اتوار، 4 اپریل، 2010

ذراتلخ مگرسچ

 تمباکوخور اورسگريٹ نوش حضرات اكثریہ کہتے ہوئے ملتے ہيں کہ : " ميں نے فلاں مولوی صاحب يافلاں شيخ صاحب کو استعمال کرتے ہو‏ئے ديکھا ہے ، اگريہ چيز حرام ہوتی تو يہ حضرات ان کا استعمال کيوں کرتے ؟ " يہاں پر ميں ان حضرات کو مندرجہ ذيل چند باتوں کی طرف متوجّہ کرنا چاہوں گا :
(1) شريعت اوراس کے تمام امورواحکام اللہ تبارک وتعالی کےنازل کردہ ہيں، جنہيں خاتم النبيين محمدصلی اللہ عليہ وسلم نے پوری امانت و ديانت اور تفصيل و وضاحت کےساتھـ قولاًوعملاًپوری دنياکے لئےبيان فرمادياہے،جنکی عملی تفسير وتعبيرصحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آنے والی نسلوں کے سامنے پيش کيااورجن کی پوری تشريح وتفصيل ائمہ محدّثين اورفقہاء کی کتابوں ميں موجودہے،ظاہر ہے کہ شريعت چند مولويوں اورشيخوں کےخود ساختہ عمل اور طرزِعمل کا نام نہيں ہے، اگر ان چند مولويوں کےطرزِعمل کو ہی شريعت مان ليا جا‏ئے تو پھر ان ميں اوربنو اسرائيل ميں کيا فرق رہ جائےگا،جنہوں نےاپنےعلماء کو ہي اصل شارع مان کراپنے رب اوراس کے نبی کی تعليمات سے روگردانی کرليا تھا ؟ اللہ
تعالی کا ارشاد ہے : {اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ }( التوبة 31) (ان لوگوں نے اپنےعلماء کو اللہ کے سوا رب مان ليا اورمريم کےبيٹے مسيح کورب بناليا) عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نےکہا : " انہوں نےان (علماء) کومعبود تو نہيں بنايا تھا؟ " تو اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : " ہاں ليکن انہوں نے ان کے لئے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرديا تھااور ان لوگوں نے اس ميں ان کی اتّباع کی يہی ان کی عبادت ہے "(تفسیرابن کثیر، دیکھۓ: المصباح المنیر( ص 563 – 564 ) ) ۔
(2) اسے عقل کی خرابی کہيں ياخواہشات کی غلامی کہ ايسےحضرات مذکورہ قسم کےمولويوں کےبرےاورغلط اعمال کو آئيڈيل اورقابلِ تقليد بناتےہيں اور اچھےعلماءکے نيک اوراچھےاعمال جوکتاب وسنت کےمطابق ہوتے ہيں ان سے روگردانی کرتےہيں،بلاشبہ علماءان لوگوں کے لئےجو کتاب و سنت کے علوم سے نابلد ہوتے ہيں قابلِ اتّباع ہيں ، دين کی معرفت، حلال وحرام کی تمیيز ، عبادات کی صحيح ادائیگی اوردين کے ديگر امور ميں عام آدمی علماء کا محتاج ہوتاہے ، ليکن علماء کی اس حيثيت سے پہلوتہی کرکےچند خودساختہ طرزِ عمل والےمولويوں کےکسی عمل کوگلے لگانا شريعت کے مزاج کے يکسرخلاف ہے ۔
(3) بلاشبہ انسان خطاکارہوتاہےخطائيں کرنا اس کی فطرت ميں داخل ہے ليکن شريعت کاتقاضہ يہ ہےکہ آدمی کواپنی غلطی کااحساس ہو اوراسے اس پرندامت ہو، پھراس گناہ سے توبہ کرکےاس سےمستقبل ميں بچنےکاعزم کرے يہی تقوی اورخوفِ الہی سے معموردل کاشيوہ ہے،اسکےباوجود ہرمعاشرے ميں چند نام نہادمولوی ايسے مل جاتےہيں جنہوں نے شريعت مخالف امورکو انجام دينااپناشيوہ بنالياہے، ايسےنام نہادمولويوں ميں آپ کوجھوٹا،مکّار، فريب کار،دغاباز،بےنمازی، حرام خور، پڑوسيوں کےحقوق مارنےوالے، والدين کی نافرمانی کرنےوالےاورتجارت ميں بےايمانی کرنےوالےيہاں تک کہ زنااورلواطت جيسے قبيح اورناقابل معافی جرم وگناہ کا ارتکاب کرنےوالےبھی مل جائيں گے توکياان نام نہاد مولويوں کےکرنے سے يہ سارےکام جائزومباح ہوجائيں گے ؟ ہمارے لئےتو دليلِ راہ کتاب وسنت ہے، آئيڈيل ونمونہ نبی آخر الزماں محمدصلی اللہ عليہ وسلم ہيں اور مشعل راہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور ان کا تقوی اورخوفِ الہی ہےنہ کہ ان " تقوی خور"مولويوں کاطرزِعمل!!
(4) جوعلماء اس بری لت کےشکارہیں وہ اس بات کادعوی ہرگزنہیں کرتےکہ وہ معصوم عن الخطاء ہیں،ان میں سےاکـثرجوانی یابچپن ہی میں اس کےشکار ہوۓ پھران کی قوّت ارادی اتنی کمزور پڑگئی کہ اس سےبچناان کےلۓ مشکل ہوگیا(اس میں کہیں نہ کہیں ایمان کی کمزوری جھلکتی ہے) ٹھیک اسی طرح جس طرح بہت سارےڈاکٹراوراطبّاء سگریٹ وتمباکوکے خطرناک اوربھیانک انجام اوران کےنقصانات کایقین کامل رکھتے ہوۓ بھی اس لَت کے شکار ہیں، توکیا ان ڈاکٹروں کے استعمال کرنےسے ان کےنقصانات ختم ہوجاتے ہیں ؟
يہاں پر ميں نہايت ہی معذرت کے ساتھـ مخاطب ہوں ان بھائيوں سے جن کو اللہ رب العزت نے علم دينی و شرعی جيسی لازوال اور بےبہا نعمت سےنوازا ہے،جوانبياء کرام عليھم السلام کےوارث اوردعوت وارشاد کے پيکرہيں، جن کو خالق کون ومکاں نے خشيّت وتقوی کے اعلی مقام پر فائز کيا ہے : {َ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاء} (الفاطر28) ان کے اوپر لازم ہے کہ وہ اپنے تمام اعمال کوکتاب وسنت کے تابع کريں، اور اتباعِ ہوی وہوس کو پسِ پشت ڈال کران تمام برے اعمال سے توبہ کريں جو شعوری ياغيرشعوری طورپران کی زندگی ميں در آتے ہيں ، ايسا نہ ہوکہ ان کے بعض غلط حرکات کوعام آدمی صحيح اورعينِ شريعت سمجھـ کر ان پرعمل کرنے لگ جا‎ۓ ، علماء کو تو بعض اوقات ان جائزکاموں کوبھی چھوڑنا پڑتاہےجوبسااوقات لوگوں کی نگاہ ميں ان کی جلالت ومنصب اورتقوی ومروءت کے خلاف معلوم ہوتے ہيں ، يا جس سے کسی غلط فہمی کی بنيادپرکسی شرّکادروازہ واہونے کا خطرہ ہو ، کيوںکہ دفعِ مضرّت جلبِ منفعت سے اولی وبہترہے ۔

کوئی تبصرے نہیں: