آخرت کی
کامیاب سوداگری
(عبدالعلیم
بن عبدالحفیظ سلفی /سعودی عرب)
ایک کامیاب
تاجر وہ ہوتاہے جو ہربیع وشراء کے وقت
اپنےنفع کی فکرکرتاہے ،اس کےلئےمناسب تدبیریں بھی اختیارکرتاہے،گھاٹے کے
کسی سوداکو یکسراگنورکرتاہے،اپنے سودامیں دینی اور دنیاوی ہر طرح کے نقص سے بچتاہے
یا بچنے کی کوشش کرتاہے ۔ جب ہم کسی سودے کی بات کرتےہیں تو ہمارے ذہن میں پہلا
خیال دنیاوی تجارت اور سودے کا آتاہے لیکن ایک مؤمن کےلئے اصل سودا آخرت کا سوداہے
، آج کی اس تحریر میں ہم ایک نہایت ہی کامیاب تاجر کے سلسلے میں چند باتیں رکھیں
گے جس نے دنیا کے مال ومتاع اورعیش وعشرت کے بدے اپنے رب سے آخرت کا بہترین سودا
کرلیا ، اس کی زندگی حق کے متلاشی کےلئے ایک نمونہ ہے، ہماری کہانی کا وہ کردار اورہیرو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم
مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ہیں جن کی شہادت پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے
قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی ::( مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ
صَدَقُوا مَا عَاهَدُوااللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ
وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا)۔ (مومنوں میں (ایسے) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ
سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا، بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض (موقعہ
کے) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی)۔
مصعب
بن عمیر بن هاشم بن عبد مناف بن عبد الدار بن قصي بن كلاب القرشی مکہ کے نہایت ہی عیش پسند اورنازونعم
میں پلنے والے نوجوان تھے اس دور کی اعلی ترین
عیش وعشرت اور آسودہ حالی والی
زندگی جیتے تھے، نفیس ترین اور قیمتی کپڑے
پہنتے،لذیذترین ، انواع واقسام کے کھانے کھاتے،سب سے بہترین خوشبوؤں کا استعمال
کرتے ، جس راستے سے ان کاگزرہوتا بعد کے آنے والے لوگوں کوخوشبو کی نوعیت سےپتا چل
جاتاکہ ادھرسے مصعب بن عمیر گزرےہیں۔ ان کی ماں کا ان کے ساتھ لاڈپیار کا یہ عالم
تھا کہ وہ سوئے ہی رہتے کہ ان کا ناشتہ ان کے سرہانے رکھ دیتی۔ یہی نازونعم اورعیش
وعشرت میں جینے والا انسان جب دنیا کو چھوڑکر آخرت کا سودا کرتاہےتوتدفین کے لئے
کپڑا بھی نامکمل پڑتاہے ۔
مکہ
میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوتی ہے دین حق کی طرف لوگوں کو دعوت
دیتےہیں، اس وقت ایمان لانے والے ایمان لاتےہیں اور انکار کرنے والے انکار کردیتے
ہیں، پھر اسلام کو سینے سے لگانےوالوں کے اوپر مصائب اورتکلیف کا دور شروع ہوتاہے
ان کوستانے اور عذاب دینے کے ہر ہر ممکن ہتھکنڈے اپنائے جاتےہیں ، بلال رضی اللہ
عنہ کو مکہ کی صحراؤوں میں ننگے بدن گھسیٹا جاتاہے سمیہ کونیزہ مارکرشہید کردیا
جاتاہے،عمارکو مارااور پیٹا جاتاہےکفریہ کلمات کہنے کےلئے مجبورکیاجاتاہے رضی اللہ
عنہم ۔ ایسے حالات میں مکہ کے اس نوجوان کا دل بدلتاہے ،دین اسلام کی حقانیت واضح
ہوجاتی ہے پھروہ اسلام لاتےہیں باوجود اس کےکہ مسلمانوں پر توڑے جارہےمصائب کے
پہاڑ ان سے مخفی نہیں تھے،ہر روز اورہرگلی میں یہ سانے واقعات اپنی ظاہری نگاہوں
سے دیکھ رہے ہیں ، ان کو احساس بھی رہاہوگا کہ ان جیسے نازونعم میں پلےبڑھے نوجوان
کے لئےجنہوں نے صرف عیش وعشرت والی زندگی ہی دیکھی ہے ان مصیبتوں کو برداشت کرنا کتنا مشکل ہوگا آنے والے حالات کا انہیں
بخوبی اندازہ ہوگا کہ یہ حالات ان کے لئےکتنا صبرآزماہوسکتاہے؟بلال وسمیہ اور
عمارجیسی پریشانیوں اورمصیبتوں کاسامنا ضرورکرنا پڑےگا۔ایسےحالات میں ان کےسامنے
دو راستے تھے :پہلا:آخرت جو باقی رہنے والی ہے اس پر دنیا کی آسائش اورزیب وزینت
کو مقدم کرتے اور عیش وعشرت کی زندگی گزارتےجس سے ان کی آخرت خراب ہوتی
۔دوسرا:دنیا کی ساری آسائشوں کو چھوڑکرآخرت کی دائمی نعمتوں کو اختیارکرتے اس سے
دنیا کی نعمتیں اور آسائشیں تو چھوٹ جاتیں لیکن آخرت کی کامیابی مل جاتی ۔مصعب بن
عمیر نے دوسرا راستہ اختیارکرکےآخرت کا بہترین سودا کرنا مناسب سمجھا ایک سمجھدار
انسان کےلئے اس سے بڑی کامیابی اور
کیاہوسکتی ہے کہ اسے اس سے اللہ کی رضاوخوشنودی حاصل ہوجائے ، بلا شبہ یہ قرار ایک
انسان کے لئے اور مضبوط اور بہادری والاہے۔
مصعب
بن عمیر بتوفیق الہی دارارقم میں اپنی ماں اور اپنی قوم کے ڈرسے خفیہ
طور پر اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔پھر جب ان کی ماں کو اس کا پتا چلتاہے تو وہ ماں
جس کی آنکھوں کا تارہ اور دل کا قراروچین تھے جن کی اپنے بیٹےسے محبت کی مثال بیان
کی جاسکتی ہے کافی تکلیف اورناراضگی محسوس
کرتی ہے کہتی ہے جب تک اسلام نہیں چھوڑدیتامیں نہ دوپٹہ لوں گی نہ سایے میں رہوں
گی نہ کھاؤں گی پیونگی اور نہ ہی بناؤ سنگار کروں گی۔ ماں باپ سے پیار کرنے والے انسان
کے لئےکتنا صبر آزما مرحلہ رہاہوگا جس کی ماں اس کی وجہ سے خودکو تکلیف دے رہی ہے
اگر مصعب چاہتےتو اسلام چھوڑکر اپنی ماں کو راضی کرلیتے لیکن اللہ کی رضا ماں سے
زیادہ اہم اورضروری تھی اور اللہ کی محبت
ماں کی محبت سے بڑھ کرتھی ۔پھر گھروالے قید میں ڈال دیتےہیں اور کھانا پینا بند
کردیتےہیں کہ جب بھوک لگے گی تو عقل ٹھکانے آئےگی اور اسلام چھوڑدےگا، پھر انہیں
قید کردیا جاتاہے۔ تصور کیجئے نازونعم میں پلابڑھا لڑکا جس نے زندگی کا سردوگرم نہ
دیکھاہوشدائد ومصائب کیسے برداشت کرسکتاہے؟ وہی انسان ایمان لانے کے بعد جب دل
ایمان سے منور ہوتاہے وہ ساری مصیبتیں اور تکلیفیں ہیچ ہوجاتی ہیں وہی مصعب جو
کبھی مکہ کا آسودہ ترین انسان تھا اب نہ لباس فاخریا فینسی کپڑے ہیں ، نہ قیمتی خوشبو ہے نہ شاندارکھاناہے اور نہ ہی کسی طرح کی آسودہ حالی ، دل میں ہے کہ رضائے الہی کی جستجومیں ایک قناعت
پسند اور صابر شاکر بندہ بن جائیں صحیح ہے جنت کی جستجو ایک سچے مؤمن کو ان
چاہےحالات سے لڑنا سکھادیتی ہے جس سے ہر مصیبت اور پریشانی میں ہمت میں مزید اضافہ ہوتاہے، اور جنت کا حصول بھی ان مصائب وپریشانیوں سے
لڑنے کے بعد ہی ممکن ہے اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "حُجِبَتِ الْجَنَّةُ
بِالْمَكَارِهِ"۔ "جنت مشکلات اور دشواریوں سے ڈھکی ہوئی ہے"(صحیح البخاری/6487 ) اور ایک روایت
میں ہے:"
حُفَّتِ
الْجَنَّةُ بِالْمَكَارِهِ"۔"جنت
گراں امور میں گھری ہوئی ہے"۔(صحیح مسلم/22)۔
ایک
روز ان کی ماں مصعب کا کھانا روک دیتی ہےاور کہتی ہےکہ جس نے میرے معبودوں کو چھوڑ
دیااسے کھانا نہیں دے سکتی گرچہ وہ اس کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو، انہیں گھرسےیہ
کہتےہوئے نکال دیتی ہےکہ میں تیری ماں نہیں رہی
اس کےباوجود مصعب کہتے ہیں میری ماں میں آپ کو نصیحت کررہاہوں آپ کی شفقت
میرے دل میں ہے آپ گواہی دیجئےکہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی لائق عبادت نہیں اور محمد
اللہ کے بندے اوراس کےرسول ہیں۔
مصعب
کی یہ حالت دیکھ کرلوگوں کو ترس آتاتھا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتےہیں
:"كان مصعب بن عمير أترفَ غلامٍ
بمكةَ بين أبويه، فلما أصابه ما أصابنا لم يقوَ على ذلك، ولقد رأيتُه وإن جلدَه
ليتطايرُ عنه تطايرَ جلدِ الحية، ولقد رأيته يتقطَّعُ به، فما يستطيع أن يمشي "۔ "مصعب بن عمیرمکہ کے اندر اپنےوالدین کےلاڈ کےساتھ بہت زیادہ عیش وعشرت
والے لڑکاتھے،جب ہماری طرح ان کے اوپر بھی مصیبت اور پریشانی آئی تو اس برداشت
کرنا مشکل ہوگیا، میں نے ان کی چمڑی کو سانپ کی کینچلی کی طرح اکھڑتےہوئے اور ان کے چمڑے کو پھٹتےہوئےدیکھاہے جس کی وجہ
سےان کےلئے چلنا دشوارہوجاتاتھا"۔(سير أعلام النبلاء :1/148)۔
لیلی
بنت ابی خثمہ رضی اللہ عنہا حبشہ کی طرف ہجرت کے واقعہ کو بیان کرتی ہوئی کہتی ہیں کہ :" مصعب بن عمیر نرم ونازک
جلدوالے شخص تھے ننگے پاؤں چلنے کےعادی نہیں تھے ، میں نے دیکھا کہ نرمی کی وجہ سے ان کے دونوں
پیروں سے خون رس رہاہےچنانچہ دیکھاکہ عامر رضی اللہ عنہ نے اپنا جوتانکال کرانہیں
دیا یہاں تک کہ ہم لوگ کشتی تک پہنچ گئے" نیز فرماتی ہیں:"میں عامر بن
ربیع کو دیکھاکہ وہ مصعب بن عمیر کےساتھ اس طرح نرمی اورترحم کا معاملہ کرتےجس طرح
کسی اور کے ساتھ نہیں کرتے "۔(دیکھئے:الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم :6/237
رقم/3469)۔
قال خبابٌ بن الأرت رضي الله عنه: " هَاجَرْنَا مع النبيِّ
صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ نُرِيدُ وجْهَ اللَّهِ، فَوَقَعَ أجْرُنَا علَى
اللَّهِ، فَمِنَّا مَن مَضَى لَمْ يَأْخُذْ مِن أجْرِهِ، منهمْ مُصْعَبُ بنُ
عُمَيْرٍ، قُتِلَ يَومَ أُحُدٍ، وتَرَكَ نَمِرَةً، فَإِذَا غَطَّيْنَا رَأْسَهُ
بَدَتْ رِجْلَاهُ، وإذَا غَطَّيْنَا رِجْلَيْهِ بَدَا رَأْسُهُ.. ومِنَّا مَن
أيْنَعَتْ له ثَمَرَتُهُ، فَهو يَهْدِبُهَا"وبنفس المعاني يتفوه عبدالرحمن بن عوف فيقول عنه ابنه أنه:
"أُتِيَ بطَعَامٍ، وكانَ صَائِمًا، فَقالَ: قُتِلَ مُصْعَبُ بنُ عُمَيْرٍ وهو
خَيْرٌ مِنِّي، كُفِّنَ في بُرْدَةٍ: إنْ غُطِّيَ رَأْسُهُ بَدَتْ رِجْلَاهُ، وإنْ
غُطِّيَ رِجْلَاهُ بَدَا رَأْسُهُ، ..ثُمَّ بُسِطَ لَنَا مِنَ الدُّنْيَا ما
بُسِطَ، أوْ قالَ: أُعْطِينَا مِنَ الدُّنْيَا ما أُعْطِينَا، وقدْ خَشِينَا أنْ
تَكُونَ حَسَنَاتُنَا عُجِّلَتْ لَنَا، ثُمَّ جَعَلَ يَبْكِي حتَّى تَرَكَ
الطَّعَامَ"۔
(صحيح البخاری/1275) ۔
ابراہیم بن عبدالرحمٰن
نے کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سامنے کھانا
حاضر کیا گیا۔ وہ روزہ سے تھے اس وقت انہوں نے فرمایا کہ ہائے! مصعب بن عمیر رضی
اللہ عنہ شہید کئے گئے ‘ وہ مجھ سے بہتر تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے صرف ایک چادر
میسر آ سکی کہ اگر اس سے ان کا سر ڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں ڈھانکے
جاتے تو سر کھل جاتا اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا اور حمزہ رضی
اللہ عنہ بھی (اسی طرح) شہید
ہوئے وہ بھی مجھ سے اچھے تھے۔ پھر ان کے بعد دنیا کی کشادگی ہمارے لیے خوب ہوئی یا
یہ فرمایا کہ دنیا ہمیں بہت دی گئی اور ہمیں تو اس کا ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ
ہو کہ ہماری نیکیوں کا بدلہ اسی دنیا میں ہم کو مل گیا ہو پھر آپ اس طرح رونے لگے
کہ کھانا بھی چھوڑ دیا۔
اسلام
لانے کےبعدمصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ آنے والی مصیبتوں اور مشکلات کی شدت کا اندازہ اس بات سےلگایاجاسکتاہے کہ
مادی اور معنوی ہر اعتبار سے انہیں اس کا سابقہ پڑا،جیسے:
1 -
مادی تکلیفیں : ہر طرح کے مالی وسائل سے آپ کو محرو م کردیا گیا جن سے اسلام لانے
سے قبل متفید ہوتےرہےتھے خاص طور سےان کی ماں کی جانب سے ساری آسائشوں کو روک
دیاگیا، حالت یہ ہوگئی کہ پہننےکے لئے ان کےپاس صرف ایک کھال تھی جو ان کے جسم
کوڈھکنے کےلئے ناکافی تھی۔
2 -
بھوک اورتکلیف سے ان کا جسم لاغرہوگیاتھا ،رنگت ماند پڑگئی تھی اور ناقابل برداشت
بھوک کی شدت سے دوچارہوتےتھے۔
3 - ذہنی اورنفسانی تکلیف سے بھی گزرنا پڑا،وہ ماں
جس سے بےانتہامحبت تھی جو ان پر ہمیشہ اپنالاڈ پیارنچھاور کرتی رہی تھیں ان کے
اسلام لانے کے بعد خود کو تکلیف دینا شروع کردیا اس ضد میں کہ وہ اسلام سے برگشتہ
ہوجائیں دھوپ میں کھڑی رہتی۔
4 -
بھائیوں کی طرف سے قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑی۔
5 -
اسلام لانے کی پاداش میں اپنا گھرباراورشہروملک چھوڑکےدیارغیر حبشہ کی طرف بلا
سازوسامان کےہجرت کرنے پر مجبورہونا پڑا۔
یہ
ساری تکلیفیں اور پریشانیاں ایک کمزورایمان مسلمان کے قدم میں تزلزل پیدا کرنے کے
لئے کافی تھیں لیکن مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جیسا مضبوط ایمان والے صحابی کے قدم
ایک لمحہ کو بھی نہیں ڈگمگائے۔
پھرحبشہ
سے واپسی ہوتی ہےاورکچھ دن مکہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنےکے
بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ کے مسلمانوں کی تعلیم اور
وہاں اسلام کی دعوت کی ذمہ داری نبھانے کےلئےمکلف کیاجسے انہوں نےبحسن وخوبی انجام
دیا اور مدینہ کو اسلام کا گہوارہ بنانےمیں
اہم کردار اداکیایہاں تک کے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے
مدینہ پہنچ گئے۔
سنہ 2
ہجری میں بدرکا معرکہ پیش آتاہے جو کفار ومشرکین کے درمیان ایک عظیم معرکہ کے طور
پر پہچانا جاتاہے، جس کے اندرمٹھی بھر مسلمانوں نے بےمثال شجاعت وجوانمردی کی
مثالیں پیش کی، اس عظیم معرکے میں مہاجرین کےعلم برداری کا سنہری موقع جس خوش نصیب
کےحصے آیا وہ یہی مصعب بن عمیر ہیں اور
انہوں نے پوری جوانمردی اور بہادی وشجاعت کے ساتھ اس کا پوراپورا حق بھی
اداکیا،کیونکہ جانتےتھے کہ عرب کے جنگ باز قوم میں جھنڈا کی کیااہمیت ہوتی ہے، اور
انہیں اس کا بھی علم تھا کہ دوران جنگ علم برداری کن خطرات سے گھراہوتاہےکیونکہ
دشمن کا ہرنشانہ وہی جھنڈا ہوتاہے جس کا جھکناجنگ کے رخ کو یکسر پلٹ سکتاہے ،
لیکن ان کی اور دیگر تمام صحابہ کرام کی شجاعت وبہادری اور ایمان ویقین کی طاقت
نےانہیں ایسی فتح نصیب فرمائی جسے دنیاقیامت تک یاد رکھے گی ۔
جنگ
بدر کے ٹھیک ایک سال بعد ہی احد کا معرکہ پیش آتاہے، اس معرکے میں بھی علم برداری
کی اہم ذمہ داری مصعب بن عمیر کے حصے میں آتی ہے۔ یہاں حالات بدر کے مقابلے میں
کچھ اور تھے ،بعض غلطیوں گی وجہ سے دوران جنگ مسلمانوں کو وقتی ہزیمت اٹھانی پڑتی
ہے ، مسلمان انتشارکا شکارہوجاتےہیں ، ان حالات میں بھی مصعب بن عمیر کمال بہادری اور ثبات قدمی کا ثبوت
دیتےہوئے جھنڈا کو تھامے ہوئے میدان میں ڈٹےرہے یہ وہ لمحات تھے جن میں اسلام کا
دفاع کرتےرہے اور اپنے محبوب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے والے
تیروں کو روکتےرہے،یہاں تک ابن قمیئہ نے ان پر حملہ کردیا اور ان کے داہنے ہاتھ
کوکاٹ دیا ، پھر بھی انہوں نے جھنڈے کو بائیں ساتھ سے سنبھال لیا ابن قمیئہ نے
دوسری بار حملہ کرکےان کا بایاں ہاتھ الگ کردیا ان حالات میں بھی اس عظیم بہادرنے اپنے دونوں بازؤوں کو یکجا
کرکے جھنڈے کو سنبھال لیا جب تک جان میں جان رہی علم جھکنے نہیں دیا پھر ابن قمیئہ
نے تیر ان کے سینے میں مارا جس سے وہ شہید
ہوکر زمین میں گرگئے۔ شہادت بھی ہوتی ہے صرف چالیس سال کی عمرمیں۔ آخرت کا یہ
سوداگرایک نیک اوربہادرسپاہی کی طرح لڑتے ہوئےاپنےمنافع کے ساتھ اپنے رب کو لبیک
کہہ گیا۔ اورآج ان کی سوداگری نے اپنا کمال دکھایا تجارت کا ایسا نفع جس کی خواہش دنیا کا ہر صاحب ایمان کرتاہے تمام
خوشیوں کو بیچ کر اور تمام عیش وآرام کو نیلام کرکےاللہ کی راہ میں جو تکالیف اور
پریشانیاں برادشت کرتے ہوئے جو آخرت کا سوداکیاتھا ان کے لئے اس کا فائدہ بٹورنے
کا دن آچکاتھا۔ اس سودا میں مصعب بن عمیرکو جومنافع حاصل ہوئے وہ مختلف الجہات ہیں
:
- بدری
صحابی کا تمغہ ملا جن کی فضیلت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشادفرمایا:"لعَلَّ
اللَّهَ عزَّ وجلَّ اطَّلَعَ علَى أهْلِ بَدْرٍ فَقالَ: اعْمَلُوا ما شِئْتُمْ
فقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ
"۔"اللہ
تعالیٰ نے بدر والوں کو جھانکا اور فرمایا کہ تم جو اعمال چاہو کرو میں نے تمہیں
بخش دیاہے"۔(صحیح البخاری/4890 ، صحیح مسلم/2494)۔
- دین
کی راہ میں ابتلاء وآزمائش میں صبر اور عزم وحوصلہ کا ثواب۔
-
اللہ اور اس کےرسول کی محبت کانذرانہ ۔
- اللہ کی راہ میں دو دو مرتبہ ہجرت ۔
- رسول
اللہ کی طرف دعوت توحید کی ذمہ داری ۔
- دو
دو معرکوں میں علم برداری کا شرف ۔
- اللہ
کی راہ میں شہادت کا اعزاز ۔
- مصعب بن عمیراحدکے ان شہداء
میں شامل ہیں جن کے بارے میں عبداللہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہداء احد کے پاس تشریف لائے تو فرمایا کہ:" أشْهَدُ على هؤلاء ما مِن مَجْروحٍ جُرِحَ في اللهِ،
إلَّا بَعَثَه اللهُ يومَ القِيامةِ وجُرْحُه يَدْمَى، اللَّونُ لَونُ الدَّمِ،
والرِّيحُ ريحُ المِسْكِ"۔ " میں ان کے متعلق گواہی دیتا ہوں کہ جو شخص اللہ کے راستہ میں
زخمی ہوا تو قیامت کے دن اللہ اسے اس حال میں اٹھائے گا کہ اس کے زخم سے خون رس
رہا ہوگا جس کا رنگ تو خون کا ہوگا لیکن مہک اس کی مشک جیسی ہوگی"۔(مسنداحمد/23658) ۔
- مدینہ
کے اکثر انصار ان کے ہاتھوں پر مشرف باسلام ہوئے اس کا ثواب تو ان کو ملےگا ہی اس
کے علاوہ دنیاکےمختلف گوشوں میں ان انصارکےہاتھوں اسلام قبول کرنےوالےلاکھوں افراد
کے اسلام کاثواب بھی ان شاء اللہ ان کو ملےگا۔
یہ وہ
منافع ہیں جومصعب بن عمیر نے اپنی سب سے بہترین تجارت میں حاصل کئےیہ تجارت کوئی
دنیوی تجارت نہیں تھی بلکہ کامیاب اخروی تجارت تھی جو کبھی ناکام نہیں ہوتی جس کے اندر کبھی گھاٹا
نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات قیامت تک اس کے منافع جاری رہتےہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں
مصعب الخیر کے لقب سے موسوم کیاجاتاہے ، ان کےتجارت کی قیمت بھی بہت بڑی ہے ان کا
ذکر خیر قیامت تک منبرومحراب اور قرطاس وقلم کے ذریعہ ہوتارہےگا ۔رضی اللہ عنہ
وارضاہ۔
*****
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں