اتوار، 5 جولائی، 2020

کلمہ شہادت کی شرطیں




     ہر  وہ آدمی جو  اسلام میں داخل ہونا چاہتاہے اس کے لئے کلمہ شہادت کا اقرار زبان ، دل اور اس کے ارکان پر عمل کے ساتھ  ضروری ہے ۔ اس کلمہ کے دو ارکان ہیں،  پہلا : "لاالہ الا اللہ " اور دوسرا :" محمد رسول اللہ "۔
 زیر نظرتحریر میں ہم ان شاء اللہ  اسی کلمہ کی  شرائط کا ذکرکریں گے :
کلمہ شہادت کا پہلا رکن "لاالہ الا اللہ ":
لا الہ الا اللہ معنی  : یہ توحید کا کلمہ ہے جس کا معنی ہوتاہے اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے۔
لا الہ الا اللہ کے ارکان  : اس کے دو رکن ہیں پہلا انکار اور دوسرا  اقرار ۔
انکار سے مراد یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کے علاوہ تمام مخلوقات سے الہ (یعنی لائق عبادت ) ہونے کا انکار کیاجائے ۔
اقرار کا مطلب ہے   اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے الہ (یعنی اس کے معبود حقیقی واصلی ) ہونے کو ثابت کرنا، کیونکہ وہی معبود برحق ہے، اور اس کے علاوہ مشرکین کی طرف سے بنائے گئے دیگر معبودات سب کے سب باطل ہیں۔اللہ تعالی فرماتا ہے: ( ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ ) (سورۃالحج /62)( یہ سب اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جسے بھی یہ پکارتے ہیں وه باطل ہےاور بیشک اللہ ہی بلندی والا کبریائی والا ہے )۔
لاالہ الا اللہ کی شرطیں :لا الہ الا اللہ کی چند شرطیں جن کو پورا کئے بغیر کوئی آدمی  حقیقی مومن نہیں ہوسکتا ، اور وہ ہیں :
پہلی شرط ( علم ) :  جو  جہل  اور ناواقفیت کی ضد ہے ، ہروہ فرد جو لاالہ الا اللہ کا اقرارکرتاہے اسے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے اندر اللہ تعالی کے لئے کیاثابت کرنا چاہ رہاہے اور کس چیزسے انکارکررہاہے،  اللہ تعالی فرماتاہے   : (فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ) (سورۃ محمد/19) (جان لوکہ  اللہ کے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں ) نیز فرماتاہے:( إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ) (سورۃ الزخرف /86) (مستحق شفاعت ) وہ ہیں جو حق کا اقرار کریں اور انہیں اس کا علم بھی ہو)  یہاں حق سے مراد ( لا إله إلا الله  ) ہے اور(هم يعلمون )  کا مطلب ہے :  جو وہ زبان سے ادا کررہے ہیں دل سے اسے جانتے ہوں ۔
نیز فرماتاہے: ( شَهِدَ اللّهُ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ وَالْمَلاَئِكَةُ وَأُوْلُواْ الْعِلْمِ قَآئِمَاً بِالْقِسْطِ) (سورۃ آل عمران / 18) ( اللہ تعالی ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سواکوئی لائق عبادت نہیں ، اور وہ عدل کوقائم رکھنے والاہے)۔
 عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ فرماتےہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "من مات وهو يعلم أنه لا إله إلا الله دخل الجنة " "جو اس حال میں مراکہ وہ جانتاتھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی برحق معبود نہیں تووہ جنت میں داخل ہوگا " ۔ (صحیح مسلم /26)۔
دوسری شرط ( یقین) : اس کلمہ کا اقرار کرنے والا اس کے تمام مدلول کے اوپر یقین جازم رکھتاہو، کیونکہ اس پر مکمل یقین کے بغیر ایمان کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس لئے کہ ظن اورغیریقینی سے ایمان کا حصول ناممکن ہے چہ جائےکہ اس کے اندرشک داخل ہو، اللہ تعالی   مومنین صادقین کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے : (إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ) (سورۃ الحجرات/ 15) (مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر(پکا) ایمان لائیں پھر(کچھ) شک وشبہ نہ کریں ، اور اپنے مال اور اپنی جان کے ساتھ اللہ کے راستےمیں جہاد کرتے رہیں ، یہی سچے اورراست گوہیں )۔    اس آیت کریمہ کے اندر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ اللہ علیہ وسلم پرایمان کی صداقت کے لئے  عدم شک کی شرط لگائی گئی ہے۔
چنانچہ جس کا دل یقین سے معمور نہ ہو بلکہ تردد کا شکار  اور شک میں مبتلا ہو وہ منافق ہوتاہے ، اللہ تعالی فرماتاہے :( إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ) (سورہ توبہ/45 ) ( (حیلے تراش کر جہاد میں نہ جانے کی ) اجازت تم سے وہی طلب کرتےہیں جنہیں نہ اللہ پرایمان ہے اور نہ آخرت کے دن کا یقین ہے ، جن کے دل میں شک پڑاہواہے اور وہ اپنے شک میں ہی سرگرداں ہیں )۔
اور جس کے دل میں کوئی ریب و شک  اور تردد نہ ہو وہ حقیقی مومن اورجنتی ہوتاہے،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" أشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله ، لا يلقى الله بهما عبد غير شاك فيهما إلا دخل الجنة " " میں گواہی دیتاہوں  کہ اللہ کے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ جب کوئی بندہ  اللہ سے اس حالت میں ملے کہ ان دونوں  کے اندر اسے کوئی شک نہ ہو تووہ جنت میں داخل ہوگا "۔ (صحیح مسلم/27)۔
 اور ایک روایت میں ہے : " لا يلقى الله بهما عبد غير شاك فيهما فيُحجب عن الجنة " " جو شخص ان دونوں باتوں پر بلا شک کئے ہوئے  اللہ سے ملے، وہ جنت سے محروم نہ ہوگا۔"(صحیح مسلم /27) ۔
 اور ایک لمبی روایت میں ہے ، جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلہم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے (نشانی کے طور پر ) اپنے جوتے دے کرفرمایاتھا :"کہ جاؤ اور اس دیوار کے پیچھے جو بھی ملے جو دل کے پورے یقین کے ساتھ گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں اسے جنت کی خوشخبری سنادو"۔ (صحیح مسلم/31)۔
تیسری شرط (قبول ):اس کلمہ کو زبان ودل سے اقرار کے ساتھ قبول کرے اور جوکچھ بھی اللہ تعالی کی طرف سے امر ونہی ہو اسے بلا چوں و چراتسلیم  کرے، کیونکہ اس کے لئے اس کے اندر کسی انکار کی گنجائش نہیں ہے ، چنانچہ اللہ تعالی نے پچھلی امتوں کے سلسلے میں بتایاہے کہ ان کو عذا ب اس لئے دیاگیاکہ انہوں نے اللہ کے اس کلمے کو قبول نہیں کیا، فرماتاہے:(فَإِنَّهُمْ يَوْمَئِذٍ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ * إِنَّا كَذَٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِينَ * إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ * وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُو آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ ) (سورۃ الصافات/33-36)  (آج کے دن سب کے سب عذاب میں شریک ہیں ۔ ہم گناہ گاروں کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں ۔ یہ  وہ لوگ ہیں جب ان سے کہاجاتا تھا  کہ اللہ کے سواکوئی عبادت کا مستحق نہیں تو یہ سرکشی کرتے تھے ۔ اور کہتے تھے کہ کیا ہم ایک دیوانے شاعرکے کہنے کی وجہ سے اپنے معبودوں کو چھوڑدیں )۔
اس کے علاوہ بھی بہت ساری آیتیں قرآن مجید کے اندر ہیں جو اس پر دلالت کرتی ہیں ۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی برمحل ہے کہ اگر کسی نے زبان سے کلمہ کا اقرار کرلیا لیکن اسلام کے کسی رکن مثلا نماز ،روزہ ، حج اور زکاۃ ، اور اس کے علاوہ کتاب وسنت سے ثابت شدہ کسی امرجو عبادات ومعاملات سے متعلق ہو  یا جنت وجہنم ،  ملائکہ و قیامت وغیرہ سے ان کا انکار کرتاہوتو  اس کے لئےاس کلمہ کا صرف زبان سے اقرار کافی نہیں ہے، کیونکہ اس نے کلمہ کا زبانی اقرارتو کرلیا لیکن اس کے مدلولات اور مطالبات  کو دل سے قبول نہیں کرسکاہے  ۔
چوتھی شرط (انقیاد) : یعنی اللہ کے لئے مکمل  تابعداری  ،کیونکہ اس کے بغیر "لاالہ الا اللہ " کے تقاضے پورے نہیں ہوتے ، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے:( وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى) (سورہ لقمان /22) (اورجو اپنے آپ کو اللہ کے تابع کردے اور نیکوکاربھی ہو تو یقینا اس نے مضبوط کڑا تھام لیا)۔ یعنی جس نے مکمل تابعداری اختیاری کی وہی صاحب احسان اور موحد ہے اورجس نے تابعداری نہیں کی وہ نہ وہ محسن ہوگا اورنہ ہی  اس نے اللہ سے مضبوط عہد ہی لیاکہ وہ اسے عذاب نہیں دیگا۔
اسی طرح اللہ رب العزت قسم کھا کرکہہ رہاہے کہ جس نے اس کی اور اس کے رسول کی تابعداری اور اطاعت نہیں کی وہ مومن نہیں ہے  :( فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا )(سورۃ النساء /65)۔ ( آپ کے رب کی قسم ! یہ  مومن نہیں ہوسکتےجب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ  محسوس کریں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں )۔
یہاں تک کہ شریعت کے خلاف دل کے میلان کو بھی ایمان کے منافی قراردیاگیاہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " لا يُؤمن أحدكم حتى يكون هواه تبعاً لما جِئت به"(رواه البغوي في شرح السنۃ بإسناد صحيح/104)" تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتاجب تک اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائے"۔
پانجویں شرط(صدق) : صدق کذب کے منافی ہے ، یعنی اس کلمہ کا اقرار اس طرح کرے کہ دل زبان کے موافق ہو، اللہ تعالی فرماتاہے:( الم * أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ*  وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ ) (سورۃ العنکبوت/1-3) (کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھاہے  وہ  بنا آزمائے ہوئے اس لئے چھوڑ دئے جائیں گے کہ وہ صرف یہ کہیں کہ ہم ایمان لے آئے ۔ ان سے پہلے جوگذرے ہم نے انہیں بھی خوب آزمایا اورجانچا، اللہ تعالی انہیں بھی جان لےگا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کرلےگا جو جھوٹے ہیں )۔
اور منافقین کے متعلق فرماتاہے :( وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ * يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ * فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ) (سورۃ البقرہ /8-10) (بعض کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتےہیں ، لیکن درحقیقت وہ ایمان والے نہیں ہیں ۔ وہ اللہ تعالی اور ایمان والوں کو دھوکا دیتےہیں ، لیکن درحقیقت وہ خود کو دھوکا دے رہے ہیں ، مگر سمجھتےنہیں ہیں ۔ ان کے دلوں میں بیماری تھی اور اللہ تعالی نے بیماری کو مزید بڑھادیا۔ اور ان کے جھوٹ کی وجہ سے ان کے لئے درد ناک عذاب ہے)۔
معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " ما من أحد يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمداً عبده ورسوله صدقاً من قلبه إلا حرمه الله على النار" "جو شخص بھی اپنے دل سے تصدیق کرتےہوئے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی لائق عبادت نہیں اور یہ کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو اللہ تعالی اسے جہنم پر حرام کردیتاہے "۔ (بخاری/128، مسلم /32)۔
چھٹی  شرط(اخلاص) : اخلاص کا مطلب ہوتاہے شرک کی تمام طرح کی آلودگیوں سے عمل کو پاک کرنا ، اللہ تعالی فرماتاہے: (أَلا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ)  (سورۃ الزمر/3) (خبردار اللہ کے لئے ہی خالص عبادت کرناہے)۔نیزفرماتاہے: (قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهُ دِينِي ) (سورۃ الزمر/14) (کہہ دیجئے کہ میں خالص  کرکے صرف اللہ کی ہی عبادت کرتاہوں )۔
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " أسعد الناس بشفاعتي من قال لا إله إلا الله خالصاً من قلبه أو نفسه" " (قیامت کے دن) میری شفاعت سے سب سے زیادہ فیض یاب وہ شخص ہو گا، جو سچے دل سے یا سچے جی سے (لا إله إلا الله) کہے گا۔ (صحیح بخاری/99)۔
ساتویں شرط ( محبت ) : اس کلمہ کا اقرار کرنے والے اور اس کے مطالبات پر عمل کرنے والے کے لئے اللہ  اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی شریعت سے محبت اور جو اس  کے خلاف ہو اس سے نفرت   سب سے اہم شرط ہے ، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے :( وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ * وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ) (سورۃ البقرہ/165) (بعض لوگ ایسے ہیں جو اوروں کو اللہ کا شریک ٹھہراکر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں ، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہئے ۔ اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتےہیں)۔
   اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے واضح طورپر بتادیاہے کہ جو اہل ایمان ہیں وہ اللہ تعالی سے بے انتہا محبت کرتے ہیں ، کیونکہ وہ اس کی محبت میں کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔
 کلمہ شہادت کا دوسرا رکن "محمد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) " :
     "محمد رسول اللہ " لا الہ الا اللہ کے بعد کلمہ شہادت کا دوسرا رکن ہے ، جس کے اندر  نبی مکرم ، خاتم المرسلین   محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب کی نبوت ورسالت کی گواہی اور اقرار کا بیان ہے ، اس کلمے کے اقرار کے  بغیر کوئی  بھی آدمی مسلمان نہیں ہوسکتا۔
لاالہ الا اللہ  کی شرائط کے ساتھ ساتھ اس کی شرائط  کو پورا کرنا بھی ضروری ہے ،اس کلمہ کا بھی  زبان سے اقرار۔ دل میں یقین اور اس کے مقتضیات اور ارکان پر عمل  ایمان کے لئے ضروری ہے ۔
 "محمد رسول اللہ "کی شرطیں  :
پہلی شرط (معرفت) : اقرار کے ساتھ ساتھ  اس کلمہ کی معرفت ضروری ہے کہ   اس کلمہ کے اندر کس چیز کا بیان ہے ؟ اور یہ کلمہ ہم سے کس  چیز کا مطالبہ کررہاہے ؟۔
  اسی طرح   سنت کی معرفت بھی ضروری ہے کیونکہ جب  تک سنت کی معرفت نہیں ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع  جس کا مطالبہ اس کلمہ کے اندر کیاگیاہے  وہ پوری نہیں ہوگی ، ۔ اس لئے سنت  سے متعلق صحیح معرفت ضروری ہے،سنت کیاہے  ؟ ، اس کی اہمیت کتنی ہے ؟ اور اسے کیسے اداکرناہے ؟ ،وغیرہ۔
دوسری شرط (محبت) : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہر چیز سے زیادہ ہو یہاں تک کہ  خود اپنے نفس سے بھی زیادہ ، انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من ماله وولده والناس أجمعين"۔ "تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک میں اس کے نزدیک اس کی دولت ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں "۔(صحیح بخاری/15،صحیح مسلم/44)۔
 عبداللہ بن ہشام سے مروی ہے کہ : ہم لوگ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور  آپ عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے ، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  آپ میرے نفس کوچھوڑ کرہرچیزسے زیادہ محبوب ہیں ، تو آپ نے فرمایا:" لاَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ" "نہیں (اے عمر!) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، یہاں تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہارے نفس سے زیادہ محبوب نہ ہوجا‎ؤں "تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اب اللہ کی قسم آپ میرے نزدیک میرے نفس سے زیادہ محبوب ہیں " تو آپ نے فرمایا :" ہاں اب تم (صحیح مومن) ہو ، اے عمر!"۔ (صحیح بخاری/6632)۔
تیسری شرط (تصدیق ) : آپ نے بذریعہ وحی جو بھی خبردی ہے اس کی مکمل تصدیق ضروری ہے ، اس  خبرکا تعلق ماضی سے ہو،جیسے : انبیاء وصالحین کے واقعات ۔  یا حاضرسے، جیسے: ملائکہ اورجن کی خبریں ۔ یا پھر مستقبل سے، جیسے : قیامت کی نشانیاں اور جنت وجہنم کے احوال وغیرہ ، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ (سورۃ الحدید/28) (اے مومنوں اللہ سے ڈرواور اس کے رسول پرایمان لاؤ)۔ یعنی جو کچھ بھی رسول کہیں اس کی تصدیق کرو۔
چوتھی شرط (اطاعت) : اللہ تعالی نے جگہ جگہ اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیاہے ، ارشاد فرماتاہے :( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ﴾ (اے ایمان والوں ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور سنتے جانتے ہوئے اس سے روگردانی مت کرو)۔ (سورۃ الانفال /20)۔
نیز فرماتاہے:( قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۚ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ)(کہہ دیجئے کہ اللہ کا حکم مانواور رسول کی اطاعت کرو، پھربھی اگرتونےروگردانی کی تو رسول کے ذمےتو صرف وہی ہے جو اس پرلازم کردیاگیاہے، اور تم پر اس کی جوابدہی ہے جو تم پر لازم کیاگیاہے، ہدایت تو تمہیں اس وقت ملےگی جب رسول اطاعت کروگے، اور سنو رسول کے ذمےتو صرف صاف اور واضح طور پر(اللہ کا حکم ) پہونچادیناہے) (سورۃ النور/54)  اس معنی کی ڈھیروں آیتیں ہیں۔
اسی طرح  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" كل أمتي يدخلون الجنة، إلا من أبى. قالوا ومن يأبى يا رسول الله؟ قال من أطاعني دخل الجنة ومن عصاني فقد أبى" "میری ساری امت جنت میں جائے گی سوائے اس کے جس نے انکارکیا" صحابہ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)  کس نے انکارکیا ؟ تو آپ نےفرمایا : "جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں جائےگا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکارکیا" ۔(صحیح بخاری/7280)۔
یہاں طاعت سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قولا عملا   جس چیزکا  بھی حکم دیں اسے انجام دیا جائے اورجس چیزسے روک دیں اس سے رک  جایاجائے ، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے:( وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا﴾ (اور تمہیں جوکچھ رسول دیں اسے لے لو اورجس سے روکیں رک جاؤ)۔ (سورۃ الحشر/7)۔
 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے  نے ارشاد فرمایا : " فَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عن شيءٍ فَاجْتَنِبُوهُ، وإذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا منه ما اسْتَطَعْتُمْ " "جب میں تم کو کسی چیزسے روکوں تو اس سے بچواور جب کسی امرکا حکم دوں تو حسب استطاعت اسے انجام دو"۔(صحیح بخاری/7288، صحیح مسلم/1337)۔
پانچویں شرط (اللہ کی عبادت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقے کواختیار کرنا ) : اللہ تعالی کوئی بھی عبادت اس وقت تک قبول نہیں کرتاجب تک کہ وہ عبادت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق نہ ہو، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے:(  قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ) (آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کابھیجا ہوارسول ہوں جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے ۔ اس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ وہی زندگی دیتاہے، اور وہی موت دیتاہے۔ سو اللہ تعالی پرایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالی اور اس کے احکام پر ایمان رکھتےہیں۔ اور ان کی پیروی کروتاکہ تم ہدایت پاؤ)۔ (سورۃ الاعراف/158) ۔
 اس آیت کریمہ کے اندر واضح طورپریہ بتایاگیاہے کہ اللہ رب العزت کی عبادت میں اس کے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء ضروری ہے  ۔
 عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو رد" " جس کسی نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی عمل نہیں تو وہ عمل مردود ہے"۔(صحیح بخاری /2697 ،صحیح مسلم/1718) ۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں :" لا ينفع قول من غير عمل، ولا ينفع قول ولا عمل من غير نية، ولا ينفع قول ولا عمل ولا نية من غير موافقة السنة"  " بغیرعمل کے کوئی  قول مفید نہیں ، اور بغیرنیت کے کوئی قول اور عمل مفید نہیں ، اور کوئی بھی قول اور عمل اور نیت بنا سنت کی موافقت کے مفید نہیں "۔(الابانۃ :2/803) ۔
اوراسی معنی کا قول علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔(دیکھئے: الابانۃ :2/803) ۔
چھٹی شرط (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت پر ایمان) : کسی بھی نبی اور رسول علیھم السلام کی تنقیص اور تحقیرکئے بغیریہ اعتقاد اور ایمان رکھنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سارے انبیاء اور رسولوں  سے افضل ہیں،  ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "أنا سيد ولد آدم يوم القيامة ولا فخر" "میں قیامت کے دن  اولاد آدم کا سردارہوں گا (اور اس پر مجھے ) کو‏ئی فخرنہیں ہے"۔(صحیح سنن ابن ماجہ/3496، اسی معنی کی روایت صحیح مسلم/2278 کے اندر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے)۔
ساتویں شرط ( ختم نبوت پر ایمان ) : یہ اعتقاد اور ایمان کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے:( مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ (محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تم میں سے کسی کے باپ نہیں ، لیکن اللہ تعالی کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں)۔ (سورۃ الاحزاب /40)۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" ۔۔۔۔لا نبي بعدي "۔( صحیح بخاری /3706 ، صحیح مسلم /2404) ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " إنَّ مَثَلِي ومَثَلَ الأنْبِياءِ مِن قَبْلِي، كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بَيْتًا فأحْسَنَهُ وأَجْمَلَهُ، إلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِن زاوِيَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ به، ويَعْجَبُونَ له، ويقولونَ هَلّا وُضِعَتْ هذِه اللَّبِنَةُ؟ قالَ: فأنا اللَّبِنَةُ وأنا خاتِمُ النبيِّينَ"(صحیح بخاری /3535 ، صحیح مسلم/2286)۔ "میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی ٍٍزیب و زینت پیدا کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں، لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ "  آپ فرماتےہیں :" تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں"۔
چنانچہ کسی کے لئے جائزنہیں کہ وہ آپ کے بعد نبوت کا دعوی کرے چاہے وہ جتنا اونچامقام رکھتاہو، اور اگر کوئی آپ کے بعد نبوت کا دعوی کرتاہے وہ کذاب اورجھوٹاہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے فرماتے ہیں کہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ قَرِيبٌ مِنْ ثَلاَثِينَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ " " قیامت اس وقت تک نہیں آئےگی جب تک تیس کے قریب جھوٹے فریبی پیدا نہ ہوجائیں  ، ہرایک کا دعوی ہوگاکہ وہ اللہ کا رسول ہے"۔(صحیح بخاری /3609 ، صحیح مسلم/157)۔  
اسی میں یہ بھی داخل ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکوئی آدمی اگرجھوٹی نبوت کا دعوی  کرتاہے تو اس کی تصدیق نہ کی جائے ، اگر کوئی ایسے کسی کذاب یا جھوٹےکی تصدیق یا اتباع کرتاہے تو گویا  اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کیا ،کیونکہ آپ کی نبوت  پر مع تمام شرا‏ئط کے جس میں آپ کا خاتم النبیین ہونا بھی ہے ایمان ضروری ہے ۔
    اللہ رب العز ت ہمارے ایمان کے اندر قوت وثبات عطا فرمائے اور جب تک دنیامیں رکھے اسلام پر رکھے اور جب موت دے تو ایمان پر موت دے ۔ وصلی اللہ علیہ وسلم وعلی آلہ وصحبہ وسلم ۔آمین۔

*****




کوئی تبصرے نہیں: