جمعرات، 10 مئی، 2018

سواری پرنمازپڑھنےکامسئلہ

       اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سےبالصراحت اس کاثبوت ملتاہےکہ آپ سواری پرنفل نمازیں پڑھاکرتےتھے، اورجب فرض پڑھناہوتا توسواری سےاتر کراداکرتے، اس باب میں الفاظ میں تھوڑی تبدیلی کےساتھ متعدد روایتیں  واردہیں  ، جومندرجہ ذیل ہے: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في السفر على راحلته حيث توجهت به، يؤمي إيماءً صلاة الليل إلا الفرائض، ويوتر على راحلته" [1]  "اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سفرمیں سواری پر نمازیں پڑھتےتھے، چاہےسواری کارخ جدھربھی ہوجائے،اوراشارہ کرتےتھے،سوائےفرائض کے(فرائض آپ سواری سےاترکرپڑھتےتھے)اورسواری  پروتربھی پڑھتے تھے"۔
دورحاضرمیں جب کہ  وسائل حمل ونقل   عام آدمی کےاختیارسےباہرکی چیزہے ، کیونکہ ان کے چلنےاوررکنے کے اوقات کی تعیین حکومتوں یاذمہ دارکمپنیوں کےہاتھوں میں  ہے ، اوربسااوقات آدمی  کاسفرلگاتارکئی گھنٹوں بلکہ کئی دنوں پرمحیط ہوتاہے ، ایسی صورت میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ان سواریوں خصوصا ہوائی جہاز اورریل پرفرض نمازیں اداکی جاسکتی ہیں ؟  ۔
اس سلسلےمیں واضح نص موجودتونہیں ہے ، لیکن  کشتی پرقیاس کرتےہوئےکہاجاسکتاہے کہ ان سواریوں پرفرض نمازیں اداکی جاسکتی ہیں ، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ : اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم  سےکشتی پرنمازپڑھنے کےبارے میں پوچھاگياتوآپ نےفرمایا: "صلّ فيها قائماً إلا أن تخاف الغرق" [2]  "کھڑے ہوکرنمازپڑھ سکتےہوالایہ کہ غرق ہونےکاڈرہو"  ۔
امام عطاء ، قتادہ ، ابراہیم ، مجاہد، اورابوالدرداء وغیرہ کےاقوال امام عبدالرزاق نےنقل کیاہے کہ کشتی میں نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں ، اگرکھڑےہوکرممکن ہےتوٹھیک ہے،ورنہ بیٹھ کراشارےسےپڑھ سکتےہیں   [3] ۔
علامہ ابن بازرحمہ اللہ ایک استفتاءکےجواب میں فرماتےہیں: "ایک مسلمان کےاوپر جب جہازمیں نمازکاوقت ہو جائےتوحسب استطاعت اسےاداکرناضروری ہے ، اگر کھڑےہوکر رکوع  اورسجدہ کرکےپڑھ سکتاہے توپڑھےگا ورنہ بیٹھ کراشارہ سے پڑھےگا۔ اگرہوائی جہازمیں کوئی ایسی جگہ ہے  جہاں   اشارےکےبجائے کھڑے ہوکر زمین پر رکوع اورسجدہ کرکے نماز اداکر سکتاہےتویہ اس کےاوپرواجب ہے کیونکہ اللہ تعالی کافرمان ہے:(فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ)[التغابن: 16] (حسب طاقت اللہ سے ڈرو) اورا س کےلیےافضل یہ ہےکہ نمازاول وقت میں پڑھ لے اوراگراسے مؤخر کرکےآخری وقت میں زمین پر پڑھناچاہتاہے تو  عام دلائل کی بنیاد پراس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔  اورکار،ریل اورکشتی کاحکم بھی جہازکی طرح ہے  [4]




 [1]  البخاري : كتاب الصلاة /31 باب التوجہ نحوالقبلۃ حيث كان (1/503) وكتاب الوتر/6 باب الوترفي السفر(2/489) و كتاب تقصيرالصلاة/7 باب صلاة التطوع على الدواب وحيثماتوجهت بہ (2/573) و/8 باب الإيماءعلى الدابۃ (2/574) و/9 باب ينزل للمكتوبۃ (2/574) و/10 باب صلاة التطوع على الحمار(2/576) و/12 باب من تطوع في السفر غيردبرالصلاة وقبلها(2/578) وكتاب المغازي /33 باب غزوة أنمار(7/429) مسلم : كتاب صلاة المسافرين /4 باب جوازصلاة النافلۃعلى الدابۃ في السفر حيث توجهت (1/486) أبوداؤد: كتاب الصلاة/277 باب التطوع على الراحلۃ والوتر (2/20) الترمذي : أبواب الصلاة /144 باب الصلاة على الدابۃحيثماتوجهت بہ(2/182) و/228 باب ماجاءفي الوترعلى الراحلۃ(2/335) النسائي: كتاب الصلاة/23 باب الحالۃالتي يجوزفيهااستقبال غيرالقبلۃ(1/243)  وكتاب القبلۃ/2 باب الحال التي يجوزعليهااستقبال غيرالقبلۃ(2/61) وكتاب قيام الليل وتطوع النهار/33 باب الوترعلى الراحلۃ(3/232)  ابن ماجۃ: كتاب إقامۃالصلاة والسنۃفيها/127 باب ماجاء في الوترعلى الراحلۃ (1/379)  الدارمي(1/311) الدارقطني(1/395) البيهقي(2/5)
 [2]   المستدرك للحاكم (1/275) امام حاکم نےاس حدیث کوصحیح الاسنادکہاہے ، اورامام ذہبی نےان کی تائیدکی ہے ۔
[3]    المصنف لعبدالرزاق ( 2/581 -583 )
[4]  تحفۃ الإخوان ( ص 84) باختصار ۔

کوئی تبصرے نہیں: