اتوار، 19 فروری، 2023

یادوں کے جھروکوں سے

 

یادوں کے جھروکوں سے                                                                            (استادمحترم ماسٹراحمدحسین رحمہ اللہ  کی یادمیں)


                                                           کوئی ماضی کے جھروکوں سے صدا دیتا ہے   

                 سرد پڑتےہوئے شعلوں کوہوا دیتاہے۔

کسی بچھڑےہوئےکھوئےہوئےہم دم کاخیال

    کتنےسوئے ہوئے جذبوں کوجگادیتاہے۔ (احمدراہی)

کسی بھی  شاگرد کےلئے اپنے استادکی وفات کی خبر بہت ہی تکلیف دہ ہوتی ہے ، وجہ یہ ہے کہ اس کی زندگی سنوارنے میں اس کا  کچھ نہ کچھ حصہ   ضرور ہوتاہے ،وہ حصہ ایک پل کا ہی کیوں نہ ہو ۔ ہماری زندگی میں اساتذہ کی جو اہمیت ہوتی ہے  اس کا انکار کوئی کم ظرف ہی کرسکتاہے ،تعلیم کے بعد آپ جتنے بڑے عہدے پر فائزہوجائیں  ،استاد سے بڑا کبھی نہیں بن سکتے ، ایک وقت ایسا ضرور آتاہے جب  یہ احساس دل کے کسی  کونے میں ضرور ابھرتاہے کہ ہمارے گزرے ہوئے ایام میں فلاں استادنے ہمارے اوپر علمی وتعلیمی حکومت کی ہے ، وہ حکومت ابجد وھوّج کےذریعہ ہی کیوں نہ ہو ۔

 ہمارے نہایت ہی محترم استاد ماسٹراحمد حسین رحمہ اللہ   کی پہلے بیماری اور پھر وفات کی خبر  سوشل گروپس  کے ذریعہ ملی جو دل کوجھنجھوڑگئی ۔

جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد کثرت مشاغل، مسلسل ملک سے باہر رہنے  اور دنیا کی  بھاگ دوڑمیں مشغول رہنے کی وجہ سے اپنے بہت سارے اساتذہ سے رابطہ منقطع رہا ، ایسا نہیں ہے کہ ان کی یادیں دل سے مٹ گئیں ہوں ،اپنے ہر استاد کی کوئی نہ کو‏ئی ادا وقتا فوقتا یادوں کے جھروکوں سے نکل کر زبان پر دعاء کا سبب  بن ہی جاتی ہے ،انہیں اساتذہ میں ہمارے محترم ومکرم استاد ماسٹر احمد حسین صاحب ہیں ،تعلیمی  دور میں ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے،وہ نہایت ہی متواضع اور دیندار تو تھے ہی  ان کی تدریس کا نرالہ انداز سب کو لبھاتاتھا ، اور سب سے بڑھ کر ان کا حسن  اخلاق ہر طالب پر اپنا گہرا اثر چھوڑتاتھا ،  اور کسی کا  توپتانہیں لیکن میں ان کے اخلاق حسنہ سے کافی متاثر رہاہوں ۔ یوں تو ان کے بہترین تعامل کے بہت سارے واقعات ہیں  لیکن  ان سے متعلق دوواقعات میں کبھی نہیں بھولتا ،جب بھی اساتذہ کی یاد آتی  ہےخاص طورسے یہ دو  معاملے میرے ذہن میں ضرور ابھرتےہیں ۔

پہلا معاملہ سلام میں پہل کا ہے ، چھوٹے بڑے ہرطالب علم کو سلام  کرنا ماسٹر صاحب رحمہ اللہ کا امتیازاوراختصاص رہاہےاور وہ بھی ہمیشہ اس میں پہل کرنے میں ، ہم طلبہ اکثر اس معاملے کو موضوع بحث بناتے اور کوشش کرتےکہ ایسا موقع ملے کہ ہم  ان سے سلام  کرنے میں سبقت لےجائیں لیکن  جب ہمیں لگتاکہ وہ قریب آچکے ہیں اور ان سے سبقت کرنے کا بہترین موقع ہےاب  ہمیں سلام کردینا چاہئے کہ وہ  سبقت لےجاچکےہوتے اور ہمارےلئے سوائے وعلیکم السلام کہنے کے کوئی چارہ نہیں بچتا۔تغمدہ اللہ برحمتہ الواسعۃ۔

اور دوسرا معاملہ میری  اپنی ذات سے متعلق ہے غالبا اس وقت میں ثانویہ کے کسی درجےمیں تھا ،جامعہ کےبازومیں معروف ھاسپٹل  کوڑیا میں میری  ناک کی سرجری ہوئی تھی اور ڈاکٹرنےکچھ دنو ں تک ہسپتال میں رہنے کا مشورہ دیا تھا ، ایک دن اچانک  میری عیادت کےلئے ماسٹرصاحب میرے روم میں اپنے بعض رفقاءکے ساتھ داخل ہوئے،اچانک انہیں دیکھ کرخوشگوارتعجب کا احساس ہوا ، جب احساس ہو کہ آپ کا کوئی بڑا آپ سے اس قدر ہمدردی اورپیارکا اظہار کررہاہے تو اس کی لذت وہی محسوس کرسکتاہے جو اس حالت سے گزراہو ، ماسٹرصاحب نے عیادت اوردعاؤں سےتو نوازا ہی اس بات پر شاکی بھی تھے کہ ہم نے  ان کو پہلے خبرکیوں نہ کی ۔

اللہ رب العزت استاد محترم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ،ان کی قبرکونور سےبھردے، اور جانے انجانے سرزدہوئے تمام خطاؤں سے درگزرفرمائے اور ان کے تمام شاگردان اور اہل خانہ کو صبرجمیل عطافرمائے۔

آپ کا ایک ادنی شاگرد  عبدالعلیم بن عبد الحفیظ سلفی (سعودی عرب)

کوئی تبصرے نہیں: