سلام کرنا اور اس کی اہمیت ، فضیلت اور فائدے
اسلام دنیاکا واحد
دین ہے جس نے اپنے معاشرہ کو دنیا کا سب سے زیادہ پاک صاف ،اخوت وبھائی چارگی ، ہمدردی وغمخواری
اور امن وسلامتی والا معاشرہ بنانے کی تعلیم دی ہے اور ہر اس وسیلہ اور طریقہ کو
اختیار کرنے کی طرف رہنمائی کی ہے جنہیں اپنا کر معاشرتی ارتقاء کی راہ اپنائی
جاسکتی ہے، انہیں تعلیمات میں سے ایک ہے : ایک دوسرے کو سلام کرنا ۔
ذیل میں ہم
بغرض تعلیم واستفادہ سلام سے متعلق بعض امورکا ذکر کریں گے جسے اپنا کر ہم
اپنے معاشرے کو اسلامی مزاج اورماحول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں ، کیونکہ عام طورپر ہمارے معاشرے میں دیکھاجاتاہے کہ انہیں لوگوں کو سلام کیاجاتاہے جن سے پہچان ہو ۔ بسااوقات یہ بھی ملاحظہ میں
آتاہے کہ جب کسی اجنبی کو سلام کیاجاتاہے تو وہ عجیب اندازمیں پوچھنے لگتاہے کہ :
کیاآپ مجھے جانتےہیں کہ سلام کررہےہیں ؟ ۔
واللہ المستعان۔ جبکہ حدیث میں ہرجانے
انجانے شخص کو سلام کرنے کی فضیلت واردہے ، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ ایک آدمی نے اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم سے سوال کیاکہ" کون سا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ نے فرمایا :"
تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ
تَعْرِفْ" ۔کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی
اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔ (صحیح البخاری/28 ، 6236 ،
صحیح مسلم/39) ۔
سلام
کا معنی :
سلام کا معنی سلامتی کا ہوتاہے۔ اسی طرح سپردگی، تسلیم ورضا، امن وسلامتی ، عیوب ونقائص سے براءت و حفاظت ، چین و سکون ، حفظ
، نجات اور صلح وغیرہ چنانچہ اس کا معنی ہوا : آفات ومصائب وغیرہ سے محفوظ رہنا، بچا رہنا، چھٹکارا پانا
اور عیوب وغیرہ سے پاک وصاف ہونا۔
اسی طرح السلام
باری تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔
چنانچہ السلام
علیکم کا مطلب ہے کسی کے لئے اللہ تعالی
سے دعاء کرنا کہ اللہ تجھے تیرےدین ودنیا
اور نفس ، آل واولاد ، اور مال
و دولت
میں اورہر چیز میں آفت وبلاء اور
مصیبت وپریشانی سے محفوظ اور سلامت رکھے ۔ اس کا ایک معنی
نقائص سے سلامتی طلب کرنا اور اللہ کی حفاظت طلب کرنا بھی بیان
کیاجاتاہے ،جیسے کہاجاتاہے : اللہ تمہارے ساتھ ہے
۔(دیکھئے: الجامع لاحکام القرآن :6/435،
حاشیۃ البجیرمی علی المنھاج :1/216 ، فتح الباری :11/13)۔
سلام
کرنے کے الفاظ :
سلام
کرنے کے جو الفاظ سنت میں وارد ہے وہ ہے : (السلام عليكم ورحمة الله وبركاته) اور جواب کے الفاظ :(وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته) ہے۔
سلام میں بعض الفاظ کی ممانعت بھی ہے جیسے : ابوجری جابر بن
سلیم ہجیمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: "عليك
السلام يا رسول الله" "آپ پر سلام ہو اللہ کے رسول!" تو آپ نے فرمایا: "عليك
السلام" مت کہو، کیونکہ "عليك السلام" مرُدوں کا سلام ہے۔(سنن ابی داود/4084 ، 5209
، سنن الترمذی/2722، علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے) ۔
نوٹ: حدیث میں جو مذکورہوا ہے، وہ شاید عہد جاہلیت کا انداز
تھا کہ وہ (علیک
السلام) کہتے تھے جبکہ سنت یہ ہے کہ قبرستان میں جاتے ہوئے اموات کو (السلام علیکم یاأھل القبور) کہا جائے جس کا ذکر ان شاء اللہ آگے آئےگا۔
سلام
کی ابتداء کب سے ہوئی ؟
صحیح احادیث کے مطابق انسان میں آدم علیہ السلام سے سلام کی
ابتداء ہوئی ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
مروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى
صُورَتِهِ، طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ اذْهَبْ فَسَلِّمْ
عَلَى أُولَئِكَ النَّفَرِ مِنَ الْمَلاَئِكَةِ جُلُوسٌ، فَاسْتَمِعْ مَا
يُحَيُّونَكَ، فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ. فَقَالَ
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ. فَقَالُوا السَّلاَمُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ.
فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ
آدَمَ، فَلَمْ يَزَلِ الْخَلْقُ يَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّى الآنَ" ۔ "اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا،
ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ جب انہیں پیدا کر چکا تو فرمایا کہ جاؤ اور ان فرشتوں
کو جو بیٹھے ہوئے ہیں، سلام کرو اور سنو کہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں،
کیونکہ یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہو گا۔ (ان کے پاس جاکر) آدم علیہ
السلام نے کہا: السلام علیکم! فرشتوں نے جواب دیا، السلام علیک ورحمۃ اللہ، انہوں
نے آدم کے سلام پر "ورحمۃ اللہ" کا اضافہ کیا۔ پس جو شخص بھی جنت میں جائے گا
آدم علیہ السلام کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا۔" اس کے بعد سے اب تک خلقت کا قد و قامت کم ہوتا رہا ہے "۔ (صحیح البخاری/3326،6227 ، صحیح
مسلم/2841)۔
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہواکہ انسان کی تخلیق سے قبل بھی
سلام کرنا فرشتوں میں عام تھا ۔
سلام کرنےکا حکم :
سلام کی ابتداء کرنا سنت ہے جبکہ اس کا جواب
دینا واجب ہے ، اگر کسی ایک آدمی سے سلام
کیاجاتاہے تو اس کےلئے اس کا جواب دینا فرض عین ہے اور اگر کئی لوگوں کو ایک ساتھ
سلام کیاجاتاہے تو ان میں سے کوئی ایک جواب دے دے تو کافی ہے ۔
سلام
کےجواب کا صیغہ :
سلام
کے جواب کے سلسلے میں اللہ تعالی کا حکم واضح ہے کہ جس طرح کے الفاظ کے ساتھ سلام
کیاجائے اسی طرح یا اس سے بہتر الفاظ کے ساتھ اس کا جواب دیاجائے ،اللہ تعالی
فرماتاہے:( وَإِذَا
حُيِّيْتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ
اللّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا)۔ (اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا
انہیں الفاظ کو لوٹا دو ۔ بے شبہ اللہ
تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے واﻻ ہے)۔ (النساء: 86)۔
گھرمیں
داخل ہوتے وقت سلام :
جب کوئی کسی گھر میں داخل
ہو اور اس میں کوئی شخص نہ ہو تو بھی سلام
کرنا چاہئے اور اس کی کئی وجہیں ہیں ،جیسے:
- آدمی خود پر اللہ کی
سلامتی کےلئے دعاء کرتاہے۔
- اس گھرکے اندر جو مؤمن جنات ہیں ان کو سلام
کرتاہے۔
- سلام کی برکت سے اس گھر میں موجود شیطان اور
تکلیف دہ چیزوں سے حفاظت وسلامتی کی دعاء
کرتاہے ، امام نووی فرماتے ہیں : گھرمیں
داخل ہوتے وقت آدمی کو بسم اللہ کہنا چاہئے
اور خوب ذکرواذکار کرنا چاہئے اور اس کے اندرکوئی ہویا نہ ہو سلام کرنا
چاہئے،کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿فَإِذَا
دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلِّمُواعَلَى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ
مُبَارَكَةً طَيِّبَةً﴾ (النور/61)
(پس جب تم گھروں میں جانے لگو تو خود پر سلام کرلیا کرو ،یہ اللہ تعالیٰ کی
طرف سے نازل شده دعائے خیر ہے جو بابرکت اور پاکیزه ہے)۔ (الاذکار/41)۔
نمازسے
نکلنے کےلئے سلام:
اہل
علم صحابہ کرام اور تابعین وغیرہ کے راجح
موقف کے مطابق نمازسے فارغ ہونے کے لئے سلام کرنا
اس کے ارکان میں سے ایک ہے، اس کے
بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (دیکھئے: شرح النووي على مسلم: 5/ 83، المجموع :3/462)
نمازکی
حالت میں سلام کا جواب دینا:
اگر کوئی نمازکی حالت میں
ہو اور آنے والا سلام کرتاہے تو منہ سے اس کا جواب دینا جائز نہیں ہے البتہ اشارے
سے جواب دینے کی مشروعیت سے متعلق ڈھیروں صحیح روایتیں ہیں ،جیسے:جابر رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک سفرمیں کسی
ضرورت سے باہر بھیجا ، میں واپس آیا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے میں نے آپ کو
سلام کیاتو آپ نے ہاتھ کےاشارے سے سلام کا
جواب دیا۔ اور بعض روایتوں کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ
ہوکر جواب دیتے۔(دیکھئے:صحیح مسلم/540)۔
صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اس حال میں
آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے ہاتھ کے اشارہ سے سلام کا جواب دیا"۔(سنن
ابوداود/925 ،سنن الترمذی /367،سنن ابن ماجۃ /1017 ، سنن النسائی /1187علامہ
البانی نے اسے صحیح قراردیاہے)۔
اور عبداللہ بن عمر رضی
اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نماز
پڑھنے کے لیے قباء گئے، تو آپ کے پاس انصار آئے اور انہوں نے حالت نماز میں آپ کو
سلام کیا تو آپ نے ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا ۔ بلال رضی اللہ عنہ نے اس کی کیفیت
بیان کی کہ : اپنی ہتھیلی کو پھیلا کرجواب
دیتے۔(دیکھئے: سنن ابی داود/927 ، سنن الترمذی /368،سنن النسائی/1188 ، علامہ
البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔
سلام
کرنے کی فضیلت :
سلام اسلام کے شعائر میں سے ایک ہے جس کی قرآن وسنت میں بڑی فضیلت آئی ہے ، اور یہ وہی سلام ہے جو اہل
جنت کےلئے اللہ تعالی کا سلام ہے ، اللہ
تعالی فرماتاہے:( سَلَامٌ قَوْلًا مِن رَّبٍّ رحِيمٍ) (مہربان پروردگار کی طرف سے انہیں سلام کہا
جائے گا ) (یس/58) ،اسی طرح جب اہل
جنت اپنے رب کے پاس جائیں گے تو ان کاتحیہ
سلام ہوگا ، اللہ تعالی فرماتاہے: (تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ) ۔ ( جس دن یہ (اللہ سے) ملاقات کریں گے ان کا تحیہ
سلام ہوگا) ۔ (الأحزاب/ 44) ۔
نیزسلام
فرشتے اور انبیاء کرام کا طریقہ بھی ہے ، جیساکہ آدم علیہ السلام والی روایت میں
گزرا۔
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"يا
أيها الناس: أفشوا السلام، وأطعموا الطعام، وصلوا الأرحام، وصلوا والناس نيام؛
تدخلوا الجنة بسلام"۔ "لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رشتوں
کو جوڑو، اور رات میں جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز ادا کرو، (ایسا کرنے سے) تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو گے"
۔(سنن الترمذی /2485 ، سنن ابن ماجۃ/1334 ، 3251 ، علامہ البانی سنے اسے صحیح
کہاہے)۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" لَا
تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا
أَوَلَا، أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ، أَفْشُوا
السَّلَامَ بَيْنَكُمْ " ۔ "تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ تم
مومن ہو جاؤ، اور تم مو من نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ کیا
تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے
لگو، آپس میں سلام عام کرو"۔(صحیح مسلم/54) ۔
عائشہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:" مَا
حَسَدَتْكُمْ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ، مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى السَّلَامِ
وَالتَّأْمِينِ"۔" یہود نے تم سے کسی چیز پر اتنا
حسد نہیں کیا جتنا سلام کرنے، اور آمین کہنے پر حسد کیا " ۔ (سنن ابن
ماجۃ/856 ، علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔
سلام
کےچند آداب:
سلام کرنے کے کچھ آداب ہیں جن کی رعایت ہر
مسلمان کو کرنی چاہئے ، ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں :
1 - سلام کی ابتداء کی
کوشش کرنی چاہئے :پہلے سلام کی ابتداء کرنے والا اللہ تعالی کے نزدیک سب سے بہتر ہے ،ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے
پوچھاگیاکہ: جب دو آدمی آپس میں ملیں تو سلام کرنے میں پہل کون کرے؟ توآپ نے فرمایا: "ان
دونوں میں سے جو اللہ کے زیادہ قریب ہے"(وہ پہل کرے گا)۔ (سنن الترمذی /2694
، نیز دیکھئے : سنن ابی داود/5197 ، علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔
اسی طرح ابوایوب انصاری
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا: لايَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ
يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ، يَلْتَقِيَانِ، فَيَصُدُّ هَذَا وَيَصُدُّ
هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ"۔" کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں
کہ وہ اپنے کسی (مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ
تعلق کاٹے کہ جب وہ ملیں تو یہ ایک طرف منہ پھیر لے اور دوسرا دوسری طرف اور دونوں
میں اچھا وہ ہے جو سلام میں پہل
کرے"۔(صحیح البخاری/6077، 6237) ۔
2 - جب کوئی سلام کرےتو پورے الفاظ (السلام عليكم ورحمة الله
وبركاته)کے ساتھ کرے کیونکہ یہ نہایت ہی جامع اوراکمل ہے ۔اسی طرح جواب دینے
والا بھی (وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته) کے پورے الفاظ کے
ساتھ جواب دے ۔
3 - سوار پیدل چلنے والےکو
،چلنے والا بیٹھےہوئے کو اورقلیل کثیر کو سلام کرنے میں پہل کر ے، ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي، وَالْمَاشِي عَلَى
الْقَاعِدِ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ" ۔(صحیح البخاری/6233 ، صحیح مسلم/2160) "سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل چلنے والا
بیٹھے ہوئے شخص کو اور چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے"۔ اور صحیح بخاری کی
ایک روایت میں ہے :" يُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبِيرِ" ۔(صحیح
البخاری/6231)" چھوٹا بڑے کو سلام کرے"۔
4 - کسی مجلس میں آتے وقت
اور وہاں سے اٹھ کرجاتے وقت بھی سلام کرے،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"إِذَا انْتَهَى أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَجْلِسِ ,
فَلْيُسَلِّمْ , فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ , فَلْيُسَلِّمْ , فَلَيْسَتِ
الْأُولَى بِأَحَقَّ مِنَ الْآخِرَةِ"۔(سنن ابی داود/5208، سنن الترمذی /2706، علامہ
البانی نے اس کی سند کو حسن صحیح کہاہے)۔ "جب تم میں سے کوئی مجلس میں پہنچے
تو سلام کرے، اور پھر جب اٹھ کر جانے لگے تو بھی سلام کرے، کیونکہ پہلا دوسرے سے
زیادہ حقدار نہیں ہے"( بلکہ دونوں کی یکساں اہمیت
و ضرورت ہے، جیسے مجلس میں شریک ہوتے وقت سلام کرے ایسے ہی مجلس سے رخصت ہوتے وقت
بھی سب کو سلامتی کی دعا دیتا ہوا جائے)۔
5 - اگر کہیں جاتاہے اور وہاں پر سوئے اورجاگے ہوئے
دونوں طرح کے لوگ ہوں تو زیاد ہ بلند آواز سے سلام کرنے سے پرہیز کرے ، مقداد بن
اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ : جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تشریف لاتے تو ایسی آواز سے سلام کرتے جس سے
سونے والا نہ جاگے اور جاگنے والا سن لے۔(صحیح مسلم/2055)۔
6 - کسی گھر یا جگہ میں داخل
ہویا مجمع بڑا ہوتو تین دفعہ سلام کرے ، انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے
ہیں : كَانَ النبي صلى
الله عليه وسلم إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا حَتَّى تُفْهَمَ
عَنْهُ، وَإِذَا أَتَى عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ
ثَلَاثًا۔" اللہ
کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی بات
کہتے تو تین باردہراتے تاکہ اس بات کو
اچھی طرح سے سمجھ لیاجائے ، اور جب کسی قوم کے پاس
جاتے تو ان پر تین بار سلام کرتے"۔(صحیح البخاری/94 ،95 ، 6244) ۔
7 - قضائے حاجت میں مشغول
یا حمام میں موجود آدمی کو سلام نہ کرے،
اور نہ ہی قضائے حاجت کرنے والا کسی کے
سلام کاجواب دے، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اور آپ اس وقت پیشاب کررہےتھے تو اس نے آپ کو
سلام کیاتو آپ نے جواب نہیں دیا۔(صحیح مسلم/370) ۔
8 - اگر کوئی کسی کے پاس
سے اٹھ کرچلاجائے اور پھر واپس آئے تو دوبارہ سلام کرنا مستحب ہے ، ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے مرفوعا اور موقوفا مروی ہے :" إِذَا لَقِيَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ ,
فَإِنْ حَالَتْ بَيْنَهُمَا شَجَرَةٌ أَوْ جِدَارٌ أَوْ حَجَرٌ ثُمَّ لَقِيَهُ ,
فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ أَيْضًا"۔" جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے
تو اسے سلام کرے، پھر اگر ان دونوں کے درمیان درخت، دیوار یا پتھر حائل ہو جائے
اور وہ اس سے ملے (ان کا آمنا سامنا ہو) تو وہ پھر اسے سلام کرے"۔(سنن
ابی داود/5200، علامہ البانی نے مرفوعا اور موقوفا دونوں کو صحیح کہاہے)۔
9 - جہرا آواز کے ساتھ
سلام کرنا اور اس کا جواب دینا سنت ہے ۔
10 - جو شخص نیند میں ہو اسے بلا ضرورت سلام نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ اسے اس
سے تکلیف پہنچ سکتی ہے۔
11 - سلام کاجواب
ویسے ہی یا اس سے بہتر الفاظ کے ساتھ دینا مشروع ہے، اللہ تعالی فرماتاہے: ( وإذا حُييتم بتحية فحيوا
بأحسن منها أو ردّوها)۔ (جب تمہیں سلام
کیاجائے تو اس سے بہتر الفاظ کے ساتھ جواب دو یا اسی طرح کے الفاظ کے ساتھ)۔
12- جب کسی دوسرے آدمی کے گھرجائے توسلام کرے
اور تین بار اجازت لے اگر کوئی جواب نہیں ملتاہےتو واپس آجائے، اللہ تعالی
فرماتاہے: (يَا
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى
تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ) ۔(اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ
لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو) ۔ (النور/27)۔ بنو
عامر کے ایک شخص نے روایت کیاہے کہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھرمیں تھےتو اس نے
آپ کے پاس آنے کی اجازت طلب کی اس نے کہا:
"أَلِجُ " "کیا میں اندر آ جاؤں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم سے فرمایا: "تم اس شخص کے پاس جاؤ اور اسے اجازت
لینے کا طریقہ سکھاؤ اور اس سے کہو "
کہ وہ السلام علیکم" کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟کہے"۔ اس آدمی نے یہ بات سن لی اور کہا: "السلام علیکم" کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی، اور وہ اندر آ گیا۔ (سنن
ابی داود/5177، علامہ البانی نے اس کی سند
کو صحیح قراردیاہے)۔
جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
************
سلام کرنا اور اس کی اہمیت ، فضیلت اور فائدے
عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی
(دوسری اورآخری قسط)
غیر
مسلم کا سلام :
غیرمسلم سے سلام کی ابتداء
جائزنہیں ہے البتہ جب وہ سلام کریں تو ان کا جواب دیناچاہئے، ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" لَا
تَبْدَءُوا الْيَهُودَ وَلَا النَّصَارَى بِالسَّلَامِ"۔"یہود و نصاری
ٰکو سلام کہنے میں ابتدانہ کرو "۔(صحیح مسلم/2167) ۔
غیرمسلم جب سلام کرے تو اس کے جواب میں (وعلیک) کہاجائےگا
،انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرما
یا: "إِذَا
سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ فَقُولُوا وَعَلَيْكُمْ"۔ "جب تم کو اہل کتاب سلام کریں تو تم
اس کے جواب میں (وَعَلَیٌکُمْ) کہو"۔ ( صحیح البخاری/ 6258 ، 6926 ، صحیح مسلم/2163) ۔
واضح
رہےکہ تمام کفار اس معاملے میں یہود نصاری کے حکم میں ہیں۔
تکبروگھمنڈ
میں سلام نہ کرنا:
بعض لوگ مال ودولت
کی کثرت ، منصب وحیثیت یا علم ورفعت کے غرور میں اپنےسے کمتر لوگوں کو سلام کرنے
یا ان کے سلام کاجواب دینے میں کسر شان سمجھتے ہیں ، ایسے لوگوں کا شمار ان متکبرین میں ہوتاہے جو اللہ کے نزدیک بڑے گناہ
کے مرتکب ہیں ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" لا
يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ "۔
" جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا، وہ جنت میں داخل نہ ہو گا"۔ (صحیح
مسلم/91)۔
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اللہ کےرسول صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ
الْقِيَامَةِ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ،وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ
أَلِيمٌ، شَيْخٌ زَانٍ، وَمَلِكٌ كَذَّابٌ، وَعَائِلٌ مُسْتَكْبِرٌ" ۔" تین (قسم کے لوگ) ہیں جن سے اللہ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا
اور نہ ان کو پاک فرمائے گانہ ان کی طرف دیکھے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے:
بوڑھا زانی، جھوٹا حکمران اور تکبر وگھمنڈکرنے والا فقیر و محتاج"۔(صحیح
مسلم/107) ۔
مرُدوں کو سلام کرنا :
مردوں پر سلام کرنا مستحب ہے ،جیسا کہ قبرستان میں جاکر یا
اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جاکر سلام کرنے نیز صاحبین ابوبکر وعمر
رضی اللہ عنہما ، اسی طرح بقیع غرقد میں مدفون اور شہدائے احد کو سلام کرنے سے
متعلق بے شمار صحیح متواتر روایتیں موجود ہیں۔
قبرستان میں جاکر سلام کرنے سےمتعلق کئی الفاظ روایتوں میں
موجود ہیں،جیسے: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان گئے تو فرمایا:" السَّلَامُ
عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ
"۔"سلامتی ہو تم پر اے مومن قوم کی بستی والو! ہم بھی ان شاءاللہ
آ کر آپ لوگوں سے ملنے والے ہیں"۔(صحیح مسلم/249 ، سنن ابی داود/3237 ، سنن
ابن ماجۃ/4306) ۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سےمروی ہےکہ جس رات اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باری
ان کے پاس ہوتی تو آپ رات کے آخری حصےمیں
بقیع قبرستان تشریف لے جاتے اور یہ دعاء پڑھتے:"السَّلامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤمِنينَ،
وأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ، غَدًا مُؤَجَّلُونَ، وإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ
لاحِقُونَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْلأَهْلِ بَقِيعِ الغَرْقَدِ"۔ " اے
ایمان رکھنے والی قوم کے گھرانے!تم پر اللہ کی سلامتی ہو، کل کے بارے میں تم سے جس
کا وعدہ کیا جاتا تھا، وہ تم تک پہنچ گیا۔تم کو (قیامت) تک مہلت دے دی گئی اور ہم بھی، اگر اللہ نے
چاہا تم سے ملنے والے ہیں۔اے اللہ!بقیع غرقد (میں رہنے) والوں کو بخش دے"۔(صحیح مسلم/974)۔
بریدہ
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ لوگ
قبرستان کی طرف نکلتے تو اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کو یہ کہنے کی
تعلیم دیتے: "السَّلامُ عَلَيكُمْ أَهْلَ الدِّيارِ مِنَ
المُؤْمِنِينَ والمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لاحِقُونَ،
أَسْأَلُ اللَّه لَنَا وَلَكُمُ العافِيَةَ"۔ "سلامتی
ہو مسلمانوں اور مومنوں کے ٹھکانوں میں رہنے والوں پراور ہم ان شاء اللہ ضرور (تمہارے ساتھ) ملنے والے ہیں، میں اللہ
تعالیٰ سے اپنے اور تمھارے لئے عافیت مانگتا ہوں" ۔ (صحیح مسلم/975)۔ اس طرح
کی اور بھی بہت ساری روایتیں منقول ہیں ۔
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمہ وقت
سلام بھیجنے کی بڑی فضیلت ہے اور اگر کوئی آپ کی قبرکےپاس جائے توآپ کو سلام کرے
جس کے لئے مختلف الفاظ کا انتخاب
کیاجاسکتاہے جیسے:)السلام عليك
أيها النبي ورحمة الله وبركاته ) اسی
طرح ( السلام عليك يا خليل الله وأمينه على وحيه ،
وخيرته من خلقه ، أشهد أنك قد بلغت الرسالة ، وأديت الأمانة ونصحت الأمة ، وجاهدت
في الله حق جهاده ) وغیرہ ۔ بس اتنا یا درہے کہ اس سلسلےمیں ہمارا عقیدہ یہ رہے کہ ہمارا سلام
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی اپنے فرشتوں کےذریعہ پہونچاتا ہے
جس کی کیفیت و ہی جانتاہے کیونکہ آپ اپنی وفات کے بعد اپنی برزخی زندگی میں ہیں
اورقیامت کے روز سب سے پہلے اپنی قبر سے اٹھائے جائیں گے۔
عورتوں
کو سلام کرنا:
اگر عورتوں کی جماعت ہے تو انہیں سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
لیکن عورت اگر اکیلی ہے اور سلام کرنے والا اس کے لئے محرم نہیں ہے تو (فتنہ کے خدشہ ہونے کی
صورت میں) سلام
نہ کرنا بہتر ہے، تاکہ فتنہ وغیرہ سے محفوظ رہے۔ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا مروی
ہے وہ فرماتی ہیں کہ: ہم عورتوں کے پاس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گزرے تو آپ نے ہمیں سلام کیا
۔(سنن ابی داود/5204 ، سنن ابن ماجۃ/3701 ،علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔
موبائل اور خط وکتابت میں سلام :
سلام
کی عمومی فضیلت اور ثواب کو دیکھتے ہوئے اگر کوئی اپنے کسی مسلمان بھائی کو فون کرتاہے تو اسے سلام سے ابتداء کرنی چاہئے ،اسی طرح کسی سے
خط وکتابت کرتے وقت بھی سلام سے شروع کرنی چاہئے، جیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کا طریقہ تھا۔
سلام
کے وقت مصافحہ اور معانقہ :
ملاقات کے وقت سلام کے ساتھ مصافحہ بہترین اخلاق وآداب میں سے ہے جو ایک دوسرے سے محبت کی دلیل ہے نیز اس سے مسلمانوں کے درمیان
نفرت وکراہیت کا خاتمہ ہوتا ہے ، اس کی
فضیلت میں ایک روایت ہے جس کے اندر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: " مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَلْتَقِيَانِ فَيَتَصَافَحَانِ
إِلَّا غُفِرَ لَهُمَا قَبْلَ أَنْ يَفْتَرِقَا " ۔"جب دو مسلمان آپس میں ملتے اور دونوں ایک
دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے سے پہلے ہی ان
کی مغفرت ہو جاتی ہے"۔ (رواه أبو داود (5212) وصححه الألباني في صحيح أبي داود )۔
اورحذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" إن
المؤمن إذا لقي المؤمن، فسلم عليه، وأخذ بيده فصافحه؛ تناثرت خطاياهم كما يتناثر
ورق الشجر" ۔ " جب کوئی مؤمن کسی مؤمن سے
ملتاہے اور اس سے سلام کرتاہے اور اس کا
ہاتھ پکڑ کر اس سے مصافحہ کرتاہے تو ان کے گناہ
درخت کےپتوں کےجھڑنے کی طرح جھڑتےہیں "۔ (رواه
الطبراني في الأوسط علامہ البانی نے صحیح الترغیب/2720 اور سلسلۃ صحیحۃ /526 کے اندر
صحیح کہاہے)۔
اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان مصافحہ عام تھا
،قتادہ فرماتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ : اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے اندر مصافحہ رائج تھا ؟ تو انہوں نے فرمایا:ہاں
۔(صحیح البخاری/6263) ۔
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
جب ایک دوسرے سے ملتے تو مصافحہ کرتے اور
جب سفرسے آتے تو گلے ملتے۔ (المعجم الاوسط
للطبرانی :1/37 ، علامہ البانی نے سلسلۃ صحیحۃ /2647 کے اندر اسے صحیح کہاہے)۔
ابوجحیفہ کی روایت ہے کہ جب جعفر رضی اللہ عنہ حبشہ سے واپس
آئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے معانقہ کیااور پیشانی کا بوسہ
دیا ۔(المعجم الکبیر:2/108 ، علامہ البانی نے اسے صحیحۃ/2657 کے اندر صحیح کہاہے
،جبکہ حافظ ابن حجر نے التلخیص :4/96 کے اندر اس
کے لئے بہت سارے شواہد ذکرکئےہیں )۔
اسی طرح ابویعلی
(1876) اور آجری (1715) کے اندر جابر بن عبداللہ کی روایت میں جعفر رضی اللہ عنہ
سے معانقہ کا ذکر ہے ،جسے علامہ البانی نے صحیحۃ(2657) کے اندر صحیح کہاہے۔
نوٹ : معلوم ہواکہ ملاقات کے وقت سلام کے ساتھ مصافحہ اور
معانقہ سنت ہے ۔ یہاں یہ واضح رہے کہ
صحیح احادیث کی روشنی میں مصافحہ ایک ہاتھ
سے سنت ہے، دونوں ہاتھوں سے مصافحہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔
سلام کے وقت بوسہ دینا :
سلام کے وقت بوسہ دینا جائزہے ،جیساکہ فاطمہ رضی اللہ عنہاکے بارے میں ہے کہ جب وہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس جاتیں توآپ ان کےلئے کھڑے ہوجاتےاور انہیں
بوسہ دیتے ، اسی طرح فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کے بوسہ دیتیں ۔(دیکھئے:سنن ابی
داود/5217، سنن الترمذی/3872 ،علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔ البتہ اجنبی
اورغیرمحرم عورتوں سے بوسہ اور مصافحہ یا کسی طرح کا معانقہ وغیرہ حرام ہے۔
جھک
کرسلام کرنا:
کسی کےلئے جھک کر سلام کرنا جائز نہیں ہے ،
ایک تو یہ سنت کے خلاف ہے اور دوسرے بعض کفار کی مشابہت ہے ۔ اسی طرح سلام کرتے
وقت رکوع یا سجدہ وغیر ہ کرنا شرک اکبر کے
قبیل سے ہے۔بعض معاشروں میں سلام کے وقت
جوتے نکالنے کا رواج ہے جو کہ سراسر غیر شرعی عمل ہے۔
اشارے
سے سلام کرنا:
اشارہ سے سلام کرنا یا سلام کا جواب دینا جائز نہیں ہے
کیونکہ اس کے اندر بعض کفار سے مشابہت پائی جاتی ہے نیز اس کے اندر شریعت کی
مخالفت بھی ہے کیونکہ شریعت نے ہمیں آوازکے ساتھ سلام کرنے اور اس کا جواب دینے کا حکم دیاہے ،عبداللہ
بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:"ليْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا، لَا
تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ , وَلَا بِالنَّصَارَى، فَإِنَّ تَسْلِيمَ الْيَهُودِ
الْإِشَارَةُ بِالْأَصَابِعِ، وَتَسْلِيمَ النَّصَارَى الْإِشَارَةُ بِالْأَكُفِّ"۔"وہ شخص ہم
میں سے نہیں ہے جو ہمارے غیروں سے مشابہت اختیار کرے، نہ یہود کی مشابہت اختیار
کرو اور نہ نصاریٰ کی، یہودیوں کا سلام انگلیوں کا اشارہ ہے اور نصاریٰ کا سلام
ہتھیلیوں کا اشارہ ہے"۔ (سنن الترمذی /2695 علامہ البانی نے اسےحسن کہاہے)۔
لیکن بعض مواقع اس سے مستثنی ہیں جیسے حالت نمازمیں سلام کا
جواب دینا یا دوری کی وجہ سے اگر آواز نہیں پہنچ رہی ہو تو ہاتھ سے اشارہ
کرنا بشرط زبان سے سلام کرکے اشارہ کرے
تاکہ پتہ چلے کہ ان کو سلام کیاجارہاہے۔
دوسروں کا سلام پہونچانا :
اگر کوئی کسی کو سلام پہونچانے کی وصیت اورتقاضہ کرتاہے تو
اس کےاوپر ضروری ہے کہ اسے اس کا سلام پہونچائے،کیونکہ یہ امانت کے قبیل سے ہے جس کےبارے میں اللہ
تعالی فرماتاہے: (إِنَّ اللَّهَ
يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا)۔( اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ
امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ) (النساء/58)۔
ہاں اگر کسی سےکہاجائے کہ میری طرف سے فلاں کو سلام
پہونچادو اور اس نےخاموشی اختیارکی یا
ایسا اسلوب اختیارکیا جس سے پتہ چلے کہ اس نے اسے قبول نہیں کیاہےتو اس کے اوپر
اسے پہونچانا واجب نہیں ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کےرسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:"هذا جبريل يقرأ عليك السلام"۔ عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے کہا :( وعليه السلام ورحمة اللَّه
وبركاته) (صحیح البخاری/3217 ، 6253 ، صحیح
مسلم/2447)۔
اسی طرح جبریل علیہ السلام نے خدیجہ رضی اللہ عنہاکو اپنی
جانب سے اور اللہ تعالی کی جانب سے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سلام
بھیجوایا۔(دیکھئے: صحیح البخاری/3820 ، صحیح مسلم/2432)۔
نبی کو
سلام پہونچوانا :
بہت سارے لوگ مدینہ جانے والوں کو کہتےہیں کہ اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا سلام پہونچا دینا
! قرآ ن وسنت میں اس کی کوئی اصل
نہیں ہے اور صحابہ کرام سے بھی اس کا کوئی
ثبوت نہیں ہے ۔ اور یہ خلاف واقع بھی ہے کیونکہ ہم دنیا کے جس کونے سے بھی
اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام بھیجیں
، اللہ تعالی فرشتوں کے ذریعہ آپ تک پہونچا دیتاہے اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" إِنَّ
لِلَّهِ مَلَائِكَةً فِي الْأَرْضِ سَيَّاحِينَ، يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي
السَّلَامَ "۔ زمین میں اللہ کے کچھ
فرشتے گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھے پہنچاتے ہیں"۔(سنن
النسائی /1282 ، مسند احمد/3666، علامہ البانی نے اس کی سند کو صحیح قراردیاہے)۔نیز فرمایا: "لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا، وَلَا
تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا، وَصَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي
حَيْثُ كُنْتُمْ "۔" اپنے گھروں
کو قبرستان نہ بناؤاور میری قبر کو میلا نہ بناؤ (کہ سب لوگ وہاں
اکٹھا ہوں)، اور میرے اوپر درود
بھیجا کرو کیونکہ تم جہاں بھی رہو گے تمہارا درود مجھے پہنچایا جائے گا"۔(سنن
ابی داود/2042، علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔ اس معنی کی اوربھی بہت ساری روایتیں ہیں۔
یہ ساری روایتیں اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ ہمارا سلام
دنیا کے کسی بھی گوشے سے ہو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوپہونچا دیاجاتاہے
اس لئے کسی دوسرے کوآپ کو سلام پہونچانے
کی وصیت کی کوئی حاجت وضرورت نہیں ہے۔
سلام
کرنے کے فوائد:
سلام کرنےکے بےشمار فوائد ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں :
1- شریعت کے حکم کی پاسداری۔
2 - نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اطاعت وفرمانبرداری ۔
3- مسلمانوں کے
درمیان الفت و مودت اورمحبت کوعام کرنا ۔
4 - نفرت،کینہ ،حسد
اور بغض جیسی سماجی برائیوں کومعاشرے سے ختم کرنا ۔
5 - معاشرےکےاندر اتفاق واتحاد کی داغ بیل ڈالنا۔
6 - سلام نہ کرنے والا بہت بڑا بخیل ہوتاہے، ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" إنَّ أبخلَ الناسِ من بخلَ بالسلامِ"۔ "سب سے بڑا بخیل وہ انسان ہے جو سلام کرنے میں
بخالت سے کام لیتاہے"۔(صحیح ابن حبان /4498 ،علامہ البانی نے صحیح
الجامع/1519 کے اندر اسے صحیح کہاہے)۔
7 - سلام کرنا جنت میں دخول کے اسباب میں سے ہے جیساکہ بہت
ساری روایتوں میں ہے جن کا ذکر گزرا۔
8 - سلام اور مصافحہ سے گناہ جھڑتے ہیں جیساکہ
حذیفہ، سلمان فارسی اور براء بن عازب رضی اللہ عنہم کی روایتوں میں مذکورہوا۔
9 -
تھوڑے عمل پر بہت زیاد ہ اجر وثواب ہے،عمران
بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہےوہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے "السلام علیکم" کہا، آپ نے اسے سلام کا جواب دیا، پھر وہ
بیٹھ گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کو دس نیکیاں ملیں" پھر ایک اور شخص آیا، اس نے"السلام علیکم ورحمتہ اﷲ" کہا، آپ نے اسے جواب دیا، پھر وہ شخص بھی بیٹھ گیا، آپ نے
فرمایا: "اس کو بیس نیکیاں ملیں"پھر ایک اور شخص آیا اس نے "السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ" کہا، آپ نے اسے بھی جواب دیا، پھر وہ بھی بیٹھ گیا، آپ نے
فرمایا: "اسے تیس نیکیاں ملیں"۔(سنن ابی
داود/2195 ، سنن الترمذی/2689، علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے)۔
9
- سلام کرنا ایک مسلمان بھائی کا دوسرے
مسلمان بھائی پر حق ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حَقُّ المُسْلِمِ علَى المُسْلِمِ سِتٌّ" ، قيلَ: ما هُنَّ يا رَسولَ اللهِ؟
قالَ: "إذا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عليه، وإذا دَعاكَ فأجِبْهُ، وإذا
اسْتَنْصَحَكَ فانْصَحْ له، وإذا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَسَمِّتْهُ، وإذا
مَرِضَ فَعُدْهُ وإذا ماتَ فاتَّبِعْهُ " ۔ "مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں"۔پوچھا گیا: اللہ
کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کو ن سے ہیں؟تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم اس سے ملو تو اس کو سلام کرو اور جب
وہ تم کو دعوت دے تو قبول کرو اور جب وہ تم سے نصیحت طلب کرے تو اس کو نصیحت کرو،
اور جب اسے چھینک آئے اور الحمدللہ کہے تو اس کے لیے رحمت کی دعاکرو۔جب وہ بیمار
ہو جا ئے تو اس کی عیادت کرو اور جب وہ فوت ہو جا ئے تو اس کے جنازے میں جاؤ"
۔(صحیح مسلم/2162)۔
10
- سلام کا جواوب دینا راستوں کے حقوق میں سے ایک حق ہے ، جب صحابہ کرام رضی اللہ
عنہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے
راستوں کے حقوق کے سلسلےمیں استفسار کیا تو آپ نے ارشادفرمایا:"غَضُّ الْبَصَرِ،
وَكَفُّ الْأَذَى، وَرَدُّ السَّلَامِ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَهْيٌ عَنِ
الْمُنْكَرِ" ۔ " نگاہ نیچی رکھنا، کسی کو ایذاء دینے
سے بچنا، سلام کا جواب دینا، اچھی باتوں کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں
سے روکنا"۔(صحیح البخاری/2465 صحیح مسلم/2161) ۔
اللہ
رب العزت ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور اس پر عمل کی توفیق بخشے ۔ وصلی
اللہ علی خیرخلقہ وسلم ۔
********
.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں