بدھ، 28 دسمبر، 2022

ابوالعلاء مَعَرِّی کاایک شعر اورنظریہ ارتقاء

 

ابوالعلاءمَعَرِّی کاایک شعر اورنظریہ ارتقاء

                                                                     عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی


و الذي حارت البرية  فيه

حيوان مستحدث من جماد

(مخلوق جس کے بارے میں حیران ہےکہ ایک حیوان (ذی روح ) جماد (غیرذی روح ) سے پیدا کیاگیا( ۔

شعر کی بلاغی حیثیت :

    یہ شعر ابو العلاء المعری (363 ھ- 449ھ)  کے ایک لمبےقصیدہ کا جزء ہے ،جسے ادباء نے "فلسفۃ الحیاۃ  والموت"  کا عنوان دیاہے ۔ معری کا یہ قصیدہ "قصیدۃ دالیة" کے نام سے مشہورہے  جسےاس نےاپنے منظوم " سقط الزند"میں ایک فقیہ کے مرثیہ میں کہی تھی ۔  (دیکھئے: سقط الزند ص /7-12  ط:داربیروت ودارصادر)  ۔

اہل بلاغہ نےاس شعرکو عام طورمسنداورمسندالیہ کے قاعدے کے تحت ذکرکیاہے، جسے مسند الیہ کامسندپر مقدم ہونےکامستدل بنایاہے ، جس کےتقدیم سے سامع کے ذہن میں خبر راسخ ہوجائے،  نیزاس سےاس کےاندرخبرکا اشتیاق پیداہوتاہے کہ آخر وہ کون سی انوکھی چیزہےجس کا ذکرمتکلم کرنےوالا ہے اور جس نے مخلوق کوحیرت زدہ کررکھاہے۔(دیکھئے: لطائف التبيان في علمي المعاني والبيان لشرف الدین الطیبي 743 ھ بتحقیق ھنداوي / ص 65 و كتاب عروس الأفراح في شرح تلخيص المفتاح للسبکي:1/ 232)۔

شاعراوراس کاعقیدہ  ونظریہ :

   ابوالعلاء المعری کاپورانام أحمدبن عبدالله بن سليمان القضاعی التنوخی المعری  ہے، یہ عباسی دورکا شاعر، مفكر،فلسفی،نحوي اوراديب تھا۔اوراس دور کےاختلافی اورنزاعی افکارکامتحمل فلسفی کےطورپرجاناجاتاتھا۔ اس کی ولادت  سنہ 363 ہجری میں معرۃالنعمان میں ہوئی تھی جو فی الوقت سوریا کےاندر محافظہ ادلب میں واقع ہے۔بچپن میں ہی ایک بیماری (چیچک ) کی وجہ سے نابیناہوگیاتھا، صغرسنی سے ہی اس کے اندرشاعری کا ملکہ تھا، گیارہ بارہ سال کی عمر  میں اس نے پہلی شاعری کی تھی ۔ 

ابوزکریا تبریزی اس کی  لغوی براعت وتفوق سے متعلق فرماتے ہیں : " ما أعرف أن العرب نطقت بكلمة ولم يعرفها المعري" " میں کسی ایسے  کلمہ سے متعلق نہیں جانتاجسے عرب نے بولاہواور معری اس سے واقف نہ ہو"۔(الفكراللغوي عندأبي العلاء في ضوء علم اللغۃ الحديث للدکتورجمال محمد طلبۃ /ص  5 )۔

اس نےاپنی زندگی ایک فلسفی اور دنیاسے بےرغبت انسان کی طرح گزاری ۔ عصرحاضرکے معیار کے مطابق(خاص طورسے خودساختہ مغربی افکارکے تناظر میں)اسے حقوق الحیوانات کےدفاع کابہت بڑا علم بردار مانا جاتا ہے ۔ یہ متشددسبزی خورتھا، گوشت خوری سےخودکودور رکھتا تھا، اس کاماننا تھا کہ کائنات میں کسی بھی جاندارکو تکلیف پہونچانا امر مکروہ اور غیرمناسب ہے۔  کہاجاتاہے کہ اس سلسلے میں  وہ ہندستانی فکروفلسفہ سے متأثرتھا۔

ابو العلاء معری کا عقیدہ ونظریہ علماء اسلام کے یہاں مشکوک رہاہے، خاص طور سےدین کےمعاملے میں اس کا نظریہ معروف ہےجس کے مطابق اس کاماننا تھا کہ   دین پہلے لوگوں کی ایجاد کردہ خرافات ہے :

أَفِيقُواأَفِيقُوايَاغُوَاةُ فَإِنَّمَا                  دِيَانَاتُكُمْ مَكْرٌ مِنَ الْقُدَمَا

(اےبھٹکےہوئے لوگو!سدھرجاؤتمہارےادیان محض پہلے لوگوں کافریب ہیں )۔

علامہ ابن کثیر،امام ابن قيم الجوزية اورامام ابوالفرج بن الجوزي،وغیرهم نے اس کی طرف زندیقیت کی نسبت کی ہے) البدايۃوالنهايۃ:3/331 ، سير أعلام النبلاء  : 17/10، طبقات الشافعيۃ للسبکی :5/288)۔ 

 کچھ لوگوں نےاس کی نسبت قرامطہ کی طرف کی ہے  ۔

 اس کے بعض اشعار میں  ملتاہے کہ اس نے قدماء کی رائے سے ہٹ کربہت ساری باتیں کی ہیں،خواہ قدماءکی رائے سے ٹکراؤ ہی کیوں نہ پیدا ہو،جیسے:

  وإني وإن كنتُ الأخيرَ زمانُه             لآتٍ بما لم تستطعه الأوائلُ

(اگرچہ میں بعدکے زمانےکا ہوں لیکن ایسی چیزیں بیان کرسکتاہوں جس کی قدرت پہلے کےلوگوں کےاندرنہیں تھی ) ۔

اس کا مانناتھا کہ حقدوکینہ، عداوت ودشمنی اورجنگ وجدال کے رواج میں ادیان وشرائع  کابہت بڑاہاتھ رہا ہے :

إِنَّ الشَرائِعَ أَلقَت بَينَنا إِحناً        وَأَودَعَتنا أَفانينَ العَداواتِ

(شریعتوں نےہمارےدرمیان بغض ونفرت کورواج دیاہے، اور دشمنی کےفنون اور طریقوں سے واقف کرایاہے)۔

دین اس کےیہاں رسولوں کی اختراع کےسواکچھ نہیں ہے،جس کامقصدلوگوں کو پریشان کرناہوتاتھا:

فلا تحسْب مَقَال الرُّسْلِ حقًّا       ولكنْ قولُ زُورٍ سطَّرَوُهُ

(رسولوں کی بات کوسچ مت سمجھ، وہ توان کےلکھے ہوئےجھوٹ ہیں )۔

وكان النّاس في عَيْشٍ رَغِيدٍ   فجاءوا بالمُحَالِ فكدَّرُوه

(لوگ خوش وخرم عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے تھےکہ ان لوگوں نےاپنی مہارت وچالبازی سےاسے مکدرکردیا)۔

اس کے علاوہ بھی اس کے عقائد ونظریات سے متعلق لوگوں نےبہت ساری باتیں لکھی ہیں ۔

   وہی ایک دوسراگروہ ہے جس نے اسےصحیح العقیدہ قراردیاہے ان میں ڈاکٹرطہ حسین،اور ڈاکٹرشوقی ضیف وغیرہ خاص ہیں۔ڈاکٹرطہ حسین نےاس کی بڑی وکالت کی ہےاور اپنی مختلف کتابوں اور مضامین میں اس پرخوب لکھاہے، جن میں سب سے مشہورکتاب "معَ أبي العلاءِ في سجنِه"ہے۔

اسی طرح حافظ ابوطاھر السلفی، امام ذہبی، مصری ادیب محمودمُحمَّدشاكر  ہندوستانی ادیب عبد العزيز ميمني اورمصری  قلم کار بنت الشاطئ، وغيرهم نےاس کےصحیح العقیدہ ہونے کو بیان کیاہے۔

کچھ دیگرادباءجیسے ابن الوردی وغیرہ نے لکھاہے کہ معرّی ابتداء میں زندیق تھالیکن آخرعمرمیں صحیح  اسلام کی طرف رجوع کرلیاتھا۔

(أبوالعلاءالمعرِّي:دفاع المُؤرِّخ ابن النديم عنه/ ص 9-10 و 12-14) ۔

   امام ذہبی نےلکھاہےکہ یہ خودکواپنےآپ کوگھرمیں مقیدکرلینےیاپھرعدم بینائی کی وجہ سے"رهين المَحْبِسَيْنِ " کہاکرتاتھا۔ وجہ یہ تھی کہ اس نے آخر وقت میں اپنی وفات سنہ 449 ھ تک معرۃ النعمان میں اپنے گھرکےاندر خودکو قیدکرلیاتھا۔مرتے وقت اس نےوصیت کی تھی کہ اس کی قبرپر یہ عبارت کندہ کی جائے(هذاجَناهُ أبي عليَّ،وماجَنيْتُ على أَحَد)  جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا  باپ اس کی ماں سے شادی کرکےاس کودنیامیں لانےکاسبب بنا،جوکہ ایک جرم،اولادکوناکردہ گناہ کی سزادينااوراس کےاوپرظلم ہے، کیونکہ اسےدنیامیں لاکرغم، مصیبت،حوادث، آفات اورتکالیف کےحوالے کردیا۔یہی وجہ ہےکہ اس نے شادی نہیں کی تھی،کیونکہ اس کاعقیدہ تھاکہ شادی اولادپرظلم ہےاوراس نےشادی نہ کرکےخودکوکسی پرظلم کرنے سےبچالیا۔

اس کی قبرپراس زمانے کے بےشمار ادیبوں اورشعراءنے حاضری دی اوراس کے لئے  اسی(80)  مرثیہ کہےگئے۔

   اس کی بےشمارتصنیفات ہیں جنہیں معجم الأدباء کے اندرذکرکیاگیاہے،نیزابن خلکان نے وفیات کےاندربھی بہت ساری کتابوں کاذکرکیاہے، جیسے:الأيك والغصون، تاج الحرة،عبث الوليد، رسالة الملائكة، شرح ديوان المتنبي، رسالة الغفران،خطبة الفصيح، الرسائل الإغريقية،الرسالة المنبجية،الفصول والغايات اللامع العزيزي ،اللُّزوميَّات، سِقْطُ الزَّنْد،وغیرہ۔ ان میں سے بعض مطبوع اوربعض  مخطوط ہیں ۔

شعرکامطلب اورمفہوم :

- ساری مخلوق اس بات سےششدراورحیران ہےکہ ایک عقل وفہم والامتحرک حیوان (یعنی انسان)جماد(جس کےاندرنہ عقل ہے،نہ سمجھ بوجھ ہےاور نہ ہی حرکت ہے) سے کیسے پیدا کیا گیاہے۔

 - بعض اقوال کے مطابق   اس سےآدم علیہ السلام کو مرادلیاگیاہے،جنہیں مٹی جیسی جماد شیئ سے پیداکیاگیاتھا۔

-- ایک قول کےمطابق اس سےمقصودانسان ہے،ابن السيدالبطليوسی ( 444- 521 ھ ) شرح سقط الزند میں رقمطرازہے:

  "معناه :مقصود به الإنسان، والحيرة الواقعة فيه، من قبيل اتصال النفس بالجسم، إذ النفس جوهرية والجسم عرض؛ فلذلك يعدم الجسم الحياة، إذا فارقته النفس، والحيرة الواقعة فى نياطهابه. (عروس الأفراح في شرح تلخیص المفتاح:1/232 ط : المکتبة العصرية - بیروت – لبنان 1423ھ ).

 "اس سے مقصودانسان ہے، جس کےاندرروح اورجسم کےایک دوسرےسےاتصال پرحیرت واقع ہوتی ہے، کیونکہ روح جوہر اورجسم عرض ہے (فلسفہ کی اصطلاح میں وہ شےجوقائم بالذات ہوجوہرہے۔اورجو کسی دوسرے کے ساتھ قائم ہوعرض کہلاتاہے.) یہی وجہ ہےکہ جب روح جسم سےجدا ہوتی ہےتوجسم بےکارہوجاتاہے،حیرانگی درحقیقت روح کےجسم سےارتباط سےہوتی ہے"۔

-  اس سے یہ مراد بھی لیاگیاہے کہ آدمی بلکہ عام طورپر سارے حیوانات پانی (یعنی مادہ منویہ ) سے معرض وجودمیں آتےہیں ۔

- کچھ لوگوں نے اس سے صالح علیہ السلام کی اونٹنی مراد لی ہے جوکہ قوم ثمودکے مطالبہ پر اللہ تعالی کےحکم سے بطورمعجزہ ایک پہاڑکےچٹان سےنکلی تھی۔

- وہی کچھ لوگوں نے موسی علیہ السلام کی عصا کو مرادلیاہے،جس نےموسی علیہ السلام کونبوت ملنےکے وقت اورفرعون کے جادوگروں سے مقابلہ کے وقت ازدہا کی شکل اختیارکرلیاتھا۔

- اس کاایک مطلب یہ بھی بیان کیاگیاہےکہ شاعر نےاس سےفقنس(فَقَنَّسُ) یاققنوس Phoenix (جسے یونانی میں Phenix کہتےہیں) نامی چڑیا مرادلیا ہے، یہ قصے کہانیوں کی ایک خیالی اورنہایت ہی خوبصورت چڑیاہے، جس کاذکرسندباد کے معروف انڈونچروالی کہانی اور"الف لیلہ"اورقدیم عربی کہانیوں میں ملتاہے۔  اس کی آواز نہایت ہی جاذب اور شیریں ہوتی تھی۔ اس  کارنگ خوب سفیداورچونچ لمبی ہوتی تھی جس کےاندر چالیس سوراخ ہوتےتھے ۔  اوربعض مصادرنےتین سو ساٹھ سوراخوں کاذکرکیاہے۔ ان سوراخوں سے نہایت ہی  خوش گلوآوازیں نکلتی تھیں۔

بعض کہانیوں کےمطابق اللہ تعالیٰ نے اسے ہندوستان میں پیدا کیاتھا، نیز بعض کہانی نگاروں نےذکرکیاہےکہ یہ چڑیا مختلف ناموں سے،  عرب،چین، یونان، مصراور ایران میں بھی پائی جاتی تھی،جیسے:عربی میں عنقاءکےنام سےچائنامیں

فینگھوانگ (Fenghuang) ، مصرمیں طائرالفينيق (بعض لوگوں نےکہاہےکہ یہ مصریوں کےیہاں دوسرا پرندہ ہے)، اہل فارس کے نزدیک ھوما یا ھما اور سیمرغ یا قفنس یا ققنوس اورترکیوں کےنزدیک قنرل(Qonrul) کےنام سے۔ اس پرندےکو بادشاہ گر سیماب صفت پرندہ بھی کہاجاتاہے۔ مشہور ہےکہ ہما  کاسایہ جس کےسر پر پڑجائے وہ بادشاہ بن جاتا ہے۔

اور ہندی میں اسے अमरपक्षी या मायापंछी (یعنی ہمیشہ زندہ رہنےوالایاجادوئی پرندہ)کہاجاتاہے۔یہ نہایت ہی رنگین  سنہری یابیگنی اوربعض روایتوں کےمطابق  ہری یانیلی رنگت کی ہوتی تھی۔

  بعض قدیم افسانوں میں  یہ بھی بیان کیاگیاہے کہ اس کےاندرانسانی شکل اختیار کرنےکی صلاحیت تھی ۔

اس کے متعلق کہاجاتاہےکہ وہ اپنی قسم کی واحدچڑیا تھی جوپانچ یاچھ سو سال(بعض کہانیوں میں اس کی عمر چھ سو سال سے ہزار سال تک کاذکرہے) تک زندہ رہتی ۔ پھرجب اللہ تعالی اس کی موت کافیصلہ کرتاتو وہ پہاڑوں پرلکڑیاں جمع کرتی اور وہاں بیٹھ کرچالیس دنوں تک خودپر نوحہ کرتی، ساراعالم اکٹھا ہوکراس کی آوازسے لطف اندوزہوتا۔  پھراس لکڑی پر بیٹھ کراپنےپروں کو پھڑپھڑاتی جس سےاس لکڑی میں آگ لگ جاتی اور وہ لکڑی کےساتھ جل کر راکھ بن جاتی، پھر بارش ہوتی اوراس راکھ (جماد) سےانڈےیاکیڑےپیداہوتے جس سےپھراس چڑیا کاجنم ہوتایااس سےپھر دوسرا ققنس پیداہوتا ۔(اس پرندے کاذکرابن سینانےبھی اپنی کتاب "الشفا" کےاندرکیاہے)۔ (دیکھئے:تاج العروس :16/ 342  -  مادۃ/ف ق ن س - )۔

اس چڑیا کو رومن امپائر کے سلوگن اور قدیم یونانی فلسفہ کےاعتبارسے تناسخ ارواح نیز بعث بعدالموت کی علامت کےطورپربھی جانا جاتاہے۔ (دیکھئے : عربی ویکیپیڈیا)

- اس کے علاوہ بھی لوگوں نےاس شعر کےدوسرے معانی بیان کئے ہیں جوناقابل اعتناء اور شعرکی من مانی تأویلات ہیں ۔

نظریہ ارتقاءاورابوالعلاء کایہ شعر:

   بعض علماء نےاس بات کی صراحت کی ہے کہ قدیم یونانی فلاسفہ کا نظریہ ارتقاء(جس کابہت بڑاداعی انگریز ماہرحیاتیات  Charles Darwin چارلس ڈارون 1859ء تھا۔ اوراس کے اس ارتقائےحیات والے مفروضےکوڈارونزم   "Darwinism" سے موسوم کیاجاتاہے۔)  کہ حیاتی اجسام کےاندربقا کے لیے ماحول کے مطابق  تبدیلی ہوتی رہتی ہے، بلکہ خود کویہ اجسام ماحول کے مطابق ڈھال لیتے ہیں،جسےانتخاب طبعی (Natural Selection ) کا عمل کہاجاتاہے۔ حالانکہ  ڈارون کےنظریےکےاندر  انسان کی بات نہیں کی گئی  تھی مگر بہرحال اُس کا نظریہ بنی نوع انسان کے ساتھ ہرجاندار شے پہ لاگو ہوتا ہے۔ڈارون کے نزدیک تمام جانداراپنےاطراف کے ماحول میں زندہ رہنےکےلیےاپنی ہیئت کو تبدیل کرتے رہتے ہیں۔

 اسی نظریہ کے حاملین اس کےاندرامتداد پیدا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان بن مانس  یا بندرکی نسل سےتھاجو اپنےماحول کی وجہ سے تبدیل ہوکر موجودہ شکل وشباہت کاہوگیا،جوکہ لاکھوں برس کےارتقاءاور انتخاب طبعی   Selection  Natural  کاماحصل ہے۔ چمپینزی جیسےچو پائےسے دو پیروں پر انسان اس لیے کھڑاہوگیاکہ اُس زمانے میں اوراُس وقت کے ماحول کے مطابق اُس کی بقاء کے لیےیہ ضروری تھا۔ ایک عام آدمی کی سماعت کو یہ نظریہ بڑا دلچسپ اور بھلا لگتاہے، یہی وجہ ہےکہ اس پر سینکڑوں کہانیاں اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں،اور اسی سے متعدد فلمیں ، فیچرس اور افسانےجنم لےچکے ہیں۔جبکہ  ایک صحیح العقیدہ مسلمان کاایمان اس کےقطعی برعکس ہے،جو ایک لاانکار حقیقت ہے ۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو بالکل اسی حلیےمیں بنایاہےجس میں وہ آج موجودہے،جس کی صراحت خودباری تعالی نےکیاہے:( لَقَدْخَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ) (یقینا ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیداکیاہے)  (سورۃ التین/4) ۔ اسی طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی متفق علیہ روایت اوراس معنی کی دیگر روایتوں میں وضاحت کی گئی ہے کہ  اللہ تعالی نےآدم علیہ السلام کواپنی صورت پر پیداکیاہے:" خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ ۔۔۔"(صحیح البخاری /6227 ، صحیح مسلم/2841)۔ جیساکہ سلف کے یہاں اس روایت کامعنی معروف ہے ۔

 اس موضوع پرگفتگوایک لمبی بحث کی متقاضی ہے۔

 کہاجاتاہےکہ اس سےقبل یہ  نظریہ قدیم یونان میں موجودتھا ۔ فتوحات اسلامیہ کےبعدیونانی کتب کاعربی میں ترجمہ کرکےاس تصورکو عرب میں عام کیاگیا، جسے بعض علماءعرب نے اختیارکیا، ان میں جاحظ، زکریا القزوینی، ابن خلدون، ابن مسکویه اوراخوان الصفا خاص طورسےلیاجاتاہے۔ (تفصیل کےلئےدیکھئے:اردو انسائیکلوپیڈیا "ارتقائیت" کے زیرعنوان)۔

اورابوالعلاءمعری نےاپنے شعر(والذي حارت البرية فيه……حيوان مستحدث من جماد) کے ذریعہ اسی نظریہ کی صراحت کی ہے ۔(دیکھئے: خاطرات جمال الدين الأفغانی :6/155 ط : مکتبۃ الشروق الدولیہ 1423ھ)۔ حالانکہ بعض کے نزدیک ابوالعلاءکےاس شعر میں یہ نظریہ لائق اعتناء اس لئےنہیں ہےکہ اولا اس شعر کی حیثیت ایک پہیلی کی ہے،اوراس کےاندرکسی خاص نظریہ کی صراحت نہیں کی گئی ہے۔

ابوالعلاءکے اس شعرکو ڈارون کے نظریہ ارتقاءپر منطبق کرنااس لئےبھی صحیح نہیں ہےکہ اس کا مصداق - جیساکہ پہلے ذکرکیاگیا - انسان کا مٹی سے یاذی حیات کاپانی (منی) سے پیدا ہونابھی ٹھہرتاہے۔

یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی سےخالی نہیں کہ ارتقائی نظریات کےحاملین کےلئے   ابوالعلاءکےمذکورہ شعرکے علاوہ اس سےمشابہ کچھ اوراشعاربھی ہیں، جن سےان کو دلیل فراہم ہوسکتی ہے ، جیسے :

-  اس کا نظریہ ہےکہ حیوان کےاندربقاء کی جدوجہداور چاہت جبلی ہے، اس لئےجب اسےکسی ڈراونےاورخوفناک چیزسے واسطہ پڑتاہے،تو فطرتا اس سےخوف کھانے لگتاہے :

أَرى حَيوانَ الأَرضِ يَرهَبُ حَتفَهُ        وَيُفزِعُهُ رَعدٌ وَ يُطمِعُهُ  بَرقُ

(میں روئےزمین کےجانورکو دیکھتاہوں کہ وہ موت سے خوفزدہ رہتاہے ،بدلی کی کڑک اسےڈراتی ہےاوربجلی کی چمک اس کے اندرامیداورلالچ پیداکرتی ہے)۔

- وہ مانتاہےکہ جانوروں کو مضبوط اعضاءاور قوی ساخت و بناوٹ سےاس لئے مسلح کیاگیاہےکہ ان کے اندرجدوجہد کا ملکہ پیداہو اور کامیابی وکامرانی کی چاہت کےساتھ زندگی کی دوڑمیں آگے بڑھ سکیں:

وَما جُعِلَت لِأُسودِ العَرينِ          أَظافيرُ إِلّا اِبتِغاءَ الظَفَر

(غاروں میں رہنےوالےشیروں کےناخن صرف اس لئے بنائےگئے ہیں کہ ان کےاندر کامیابی اورفتح وکامرانی کی چاہت ہو)۔

- اوربقاء کی جنگ اورزندگی کی دوڑمیں ایک دوسرے سے تنازع اور تنافس سےمتعلق کہتاہے:

  وَلا يُرى حَيوانٌ لا يَكونُ لَهُ               فَوقَ البَسيطَةِ أَعداءٌ وَحُسّادُ

(کوئی ایسا حیوان نظرنہیں آتا کہ روئے زمین پراس کےدشمن اوراس سے حسدکرنے والےنہ ہوں ) ۔

ان کے علاوہ بھی مزید اشعارہیں جنہیں طوالت کے خوف سےذکرنہیں کیاجارہاہے۔

      بہرحال نظریہ ارتقاءایک  غیرشرعی، ملحدانہ اور غیرمنطقی نظریہ ہے،ہرچیز  کی تخلیق باری تعالی کی طرف ویسے ہی کی گئی ہے جیسی ان کی موجودہ ہیئت وماہیت ہے،البتہ تہذیبی اور سائنسی ارتقاءنےبدلتےوقت کےساتھ تعیش وتمدن کے طرزکوخاصامتاثرکیاہے۔ خاص طورسےانسان سے متعلق اس نظریہ کےبطلان پر دلائل شرعیہ کےاندر وافرمقدارمیں مواد موجودہے، جس پرعلماءامت نے بہت کچھ لکھاہے ۔ اللہ رب العزت ہی صحیح راستےکی ہدایت دینے والاہے ۔

 

*********

کوئی تبصرے نہیں: