مجنونِ لیلی اورمجنونِ لبنی (ایک تجزیاتی مطالعہ)
عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی
برصغیر
خواص طور سے اردو دنیامیں مجنوی عشق ومحبت
کی کہانیاں معروف اور متداول ہیں ، اس پر بے شمار فیچرس ، ڈرامے ، افسانےتراشےگئے
ہیں اور اس موضوع سےمتعلق فلمیں بنائی
گئی ہیں اور خاص طور سے برصغیر میں ان سے
متعلق کہانیوں سے بچے،جوان اور بوڑھے سب واقف ہیں ، بلکہ بعض حلقات میں لیلی مجنوں
کے عشق وجنون کوبطور تمثیل پیش کیا جاتاہے
، اس کے برخلاف دنیائے عرب میں ان کی
معروفیت جنون کی حد تک عشق و محبت والی
شاعری اور انشغال بالادب کی حیثیت
سے ہے۔ یہ عرب میں مجنون لیلی سے معروف ہے
۔ اس کے علاوہ ایک دوسرا مجنوں بھی عرب میں
خاص طور سے ادبی حلقوں میں بلند پایہ
اور کہنہ مشق شاعر
کی حیثیت سے کافی معروف ومشہورہے جسے مجنون لبنی کہاجاتاہے ۔قابل ذکر
بات یہ ہے کہ ان دونوں مجنونوں کو متیم
شعراء کے زمرے میں ذکر کیا جاتاہے۔
سطور ذیل میں ہم ہر
دو مجنوں کے جنون اورادب پاروں کے سنگ چند لمحے گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی دل لگی او ر اس کے انجام سے واقفیت حاصل کرتے ہیں ۔
دونوں مجنونوں میں
مماثلت :
اتفاقی طور پر دونوں مجنونوں میں چند مماثلتیں پائی جاتی ہیں ، جیسے:
دونوں کا نام قیس ہے ۔
دونوں شاعر ہیں قصیدہ خوانی دونوں کا مشغلہ رہاہے ۔
دونوں کو شَاعِرٌ مُتَيَّم کہاجاتاہے،) یعنی ایسا شاعر جو عقل
وخرد سے بیگانہ اسیر عشق ہو )۔
دونوں حقیقت میں پاگل نہیں تھے لیکن جنون کی حد تک محبت کرنے کی
وجہ سے مجنوں کہلائے ۔
دونوں کا دور اسلامی دور ہے ، اموی عہد میں گزرے ہیں ۔
دونوں کے اشعار تغزل اور شوق کے باب میں اعلی درجے کےہیں ۔
دونوں کی موت حالت
فرط غم میں اپنوں سے دور ہوئی۔
دونوں کا عشق اپنی ہم
جولی سے بچپن کی سنگت کا نتیجہ رہا۔
دونوں میں چندباتوں کافرق :
دونوں میں چند اعتبار سے کافی فرق ہے ،جیسے:
لیلی کے مجنوں کے سلسلے میں اختلاف ہے کہ اس کا وجود
حقیقی ہے یا فرضی ۔
لبنی کے مجنوں کو اس کا پیار ملا اور اس سے اس کی شادی بھی
ہوئی اور پھر طلاق بھی ہوگیا جبکہ لیلی کا مجنوں وصال یار سے
محروم رہا اور ہجر اس کا مقدربنا ۔
لیلی اور اس کے مجنوں
کی کہانیاں عرب سےنکل کر باقی دنیا کے
لئے ضرب المثل بن گئیں جبکہ لبنی اور اس
کے مجنوں کی کہانیاں عربی ادب کی دنیا تک
محصور رہیں ۔
مجنون لیلی قیس بن ملوح کی معشوقہ لیلی معمولی قد کاٹھ کی دبلی پتلی اور سانولی رنگت والی تھی جبکہ مجنون
لبنی قیس بن ذریح کی معشوقہ لُبنی لمبے قد کی، خوب صورت، نرم گفتار اور شستہ زبان والی نرم گو عورت تھی ۔
لیلی کا مجنوں (قیس
بن ملوح) :
یہ اموی دور کاغزل گوئی کا نہایت ہی معروف شاعرتھا ، اس کی ولادت سنہ 24 ہجری میں نجد کے
علاقے میں ہوئی یہ دور جس میں اس کی زندگی گزری خلیفہ مروان بن الحکم اور عبدالملک
بن مروان کا تھا اس کی پرورش عرب کے دیہاتوں میں ہوئی اسے ابن الملوح کہا جاتاہے اور اپنی چچا زاد لیلی بنت سعدسے بے انتہاء محبت کرنے کی وجہ
سے مجنون لیلی کے لقب سے معروف ہوا ۔
اس کا نام قیس بن معاذ تھا اور قیس بن الملوح کے نام سے معروف تھا ، ایک قول کے مطابق اس کا پورا نام قيس بن الملّوح بن مُزَاحم بن قيس بن عديّ بن ربیعۃ
بن جعدة بن كَعْب ابْن ربیعہ بن عَامر بن صعصعۃ العامری تھا اور بعض نے اس کا
نام مہدی بھی ذکرکیاہے۔ اس کا تعلق بنی جعد بن صعصعہ سے تھا۔ بعض روایات میں اس کا
تعلق بنی عقیل بن کعب بن ربیعہ سے ذکرکیاگياہے۔(ابوالفرج الاصفہانی نے اس کے
اختلاف اسم سے متعلق اپنی کتاب الاغانی کے اندرذکرکیاہے)۔
یہ بھی کہاجاتاہے کہ بنوعامرجس سےقیس کاتعلق تھااس کااصل
وطن سعودی
عرب کے حالیہ شہرخِرمہ اور رَنِیّہ میں نجد اور حجاز کے درمیان سرحدی علاقہ تھا۔اور اس کی معشوقہ لیلی (جو اس کی چچازاد بہن تھی )
کا تعلق ریاض سے قریبا تین سو کلو میٹر
جنوب میں واقع محافظہ الافلاج سے تھا جو
ایک زراعتی علاقہ ہے جس کا نام وہاں
موجود پانی کی کثرت کی وجہ سے پڑا کیونکہ
افلاج فلج کی جمع ہے جس کا معنی
چشموں سے خود بخود جاری پانی کا
ہوتاہے ۔ اس محافظہ کا مرکزی شہر لیلی
الافلاج ہے جس کا نام قیس کی اسی معشوقہ لیلی العامریہ کے نام پر پڑا ہے ۔(تاریخ الافلاج وحضارتھا لعبداللہ آل مفلح الجذالین /ص48)
قبیلہ بنو عامرمیں
قیس بن الملوح کے علاوہ کئی ایک
نامور شعراء پیدا ہوئےہیں جن میں مشہوراصحاب السبع المعلقات میں سے ایک لبید بن ربیعہ
عامری ، عامر بن طفیل، الراعی النُمَيری (أبو جندل عُبَيد بن حُصين بن معاويہ بن جندل النميری، اور خاتون شاعرہ لیلى اخیلیہ، (ليلى
بنت عبد الله بن الرحال بن شداد بن كعب أخيليہ جس کی وفات قریبا 80 ھ میں ہوئی ) اور خود قیس کی معشوقہ
لیلی عامریۃ ۔
یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ برصغیرمیں لیلی مجنوں کے رومانی
افسانوں میں پورے شدومدکے ساتھ ذکرکیاجاتاہے کہ مجنوں یعنی قیس کا تعلق یمن سے تھا
، اس کی حقیقت کہاں تک ہے ؟ اس کا فیصلہ
قارئین پرچھوڑتاہوں ہو سکتاہے ان کے نزدیک
کچھ اور تحقیق ہویا پھر اس وقت کے جغرافیائی
حالات کس حد تک ان کے دعوے کی تائید
کرتےہیں لائق مطالعہ ہے ۔ ویسے میں نے بعض
یمنی برادران سے اس سلسلےمیں سوال کیاتو انہوں نے یمن سے اس کے تعلق کا سرے سے انکار کیا اور
جنوب عسیر سے اس کا تعلق بتایا جو ماضی میں شاید اہل یمن کے زیرتسلط آتا ہو
کیونکہ معروف اور بڑے عرب قبائل میں سے ایک قبیلہ ازد کا وہاں
تسلط رہاہے جس کا
موطن اصلی یمن تھا ۔
یوں تو مجنوں کےوجود یا اس کےعشق کی کہانی کےبارے میں بہت
سارے لوگ کہتےہیں کہ اس کا قصہ قصۂ
مستعارہے جسے کہانی کاروں نے گھڑکرپھیلا دیا ہے اور وہ ایک دوسرے سے نقل کرتےرہے
ہیں جیساکہ الاغانی کے اندر ہے کہ اس کی
کوئی حقیقت نہیں ہے اور بنی عامر سے اصلا ونسبا اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے ، امام ذہبی نے اپنی تاریخ میں بیان کیاہے کہ لیلی
اور مجنوں کے بارے میں کچھ لوگوں نے
انکارکیاہے، جاحظ کے مطابق کسی مجہول
شاعر کا شعر لوگ دیکھتے اور اس میں لیلی کا ذکر ہوتاتو اس کی نسبت مجنوں کی
طرف کردیتے اور جس کے اندر لبنی کا ذکر
دیکھتےتو قیس بن ذریح کی طرف منسوب کردیتے، اصمعی کہتے ہیں : دو
آدمی دنیامیں صرف نام سے جانےگئے ایک بنی
عامرکا مجنوں اور دوسرا ابن القریہ( اس کا نام ایوب بن زید(سنہ 84 ھ) تھا یہ اموی دورکاایک ان پڑھ دیہاتی تھا جو عرب کےمہشہورخطباء
میں سے تھا اور اپنی فصاحت وبلاغت میں ضرب
المثل تھا۔)، کہانی کاروں نے ان کے کردار کی تخلیق کی ہے ، بنی مروان میں ایک
نوجوان تھا جو ان میں سے ایک عورت پرفداتھا ، اس کے بارے میں اشعارکہے اور ظاہر ہوجانے کے ڈر سے مجنوں کی طرف منسوب کردیا اور اس کے بارے میں باتیں گھڑکر پھیلادی جسے
لوگوں نے بڑھا چڑھا کر بیان کرنا شروع
کردیا۔(خزانۃ الأدب للبغدادي:4/229)۔
لیکن بہت سارے مصادر اس کے وجود کو تسلیم کرتےہیں اور اس کے
اشعار اور عشق وجنون کی کہانیاں بیان کرتے ہیں
، حالانکہ ان میں زیادہ تر میں نمک مرچ کی آمیزش ملے گی ،ٹھیک اسی طرح جیسے
حاتم طائی کی سخاوت حق ہے لیکن اس سے
متعلق جو کہانیاں کتابوں اورڈراموں میں
بیان کی جاتی ہیں ان میں سے زیادہ تر جھوٹ اور غلو پر مبنی ہیں ۔
قیس کی ابتدائی زندگی وادی حجاز میں بنو عامر
نامی قبیلے میں گزری ۔کم سنی میں ہی وہ اپنی چچازاد لیلی بنت مہدی بن سعد العامریہ سے دل لگا بیٹھا اور گزرتے وقت کے ساتھ اس کی محبت میں روانی
آتی گئی اور پھر دنیا سے بیگانہ ہوتاگیا ،
یہاں تک کہ ایک وادی میں تنہائی کی حالت میں اس کی وفات ہوگئی جہاں سے لوگوں نے اس کی لاش کو اس کے اہل خانہ تک پہونچا دیا ،اس کی وفات سنہ
65 یا 68 کے درمیان میں ہوئی ۔
لیلی کو بھی عربی شعرادب
میں خوب دسترس حاصل تھا اوروہ جاہلیت واسلام سے متعلق تاریخ عرب کی بھی ماہر تھی۔ کہا جاتاہےکہ لیلی
معمولی قدکاٹھی کی تھی اور شکل وصورت اتنی زیادہ قابل اعتناء نہیں تھی ، دبلی پتلی
اور سانولی سی لڑکی تھی ۔مشہور ہےکہ ایک عرب امیر نے لیلیٰ اور اس کے مجنون
کے بارے میں سنا توان کو حاضرکرنے کا حکم دیا جب لیلیٰ اس کے سامنے کھڑی ہوئی تو
اس نے دیکھا کہ وہ ایک دبلی پتلی اور سانولی سی لڑکی ہےتو اس نے اسے غیر اہم اورحقیر
ومعمولی سمجھا،مجنوں امیر کے دل کا حال سمجھ گیااور اس کی طرف دیکھ
کرکہا:عالیجاہ! اگرآپ مجنون کی غم زدہ آنکھوں کی توانائیوں سے لیلیٰ کو دیکھں
گےتوآپ پر اس کی محبت کی وجہ سے اس کے دیدار کاراز کھل جائے
گا۔امیر کو مجنوں کا یہ جواب بہت پسندآیا اور وہ خوش ہوگیا۔(نوادرالعشاق /ص 157)۔
کہتےہیں کہ جہاں لیلی ہوتی تھی زیادہ تر قیس وہی پایاجاتاتھا
،کبھی شام کبھی حجاز اور کبھی نجد کے علاقوں میں آتاجاتارہتاتھا،لیلی بنت سعد کا
بچپن بھی اسی کے ساتھ کھیلتے کودتے گزرا تھا ، جب بڑی ہوگئی تو اس کے والد نے اس سے الگ کرکے اسے پردہ کرادیا چنانچہ قیس اس کے
اردگرد چکرلگانے لگا او رپھر اس کی محبت میں دیوانہ وار صحراء صحراء بھٹکنے لگا ،اس کی محبت میں کھویا رہتا اور شاعری
کرتارہتا ۔
لیلی سے اس کی ابتدائے عشق کےبارے میں کہاجاتاہے کہ جبل
ثوبان کے پاس یہ دونوں متعارف ہوئےجہاں لڑکپن میں جانور چرایا کرتےتھے، وہیں سے ان کی محبت پروان چڑھی ۔ابن قتیبہ کے
مطابق اسی دل لگی کے بارے میں اس نے یہ
شعرکہاتھا :
تعلّقت ليلى وَهِي غرّ صَغِيرَة وَلم
يبد للأتراب من ثديها حجم
صَغيرَينِ نَرعى البَهمَ يالَيتَ أَنَّنا إِلى اليَومِ لَم نَكبَر وَلَم تَكبَرِ
البَهمُ
(جب لیلی سیدھی سادی تھی اور اس کےسینے کاحجم اس کی ہم عمر
لڑکیوں کے لئے ظاہر نہیں ہوئے تھے،اس وقت
سے ہی میں اس سے دل لگا بیٹھا تھا ۔ہم
دونوں کم عمرتھے، جانور چرایاکرتےتھے
،اےکاش کہ اب تک ہم اور وہ جانور بڑے نہ ہوئے ہوتے۔)
پھر وہ بڑاہوتاگیا، یہ
خود نہایت ہی خوبرو اور خوش اسلوب
تھا،اچھی باتیں کرتا اور شعرگوئی کرتا ،
اور جب لوگوں کے ساتھ بیٹھتا تو ان میں لیلی کی باتیں کرتا
اور اپنی دل لگی کو بیان کرتا ۔ ایک وقت آیا جب لیلی اس سے بےاعتنائی برتنے لگی تو اسے بڑی
تکلیف ہوئی اور لوگوں میں اس کا چرچہ
ہونےلگا ، جب یہ بات لیلی کو معلوم
ہوئی تو اس نےشعرکہا:
كِلَانَا مظهر للنّاس بغضاً وكلّ
عِنْد صَاحبه مكين
تبلّغنا الْعُيُون بِمَا رَأينَا وَفِي
القلبين ثمَّ هوى دَفِين
(ہم دونوں لوگوں کی
نفرت کے مظہرہیں ،اورہرایک دوسرےکےنزدیک قابل قدرہے،ہم جو دیکھتےہیں نگاہیں اسی کو
ہم تک پہونچاتی ہیں، ہم ایک دوسرے کے دلوں
میں ہیں جہاں جذبات ومحبت مدفون ہیں ۔)۔(خزانۃ الأدب للبغدادی:4/230)
ایک روایت یہ بھی
ہے کہ ایک بار قیس کا گزر چنددوشیزاؤوں کے
پاس سے ہوا تواس نے انہیں سلام کیا اور اپنی سواری سے اتر کر اسے ہی ذبح کردیا اورپھر اس سے ان کی ضیافت کی اور شام تک وہی ٹھہرا
رہا کہ ایک دوسرے نوجوان کا گزروہاں سے
ہوا تو وہ لڑکیاں قیس کو چھوڑکر اس کی طرف
متوجہ ہوگئیں، جس سے ناراض ہوکر اس سے متعلق اشعار کہے۔ پھر صبح کے وقت
قیس دوبارہ اسی گھرمیں آیا تو لیلی کے علاوہ وہاں کوئی نہیں
تھا، جس سے بات کرنے کی خواہش کا
اظہارکردیا، اس کے بعد جب وہ جانے لگی تو
بہت زیادہ غمگین ہوگیا جس سے لیلی کو اس کی حالت پر ترس آگیا اور اس سے اپنی محبت
کا اظہار کردیا اور شعرکہنے لگی جسے سن
کر وہ بےہوش ہوگیا ۔ کہتے ہیں کہ لیلی بھی اس سے حددرجہ محبت کرتی تھی ، ابن قتیبہ نے قیس
سے اس کی بےانتہاء محبت کا ذکرکیاہے جس کے مطابق اسے یاد کرکے اس کے اوپرغشی طاری ہوجاتی تھی ۔( خزانۃ
الأدب للبغدادی:4/232)۔
ایک تیسری روایت بھی ہے کہ قیس عورتوں کا بہت بڑا رسیا
تھا اور لیلی حسن وخوبصورتی میں سب سے
ممتاز تھی (برخلاف اس کے مذکورہ معمولی قدکاٹھ سے متعلق روایت کے )، لیلی اپنی سہیلیوں کے ساتھ جہاں بیٹھتی
قیس وہی جاکر بیٹھ جاتا،جس سے ان کے درمیان اس کے متعلق باتیں ہونے
لگیں ،پھر ان دونوں کے درمیان محبت پروان چڑھنے لگی ۔
کہتےہیں کہ ایک بار قیس لیلی کے گھر اس کے باپ سے اپنے یہاں
آئے مہمانوں کی ضیافت کے لئے کچھ گھی ادھارلینے گیا لیلی کے باپ نے لیلی سے کہاکہ
اس لڑکے کی ضرورت پوری کردے ،چنانچہ جب لیلی اس کےلئے گھی لےکرآئی اورسلام کرکے اس
کے برتن میں گھی انڈیلنے لگی اسی دوران اس نے اپنے لئے اس کے شوق اور پاگل پنی کا
تذکرہ چھیڑدیا جس سے اس کا دل بلیوں اچھلنے لگا اور اس کی بات سن کر اتنا منہمک ہوگیا کہ کب اس کا برتن بھرکر اس سے گھی باہرزمین
پرگرنے لگا پتہ ہی نہیں چلا، وہ دونوں
باتوں میں اتنےمگن ہوگئے کہ گھی میں ان کے پاؤں ڈوبنے لگے ۔ لیلی کے باپ نے جب
دیکھاکہ بڑی دیرہوگئی تو اس نے آوازلگائی لیکن کوئی جواب نہیں ملا پھر خود اٹھ کر
دریافت حال کےلئےگیا توان دونوں کو اس حال میں دیکھ کر غضب ناک ہوگیا
اورعاروشرمندگی کے ڈرسے اسےلیلی سے ملنے
سے منع کردیا، لیکن موقع نکال کر قیس لیلی سے ملتارہا اور بیمار دل کے بھڑکتےآگ کی
تپش کم کرنے کی کوشش کرتارہا ۔لیلی کے باپ کو جب اس کی خبرلگی تو اس نے خلیفہ ابن
مروان سے اس کی شکایت کردی جس نے اپنے امیرکو حکم دیا کہ اگر وہ اپنے اس فعل سے
بازنہیں آتاتو اسے قتل کردو ، جب یہ خبرقیس کو لگی تو اس نے یہ اشعارکہے:
أَلا حُجِبَت لَيلى وَآلى أَميرُها عَلَيَّ يَميناً جاهِداً لا أَزورُها
وَأَوعَدَني فيها رِجالٌ أَبَرَّهُم أَبي وَأَبوها خُشِّنَت لي صُدورُها
عَلى غَيرِشَيءٍ غَيرَأَنّي أُحِبُّها وَأَنَّ فُؤادي عِندَ لَيلى أَسيرُها
(لیلی مجھ سے چھپادی گئی(پردہ کرادی گئی ) اور اس کے امیر نے مجھ پر سخت ترین قسم کھائی ہے
کہ میں اس کے پاس نہ جاؤں اور اس کے سلسلےمیں کچھ لوگوں نےجن کی میں بڑی قدرکرتاہوں میرے والد اور اس کے والد نے مجھ سے
وعدہ لیا ۔ اس کا دل بلاوجہ میرے خلاف
بھڑکادیاگیاہے حالانکہ میں اس سے محبت کرتاہوں اور میرا دل لیلی کے پاس اسیر ہے)۔
قیس بحیثیت شاعر :
قیس کی شاعری حقیقت
ہو یا اس کی طرف محض منسوب ،عربی ادب کے بہترین اثاثہ شمارکئےجاتےہیں اس
نے مختلف زمروں میں اپنے قصائد کہےہیں
جنہیں بعض ادباء نے متنوع زمروں میں تقسیم کیاہےجیسے: قصیدۃ ابتهال (گریہ وزاری )،قصیدۃ فراق وجدائی
، قصیدۃ حزن ، قصیدۃ عتاب،قصیدۃ شوق،قصیدۃ رومانس یا غزل اور عام قصائد ۔اور ہر زمرےمیں ہزاروں
کی تعداد میں اس کے قصیدےہیں۔
اس کی شاعری میں غورکریں گے تو اس کی طبیعت کے مطابق زیادہ تر میں لیلی کا ذکراور عشق ومحبت کا غلبہ ملےگا۔
عشق کےبارے میں اس کانظریہ
کچھ یوں ہے:
إِذا أَنتَ لَم تَعشَق فَتُصبِحَ هائِماً وَلَم تَكُ مَعشوقاً فَأَنتَ حِمارُ
(اگر تم نے عشق نہیں کیا توتم بےکار ہو
اور اگرتم سے کسی نے عشق نہیں کیاتو تم گدھےہو۔)
اس کا مانناتھاکہ
اگر کسی کے پاس محبوب نہیں تو اس دنیامیں کوئی خیروبھلائی نہیں ہے :
فَلا خَيرَ في
الدُنيا إِذا أَنتَ لَم تَزُر حَبيباً
وَلَم يَطرَب إِلَيكَ حَبيبُ
(اگرتم نے کسی محبوب کی زیارت نہیں کی اور کوئی چاہنے والا تمہاری طرف راغب
نہیں ہواتو دنیا میں کوئی خیراور بھلائی نہیں ہے ۔)
وہ لیلی سے اپنی شدت محبت کا ذکرکرتےہوئےکہتاہے :
أُحِبُّكِ يا لَيلى مَحَبَّةَ عاشِقٍ عَلَيهِ جَميعُ المُصعِباتِ تَهونُ
أُحِبُّكِ حُبّاً لَو تُحِبّينَ مِثلَه أَصابَكِ مِن وَجدٍ عَلَيَّ جُنونُ
أَلا فَاِرحَمي صَبّاً كَئيباً مُعَذَّباً حَريقُ الحَشا مُضنى الفُؤادِ حَزينُ
(اے لیلی میں تم سے ایک عاشق کی طرح ایسی محبت کرتاہوں، جس کے آگے ہرطرح کی تکلیفیں ہیچ
ہیں۔ میں تم سے ایسی محبت کرتاہوں کہ اگر تم ویسی محبت کرو گی تو بیخود ہوکر پاگل پن کا
شکارہوجاؤگی ۔ توایک گرویدہ،مایوس ، ستائےہوئے، دل جلا، کمزور دل اورغم کےمارے پر
رحم کر۔)
اورلیلی سے اس کا عشق اس قدرگہراہے کہ
ہر تکلیف اور درد کو براداشت کرسکتاہے، کہتاہے:
لو كانَ لي قلبان لعشت بواحدٍ وأفردتُ قلباً في هواكَ يُعذَّبُ
لكنَّ لي قلباً تّمَلكَهُ الهَوى لا العَيشُ يحلُو لَهُ ولا الموتُ يَقْرَبُ
كَعُصفُورةٍ في كفِّ طفلٍ يُهِينُها تُعَانِي عَذابَ المَوتِ والطِفلُ يلعبُ
فلا الطفل ذو عقلٍ يرِقُّ لِحالِها ولا الطّيرُ مَطلُوقُ الجنَاحَينِ فيذهبُ
(میرےپاس اگر دودل ہوتےتو ایک کے
سہارےہی زندہ رہتااور دوسری کوتیری چاہ میں نکال کر تڑپنے کےلئے چھوڑدیتا،لیکن
میرے پاس تو جنون سے بھرا ایک ہی دل ہےجسےنہ زندگی پسندہے اور نہ موت ہی آتی ہے ۔ )
لیلی سے اپنےعشق کا شکوہ کناں ہے،کہتاہے:
أَتارِكَتي لِلمَوتُ إِنّي لَمَيِّتٌ وَما لِلنُفوسِ الهالِكاتِ بَقاءُ
(تومجھے موت کےحوالے کررہی ہے جبکہ میں ویسے ہی مردہ ہوں اور ہلاک ہونے والے
نفس کےلئےکوئی بقا نہیں ہے۔)
اور کبھی لیلی کی بےاعتنائی کاذکرکرتےہوئے کہتاہے:
أَلا يا طَبيبَ النَفسِ أَنتَ طَبيبُها فَرِفقاً بِنَفسٍ قَد جَفاها حَبيبُها
(بس کراے طبیب نفس! تو اس کا علاج کرناچاہتاہے تو اس نفس کے ساتھ نرمی کرنا جس پر اس کی محبوبہ نے ظلم کیاہے۔)
اور ایک بار لیلی پر ظلم وستم دیکھ
کرتڑپتےہوئے کہتاہے:
أَتُضرَبُ لَيلى كُلَّما زُرتُ دارَها وَما ذَنبُ شاةٍ طَبَّقَ الأَرضُ ذيبُها
فَمُكرِمُ لَيلى مُكرِمي وَمُهينُها مُهيني وَلَيلى سِرُّ روحي وَطيبُها
(جب جب میں لیلی کےپاس جاؤں تو کیاوہ
ستائی جائےگی ،بھلابتاؤتو اگربکری کادم زمین سےلگ جائے تو اس کا کیاقصورہے، جان لو
کہ لیلی کی عزت کرنے والا میری تعظیم کرتاہے اور اس کی توہین کرنےوالا میری توہین کرتاہے لیلی تو میری جان اوراس کی
خوشبو ہے۔)
کہاجاتاہےکہ جب اس
کےعشق کی کہانی عام ہوئی تو لوگ اس کےباپ
کے پاس آکر کہنے لگے کہ اسے مکہ مکرمہ لےجاؤ تاکہ وہاں بیت الحرام کا طواف کرے جس
سے اس کو جنون سے افاقہ ہوگا ، چنانچہ اس
کا باپ اسے مکہ لےکرگیااور اسے کہاکہ کعبہ کے پردوں کو
پکڑو اور یہ دعاء کروکہ : اے اللہ مجھے لیلی اور اس کی محبت سے چھٹکارہ دلا ! تو اس نے دعاء کی : اے اللہ لیلی اور اس کی
قربت نصیب فرکر میرے اوپر احسان کر! جس پر اس کےباپ کی طرف سے مار پڑی اور وہ
شعرکہنے لگا:
يا رَبّ لا تَسلُبَنّي حُبَّها أَبَداً وَيَرحَمُ اللَهُ عَبداً قالَ آمينا
(میرے رب لیلی کی محبت مجھ سے مت چھیننا ! اور اللہ اس
بندےپر رحم فرمائے جس نے میری اس دعاء پر آمین کہا۔)
لوگ جب اسے لیلی کی محبت چھوڑنےکوکہتے تو کہتا:
يَقولونَ تُب عَن ذِكرِ لَيلى وَحُبِّها وَما خَلِدي عَن حُبِّ لَيلى بِتائِبِ
(لوگ کہتےہیں کہ تم لیلی کی یاد اور اس کی محبت سے توبہ
کرلو جبکہ میرا دل لیلی
کی محبت سے توبہ کرہی نہیں سکتا۔)
ایک جگہ اپنےبارے میں لوگوں کے جبر اور تدبیر کےسلسلےمیں کہتاہے :
وَجاؤوا إِلَيهِ بِالتَعاويذِ وَالرُقى وَصَبّوا عَلَيهِ الماءَ مِن أَلَمِ النُكسِ
وَقالوا بِهِ مِن أَعيُنِ الجِنِّ نَظرَةٌ وَلَو عَقَلوا قالوا بِهِ نَظرَةُ الإِنسِ
(لوگ اس کے پاس تعویذ وگنڈہ لے کرآئے ، اس پربیماری کے دردکو ختم کرنےکےلئے پانی چھڑکا اورکہنے لگے کہ
اس کو جنات کی نظرلگ گئی ہے ،اگر یہ سمجھدارہوتےتو کہتے کہ اسےانسان کی نظرلگ گئی
ہے۔)
اپنی مزید شدت عشق کا ذکر کرتےہوئے کہتاہے:
فَلَو خُلِطَ السَمُّ الزُعافُ بِريقِها تَمَصَّصتُ مِنهُ نَهلَةً وَرَويتُ
(اگر زہرہلاہل بھی اس کے لعاب دہن سے ملا ہوتاتو میں
اسےآسودگی کے ساتھ چوس کر سیراب ہولیتا۔)
فرط محبت کی غایت کا ذکر کرتےہوئے کہتاہے:
يَقولونَ لَيلى بِالعِراقِ مَريضَةٌ فَأَقبَلتُ مِن مِصرٍ إِلَيها أَعودُها
فَوَاللَهِ ما أَدري إِذا أَنا جِئتُهاَ أُبرِئُها مِن دائِها أَم أَزيدُها
(کہتےہیں کہ لیلی عراق میں بیمار ہے میں مصرسے اس کی عیادت
کوجارہا ہوں ، اور اللہ کی قسم میں نہیں جانتاکہ اگر میں اس کے پاس جاؤں تو اس کی
بیماری میں کمی کروں گا یا اسے بڑھا دوں گا۔)
لوگ اسے پاگل کہتے اوراسے خودکےلئے ان طعنوں کاشدت سے احساس اور اقرارتھا :
يسمونني المجنون حين يرونني ... نعم بي
من ليلى الغداة جنون
(لوگ مجھےدیکھتےہیں توپاگل کہتےہیں ، ہاں مجھے لیلی سے جنون
کی حدتک عشق ہے)۔
لبنی کا مجنوں (قیس بن ذریح) :
قیس بن ذریح اموی
دور کا مدینہ کا رہنے والا ایک معروف شاعرتھا،لبنی بنت حباب کعبیہ خزاعیہ سے
اس کی جنون کی حد تک محبت مشہور ہوئی
،حسین بن علی رضی اللہ عنہ کا رضاعی بھائی بھی تھا جسے ام قیس نے دودھ پلایا تھا ، اس کا
پورا نام قیس بن ذریح بن سنۃ بن حذافہ بن طريف بن عتوارة بن عامر بن ليث بن بكر بن
عبد مناة بن كنانۃ بن خزيمہ بن مدركۃ بن إلياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان اللیثی
الکنانی ہے ۔ پہلی صدی ہجری میں ابوبکر سے
لےکر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم کے
ادوار میں عرب کےدیہاتوں میں اس کی زندگی گزری ہے،یعنی اس نے
ابوبکر ، عمر بن خطاب ،عثمان بن عفان
، علی بن ابی طالب اور معاویہ بن
ابی سفیان رضی اللہ عنہم کےدور خلافت کو
پایاہے ۔ اس کے اشعار تغزل، تڑپ اور شوق والحاح
کے باب میں اعلی درجہ میں شمار
کئے جاتےہیں ۔
اس کی موت بھی لیلی کے مجنوں کی طرح تنہائی میں ہوئی سنہ 68 ہجری میں پتھروں کے درمیان مردہ پایا گیا پھر اس کا جسد
اس کے گھروالوں تک لےجایاگيا۔
لبنی سے اس کی ملاقات پھر محبت اورپھر شادی :
قیس کی لبنی سے محبت کی ابتداء کے بارے میں ذکرکیاجاتاہے
کہ وہ کسی کام سے کہیں جارہاتھا کہ بنوکعب
کے پاس سے اس کاگزرہوا گرمی اتنی شدیدتھی
کہ ایک خیمے سے پانی مانگا ،چنانچہ ایک نہایت ہی خوبصورت ،لمبے قدکاٹھی کی
اور شستہ زبان والی عورت پانی لےکرنکلی
اور اسے دیدیا پھرجب قیس جانے لگا تو اس نے کہاکہ گرمی بڑی سخت ہے یہی کچھ دیر آرام
کرلیتے! اس کی اس بات نے اس کا دل جیت لیا ، یہ سنتے ہی
ہاں کردی چنانچہ اس نے اس کےلئےآرام کی جگہ تیارکرکے اس کی ضروریات کی چیزیں مہیا
کیا، پھر جب لبنی کا باپ آيا تو اس کی بڑی
خاطر کی اور اس کی ضیافت کے لئے اونٹ ذبح کردیا، کچھ گھڑیاں ان کےپاس گزارنے کےبعدواپس چلا اس وقت تک وہ اپنا دل لبنی کی محبت میں ہارچکاتھا،لیکن اس نے یہ بات اپنے
دل میں ہی رکھی ،لیکن کب تک چھپاتا مغلوب ہوکر اس نے اپنے اشعار میں اس کا بکھان
کرنا شروع کردیا جس کی شہرت ہونے لگی ۔ دوبارہ جب وہاں سے گزراتو موقع پاکر اس نے اس سے اپنے دل کا حال بیان کیا لیکن یہ
کیا لبنی تو اس سےکہیں زیادہ اس کی محبت کی اسیرہوچکی تھی ، اب دونوں ایک دوسرے کی حالت سے باخبر ہوچکےتھے ۔
اس ضمن میں یہ بھی بیان کیاجاتاہے کہ لبنی کے ساتھ ہی اس کا بچپن گزرا تھا ،
لڑکپن کا دور ساتھ میں کھیلتےکودتے گزرا اور اسی درمیان وہ اس کے عشق ومحبت میں پڑگیا ۔
اس کی شادی اور طلاق کی کہانی:
لبنی سے اس کی شادی
ہوئی تھی ، پھر اسے طلاق
دیدیا تھا ، اس کے بعد مارا مارا اور سرگرداں گھومتارہا،خودکو تنہا تنہا او
ر وحشت زدہ محسوس کرنے لگا ،شاعری میں وقت گزارنے لگا۔ لبنی نے قیس کے طلاق کے بعد
دوسری شادی کرلی ، کئی سال گزرنے کےبعد جب دونوں کا سامنا ہوا تو قیس کا درد
عشق مزید بڑھ گیا اس کی حالت دیکھ کر لبنی کے شوہر نے اسے اختیار دےدیا کہ یا تو اسی کی زوجیت میں رہے یا
پھر طلاق لے کر قیس کے پاس واپس چلی جائے تو لبنی نے طلاق کے بعد قیس کے پاس جانا
اختیار کیا لیکن طلاق کے بعد عدت کی حالت میں ہی اس کی وفات ہوگئی اس کے بعد قیس بھی اس دنیاسے چل بسا ،ذیل میں
ہم دونوں کی شادی پھر طلاق اور قیس کے جنو ن کے بارے میں قدرے تفصیل سے جانیں گے ۔
لبنی سے اس کی شادی کی کہانی کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ جب اسے اس سے محبت ہوئی تو اپنے باپ سے اس کےبارے میں بتایا اور اس سے شادی کی خواہش
ظاہر کی تو باپ نے اسے اس سے باز رہنےکو کہا اور اپنی کسی چجازاد سے شادی کرلینے کاحکم
دیا ، اس سے مایوس ہوکر اپنی ماں کے پاس
گیا ادھر سے بھی وہی جواب ملا پھراس نے ان دونوں کو چھوڑکر حسین بن علی رضی
اللہ عنہماکے پاس آکر اپنا حال دل بیان کیا، حسین رضی اللہ عنہ نے اس سے اس کی مدد
کا وعدہ کیا اور اسے لےکر لبنی کے والدکے پاس گئے
، حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر لبنی کے باپ کی باچھیں کھل گئیں ،خوب آؤبھگت کی
،پھر آنے کا مقصد دریافت کیا ، اور کہاکہ اگر خبر بھیج دیتے تو بندہ آپ کی
خدمت میں حاضرہوجاتا ۔ حسین رضی اللہ عنہ
نےکہاکہ میں تمہاری بیٹی کے لئے قیس بن ذریح کا
رشتہ لےکرآیاہوں اور تمہیں معلوم ہے کہ
میرا اور اس کا رشتہ کیاہے۔ لبنی
کے باپ نےکہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے، حالانکہ قیس میں ہماری کوئی دلچسپی نہیں ہے
لیکن میں آپ کی بات کیسے ٹال سکتاہوں ،ہاں
میں چاہتاہوں کہ اس کا باپ ذریح خوش دلی
کے ساتھ اس کا پیغام لے کر آئے ، کیونکہ
مجھے خدشہ ہے کہ اگر اسے اس بات کی
خبرلگےگی تو عار نہ محسوس کرنے لگے یا
ہماری توہین ہو ، اس کے بعد حسین رضی اللہ عنہ ذریح کے پاس آئے اس وقت وہا ں اس کے قوم کی مجلس لگی ہوئی تھی ،انہوں نے بھی ان کی کافی عزت وتکریم کی ، پھر انہوں کہا: میں تمہیں
تمہارے اوپراپنے حق کے واسطے کہتاہوں کہ میں نے تمہارےبیٹے قیس کےلئے لبنی کا رشتہ بھیجاہے ۔
لبنی کے باپ نے کہا کہ : آپ کا حکم سرآنکھوں پر ، پھر دونوں کی شادی ہوجاتی ہے اور
زندگی خوشحالی اور محبت وپاسداری کے اعلی معیار کے مطابق گزرنے لگتی ہے ۔
قیس اپنی ماں کا بڑا فرمانبردار تھا ، لیکن لبنی کی محبت اور اس کی
طرف حد سے زیاد ہ توجہ نے ما ں کے ساتھ اس کی فرمانبرداری پر اثر انداز ہوکر اس کے اندر
کچھ کمی لادی ما ں کو
اس بات کا بہت زیادہ دکھ ہوا اور
وقت بے وقت اس کا شکوہ کرنے لگی ایسے میں
قیس بہت زیادہ بیمار ہوگیا پھر بیماری سے
نکلا تو اس کی ماں نے اس کے باپ سےکہا کہ : مجھے ڈر ہے کہ قیس بے اولاد ہی
مرجائےگا ،کیونکہ یہ عورت بچہ جننے سے محروم ہے ،اگر ایساہواتو آپ کے بعد آپ کی
پوری دولت آپ کے رشتے داروں میں تقسیم
ہوجائےگی ،اس لئے اس کی دوسری شادی کردیجئے ، شاید اللہ اسے کوئی اولاد دےدے
، اس نے اتنادباؤ ڈالا کہ قیس کے باپ
نے اس سے کہاکہ :دیکھ تمہاری حالت ایسی ہے
اور تمہاری بیوی بانجھ ہے تجھےاس سے کوئی اولاد نہیں ہوسکتی ، تیرےسوا میرا کوئی
نہیں ہے تو اپنے چچاؤں کی کسی لڑکی سے شادی کرلے شاید اللہ تجھے کوئی اولاد دےدے جس سے ہماری آنکھو کو
ٹھنڈک پہنچے ! قیس نے اس سے صاف انکار کردیا او رکہاکہ اس کے علاوہ میں کوئی دوسری اپنی زندگی میں نہیں لاسکتا۔ پھرباپ
نےکہاکہ میرےپاس کافی دولت ہے کوئی لونڈی ہی رکھ لے، تو اس نے کہا : میں کبھی بھی
لبنی کو ہلکی سی تکلیف بھی نہیں دے سکتا۔پھر اس کےباپ نے اسے اپنی قسم کا واسطہ دے
کراسے طلاق دینے پر مجبور کرنا چاہا تو
بھی اس نے اسے طلاق دینے سے منع کردیا اور کہا :اس سے آسان میرے لئے موت ہے ، لیکن
میں آپ کےلئے اس کا ایک حل بتادیتاہوں آپ
خود دوسری شادی کرلیجئے شاید اللہ تعالی
اس سے میرے سوا کوئی بیٹادیدے، باپ نے
انکار کردیا اور برابر اسے مجبور کرتا رہاکہ اسے طلاق دیدے اور قیس تھا کہ کسی بھی
حال میں لبنی کو چھوڑنے کو تیار نہیں تھا ،کہتے ہیں کہ اس سے زچ ہوکر اس کے باپ نے
ایک دوسرا طریقہ نکالا کہ کبھی کسی گھرمیں
داخل نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ لبنی کو
طلاق دےدے او ر پھرجاکر باہر دھوپ میں
کھڑا ہوگیا ، قیس آتا اس کے پاس کھڑے ہوکر اسے اپنی چادرسے سایہ دیتا ،اسی
گرمی میں نماز پڑھتا، یہاں تک کہ جب سایہ ڈھل جاتاتو لبنی کے پاس آکر اسے گلے لگا
لیتا ،خود روتا اور اسے بھی رلاتا، لبنی کہتی : قیس ! اپنے باپ کی بات نہ مان کر خود تو ہلاک ہوہی
رہاہے مجھے بھی اپنے ساتھ ہلا ک کررہاہے ،
قیس کہتا: کچھ بھی ہوجائے تمہارے بارے میں
کبھی کسی کی بات نہیں مان سکتا۔
مشہورہے کہ تقریبا
ایک سال تک معاملہ ایسے ہی چلتا رہا پھر اپنے والد کی وجہ سے اسے لبنی کو طلاق
دینا پڑا ، پھر اس کے صبر کا باندہ ٹوٹ گیا
اور اس کی محبت میں جنونی کیفیت کا شکار ہوگیا۔
اصفہانی نے اغانی کے اندر لکھاہے کہ قیس نے زید بن سلیمان
سے کہاکہ : میرے والدین نے اس کی وجہ سے
دس سالوں تک مجھ سے دوری بنائے رکھی میں ان کے پاس جاتاتو مجھے دھتکار دیتے یہاں
تک کہ میں نے لبنی کو طلاق دیدی، ایک روایت کے مطابق حسین رضی اللہ عنہ نے قیس اورلبنی کے درمیان ذریح کو طلاق کرانے کی اجازت دی
تھی۔(الاغانی:9/214-215)۔
طلاق کےبعد قیس کی حالت :
لبنی سے جدائی قیس کےلئے جان لیوا ثابت ہوئی ، طلاق دیتے ہی اس کا دماغ گھوم گیا ، جیسے کوئی
پاگل ہو ، لبنی کو یاد کرتااور خوب روتا
سسکیاں بھرتا جس سے اس کی ہچکی بندھ جاتی ۔
کہتے ہیں کہ لبنی جب اپنے باپ کےساتھ جانے لگی تو اس کی
حالت دیگرگوں ہوگئی شدت تکلیف سے بےہوش
ہوکر گرگیا پھر جب افاقہ ہواتو یہ اشعار
کہنے لگا:
وإنّي لمُفْنٍ دمعَ عيْنيَ بالبكا حِذَارَالذي قد كان أوهو كائنُ
وقالوا غداً أو بعد ذاك بليلةٍ فراقُ حبيبٍ لم يَبِنْ وهو بائن
میں نے رونے کی وجہ سے آنکھوں میں آئی آنسوؤں کو پونچھ لیاہے ،جو ہوچکایاجو ہونے والاہے اس
سے محتاط رہو۔ انہوں نے کہا کہ کل یا پھر کل کے بعد محبوب سے جدائی ہے ،وہ ہوگیاجو
نہیں ہوناتھا۔
بعض روایتوں میں یہ شعر کچھ یوں ہے:
وَقالوا غَداً أَو بَعدَ ذاكَ بَلِيَّةٌ فِراقُ
حَبيبٍ بانَ أَو
هُوَ بائِنُ
لوگوں نےکہاکہ کل یا اس کے بعد مصیبت آنے والی ہے اور وہ محبوب
کی جدائی ہے ،جو ہوچکی ہے یا ہونے والی ہے۔
وما كنتُ أخشى أن تكون منيّتي بكفَّيْكِ إلاّ أنّ ما حان حائن
میری موت تیرے ہاتھوں ہو اس کا ڈر مجھےنہیں تھا جس کا وقت
اب آچکاہے۔
لبنی سےمتعلق لوگوں کے طعنوں سے زچ ہوکر کہتاہے:
يقولون لُبْنَى فتنةٌ كنتَ قبلها بخير
فلا تَنْدَمْ عليها وطلِّقِ
فطاوعتُ أعدائي وعاصيتُ ناصحي وأقررْتُ
عين الشامت المُتخلِّق
لوگ کہتے ہیں کہ لبنی ایک فتنہ ہے اس سے دل لگانے سے پہلےتو اچھا بھلا تھا، چل اب
بلاپشیمانی کے طلاق دیدے۔پس میں نے اپنے
دشمنوں کی بات مان لی اور اپنے خیرخواہ کی
نافرمانی کی اور بناوٹی خوشی والی نگاہوں کو قبول کیا۔
کہتےہیں کہ ایک بار ایک کوا اس کے پاس آکرگرا اور اور کئی
بار آوازنکال کر اڑگیا تو اس نے کہا:
لقد نادى الغرابُ ببَيْن لُبْنَى فطار
القلب من حَذَرِ الغرابِ
وقال غداً تَبَاعَدُ دار لُبْنَى وتَنْأى بعد ودٍّ واقتراب
فقلتُ تَعِستَ وَيْحَك من غراب وكان الدهرَ سعيُك في تَباب
کوےنے لبنی کی فراق کوبیان(تازہ ) کردیا جس سے دل مچل گیا،
اورکہاکہ کل تیری عشق وقربت کے بعددرِلبنی سے دوری وجدائی ہے ۔میں نے کہا تیری ہلاکت ہے کہ تو کوے سے بھی
زیادہ بدنصیب ہے ،جتنے وقت تونے کوشش کی سب بےکار گئی ۔
لبنی کو خود سےجداہوتے ہوئے اور
اسے اپنے لوگوں کے ساتھ جاتے ہوئے حسرت کی نگاہ سے دیکھتا رہا جب نگاہوں سے
اوجھل ہوگئی روتے ہوئے اس کی سواری کے پاؤں کے نشان کو او رلبنی کے بیٹھنے کی جگہ کو چومنےلگتاہے ،اس
پر اس کی قوم نے لعنت ملامت کی تو کہتاہے:
وما أحببتُ أرضَكُم ولكن أُقَبِّل إثْر من وَطِئ التُّرابا
لقد لاقيتُ من كَلَفِي بلُبْنَى ... بَلاءً ما أُسِيغ
به الشَّرابا
إذا نادى المنادي باسمِ لُبْنَى ... عَيِيتُ فما أُطيقُ
له جوابا
مجھے تمہاری سرزمین سے کوئی لگاؤ نہیں ہے ،میں تو اس
کےنشان قدم چوم رہا ہوں جس نےمٹی پربنائے
ہیں ۔ لبنی سے محبت سے میں نے بڑی تکلیفیں جھیلی ہیں کہ ٹھیک سے کچھ کھایا پیا
بھی نہیں جاتا۔جب کوئی لبنی کا نام لے کر پکارتاہے تو میں پریشانی کی وجہ سے اس کا جواب بھی نہیں دے
سکتا۔
لبنی کی جدائی کا درد بیان کرتاہے:
كأنِّي والِهٌ بفراق لُبْنَى تَهِيمُ
بفقد واحدِها ثَكُولُ
لبنی کی جدائی سے میں
بہت زیاد ہ غمگین ہوں اس ایک کی
جدائی سے سرگرداں اور سوگوار ہوں ۔
خودکو لبنی کی جدائی پر صبر کی تلقین کرتےہوئے کہتاہے :
ألاَ يا قلبُ وَيْحَكَ كن جَليداً ... فقد رحَلتْ وفات
بها الذَّمِيل
فإنك لا تُطيق رجوعَ لُبنى ... إذا رحَلتْ وإن كثُر
العَوِيلُ
وكَمْ قد عِشْتَ كَمْ بالقرب منها ... ولكنّ الفِراقَ
هو السبيل
فصبراً كلُّ مؤتَلِفَيْنِ يوماً ... من الأيام عيشُهما
يزول
اے دل تیری بربادی ہو
ہمت رکھ وہ تو چلی گئی اور
تیزرفتاری نے اسے ہم سے غائب کردیا۔ جب
لبنی چلی گئی تو تو اس کو لوٹا
نہیں سکتاخواہ کتنا ہی زاروفغاں کرو۔ تو
نے اس کے پاس کتنا وقت گزارا لیکن جدائی ہی ایک راستہ بچا تھا ۔تو صبر کر کیونکہ کسی
دن ہر دو چاہنے والے کا عیش
وآرام چھن جاتاہے۔
اور کہتاہے:
وكلُّ مُلِمّات الزمان وجدتُها ... سوى فُرْقةِ الأحباب
هيِّنَةَ الخَطْب
وقت کی ہر مصیبت کو محبوب کی جدائی کےسوا میں نے ہلکا پایاہے۔
اور کہتا :
فيا نفسُ صبراً لستِ والله فاعلمي ... بأوَّلِ نفسٍ غاب
عنها حبيبُها
اے نفس صبر کراورجان لے کہ توپہلا نہیں ہے کہ جس سے اس
کاحبیب چھن گیاہو۔
لبنی کی جدائی کی تڑپ کی عکاس اس کے یہ اشعار ہیں، لبنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہتاہے :
بِتُّ والهمُّ يا لُبيني ضَجيعي ... وجرتْ مُذْ نأيتِ
عنِّي دموعي
وتنفّستُ إذ ذكرتُك حتى ... زالت اليومَ عن فؤادي ضلوعي
أتناسَاكِ كي يُرِيغَ فؤادي ... ثم يشتدُّ عند ذاك
وَلُوعي
يا لُبَيْنى فَدَتْكِ نفسي وأهلي ... هل لدهرٍ مضى لنا
من رجوعِ
اےلبنی میری رات ایسی گزری کہ رنج والم میرا ہم بستر تھا اور جب سے تم مجھ سے جداہوئی ہو میرے آنسو روا ں ہیں ۔تھوڑا دم لیا کہ تیری یاد آگئی یہاں تک کہ اس دن میرے دل کا چین وسکون چھن گیا۔میں تجھے زبردستی بھولنے کی
کوشش کرتاہوں تاکہ میرے دل کو کچھ تسلی ملے
پھر ہوتایہ ہے کہ میرا شوق
وتعلق اور بڑھ جاتاہے ۔ اے پیاری لبنی
میرا مال واہل (سب کچھ) تجھ پرنچھاور کیا
ہمارا گزراہوا وقت لوٹ سکتاہے ؟۔
لبنی کو طلاق دینے پر کف افسوس ملتے ہوئے کہتاہے:
قد قال قلبي لطَرْفي وهو يعذُله ... هذا جزاؤك منّي
فاكدِمُ الحجرا
قد كنتُ أنهاك عنها لو تُطاوِعُني ... فاصبِرْ فما لك
فيها أجرُ من صبرا
میرے دل نے مجھے ملامت کرتے ہوئے کہا کہ میری طرف سے یہی
تیری سزا ہے چنانچہ میں پتھریں اکٹھی
کررہاہوں۔اگر تو میری بات مانتاتومیں میں تجھے اس سےمنع کردیتا ، اب صبر کر اس کے
اندر تیرے لئے اس میں صبر کرنے والے کا
اجر نہیں ہے ۔
نیز کہتاہے:
ألاَ ليت لُبْنَى في خلاءٍ تزورني ... فأشكو إليها
لَوْعتي ثم ترجِعُ
اےکاس لبنی مجھ سے خلوت میں ملتی تو میں اس سے اپنا دردوالم
بیان کرتا پھر وہ لوٹ جاتی ۔
لبنی سے اپنی محبت کااظہارکرتےہوئے کہتاہے:
صحا كلُّ ذي لبٍّ وكلُّ متيَّم ... وقلبي بُلبْنَى ما
حَيِيتُ مروَّع
ہر ہوشیار اور ہر عاشق
بیدار ہوچکاہے جبکہ میرا تادم مرگ لبنی کے ساتھ دھڑک رہاہے ۔
نیز کہتاہے:
تعلَّق رُوحِي روحَها قبل خَلْقِنا ... ومن بعدِ ما
كنَّا نِطافاً وفي المهدِ
فزاد كما زِدنا فأصبح نامياً ... وليس إذا مُتْنا
بمُنْصَرِم العهد
ولكنَّه باقٍ على كلِّ حادثٍ ... وزائرُنا في ظُلْمة القبر واللَّحْدِ
ہم دونوں کی روحوں کا تعلق تو ہماری پیدائش سے پہلے سے ہے ،
اور پھرجب ہم نطفہ تھے تب بھی تھا اور جب گہوارے میں تھے تب بھی۔ ہم جتنا بڑے ہوتے
گئے وہ بڑھتارہا ،پھر وہ پروان چڑھ گیا ۔
اور جب ہم مرجائیں گے توعہد رفتہ نہیں بنےگا ،یہ تو ہر حادثات کے باوجود باقی
رہےگا اور ہم قبر کی تاریکی میں ہوں گے توبھی ہمارے پاس آئےگا ۔
لوگ اسے لبنی کی محبت چھوڑنے کو کہتے تو کہتا:
يَقَرُّ بعيني قربُها ويَزِيدُني ... بها كَلَفاً مَنْ
كان عندي يَعِيبُها
وكم قائلٍ قد قال تُبْ فعصَيْتُه ... وتلك لعَمْرِي
توبةٌ لا أتوبها
اس کی قربت میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور جو کوئی بھی میرے
پاس اس کی برائی کرتاہے تو اس سے میری کلفت میں اضافہ ہوتاہے۔بہت سارے لوگوں نے اس کی محبت سے توبہ کرنے کو کہا ، لیکن قسم سے یہ
ایک ایسی توبہ ہے جو میں کبھی نہیں کرسکتا۔
جب قیس بیمار ہواتوا س
کے باپ نےقبیلہ کی کچھ لڑکیوں سے کہاکہ اس کی عیادت کرو اور اس سے کچھ
باتیں کرو تاکہ کچھ تسلی پائے اور کسی کے
ساتھ مانوس ہوجائے لڑکیوں نے ایساہی کیا
اور اس سے خوب باتیں کیں ، پھرجب اس کی بیماری کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا:
عِيدَ قيسٌ من حبِّ لُبنى ولُبنى ... داءُ قيسٍ والحبُّ
داءٌ شديدُ
وإذا عادني العوائدُ يوماً ... قالت العين لا أَرَى من
أُريد
ليت لُبْنَى تَعُودني ثم أَقْضِي ... إنها لا تعود فيمن
يعود
وَيْحَ قيسٍ لقد تضمَّن منها ... داءَ خَبْلٍ فالقلبُ
منه عَميد
لبنی کی محبت کی وجہ سے قیس کی عیادت کی جاتی ہے جبکہ لبنی
(کی محبت ) ہی قیس کی بیماری کا سبب ہے،
جب کسی دن مزاج پرسی کرنے والیاں آتی ہیں تو نگاہ کہتی ہے جسے چاہتی ہوں اسے ہی نہیں دیکھ رہی ۔ کاش لبنی میری عیادت کو آتی
اور پھر میرا فیصلہ ہوتاکہ لوٹنے والو ں کے ساتھ لوٹ کرنہیں جاتی ۔ قیس کتنا بیچارہ ہے کہ اسے اس سے دیوانگی کی بیماری ہوگئی ہے جس
سے دل بیمار عشق ہوگیاہے۔
ایک باراس کا علاج کرنے والے طبیب نے کہاکہ اگر تم لبنی کی خامیوں کویاد کرو
تو شاید اس سے کچھ افاقہ ہوکیونکہ اس سے نفس تسلی اور آرام پاتاہے، چنانچہ اس سے کہاگیاکہ اگر اس کی یہی حالت رہی تو ایک
دن مرجائےگا،تو قیس نے کہا: (بعض لوگوں نے ان اشعار کی نسبت عبداللہ بن الدمینۃ کی
طرف کی ہے ۔)
وفِي عُرْوةَ العُذْرِيّ إن متُّ أُسوةٌ ... وعمروِ بن
عَجْلانَ الذي قتلتْ هندُ
وبي مثلُ ما ماتا به غيرَ أنني ... إلى أجلٍ لم يأتِني
وقتُه بعدُ
هل الحبُّ إلاّ عَبْرةٌ بعد زَفْرةٍ ... وحَرٌّ على
الأحشاء ليس له بَرْدُ
اگر میں مرجاتاہوں تو عروۃ العذری اور عمرو بن عجلان جسے ہند نے مارڈالاکے ہی
طریقوں پرہوگا ۔ میری حالت تو ویسی ہی ہے
جیسے وہ دونوں مرگئے البتہ میں موت کے راستےمیں ہوں جس کا وقت اب تک نہیں
آياہے۔ محبت تو صرف لمبی سانس کے بعد آنسوبہاناہےاور
اندر کی ایسی تپش ہے جس کے اندر کوئی
ٹھنڈک نہیں ۔
(عروۃ بن حزام سنہ
30 ھجری بنوعذرۃ کا ایک دیوانہ صفت شاعرتھا ، جسے اپنی چچازاد سے
عشق ہوجاتاہے لیکن اس کی شادی بھی کسی
دوسرے سے ہوجاتی ہے جس سے اس کے اندر دیوانگی آجاتی ہے جس کا غم اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوتاہے ۔ اس
کا ایک چھوٹا سا دیوان بھی ہے۔ اسی طرح عبداللہ بن عجلان نہدی بنو قضاعہ
میں جاہلی عہد کا ایک شاعر گزراہے یہ بھی عشق فتان کا شکار رہا ، اس کی بیوی کا نام ہند تھا سات سالوں تک
اسےاولاد نہ ہونے کی وجہ سے باپ کے دباؤ میں
طلاق دینا پڑا پھر ہند کی شادی بنی نمیر میں کسی شخص سے ہوجاتی ہے جس سے ابن عجلان ندامت
وخفت کا شکار ہوگیا اور پھر اسی غم اور
افسوس میں سخت ترین بیماری کا شکار ہوکر
مرگیا۔)۔
لبنی کے حسن کی
تعریف کرتےہوئے کہتاہے:
إذا عِبتُها شبَّهتُها
البدرَ طالعاً وحَسْبُكَ من عيب لها شَبَهُ البدرِ
لقد فُضِّلتْ لبنى على الناس مثلَ ما على ألف شهر فُضِّلتْ ليلةُ القدر
اگر میں اس کا عیب
بیان کروں توجیسے میں اس کو بدرکامل سے
تشبیہ دے رہاہوں تمہارے لئے اتناہی جان لینا کافی ہے کہ اس کا عیب مکمل چاند سے مشابہ ہے۔ لبنی کی فضیلت لوگوں پر
ایسی ہی ہے جیسے ہزار مہینوں پر لیلۃ القدرکو فضیلت دی گئی ہے۔
کہتے ہیں کہ
لبنی کے عشق میں اتنا پاگل تھا کہ ایک با رایک قبیلہ میں ایک نہایت ہی حسین وجمیل
لڑکی کو دیکھاجس نے اپنا چہرا ڈھک رکھاتھا ،جب اس نے اس کا نام پوچھا تو اس نے
کہالبنی قیس وہی پر بےہوش ہوکر گرپڑا
۔(الاغالی:9/229) ۔
لبنی کے بیٹھنےکی جگہ لوٹ کر اپنا رخسار اس پر رکھ کر کہتا:
إلى
الله أشكو فَقْدَ لُبنى كما شكا إلى الله فقدَ الوالدَيْنِ يتيمُ
يتيمٌ جفاه الأقربون فجسمُه نَحيلٌ وعهدُ الوالدَيْن قديمُ
بكت دارُهم من نأيهم فتهلّلتْ دموعي فأيَّ الجازِعَيْنِ ألوم
أمُستعبِراً يبكي من الشوق والهوى ... أَمَ آخَر يبكي
شَجْوَه ويَهِيم
جس طرح یتیم اپنے ماں باپ کے نہ ہونے پر اللہ سے شکوہ
کرتاہے میں لبنی کی جدائی پر اس سے شکوہ کناں ہوں ۔یتیم پر اس کے رشتہ داروں نے
ظلم کیا ہے چنانچہ اس کا جسم لاغر ہوچکاہے ، اور ماں باپ کا پیار اور ان کی حفاظت ورعایت کو توزمانہ ہوگیا۔ان کی جدائی پر ان کاگھر کاٹنے کو دوڑتاہے ، میری انکھوں میں
آسوؤں کا سیلاب آگيا تو پھر کس پریشانی اور غم کو مورد الزام ٹھہراؤں ۔شوق
ومحبت سے روتے ہوئے آنسو بہانے والے کو یا وہ دوسرا جو اپنے رنج وغم کو رورہا ہے اور پگلایا ہواہے۔
لبنی
اور قیس کی دوسری شادیاں:
کہتے
ہیں کہ جس وقت قیس لبنی کی جدائی کے غم میں مارامارا پھر رہاتھا تو اس کے باپ ذریح
نے اپنی قوم سے اس کے بارے میں مشورہ کیا ، سب نے اس بات پر اتفاق کیاکہ اسے قبائل عرب میں
گھومنا چاہئے ہوسکتاہے کوئی عورت اسے بھاجائے
، ان لوگوں نے اسے قسمیں دلائیں تو وہ اس پر راضی ہوگیا ، ایک دن فزارہ
نامی قبیلہ میں گیاتو ایک نہایت ہی حسین
وجمیل چاند ساچمکتے چہرا والی لڑکی کو
دیکھاجس کا چہرا ریشمی برقعے سے باہر نظرآرہاتھا ۔ قیس نے اس کا نام پوچھا تو اس
نے کہا : میرا نام لبنی ہے ۔ یہ سننا تھا
کہ وہ بیہوش ہوکر گرپڑا ، اس سے وہ گھبراگئی اور اس کے چہرے پر پانی
چھڑکنے لگی ، اور بولی اگر تو قیس نہیں ہے تو کوئی پاگل ہے ، پھر جب
اسے ہوش آیا تو اس نے اس کے بارے اس سے
پوچھا تو اسے پتہ چلا کہ یہ قیس ہی ہے ، پھر اس نے اسے زبردستی کھانا وغیرہ کھلا
کر رخصت کیا ۔ اس کے جانے کے فورا
بعد اس لڑکی کا بھائی آگيا، اس نے اسے سب
کچھ بتادیا ، تو اس نے جا کر قیس کو چند
ماہ اس کے پاس ٹھہرنے اور اپنی مہمان نوازی کے لئے راضی کرلیا ، اور اس
کے ہزار بہانے اور انکار کے باوجود
اصرار کرکے اپنی بہن کے ساتھ اس کا
عقدکردیا ، پھر اس کے ساتھ چند دنوں تک
رہا اس دوران وہ اس کی طرف متوجہ نہیں
ہوتا اور نہ ہی اس سے بات کرتا پھر ان سے اجازت
لے کر مدینہ گیا جہاں اس کے ایک
دوست نے اسے بتایا کہ لبنی کو اس کی شادی
کی خبر مل چکی ہے جسے سن کر اس پرغشی
چھاگئی تھی اور اس نے اسے غدار کہا ۔
حکومت
وقت سے لبنی کے باپ کی شکایت :
اسی
دوران لبنی کے والد نے جب یہ دیکھا کہ
طلاق کے بعد قیس اس کی بیٹی کے بارے میں
تغزل وغیرہ کررہاہے اور لوگوں میں اس کے متعلق چہ میگوئیاں ہو ر
ہی ہیں
جس سے قوم میں اس کا عزت ووقار گھٹ رہاہے ، تو اس نے اس کی شکایت معاویہ
رضی اللہ عنہ سے کردی کہ وہ اس کی بیٹی کے سلسلے میں طلاق کے بعد بھی ایسی ایسی باتیں اور تغزل بھری شاعری کرتاہے تو
معاویہ نے مروان اور بعض روایات کے مطابق سعید بن العاص کو اس کےھدر دم (کسی کے خون کو مباح کرنا اس پر
قصاص و دیت کو ساقط کرنا) کےلئے لکھا اور یہ بھی حکم دیاکہ لبنی کی شادی خالد بن
خلدہ غطفانی سے کرادے ۔ اس بات کی خبر جب
قیس کو لگی تو اس کی وارفتگی اور بڑھ گئی
، وہ اس کے محلے میں گیا تو وہاں کی عورتوں نے کہاکہ تو یہاں کیاکررہاہے لبنی تو
اپنے شوہر کے ساتھ یہاں سے چلی گئی
لیکن وہ ان کی باتوں کی ان دیکھی کرکے
لبنی کے خیمے کی جگہ پر آیا اور زمین سے چپک کر یہ اشعار کہے:
فَإِن يَحجُبوهاوَيَحُل دونَ وَصلِها مَقالَةُ واشٍ أَو وَعيدُ أَميرِ
فَلَم يَمنَعوا عَينَيَّ مِن دائِمِ البُكا وَلَن
يُذهِبواماقَدأَجَنَّ ضَميري
إِلى اللَهِ أَشكواماأُلاقي مِنَ الهَوى وَمِن حُرَقٍ تَعتادُني وَزَفيرِ
وَمِن حَرَقٍ لِلحُبِّ في باطِنِ الحَشا وَلَيلٍ تَويلِ الحُزنِ غَيرِ قَصيرِ
سَأَبكي عَلى نَفسي بِعَينٍ غَزيرَةٍ بُكاءَ حَزينٍ في الوِثاقِ أَسيرِ
وَكُنّا جَميعاً قَبلَ أَن يَظهَرَ الهَوى بِأَنعَمِ
حالِ غَبطَةٍ وَسُرورِ
فَما بَرِحَ الواشونَ حَتّى بَدَت لَهُم بُطونُ الهَوى مَقلوبَةً لِظُهورِ
لَقَد كُنتِ هَسبَ النَفسِ لَودامَ وَصلُنا وَلَكِنَّما الدُنيا مَتاعُ غُرورِ
(اگر
وہ لبنی کو چھپاتے ہیں یا اس سے ملنے سے روکتےہیں تو یہ یاتو کسی چغل خور کی کذب بیانی
ہے یا امیرکی وعیدہے۔پھر بھی وہ میری انکھوں کو ہمیشہ
رونے سے روک نہیں سکے اور جو میرے دل میں چھپاہے اسے ختم نہیں کر سکے۔ مجھے
جو لبنی سے محبت ہے اور اس کی جدائی پر جو
مسلسل تکلیف وجلن او ر آہ وبکا ہے
میں اس کا شکوہ اللہ سے کرتاہوں ۔اور اسی
طرح دل میں جو محبت کی آگ بھڑک رہی ہے
اور ایسی لمبی رات جو غم کی آہ
وبکا سے پر ہے ۔ میں بھری آنکھوں کے ساتھ
غم کے مارے کی طرح جو رسیوں میں قید ہو
خود پر روؤوں گا۔ ہم سب محبت کے ظاہر ہونے
سے قبل کتنا خوش حال اور پرمسرت زندگی
گزاررہے تھے ۔ مخبر وچغلخور اس وقت تک انتظار میں رہے یہاں تک کے
چھپی محبت ظاہر نہ ہوگئی ۔ ہمار ا وصل جب تک قائم رہا تو خود سے مطمئن رہی
لیکن دنیا تو دھوکے کا سامان ہے )۔
لبنی
سے قیس کی دوبارہ شادی :
قیس سے
لبنی کی دوسری شادی کے بارے میں بھی روایت ہے۔ یہ قصہ اگر سچ ہے تودنیائے عشق ومشک کی بڑےہی
نادرلطیفوں میں سےایک ہے ، کہاجاتاہےکہ قیس اپنی ایک اونٹنی لےکربغرض
فروخت مدینہ کی جانب چلا اوراتفاق ایسا ہواکہ اسے لنبی کے شوہر نے ہی خریدا جوکہ
قیس سے انجان تھا ، اس نے قیس سے کہا کہ کل دارکثیر بن صلت میں آکر اس کی قیمت
لےلینا ، کل ہوکر گیا تواس نے
اس کی میزبانی کے لوازمات رکھ کر
کسی کام سے باہر گیا اس وقت اس کی بیوی نے اپنی خادمہ سےکہاکہ اس سے پوچھے یہ پریشان حال کیوں ہے، اس کا چہرا
بدلہ ہوا ہے ؟ اس نے
ایک لمبی سانس لی اور کہاکہ جب
محبوب سے جدائی ہوتی ہے تو یہی حال ہوتاہے ۔پھر اس نے کہاکہ اس سے پوچھو کہ کیاہوا اپنا قصہ بتائے اس کے
پوچھنے پر اس نے اپنی کہانی شروع کردی یہ
سننا تھاکہ لبنی نے پردہ ہٹایا اور کہا: بس رہنے دو ہم پوری حقیقت حال سے واقف
ہیں ، جب قیس نے اسے پہچان لیا توحیران رہ
گیا ایک گھڑی کو تو اس کی آواز ہی بند
ہوگئی پھر وہاں سے الٹےپاؤں لوٹا کہ لبنی
کا شوہر آگیا اور تعجب سے کہاکیابات ہے
اپنی قیمت لئے بغیر واپس جارہےہو؟ اگر زیادہ چاہئے تو دوں گا ۔ قیس بغیر کوئی بات کئے جانے لگا ،
وہ اندرگیاتو لبنی نے کہا یہ تونے کیاکیا
یہ تو قیس ہے ، اس نے قسم
کھاکرکہاکہ اسے پہچانتانہیں تھا ، اور یہ بھی کہاجاتاہے کہ جب وہ اپنی قیمت لینے
آیا تو لبنی کو دیکھ کرمبہوت ہوکر واپس جانے لگا
تو اس کے شوہر نے پوچھاکہ کیاتو
قیس ہے؟ تو اس نے کہا: ہاں ۔ اس نے کہاواپس چلو
ہم لبنی کو اختیار دیں گے اگر وہ تمہیں چاہتی ہے تومیں اسے طلاق دے دوں گا
اور وہ پھر تم سے شادی کرلےگی ، اس کاخیال تھا کہ وہ قیس سے نفرت کرتی ہوگی لیکن
اس نے قیس کو ہی اختیار کیا چنانچہ اس نے اسی وقت اسے طلاق دےدیا ۔
اس کے
طلاق کے مزید کئی ایک اسباب بیان کئے جاتے ہیں، ایک روایت میں ہے کہ قیس
حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ
اپنی کسی ضرورت کا حوالہ دے کر ابن ابی عتیق کے پاس گیا جو کہ اپنے وقت کا
صاحب مروءت اور خوددار ترین آدمی تھا
، پھر اس نے اس سے لبنی کے
طلاق کی سفارش کی تو اس نے اسے طلاق
دےدیا ، اور چونکہ اس معاملے کے بارے اس
نے اپنے مصاحبین کو بتایا نہیں تھا اس لئے انہوں نے اس سے خفت محسوس کی اور
حسن رضی اللہ عنہ نے ابن ابی عتیق کو ایک
ہزاردرہم عنایت کیا اور کہا کہ اگر مجھے معلوم ہوتاکہ قیس اس غرض سے ہمیں اپنے ساتھ لا رہاہے تو میں
ہرگزنہیں آتا۔
ایک
روایت یہ بھی ہے جب اس نے فزاریہ عورت سے
شادی کرلینے پر اس کی ملامت وسرزنش کی تو اس نے قسم کھائی کہ وہ کبھی
اسے نہیں دیکھےگا اور نہ ہی اس سے کوئی بات کرےگا بلکہ اس سے اجنبی پن کا
اظہارکرےگا ، اور لبنی نے بھی اسے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کو پسند نہیں کرتی ، اس
نے اپنی مرضی سے اس سے شادی نہیں کی ہے بلکہ جب قیس کےلئے اھداردم کا حکم ہوا تو
کہیں اسے نقصان نہ پہنچے اس لئے اس کوعتاب
سے بچانےکی خاطرشادی کرلی پھر جب اس کے شوہر کو
لبنی اور قیس کے جذبات کا ادراک ہواتو اسے طلاق دینے پر آمادہ ہوگیا
پھر لبنی کے بھائی نے ایک قاصد قیس کے
پاس لبنی سے رجوع کرنے کے بارے میں پوچھنے کے لئے بھیجا تو اس نےقاصد کو
اس کے بھائی کو یہ اختیار دے کر واپس کردیا کہ یاتو وہ اپنی بہن کو اس کے
شوہر کے ساتھ رہنے دے یا پھر اس سے طلاق لےکر
اس سے قیس کی دوبارہ شادی کرادے تو
اس کے بھائی نے لبنی اور اس کے شوہر کے عدم جدائی کو اختیار کیا۔ کہتے ہیں کہ اس وقت قیس
معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا ان کی تعریف ان سے باتیں کی تو ان کا دل اس کےتئیں نرم پڑگیا، اور اس سےکہاکہ اگر تم
چاہوتو اس کے شوہر کو اسے طلاق دینے کے لئے لکھ دوں ؟ قیس نے کہا کہ نہیں بس اتنی سی اجازت دیجئے
کہ میں اس کے شہر میں قیام کرسکوں تو انہوں نے اس کی اجازت دے دی ۔ اور بعض
روایتوں میں ہے کہ جب وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو پہلے یزید کے پاس گیا
اور اس سے یہ ساری باتیں کی جس سے یزید کا دل پگھل گیا اور اس نے کہا کہ اگر تو کہے تو لبنی کے شوہرکو اسے طلاق دینے کو
کہوں لیکن قیس نے اس سے اس کے شہر میں قیام کی اجازت طلب کی تاکہ
وہاں رہ کر لبنی کے احوال سے واقف رہے اور اسی کے سہارے اپنی زندگی گزارے
جسے یزید نے منظور کرلیا اور معاویہ رضی
اللہ عنہ سے ایک خط لے کر اسے دیا جس کے مطابق وہ جہاں چاہے رہے ، اور کوئی اس کے
آڑےنہ آئے ، اور اس نے اس کے خون معافی کا حکم بھی صادرکیا۔ ((الاغانی
:9/244) ۔
چنانچہ جب اس کے قتل کا حکم کالعدم قراردےدیاگیا تو لبنی کے شہر میں آباد ہوگیا اور اپنےاشعار سے
اس کی خوب مدحت کی اور اس کےاشعار
معبد اورغریض جیسے قبائل میں خوب گائے گئے جس سے لوگوں کے عواطف اس کے لئے نرم پڑگئے ، پھر جب لبنی کا طلاق
ہوا تو ابن ابی عتیق کے حکم سے عدت میں چلی گئی
بعض روایتوں کے مطابق حالت عدت میں ہی اس
کا انتقال ہوگیا اور کچھ لوگ اس بات کی طرف گئے ہیں کہ اس نے اپنی عدت پوری کی اور قیس سے اس کا دوبارہ نکاح ہوا اور وفات تک
دونوں ساتھ رہے اپنی تائید میں ان لوگوں
نے قیس کے ان اشعار کو پیش کیاہے:
جزى الرحمن أفضل ما يجازى على الاحسان خيراً من صديق
فقد جربت
إخواني جميعاً فما
ألفيت كابن أبي عتيق
سعى في جمع
شملي بعد صدع ورأى حدت فيه عن الطريق
وأطفأ لوعة
كانت بقلبي أغصتني حرارتها بريقي
دوست
کے اس احسان پر رحمن بہترین بدلہ دے ، میں
نے اپنے تمام دوستوں کو آزمایا ہے لیکن
کسی کو ابن ابی عتیق جیسا بھلا نہیں پایا ۔ اپنی تکلیف میں جب میں ٹوٹ کر بکھر
گیاتھا اور اس نے دیکھا کہ میں راستے سے بھٹک گیا ہوں تو مجھے اکٹھا کرنے کی کوشش کی ۔ اور اس نے میرے دل میں بھڑکتےآگ کو بجھایا جس کی حرارت نے میرے لعاب تک کو میرے حلق میں اٹکادیاتھا ۔
جب
قیس کو لبنی سے ملنے جلنے سے روک دیا گیا اور اس کا خون رائیگاں کر دیاگیاتو اس نے
تڑپ کرکہا :
إن تك لُبْنَى قد أتى دون قربها ... حجابٌ منيعٌ ما
إليه سبيل
فإنّ نسيم الجوّ يجمع بيننا ... ونُبصر قَرْنَ الشمس
حين تزول
وأرواحنا باللَّيل في الحيّ تلتقي ... ونعلم أنّا
بالنهار نَقيل
وتجمعنا الأرضُ القَرارُ وفوقنا ... سماء نرى فيها
النجومَ تجول
إلى أن يعود الدهر سَلْماً وتنقضي ... تراتٌ بغاها
عندنا وذُحول
گرچہ
لبنی کے گرد ایک مضبوط پردہ حائل کردیاگیا
جس تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ،
لیکن ہواکاجھونکا ہمیں اکٹھا کردیتاہے اور ہم
دونوں زوال کے وقت سورج کے ہالہ کو دیکھتےہیں ، اور ہماری روحیں رات کو محلے میں ایک دوسرے سے ملتی ہیں کیونکہ ہمیں جانتےہیں کہ
ہم دن میں قیلولہ کرتے ہیں ۔ہمیں ساکت زمین اکٹھا کرتی ہے جبکہ ہمار ےاوپر آسمان
ہوتاہے جس میں ستاروں کو گردش کرتے ہوئے دیکھتےہیں یہاں تک کہ وقت
صحیح سالم پٹری پر لوٹ جائے اور یہ
جدائی اورتنہائی جو اختیارکیاہے ختم ہوجائے۔
(الاغانی :9/232-233) ۔
ایک
بار قیس حج کو گیا اتفاقا لبنی بھی اس سال حج کررہی تھی قیس نے اسے اس کی قوم کی ایک عورت کے ساتھ
دیکھاتو حیرت زدہ ہوکر مٹی کے پتلا کی
طرح اپنی جگہ پر جم سا گیا اور لبنی وہاں
سے گزرگئی پھر اس نے اس عورت کو حال احوال
دریافت کے لئے بھیجا ،اس عورت نے اسے
دیکھاکہ وہ تنہا بیٹھ کر روتے ہوئے یہ اشعار کہہ رہاتھا:
ويومَ مِنًى أعرضتِ عنِّي فلم أقل ... بحاجة نفس عند
لُبْنَى مقالُها
وفي اليأس للنفس المريضة راحةٌ ... إذا النفسُ رامت خُطَّةً
لا تَنالُها
مِنی کے روز اس نے مجھ سے
منہ پھیرلیا میں اپنے بارےمیں کچھ نہ کہہ
سکا اور لبنی کے پاس اس کی باتیں بھی تھیں ۔ بیمار نفس کے لئے جب کسی ایسی چیز کا
ارادہ کرے تو نا امیدی میں یہی راحت ہے،حالانکہ
اسے پانہ سکتاہو۔
وہ
عورت اس کے خیمے میں داخل ہوئی اورتھوڑی دیرتک اس سے لبنی کی باتیں کرنےلگی قیس
بھی اس سے اپنی باتیں کرنے لگا ، اس نے قیس سےیہ نہیں بتایا کہ لبنی نے اسے اس کے
پاس بھیجاہے،پھر قیس نے اسے لبنی کو اس کا سلام پہنچانے کےلئے کہا تو اس نے منع
کردیا جس کہنے لگا:
إذا طلعتْ شمسُ النهار فسلِّمي ... فآيةُ تسليمي عليكِ
طلوعُها
بعشر تحيَّاتٍ إذا الشمسُ أَشْرقتْ ... وعشرٍ إذا
اصفرَّتْ وحان رجوعُها
ولو أبلغتْها جارةٌ قوليَ اسلَمِي ... بكتْ جَزَعاً
ارفَضَّ منها دموعُها
وبانَ الذي تُخْفِي من الوجد في الحَشَى ... إذا جاءها
عنِّي حديث يَرُوعُها
جب
سورج طلوع ہوتو اسے میرا سلام کہنا ، تجھ
سے میرے سلام کرنے کی علامت سورج کا طلوع
ہونا ہوگا ، جب سورج طلوع ہو تو دس سلام
اور سورج غروب کے قریب ہو اور اس کے لوٹنے کا وقت ہوجائے تو دس سلام ۔ جب کوئی پڑوسن اسے میرا سلام پہنچادے تو وہ بےچینی سے روپڑےگی اور اس کے آنسو جاری ہوجائیں گے ۔ اورجب میری طرف
سے کوئی ایسی بات اسے پہنچےگی تو جو بے تحاشہ عشق اس نےاپنے اندرچھپا رکھا ہے وہ ظاہرجائےگا۔
جب
حج کے ایام ختم ہوگئے اور قیس اپنے وطن
واپس ہونے لگا تو راستے میں سخت بیمار ہوگیا
یہاں تک کہ موت اس کی نگاہوں کے سامنے نظر آنے لگی ، اس
حالت میں وہ اس امید میں تھا کہ لبنی کا کوئی قاصد اس کی عیادت کو آئےگا کیونکہ اس کی قوم کے
لوگوں نے اس کی حالت دیکھی تھی لیکن کوئی
نہیں آيا تو اس نے کہا:
ألُبْنَى لقد جَلَّتْ عليكِ مصيبتي ... غَدَاةَ غدٍ إذ حلَّ
ما أتوقَّعُ
تُمنِّينَنِي نَيْلاً وتَلْوِبنَني به ... فنفسي
شوقاً كلَّ يوم تَقَطَّع
اےلبنی
کل صبح میری مصیبت سے تو باخبر ہوئی جو
مصیبت میری توقع کے مطابق مجھ پرٹوٹ پڑی
تھی ، یہ مجھے پانے کی
آس دلاتی ہے اور اس کی خواہش جگاتی ہے تو میرا نفس ہر دن شوق وچاہت میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتا رہتاہے۔
کہتےہیں
کہ لبنی کا یہ اشعار سننا تھاکہ وہ بہت
گھبراگئ اور خوب روئی اور رات کو کسی وقت
اس کے پاس گئی اور پھر یہ کہہ کر معذرت کرتے ہوئے واپس ہوگئی کہ اگرمیں تیرے پاس
رکی تو تجھے قتل کردیاجائے گا پھر وہ وہاں سے واپس آگئی ۔
یہ
بھی کہاجاتا ہے کہ لبنی کے گھروالوں نے
جب اسےبتایاکہ قیس بیمار ہے اور ہوسکتاہے
اسی سفرمیں وہ مرجائے تو انہیں ٹالنےکے لئے اس نے کہاکہ وہ جھوٹ بول رہاہے بس
بیماری کا بہانہ کررہاہے ،جب یہ بات قیس کو پہنچی تو اس نےکہا:
تكاد بلادُ الله يا أُمَّ مَعْمَرٍ ... بما رحُبتْ
يوماً عليّ تَضِيقُ
تكذِّبني بالودّ لُبْنَى وليتَها ... تُكَلَّف منِّي
مثلَه فتذوق
اے
ام معمر اللہ کی زمین کشادہ ہونےکےباوجود کسی دن میرے اوپر تنگ ہوجائےگی
لبنی میری محبت کوجھٹلاتی ہے اے کاش کہ اسے بھی میری طرف سے اسی طرح
کی پریشانی
لاحق ہوتی تو اسے پتا چلتا۔
لبنی
کے دیدارکے بعد جب اپنی قوم میں لوٹتاہے
تو دلبرداشتگی اسے تنگ دامانی کا
احساس دلاتی ہے ، دل کا گھاؤ گہر ا ہوتاجاتاہے لوگ اس پر
اس کا عتاب کرتے ہیں اورسمجھاتےہیں وہ
انہیں کوئی جواب نہیں دیتا بس اندر
ہی اندر گھٹتا رہتاہے ، جس کی وجہ سے کسی
بڑی بیماری میں مبتلا ہوجاتاہے اور موت
نگاہوں کے سامنے ہوتی ہے اس کا باپ اور قوم کے لوگ اس کے پاس آکر ڈانٹتے بھی ہیں اور اسے سمجھاتےبھی ہیں لیکن وہ ان کی
باتوں کو نکار دیتاہے اس کا باپ رونے
لگتاہے اس کےلئے آسانی اورتسلی کی دعاء
کرتاہے، قیس کہتاہے :
لقد عذَّبتَني يا حبَّ لُبْنَى ... فقَعْ إمّا بموتٍ أو
حياةِ
فإنّ
الموت أَرْوحُ من حياةٍ ... تدوم على التباعد والشَّتات
وقال الأقربون تَعَزَّعنها ... فقلت لهم إذاً حانت وفاتي
ہائے
لبنی کی محبت نے تو مجھے تباہ کررکھاہے موت بن کر آیا پھر زندگی بن کر ۔ موت زندگی سے
زیادہ راحت بخش ہے جو دوری اور جدائی کے ساتھ قائم رہتی ہے ،رشتہ دار وں نے کہااسے
چھوڑدےتو میں نے کہا تب تو میری موت ہی آجائےگی۔
(الاغانی :9/239)۔
لبنی
کی جدائی کاذمہ دار خود کو مانتے ہوئے خود
کی سرزنش کرتاہے:
أتبكي على لبنى وأنت تركتها وكنت عليها بالملا أنت أقدر
فإن تكن الدنيا بلبنى تقلبت فللدهر والدنيا بطون وأظهر
كأني في أرجوحة بين أحبل إذا فكرة منها على القلب تخطر
تو
لبنی کی جدائی پر روتاہے جبکہ خود ہی اسے چھوڑا ہے جبکہ اس کے ساتھ کھلی جگہوں پر
تھا اور اس پر تمہارا مکمل اختیار بھی تھا ۔ اگر دنیا لبنی کے لئے الٹ پلٹ گئی ہے
تو زمانے اور دنیاکے ظاہر اور باطن بھی
ہیں ۔ جیسے میں جھولے پر جھول رہا ہوں کہ اس کا خیال دل پر کچوکے لگانے لگتاہے۔
لبنی
کی محبت اور اپنے مشاعر کا ذکر کرتے ہوئے کہتاہے :
وَإِنّي
لَأَهوى النَومَ في غَيرِ حينِهِ .. لَعَلَّ لِقاءً في المَنامِ يَكونُ
تُحَدِّثُني
الأَحلامُ إِنّي أَراكُمُ .. فَيا لَيتَ أَحلامَ المَنامِ يَقينُ
شَهِدتُ
بِأَنّي لَم أُحِل عَن مَوَدَّةٍ .. وَإِنّي بِكُم لَو تَعلَمينَ ضَنينُ
وَإِنَّ
فُؤادي لا يَلينُ إِلى هَوى .. سِواكِ وَإِن قالوا بَلى سَيَلينُ
میں بے
وقت سونےجاتاہوں کہ شاید خواب میں ہی سہی ایک ملاقات ہوجائے ،خواب بتاتاہے کہ میں تجھے دکھاؤں گا اے کاش کے خواب حقیقی اور یقینی ہوتے میں گواہی دیتاہوں کہ
میں نے محبت سے منہ نہیں موڑاہے ، اگر تمہیں پتاہے توجانتی ہوکہ میں بخیل نہیں ہوں
،تیرے علاوہ میرا دل کسی اور خواہش کی طرف
نہیں جھکتا گرچہ لوگ کہتے ہیں کہ جھکےگا۔
قیس ولبنی کا انجام :
اس
بات میں اختلاف ہے کہ دونوں کی موت ایک
ساتھ رہتے ہوئی یا الگ الگ ،اکثر راویوں کے مطابق لبنی اور قیس جدائی کے
عالم میں وفات پائے ،کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قیس کی موت لبنی
سے پہلے ہوئی اور جب لبنی کو قیس کی وفات کے بارے میں پتا چلا تو صدمے
سے وہ بھی مرگئی ، کچھ لوگ کہتےہیں کہ لبنی کی وفات پہلے ہوئی اورقیس اس صدمے سے مرگیا اس سلسلے
میں بیان کیاجاتاہے کہ جب اسے لبنی کی وفات کی خبر لگی تو اس کی قبر پر آیا
ا ور یہ اشعار کہے:
ماتت لُبَيْنَى فموتُها مَوْتِي ... هل تنفعَنْ حَسْرتي
على الفَوْتِ
وسوف أبكي بكاءَ مكتئبٍ ... قضى حياةً وَجْداً على
مَيْت
لبنی
مرگئی اس کی موت میری موت ہے کیا اس کے مرنے پرمیرا افسوس کوئی نفع دے سکتاہے،میں
ایسے غم والم میں ڈوبے ہوئے شخص کی طرح رؤوں گا جس نے کسی
کی موت پر ایک وجدانی زندگی گزاری ہے ۔
یہ اشعار کہنے کے بعد وہ لبنی کی قبر پر گرکر بیہوش ہوگیا،
پھر اسکے ساتھیوں نے اسے اس کے گھر پہنچایا،پھر تین دنوں تک دنیا ومافیھا سے بےخبر
رہا یہاں تک کہ اس کی موت ہوگئی اور لبنی کے پہلو میں ہی اسے دفن کردیاگیا۔
جہاں
تک لبنی کی وفات کی بات ہے تو غالب روایت
یہ ہے کہ اس کی موت دوران عدت ہی ہوگئی
تھی ،جب قیس کو اس کی موت کی خبر ہوئی تو
اس کی قبر کے پاس جاکر اس نے وہ اشعار کہے
جن کا ذکر گزرچکاہے اس کے بعد ہی قیس کی موت ہوگئی تھی اوریہ بات غالبا سنہ 61 ہجری کی ہے ۔
------------------------------------------------------
مراجع
:
1 - الأغانی / لابی الفرج الاصفھانی .
2 - الهائمون والمتيمون العرب:قصص وأشعار وحكايات/ أنطوان وحيد نعيم
.
3 - الفرج بعد الشدة / المحسن بن علي بن محمد بن أبي الفهم داود التنوخي
البصري، أبو علي (ت ٣٨٤هـ) .
4 - تزيين الأسواق في أخبار العشاق/ داود بن عمر الأنطاكي، المعروف بالأكمه (ت ١٠٠٨هـ( .
5 - موقع الديوان (aldiwan.net)
6- تأريخ الأفلاج وحضارته /عبد الله بن عبد العزيز آل مفلح
7 - خزانة الأدب ولب لباب لسان العرب / عبد القادر بن عمر البغدادي
8 - ديوان قيس بن الملوح مجنون ليلى /رواية أب بكرالوالبي
9 - الأعلام/ خيرالدين الزركلي
10 - نوادرالعشاق / إبراهيم زيدان
11 - الدر المنثور في طبقات ربات الخدور/ زينب بنت علي بن حسين
**********
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں