منگل، 7 جنوری، 2025

جاہلیت کے کچھ رسوم واعمال جو اب بھی اس امت میں موجودہیں

 

جاہلیت کے  کچھ رسوم واعمال  جو اب بھی اس امت میں موجودہیں

عبدالعلیم بن عبدالحفیظ (سعودی عرب)

جاہلیت سے مراد:

زمانہ جاہلیت سے مراد قبل از اسلام کا  دورہے جب اہل عرب شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھے۔ اس طرح جاہلیت کے دور کے اعمال سے مراد اس دورکے  وہ رسوم  وعادات جنہیں اسلام نے آکر ختم  کی  اور ان کی حرمت وکراہت کا بیان کیا ۔واضح رہے کہ جاہلیت  کا مصطلح  گرچہ عرب سے نکلاہے لیکن صرف ان کے لئے خاص نہیں ہے بلکہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل کے تمام شعوب وقبائل  کو دینی   ،تمدنی   اور تہذیب وثقافت ہر اعتبار سے شامل ہے ۔

دورجاہلیت کے رسوم اوراعمال وعادات کا ذکرقران مجید میں کئی جگہ بیان کیاگیاہےجیسے:اللہ تعالی فرماتاہے:(يَظُنُّونَ بِاللّهِ غَيْرَالْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ  يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الأَمْرِ مِن شَيْءٍ)۔(آل عمران/154)۔

 اور ایک جگہ فرماتاہے: ﴿أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ) ۔ (المائدہ/509)۔

اور جاہلی حمیت کا ذکر کرتےہوئے فرماتاہے: ﴿إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا﴾ ۔ (الفتح /26) ۔

اورامہات المؤمنین رضی اللہ عنھن کواپنی عصمت کی پاکیزگی اور اس کی حفاظت کا حکم دیتےہوئے فرماتاہے:(وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآَتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا﴾ ۔ (الاحزاب/33)۔

جاہلیت کے امورکا ذکر کرتےہوئے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے  مسلمانوں کےسب سے بڑے  اجتماع  میں عرفہ کے روز میدان عرفات میں حاجیوں کے درمیان کھڑے ہوکر فرمایا :"أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِالْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ، وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ... وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ"۔ "زمانہ جاہلیت کی ہر چیز میرے دونوں پیروں کے نیچے رکھ دی گئی (یعنی ان چیزوں کا اعتبار نہ رہا) اور جاہلیت کے خون بے اعتبار ہو گئے اوراسی طرح زمانہ جاہلیت کا سود سب چھوڑ دیا گیا (یعنی اس وقت کا چڑھا سود کوئی نہ لے)"۔ (صحیح  مسلم/1218)۔

 ذیل  کی سطور میں ہم جاہلیت کے چندرسوم وعادات کو ملاحظہ کریں گے جن سے اسلام نے نہایت ہی سختی سے منع فرمایا ہے لیکن پھر بھی کم یازیادہ  اس امت کے اکثر لوگ ان کی گرفت میں ہیں ۔اس کے باوجودکہ اللہ تعالی نے اسے خیرامت قرار دیتےہوئے امربالمعروف اورنہی عن المنکرکے صفات سے متصف قراردیکر دیگر امتوں سے ممتازکیاہے،اللہ تعالی فرماتاہے: ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ(تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو )۔(آلِ عِمْرَانِ/ 110)۔

  بتوں کی عبادت وپرستش :

یہ جاہلیت کے شدید ترین اعمال میں سے ایک ہے اسی میں قبروں کی عبادت اور اللہ کو چھوڑکرمردوں سے فریاد بھی  شامل ہے، یہ جاہلیت کا عمل بہت سارے مسلم ممالک میں بھی پھیلاہواہے،بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےتو اس بات کی بھی خبردی تھی کہ جزیرۃ العرب میں بھی بتوں کی عبادت لوٹ کرآئےگی جو کہ منبع وحی ، رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی جائےپیدائش اور رسالت کاگہوارہ ہے ،چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلَيَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ حَوْلَ ذِي الْخَلَصَةِ، وَكَانَتْ صَنَمًا تَعْبُدُهَا دَوْسٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ بِتَبَالَةَ» "قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ(دوران طواف)  دوس کی عورتوں کے سرین، ذوالخلصہ کے ارد گرد منکیں گے۔" وہ (ذوالخلصہ) تبالہ میں ایک بت تھا، جاہلی دور میں قبیلہ دوس اس کی پوجا کیاکرتا تھا۔ (صحیح البخاری/7116 ، صحیح مسلم/2906)۔

اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"لَا يَذْهَبُ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ حَتَّى تُعْبَدَ اللَّاتُ وَالْعُزَّى  "رات اور دن اس وقت تک ختم نہ ہوں گے جب تک لات اور عزیٰ (جاہلیت کے بت) پھر نہ پوجے جائیں گے"۔ (صحیح مسلم/2907)۔

جاہلیت کے چار امور:

جاہلیت کے جن امورکےبارےمیں اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی اور جن پراس امت کے کچھ لوگ باقی بھی رہیں گے ان کا ذکر ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے وہ فرماتےہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:"أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لَا يَتْرُكُونَهُنَّ: الْفَخْرُ فِي الْأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِي الْأَنْسَابِ، وَالْاسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُومِ، وَالنِّيَاحَةُ"۔"میری امت میں جا ہلیت کے کا موں میں سے چار باتیں (موجود) ہیں وہ ان کو ترک نہیں کریں گے حسب ونسب  (باپ داداکے اصلی یا مزعومہ کا ر ناموں) پر فخر کرنا (دوسروں کے) نسب پر طعن کرنا ستاروں کے ذریعے سے بارش مانگنا اور نوحہ کرنا"۔(صحیح مسلم/934)۔

یہ حدیث نبوت کی علامتوں میں سے ایک ہےکیونکہ یہ چاروں امورآج بھی اس امت میں باقی ہیں باپ دادا اور حسب ونسب پرفخر اکثر معاشرے میں موجودہے، یہاں تک کہ اس کی وجہ سے کئی بارلڑائی جھگڑوں کی نوبت تک آجاتی ہے۔ اسی طرح حسب ونسب کولعن طعن اور استخفاف و تحقیرجوآج بھی قبائل اور سوسائٹی میں اختلاف ونزاع کے وقت دیکھاجاسکتاہے۔ اسی طرح ستاروں اور نچھتر   کی وجہ سے  بارش کےہونے کا عقیدہ اور  کسی کے مرنے پر نوحہ خوانی وغیرہ بھی اس امت کے  بعض حلقوں میں پورے طور پر موجودہیں ۔

 سود خوری اور دھوکا کےساتھ بیع وشراء  وغیرہ  :

  جاہلیت کے امور میں سے سود خوری اور دھوکا کےساتھ بیع وشراء اور ان سے متعلق تمام معاملات  بھی ہیں ،چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہےکہ :"كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَتَبَايَعُونَ لُحُومَ الْجَزُورِ إِلَى حَبَلِ الْحَبَلَةِ، قَالَ: وَحَبَلُ الْحَبَلَةِ أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ مَا فِي بَطْنِهَا، ثُمَّ تَحْمِلَ الَّتِي نُتِجَتْ، فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ"۔" زمانہ جاہلیت کے لوگ "حبل الحبلة" تک قیمت کی ادائیگی کے وعدہ پر، اونٹ کا گوشت ادھار بیچا کرتے تھے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ :"حبل الحبلة" کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حاملہ اونٹنی اپنا بچہ جنے پھر وہ نوزائیدہ بچہ (بڑھ کر) حاملہ ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی خرید و فروخت ممنوع قرار دے دی تھی"۔( صحیح البخاری/3848، صحیح مسلم/1514)۔

یعنی کوئی چیز اس شرط پر ادھاربیچتاہے کہ اس کی قیمت اس وقت اداکرےگا جب اونٹنی کوبچہ ہو اوربڑی ہوکر اس کو بھی بچہ ہو۔ یا یہ مراد ہےکہ : اونٹنی جو کچھ بھی جنےگی اس کو بیچ دینا، یہ خرید وفروخت کی جو معدوم یا مجہول کی بیع کی  قسم ہے ۔ یایہ مرادہےکہ نامعلوم وقت تک کے لئے بیچاجائے، ان میں سے ہرایک شرعا ممنوع ہے کیونکہ اس کےاندر غرر اور دھوکاہےنیز اس کی وجہ سے لڑائی جھگڑے تک کی نوبت آجاتی ہے ۔

غیراللہ کی قسم کھانا  :

غیراللہ کی قسم کھانا  بھی جاہلیت کے اعمال میں سے ہے ، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنھماسے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"أَلَا مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلَا يَحْلِفْ إِلَّا بِاللَّهِ، فَكَانَتْ قُرَيْشٌ تَحْلِفُ بِآبَائِهَا فَقَالَلَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ" ہاں! اگر کسی کو قسم کھانی ہی ہو تو اللہ کے سوا اور کسی کی قسم نہ کھائے   ،قریش اپنے باپ دادا کی قسم کھاتےتھے تو فرمایا : "اپنے باپ داد کی قسم نہ کھا‌ؤ" ۔(صحیح البخاری/3836،صحیح مسلم/1646)۔

ایک مرتبہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہمانے ایک آدمی کو "لَا وَالْكَعْبَةِ" یعنی کعبہ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ : میں نے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:"مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ أَشْرَكَ"۔"جس نے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھائی تو اس نے شرک کیا"۔ (سنن ابی داود/3251 ، سنن الترمذی /1535، علامہ البانی نے اس کی تصحیح کی ہے) ۔

غیراللہ کی قسم بہت سارے مسلم معاشرےمیں عام ہے،جیسے : تیری قسم ، تیری زندگی کی قسم ،باپ داد کی قسم ، کسی کے سر کی قسم  ، میری قسم کھاؤ اور اس کے ساتھ یہ عقیدہ بھی رکھا جاتاہے کہ اگر کسی کی جھوٹی قسم کھاتاہے تو اسے نقصان ہوسکتاہے یا اس کی موت بھی ہوسکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

گود لینے کا مروجہ طریقہ :

جاہلیت کے اعمال میں سے گودلینے کا مروجہ طریقہ بھی ہے جس کے اندر گودلئے ہوئے بچےکوایسے آدمی کا بیٹابنادیاجاتاہے جوکہ اس کا اصلی باپ نہیں ہے ،یہ چیزجاہلیت میں بھی موجود تھی ،زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کوجاہلیت کے دورمیں گود لینے کی وجہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ان کی نسبت کی جانے لگی تو اللہ تعالی نے اس کی حرمت نازل کرتے ہوئے فرمایا:(وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ * ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ(تمہارے لے پالک لڑکوں کو (واقعی) تمہارے بیٹے  نہیں بنایا ہے، یہ تو تمہارے اپنے منھ کی باتیں ہیں اللہ تعالیٰ حق بات فرماتا ہےاور وه (سیدھی) راه سجھاتا ہے اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہےلے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ ۔ پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو وه تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں)۔( الْأَحْزَابِ: 4-5)۔

آدمی جب کسی یتیم یا نامعلوم بچے کو گود لیتاہےاور اس کی تربیت کرتاہےتو اس پروہ اجروثواب کا مستحق ہوتاہے لیکن غلطی تب ہوتی ہے جب اس کی نسبت اس کی طرف کی جانے لگتی ہے یا گھرکی عورتوں کےلئے اسے محرم کی حیثیت دی جانےلگتی ہےجبکہ وہ محرم ہے ہی  نہیں نہ حسب ونسب کی بنیاد پر اورنہ ہی رضاعت کی بنیاد پر۔

خاندانی عصبیت:

دورجاہلیت کے اعمال میں سے غیرشرعی خاندانی اور قبائلی  عصبیت بھی   ہے  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِّيَّةٍ يَغْضَبُ لِعَصَبَةٍ، أَوْ يَدْعُو إِلَى عَصَبَةٍ، أَوْ يَنْصُرُ عَصَبَةً، فَقُتِلَ، فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ اور جو شخص اندھے تعصب کے جھنڈے کے نیچے لڑا، اپنی عصبیت (قوم، قبیلے) کی خاطر غصے میں آیا یا اس نے کسی عصبیت کی طرف دعوت دی یا کسی عصبیت کی خاطر مارا گیا تو (یہ)جاہلیت کی موت ہو گی" ۔(صحیح مسلم/1848)۔

امیرکی اطاعت اورمسلمانوں کی جماعت سے نکلنا:

 دورجاہلیت کے اعمال میں سے مسلمانوں کی جماعت سے دوری  اور امیر کی اطاعت سے نکلنا بھی ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا فَكَرِهَهُ فَلْيَصْبِرْ، فَإِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ يُفَارِقُ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَيَمُوتُ، إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً"۔ "جس نے اپنے امیر میں کوئی برا کام دیکھا تو اسے صبر کرنا چاہئے کیونکہ کوئی اگر جماعت سے ایک بالشت بھی جدا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا"۔ (صحیح البخاری/7143، صحیح مسلم/1849)۔

اوراللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ فَمَاتَ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً"۔ "جو شخص (امامِ وقت کی) اطاعت سے نکل گیا اور جماعت چھوڑ دی اور مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا (صحیح مسلم/1848)۔

یہ جاہلیت کی وہی حمیت ہے جس کے بارے میں اللہ  تعالی نے ارشاد فرمایا:(إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ ۔(جب کہ ان کافروں نے اپنے دلوں میں حمیت کو جگہ دی اور حمیت بھی جاہلیت کی ) (الْفَتْحِ: 26) ۔

تعبد بالصمت :جاہلیت کے امور میں سےتعبد بالصمت ہے (یعنی بطورعبادت خاموش رہنا) ، قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ قبیلہ احمس کی ایک عورت سے ملے ان کا نام زینب بنت مہاجر تھا۔ آپ نے دیکھا کہ وہ بات ہی نہیں کرتیں دریافت فرمایاکہ  کیا بات ہے یہ بات کیوں نہیں کرتیں؟ لوگوں نے بتایا کہ  انہوں نے مکمل خاموشی کے ساتھ حج کرنے کی منت مانی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا:  اے بات کرو اس طرح حج کرنا تو جاہلیت کی رسم ہے، چنانچہ اس نے بات کی ۔(صحیح البخاری/3834)۔

اس لئے کہ عبادتا خاموشی سےزبان کواللہ کے ذکرسے روک دیاجاتاہے۔ 

جاہلیت کے رسوم ورواج کو عام کرنا:

جاہلیت کے برے اعمال میں سے ایک جاہلیت کے رسوم ورواج کو عام کرنا ہے جوکہ اللہ کےغضب کا سبب بنتاہے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:"أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ ثَلَاثَةٌ: مُلْحِدٌ فِي الْحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَمُطَّلِبُ دَمِ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقٍّ لِيُهَرِيقَ دَمَهُ"۔"اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں (مسلمانوں) میں سب سے زیادہ مبغوض تین طرح کے لوگ ہیں۔ حرم میں زیادتی کرنے والا، دوسرا جو اسلام میں جاہلیت کی رسموں پر چلنے کا خواہشمند ہو، تیسرے وہ شخص جو کسی آدمی کا ناحق خون کرنے کے لیے اس کے پیچھے لگے"۔(صحیح البخاری/ 6882)۔

- اللہ کے قانون کوچھوڑکرغیراللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ :جاہلیت کے اعمال میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ کے نازل کردہ قانون کوچھوڑکر غیراللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ کیاجائے، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے:  ﴿أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ﴾ ۔ (کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے واﻻ کون ہوسکتا ہے؟ ) ۔(الْمَائِدَةِ/ 50)۔

اللہ سے بدگمانی :

جاہلیت کے اعمال میں سے اللہ تعالی کے تئیں بدگمانی پیدا کرنا بھی ہے وہ بدگمانی   پریشانیوں کے وقت مدد ، جان ومال کی حفاظت ، روزی ، وعدووعید، ثواب وعذاب سے متعلق ہوخواہ کسی دوسرے معاملے سےمتعلق ، اللہ تعالی منافقین کے بارےمیں ذکرکرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے : ﴿يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ وه اللہ تعالیٰ کے ساتھ ناحق جہالت بھری بدگمانیاں کر رہے تھے )۔(آلِ عِمْرَانِ/ 154)۔

عورتوں کابےپردہ نکلنا:

جاہلیت کے اعمال میں سے عورتوں کابےپردہ نکلنا بھی ہے جس سے اللہ تعالی نے منع فرمایاہے وہ فرماتاہے:﴿وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى ) ۔(اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اﻇہار نہ کرو) ۔(الْأَحْزَابِ/ 33)۔

-فاقہ کےڈر سے اولاد کو مارنا:

جاہلیت کے اعمال میں عار یا محتاجی کے ڈرسے بیٹیوں کو مار ڈالنا بھی ہے ، اللہ تعالی فرماتاہے :﴿وَكَذَلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍمِنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُواعَلَيْهِمْ دِينَهُمْ۔ (اور اسی طرح بہت سے مشرکین کے خیال میں ان کے معبودوں نے ان کی اوﻻد کے قتل کرنے کو مستحسن بنا رکھا ہے تاکہ وه ان کو برباد کریں اور تاکہ ان کے دین کو ان پر مشتبہ کردیں )۔ (الْأَنْعَامِ/ 137) ۔

نیز فرماتاہے: ﴿وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ * بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ۔(اور جب زنده گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا کہ کس گناه کی وجہ سے وه قتل کی گئی؟ )۔(التَّكْوِيرِ/ 8-9)۔

اور اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ: عُقُوقَ الْأُمَّهَاتِ، وَوَأْدَ الْبَنَاتِ، وَمَنْعًا وَهَاتِ" ۔ "بلاشبہ اللہ عزوجل نے تم پر ماؤں کی نافرمانی، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے اوردوسرے کے حقوق دبانے اور جو اپنا نہیں اسے حاصل کرنےکو حرام کیا ہے "۔ (صحیح مسلم/593)۔

کاہن ونجومی کے پاس جانا:

جاہلیت کے اعمال میں سے کاہن ونجومی کے پاس جانا اور ان سے کسی چیزکےبارے میں سوال کرنا بھی ہے معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کچھ کا م ایسے تھے جو ہم زمانے جاہلیت میں کیا کرتے تھے ہم کا ہنوں کے پاس جا تے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "فَلَا تَأْتُوا الْكُهَّانَ""تم کا ہنوں کے پاس نہ جا یا کرو"۔ (صحیح مسلم/537)۔

اس زمانے میں بھی دیکھیں گے کہ اس طرح کے مستقبل کی خبریں دینے کا دعوی کرنے والے لوگ ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں یہاں تک کہ ٹیلی ویزن پر بیٹھ کر اور انٹرنیٹ اور دیگر مختلف ذرائع کو استعمال کرکے لوگوں کو دھوکا دیتےہیں جھوٹ پر جھوٹ بول کر لوگوں کے ایمان سےکھلواڑکرتےہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً"۔"جو شخص کسی غیب کی خبر یں سنا نے والے کے پاس آئے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھے تو چالیس راتوں تک اس شخص کی نماز قبول نہیں ہوتی(صحیح مسلم/2230)۔ 

اللہ تعالی ہمارے ایمان اوراسلام کی حفاظت فرمائے اور جاہلیت کے ہر طرح کے امورسے  دور رکھے۔ آمین یا رب العالمین وصل وسلم علی خیر خلقک ونبیک محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین ۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

 

************

کوئی تبصرے نہیں: