اتوار، 5 جولائی، 2020

حرمت وادب کے چار مہینے



        اللہ رب العزت نےاپنی رحمت اورحکمت کے پیش نظراپنی مخلوق کوایک دوسرے پرفضیلت اور برتری  دے رکھی ہے، فرماتاہے : ( وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ ) (اور آپ کا رب جو چاہتاہے پیدا کرتاہے ، اورجسے چاہتاہے چن لیتاہے ، ان  میں سے کسی کو کوئی اختیارنہیں ، اللہ ہی کے لئے پاکی ہے وہ بلندترہے ہر اس چیزسے کہ لوگ شریک کرتے ہیں )۔ (سورۃ القصص/68)۔
لہذا دنیا کی تمام جگہوں میں مکہ ، مدینہ اور بیت المقدس کوخصوصی  فضیلت او راہمیت دے رکھاہے .اور دنوں  میں بعض مہینوں کو بعض پر اور بعض ایام کو بعض پر فضیلت د ے رکھا ہے ، جیسے رمضان کو دیگر مہینوں پر ، لیلۃ القدرکو دیگر راتوں پراور جمعہ کو دیگر ایام پر ،  اسی طرح  ذی الحجہ کے پہلے عشرہ اور عاشورہ اور عرفات کے ایام کو خصوصی فضیلت سے نواز ہ ہے ۔
  انہیں ایام میں سے حرمت کے چار مہینے ہیں   ، جن کے   اندرباسعادت انسان  نیکیوں اور  افعال خیر اور ترک منکرات کے ذریعہ اللہ رب العزت  کی قربت کا خواہاں ہوتاہے ۔  ان حرمت کے مہینوں کا  بیان قرآن وسنت میں واردہے ، اللہ تعالی  ان مہینوں کی عظمت اور شرف کو بیان کرتے ہوئے اور ان کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے فرماتاہے: (إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِعِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ ) ( اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں مہینوں کی تعداد بارہ  ہے ، اسی دن سے جب سے آسمان اور زمین کو پیداکیاہے ، ان میں سے چار حرمت وادب کےہیں ۔ یہی درست دین ہے ۔ تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم مت کرو)۔(سورۃ التوبہ /36)۔
ان چار مہینوں کی تعیین کے سلسلے میں  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" السَّنَةُ اثْنا عَشَرَ شَهْرًا مِنْها أرْبَعَةٌ حُرُمٌ: ثَلاثَةٌ مُتَوالِياتٌ: ذُو القَعْدَةِ، وذُو الحِجَّةِ، والمُحَرَّمُ، ورَجَبُ مُضَرَ، الذي بيْنَ جُمادَى وشَعْبانَ" "ایک سال میں بارہ مہنے ہیں جن میں چار حرمت کے ہیں ، تین لگاتار ہیں  : ذوالقعدہ ، ذوالحجۃ اور محرم اور (ایک) مضر(قبیلہ ) والا رجب جو جمادی(الثانیۃ) اور شعبان کے درمیان (پڑتا) ہے "(صحیح بخاری / 4406، صحیح مسلم /1679)۔
رجب مضرسے مراد:  عہد جاہلیت میں قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر کے یہاں رجب الگ الگ مہینوں کا نام تھا  ، چنانچہ حدیث میں رجب کے مہینے کو قبیلہ مضر کی طرف منسوب کرکے اس کی وضاحت کردی  گئی ہے کہ رجب سے مراد وہ  رجب ہے جو قبیلہ مضرکے یہاں معروف ہے  نہ کہ وہ رجب جو قبیلہ ربیعہ کے یہاں معروف تھا، جسے رجب المحرم کہاجاتاتھا اوروہ شعبان اور شوال کے  درمیان ہے  جو کہ رمضان کا مہینہ  ہوتاہے ۔(تفسیر ابن کثیر)
حرمت کا مطلب : کسی بھی چیز کی حرمت کا مطلب ہوتاہے اس کی ‏تعظیم وتکریم کرنا، اور اس مقام یا وقت میں ظلم وعدوان اور اور شرک وخرافات سے خصوصی طور پر احتراز اور کتاب وسنت کے مطابق ثابت شدہ عبادات وامور کو احسن طریقے سے ادا کرنا ، کیونکہ ان جگہوں یاان اوقات میں نیکیوں کا ثواب بڑھ جاتاہے اور گناہ ومعاصی کا انجام بھی بڑا ہو جاتاہے ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :"إن الله اختص من الأشهر أربعة أشهر، جعلهن حراما وعظم حرماتهن، وجعل الذنب فيها أعظم، والعمل الصالح والأجر أعظم"۔ "اللہ تعالی نے (تمام ) مہینوں میں سے چار کو خاص کرلیا ہے  اور ان کو حرمت والا قراردیاہے ، اور ان کی حرمت کو عظیم قراردیاہے اور ان (حرمت والے مہینوں ) میں گناہ کو بڑا کردیاہے اورعمل صالح اورثواب کو بڑا کردیاہے"۔
 چنانچہ یہ وہ چار مہینے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے حرمت والے قراردیاہے ،اور ان مہینوں کا نام حرمت والا اس لئے پڑا کہ   ان مہینوں میں خصوصی طور پر ظلم وجبر ، لڑائی وجھگڑا  اور معاصی کو حرام قراردیاگیاہے ۔ 
حرمت والے مہینے جاہلیت اور اسلام میں : دین ابراہیمی  میں لوگ ان مہینوں کی  تعظیم کیا کرتے تھے  اور ان کے اندر لڑائی کو حرام سمجھتے تھے ، الا یہ کہ کسی کے ظلم وعدوا ن کے خلاف اسے سزادینا مقصود ہو ۔  
اس سے ان کا مقصد یہ ہوتاکہ حج پر جانے والے ، اور تجارت وغیرہ کرنے والے لوگ امن کے ساتھ  اپنی منزل مقصد پر پہنچ جائیں اور اپنی ضرورتوں کو پوری کرکے سلامتی کے ساتھ واپس آجائیں ۔
حافظ ابن کثیر کے بقول :" وإنما كانت الأشهر المحرمة أربعة، ثلاثة سرد وواحد فرد، لأجل مناسك الحج والعمرة، فحرم قبل أشهر الحج شهرًا وهو ذو القعدة؛ لأنهم يقعدون فيه عن القتال، وحرم شهر ذي الحجة لأنهم يوقعون فيه الحج ويشتغلون فيه بأداء المناسك، وحرم بعده شهر آخر وهو المحرم ليرجعوا فيه إلى أقصى بلادهم آمنين، وحرم رجب في وسط الحول لأجل زيارة البيت والاعتمار به لمن يقدم إليه من أقصى جزيرة العرب، فيزوره ثم يعود إلى وطنه فيه آمنًا"۔ "حرمت والے چار مہینے تھے، حج وعمرہ جیسے مناسک کی ادائیگی لئے تین لگاتار اور ایک الگ ، چنانچہ حج کے مہینوں میں ایک ماہ قبل ذوالقعدہ کو حرام قرار دیا کیونکہ وہ  اس ماہ میں لڑائی چھوڑدیتےتھے، اور ذوالحجہ کو کیونکہ کہ اس ماہ میں مناسک حج کی ادائیگی میں لگ جاتےتھے ، اور اس کے بعد دوسرا مہینہ محرم کو حرام قراردیا تاکہ لوگ (حج کے بعد) اپنے دوردرازکےعلاقوں میں امن اور سلامتی کے ساتھ واپس ہوجائیں ،اور سال کے بیچ میں رجب کو حرام قراردیا تاکہ دور دراز سے بیت اللہ کی زیارت اور عمرہ کی ادائیگی کے لئے آنے والے  لوگ   امن اور سلامتی کے ساتھ عمرہ وزیارت کرکے اپنے وطن کو واپس ہوجائیں "۔(تفسیر ابن کثیر)
پھر جب اسلام آیا تو اللہ تعالی نے ان مہینوں کی حرمت کو اپنی اصلی حالت پر برقراررکھا ، جیساکہ   اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا(إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ) ( اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں مہینوں کی تعداد بارہ  ہے ، اسی دن سے جب سے آسمان اور زمین کو پیداکیاہے ، ان میں سے چار حرمت وادب کےہیں )۔(سورۃ التوبہ /36)۔
اور ابو بکرہ نفیع بن الحارث سے سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "الزَّمانُ قَدِ اسْتَدارَ كَهَيْئَةِ يَومَ خَلَقَ السَّمَواتِ والأرْضَ، السَّنَةُ اثْنا عَشَرَ شَهْرًا مِنْها أرْبَعَةٌ حُرُمٌ: ثَلاثَةٌ مُتَوالِياتٌ: ذُو القَعْدَةِ، وذُو الحِجَّةِ، والمُحَرَّمُ، ورَجَبُ مُضَرَ، الذي بيْنَ جُمادَى وشَعْبانَ، أيُّ شَهْرٍ هذا، قُلْنا: اللَّهُ ورَسولُهُ أعْلَمُ، فَسَكَتَ حتَّى ظَنَنَّا أنَّه سَيُسَمِّيهِ بغيرِ اسْمِهِ، قالَ: أليسَ ذُو الحِجَّةِ، قُلْنا: بَلَى، قالَ: فأيُّ بَلَدٍ هذا. قُلْنا: اللَّهُ ورَسولُهُ أعْلَمُ، فَسَكَتَ حتَّى ظَنَنَّا أنَّه سَيُسَمِّيهِ بغيرِ اسْمِهِ، قالَ: أليسَ البَلْدَةَ. قُلْنا: بَلَى، قالَ: فأيُّ يَومٍ هذا. قُلْنا: اللَّهُ ورَسولُهُ أعْلَمُ، فَسَكَتَ حتَّى ظَنَنَّا أنَّه سَيُسَمِّيهِ بغيرِ اسْمِهِ، قالَ: أليسَ يَومَ النَّحْرِ. قُلْنا: بَلَى، قالَ: فإنَّ دِماءَكُمْ وأَمْوالَكُمْ، وأَعْراضَكُمْ علَيْكُم حَرامٌ، كَحُرْمَةِ يَومِكُمْ هذا في بَلَدِكُمْ هذا، في شَهْرِكُمْ هذا، وسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ، فَسَيَسْأَلُكُمْ عن أعْمالِكُمْ، ألا فلا تَرْجِعُوا بَعْدِي ضُلَّالًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقابَ بَعْضٍ، ألا لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الغائِبَ، فَلَعَلَّ بَعْضَ مَن يُبَلَّغُهُ أنْ يَكونَ أوْعَى له مِن بَعْضِ مَن سَمِعَهُ"  ثُمَّ قالَ: ألا هلْ بَلَّغْتُ "مَرَّتَيْنِ ۔ "  زمانہ اپنی اصل حالت پر گھوم کر آ گیا ہے۔ اس دن کی طرح جب اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں۔ چار ان میں سے حرمت والے مہینے ہیں۔ تین لگاتار ہیں، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور چوتھا رجب مضر جو جمادی  (الثانیۃ)  اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے"، پھر آپ نے دریافت فرمایا:" یہ کون سا مہینہ ہے؟" ،  ہم نے کہا کہ اللہ اور ان کے رسول کو بہتر علم ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ ہم نے سمجھا شاید آپ مشہور نام کے سوا اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ لیکن آپ نے فرمایا:" کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے؟ "، ہم بولے کہ کیوں نہیں۔ پھر دریافت فرمایا:" اور یہ شہر کون سا ہے؟"  ہم بولے کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ بہتر علم ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ ہم نے سمجھا شاید اس کا کوئی اور نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکھیں گے، جو مشہور نام کے علاوہ ہو گا۔، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" کیا یہ مکہ نہیں ہے؟" ،   ہم بولے کیوں نہیں یہ مکہ ہی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا :" اور یہ دن کون سا ہے؟"  ہم بولے کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ بہتر علم ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اور ہم نے سمجھا شاید اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مشہور نام کے سوا کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا یہ یوم النحرقربانی کا دن) نہیں ہے؟"  ہم بولے کہ کیوں نہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پس تمہارا خون اور تمہارا مال اور تمہاری عزت تم پر اسی طرح حرام ہے جس طرح  تمہارے اس دن کی حرمت، تمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینے میں ہے،  اور تم بہت جلد اپنے رب سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔ ہاں، پس میرے بعد تم گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ ہاں اور جو یہاں موجود ہیں وہ ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں، ہو سکتا ہے کہ جسے وہ پہنچائیں ان میں سے کوئی ایسا بھی ہو جو یہاں بعض سننے والوں سے زیادہ اس حدیث کو یاد رکھ سکتا ہو"-  پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :"  تو کیا میں نے پہنچا دیا" ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ یہ جملہ فرمایا۔ (صحیح بخاری / 4406، صحیح مسلم /1679)۔
دنیاوی فائدے کے لئے کفار کا حرمت والے مہینوں میں  پھیر بدل کرنا : اسلام کی آمد سے قبل تک ان مہینوں کی حرمت ایسے ہی باقی رہی، پھر چونکہ  ان مہینوں کی حرمت اور عظمت  لگاتارتین ماہ کی لمبی مدت  تک کے لئے ہوتی ،اور چونکہ ان کا معاش شکار  اور تجارت وغیرہ پر منحصرتھا، اور بسا اوقات بعض حرمت والے مہینوں میں قبائل میں  لڑا‏ئی چھڑجاتی اور ان کے لئے جنگ کرنا ناگزیر ہوجاتا،  اور پھر تین مہینوں تک وہ اس سے رک نہیں سکتے تھے ،  اس لئے انہوں نے اس کے لئے حیلہ بازی سے کام لینا شروع کیا اور بجا‏ئے اس کے جنگ کو مؤخر کرتے  اس حرمت والے مہینے کو مؤخر کردیتے،  اور کبھی محرم کو صفر میں کردیتے اور صفرکو حرام کرکے محرم کو حلال کرلیتے اور بسا اوقات اسے ربیع میں کردیتے، اور کبھی کبھی تو اتنی تاخیر کرتے کہ  اسے سال کے اخیر تک لے جاتے، مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ  :" ان لوگوں نے ذی الحجہ میں دوسال حج کیا، پھر محرم میں دوسال حج کیا ، پھر صفرمیں  دو سال حج کیا ، اور اسی طرح وہ   دیگر مہینوں میں بھی دو سال حج کیا  کرتےتھے، چنانچہ حجۃ الوداع سے قبل ابو بکر رضی اللہ عنہ کا دوسرے سال کا حج ذو القعدہ میں  پڑا ، پھر اس  کے اگلے سال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے حجۃ الوداع کیاجو ذوالحجہ کے مہینے میں مشروع حج تھا ۔۔۔"(دیکھئے  :معالم التنزیل اور تفسیر کی دیگر کتابیں )۔
اس سے ان کا مقصدیہ ہوتاکہ اللہ تعالی نے جو حرمت والے چار مہینے رکھےہیں ان کی گنتی میں کمی نہ  ہو ، جنگ وجدال اور غارت گری جس سے اللہ تعالی نے منع فرمایا تھا اس  کی انہیں پرواہ نہیں تھی بلکہ وہ ان ظالمانہ کارروائیوں  کے لئے ہی اللہ تعالی کے متعین کردہ مہینوں میں رد وبدل کرتے تھے۔
پھر جب اسلام آیا تو ان مہینوں کی حرمت کو ان کے اصلی وقت کے مطابق کردیا  ، اور اسی حجۃ الوداع کے موقع سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منی میں خطبہ دیااورلوگوں کو بتایا کہ حرمت کے مہینوں میں تاخیرکو منسوخ کیاجاتاہے اور ان کی حرمت اپنے اصل کے مطابق باقی رکھی جاتی ہے  ، جیسا کہ ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں مذکورہے۔( دیکھئے  :معالم التنزیل اور تفسیر کی دیگر کتابیں )۔
نیز اللہ تعالی نے ان کی اس حیلہ بازی کو کفرمیں زیادتی کا سبب قراردیا ،فرماتاہے :( إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ ۖ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِّيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّهُ ۚ زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ) (سورۃ التوبۃ /37) (مہینوں کا آگے پیچھے کردینا کفرکی زیادتی ہے ، اس سے وہ لوگ گمراہی میں ڈالے جاتے ہیں جو کافرہیں ۔ ایک سال تو اسے حلال کرلیتے ہیں اور ایک سال اسی کو حرمت والا کرلیتےہیں ، کہ اللہ نے جو حرمت رکھی ہے اس کے شمار میں تو موافقت کرلیں  ، پھر جسے اللہ نے حرام کیاہے اسے حلال بنالیں  ۔ انہیں ان کے برے کام اچھے دکھائے گئے ہیں ۔ اور قوم کفارکو اللہ ہدایت نہیں دیتا)۔
حرمت والے مہینوں کی خصوصیت  وفضیلت اور ان سے متعلق بعض احکام : ان مہینوں کی حرمت  کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتاہے:( فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ (سورۃ التوبۃ/36) (ان مہینوں میں خود پر ظلم مت کرو)۔ کیونکہ ان میں گناہ کرنا دیگر ایام کے مقابلے میں زیاد ہ قبیح اور سبب گناہ ہے ، قتادہ فرماتےہیں :" گرچہ ظلم ہر حال میں بڑاہے لیکن حرمت والے مہینوں میں  دیگر مہینوں کے مقابلے بڑا گناہ ہے"۔ (دیکھئے تفسیر ابن کثیر) چنانچہ ان مہینوں میں ظلم وزیادتی اور  جنگ وجدال سے خصوصی طور پر منع کیاگیاہے۔
امام قرطبی  ﴿ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ  کی تفسیرکرتے ہوئے لکھتے ہیں :" گناہوں کا ارتکاب کرکے ( اپنے نفس پر ظلم مت کرو)کیونکہ اللہ تعالی جب کسی چیز کو کسی ایک جہت سے عظیم بناتاہے تو اس کے لئے ایک حرمت ہوتی ہے ، اور جب دو جہت یا مختلف جہات سے ‏‏‏عظیم بناتاہے تو اس کی حرمت  متعدد ہوجاتی ہے ، لہذا اس میں برے عمل کی سزابڑھ جاتی ہے جیساکہ عمل صالح سے ثواب بڑھ جاتاہے ۔ چنانچہ جس نے اللہ کی اطاعت حرمت والے مہینے میں بلد حرام (مکہ ومدینہ ) میں کیا تو اس کا ثواب حلال ( غیرحرمت والے ) مہینے میں حلال جگہ(مکہ ومدینہ کے علاوہ )  جیسا نہیں ہے ۔ اور جس نے حلال مہینے میں حرمت والی جگہ پر  اللہ کی اطاعت کی تو اس کا ثواب  حلال مہینے میں حلال جگہ   کی طرح نہیں ہے "۔(دیکھئے : تفسیر قرطبی )۔
اسی طرح حرمت والے مہینوں کی فضیلت یہ ہے کہ حج کے تمام اعمال ذی الحجہ میں ہوتے ہیں ، اللہ  تعالی ارشاد فرماتاہے:  ﴿ الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ)۔ ( سورۃ البقرہ/197) (حج کے مہینے مقررہیں )۔
امام بخاری نے تعلیقا بصیغۃ الجزم روایت کیاہے  کہ : عبداللہ بن عمرنے فرمایا : "هي شوال، وذو القعدة، وعشر من ذي الحجة"۔ "(اشھرمعلومات ) سے مرادشوال ، ذی القعدہ اور ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دن ہیں "۔(امام طبری نے اپنی تفسیر(1/342) دارقطنی :2/226  وغیرہ نے اسے موصولا روایت کیاہے اور امام نووی (المجموع :4/146) اور ابن حجر (فتح الباری:3/491) نے اسے صحیح قراردیاہے)۔  
اسی طرح اللہ تعالی نے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی قسم کھائی ہے  ، ارشاد  فرماتاہے: ( وَالْفَجْر  وَلَيَالٍ عَشْرٍ) (سورۃ الفجر1 – 2) (فجرکی قسم اوردس راتوں کی قسم )  عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن زبیر اورمجاھد رضی اللہ عنهم سےمروی ہےکہ دس راتوں سےمراد ذی الحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں، اکثرمفسّرین نےبھی اسی تفسیر کو اختیار کیاہے ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : "مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنْ هَذِهِ الأَيَّامِ الْعَشْرِ"، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ! وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ، فَقَالَ رَسُولُ صلى الله عليه وسلم: "وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ,إلارجل خرج يخاطر بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ " (صحیح بخاری/ 969 ) " عشرہ ذی الحجہ میں کئے گئے  نیک عمل سےزیادہ اللہ کےنزدیک کسی دوسرے ایام کا نیک عمل پسندیدہ نہیں ہے، صحابہ کرام رضی الله عنهم نے سوال کیا :جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ تو آپ نےفرمایا:" جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ، إلاّ یہ کہ آدمی دشمن پرٹوٹ پڑنے کی نیّت سےنفس ومال کےساتھ نکلتاہےاور ان میں سے کچھ بھی لےکر واپس نہیں آتا" ۔
 اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:"ما من أيام أعظم  عند الله سبحانه ولاأحب إليه العمل فيهن من هذه الأيام العشرفأكثروا فيهن من التهليل والتكبير والتحميد"( مسندأحمد : 2/75، شیخ احمدشاکرنےاس کی سندکوصحیح قراردیاہے، دیکھئے : شرحہ علی المسند رقم /5446) " عشرہ ذی الحجہ کےدنوں میں کئےجانے والےعمل سے زیادہ اللہ کےنزدیک کوئی دوسراعمل  پسندیدہ نہیں ، اس لئے ان دِنوں میں زیادہ سے زیادہ ذکر و اذکار اورتکبیروتحمید کیاکرو "۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ فتح الباری کےاندرفرماتےہیں :" عشرہ ذی الحجہ کی امتیازی حیثیت کاسبب غالبایہ ہےکہ دیگرایّام کےمقابلےمیں بڑی بڑی عبادتیں مثلا : نماز ، روزہ ، زکاۃ اورحج ان ایام میں اکٹھی ہوجاتی ہیں" (فتح الباری  : 3/136) ۔    
انہیں ایام میں عرفہ کا دن ہے  جس کے اندر غیرحاجی کے لئے روزہ مسنون ہے ، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"صيام يوم عرفة أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله والسنة التي بعده "( صحیح مسلم/2746) " میں اللہ تعالی سے امیدرکھتا ہوں کہ عرفہ کے دن کا روزہ ایک سال پہلےاورایک سال بعد کےگناہوں کے لئے کفارہ ہے "۔
 یوم عرفہ کی فضیلت سے متعلق عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" ما مِن يَومٍ أَكْثَرَ مِن أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ فيه عَبْدًا مِنَ النَّارِ، مِن يَومِ عَرَفَةَ، وإنَّه لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بهِمِ المَلَائِكَةَ، فيَقولُ: ما أَرَادَ هَؤُلَاءِ؟ " ۔ (صحیح مسلم /3288) "عرفہ سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندوں کو آگ سے اتنا آزاد کرتا ہو جتنا عرفہ کے دن آزاد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ قریب ہوتا ہے اور فرشتوں پر بندوں کا حال دیکھ کر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ :  یہ کس ارادہ سے جمع ہوئے ہیں؟"۔
 انہیں ایام میں یوم النحر(قربانی کا دن ) ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "إنَّ أعظمَ الأيَّامِ عندَ اللَّهِ تبارَكَ وتعالَى يومُ النَّحرثمَّ يومُ القُرِّ"۔ " اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر ہے پھر یوم القر (قربانی کا دوسرا  دن یعنی گیارہویں ذی الحجہ ) ہے " (سنن ابی داود/1765،  مسند احمد/19075 ، علامہ البانی نے اسے صحیح سنن ابی داود کے اندر صحیح قراردیاہے) ۔
اسی طرح عاشوراء کاد ن بھی انہیں میں سے ایک محرم جیسے حرمت والے مہینے میں ہے، جس کے سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ " (صحیح مسلم/2755) " رمضان کے بعد سب روزوں میں افضل محرم کے روزے ہیں جو اللہ کا مہینہ ہے "۔
چنانچہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ اللہ رب العزت کے بنائے ہوئے حرمت کے مہینوں کی قدر کریں اور ہرقسم  کے ظلم وتعدی اور معیصیت کے کاموں سے خصوصی طور پر احتراز کرے ۔ اور سال کے ہر دن میں عموما اور ان مہینوں میں خاص طور سے سنت کے مطابق ثابت شدہ اعمال وعبادات کو انجام دیں ۔
 اللہ رب العزت ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے اور ہر قسم کے شروفساد اور معصیت وگناہ سے اپنی پناہ میں رکھے ۔ وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم ۔
*******




کوئی تبصرے نہیں: