے ایک آدمی امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے پاس آیا اور سلام کیا جس کا جواب امام صاحب نے دیا پھر اس رافضی
نے کچھ سوالات کئے جن کا جواب امام موصوف نےدیا ذیل میں ہم سوال وجواب کی شکل میں
انہیں پیش کررہےہیں :
(1) - رافضی : اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) کے
بیٹے ! اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون
تھے ؟
امام
جعفر الصادق: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ۔
(2) -
راوفضی : اس کی دلیل کیاہے؟
امام
جعفر الصادق:اللہ تعالی کا فرمان : (اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ
اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی
الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ۚ—
فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَاَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا) ۔( اگر تم ان (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی
مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال
دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وه دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے
تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ، پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر
نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں {التوبۃ/40}
ان دونوں
سے جن کا تیسرا اللہ ہو افضل کون ہوسکتاہے ؟ اور ابوبکر سے افضل تو صرف نبی صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم ہی ہوسکتےہیں۔
(3)
- رافضی : علی بن ابی طالب نے اللہ کے نبی
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ کے بستر پر بلا
کسی خوف وتردد کے رات گزاری تھی ۔(جب ہجر ت کی رات کفار نے اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کو قتل کرنے کےلئے آپ کے گھر کا محاصرہ کیاتھا۔)
امام
جعفر الصادق : ابو بکر بھی بلاکسی خوف
وتردد کے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے)۔(ہجرت کے وقت جب دونوں
غارثورمیں پناہ گزیں تھے۔)
(4) - رافضی : لیکن اللہ تعالی تو اس کے برخلاف کچھ
اور فرما رہاہے ؟۔
امام جعفر
الصادق : وہ فرمان کیاہے؟
(5) -
رافضی :اللہ تعالی فرماتاہے : (اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ
اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا)۔( جب یہ اپنے ساتھی
سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے)۔ کیا یہ گھبراہٹ خوف کھانا نہیں ہے؟)۔
امام
جعفرالصادق : بالکل نہیں ! کیونکہ حزن (غم کھانا) گھبراہٹ اور ڈر نہیں ہوتا، ابو بکر رضی اللہ عنہ کوتو اس
بات کا حزن (ملال) تھاکہ مبادا اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کردیاجائے
اور اللہ کے دین سے روگردانی کرلیں ،چنانچہ ان کا حزن تو دین سے متعلق تھا اور
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تھا ، خودسے متعلق نہیں تھا جبکہ تقریبا سو بچھؤں نے انہیں ڈنک مارا ہو اور ان کی زبان سے حس تک نہ نکلاہو اور نہ
ہلکی سی حرکت ہی کی ہو ۔
(6) - رافضی
: اللہ تعالی فرماتاہے: (اِنَّمَا
وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ
الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ رٰكِعُوْنَ) (مسلمانو)!
تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور ایمان والے ہیں(1) جو نمازوں کی
پابندی کرتے ہیں اور زکوٰة ادا کرتے ہیں اور وه رکوع (خشوع وخضوع) کرنے والے ہیں۔ {المائدة
55}
یہ آیت
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بارےمیں نازل ہوئی ہے جب انہوں رکوع کی حالت میں
صدقہ کیاتھا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کا شکر ہے کہ اس نے
اسے میرے اور میرے اہل بیت کے بارے میں نازل کیاہے "۔ (آیت کی شان نزول کے
بارے میں رافضی کا دعوی باطل ہے کیونکہ اس کے نزول کا سبب کچھ اور ہے اسی طرح
مذکورہ روایت بھی موضوع ومن گھڑت ہے۔دیکھئے:منہاج السنۃ:7/11 ۔ /مترجم)۔
امام
جعفر الصادق : اس سورت کے اندر اس سے پہلے والی آیت اس سے عظیم ہے ، اللہ تعالی فرماتاہے :
(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ
یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ
وَیُحِبُّوْنَهٗۤ)۔(اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے
پھر جائے(1) تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو ﻻئے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور
وه بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی)۔ {المائدة 54}
یہ
ارتداد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوئی تھی جس کے اندر اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ (کی وفات ) کے بعد اہل عرب مرتد ہوگئےتھے اور کفار نہاوند کے مقام
پر اکٹھے ہوگئے تھےاور کہنے لگے کہ جس
آدمی کی یہ لوگ مدد لیتے تھے(یعنی نبی صلی
اللہ علیہ وسلم) وہ تو اب فوت ہوچکاہے ، یہاں تک کہ عمررضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ : ان کی نماز کو قبول کیاجائے اور
ان کے لئے زکاۃ کو چھوڑدیاجائے ، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"اگر ایک
عقال (اونٹ کا پاؤں باندھنے کی رسی ) بھی وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کودیاکرتےتھے دینے سےمنع کریں گےتو میں ان سے جہاد کروں گا گرچہ میرے خلاف اینٹ ، پتھر ، کانٹے ، درخت اور
جن وانس کی تعداد کے برابر بھی کھڑےہوں تو
میں تنہا ان سے لڑوں گا "۔چنانچہ
یہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ آیت
کریمہ افضل ہے۔
(7) - رافضی
: اللہ تعالی فرماتاہے(اَلَّذِیْنَ
یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِیَةً )۔(جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن چھپے کھلے خرچ
کرتے ہیں ) (البقرۃ/274) یہ آيت علی
علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی
ہے ان کے ساتھ چار دینارتھے جن میں سے ایک رات میں ،ایک دن میں ، ایک سرا اور ایک
علانیہ خرچ کیا تو اس بارےمیں یہ آیت
کریمہ نازل ہوئی ۔
امام
جعفر الصادق : قرآن کریم میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس سے افضل آیت ہے
،اللہ تعالی فرماتاہے :
اللہ قسم کھاتاہے:( وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی)۔(قسم ہے رات کی جب چھا جائے) ۔(اللیل /1) ، (وَالنَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰی وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْاُنثى اِنَّ سَعْیَكُمْ لَشَتّٰی ۟ؕ فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی) ۔(اور قسم ہے دن کی جب روشن ہو اور قسم ہے اس ذات کی جس نے
نر وماده کو پیدا کیا یقیناً تمہاری کوشش مختلف قسم کی ہے جس نے دیا (اللہ کی راه
میں) اور ڈرا (اپنے رب سے) اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گا)۔
(اللیل/2-6)
یعنی
ابوبکر رضی اللہ عنہ (فَسَنُیَسِّرُهٗ لِلْیُسْرٰی)۔(تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے)۔(اللیل/7)
اس سے مراد ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔(وَسَیُجَنَّبُهَا الْاتْقَی)۔ (اور اس سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار
ہو گا)۔(اللیل/17) اس سے مراد ابوبکر رضی
اللہ عنہ ہیں۔ (الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰ جو پاکی حاصل کرنے کے لئے اپنا مال دیتا ہے) ۔(اللیل /18)۔(اس
میں بھی مرادابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ (وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ
تُجْزٰۤی اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ
الْاَعْلٰی)۔(اللیل /19-20) اس سے
بھی مرادابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔
ابوبکر
رضی اللہ عنہ نے اپنی چالیس ہزارکی دولت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرخرچ کردیا،یہاں
تک کہ اسے چادرمیں چھپایا۔ چنانچہ جبریل علیہ السلام آئے اور کہاکہ اللہ
تعالی نے آپ پر سلام بھیجاہے اور یہ بھی
حکم دیاہے کہ ابو بکر کو میراسلام پیش کر اور اس سے پوچھوکہ
تم اپنی اس غربت ومحتاجی میں مجھ سے راضی ہویا ناراض ؟
تو انہوں نے کہا : میں اپنے رب سے
ناراض ہوسکتاہوں (ہرگزنہیں )، میں اپنے رب
سے راضی ہوں ، میں اپنے رب سے راضی ہوں ، میں اپنے رب سے راضی ہوں ۔ اور اللہ
تعالی نے ان سے وعدہ کیا کہ انہیں وہ خوش کردےگا۔
(8) - رافضی
: اللہ تعالی فرماتاہے: ((اَجَعَلْتُمْ
سِقَایَةَ الْحَآجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ
وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰهَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ؕ— لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ
اللّٰهِ)۔(کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلا دینا اور مسجد
حرام کی خدمت کرنا اس کے برابر کر دیا ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان ﻻئے
اور اللہ کی راه میں جہاد کیا، یہ اللہ کے نزدیک برابر کے نہیں) { التوبۃ/ 19} یہ
آیت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی۔
امام
جعفر الصادق :قرآن کے اندر اسی طرح کی آیت ابو بکر رضی اللہ عنہ کےبارے میں نازل
ہوئی ، اللہ تعالی فرماتاہے : (( لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ
مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ ؕ— اُولٰٓىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ
الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْاؕ— وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰی) ۔(تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل
اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وه (دوسروں کے) برابر نہیں ، بلکہ ان سے بہت بڑے درجے
کے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے۔ ہاں بھلائی کا وعده تو اللہ
تعالیٰ کاان سب سے ہے(۔{ الحديد 10}۔
ابوبکررضی اللہ عنہ وہ پہلے انسان ہیں جس نے
اپنا مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنچھاور کردیا، پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے
دفاع کیا، پہلےوہ شخص ہیں جنہوں نے جہادکیا ، کفارنے آکر آپ کو مارا جس سے آپ خون
آلودہوگئے اور اس کی خبر ابو بکررضی اللہ عنہ کو لگی تومکہ کی گلیوں میں بھاگتے
ہوئے اوریہ کہتے ہوئے آئے کہ :تمہاری تباہی ہو تم ایک ایسے آدمی کوقتل کرناچاہ
رہےہو جو یہ کہتاہے کہ میرا رب اللہ ہے ، جبکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں اورکھلی نشانیاں لےکرآیاہے ؟ اس پران لوگوں نے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ
وسلم کوچھوڑکر ابوبکر کو پکڑکرمارنے لگےیہاں تک کہ کثرت خون سے ابو بکر کی
ناک آپ کے چہرے سے پہچانی نہیں جاتی تھی۔
چنانچہ انہوں نے اللہ کی
راہ میں سب سے پہلےجہادکیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سےپہلے قتال کیا، سب سےپہلے اپنا مال خرچ کیا ،چنانچہ اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:"ابو بکرکے مال جیساکسی مال نے
مجھے نفع نہیں پہنچایا"۔
(9) - رافضی : علی رضی اللہ
عنہ نے لمحہ بھرکو بھی اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا ۔
امام جعفرصادق : اللہ تعالی نے ابوبکر
رضی اللہ عنہ کی ایسی تعریف کی ہے کہ اس کے حضور ہر چیز ہیچ ہے ، اللہ تعالی
فرماتاہے : ((وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ)۔( اور جو سچے دین کو ﻻئے)
اس سے مرادمحمد صلى الله عليہ وسلم ہیں ، (وَصَدَّقَ بِهٖۤ )۔( اور
جس نے اس کی تصدیق کی){الزمر33} یعنی ابو بکررضی اللہ عنہ ۔
جب ہرایک نے اللہ کےنبی صلی
اللہ علیہ وسلم کوجھوٹاکہاتو ابو بکر نے آپ کی صداقت کی گواہی دی تو ان ہی کے
سلسلے میں خاص طورسے تصدیق والی آیت نازل ہوئی ،چنانچہ آپ ایک ساتھ متقی، پاکیزہ، مخلص
، پسندیدہ (سب کے محبوب )، انصاف پسند، منصف اور وفادار ہیں ۔
(10) - رافضی : علی رضی اللہ عنہ سے محبت
قرآن مجید کے اندر فرض ہے ،اللہ تعالی فرماتاہے: (قُلْ لَّاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ
فِی الْقُرْبٰی)۔( کہہ دیجئے! کہ میں اس پر
تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی (الشوری/23)
امام جعفرصادق : ابو بکر رضی اللہ عنہ کی محبت بھی اسی طرح فرض ہے، اللہ تعالی فرماتاہے : (وَالَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْ
بَعْدِهِمْ
یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا
بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ)۔ (اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں
بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان ﻻچکے ہیں اور ایمان داروں
کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی
کرنے واﻻ ہے){الحشر10}
چنانچہ ابو بکر رضی اللہ
عنہ سب سے پہلے ایمان لانے والےتھے اس لئےان کے لئے مغفرت کی دعاء واجب ہے ، ان سے محبت فرض ہے اور ان سے نفرت کفرہے۔
(11) - رافضی : اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:" الحسنُ والحُسينُ سيِّدَا شبابِ أهلِ الجنَّةِ
وأبوهما خيرٌ منهما"۔"حسن اورحسین رضی اللہ عنہماجنتیوں کے جوانوں کے
سردارہیں اور ان کا باپ ان سے بھی افضل ہیں "۔(مستدرک الحاکم /4779، حلیۃ
الاولیاء لابی نعیم:5/58، امام البانی نے اسے حسن کہاہے،دیکھئے سلسلۃ الاحادیث
الصحیحۃ/2/428)۔
امام جعفرصادق : اس سے بھی افضل حدیث ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں واردہے،
میرےوالد نے میرے داداسے روایت کیاہے وہ علی بن ابی طالب علیہ السلام سے روایت
کرتے ہیں وہ کہتےہیں کہ میں اللہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا میرے
علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا کہ اچانک ابوبکر وعمررضی اللہ عنہماتشریف لائے،تو نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:( يا علي هذان سيدا كهول أهل الجنة وشبابهما - في الظاهرية شبابهم-
فيما مضى من سالف الدهر في الأولين وما بقي في غابره من الآخرين ، إلا النبيين
والمرسلين .لا تخبرهما يا علي ما داما حيين) "اے
علی ! یہ دونوں انبیاء و رسل کے علاوہ جملہ اولین و آخرین میں جنت کے ادھیڑ عمر
کے لوگوں کے سردار ہیں، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، لیکن علی! جب تک وہ دونوں زندہ
رہیں انہیں یہ بات نہ بتانا تم انہیں نہ بتانا"۔ (سنن الترمذی / 3665 ،3666 سنن ابن ماجہ/95
، 100 علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے۔)
،چنانچہ میں نے اس بات کی خبر کسی کو نہیں کی یہاں تک کہ ان دونوں کی وفات
ہوگئی۔
(12) - رافضی : فاطمہ بنت رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افضل ہیں یا
عائشہ بنت ابی بکر؟
امام جعفرصادق : بسم اللہ الرحمن الرحیم ((یٰسٓ* وَالْقُرْاٰنِ
الْحَكِیْمِ ۟)(یس/1-2)۔ (یٰس* قسم ہے قرآن باحکمت کی )۔ (حٰمٓ * وَالْكِتَابِ
الْمُبِينِ )۔(حٰم* قسم ہے اس وضاحت والی کتاب
کی)۔ (الدخان/1-2)۔
(یہ سن کر) رافضی نے کہا: میں نے آپ سے فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم اور عائشہ بنت ابی بکرکے بارےمیں سوال کیاہے کہ ان میں افضل کون ہیں ، اور آپ
قرآن کی تلاوت کررہے ہیں!
تو امام جعفرصادق نے کہا : عائشہ بنت ابی بکر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کی زوجہ ہیں اور آپ کے ساتھ جنت میں ہوں گی ، فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم جنت کی عورتوں کی سردار ہوں گی۔ اللہ
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی پر
طعن کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہے اور
اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سے بغض کرنےوالے کو اللہ
تعالی ذلیل وخوار کرےگا۔
(13) - رافضی : عائشہ نےتو گرچہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی
ہیں علی رضی اللہ عنہ سے قتال کیاتھا ؟۔
امام جعفرصادق : ہاں ! تو برباد ہو ،
اللہ تعالی فرماتاہے:
((وَمَا كَانَ
لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ)۔( نہ تمہیں یہ جائز ہے کہ تم رسول اللہ کو تکلیف دو)۔ {الأحزاب
53}
(کیونکہ اللہ کے رسول کی کسی بھی کواذیت دینا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کو اذیت دیناہے، امام جعفرصادق نے اس آیت کی عمومیت سے استدلال کیاہے۔مترجم)۔
(14) - رافضی : ابو بکر ،عمر اور علی رضی اللہ عنہم کی خلافت کاذکر قرآن
مجیدمیں ہے؟۔
امام جعفرصادق :ہاں ، بلکہ تورات اور انجیل میں بھی ہے ، اللہ تعالی فرماتاہے:(( وَهُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىِٕفَ
الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ ) ۔ (اور وه ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں
خلیفہ بنایا اور ایک کا دوسرے پر رتبہ بڑھایا)۔ {الأنعام165}
اسی طرح فرماتاہے: ((اَمَّنْ
یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَیَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَیَجْعَلُكُمْ
خُلَفَآءَ الْاَرْضِ) بے کس کی پکار کو جب کہ وه پکارے، کون
قبول کرکے سختی کو دور کر دیتا ہے(1) ؟ اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے {النمل62}
اور ایک جگہ فرماتاہے: ((لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ
فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۪— وَلَیُمَكِّنَنَّ
لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَهُمْ) اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ
ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین
کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وه پسند فرما چکا ہے ا {النور55}
(15) - رافضی : اے رسول اللہ کے بیٹے تورات اور انجیل میں ان کی خلافت کا ذکر
کہاں ہے ؟ ۔
امام جعفرصادق : ((مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول
ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ) یہ ابو بکرہیں ((اَشِدَّآءُ عَلَی الْكُفَّارِ) کافروں پر سخت ہیں) یہ
عمربن الخطاب ، ((رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ) آپس میں رحمدل ہیں،)
یہ عثمان غنی ہیں ، ((تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا
یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا ؗ) تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع
اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں )یہ علی بن
ابی طالب ہیں (( سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ
اَثَرِ السُّجُوْدِ ؕ) ان کا نشان ان کے چہروں پر
سجدوں کے اﺛر سے ہے )یہ أصحاب محمد المصطفى صلى الله عليه وسلم ہیں ، ((ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ۛۖۚ—
وَمَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ) ان کی یہی مثال تورات میں
ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے)
اس نے کہا تورات اور انجیل میں کیامعنی ہے؟تو انہوں نے کہا: محمد رسول اللہ
اور آپ کے بعدخلفاء ابو بکر،عمر، عثمان اورعلی ۔ پھر انہوں نے اس کےسینے پر ہاتھ
ماراکہا : تیری تباہی ہو! اللہ تعالی فرماتاہے: ((كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَهٗ فَاٰزَرَهٗ ) مثل اسی کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا(2) پھر اسے مضبوط کیا ) أبو بكر ((فَاسْتَغْلَظَ) اور وه موٹا ہوگیا) عمر ((فَاسْتَوٰی
عَلٰی سُوْقِهٖ) پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا ) عثمان ((یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ
الْكُفَّارَ) کسانوں کو خوش کرنے لگا(3)
تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے) علي بن أبی طالب ((وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا) ، ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے
اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ﺛواب کا وعده کیا ہے.)
(الفتح/29)۔ أصحاب محمد رسول الله صلى الله عليہ وسلم رضی الله عنهم ،
تیری تباہی ہو ! مجھ سےمیرے والد نے بیان کیا انہوں نے میرے دادا سے روایت کیا
اور انہوں نے علی بن ابی طالب سے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:" أنا
أول من تنشق الأرض عنه ولا فخر ، ويعطيني الله من الكرامة ما لم يعط نبي قبلي ، ثم
ينادي قرّب الخلفاء من بعدك فأقول : يا رب ومن الخلفاء ؟ فيقول : عبد الله بن
عثمان أبو بكر الصديق ، فأول من ينشق عنه الأرض بعدي أبو بكر ، فيوقف بين يدي الله
، فيحاسب حساباً يسيراً ، فيكسى حلتين خضراوتين ثم يوقف أمام العرش. ثم ينادي
منادٍ أين عمر بن الخطاب ؟ فيجئ عمر وأوداجه تشخب دماً فيقول من فعل بك هذا؟
فيقول:عبد المغيرة بن شعبة، فيوقف بين يدي الله ويحاسب حساباًيسيراًويكسى حلتين
خضراوتين ، ويوقف أمام العرش . ثم يؤتى عثمان بن عفان وأوداجه تشخب دماً فيقال من
فعل بك هذا ؟ فيقول : فلان بن فلان ، فيوقف بين يدي الله فيحاسب حساباً يسيراً
ويكسى حلتين خضراوتين ، ثم يوقف أمام العرش .ثم يدعى علي بن أبي طالب فيأتي
وأوداجه تشخب دماً فيقال من فعل بك هذا ؟ فيقول : عبدالرحمن بن ملجم ، فيوقف بين
يدي الله ويحاسب حساباً يسيراً ويكسى حلتين خضراوتين ، ويوقف أمام العرش.
اس آدمی نےکہا اے اللہ کے رسول کے بیٹے یہ قرآن مجید میں ہے؟ تو انہوں نے
کہا:ہاں اللہ تعالی فرماتاہے:(( وجئ بالنبيين والشهداء)) أبو بكر وعمر وعثمان وعلي ((وقضي بينهم بالحق وهم لا يظلمون
))
پھر اس رافضی نے کہا : اےاللہ کے رسول
کے بیٹے، کیا اللہ تعالی میری توبہ قبول فرائےگا کہ میں ابوبکر وعمراور
عثمان وعلی نے تفریق کیاہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : بالکل توبہ کا دروازہ کھلا
ہواہے تم ان کے لئے خوب استغفارکیاکرو۔ کیونکہ اگر تم اس حال میں مرتےکہ تم نے ان
کی مخالفت کی ہے تو تمہاری موت غیرفطرت اسلام پر ہوتی اور تمہارےاعمل کافروں کے
اعمال کی طرح بکھرے ہوئے پراگندہ ذروں کی طرح
ہوجاتے۔
پھر اس آدمی نے توبہ کرکے اپنی باتوں سے رجوع کرلیا۔
تم
بحمد الله وصلواته على محمد وآله وأصحابه وأزواجه وسلامه ، على يد العبد المذنب
الراجي عفو الله الخائف من عقاب الله يوسف بن محمد بن يوسف الهكاري في شهر الله
الأحد رجب من سنة تسع وستين وستمائة . رحم الله من ترحم عليه وعلى والديه وعلى
جميع المسلمين .
********
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں