پیر، 7 مئی، 2018

مسافرکےلیےتیمم کامسئلہ


          گذشتہ صفحات میں یہ بات گزرچکی ہے کہ اسلام میں تمام احکام وامور کے اندرانسانی وسعت وطاقت کاہرممکن لحاظ کیاگیاہے ، اورہرموڑپرآسانی   اوررخصت فراہم کی گئی ہے  ،انہیں احکام میں سےایک تیمم ہے  ، کیوں  کہ بسااوقات آدمی اس جگہ سےگزرتاہے جہاں پانی میسّرنہیں ہوتا، یا اس حالت میں ہوتاہے جب پانی کااستعمال اس کےلیےنقصان  دہ ہوتاہے، جبکہ طہارت اس کےلیےازحدضروری ہوتی ہے،  یہ طہارت جنابت کےبعدہویا قضائے حاجت کےبعد ، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے  : (وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاء أَحَدٌ مَّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاء فَلَمْ تَجِدُواْ مَاء فَتَيَمَّمُواْ صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ مَا يُرِيدُ اللّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَـكِن يُرِيدُ لِيُطَهَّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ)[المائدة:6] (اگر تم بیمارہوجاؤ،یاسفر میں ہو،یاتم میں کوئی قضائےحاجت  سےفارغ ہو،یاعورتوں سےجماع کرلےاورپانی نہ پائےتوپاک مٹی سےتیمم کرلواوراسے اپنےچہروں اورہاتھوں پرمل لو، اللہ تعالی تم پرکسی قسم کی تنگی ڈ النانہیں چاہتا بلکہ اس کاارادہ تمہیں پاک کرنےاورتمہیں بھرپورنعمت دینےکاہے،تاکہ تم شکراداکرتے رہو)۔
دوران سفرتیمم سےمتعلق واردروایات میں سے  چندحسب ذیل ہیں   :
1 - عمران بن حصین رضی اللہ عنہ  سےمروی ہے ، وہ فرماتےہیں: ’’كنا في سفر مع النبي صلى الله عليه وسلم فصلى بالناس، فلما انفتل من صلاته إذا هو برجل معتزل لم يصل مع القوم، فقال: ‘ ’’مامنعك  يا فلان أن تصلي مع القوم؟‘‘ قال: أصابتني جنابة ولاماء، قال: ’’عليك بالصعيد فإنه يكفيك‘‘ [1] "ہم لوگ ایک بارایک سفرمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ تھے، آپ نےلوگوں کونمازپڑھائی جب نمازسےفارغ ہوئےتو ایک آدمی کوالگ دیکھاجس نےلوگوں کےساتھ نمازادانہیں کی تھی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےپوچھا : "تم نےلوگوں کےساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟" اس نےجواب دیا : میں جنبی ہوں اورپانی نہیں ہے ، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:  "مٹی استعمال کرو، یہ تمہارےلیےکافی ہے " (یعنی ایسی حالت میں مٹی سے تیمم کرلیناتمہارے لیےکافی ہے ) ۔
2 – ابوذررضی اللہ عنہ  سےمروی ہےکہ اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :"إن الصعيد الطيّب وضوء المسلم إن لم يجد الماء عشر سنين، فإذا وجد الماء فليمسه بشرته فإن ذلك خير[2]  (پاک مٹی مسلمانوں کاوضوء ہے گرچہ  دسیوں برس پانی نہ ملے اورجب پانی مل جائےتو اس سےوضویا غسل کرلے کیوں کہ یہ خیرہے )۔
3 – ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ  سےمروی ہے، وہ فرماتےہیں : ’’خرج رجلان في سفر فحضرت الصلاة وليس معهما ماء فتيمما صعيداً طيّباً، فصليا، ثم وجدا الماء في الوقت، فأعاد أحدهما الصلاة بوضوء ولم يعد الآخر، ثم أتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرا ذلك، فقال للذي لم يعد: ’’أصبت السنة، أجزأتك صلاتك‘‘ وقال للذي توضأوأعاد:’’لك الأجر مرتين‘‘ [3]  "دوآدمی  ایک سفرمیں نکلے، نمازکاوقت ہوااوردونوں کےپاس پانی نہیں تھا، ان دونوں نے پاک مٹی سےتیمم کرکےنماز اداکرلیا ،پھروقت رہتےدونوں کوپانی مل گیا ، ان میں سےایک نےوضوء کرکےدوبارہ نماز پڑھ لی اوردوسرےنےنہیں پڑھی، پھردونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس آئےاوراس کاتذکرہ کیا، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس سےجس نےنماز نہیں لوٹائی تھی فرمایا: "تم نےسنت کےمطابق عمل کیا اورتمہاری نمازکافی ہوگئی" اور وضوء کرکے دوبارہ نمازاداکرنے والے سے فرمایا: "تیرے  لیے دوہراثواب ہے "۔



 [1]  البخاري : كتاب التيمم /9 باب ...... (1/457) النسائي   : كتاب الطهارة/202 باب التيمم بالصعيد (1/171)
 [2]  أبوداؤد: كتاب الطهارة/125 باب الجنب يتيمم (1/237) الترمذي: كتاب الطهارة /92 باب ماجاء في التيمم للجنب إذالم يجدالماء(1/212) النسائي : كتاب الطهارة /203 باب الصلاة بتيمم واحد(1/171) أحمد(5/146 ,155,1  , 180) البيهقي في الكبرى ( 1/212 , 220) علامہ البانی =   = نےاس حدیث کی تصحیح کی ہے دیکھئے : ارواء الغلیل/ رقم 153(1/181) صحیح سنن الترمذی /رقم 107(139) وصحیح سنن ابی داؤد/ رقم 322 (1/67)
[3]   أبوداؤد: كتاب الطهارة/127 باب في المجروح يتيمم(1241) النسائي : كتاب التيمم /27 باب التيمم لمن  يجدالماء بعد الصلاة (1/213) الدارمي (1/155) علامہ البانی نےاس حدیث کی تصحیح کی ہے دیکھئے : ارواء الغلیل/رقم 153(1/181) صحیح سنن النسائی /رقم 420 (1/92)  وصحیح سنن ابی داؤد / رقم 327 (1/69)

کوئی تبصرے نہیں: